والدین کا احترام
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”آخر بات کیا ہے، تم جب سے میرے گھر آئے ہو، چپ بیٹھے ہو۔“سعید نے سہیل سے پوچھا۔
”ہاں، ایک بات ہے لیکن، تم جان کر کیا کرو گے، تم میری مدد نہیں کر سکتے۔“
سہیل نے بیزار اور خشک لہجے میں کہا۔
”پھر بھی، مجھے بتاؤ، شاید میں کوئی اچھا مشورہ دے سکوں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مشورہ کرنے والا کبھی پشیمان نہیں ہوتا۔“
”میں اس وقت کوئی بات نہیں کرنا چاہتا۔ مہربانی کر کے مجھ سے سوال نہ کرو۔“ سہیل نے منہ پھلا کر جواب دیا۔ اسی وقت سعید کی امی کمرے میں داخل ہوئیں۔ انھیں دیکھ کر سہیل نے کھڑے ہو کر سلام کیا۔
”السلام علیکم خالہ جان۔“
”وعلیکم السلام، سہیل بیٹے تم کب آئے، اور یہ تمہاری صورت کیسی ہو رہی ہے۔ کسی سے جھگڑا ہو گیا؟“ سعید کی امی نے حیرانی سے پوچھا۔
”جی نہیں!“
”اسکول میں استاد نے سزا دی ہے؟“
”جی نہیں!“
”کوئی چیز کھو گئی؟“
”جی نہیں!“
ہر بات کے جواب میں جی نہیں، کہے جا رہے ہو، بتاتے کیوں نہیں کہ ہوا کیا ہے؟“ سعید کی امی نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
”کچھ نہیں خالہ جان، بس امی اور ابو پر غصہ آ رہا ہے۔“ سہیل نے سرجھکاکر کہا۔
”سبحان اللہ، ماں باپ پر غصہ،کیا انہوں نے تم سے کسی غلط کام کے لیے کہا؟“
”جی، جی نہیں!“
”کیا انہوں نے بلاوجہ مارا پیٹا؟“
”نہیں تو!“
”پھر کیوں غصہ آ رہا ہے؟“
”وہ بات بات پر مجھے ڈانٹتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں، میں۔۔۔“
”ہاں ہاں، بولو، رک کیوں گئے؟“
”وہ چاہتے ہیں۔۔۔ میں پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت سے ادا کروں، اور دل لگا کر پڑھوں اور۔۔۔ ہر وقت کھیلنے میں نہ لگا رہوں۔“
”ان میں سے کوئی بات انہوں نے غلط کہی؟“
”غلط تو نہیں لیکن خالہ جان، ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ بھی تو اچھی نہیں لگتی۔“سہیل نے منہ پھلا کر کہا۔
”ہو سکتا ہے، ان کا لہجہ سخت ہو، لیکن وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، تمہاری محبت میں کہہ رہے ہیں، تا کہ اللہ تم سے ہمیشہ خوش رہے، تم پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنو اور سارا وقت کھیل کود میں نہ لگا دو۔“
”ہاں۔۔۔ یہ تو ہے۔“
”مجھے محسوس ہوتا ہے کہ تمہیں ماں باپ کے مرتبہ کا علم ہی نہیں ہے۔“
”مرتبہ؟“
”ہاں، اللہ نے ماں باپ کو بہت بڑا درجہ عطا فرمایا ہے اور ہمیں سختی سے حکم دیا ہے کہ ماں باپ کا بہت زیادہ ادب کریں اور ان کا بہت خیال رکھنے کی ہدایت دی ہے۔“
”اچھا؟“
”جی ہاں، قرآن مجید اور احادیث نبوی میں، والدین سے اچھے سلوک کا حکم بار بار آیا ہے۔ ٹھہرو میں تمہیں ایک قرآنی آیت کا ترجمہ سناتی ہوں۔“ سعید کی امی نے الماری سے قرآن مجید نکالا اور اسے کھول کر پڑھنے لگیں:
”دیکھو، یہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیات تئیس اور چوبیس ہیں۔ ان کاترجمہ ہے:
”والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں کوئی ایک یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ، پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے رحمت اور شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔“
سہیل نے متاثر ہو کر کہا:
”خالہ جان، یہ تو میں سمجھ گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ سے نیک سلوک کرنے اور ان کا ادب کرنے کا حکم دیا ہے، لیکن اگر ماں باپ، اپنے بچوں کے ساتھ سخت سلوک کر رہے ہوں، تب کیا کرنا ہو گا؟“
”میں تمہیں رسول اللہ کی ایک حدیث سناتی ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اللہ کے ان احکام میں اللہ کی اطاعت کرتا رہا، جو اللہ نے ماں باپ کے حق میں نازل فرمائے ہیں تو اس شخص نے ایسے حال میں صبح کی کہ اس کے لیے جنت کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں اور اگر اس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک موجود ہے تو جنت کا ایک دروازہ کھلا ہوا ہے، اور جس شخص نے اس حال میں صبح کی کہ وہ ماں باپ کے بارے میں اللہ کے احکام سے منہ موڑے ہوئے ہے تو اُس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کے لیے دوزخ کے دو دروازے کھلے ہوئے ہیں اور اگر اس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک ہے تو دوزخ کا ایک دروازہ کھلا ہوا ہے۔ اس پر ایک صحابی نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول، اگر ماں باپ اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہوں تب بھی؟ آپ نے تین بار فرمایا: ہاں، اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی، اگر زیادتی کر رہے ہوں تب بھی، اگر زیادتی کر رہے ہوں، تب بھی۔“ (مشکوۃ)
سہیل نے سر جھکا لیا اور سعید کی امی کہنے لگیں:
”بیٹے، یہ تو سوچو، ماں باپ نے تمہارے لیے کتنی تکلیفیں اٹھا ئیں، تم چھوٹے سے تھے، تمہیں پالا پوسا، تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھا، سردی، گرمی سے بچایا، غذا وقت پر دی، بیمار ہوئے تو علاج کے لیے دوڑے، پھر تم ذرا بڑے ہوئے تو تعلیم دلوانے کے لیے اسکول میں داخل کروایا، اب وہ چاہتے ہیں کہ تمہیں دنیا ہی نہیں آخرت میں بھی کامیابیاں حاصل ہوں، یہ تو ان کی تم سے بے پناہ محبت ہے۔ اس پر تو تمہیں ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ان سے محبت کرنی چاہیے، ان کا ادب اور ان کی خدمت کرنی چاہیے اور ان کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔“
”مگر۔۔۔ خالہ جان، اتنی زیادہ ڈانٹ۔۔۔“ سہیل ابھی تک اپنی بات پر ڈٹا ہوا تھا۔
”بیٹے، ڈانٹنا تو ماں باپ کا حق ہے۔ وہ تو تمہیں مار بھی سکتے ہیں۔ اگر وہ کوئی زیادتی بھی کر دیں تب بھی ان کا درجہ بہت بڑا ہے۔ ان کا ادب پھر بھی کرنا ہو گا۔ ایک شخص نے آپؐ سے پوچھا: ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ آپ ؐنے فرمایا: ماں باپ ہی تمہاری جنت ہیں اور ماں باپ ہی دوزخ۔ (ابن ماجہ)۔ یعنی ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر کے جنت ملے گی اور ان سے بدسلوکی کر کے دوزخ میں جانا پڑے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے: اللہ کی رضا، والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی، والد کی ناراضگی میں ہے۔“ (ترندی)
”خالہ جان، آپ کی باتیں سن کر میں سخت شرمندگی محسوس کر رہا ہوں کہ اب تک میں اپنی امی اور ابو کی نافرمانی کرتا رہا اور اُن سے بے ادبی سے بات کرتارہا۔“ سہیل نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
”بیٹے، اب تمہیں احساس ہو گیا ہے، یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے۔ تم دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور والدین کا ادب کرنے، ان کا فرماں بردار رہنے کی توفیق طلب کرو۔ ان شاء اللہ تم بہت اچھے بن جاؤ گے اور اللہ تمہیں معاف فرما دے گا۔۔۔ ارے میں تو بھول ہی گئی، تم نے چائے پی؟ ٹھہرو میں ابھی بنا دیتی ہوں۔ سعید! اپنے دوست کو باورچی خانے سے پھل اور بسکٹ لا کر کھلاؤ۔“
”میں ابھی لاتا ہوں امی۔“ سعید نے سعادت مندی سے کہا۔
چائے پینے کے بعد سہیل، سلام کر کے رخصت ہو گیا۔ دو روز بعد، سہیل کی امی، سعید کے گھر آئیں۔ سعید کی امی سے کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد کہنے لگیں:
”اے بہن، تم نے سہیل پر کیا جادو کر دیا ہے۔ دو دن پہلے تمہارے گھر سے کیا آیا، لگتا ہی نہیں کہ وہی سہیل ہے جو مجھ سے اور اپنے ابو سے ہر وقت بدتمیزی کرتا رہتا تھا۔ اب تو ماشاء اللہ اتنا تمیز دار، فرماں بردار اور باادب ہو گیا ہے کہ اس کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔“ سعید کی امی مسکرائیں اور کہنے لگیں:
”جب آپ سہیل کے لیے دعا کریں تو ممکن ہو تو میرے لیے بھی دعا کر لیا کریں۔“
سہیل کی امی فوراً بولیں:
”لو بہن، تمہارے لیے تو میں روزانہ الگ سے دعا کرتی ہوں۔ اللہ تمہیں بہت بڑا اجر عطا فرمائے۔“
سعید کی امی نے جواب میں کہا: ”آمین!“