skip to Main Content

سلام کے آداب

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی۔
”بیٹے سعید، دیکھیے دروازے پر کون ہے؟“ امی نے رات کے کھانے کے لیے سبزی کاٹتے ہوئے پکار کر کہا۔
”بہت اچھا امی، ابھی دیکھتا ہوں۔“ سعید نے اپنا قلم بند کر کے میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔ وہ اس وقت اپنے اسکول سے ملنے والا کام مکمل کر رہا تھا۔ اس نے جاکر بیرونی دروازہ کھولا۔ باہر اس کا خالہ زاد بھائی عبد السلام کھڑا ہوا تھا، جس نے سعید کو دیکھتے ہی زور سے کہا، جیسے نعرہ لگاتے ہیں:
”ہیلو سعید، کیا حال ہے؟ میں ابھی ابھی شہر سے آنے والی بس سے اترا ہوں۔ آنٹی کیسی ہیں؟“
سعید نے مسکراتے ہوئے کہا:
”السلام علیکم، میں الحمد للہ بالکل ٹھیک ہوں، امی اور سب گھر والے خیریت سے ہیں، تم اندر تو آؤ، نہا دھولو، پھر باتیں کر لینا۔“ ”ہاں، یہ ٹھیک ہے۔“ عبد السلام نے جلدی سے کہا، پھر وہ سعید کے ساتھ سامان اٹھا کر گھر کے اندر چلا آیا۔ سعید کی امی کو دیکھتے ہی وہ زور سے بولا:
”ارے آنٹی آپ کیسی ہیں؟“
”و علیکم السلام بیٹے، میں اللہ کے فضل سے ٹھیک ہوں۔ آپ کے ہاں سب لوگ خیریت سے ہیں؟“
”جی ہاں، سب ٹھیک ہیں۔“
تھوڑی دیر بعد عبد السلام غسل کر کے دوسرا آرام دہ لباس پہنے، سعید کے ساتھ بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اسی وقت سعید کی امی کمرے میں آگئیں۔ سعید نے انھیں دیکھ کر سلام کیا اور عبدالسلام نے کہا:
”آئیے آنٹی، چائے بیجئے۔“
سعید کی امی نے سعید کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا:
”شکریہ بیٹے، میں پی چکی ہوں۔ آپ سے ایک بات کہنا تھی اور ایک بات پوچھنا تھی۔“
”فرمائیے۔“
”بیٹے، آپ شہر جا کر اردو بولنا بھول گئے ہیں شاید۔ پہلے آپ مجھے خالہ جان کہتے تھے، اب آپ نے آنٹی کہہ کر میری ترقی کر دی ہے؟ یہ بتائیے کہ آپ اپنی پھوپھی،ممانی اور چچی اور تائی کو کیا کہتے ہیں؟“
”انہیں بھی آنٹی کہتا ہوں۔“ عبدالسلام نے ذرا شرما کر کہا۔
”یہ تو انگریزوں کی نقل کرنا ہوا۔ جب ہمارے پاس اتنے اچھے اور محترم الفاظ موجود ہیں تو ہم آنٹی اور انکل کیوں کہیں؟“
”بالکل ٹھیک ہے آں۔۔۔معاف کیجیے خالہ جان۔!“ عبدالسلام نے شرمندہ ہو کر کہا۔
”اچھا یہ بتاؤ، آپ کے نام کا مطلب کیا ہے؟“ سعید کی امی نے پوچھا۔
”مطلب؟۔۔۔ ہاں کیوں نہیں، عبد السلام۔۔۔ ایسا ہی ہے جیسے عبدالرزاق، عبدالستار، عبد الحق۔۔۔۔“
”یہ میرے سوال کا جواب تو نہ ہوا، خیر میں بتاتی ہوں۔ رزاق، ستار، حق اور سلام، یہ سب اللہ تعالیٰ کے پاک نام ہیں، جن میں اللہ کی کوئی نہ کوئی صفت بیان کی گئی ہے۔ ان ناموں کے ساتھ ”عبد“ لگانے کا مطلب ہے، اللہ کا بندہ۔’عبد‘ کے معنی ہیں ’بندہ‘ اور عبد الرزاق کا مطلب ہوا: رزاق کا بندہ، اس طرح عبدالستار، عبدالحق اور عبد السلام بنائے گئے۔ اس سے کیا معلوم ہوا؟“
”یہی کہ عبد السلام کا مطلب ہے، اللہ کا بندہ۔“ عبد السلام نے سوچ کرجواب دیا۔
”بالکل ٹھیک ہے، لیکن آپ نے ایک بات پر غور نہیں کیا کہ ’سلام‘اللہ کے ناموں میں سے ایک ہے۔ ہم لوگ اسی کو بھول گئے ہیں۔“
”یعنی اللہ کو بھول گئے ہیں؟“ عبد السلام نے پوچھا۔
”ہاں بیٹے، جب ہم آپس میں سلام کرنے کی بجائے ہیلو، ہائے، کرنے لگے تو ہم اللہ کو بھول گئے ہیں؟“
”خالہ جان،شہر میں رہ کر ذرا عادت پڑ گئی ہے۔“ عبدالسلام نے سر جھکا کرجواب دیا۔
”مسلمان کہیں بھی رہے، اسے اپنے دین کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔اب دیکھو اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اپنا نام عطا فرمایا اورہدایت دی کہ جب تم آپس میں ملوتو ایک دوسرے کو سلام کرو۔ پھر اس کا اجر بھی دینے کا وعدہ فرمایا۔“
”سلام کرنے سے ثواب ملتا ہے؟“ عبد السلام نے حیرت سے پوچھا۔
”بالکل، بلکہ آپ مکمل سلام کریں گے تو آپ کو زیادہ ثواب ملے گا۔“
”وہ کیسے؟“
”بیٹے سعید آپ بتائیے۔“ امی نے سعید سے کہا، جو، اب تک خاموش بیٹھا سن رہا تھا۔ سعید نے کہنا شروع کیا:
”ایک بار پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے۔ ایک شخص آیا۔ اس نے کہا: السلام علیکم۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: دس! یعنی دس نیکیاں ملیں۔ پھر ایک اور شخص آیا، اس نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: بیس! یعنی بیس نیکیاں ملیں۔ اس کے بعد ایک اور شخص آیا، اس نے کہا: السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:تیس! یعنی اس کو تیس نیکیاں ملیں۔“
”شاباش۔ یہ حدیث ترمذی شریف میں موجود ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکمل سلام یعنی السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہنے میں تیس نیکیاں ملتی ہیں۔ سلام کے بارے میں ایک حدیث میں آپؐ نے فرمایا: السلام، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے جس کو اللہ نے زمین میں رکھ دیا ہے، اس لیے السلام کو آپس میں خوب پھیلاؤ۔“
”میں بھی اب سب کو مکمل سلام کیا کروں گا۔“ عبد السلام نے کہا۔
”شاباش۔ سلام کی تو بہت اہمیت ہے۔ ایک حدیث میں رسول پاک نے فرمایا: تم لوگ جنت میں جا نہیں سکتے جب تک کہ مومن نہیں بنتے اور تم مومن نہیں بن سکتے، جب تک کہ ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ میں تمہیں وہ تدبیر کیوں نہ بتا دوں، جس کو اختیار کر کے تم آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو۔ آپس میں سلام کو پھیلاؤ۔“ (مشکوۃ)
”اچھا؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جنت میں جانے کے لیے سلام کرنا بہت ضروری ہے۔“ عبدالسلام نے سوچتے ہوئے کہا۔
”بالکل یہی بات ہے، اور جنت میں بھی جنتیوں کو فرشتے، جنت کے ہر دروازے سے نکل کر انہیں سلام کریں گے، خود جنتی بھی ایک دوسرے کا استقبال سلام سے کریں گے۔ یہ بات قرآن مجید میں بتائی گئی ہے۔“
”امی جان! قرآن مجید میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سلام کیے بغیر گھر کے اندر نہ جاؤ۔“ سعید نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”ہاں، آپ نے درست کہا اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جب تم اپنے گھر میں داخل ہو تو پہلے گھر والوں کو سلام کرو، یہ تمہارے اور تمھارے گھر والوں کے لیے خیر و برکت کی بات ہے۔“
”خالہ جان، عمر میں چھوٹے شخص کو اپنے بڑوں کو پہلے سلام کرنا چاہیے؟ عبد السلام نے پوچھا۔
”جی ہاں، آپؐ نے فرمایا: چھوٹا شخص، بڑے کو، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے افراد، زیادہ افراد کو سلام کرنے میں پہل کریں۔ ویسے آپؐ، بچوں کوبھی سلام کیا کرتے تھے۔ یہ بچوں کو سلام سکھانے کا ایک طریقہ تھا۔“
”امی، کیا غیر مسلموں کو بھی سلام کرنا چاہیے؟“سعید نے سوال کیا۔
”آپؐ کی ہدایت ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو سلام کرنے میں پہل نہ کرو۔ ویسے اگر کسی محفل میں مسلم اور غیر مسلم سب شریک ہوں تو سلام کرنا چاہیے۔“
”خالہ جان، آپ نے میری اصلاح کر دی، اب میں شہر جا کر سب کوبتاؤں گا کہ سلام کرنا کتنا اچھا اور فائدہ مند عمل ہے۔“
”امی، میں ذرا عبد السلام کو باہر کھیتوں میں گھما لاؤں۔ میں اسکول سے ملنے والا کام واپس آ کے کرلوں گا۔“
”ٹھیک ہے جائیے۔“
”السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!“ عبدالسلام اور سعید نے مل کر کہا اورامی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا:
”وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top