عمل میں اخلاص
کاوش صدیقی
۔۔۔۔۔
حضرت جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ۔جو شخص کوئی عمل سنانے اور شہرت دینے کے لئے کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو شہرت دے گا اور جو کوئی دکھاوے کے لئے کوئی نیک عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو خوب دکھائے گا۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم۔معارف الحدیث جلد2،صفحہ 255)
۔۔۔۔۔
’’بڑی عجیب سی بات ہے…!‘‘ خوشنود نے امی سے کہا۔
’’کیا ہو گیا؟‘‘ امی نے اس کی پلیٹ میں سالن نکالتے ہوئے پوچھا۔
’’یہی کہ میں سب کے کام آتا ہوں، مدد کرتا ہوں مگر پھر بھی…!‘‘ وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا۔
’’پھر بھی کیا؟ ‘‘ امی نے پوچھا۔
’’امی مجھے دیں…!‘‘ چھوٹی عرشیہ نے پلیٹ آگے بڑھائی۔
’’اچھا آپ بھی لو…!‘‘ امی نے کہا اور عرشیہ کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
خوشنود چپ ہو گیا۔ حالانکہ وہ کہنا چاہتا تھا کہ سب کی مدد کرنے کے باوجود بھی کوئی بھی دوست مجھے اہمیت نہیں دیتا…!
وہ چپ چاپ کھانا کھانے لگا۔ پھر ہوم ورک کرنے کے لئے اپنے کمرے میں آ گیا۔ ہوم ورک اس نے بڑی مشکل سے ختم کیا۔ دل ہی نہیں لگ رہا تھا اس کا کام کرنے میں، مگر سر زبیر حساب کے ٹیچر بہت سخت تھے۔ اور ان کا پیریڈ سب سے مشکل ہوتا تھا۔ اس لئے وہ مارے باندھے کام کرتا رہا۔ جیسے تیسے اس نے ہوم ورک ختم کیا اور کتابیں بیگ میں رکھ کے پھر سوچنے لگا۔
ایسا کیا معاملہ ہے۔ کیا وجہ ہے کیوں کوئی میرے کام کی تعریف نہیں کرتا۔؟
وہ سوچتا۔ سمجھتا رہا۔ مگر اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
سوچتے سوچتے اچانک اسے یاد آیا کہ صبح اس کو احمد کے لئے ہوم ورک کی نئی کاپی لے کر جانا ہے۔ اس کے پاپا کی جاب گزشتہ چار ماہ سے چھو ٹی ہوئی تھی۔ اس دوران اسے مسلسل ڈانٹ پڑ رہی تھی کہ وہ ہوم ورک کیوں نہیں مکمل کرتا؟
خوشنود نے احمد سے پوچھا: ’’مجھے بتائو کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں…!‘‘ احمد جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
مگر اس نے زور سے کہا: ’’بتاتے کیوں نہیں…؟‘‘
سراج نے پوچھا: ’’کیا بات ہے کیوں اتنا تیز بول رہے ہو؟‘‘
خوشنود نے کہا: ’’ابھی آدھی چھٹی سے پہلے اس کو ہوم ورک نہ کرنے پر ڈانٹ پڑی ہے۔ اور دو دن سے پڑ رہی ہے… مگر یہ بتاتا ہی نہیں کہ یہ ہوم ورک کیوں نہیں کرتا…!‘‘
ان کی باتیں سن کر چار پانچ لڑکے کلاس کے اور بھی جمع ہو گئے۔
احمد نے دائیں بائیں دیکھا… سب ہی اس کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
احمد نے بڑی مشکل سے اٹک اٹک کے کہا: ’’وہ … بات … یہ ہے … کہ … میرے پاس ہوم ورک والی کاپی نہیں ہے۔ ختم ہو گئی اور…!‘‘ وہ کہتے کہتے چپ ہو گیا اور نظریں جھکا کے نیچے دیکھنے لگا۔
’’اور کیا…؟‘‘ شمیم نے پوچھا۔
’’بتائو نا!‘‘ خوشنود نے بے چینی سے کہا: ’’اور … اور کیا؟‘‘
’’دراصل ابو کی جاب چار مہینے سے چھوٹ گئی ہے۔ بعض اوقات تو بالکل ہی پیسے نہیں ہوتے۔ ابو کہتے ہیں آج ہو جائے گا پیسوں کا بندوبست، صبح ہو جائے گا…!‘‘
’’ارے تو بس یہ بات تھی…!‘‘ خوشنود نے زور سے کہا۔’’ میرے ابو پورے سال کے لئے اردو بازار سے کاپیاں لے آتے ہیں۔ کل میں تمہارے لئے ہوم ورک کی کاپی لے آئوں گا…!‘‘
’’لو بھئی تمھارا تو مسئلہ خوشنود نے حل کر دیا… ‘‘ غفران نے کہا اور پھر بولا: ’’چلو آئو کھیلتے ہیں۔ آدھی چھٹی ختم ہونے والی ہے…!‘‘
سب لڑکے فوراً ہی باہر کی طرف دوڑ گئے۔
خوشنود بھی کھیل میں لگ گیا۔
دوسرے دن اس نے جا کے دو کاپیاں نکالیں اور احمد کی ڈیسک پر رکھیں۔ ’’لو بھئی میں تمھارے لئے کاپیاں لے آیا۔ ایک نہیں دو…!‘‘ جذبات میں اس کی آواز کافی تیز ہو گئی اور کلاس کے کئی لڑکے ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔
احمد نے ادھر ادھر دیکھا اور خاموشی سے دونوں کاپیاں اٹھا کے بیگ میں رکھ لیں۔ وہ شرمندہ تو بہت ہوا۔ مگر خاموش ہی رہا۔
خوشنود کو افسوس ہوا کم از کم احمد اس کو شکریہ کا ایک چھوٹا سا لفظ ہی کہہ دیتا۔ وہ جا کے اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
٭٭٭
دو چار دن بعد کی بات ہے کہ اسکول میں فٹ بال کی ٹیم بنائی جانے لگی۔ خوشنود کو کرکٹ کا شوق تھا۔ جبکہ ناظم جو کہ کلاس کا سب سے لمبا اور مضبوط لڑکا تھا، اسے فٹ بال کا شوق تھا اور جب وہ پچھلی کلاس میں تھے تب ناظم نے ٹیم میں حصہ لیا اور دو گول کرکے اپنی ٹیم کو جتایا تھا۔
دو تین لڑکوں نے نام لکھوایا۔ پھر اسپورٹس ٹیچر نے ناظم کی طرف دیکھا اور پوچھا ’’ناظم کیا اس بار تم اپنا نام نہیں لکھوائو گے؟‘‘
’’وہ سر میں ابو سے پوچھ کے بتائوں گا…!‘‘ ناظم نے جلدی سے کہا اور سر جھکا کے بیٹھ گیا۔
خوشنود نے سر گھما کے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں…!‘‘ ناظم نے کہا اور نظریں چرا کے دوسری طرف دیکھنے لگا۔
اسپورٹس سر کے جاتے ہی لڑکے باتیں کرنے لگے۔ یہ پیریڈ فری تھا۔ اس لئے خوشنود نے ناظم سے دوبارہ پوچھا: ’’کیا بات ہے تم فٹ بال میں حصہ کیوں نہیں لے رہے ؟‘‘
’’بس وہ ایسے ہی…!‘‘ ناظم نے دھیرے سے کہا۔
’’ارے بتائو نا…!‘‘ خوشنود نے زور سے کہا۔
’’کیا ہوا…؟‘‘ شجاع نے پوچھا۔
’’میں پوچھ رہا ہوں کہ ناظم تم کیوں حصہ نہیں لے رہے فٹ بال میں، تو یہ بتا ہی نہیں رہا…!‘‘
’’ہاں بتائو نا… پچھلے میچ میں تو اسکول ٹیم تمھاری وجہ سے جیتی تھی…!‘‘ شمیم نے بھی کہا۔
’’وہ بات یہ ہے کہ میرے پاس فٹ بال نہیں ہے…!‘‘ ناظم نے کہا: ’’نوٹس بورڈ پر لکھا ہے کہ کھیلنے کے لئے فٹ بال بھی لانا ہو گی اور کٹ بھی لانا پڑے گی…!‘‘
’’مگر کٹ تو تمھارے پاس ہے…!‘‘ شمیم نے کہا۔
’’ہاں یار مگر پچھلے سال کی، اب وہ چھوٹی ہو گئی ہے ، یار میں پہلے سے لمبا جو ہو گیا ہوں…!‘‘ ناظم نے جواب دیا۔
’’تو تم کیوں فکر کرتے ہو…!‘‘ خوشنود نے بڑے جوش سے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ ناظم نے حیرت سے اسے دیکھا۔
’’لگتا ہے کہ تمھارے بھی حالات خراب ہیں احمد کی طرح…‘‘ خوشنود بولا۔
’’مگر تم فکر مت کرو۔ میں ابو سے کہوں گا تو وہ کٹ اور فٹ بال دونوں ہی دلوا دیں گے۔ میں اور ابو ہمیشہ ہی دوسروں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں…!‘‘ خوشنود نے پرجوش لہجے میں کہا۔
’’نہیں رہنے دو…!‘‘ ناظم نے کہا۔
’’ارے واہ کیسے رہنے دوں۔ ہماری کلاس کی عزت کا سوال ہے…!‘‘ خوشنود نے جذباتی انداز میں کہا۔
کلاس کی عزت کی بات پر سب ہی لڑکے جذباتی ہو گئے اور وہ سب ناظم کے سر ہو گئے کہ وہ ضرور فٹ بال ٹیم کے لئے اپنا نام لکھوائے۔
بالآخر ناظم نے ہاں کر ہی دی۔
’’ہرے…!‘‘ سب لڑکوں نے بے ساختہ نعرہ لگایا۔
خوشنود نے کہا۔ ’’تم اپنا کالر کا ناپ اور ٹرائوزر کا سائز بتا دو کل یا پرسوں میں فٹ بال اور کٹ لے آئوں گا…!‘‘
ناظم خاموش ہی رہا۔
دو دن کے بعد جب خوشنود کلاس میں داخل ہوا تو اس کے اسکول بیگ کے ساتھ اس کے پاس ایک بڑا سا شاپر بھی تھا۔
اس وقت سر نجم حاضری لے رہے تھے۔
انھوں نے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا: ’’اس میں کیا ہے؟‘‘ ان کا اشارہ شاپر کی طرف تھا۔
خوشنود نے کہا: ’’سر اس میں فٹ بال اور کٹ ہے جو میں ناظم کے لئے لایا ہوں…!‘‘
اس کی آواز اتنی تیز تھی کہ سب لڑکے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
ناظم بھی چونک گیا۔
’’اچھی بات ہے…!‘‘ سر نجم نے کہا۔
’’یہ لو…!‘‘ خوشنود نے شاپر ناظم کی ڈیسک پر رکھا اور مسکراتا ہوا اپنی سیٹ پر جا بیٹھا۔ اسے بڑا اچھا لگ رہا تھا کہ اس نے ناظم کی مدد کی ہے۔ وہ اپنے خوشی کے احساسات میں ناظم کی کیفیت بھی محسوس نہ کر سکا کہ جس کی آنکھیں نم تھیں۔
خوشنود خاموش اپنے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے بڑے بھائی محمود نے پوچھا: ’’کیا بات ہے، کیا سوچ رہے ہو…؟‘‘
’’کچھ نہیں…!‘‘ خوشنود نے جلدی سے کہا۔
’’نہیں کوئی بات تو ہے جو تم پریشان، پریشان دکھائی دے رہے ہو… بتائو پہلے…!‘‘
محمود بھائی اس کے پاس بیٹھ گئے۔اور پیار سے پوچھنے لگے۔
خوشنود نے بھائی کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے بولنے کی کوشش کی مگر ہونٹ کپکپا کے رہ گئے۔
’’کیا بات ہے، مجھے بتائو…!‘‘ محمود بھائی نے پیار سے خوشنود کا ہاتھ تھام کے کہا۔
’’بھائی!‘‘ خوشنود نے گلوگیر آواز میں کہنا شروع کیا۔
’’میں کوشش کرتا ہوں کہ سب کے کام آئوں، کبھی کتاب، کبھی کاپیاں، کبھی لنچ، کبھی فٹ بال، کبھی کرکٹ، فٹ بال کی کٹ بھی ابو سے منگوا کے دیتا ہوں مگر پھر بھی مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے کسی کو میری کوئی پروا نہیں۔ کوئی دل سے مجھے اچھا نہیں سمجھتا۔‘‘ وہ اپنی بات کے اختتام پر رونے لگا۔
محمود نے پیار سے اپنے چھوٹے بھائی کی طرف دیکھا۔ اس نے ماتھے پر گرے ہوئے اس کے بال سنوارے، پھر پیار سے بولا:
’’پتا ہے ایسا کیوں ہے؟‘‘
’’کیوں؟‘‘ خوشنود نے حیرت سے بھائی کو دیکھا۔
’’اس کی وجہ تم خود ہو…!‘‘ محمود بھائی نے دھیمے سے کہا۔
’’وہ کیسے…؟‘‘
’’تم میرے پیارے سے چھوٹے بھائی ہو۔ تم کو ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ تم جب بھی کسی کو کوئی چیز دیتے ہو تو کیا سوچ کے دیتے ہو؟‘‘ بھائی جان نے پوچھا۔
’’میں…!‘‘ وہ کہتے کہتے رکا پھر بولا: ’’میں چاہتا ہوں کہ لوگ میری تعریف کریں۔ میری باتوں کو مانیں، مجھے اہمیت دیں…!‘‘ خوشنود نے آہستہ سے کہہ کے سر جھکا لیا۔
’’بس یہی وجہ ہے ۔ ایک بات یاد رکھو، کوئی بھی عمل چاہے وہ دین کے لئے ہو یا دنیا کے لئے جب تک اس میں محبت اور اخلاص شامل نہ ہو، اور اس کا اصل مقصود نمود و نمائش ہو، اپنی تعریف کروانا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی نہ ہو تو پھر وہ عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب تمھاری مدد تو قبول کر لیتے ہیں کیونکہ ان کی مجبوری ہوتی ہے، مگر وہ دل میں غمگین ہوتے ہیں کہ تمھارے دینے کے انداز میں بڑائی اور تکبر ہوتا ہے…!‘‘
’’پھر میں کیا کروں؟‘‘ خوشنود نے بے بسی سے پوچھا۔
’’آج سے عہد کر لو کہ جس کی مدد بھی کرو گے، بہت چپکے اور خاموشی سے، اور کبھی کسی کے سامنے احسان نہیں جتائو گے۔ جو عمل اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہوتا ہے۔ اللہ پاک ناصرف اسے قبول فرماتے ہیں۔ بلکہ برکت عطا کرکے عمل اور عمل کرنے والے کو بھی قبول کر لیتے ہیں۔ ورنہ پھر…!‘‘ بھائی جان کہتے کہتے رک گئے۔
’’ورنہ پھر کیا‘‘ خوشنود نے جلدی سے پوچھا۔
’’ورنہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو عمل اللہ کے بجائے غیر اللہ کے لئے یعنی دکھاوے اور ذاتی اغراض و مقاصد کے لئے کیا جائے اس کو کرنے والا، اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے…!‘‘
’’نہیں…!‘‘ خوشنود بری طرح کانپ گیا۔
’’یا اللہ مجھے معاف فرما دے…!‘‘ اس نے صدق دل سے کہا اور رونے لگا۔
محمود بھائی نے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔
٭٭٭
صبح جب خوشنود اسکول گیا تو بڑا ہلکا پھلکا سا تھا۔ اس نے چپکے سے نظر بچا کے سینڈوچ کا چھوٹا سا پیکٹ احمد کے بیگ میں رکھ دیا۔
اس نے مسکرا کے خوشنود کی طرف دیکھا ۔ خوشنود فوراً ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
احمد نے اس کا ہاتھ دبا کے دھیمے سے کہا: ’’شکریہ…!‘‘
خوشنود کو یوں لگا کہ جیسے اس کا دل خوش ہو گیا ہو۔
اسی وقت سکول کے پیون نے آ کے خوشنود سے کہا: ’’اسے پرنسپل صاحب بلا رہے ہیں…!‘‘
’’اچھا…!‘‘ خوشنود نے حیرت سے کہا اور پیون کے ساتھ چلنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں پریشان ہو رہا تھا کہ پرنسپل نے اسے کیوں بلوایا ہے۔ وہ پرنسپل کے کمرے میں داخل ہوا تو وہاں ایک خاتون اور ایک صاحب بیٹھے تھے۔
پرنسپل صاحب نے اسے مخاطب کرکے کہا: ’’خوشنود۔ یہ ناظم کے والدین ہیں اور آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘‘
’’جی…؟‘‘ خوشنود انھیں حیرت سے دیکھنے لگا۔
’’بیٹے ہم آپ کا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔ ہمیں ناظم نے بتایا کہ آپ نے اس کو فٹ بال اور کٹ دلوائی ہے۔ بہت شکریہ بیٹے۔ دراصل ہمارے حالات…!‘‘
’’بس انکل…!‘‘ خوشنود نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کچھ نہ کہیں، ناظم میرے بھائی جیسا ہے اور میں نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنے بھائی کے لئے کیا ہے مجھے شرمندہ مت کیجئے…!‘‘
’’ماشاء اللہ کتنی اچھی تربیت ہے بیٹا تمھارے ماں باپ کی…!‘‘ ناظم کی امی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ان کی آنکھوں میں بڑی محبت اور احترام تھا۔
’’سر میں واپس جائوں…!‘‘ خوشنود نے پوچھا۔
’’جی بیٹا، آپ اپنے کلاس روم میں جائیں…!‘‘ پرنسپل نے بڑی شفقت سے اجازت دی۔
خوشنود واپس آتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔ اور اپنے اللہ پاک سے کہہ رہا تھا۔
’’یا اللہ صرف پہلی ہی رات دکھاوے اور نام و نمود سے توبہ کی ہے اورآپ نے مجھے شہرت کا انعام عطا کر دیا۔ یا اللہ مجھے اپنے دکھائے سیدھے راستے پر قائم رکھئے گا…!‘‘
٭…٭
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے