skip to Main Content

بھدے پیر

کاوش صدیقی

میں نے ابا کے پلاسٹک کے جوتے اٹھا لیے۔ الٹ کے دیکھا۔ دونوں جو تے انگلیوں کے پاس سے پھٹے ہوئے تھے۔

’’میں نہیں جاتا مجھے شرم آتی ہے۔‘‘ میں نے اماں سے کہا جو میرے لیے چائے نکال رہی تھیں۔
’’ اچھا میں خود جا کر سلوا دوں گی۔ تم پریشان نہ ہو۔‘‘ اماں نے مجھے تسلی دی۔
’’ اماں موزوں کی ایڑیاں اور انگلیاں پھٹ گئی ہیں۔ کل جوتے کے تلے میں کنکر گھس گیا تو پیر باہر نکالنا پڑا جس پر سارے دوست ہنسنے لگے، بلکہ اسد نے تو میرا نام ہی ’’موزہ کھڑ کیوں والا‘‘ رکھ دیا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
اماں تھوڑی دیر مجھے دیکھتی رہیں، پھر بولیں،’’ اچھا اچھا …موزے بھی سی دوں گی بس اسکول کا وقت شروع ہوا اور نخرے شروع۔‘‘ ساتھ ہی اماں نے مجھے ذانٹ بھی دیا۔
’’کیوں ڈانٹ رہی ہو میرے بیٹے کو۔‘‘ ابا ہاتھ منہ دھو کے ناشتے کے لیے آ گئے۔
اماں نے ایک موٹا سا پراٹھا اور چائے کا بڑا کپ انہیں دیا۔میں نے پراٹھا دیکھا تو میرا بھی دل چاہنے لگا۔ابا نے میری نظر کی زبان سمجھ لی۔
’’ آجا پراٹھا اتنا بڑا ہے کہ ہم دونوں کا پیٹ بھر جائے گا۔‘‘ابا نے فوراً مجھے دعوت دی اور میں اماں کے گھورنے کے باوجود پراٹھا کھانے میں مشغول ہو گیا۔
ابانے دو چار لقمے لے کر جلدی جلدی چائے ختم کی اور باہر چلے گئے۔ جب ان کی سائیکل باہر چلے جانے کی آواز آ گئی تو اماں نے میری طرف گھورا۔
’’تجھے شرم نہیں آتی باپ کا حصہ کھاتے ہوئے؟‘‘
’’تو کیا ہوا۔روز پراٹھا ہی تو کھا کے جاتے ہیں، آج میں نے ذرا سا کھالیا تو کیا مصیبت آ گئی۔‘‘
’’بے شرم تیرے ابا کو پراٹھا اس لیے دیتی ہوں کہ دیر سے ہضم ہوتا ہے۔ وہ دو پہر میں کھانا نہیں کھاتے بچت کے چکر میں۔ تم لوگوں کی فیس، کپڑے یہ سب کیسے آتے ہیں تمہیں پتا بھی ہے؟‘‘اماں کو بہت غصہ تھا۔
’’ ارے اماں! ہم کون سا ان کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ بغیر کھائے کہاں مزدوری ہوتی ہے۔ کھا لیتے ہوں گے کچھ آپ کو توڈانٹنے کا بہانہ چاہیے۔‘‘ میں نے لاپروائی سے کیا۔
اماں کچھ نہ بولیں، بس مجھے دیکھ کر رہ گئیں۔
ٍٍ ہم تین بہن بھائی تھے۔ میں بڑا تھا۔ آٹھویں میں پڑھ رہا تھا۔ مجھ سے چھوٹی رابعہ پانچویں اور محسن ابھی پہلی کلاس میں تھا۔ ابا مزدور تھے مگر تعلیم کے بہت حامی۔ اماں میٹرک تک پڑھی تھیں مگر ابا نے تو اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا تھا۔ وہ بچپن سے محنت مزدوری کرتے تھے۔ ہمارا شمار بھی ملک کے ان لاکھوں افراد میں تھا جو بس کماتے اور کھاتے ہیں، بچت کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ ابا نے بلاشبہ پچا سیوں گھر بنائے تھے مگر ہمار اپنا گھر نہیں تھا۔ ایک کمرہ اور چھوٹا ساصحن بس یہی ہمارا گھر تھا۔ جس میں ہم سال کے سارے موسم گزار دیتے تھے۔ اماں فارغ وقت میں سلائی کڑھائی کرتی تھیں مگر پھر بھی بڑی مشکل سے پورا ہوتا تھا۔

۔۔۔

آج تو اسکول میں حد ہی ہو گئی تھی۔ ایک تو جوتے کا تلا پھٹا ہوا تھا دوسرے آج سمیع اللہ نے قلم کی سیاہی میری قمیص پر چھڑک دی تھی۔ مجھے سخت غصہ آیا۔
’’تم نے میری سفید قمیص خراب کر دی۔‘‘میں نے کہا۔
’’ا بے سفید قمیص!… پیلی تھی پیلی۔ اب نیلی پیلی ہوگئی۔‘‘ سمیع اللہ ہنسنے لگا۔
اس کے ساتھ کھڑے ہوئے اسد اور ندیم بھی قہقہہ مار کے ہنسنے لگے۔
’’تم سب بہت بدتمیز ہو۔‘‘ میں نے چلا کے کہا ،’’میں تم سے بات نہیں کروں گا۔‘‘
’’اچھا ناراض مت ہو۔ گھر میں دھلوالینا۔‘‘اسد نے مجھے پچکارا۔
اسد کسی حد تک میرے حالات سے واقف تھا مگر بعض اوقات وہ بھی مذاق اڑانے پر اتر آتا تھا۔
’’اماں ڈانٹیں گی۔‘‘ میں نے کہا۔
اور وہی ہوا۔اماں نے جو میری سیاہی بھری قمیص دیکھی تو شروع ہو گئیں۔ اسی وقت ابا بھی آ گئے۔
’’کیوں ڈانٹ رہی ہو میرے بیٹے کو۔‘‘ انھوں نے پیار سے میرے گال تھپتھپائے۔
مجھے ابا کے کھردرے ہاتھ بہت برے لگے۔ میں نے غصے سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔
’’ پہلے تو جوتے پھٹے ہوئے تھے۔ موزے کھڑکی ہو گئے تھے اور اب یہ قمیص جسے آپ لوگ سفید کہتے ہیں، دھل دھل کے پیلی ہوگئی ہے۔ سب کہتے ہیں۔ نیلی پیلی نیلی پیلی۔‘‘
’’ ارے اسکول کے دوستوں کی بات کا برانہیں مانتے۔‘‘ ابا نے ہنس کر کہا۔
’’آپ کو کیا پتا اسکول میں لڑ کے کیا کیا باتیں بناتے ہیں۔ آپ کون سا کبھی اسکول گئے ہیں جو آپ کو پتا ہو۔‘‘ میں نے غصے میں کہہ دیا۔
’’ بدتمیز بے ہودہ!…باپ سے یوں بات کرتے ہیں؟‘‘اماں نے مجھے جھڑکا۔’’ یہ پڑھ لکھ رہا ہے تو؟‘‘
’’تو میں کیا جھوٹ بول رہا ہوں۔‘‘ میں نے پائوں پٹخ کے کہا اور گھر سے باہر نکل گیا۔
اپنے پیچھے ابا کی آواز سنائی دی۔ ’’کیوں غصہ کرتی ہو؟ بچہ ہے ناں۔ اسکول میں ساتھی مذاق اڑاتے ہیں تو غصہ آ ہی جاتا ہے۔ ہم سے نہیں کہے گا تو کس سے کہے گا؟‘‘ یہ کہہ کر ابا ہنسنے لگے پھر بولے،’’ تم نے جو میرے لیے لٹھا رکھا ہے، اس کی قمیص بنوادوا سے۔‘‘
’’نہیں۔ وہ تو میں آپ کے لیے سیوں گی۔ اپنے کپڑے دیکھے ہیں آپ نے۔ کئی بار پیوند لگ چکے ہیں۔‘‘
’’تو کیا ہوا۔ہم سب مزدور ایک جیسے ہیں۔وہاں کپڑوں کو کون پوچھتا ہے۔‘‘ ابا پھر ہنسنے لگے۔ وہ بہت خوش مزاج تھے۔ بات بات پر ہنستے تھے۔
’’یہ اسکول جاتا ہے بلکہ رابعہ کی شلوار بھی نکل آئے گی اس میں تو۔ اس کی بھی تو اسکول کی نیلی قمیص اور سفیدشلوار ہے۔ بچوں کا دل بر ا نہیں کرتے۔‘‘
مجھے ابا اور اماں کی باتوں کی آواز یں آ رہی تھیں۔ میں دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اماں کی آواز آئی۔
’’آ جاؤ کھانا کھالو۔‘‘
میں خاموشی سے اندر چلا گیا۔ کھانا کھا کے میں نے ہوم ورک کیا۔ رابعہ کو اسکول کا کام سمجھایا۔اتنی دیر میں محسن سو چکا تھا۔ میں بھی لیٹ گیا۔
اماں ابا کے پیروں میں تیل کی مالش کر رہی تھیں۔ ابا ٹرانسفارمر کا تیل لائے تھے۔ کسی نے کہا تھا کہ بجلی کے ٹرانسفارمر کا تیل بہت طاقت ور ہوتا ہے۔ وہ لگانے سے درد دور ہو جاتا ہے۔
ابا کے کندھوں اور پیروں میں گھٹنوں سے تلوؤں تک بہت درد ہوتا تھا۔ بیس بائیس اینٹیں لے کر اوپر نیچے ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا۔
کبھی کبھی اماں مجھے بھی کہتی تھیں،’’ذرا اپنے ابا کے پیر دبا دیا کرو۔‘‘
میں دباتا تو تھا مگر مجھے بہت الجھن ہوتی تھی۔
ابا کے ہاتھ اور پیر دونوں ہی بڑے بڑے اورکھردرے تھے۔ ایڑیاں اور تلوے سیمنٹ کی طرح سخت تھے۔ دوچار ہاتھ لگاتے ہی ابا پیر سمیٹ لیتے اور کہتے۔ ’’جائو بیٹا اسکو ل کا کام کرلو۔‘‘
میں جلدی سے ابا کے کھردرے اور بڑے بڑے بھدے پائوں چھوڑ دیتا اور جا کر پڑھنے بیٹھ جاتا۔
ایک دن میں نے اماں سے کہا:’’ اماں یہ ابا کے ہاتھ اتنے موٹے ،کھردرے اور پاؤں اتنے بھدے کیوں ہیں؟‘‘
’’کیا؟‘‘ اماں نے حیرت سے مجھے دیکھا۔’’ تمہیں شرم نہیں آتی۔یہ محنت کش کے ہاتھ پیر ہیں۔ سیمنٹ، بجری، چونے کے گارے میں رہتے ہیں سارا دن۔ تمھاری طرح نرم جوتوں میں نہیں ہوتے ان کے پیر۔‘‘
’’مگر جب جمعے کی نماز میں، میں ان کے ساتھ جاتا ہوں تو مسجد کی صفوں پر ان کے پیر مجھے تو بڑے عجیب لگتے ہیں۔ بھدے بھدے سے، کالے کالے سے۔ میرے پاؤں کتنے چھوٹے اور گورے سے ہیں۔‘‘میں ہنسنے لگا۔’’سچی مجھے تو بڑی شرم آتی ہے۔‘‘
’’بھائی ایسے نہیں بولتے۔ ابا کتنی محنت کرتے ہیں ہمارے لیے۔‘‘ رابعہ نے فوراً مجھے ٹوکا۔
’’ابا کی چمچی۔‘‘ میں نے اسے منہ چڑایا۔
رات کے کسی پہر میں نے کروٹ لی تو اماں کی سلائی مشین کی کھٹ کھٹ چل رہی تھی۔میں کروٹ بدل کے دوبارہ سوگیا۔
صبح اٹھا تونئی دودھ جیسی سفید قمیص استری کی ہوئی لٹکی تھی۔میں خوش ہو گیا۔
’’واہ اماں یہ تو آپ نے کمال کردیا۔‘‘
’’ہاں تمھارے ابا کے لیے رکھا تھا کپڑا۔ تمہیں بنادی قمیص۔‘‘ اماں ابا کی پھٹی ہوئی قمیص کے دامن میں پیوند لگا رہی تھیں۔
قمیص پاجامہ پہن کر میں نے جیسے ہی جوتے اٹھائے، مجھے غصہ آگیا۔
’’یہ جوتے پھر پھٹے ہیں۔‘‘
’’اچھا چلا مت، آج چلا جا۔ پھر میں سلوا دوں گی۔‘‘ اماں نے مجھے گھورا۔
نئی قمیص کی خوشی غارت ہو گئی۔میں بکتا جھکتا اسکول کے لیے تیار ہونے لگا۔

۔۔۔۔۔

میںاسکول سے واپس آیا تو ابا حسب معمول کام پر گئے ہو ئے تھے۔ محسن اپنا الف ب کا قاعدہ پڑھ رہا تھا جبکہ رابعہ برتن دھو رہی تھی۔
’’اماں کہاں ہیں؟ بڑی بھوک لگی ہے۔‘‘میں نے رابعہ سے پوچھا اور پتیلی میں جھانکا۔پتیلی خالی تھی۔
’’روٹی وہاں رکھی ہے اور ساتھ پیالے میں دال بھی ہے۔‘‘
’’ہونہہ…! وہی دال شریف اور روٹی شریف۔‘‘میں نے تنک کر کہا۔
رابعہ نے مجھے دیکھا مگر بولی کچھ نہیں۔
مجھے اندازہ ہواکہ رابعہ کو میری بات بری لگی ہے مگر میں کیا کروں ؟ گھر میں دال سبزی کے سوا ہوتا بھی کیا تھا۔وہ بھی رات کو پکتی تھی۔ اگلے دن دوپہر تک وہی چلتی تھی۔
میں منہ بنا کر جلدی جلدی لقمے لینے لگا۔

۔۔۔۔۔

میں نیم غنودگی کے عالم میں تھا کہ اچانک ابا کمرے میں داخل ہوئے۔ان کے ہاتھ میں تھیلا تھا۔
’’ یہ دیکھو۔‘‘انہوں نے اماں کو مخاطب کیا۔’’میں حسن کے لیے نئے جوتے لایا ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘یہ سنتے ہی میری نیند اڑ گئی۔ میں تیزی سے اٹھ بیٹھا۔’’دکھائیں۔‘‘
ابا میری بے چینی دیکھ کر ہنسنے لگے۔
’’بالکل نیو برانڈ، چمکتے ہوئے کالے اسکول شوز باٹا کے۔‘‘میں خوش ہو گیا۔
’’مجھے بھی دکھائیں۔‘‘رابعہ نے تجسس سے کہا۔
اماں کھانا نکال کر ابا کو دینے لگیں۔ میں اپنے پاس رکھے ہوئے جوتے دیکھنے لگا۔
اماں نے پوچھا۔’’ آج بیس تاریخ ہے۔ آپ کے پاس پیسے کہاں سے آئے؟‘‘
’’بس آگئے۔‘‘ابا نے ہنس کر کہا۔
’’پھر بھی پتا تو چلے، ادھار تو نہیں لیا؟‘‘اماں کے لہجے میں فکر مندی تھی۔
’’نہیں، یہ دو سوروپے بچے ہیں۔‘‘ابا نے دو لال نوٹ اماں کو پکڑا دیے۔
’’کیا مطلب؟میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا؟‘‘ اماں نے حیرت سے کہا۔
’’بات یہ ہے کہ…‘‘ابا نے مزید آواز دھیمی کر لی۔’’آج جس بلڈنگ کی چنائی ہو رہی ہے۔ اس کے مالک کے بیٹے کا آج آپریشن تھا۔ خون کی ضرورت پڑی تو وہ بلڈ بینک کا چکر لگانے لگے،مگر کہیں خون نہ ملا تو انہوں نے ہم سے کہا۔میں نے بلڈ گروپ پوچھا تو انہیں AB+چاہیے تھا۔یہی میرا گروپ تھا۔جب پچھلے سال احمد علی چھت سے گرا تھا تو اسے خون کی ضرورت پڑی تھی تب میں نے اپنا خون چیک کرایا تھا،تب سے مجھے یاد تھا اپنا گروپ۔
سیٹھ صاحب کہنے لگے کہ وہ ایک بوتل خون کے دو ہزار تک دیں گے تو میں نے سوچا، میں ہی کیوں نہ دے دوں، سو میں نے ان کے بیٹے کے لیے خون دے دیا۔‘‘
’’اچھا…!!!‘‘ اماں نے کہا۔’’تو آپ نے دو ہزار کے لیے خون بیچ دیا۔‘‘
ان کے لہجے میں ناراضی تھی۔
’’دو ہزار نہیں لیے میں نے، ایک ہزار لیے۔‘‘ابا نے جلدی سے کہا۔’’پھر میرا پیسے لینے کا کوئی ارادہ نہ تھا، وہ تو چونکہ حسن کو جوتوں کی ضرورت تھی تو…تو میں نے لے لیے مگر ضرورت صرف ہزار روپے کی تھی تو میں نے ان کے اصرار کے باوجود دو ہزار نہیں لیے۔‘‘
ابا اماں کو صفائی دے رہے تھے۔ میں اس وقت ہلکی ہلکی نیند میں تھا۔

۔۔۔۔۔

صبح میں اٹھا تو ابا خلاف معمول لیٹے ہوئے تھے۔
’’ابا آج اٹھے نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’رات تمہارے ابا کے پیر کی دو انگلیاں اینٹیں گرنے سے کچل گئیں۔‘‘
اماں کی آنکھیں روروکے سوجی ہوئی تھیں۔
میں نے ابا کی طرف دیکھا۔
وہ پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے ۔ ان کے پیلے پلاسٹک کے جوتے ایک طرف پڑے تھے اور ان کے پیر کی انگلیوں پراماں نے پٹی باندھ دی تھی۔
میں نے نئے جوتے اٹھائے۔ان کے ساتھ نئے موزے بھی تھے، پھر پتا نہیں کیوں میں نے ابا کے گندے پیلے جوتے اٹھا لیے ۔ میں نے الٹ کر دیکھا تو دونوں جوتے انگلیوں کے پاس سے پھٹے ہوئے تھے۔مجھے اچانک ابا اماں کی رات کی باتیں یاد آگئیں۔ ابا نے میرے جوتوں کے لیے اپنا خون بیچ دیا اور اپنے جوتوں کے بجائے میرے لیے نئے جوتے خرید لیے۔
میری آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے۔میں آہستہ سے آگے بڑھا۔ابا سو رہے تھے۔ان کے موٹے، کھردرے بڑے بڑے پیر پلنگ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔
میں نے دیکھا پلنگ کے نیچے ہی تیل کی شیشی رکھی تھی۔ میں وہیں بیٹھ گیا اور تیل نکال کر ابا کے پیروں کی مالش کرنے لگا۔ابا کے موٹے، کھردرے، بھدے پیر اس وقت مجھے بہت پیارے لگ رہے تھے۔
پھر پتا نہیں مجھے کیا ہوا؟…میں ابا کے پیروں سے سر ٹکائے بے آواز رونے لگا۔
اماں، رابعہ اور محسن مجھے حیرت سے دیکھ رہے تھے، مگر اس وقت مجھے اپنے ابا کے پیروں سے زیادہ اچھاکچھ نہیں لگ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top