skip to Main Content

سرکارجی…! آپ خوش ہیں نا؟

کاوش صدیقی

نام تو ان کا ’’غضنفر خان‘‘ تھا مگر سب انھیں ’’چاچا خوشی محمد‘‘ کہتے تھے۔ ہوا۔وہ بڑے ہنس مکھ اور دل رکھنے والے آدمی تھے۔ میرے ساتھ ان کا بڑا پیار تھا۔ محلے میں کوئی دکھ کا معاملہ ہو یا سکھ کی گھڑی، ہر جگہ چاچا خوشی محمد کھڑے نظر آتے تھے۔
میری دادی ہمیشہ انھیں ڈانٹتی رہتی تھیں۔ ’’کرم جلا‘‘ دادی کو مخصوص فقرہ تھا۔ دو چار دن اگر خوشی محمد نظر نہ آتے تو وہ ناراض ہو جاتیں۔
’’ کہاں تھا کرم جلا…؟‘‘وہ غصے سے کہتی تھیں۔’’پتا نہیں کہ دادی انتظار کرتی ہے۔ اس عمر میں تجھے نہ دیکھوں تو الجھن ہوتی ہے…!‘‘ دادی غصہ ہو جاتیں اور انھیں پنکھا جھلتی جاتیں۔
چاچا خوشی محمد ہنس ہنس کر ان کی ڈانٹ سنتے ر ہتے، پھر ان کے ضعیف پیروں پر ہاتھ رکھ کے کہتے۔’’ دادی اماں !بس ایسے ہی ڈانٹتی رہا کرو!‘‘
’’لواب کرم جلے کی بات سنو، بھلا میں اسے کوئی بے وجہ ہی ڈانٹتی پھٹکارتی ہوں؟‘‘ دادی اماں دو بارہ شروع ہو جاتیں۔
دادی اماں بدن کے نچلے حصے سے معذور تھیں۔ نچلے دھڑ میں حرکت بہت معمولی تھی۔ ادھر چاچا خوشی محمد کے پیروں میں بھنور تھے، مجال ہے جو چین سے بیٹھ جائیں۔
ایک بارکئی دلوں کے بعد آئے۔ دادی کی طبیعت خراب تھی۔ بس چپکے لیٹی انہیں دیکھتی رہیں، بولیں کچھ نہیں۔
چاچا خوشی محمد پریشان ہو گئے، پھر رونے لگے۔
میں نے پوچھا:’’ چا چارو نے کی کیا بات ہے، آج تو ڈانت بھی نہیں پڑی…!‘‘
روتے روتے وہ مسکرا دیے،’’ میں ڈانٹ کھانے ہی تو آ تا ہوں۔‘‘
میں حیرت سے چاچا خوشی محمد کو دیکھنے لگا۔ ڈاٹ نہ کھانے کا غم کھاتے میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کو دیکھا تھا۔
وہ بولے :’’چھوٹے بابا جی! آپ کو کیا معلوم جب دادی خوش ہوتی ہیں تومجھے کرم جلا کہتی ہیں۔ ذرا اس لمحے ان کی اپنائیت اور پیار کو دیکھو۔ بھلا سچ بتاؤ کبھی سنا کہ دادی نے کسی اور کو کہا ہو،’’ کرم جلے!ذرا میرے پاس بیٹھ…!‘‘
میں نے سوچا۔ واقعی یہ بات سچ تھی۔ دادی نے کبھی کسی دوسرے کو کرم جلا نہیں کہا تھا۔
میں نے پوچھا ،’’چاچا! وہ تمہیں کرم جلا کیوں کہتی ہیں…؟‘‘
’’ وہ خوش ہوتی ہیں اور ان کی خوشی میں میں خوش ہوتا ہوں…!
چاچا خوشی محمد نے کہا۔

۔۔۔۔۔

چا چا خوشی محمد معمولی اردو پڑھے لکھے تھے مگر بلا کے نرم مزاج، پیار کرنے والے اور ایسی سادہ باتیں کرتے کہ سیدھی دل میں اتر جاتیں۔ مجھے ان کا اصل نام پہلی بار تب پتا چلا۔ جب وہ مجھ سے اپنی بیٹی کا فارم پر کروانے آئے تھے۔ تب انھوں نے مجھے اپنا شناختی کارڈ دکھایا تھا جس پر ان کانام غضنفر خان ولد مظفرخان لکھا تھا۔
میں نے پوچھا،’’ چاچاجی! اتنا پیارا تو نام ہے آپ کا، پھر آپ نے خوشی محمدنام کیوں رکھ لیا…؟‘‘
وہ انگوچھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولے:
’’چھوٹے بابا! مجھے اپنے سرکار(ﷺ) سے بڑا پیار ہے۔ ان کی خوشی کا ہر لمحے خیال رہتا ہے، تو میں نے سوچا خوشی محمد بن جاؤں ۔ جو پکارے چاچا خوشی محمد! تو گویا میرا سبق تازہ ہو جائے کہ خوشی محمد !سرکار دو عالم ﷺکی خوشی کا خیال رکھنا۔ ‘‘چاچا خوشی محمد نے اتنی عقیدت اور پیار سے کہا کہ ان کی آنکھیں نم ہوگئیں اور آواز بھرا گئی۔
میں چپ ہو رہا۔
چا چا خوشی محمد کی بیوی کا بہت عرصہ پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ ایک ہی بیٹی تھی جس کی انھوں نے سولہ برس کی عمر میں اپنی بہن کے بیٹے سے شادی کر دی تھی۔ وہ اکھڑ مزاج تھا جب کہ سعیدہ کم عمر اور نازک کی لڑکی۔ کام کرنے میں غلطی کرتی تو مار پڑتی۔ ایک دن غصے میں آ کر گھر چھوڑ گیا۔ ’’لو سنبھالو اپنی لڑکی۔‘‘وہ بیوی کو ان کے گھر چھوڑکر برا بھلا کہتا ہوا نکل گیا۔
چاچا خوشی محمد نے بڑھ کر بیٹی کو سینے سے لگایااور بولے:’’ بیٹا! فکر نہ کر۔‘‘
اس جملے کے علاوہ انہوں نے ایک لفظ نہیں کہا، نہ بھانجے کو نہ بہن کو۔
پھر ایک دن برادری کی ایک شادی میں چاچا خوشی محمد کو بہن اور داماد مل گئے۔ داماد نے چوںکہ زیادتی کی تھی، اس لیے منہ چھپا کر بیٹھ گیا۔
چاچا خوشی محمد نے مسکراکے کہا:
’’بیٹا! تو کیوں منہ چھپاتا ہے،چھپانا ہے تو اس دن، ان سے چھپانا۔‘‘
’’ کس دن…کس سے؟‘‘ داماد پھر اکڑ گیا۔
’’ چاچا خوشی محمد نے ہاتھ جوڑ ے اور آسمان کی طرف دیکھ کر کہا:
’’ میں نے سرکار کے حکم پر بیٹی بیاہ دی اور نکاح پڑھا دیا۔ جیسے بڑے سرکار حضرت محمد مصطفی ﷺنے چھوٹے سرکار علی رضی اللہ عنہ سے اپنی بیٹی بیاہی تھی۔ آپ نے نکاح کا حکم فرمایا ہے تو ہم نے بھی بیٹی بیاہ دی۔اب سر کار جا نیں اور ان کی یہ دھی جانے۔‘‘
چاچا خوشی محمد نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر داماد سے بولا:
’’ مجھ سے شرمندہ نہ ہو، مجھے تمھیں کچھ نہیں کہنا، اب رب تعالیٰ جانے اور سرکار جانیں۔‘‘
ان لفظوں نے نجانے کیا تا ثیر دکھائی کہ اکڑ و داماد چاچا کے پیروں میں گر گیا اور معافی ما نگنے لگا، پھر تقریب کے بعد بڑی منت سماجت سے بیوی کوواپس لے گیا۔
ایک دن دیکھا کہ میری بھتیجی جو کہ پانچ برس کی ہے، اس نے چاچا خوشی محمد کو اپنا ہاتھی بنایا ہوا ہے۔ چاچانے اپنا صافہ سر سے لپیٹ کر اس کے پلوؤں کو اچھی طرح سے موڑ کر سونڈھ بنائی ہوئی ہے اور ہاتھی بنے ہوئے ربیعہ کو لے کر صحن میں چاروں ہاتھوں پیروں سے پھر رہے ہیں اور یہ چلا رہی ہے۔ ’’چل میرے ہاتھی!چل چل چل…چل میرے ہاتھی! چل چل چل۔‘‘
وہ بے تحاشا ہنس رہی تھی۔ چاچا خوشی محمد بھی ہنس رہے تھے۔ وہ جب تک خود تھک کے اتر نہیں گئی، چاچا اسے ہاتھی بن کر ادھر ادھر پھراتے رہے۔
میں نے کہا:’’ دیکھو چا چا! اپنے گھٹنے چھیل لیے آپ نے ننگے فرش پر…!‘‘
چا چا خوشی محمد نے کہا: ’’چھوٹے بابا! اپنے گھٹنے دیکھوں یا بٹیا کا ہنسنا مسکرانا، قہقہے لگانا دیکھوں۔ جب وہ ہنس رہی تھی تو میرے سرکار خوش ہورہے تھے۔ وہ بچوں کو بڑا پیار کرتے تھے ناجی…!‘‘
چا چا خوشی محمد کا جواب ایسا تھا کہ میں پھر کچھ نہ بول سکا۔
چا چا خوشی محمد کسی کی بیماری میں ایک پیر سے کھڑے ہو جاتے۔ محلے میں تو ان کی یاری سب سے تھی ہی۔ آس پاس کے علاقے میں بھی کوئی بیمار ہو جاتا۔ کسی کے گھر میت ہو جاتی،وہ ذمہ داری چا چا خوشی محمد کوسونپ کر مطمئن ہو جاتا۔
میت کو نہلا نا، دھلا نا، کفن دینا، پھر قبرستان لے کر جانا،قبر کھدوائی، پھر آپ لیٹ کر قبر کی وسعت و گہرائی کا انداز ہ کر کے میت کو ہولے ہولے قبر میں اتارنا۔ اللہ جانے چا چا خوشی محمد کو کیا ملتا تھا۔ ان تمام خدمتوں کے آخر میں ایک چھوٹا سا جملہ ہوتا۔’’ بس آپ خوش ہو۔ بس آپ خوش ہو…!‘‘
وہ محنت مزدوری کرتے۔ کوئی اجرت ادا کرنے میں نخرے کرتا۔ چا چا خوشی محمد ایک لفظ نہ کہتے۔ جو پیسے دیتا وہ رکھ لیتے اور کہتے،’’ بس آپ خوش ہوتو میں بھی خوش ہوں…!‘‘
ایک دن میں نے دیکھا کہ چا چا خوشی محمد اپنا ٹرنک پکڑے اپنی چار پائی اٹھائے چلے جارہے ہیں۔
’’کہاں چلے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
بولے:’’ مسجد میں مولوی صاحب نے کہا ہے کہ تم اکیلے ہوں۔ ادھر چلے آؤ۔ دن بھر محنت مزدوری کرتے ہو۔ رات میں مسجد میں سولیا کرو …!‘‘
ان کے انداز میں بڑی سادگی تھی۔
میں نے کہا:’’آپ کا گھر ہے تو سہی،پھر مسجد میں رہنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
بتانے لگے:’’ وہ داماد کو ضرورت تھی ناں پیسوں کی تو…میں نے بیچ دیا۔‘‘
میں حیرت سے انہیں دیکھنے لگا، پھر کچھ سوچ کر بولا:
’’تو کیا ہوا، ہما را تنا بڑا گھر ہے وہ آپ ہی کا تو ہے۔ دادی کو پتا چلے گا تو وہ ناراض ہو جائیں گی کہ گھر کے ہوتے ہوئے آپ مسجد میں کیوں رہیں؟‘‘
چاچا خوشی محمد ہنسنے لگے:’’چھوٹے بابا…!‘‘ انھوں نے کہا،’’ اب آخری عمر میں لوگوں کا احسان کیا لینا۔اللہ کی دی جان ہے اللہ کو ہی دینی ہے تو پھر اس کے پاس ہی جا رہا ہوں…!‘‘ انھوں نے نرمی سے کہا،پھرہنسے اور مسجد میں داخل ہو گئے۔
میں نے گھر آ کے دادی کو بتا یاتو وہ ہنسنے لگیں، بولیں:
’’ کرم جلے کی ضد یں تو دیکھو۔ اب اللہ کے گھر رہنے چلا ہے، جا اسے لے آ…!‘‘
مگرچاچا خوشی محمد نے مسجد نہیںچھوڑی۔

۔۔۔۔۔

میں کچھ دنوں کے بعد چاچا سے ملا تو انھیں بخار تھا۔ کمزور بھی بہت ہو گئے تھے۔ گھٹنے سوجے ہوئے تھے۔ وہ کہیں سے ابھی ابھی آئے تھے۔
میں نے پوچھا:’’اتنی خراب طبیعت میں کہاں گئے تھے؟’’
بولے:’’ چک حمید میں ماسٹر نور الدین کا انتقال ہو گیا، جنازے میں شریک ہونے چلا گیا تھا۔یار بچپن کا بیلی تھا…!‘‘
’’نہ جاتے، طبیعت ٹھیک ہو جاتی تو پرسہ دے آتے…!‘‘
چاچا خاشی محمد بولے:’’نہ چھوٹے بابا نہ۔ کیا سوچتا وہ کہ جب تک جیتا رہاخوشی محمد آتا رہا، اب مرگیا تو جنازہ پڑھنے نہیں آیا۔ ناراض ہو جاتا اور سرکار پاک سے شکایت کردیتا تو میں تو گیا تھا نا…!‘‘ آکری جملے کچھ انہوں نے کچھ اتنی رقت سے کہے کہ میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
چاچا خوشی محمد نے کہا:’’ چھوٹے بابا ایک بات کہنی تھی آپ سے…!‘‘
’’جی جی کہیے…!‘‘
’’یہ لیجیے …!‘‘ انھوں نے اپنی جیب سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکالا۔’’ا سے حفاظت سے رکھ لیجیے گا ،کھولیے گانہیں۔ میں مرجاؤں تو میرے کفن میں میرے سینے پر رکھ دینا چپکے سے… وعدہ کر یں…!‘‘میں حیرت سے چاچا خوشی محمد کا منہ تکنے لگا۔ کیسی عجیب وغریب سی فرمائش تھی ان کی۔
میں نے کہا:’’ چاچا جی اللہ نہ کرے کہ تم مرو…!‘‘
چاچامسکرانے کے بعد بولے:’’ لو مرنا تو سب کوہی ہے اور میرا مرنا تو بہت ضروری ہے۔‘‘
’’ کیوں بھئی؟‘‘ میں نے زچ ہو کر کہا:’’ جنت کا ایسا شوق لگا ہے… ؟‘‘
’’مجھے جنت کی چاہت نہیں…!‘‘ چاچا خوشی محمد نے مسکرا کے کہا۔
’’پھر؟‘‘
’’یہ ا بھی آپ نہیں سمجھیں گے چھوٹے بابا…!‘‘ انھوں نے ہنس کے کہا۔ ’’بس ایک بات بتا ئیں۔ آپ مجھ سے خوش ہوناں، کبھی ناراض تو نہیں ہوئے؟‘‘
’’چاچا جی! آپ بہت اچھے ہیں۔ میں آپ سے بہت خوش ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ بس …بس کافی ہے…!‘‘چاچا خوشی محمدہنس دیے۔
تین دن کے بعد چاچا خوشی محمد کا انتقال ہو گیا۔
فجر کی اذان کے ساتھ ہی اعلان ہوا:’’حضرات !چا چا خوشی محمد کا انتقال ہو گیا ہے…!‘‘
لوگ جمع ہونے لگے۔ چا چا جی کی چار پائی حجرے میں رکھی تھی۔ ان کا چہرہ بے حد پر سکون تھا۔ ایک ہی بیٹی تھی جو شوہر کے ساتھ شہر منتقل ہوگئی تھی۔ اس لیے سب کا خیال تھا کہ چاچا کا جنازہ بس محلے والے ہی پڑ ھ لیں گے۔ ویسے بھی جمعے کا دن تھا، چھٹی تو تھی نہیں۔
مگر سبحان تیری قدرت! جوں جوں ظہر کا وقت قریب آتا گیا۔ لوگوں کانماز جنازہ کے لیے ہجوم بڑھتا چلا گیا۔ لوگ اتنے آرہے تھے کہ مانو جیسے چیونٹیاں بلوں سے ابل رہی ہوں۔ ظہر تک بھی لوگ آ رہے تھے، پھر معلوم ہوا کہ ابھی مزید لوگ آ رہے ہیں۔ بلا مبالغہ سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ ہوں گے۔ ہم سب حیران تھے کہ یہ کہاں سے اتنے لوگ گروہ در گروہ چلے آتے ہیں…!!
امام صاحب نے کہا۔’’ نیک آدمی تھے۔ لوگوں کے دکھوں میں شریک رہتے تھے۔ ساری عمر لوگوں کو خوش رکھا۔ سب سمجھ رہے تھے کہ چندہی لوگ ہوں گے مگر کمال او پر والے کی قدرت کہ کیا شاندار جنازہ ہے…وہ جنتی تھے جنتی…!‘‘
ہم سب تائید میں سرہلانے لگے۔
عصر کے وقت چاچا خوشی محمد کا جنازہ ہوا اور میں نے چاچاخوشی محمد کی امانت ان کے سینے پر چپکے سے تب رکھ دی جب انھیں کفن پہنایا جا رہا تھا۔
تدفین کے بعد لوگ رخصت ہوگئے، تو میں نے دادی کو بتایا۔
داوی نے کہا:’’ وہ کرموں جلا جنت میں بھی سب سے ٹہل ٹہل کے یہی پوچھ رہا ہوگا، آپ خوش ہیں ناں…!‘‘ یہ کہہ کر دادی اماں رونے گئیں۔

۔۔۔۔۔

اچھا جی…! تو آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ کہانی ختم ہوگئی ۔نہیں اصل کہانی تواب شروع ہوتی ہے۔
جیسا کہ دستور ہے آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل …سوآہستہ آہستہ لوگ چاچا خوشی محمد کو بھول بھال گئے۔ ویسے بھی ان کا یہاں تو کوئی تھا ہی نہیں۔ ماں باپ کے خود اکلوتے تھے اور اولاد میں بھی ایک اکلوتی بیٹی۔ وہ بھی شہر جا بسی تھی اپنے میاں کے ساتھ۔
دو سال گزر گئے چاچا خوشی محمد کے انتقال کو۔ اس مرتبہ ایسی زور کی بارشیں ہوئیں کہ سیلاب آ گیا۔ ہمارا علاقہ کافی متاثر ہوا تھا۔ خاص طور پر مشرقی حصہ ،جہاں قبرستان بھی تھا۔
جب بارشیں رکیں اور سب نے اپنے گھر گھرانے کو ٹھیک کر لیا تو خیال آیا کہ چل کر ذ را قبرستان کا جائزہ بھی لے لیں۔ آج نہیں تو کل جانا تو ادھر ہی ہے۔ کسی کی ماں، کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کی بیوی، سب وہیں تھے۔
بہر حال ہم سب اکٹھا ہو کے چل پڑے۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ز یادہ ترقبروں کی حالت بہت بری تھی۔ کوئی گڑ ھابن گئی تھی تو کوئی دائیں بائیں سے بیٹھ گئی تھی۔
مجھے اچانک چاچا خوشی محمد کی قبر کا خیال آیا۔ میں ڈھونڈتا ہوا ادھر پہنچ گیا۔ دیکھا کہ چاچا کی قبر کی ایک سائیڈ کھل گئی تھی۔ میں نے دور سے دیکھا تو اندر کوئی سفیدسی چیز نظر آئی۔
میں نے آواز دے کر سب لوگوں کو متوجہ کیا۔چاچا غفور،درزی عبدالحمید ،غفار ٹھیکے دار،رحیم مستری، امام صاحب سب ہی آگئے۔
رحیم مستری نے قبر میں جھانکا اور بولا:
’’ذ را دیکھو تو، جو میں دیکھ رہاہوں کیا سچ ہے؟‘‘
’’ کیا ہے… کیا ہے؟‘‘ سب چاروں طرف اکٹھا ہو گئے۔
مستری رحیم نے ہاتھ بڑھا کر پتھر کا ایک ٹکڑا ہٹایا تو اندر سفید کفن صاف نظر آنے لگا۔
’’ارے یہ تو بالکل تاز ہ کفن لگ رہا ہے…!‘‘ ٹھیکے دار غفار نے چلاکے کہا۔
امام صاحب نے بھی قریب آ کر دیکھا۔
اسی وقت شاید وہ پتھر ہٹانے سے ایک اور جانب سے قبر بیٹھ گئی اور قبر کا بڑا حصہ کھل گیا۔ اب اندر چاچا خوشی محمد کی میت صاف دکھائی دے رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ابھی کچھ دیر پہلے ہی میت رکھی گئی ہو۔
سب لوگ بے ساختہ کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔
مولوی صاحب نے کہا :’’چوں کہ قبر کھل گئی ہے لہٰذا اسے درست کر کے دفن کر نا ضروری ہے۔ اگر کچھ نہ ہوتا تو بند کر دی جاتی…‘‘
رحیم مستری نے کہا:’’ وہ تھوڑی ہی دیر میں قبر تیار کر دے گا۔‘‘ذرا دیر میں جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پھیل گئی۔ لوگ جوق در جوق جمع ہونے لگے۔
دو بارہ ایک سفید چا در منگوائی گئی اور میت کومنتقل کرنے لگے۔ دوبارہ تدفین کر کے ہم سب واپس لوٹنے لگے تواچانک مجھے ایک طرف وہ پر چہ نظر آیا جو میں نے چاچاکی وصیت کے مطابق ان کے کفن کے اندر رکھا تھا۔
وہ دو بار ہ تدفین کے وقت کسی طرح نکل کر باہر رہ گیا تھا۔ میں نے بڑھ کر وہ پر چہ اٹھالیا۔ اب ایک بار پھر قبر کشائی نہیں ہوسکتی تھی اور میں ان سب کو اس بابت کیا بتا تا۔ میں نے دیکھا کہ قبر میں پانی کے باوجود وہ پر چہ خراب نہیں ہوا تھا۔
ہم واپس گھر لوٹ آئے۔ کچھ ہی دیر میں پور ے علاقے میں یہ بات خوشبو کی طرح پھیل گئی۔ ہر طرف جذبات انگیز ہیجان پھیل گیا۔ بھلا یہ کوئی معمولی بات تو تھی نہیں کہ چاچا خوشی محمد کی میت نہ صرف سلامت رہی تھی بلکہ ان کا کفن بھی میلا نہیں ہواتھا۔
میں نے اپنے کمرے میں آ کر جیب سے وہ پرچہ نکالا۔ اچانک مجھے چاچا خوشی محمد کی بات یاد آ گئی۔’’ چھوٹے بابا!بس آپ نہیں سمجھیں گے۔‘‘
تو کیا یہ پرچہ مجھے سمجھانے کے لیے تھا…؟
میں نے لرز تے ہو ئے ہاتھوں سے پر چہ کھولا۔
شکستہ تحریر میں لکھا تھا:’’ اللہ میاں جی…!
نماز میری ٹوٹی پھوٹی، عبادت کوئی نہیں، مگر سرکار جی سے مجھے پیار بہت ہے۔ ایک مرتبہ مولوی جی نے مجھ جاہل کو بتایا تھا کہ بڑی سر کار فرماتے ہیں جو میرے امتی کو خوش کرے گا، وہ مجھے خوش کرے گا۔ جو مجھے خوش کرے گا وہ اللہ کو خوش کرے گا، جو اللہ کو خوش کرے گا اللہ اسے جنت دے گا۔
اللہ جی…!
مجھے جنت نہیں چاہیے۔ بس میں نے ساری عمر اپنے سرکار کے امتیوں کو خوش رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بس میرے سرکار جی خوش ہو جائیں اور جب میں ان کے پاک قدموں کو اپنی آنکھوں سے چوم کے کہوں۔ سرکار جی! آپ خوش ہیں ناں، تو وہ مسکرا کے کہہ دیں۔ ہاں خوشی محمد! میں خوش ہوں۔ بس اللہ میاں جی وہی میر ی جنت ہے۔ میرے سرکار جی کی خوشی…!‘‘
میرے ہاتھوں میں کا غذ لرزر ہاتھا۔ اور میںہچکیوں سے رو ر ہا تھا۔ سرکار جی کے اللہ میاں خوش ہیں تب ہی تو انھوں نے اکیلے خوشی محمد کے جنازے کے لیے ہزاروں کو بھیج دیا۔
وہ تو پیار کرنے والوں کو پیار کرتے ہیں، مگر اپنے پیارے کے پیارے کومٹی میں کیسے ملنے دیتے…!
سرکارجی! آپ مجھ سے بھی خوش ہو جائیے گا…!
میرے آنسو رک نہیں رہے تھے۔ مجھے یقین تھا کہ چاچا خوشی محمد سرکار کے قدموں میں بیٹھے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھ ر ہے ہوں گے اور کہہ ر ہے ہوں گے:
’’چھوٹے بابا! میں اُس ’’جنت‘‘ کا نہیں’’اِس‘‘ جنت کا لالچی تھا۔ اب تو آپ سمجھ گئے ناں…!‘‘

***

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top