skip to Main Content

درویش خلیفہ کا دبدبہ

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے (دوسرے) خلیفہ بنے تو انہوں نے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرح انتہائی سادہ زندگی اختیار کر لی۔ نہ ان کا کوئی در بار تھا اور نہ کوئی محل، معمولی سے مکان میں رہتے تھے اور مسجد نبوی میں بیٹھ کر خلافت کے (سرکاری) کام کرتے تھے۔ ان کی خوراک بھی بہت سادہ تھی اور لباس بھی معمولی کپڑے کا ہوتا تھا۔ ان کی خلافت کے زمانے میں مسلمانوں نے کئی بڑے بڑے ملک فتح کر لیے جن کا رقبہ لاکھوں مربع میل تھالیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سادگی میں کوئی فرق نہ آیا۔ اتنے سادہ ہوتے ہوئے بھی ان کا اتنارعب تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی ان کا نام سن کر کانپ اٹھتے تھے۔
ایک دفعہ روم کے بادشاہ نے اپنا سفیر آپ کی خدمت میں بھیجا۔ جب وہ مد ینہ منورہ پہنچا تو اس نے لوگوں سے پوچھا کہ تمہارے خلیفہ کامحل کہاں ہے؟ لوگوں نے کہا ہمارے خلیفہ کا کوئی حل نہیں ہے، وہ عام لوگوں کی طرح اپنے معمولی مکان میں رہتے ہیں۔ یہ سن کر سفیر بہت حیران ہوا۔ اس کے ذہن میں اپنے بادشاہ کی شان وشوکت تھی اور وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ لاکھوں مربع میل کا فرمانروا اتنا سادہ بھی ہوسکتا ہے کہ نہ اس کا کوئی در بار ہو اور نہ کوئی محل۔ پھر اس نے لوگوں سے پوچھا کہ اس وقت آپ کا خلیفہ کہاں ہوگا۔ انہوں نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دیر پہلے ہم نے انہیں اس طرف جاتے دیکھا ہے۔
سفیر اس طرف گیا تو اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہیں نظر نہ آئے البتہ ایک عرب خاتون نظر آئی جو اپنے کھیت میں کسی کام میں مشغول تھی۔
سفیر نے اس سے پوچھا:”بی بی! آپ نے اپنے خلیفہ کو اس طرف آتے ہوئے دیکھا ہے؟“
اس نے کہا:”ہاں تھوڑی دیر ہوئی، وہ اس طرف سے گزرے تھے۔“
سفیر نے پوچھا:”اس وقت وہ کہاں ہوں گے؟“
خاتون نے کھجوروں کے ایک جھنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:”اس وقت وہ اس جھنڈ میں کھجور کے کسی درخت کے سائے میں سورہے ہوں گے۔“
کھجوروں کا یہ جھنڈ وہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔ سفیر اس طرف گیا تو دور سے اس نے دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دو کچی اینٹوں کا تکیہ بنا کر سوئے ہوئے ہیں اور ان کا درہ (کوڑا) ان کے قریب پڑا ہے۔ یہ دیکھ کر اس پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ سارا جسم کانپنے لگا۔ اس نے اپنے جی میں کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں کتنے ہی بادشاہ دیکھے ہیں لیکن آج تک مجھے کسی بادشاہ سے خوف محسوس نہیں ہوا۔ معلوم نہیں مسلمانوں کے اس خلیفہ کو دیکھ کر میرے اوسان کیوں خطا ہو گئے ہیں۔میں شیروں اور چیتوں سے بھرے ہوئے جنگلوں میں بھی پھرتا رہا ہوں۔ میں نے کئی بارلڑائیوں میں بھی حصہ لیا ہے۔دشمن کو زخم لگائے بھی ہیں اور اس سے زخم کھائے بھی ہیں لیکن میرے دل نے کبھی کسی بھی موقع پر کمزوری نہیں دکھائی لیکن آج معلوم نہیں کیا بات ہے کہ اس سوئے ہوئے نہتے آ دمی کو دیکھ کر میرے جسم کی بوٹی بوٹی کانپ رہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لاکھوں مربع میل کے مالک اس شخص کی حیران کر دینے والی سادگی نے مجھ پر ہیبت طاری کر دی ہے۔
سفیر دل ہی دل میں ایسی باتیں کر رہا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ کھل گئی۔سفیر نے آگے بڑھ کر بڑے ادب سے آپ کو سلام کیا اور آپ کو بتایا کہ روم کے بادشاہ نے مجھے آپ کے پاس سفیر بنا کر بھیجا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بڑی شفقت کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا اور اپنے پاس بٹھا کر دیر تک محبت بھرے لہجے میں بات چیت کرتے رہے۔ سفیر پر آپ کے اعلیٰ اخلاق اور آپ کی سادگی کا اتنا اثر ہوا کہ اس نے اسلام قبول کرلیا۔ (مثنوی مولا نا روم سے ماخوذ)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top