بادشاہت سے درویشی اچھی
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ تیسری صدی ہجری میں بہت بڑے صوفی اور اللہ والے بزرگ گزرے ہیں (پیدائش 179 ہجری اور وفات 281 ہجری) کہتے ہیں کہ پہلے وہ بلخ کے بادشاہ تھے اور بڑی شان وشوکت سے حکومت کرتے تھے لیکن ایک دن ایسا آیا کہ ان کے دل کی دنیا بدل گئی اور انھوں نے بادشاہت پر لات مار کر درویشی اختیار کر لی۔ پھر ساری عمر دین کا علم سیکھنے اور سکھانے،اللہ کی عبادت کر نے،محنت مزدوری کر کے روزی کمانے اور لوگوں کی خدمت کرنے میں گزاردی۔
حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ نے بادشاہت کیسے چھوڑی؟ اس کے بارے میں یہ کہانی مشہور ہے کہ ایک رات کو اپنے عالی شان محل میں سور ہے تھے کہ آدھی رات کے وقت محل کی چھت پر کھٹ پٹ کی آواز سن کر ان کی آنکھ کھل گئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کوئی آدمی ان کے سونے والے کمرے کی چھت پر ٹہل رہا ہے۔انھوں نے آواز دی:”تم کون ہو اور یہاں اس وقت کیا کر رہے ہو؟“
جواب میں آواز آئی:”آپ کا دوست ہوں اور یہاں اپنا اونٹ تلاش کر رہا ہوں۔“
حضرت ابراہیم نے کہا:”ارے شاہی محل کی چھت پر اونٹ،یہ کیسے ممکن ہے؟“
جواب میں آواز آئی:”اگر یہ ممکن نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ریشمی لباس پہن کر عیش وعشرت میں زندگی گزاری جائے اور امید کی جائے کہ اللہ مل جائے گا۔“
معلوم نہیں یہ واقعہ خواب میں پیش آیا یا بیداری میں لیکن حضرت ابراہیم بن ادھم کے دل میں یہ خیال ضرور پیدا ہوا کہ جس ٹھاٹ باٹ سے وہ زندگی گزاررہے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ دوسرے دن جب وہ اپنے دربار میں بیٹھے تھے کہ اچا نک نورانی چہرے والا ایک اجنبی آدمی بڑے دبدبے سے دربار میں داخل ہوا۔ وزیروں، در باری امیروں اور شاہی ملازموں میں سے کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ اس کو دربار میں داخل ہونے سے روکے۔ بادشاہ (حضرت ابن ادھم) نے خود اس سے پوچھا:”تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟“
اس نے کہا:”میں اس سرائے میں ٹھہر نا چاہتا ہوں۔“
حضرت ابراہیم نے فرمایا: ”یہ سرائے نہیں، شاہی محل اور دربار ہے۔“
اجنبی نے کہا:”آپ سے پہلے اس محل میں کون رہتا تھا؟“
حضرت ابراہیم: ”میراباپ۔“
اجنبی:”آپ کے باپ سے پہلے کون تھا؟“
حضرت ابراہیم: ”میرادادا۔“
اس طرح کئی پشتوں تک پہنچ کر اجنبی نے پوچھا:”آپ کے بعد یہاں کون رہے گا؟“
حضرت ابراہیم:”میری اولاد۔“
اجنبی: ”ذرا سوچو جس مقام پر اتنے آدمی آ ئیں اور جائیں اور کسی کو ہمیشہ کے لیے یہاں ٹھہر نا نصیب نہ ہو و ہ سرائے نہیں تو اور کیا ہے؟“
یہ کہہ کر اجنبی آدی فوراً در بار سے نکل گیا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
اس واقعہ نے حضرت ابراہیم بن ادھم پر ایسا اثر ڈالا کہ رات انھوں نے بڑی بے چینی سے محل میں گزاری اور صبح ہوتے ہی تخت اور تاج پر لات مار کرفقیرانہ الباس پہن لیا اور شہر سے باہر نکل گئے۔ درویشی اختیار کر نے کے بعد حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی زندگی کیسے گزاری یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اللہ تعالیٰ کی عبادت، اللہ کے سچے دین اسلام کی تبلیغ، علم حاصل کر نے اور علم پھیلا نے، اپنی روزی محنت مزدوری کر کے کمانے، اپنی کمائی غریبوں اور حاجت مندوں پرلٹانے اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے میں گزار دی۔ انھوں نے کئی حج بھی پیادہ پا کیے اور سالہا سال تک حرم شریف میں جھاڑودینے کی خدمت بھی انجام دیتے رہے۔ اپنی پاکیزہ زندگی کی بدولت وہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں شمار ہونے لگے اور لوگوں کی نظروں میں بھی ان کو بڑا بلند مقام اور مرتبہ حاصل ہو گیا۔ ہر روز بیسیوں لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ان سے ایمان کو تازہ کرنے والی باتیں سنتے اور اپنی زندگیاں سدھارنے کی کوشش کرتے۔ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ ان کے مرید بھی بن گئے تھے لیکن وہ اپنے مریدوں سے کچھ نہیں لیتے تھے بلکہ اپنی کمائی کا ایک حصہ وہ اپنے مریدوں کو کھلانے پلانے میں خرچ کر دیتے تھے۔ جن کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے حالات بیان کیے گئے ہیں ان میں حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ کے بہت سے اقوال ملتے ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہیں۔
ایک دفعہ حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ کسی شخص کو یہ کیسے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا درواز ہ بند ہو چکا ہے۔ انھوں نے فرمایا جس شخص کا دل تین حالتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف نہ ہو تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ اس پر رحمت کا درواز ہ بند کیا جا چکا ہے۔
اول قرآن پاک کی تلاوت کے وقت۔
دوم نماز پڑھتے ہوئے۔
سوم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہوئے۔
مطلب یہ کہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو سچے دل سے یاد رکھنا چاہیے۔ ادھر ادھر کی باتوں کی طرف دھیان نہیں دینا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ہر کام دیکھ رہا ہے اور جو کچھ اس کی زبان سے نکل رہا ہے اس کو سن رہا ہے۔
ایک مرتبہ کسی نے حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا، حضرت قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں پھر کیا سبب ہے کہ بعض دفعہ ہم برابر دعا کرتے رہتے ہیں لیکن ہماری دعا قبول نہیں ہوتی۔
حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:
”بھائی سنو! دعا قبول نہ ہونے کے نواسباب ہیں:
ا۔ تم اللہ تعالیٰ کو جانتے ہو لیکن اس کا حق ادا نہیں کرتے یعنی جن کاموں کے کرنے کا اس نے حکم دیا ہے وہ نہیں کرتے اور جن کاموں سے اس نے منع کیا ہے ان سے دور نہیں رہتے۔
۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے ہو اور آپ سے محبت رکھنے کا دعویٰ بھی کر تے ہومگر آپ کی پیروی نہیں کرتے (یعنی آپ کے اسوہ (طریقہ) کے مطابق زندگی نہیں گزارتے۔
۳۔ قرآن مجید پڑھتے تو ہو مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔
۴۔اللہ تعالیٰ کی نعمتیں کھاتے ہومگر سچے دل سے اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔
۵۔شیطان کو دشمن سمجھتے ہومگر اس سے نہیں بھاگتے اور اس کے کہنے پر چلتے ہو۔
۶۔ دوسروں کے عیب ڈھونڈتے ہو اور اپنے عیبوں پر نظر نہیں ڈالتے۔
۷۔ جانتے ہو کہ دوزخ گنہگاروں کے لیے ہے مگر اس سے نہیں ڈرتے۔
۸۔موت کو برحق سمجھتے ہو (یعنی ایک دن ہر ایک کو مرنا ہے) لیکن اس کا کوئی سامان نہیں کرتے یعنی ایسے نیک کام نہیں کرتے جوموت کے بعد کام آئیں۔
۹۔ اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے زمین میں دفن کر تے ہولیکن اس سے نصیحت نہیں پڑتے۔