قسمت کا ستارہ
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔
کوئی چارسوسال پہلے کا ذکر ہے کہ پنجاب کے شہر چنیوٹ میں ایک غریب حکیم صاحب رہتے تھے۔ ان کا نام علیم الدین انصاری تھا۔ انھوں نے بڑے لائق استادوں سے عربی،فارسی اور طب (دوادار وکاعلم) کی تعلیم پائی تھی اور بڑے اونچے درجے کے طبیب یا حکیم بن گئے تھے۔
اللہ کی قدرت یاحکیم صاحب کی بدقسمتی کہ ان کے پاس بہت کم مریض علاج کے لیے آتے تھے حالانکہ وہ شہر کے دوسرے سب حکیموں سے لائق تھے۔ دوسرے طبیبوں کے پاس مریضوں کا تانتا لگا رہتا تھا لیکن حکیم علیم الدین انصاری کے پاس کوئی اکا دکا مریض ہی آ تا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم صاحب بہت غریب ہو گئے۔اتنے غریب کہ کئی کئی دن تک ان کے گھر میں چولھا نہیں جلتا تھا اور حکیم صاحب کو گھر والوں سمیت فاقے کرنے پڑتے تھے۔ حکیم صاحب تو صبر کر لیتے تھے لیکن ان کی بیوی کو بہت غصہ آ تا تھا اور وہ ان کو ہر وقت جلی کٹی سناتی رہتی تھیں۔ ایک دن حکیم صاحب شام کو گھر آئے تو اس نے ان کو اتنے طعنے دیے اور اتنا برا بھلا کہا کہ وہ روتے ہوئے دیر تک اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے کہ،”اے اللہ! مجھ پر رحم کر، میری تقدیر بدل دے اور مجھے اتنارزق عطا کر کہ میں غریبوں اور محتاجوں کی مدد بھی کر سکوں۔“
جب ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا تو سجدے سے سر اٹھایا۔ اس وقت انھوں نے یوں محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمالی ہے۔ شام اور عشاء کی نماز میں پڑھنے کے بعد وہ گھر آئے اور چپکے سے اپنے بستر پر لیٹ گئے۔
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حکیم صاحب کے گھر کا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا۔ حکیم صاحب چراغ لے کر باہر نکلے تو دیکھا کہ محلے کا چوکیدار باہر کھڑا ہے اور اس کے ساتھ دو آدمی ہیں جو پردیسی معلوم ہوتے ہیں۔ ان آدمیوں نے حکیم صاحب کو سلام کیا اور پھر فارسی زبان میں کہا ہے:
”حکیم صاحب! ہم ایک تجارتی قافلے کے آدمی ہیں۔ ہمارا قافلہ کابل سے آگر ہ جارہا ہے۔ ہمارے قافلے نے آپ کے شہر کے قریب رات بھر کے لیے پڑاؤ ڈالا ہے۔ ہمارے قافلے کے سردار ملک مظفر خان کے پیٹ میں دیر سے سخت درد ہو رہا ہے۔ اس درد نے ان کے ہوش وحواس گم کر رکھے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ چل کر ان کو دیکھ لیں اور کوئی ایسی دواد یں جس سے ان کو جلد از جلد آرام آ جائے۔“
حکیم صاحب نے ان سے مریض کے بارے میں کچھ اور باتیں پوچھیں جس سے ان کو اندازہ ہو گیا کہ درد کا کیا سبب ہے۔انھوں نے اس کے دور کرنے کے لیے کچھ دوائیں لیں اور ان آدمیوں کے ساتھ قافلے میں پہنچ گئے۔ ان کا انداز ہ یہ تھا کہ مریض قولنج کے درد میں مبتلا ہے۔اب جو مریض کو دیکھا تو ان کا انداز ہ درست نکلا۔ مریض کو اس مرض کی دوائیں کھلائیں اور درد کے مقام پر کپڑا گرم کر کے ٹکور کی۔ اللہ نے فضل کیا کہ مریض کا درد دیکھتے ہی دیکھتے دور ہو گیا اور وہ ہشاش بشاش ہو گیا۔ حکیم صاحب ملک مظفر خان سے رخصت ہوکر گھر جانے لگے تو اس نے ان کو دس دینار دیے۔ دینارسونے کا سکہ ہوتا تھا جس کی قیمت آج کل کے زمانے میں کئی ہزار روپے بنتی ہے۔ دینار دیتے وقت ملک مظفر خان نے ان سے یہ بھی کہا کہ کل صبح پھر تشریف لائیے اور مجھے دیکھ لیجیے۔ حکیم صاحب ”بہت اچھا“ کہہ کر گھر آئے اور دس دینار بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیے اور سارا قصہ اس کو سنایا۔ اس نے دس دینار کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے۔ یہ پا کر خوش ہوگئی اور بار بار اللہ کا شکر ادا کر نے لگی۔
دوسرے دن صبح کو حکیم صاحب ملک مظفر خان کے پاس گئے تو اسے بالکل ٹھیک اور خوش وخرم پایا۔ اس نے حکیم صاحب سے کہا کہ ہمارا قافلہ کچھ دیر بعد یہاں سے آ گرہ کی طرف روانہ ہونے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ آپ کا راستے کا سارا خرچ میں دوں گا اور آگرہ پہنچ کر آپ کے مطب کا انتظام بھی کر دوں گا اور کبھی موقع مل گیا تو آپ کو جہانگیر بادشاہ کی ملازمت بھی دلا دوں گا۔ مطب وہ مکان ہوتا ہے جہاں بیٹھ کر طبیب مریضوں کو دیکھتا اور ان کا علاج کرتا ہے۔
حکیم صاحب نے ملک مظفر خان کاشکر یہ ادا کیا اور کہا کہ میں آپ کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوں۔ بس اتنی اجازت دیجیے کہ گھر والوں کو اطلاح دے آؤں۔ ملک مظفر خان نے کہا ٹھیک ہے آپ یہ بیس دینارلیں اور اپنے بیوی بچوں کو دے کر میرے پاس واپس آ جائیں۔ حکیم صاحب نے گھر جا کر بیوی کو بیس دینار دیے اور اسے یہ بتا کر کہ میں قافلے کے ساتھ قسمت آزمانے کے لیے آگر ہ جارہا ہوں، واپس ملک مظفر خان کے پاس آ گئے اور قافلے میں شامل ہو گئے۔
چنیوٹ سے آگرے تک کے سفر میں قافلے کا کوئی آ دمی بیمار ہو جاتا تو حکیم صاحب ہی اس کا علاج کرتے،وہ تندرست ہو جا تا تو خوش ہو کر حکیم صاحب کو کچھ نہ کچھ انعام ضرور دیتا۔ آگر ہ پہنچ کر حکیم صاحب کے پاس اتنی رقم جمع ہوگئی کہ وہاں انھوں نے اپنا مطب قائم کر لیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ ایک لائق اور قابل حکیم کی حیثیت سے مشہور ہو گئے اور دھڑ ادھڑ مریض ان کے پاس آنے لگے۔
اس زمانے میں ملکہ نور جہاں ٹانگ کے شدید درد میں مبتلا ہوگئی اس در دکو”لنگڑی کا درد“ اوراس موذی بیماری کو ”عرق النساء“ کہتے ہیں۔ اس مرض کی وجہ سے ملکہ کو سخت تکلیف تھی۔ شاہی دربارکے طبیبوں نے ملکہ کے علاج میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی لیکن اس کو کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ملک مظفرخاننے جہانگیر بادشاہ سے حکیم علیم الدین انصاری کا ذکر کیا اور مشورہ دیا کہ ان سے ملکہ کا علاج کرایاجائے۔ بادشاہ نے فوراً حکیم صاحب کو شاہی محل میں بلایا اور انہیں ملکہ کا علاج کرنے کے لیے کہا۔ حکیم صاحب نے ملکہ کی نبض دیکھی کچھ اور باتیں اس سے پوچھیں اور پھر یہ رائے دی کہ آپ کے جسم سے کچھ خون نکالنا پڑے گا۔ اس طرح آپ کا درد دور ہوگا۔ علاج کے اس طریقے کو”فصد کھولنا“ کہتے ہیں۔ اس میں جسم کی ایک رگ سے نشتر کے ذریعے خون نکالتے ہیں۔ ملکہفصد کھلوانے پر تیار ہوگئی۔ حکیم صاحب نے یہ کام ایسے طریقے سے کیا کہ ملکہ کو کچھ تکلیف نہ ہوئی اور اس کی بیماری بہت جلد دور ہوگئی۔ ملکہ کے صحت یاب ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ حکیم صاحب کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا۔ بادشاہ نے انہیں قیمتی خلعت دے کر شاہی طبیب مقرر کر دیا۔
ادھرملکہ نے لاہور جا کر غسل صحت کیا تو حکیم صاحب کو ایک لاکھ روپے کا خلعت عطا کیا۔ خلعت اس پوشاک کو کہتے ہیں جو بادشاہ یا اس کے امیروں کی طرف سے کسی شخص کی خدمت کے صلے میں اس کی عزت بڑھانے کے لیے دی جاتی ہے۔ خلعت کے علاوہ ملکہ نے حکیم صاحب کو سات لاکھ روپے نقد عطا کیے اور اپناز یور بھی اتار کر حکیم صاحب کو دے دیا۔ اس کو د یکھ کر ملکہ کی کنیزوں نے بھی اپنے زیور اتار کر ملکہ پر نچھاور کر دیے۔ ملکہ نے یہ تمام زیورات بھی حکیم صاحب کو بخش دیے۔ سارے انعام و اکرام کو جمع کر کے قیمت لگائی گئی تو بائیس لاکھ روپے ہوئے۔ حکیم صاحب نے منت مانی تھی کہ میرے ہاتھ میں بھی دولت آئی تو جہاں تک ہوسکا اس کولوگوں کی بھلائی (رفاہ عام) کے کاموں میں خرچ کروں گا۔ اپنی قسمت کا ستارہ چمکنے کے بعد انھوں نے یہ منت اس طرح پوری کی کہ باقی عمر میں رفاہ عام کے بے شمار کام کیے،مثلاً چنیوٹ کے چاروں طرف اینٹوں کی فصیل بنوائی۔ چنیوٹ اور لاہور میں بہت سی مسجد یں، بارہ دریاں، بازار، دکانیں، سرائیں بنوائیں۔ ان کے علاوہ کتنے ہیں باغ،شفاخانے، مدرسے، کنویں، تالاب اور حمام بنوائے۔
پنجاب کا مشہور شہروز یرآ بادآباد کیا۔ انھوں نے جو عمارتیں وغیر ہ اپنی یادگار چھوڑ یں۔ان میں سے اکثر بر باد ہوچکی ہیں لیکن کچھ ابھی تک باقی ہیں۔ان میں لاہور کی مسجد وزیرخان ان کی سب سے شاندار یادگار ہے۔ جہانگیر کے بعد شاہجہان نے تاج شاہی پہنا تو اس نے بھی حکیم صاحب کو ایک لاکھ روپیہ نقد انعام کے علاوہ ایک قیمتی خنجر، ایک گھوڑا، ایک اونٹ، ایک جھنڈا اور ایک نقارہ عطا کیے اور فوج کا ایک بڑا عہدہ بھی دیا۔
1632ء میں دولت آباد کے حاکم فتح خان نے خراج ادا کرنا بند کر دیا۔شاہجہان نے حکیم صاحب کا فوجی عہدہ بڑھادیا اور ان کو دس ہزار سوار دے کر دولت آباد پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا لیکن فتح خان نے اطاعت قبول کر لی اس لیے بادشاہ نے حکیم صاحب کو واپس بلا لیا اور ان کونواب وزیر خان کا خطاب دے کر لاہور کا ناظم یا گورنر مقرر کر دیا۔ اس زمانے میں انھوں نے لاہور کی مسجد وزیر خان اور کئی دوسری عمارتیں تعمیر کرائیں۔ سات سال کے بعد بادشاہ نے ان کو آگرہ کا ناظم (گورنر) مقرر کیا۔ ان کوآ گرے میں حکومت کر تے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ قولنج کی بیماری سے اگست 1642ء میں فوت ہو گئے۔ انھوں نے جو شاندار یادگار یں اپنے پیچھے چھوڑ یں،وہ ان کا نام ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔