خوشاب کا پتیسہ
احمد ندیم قاسمی
۔۔۔۔۔۔۔
صفدر نے گرمیوں کی چھٹیاں اپنے چچا کے پاس جوہر آباد میں گزاریں۔واپس لاہور آکر اس نے محلے کے سب ہمجو لیوں کو اپنے سفر کا حال یوں سنایا جیسے وہ جو ہر آباد نہیں گیا تھا،چاند پرگیا تھا اور بس میں بیٹھ کر نہیں گیا تھا راکٹ میں بیٹھ کر گیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ اس کے ہمجولی رہتے توشہر لاہور میں تھے۔مگر انہوں نے لاہور سے باہر کی دنیا نہیں دیکھی تھی۔وہ لاہور کے بڑے سے پنجرے میں بند تھے۔انہیں تو بس اتنا معلوم تھا کہ جب شاہی مسجد یا مقبرہ جہانگیر کے میناروں پر چڑھ کر دیکھیں تو دور دور تک درخت نظر آتے ہیں یا کھیت یا کا دکا آدمی یا آتی جاتی ہوئیں بسیں۔اس کے بعد زمین آسمان سے مل جاتی ہے اور بس!
اب صفدر نے انہیں لاہور سے جوہر آباد تک کے سفر کا حال سنایا تو وہ ایک دوسرے میں گھس گھس کر یوں سنتے رہے جیسے صفدر انہیں الف لیلہ کی کوئی نئی کہانی سنا رہا ہے۔
صفدر کو الف لیلہ کی بہت سی کہانیں یاد تھیں۔یہی وجہ تھی کہ محلے کے سب لڑکے اس کے دوست تھے۔وہ ہفتے میں دو تین بار شام کا کھانا کھانے کے بعد صفدر کے کمرے میں جمع ہوجاتے اور دیر تک اس سے کہانیاں سنتے سنتے اونگھ جاتے،لیکن سلیم آخر تک جاگتا رہتا۔اس دوستی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ صفدر کی امی سلیم کی بہت تعریف کرتی تھیں۔وہ جانتی تھیں کہ جب سلیم کی بیوہ امی ردی اخباروں اور کاپیوں کے لفافے بناتی ہیں تو سلیم ان کا ہاتھ بٹاتا ہے۔اور پھر انہیں بازار میں بیچ آتا ہے۔صفدر کی امی کہتی تھیں کہ سلیم کی جگہ اگر کوئی اور لڑکا ہوتا تو وہ اپنی غریبی کی شرم کے مارے صفدر جیسے کھاتے پیتے بچوں کے ساتھ مل بیٹھنے سے گھبراتا یا زیادہ سے زیادہ محلے کا سب سے شریر بچہ ہوتا۔ہر راہ چلتے پر روڑے اچھالتا۔گِالیاں بکتا اور پٹتا رہتا مگر سلیم نہ تو اپنی غریبی سے شرمندہ تھا اور نہ شریر تھا۔ماں بیٹا ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے اور انہیں کسی سے شکایت نہ تھی۔صفدر کی امی کہتی تھیں کہ غریب گھروں میں پلنے والے ایسے لڑکے جب بڑے ہوتے ہیں تو بہت بڑے آدمی بنتے ہیں۔صفدر اس لیے سلیم کو بہت چاہتا تھا۔
جو ہرآباد سے واپس آتے ہی اپنے گھر والوں سے ملنے کے بعد صفدر نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ وہ سیدھا سلیم کے پاس گیا۔ سلیم نے صفدر کو دیکھا تو لفافے بناتے بناتے اچھل پڑا اور صفدر سے اپنا لئی بھرا ہاتھ ملانے کے بعد سب سے پہلا سوال یہ پوچھا ”کیوں صفدر!وہاں جو ہرآباد میں رات کو تمہارے پاس پریاں آتی تھیں؟“
اور جب صفدر نے اسے بتایا کہ ”ہاں یار!وہاں بھی وہی پریاں آتی تھیں۔“ تو سلیم اپنی امّی کے سامنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھکتے ہوئے بولا۔ ”دیکھا امی!میں نہ کہتا تھا؟صفدر تو سچ مچ پریاں دیکھتا ہے۔“
سلیم کی امی ہنسنے لگیں اور انہوں نے کہا۔”صفدر الف لیلہ کی کہانیاں پڑھنے سننے کے بعد رات کو پریاں نہیں دیکھے گا تو اور کیا دیکھے گا۔میں تو خدا کا شکر کرتی ہوں کہ اسے پریاں ہی نظر آتی ہیں،جن بھوت نظر نہیں آتے۔“
صفدر نے سلیم کو بار بار بتایا تھا اور اس روز بھی بتایا کہ ”بھئی سلیم!سچ کہتا ہوں میں جب سونے کے لئے آنکھیں بند کرتا ہوں تو پہلے میرے چاروں طرف ننھے ننھے،بالکل ذراذرا سے جوار کے دانوں کے سے گھنگرو بجتے ہیں،پھر چھوٹی چھوٹی میری چھنگلیا اتنی،رنگ رنگ کی پریاں جانے کہاں سے نکل پڑتی ہیں۔چھنک چھنک ناچتی ہوئی وہ ایک دائرہ بنا کر میرے پاس آتی ہیں تو میں دیکھتا ہوں کہ کسی نے گلاب کی پتیوں کا لباس پہن رکھا ہے۔کسی کے گلے میں موتیے کی پتیوں کا دوپٹا لٹک رہا ہے۔کسی نے گیندے کے پھولوں کا غرارہ پہن رکھا ہے اور کسی کے ہاتھ میں نرگس کے پھولوں کی چھڑی ہے۔ان میں سے ایک پری کنول کے پھول میں کھڑی میرے پاس آتی ہے تو سب پریاں میرے پاس آجاتی ہیں۔کوئی اپنے پروں سے مجھے پنکھا جھلتی ہے،کوئی میری کنپٹیوں کو سہلاتی ہے۔بہت سی پریاں غوطہ مار کر میرے بالوں میں سے آرپار نکل جاتی ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے میری امی میرے بالوں میں ہولے ہولے کنگھی کر رہی ہیں۔یہ سب کچھ بھی ہوتا رہتا ہے اور ساتھ ہی یہ پریاں مل کر گاتی بھی رہتی ہیں اور اپنے پروں کو تالیوں کی طرح بجاتی ہیں۔پھر میں سوجاتا ہوں مگر رات بھر میرے کانوں میں ان کی لوری کی آواز آتی رہتی ہے۔ کئی بار میں بستر پر اٹھ بیٹھتا ہوں اور امی کو جگا کر کہتا ہوں کہ”امی جی!ذرا کان لگا کر سنیے تو پریاں گارہی ہیں کہ نہیں؟“پر امی کو کچھ بھی سنائی نہیں دیتا۔بڑی عمر کے لوگ ویسے بھی کچھ اونچا سننے لگتے ہیں اور پھر میری پریوں کی آواز بھی تو بہت باریک ہوتی ہے۔
صفدر کے ابا تو اپنے بیٹے کی یہ باتیں سن سن کر ڈاکٹر تک سے مشورہ کر آئے تھے اور وہ اسے پر سکون نیند کی گولیاں بھی کھلا رہے تھے۔ مگر پچھلے چند مہینوں سے پریوں نے صفدر کے یہاں آنے میں ایک دن کا بھی ناغہ نہیں کیا تھا۔حدیہ ہے کہ انہوں نے جوہر آباد میں بھی اسکا ساتھ نہ چھوڑا۔
صفدر جب سلیم کو ساتھ لے کر گھر پہنچا تو وہاں محلے کے سب ہمجولی جمع تھے۔صفدر نے فوراً انہیں اپنے سفر کی کہانی سنانا شروع کر دی:
”راوی پار کر کے ہماری بس ضلع شیخو پورہ میں داخل ہوگئی۔ یہاں سڑک کے دونوں طرف کھیت ہی کھیت تھے جن کے رنگ بڑے عجیب تھے۔کوئی گہرا سبز،کوئی ہلکا سبز،کوئی زرد اور کوئی بھورا۔جگہ جگہ ان کھیتوں میں گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جن میں مٹی کے گھر وندے کھلونوں کی طرح سجے ہوئے تھے۔بڑ کے بڑے بڑے درختوں تلے لوگ جمع تھے اور بچے بڑ کی داڑھی سے لٹکے جھول رہے تھے۔شیخو پورہ میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں دور شیخو پورہ کا قلعہ نظر آیا۔اونچا سا اور کالا سا۔بس تیزی سے شیخو پورہ کی طرف جارہی تھی پر مجھے ایسا لگتا تھا کہ قلعہ شیخو پورہ تیزی سے ہماری بس کی طرف آرہا ہے۔شیخو پورہ سے نکل کر ذرا سا آگے بڑھے تو دائیں طرف ہمیں ہرن مینار نظر آیا اور وہ بارہ دری بھی جو کہتے ہیں کہ تالاب کے بالکل بیچ میں بنی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں یہاں جہانگیر بادشاہ ہرنوں کا شکار کھیلتا تھا۔ آج کل یہاں لوگ مچھلی کا شکار کھیلتے ہیں۔اباجی سے کہہ کر کبھی ہم بھی چلیں گے۔“
پھر صفدر چوہڑ کا نہ،فاروق آباد،خانقاہ ڈوگراں اور چنیوٹ میں سے گزرتاہوا دریائے چناب کے قریب پہنچا تو بولا۔”یہاں چناب دو شاخوں میں بٹ جاتا ہے اور دونوں چنابوں پر دو پلیں گزرتی ہیں اور اوپر سے بسیں۔ میں نے اٹک کا پرانا پل بھی دیکھا تھا۔ دریائے سندھ پر۔ وہاں ریل گاڑیاں اوپر سے گزرتی تھیں اور بسیں نیچے سے۔ جوہر آباد جاتے ہوئے دریائے جہلم پر جو پل ہے، وہ ان دونوں سے مختلف ہے۔ اس کے دائیں بائیں بسیں گزرتی ہیں اور بیچ میں سے ریل گاڑیاں۔ ہماری بس جب چناب کے دوسرے پل پر سے گزری تو میں نے دیکھا کہ کچھ فاصلے پر جاکر دونوں چناب مل کر پھر ایک چناب بن گئے ہیں جیسے سلیم ایک بار مجھ سے روٹھ گیا تھا اور پھر من گیا تھا۔“
لڑکے ہنس چکے تو صفدر نے اپنی بس ربوہ،لالیاں اور کرانہ کی پہاڑیوں میں سے گزاری۔ وہاں سے وہ سرگودھا پہنچا اور پھر خوشاب کی سڑک پر ہولیا۔ اس نے دریائے جہلم کا لمبا پل پارکیا اور خوشاب پہنچا۔وہاں سے دس منٹ میں جوہرآباد پہنچ گیا۔
آخر میں صفدر نے لڑکوں کو بتایا کہ ”جوہر آباد کے پاس جو پرانا شہر ہے نا’خوشاب‘ نام کا۔ جس میں سے ہم دریائے جہلم کا لمبا پُل پار کر کے گزرے تھے۔وہاں کی ایک مٹھائی بہت مشہور ہے جسے ’پتیسا‘ کہتے ہیں۔ویسے تو پتیسا لاہور میں بھی ملتا ہے پر جو پتیسا چچا جان نے خوشاب سے منگا کر کھلایا۔اس میں نہ جانے کیا جادو تھا کہ صبح کو کھایا تو شام تک زبان چٹخارے لیتی رہی۔کہتے ہیں اسکا نسخہ کسی بزرگ کو پریوں نے بتایا تھا۔ جتنا کھا لو اتنا ہی اور بھی کھانے کو جی چاہتا ہے۔ دنیامیں صرف یہی ایک چیز ہے جسے خوب ٹھونس کے کھالو تو جب بھی پیٹ نہیں بھرے گا۔واپسی پر جب ہماری بس وہاں سے گزری تو بارش ہورہی تھی اور خوانچے والوں کا دور تک پتہ نہ تھا ورنہ میں تم سب کے لئے ضرور لاتا۔“
بعد میں صفدر نے سلیم سے کہا تھا کہ ”میں چچا جان کو لکھوں گا کہ اب کے جب بھی آئیے گا۔یہ پیتسا ضرور لائیے گا۔تب میں تمہیں کھلاؤں گا۔وعدہ رہا۔“
دو تین مہینے گزر گئے۔پریاں ہر رات صفدر کے پاس آتی رہیں۔پھر ایک رات کو جب پریاں غوطے مار مار کر اس کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں اور لوریاں گا رہی تھیں تو جوہرآباد سے صفدر کے چچا آنکلے۔ انہوں نے سوتے ہوئے صفدر کے سر پر ہاتھ پھیرا تو صفدر تڑپ کر جاگ اٹھا۔ پھر اپنے چچا جان کو دیکھ کر مسکرانے لگا اور ایک دم بولا۔”کیوں چچا جان!میرا پتیسا لائے؟“
چچا بولے۔ ”مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ صفدر مجھ سے پہلا سوال یہی پوچھے گا۔
بھئی!بات یہ ہے صفدر بیٹا کہ بس خوشاب میں کوئی دس منٹ تک رکی رہی اور میں ایک دوست کے ساتھ باتوں میں لگا رہا۔پھر جب بس چلنے لگی تو سامنے مجھے پتیسے والا نظر آیا اور تب مجھے تمہاری فرمائش یاد آئی۔بس چل رہی تھی تو میں نے جلدی سے جیب میں سے کچھ رقم نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھ دی اور اس نے بھاگ کر مجھے پتیسے کی دو ٹکیاں پکڑا دیں۔سارے راستے سوچتا رہا کہ صفدر کو یہ دو ٹکیاں دیتے ہوئے مجھے شرم نہ آئے گی؟اس لئے بار بار یہی چاہا کہ اس شرمندگی سے بچنے کے لئے دونوں ٹکیاں خود کھا لوں۔!“
”تو پھر کیا کھالیں چچا جان؟“ صفدرنے فریاد کی اور پلنگ پر سے کود کر چچا کے پاس آگیا۔چچا بولے۔”نہیں بھئی!کھالیتا تو ہضم کیسے کرتا؟دونوں لے آیا ہوں۔یہ لے!ہاں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اب کے آؤں گا تو بہت سا پتیسا لاؤں گا ورنہ نہیں آؤں گا۔وعدہ رہا۔“
صفدر نے کاغذ میں لپٹی ہوئی دونوں ٹکیاں چچا کے ہاتھ سے جھپٹ لیں اور انہیں اپنے تکیے کے نیچے رکھ کر چپکے سے پلنگ پر لیٹ گیا۔اس نے فیصلہ کر لیا کہ ایک ٹکیا تو خیر وہ خود کھائے گا مگر دوسری پوری ٹکیا صبح سویرے سلیم کو دے آئے گا۔یہی سوچتا ہوا وہ سو گیا اور پریاں اس کے چاروں طرف ناچنے اور گانے لگیں۔مگر آدھی رات کو اس نے کروٹ بدلی تو پتیسے کی خوشبو سے اس کی آنکھیں کھیل گئیں۔اٹھا اور اپنے حصے کی ٹکیا مزے لے لے کر کھانے لگا۔پھر وہ ہونٹ پونچھ کر سو گیااور پریاں پھر چاروں طرف سے امڈ آئیں۔صبح کو اٹھا تواس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ پتیسے کی ٹکیا اٹھائی اور اسلم کے گھر کی طرف بھاگا۔حویلی سے نکل کر گلی میں آیا تو اس کی زبان میں کچھ ایسی چُل سی ہونے لگی،جیسے اس نے ذرا سا پتیسا نہ چکھا تو اس کی زبان اینٹھ جائے گی اور اس میں گرہ پڑ جائے گی۔پھر اس نے سوچا : ”اگر میں نے اس ٹکیا میں سے ذرا سا پتیسا کھالیا تو کیا ہوگا؟کچھ نہیں ہوگا۔ سلیم اتنا غریب لڑکا ہے کہ اس نے ایسا پتیسا چکھا تو کیا دیکھا بھی نہ ہوگا۔ ایسے لڑکوں کے لئے تو پتیسے کا ذرا سا ناخن بھر کا ٹکڑا بھی ایک نعمت سے کم نہیں ہوگا اور میں تو اسے پوری آدھی ٹکیا دوں گا۔“یوں اپنے آپ کو سمجھا کر اس نے وہیں گلی میں دیوار سے لگ کر آدھی ٹکیاں کھالی اور باقی آدھی کو بھی کھالینے کے لئے اپنے آپ کو سمجھانے کی تیاری کررہا تھا کہ اسے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی اور وہ سلیم کے گھر کی طرف بھاگ نکلا اور دروازے میں داخل ہوتے ہی پکارا ”لو بھئی سلیم! خوشاب کا پتیسا کھاؤ۔“
سلیم بھاگ بھاگ آیا،کاغذ ہٹا کر پتیسے کو دیکھا اور پھر آدھی ٹکیا کا ایک کونا دانتوں سے کاٹ کر ایک دو بار منہ ہلا چکا تو بولا۔”ہائے امی جی! ادھر تو آئیے۔قسم سے ایسا پتیسا ہے کہ لاجواب پتیسا ہے۔ شیرینی میرے کانوں سے نکلی جارہی ہے۔اہا ھا ھا!لیجئے امی جان!ذرا سا آپ بھی چکھیے!“
سلیم کی امی نے پتیسا چکھا تو بولیں ”اپنے وقت میں قسم قسم کی مٹھائی کھائی ہے پر یہ پتیسا تو کسی دوسری دنیا کی چیز معلوم ہوتا ہے۔ ہائے بیٹا! تو تو سارا خود ہی کھائے جارہا ہے۔آدھا صفدر کو بھی دے نا!“
”میں نے تو رات ہی اپنے حِصّے کی آدھی ٹکیا کھالی تھی۔“صفدر بولا مگر یوں کہ اسکے پسینے چھوٹ گئے۔
سلیم نے حیران ہوکر صفدر کو دیکھتے ہوئے پوچھا ”تو کیا رات کا پتیسا اب تک تمہارے منہ سے چھٹا ہوا ہے؟“
صفدر نے گھبرا کر اپنے ہونٹوں پر یوں ہاتھ مارا جیسے تھپڑ مارا ہے۔پھر وہ جھینپ کر مسکرانے لگا اور سلیم ہنسنے لگا۔
وہ دن بھر سلیم سے کتراتا پھرا۔اس نے کھانا بھی جی سے نہ کھایا۔چچا کے پاس بھی بہت کم بیٹھا اور رات کو جلدی سے پلنگ پر لیٹ گیا۔اس نے آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ اسے چاروں طرف بڑی ڈراؤنی بھنبھنا ہٹ کی آوازیں سنائی دیں۔پھر جانے کہا ں کہاں سے پیلی پیلی بھڑیں بھنبھناتی ہوئی اس کی طرف بڑھیں اور اس کی آنکھوں کے پاس جمع ہو کر اسے اپنے کالے کالے لمبے لمبے ڈنک نکال کر دکھانے لگیں۔پھر سب ایک ساتھ بڑھیں اور انہوں نے اس کے ہونٹوں میں اپنے ڈنک چبھودیے۔صفدر اپنے ہونٹوں پر زور زور سے ہاتھ مارتا ہوا بلبلا کر اٹھا تو اس کی امی اس کی طرف بھاگیں۔”کیا ہوا میرے لال کو؟“
صفدر چلّا یا۔ ”بھڑیں امی!بھڑیں!اتنی بہت سی۔وہ میرے ہونٹوں کو کوٹ رہی ہیں۔“
سارا گھر جمع ہوگیا۔وہاں بھڑ کیا کہیں ایک چونٹی تک کا نشان نہیں تھا۔اس پر صفدر کے ابا بولے۔”اس لڑکے کا تو دماغ چل گیا ہے۔ پچھلے ایک سال سے اسے پریاں گانا سنارہی تھیں۔آج بِھڑیں کاٹنے آگئیں۔اس کے سر میں ضرور کوئی فتور ہے۔سوجا بیٹا۔سوجا!خوابوں سے نہیں ڈرتے۔خوابوں میں تو لوگوں کو ہوائی جہاز کی طرح اڑتے ہوئے اونٹ بھی نظرآجاتے ہیں،سوجا!“
صفدر لیٹ گیا اور اس کی امی اسے تھپکنے لگیں مگر اِدھر اس کی آنکھیں بند ہوتیں،ادھر بھنبھناہٹ شروع ہوجاتی اور بھڑیں اس کے ہونٹوں پر ہلا بول دیتیں۔اس رات وہ کئی دفعہ چیخ چیخ کر جاگا۔ سارے گھر کی نیند حرام ہوگئی۔ اس کی امی آیت ا لکرسی پڑھ پڑھ کر اس پر پھونکتی رہیں۔ پھر پچھلے پہر جب وہ اپنی امی کے زانو پر صر رکھ کر سوگیا۔اور بھڑیں ایک بار پھر اس کی طرف بڑھیں تو اچانک ایک طرف سے کنول کے پھول میں کھڑی ہوئی پری آئی اور اسے دیکھتے ہی ساری بھڑیں غائب ہو گئیں۔پھر وہ پری رونے لگی اور ہچکیوں میں بولی۔ ”میں اس لئے رورہی ہوں کہ آج ہم پریاں اتنا پیارا دوست کھو بیٹھی ہیں۔ہم پریاں تو صرف اچھے بچوں کی دوست ہوتی ہیں نا صفدر میاں اور اچھے بچے وہ ہوتے ہیں جو سچے ہوتے ہیں۔نڈر ہوتے ہیں۔ایمان دار ہوتے ہیں۔انصاف کرتے ہیں۔جھوٹ نہیں بولتے اور دھوکا نہیں دیتے۔تم نے صفدر میاں!ایک ذرا سے پتیسے کی خاطر اپنے اتنے پیارے دوست سے جھوٹ بولا اور صرف اس لئے بولا کہ وہ غریب ہے۔ تمہارے خیال میں غریب بچے کے لئے پتیسے کی صرف آدھی ٹکیہ ہی کافی ہوتی ہے۔اور تم ڈیڑھ ٹکیہ ڈکار کر بھی بھوکے کے بھوکے ہی رہتے ہو۔پھر تم اسے بتاتے ہوکہ تمہارے چچا جان تو پتیسے کی صرف ایک ہی ٹکیہ لائے تھے۔کیا یہ سچائی ہے؟کیا یہ بہادری ہے؟کیا یہ ایمانداری ہے؟کیا یہ انصاف ہے؟کیا یہ جھوٹ نہیں ہے؟کیا یہ دھوکا نہیں ہے ؟پھر ہماری تمہاری دوستی کیسے نبھے؟پریوں نے آج تم سے کٹی کر لی تھی اور وہ بھڑیں بن کر تم سے اپنی دوستی کا بدلہ لینے آئی تھیں پر اب تم اپنے کئے پر پچھتا رہے ہو۔اس لئے میں انہیں منائے لاتی ہوں۔لیکن یادرکھو اب یہ بات عمر بھر نہ بھولنا کہ انسان امیر غریب نہیں ہوتا۔انسان تو صرف انسان ہوتا ہے جس طرح ہم پریاں صرف پریاں ہوتی ہیں۔ آجاؤ بھئی پریو! پریوں کے روپ میں آجاؤ۔“