میں نے نیولے پالے
مصنف: بورس زتخوف
مترجم: محمد یونس حسرت
۔۔۔۔۔
اس روسی کہانی کا مصنف’بورس زتخوف‘ ہر فن مولا تھا۔وہ موسیقار بھی تھا اور فوٹو گرافر بھی۔بحری جہاز کا کپتان بھی تھااور ایک ماہر انجینئر بھی۔وہ کیمیا دان، جہاز ساز اور نہ جانے کیا کیا کچھ تھا۔مگر سمندر سے اس کی دل چسپی اس کی تمام دل چسپیوں پر بھاری تھی۔اس نے بچوں کے لیے جو کہانیاں لکھی ہیں، ان میں اس نے بحری سفرکا حال آسان الفاظ اور دل چسپ پیرائے میں بیان کیا ہے۔اس کی یہ کہانی انہی کہانیوں میں سے ایک ہے جسے آپ کے پسندیدہ ادیب ’محمد یونس حسرت‘ نے اردو میں منتقل کیا ہے۔
۔۔۔۔۔
مجھے نیولے پالنے کا پچپن ہی سے شوق تھا۔ قسمت کی خوبی دیکھئے کہ میرا یہ شوق اس وقت پورا ہوا جب ہمارا جہاز ملکوں ملکوں کا سفر کرتا ہوا بحر ہند کے ایک جزیرہ سیلون(سری لنکا) کے ساحل پر لنگرانداز ہوا۔میں ابھی جہاز سے اترنے کی سوچ ہی رہاتھا کہ ایک بوڑھا جہاز پر آیا۔ایک شور سا مچ گیا اور سارے جہازی اس بوڑھے کے گرد جمع ہو گئے۔ اس شور کے درمیان”نیولے“ کا لفظ میرے کان میں پڑا تو میں دوسرے جہازیوں کو ایک طرف ہٹاتے ہوئے اس بوڑھے تک جا پہنچا۔ بوڑھے کے ہا تھ میں ایک پنجرا تھا اور اس پنجرے میں ایک نہیں، دو نیولے تھے۔میں نے دونوں نیولے پنجرے سمیت منہ مانگی قیمت پر خرید لیے۔میں اتنا خوش تھا کہ مجھے یہ پوچھنے کا بھی خیال نہ رہا کہ یہ نیولے پالتو ہیں یاجنگلی، ان کی خوراک کیا ہے اور یہ کاٹتے تو نہیں۔جب میرے ہوش ذرا ٹھکانے آئے تو اس وقت وہ بوڑھا جا چکا تھا۔
میں نیولوں کا پنجرا تھامے اپنے کیبن میں آیااور ساری باتیں خود معلوم کرنے کا فیصلہ کیا۔میں نے پنجرے کی سلاخوں میں سے اپنی انگلی اندر ڈالی تو ایک نیولے کے نوکیلے ناخنوں والاچھوٹا سا پنجہ میری انگلی کی طرف بڑھا۔مگر اسے کاٹنے کی بجائے اس سے کھیلنے لگا۔دوسرا نیولا پنجرے کے ایک کونے میں بیٹھا میری طرف شک بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔
میں نے اس نیولے کو پیار کرنے کے ارادے سے پنجرے کا دروازہ ذرا سا کھولا تو وہ لپک کر باہر آگیا اور کیبن کے فرش پر ادھر ادھر دوڑنے لگا۔ادھر ادھر دوڑنے اور کونے کھدروں میں سونگھنے کے بعدوہ میرے ارد گرد چکر کاٹنے لگا۔میں اسے پکڑنے کے لیے جھکا تو وہ اچھل کر میری کلائی سے ہوتا ہوا میرے کندھے پر آگیا اور قلابازی لگا کراپنے پچھلے پنجوں پر سیدھاکھڑا ہو گیا۔دوسرے ہی لمحے وہ اچھل کر میرے گھٹنے پر آگیا۔وہاں اس نے پہلے تو اپنی لمبی سی دم ہوا میں بلند کی اور پھر اپنا سر پچھلے پنجوں میں چھپالیا۔با لکل ایسے جیسے کوئی بازی گر کرتب دیکھا رہا ہو۔صاف ظاہر تھا کہ وہ مجھے اپنا مالک سمجھتے ہوئے مانوس ہو گیا ہے۔ عین اسے لمحے میرے کیبن کے دروازے پر دستک ہوئی۔ہمیں وہ کام کرنا تھا جس کی خاطر ہمارا جہاز سیلون کے ساحل پر لنگر انداز ہوا تھا۔میں نے جلدی سے اس نیولے کو پنجرے میں بند کیااور کیبن سے باہر نکل آیا۔
ہمیں تقریباً پندرہ بھاری بھرکم درختوں کے لٹھے جہاز پر لدوانے تھے۔ان کی جڑیں اور شاخیں کاٹ دی گئی تھیں۔ یہ لٹھے اندر سے کھوکھلے اور خاصے موٹے تھے۔انہیں سیدھا جنگل سے جہاز پر لایا گیا تھا اس لیے وہ چھال سمیت تھے۔ان کے کھوکھلے حصے جو گلابی، سرخ یا گہرے سیاہ تھے، دیکھنے میں خاصے خوب صورت تھے۔ہم نے ان کو جہاز پر لدوایا اور مضبوط رسوں کے ساتھ عرشے سے باندھ دیا۔
کام ختم ہوا تو مجھے اپنے نیولوں کے کھانے پینے کی فکر ہوئی۔مجھے نیولوں کی خوراک کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا اور میرے ساتھی بھی اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔میں نے سوچا کہ دوچار چیزیں لے جانی چاہئیں۔اپنے آپ پتا چل جائے گا کہ نیولوں کو کون سی چیز چاہیے۔
پنجرے کا دروازہ کھلتے ہی دونوں نیولے ایک ساتھ باہر نکلے اور گوشت پر جھپٹ پڑے۔ تیز نوکیلے دانتوں سے گوشت کا صفایا کرنے کے بعد وہ دودھ کے پیالے کی طرف بڑھے۔ شڑپ شڑپ کرکے اس پیالے کو بھی منٹوں میں خالی کردیا۔روٹی کی طرف انہوں نے نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھامگر ایک ایک کیلا لے کر الگ الگ کونوں میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد کیبن میں صرف کیلوں کے چھلکے باقی رہ گئے۔ان کا گودا نیولوں کے پیٹ میں پہنچ چکا تھا۔
اس کے بعد سے میرا یہ معلوم ہو گیا کہ ڈھیر سارے کیلے ملا کر انہیں کیبن کی چھت سے لٹکا دیتا اور دونوں نیولے انہیں آرام سے کھاتے رہتے۔
ایک روز اس نیولے کو جو آتے ہی مجھ سے مانوس ہو گیا تھا، میں پنجرے سے نکال کر جہاز کے عرشے پر لے آیا۔عرشے پر آتے ہی وہ ادھر ادھر بھاگنے دوڑنے اور کونوں کھدروں کو سونگھنے لگا۔ہم نے چوہوں کا صفایا کرنے کے لیے ایک موٹا تازہ بلا پال رکھا تھا۔یہ بلا اپنے آپ کو جہاز کے عرشے کا مالک سمجھتا تھا۔ اس کے گلے میں پیتل کا ایک پٹا پڑا ہوا تھا اور وہ یہ پٹا گلے میں ڈالے عرشے پر یوں شان سے گھومتا تھا جیسے کوئی بادشاہ اپنے محل میں مٹر گشت کررہا ہو۔
اس روز بھی بلا جہاز کے باورچی خانے میں اپنا پیٹ بھرنے کے بعد مٹر گشت کے لیے جہاز کے عرشے پر آیا تو اس کی نظر نیولے پر پڑی جو لوہے کے ایک پائپ کے منہ کے قریب بیٹھا تھا۔بلا دبے پاؤں آگے بڑھا اور پائپ کے اوپر بیٹھ گیا تاکہ مناسب وقت پر نیولے پر جھپٹ سکے۔
مجھے فوراً احساس ہوا کہ کیا ہونے والا ہے، مگر اس سے پہلے کہ میں نیولے تک پہنچتا، وہ کچھ ہوگیا جس کا مجھے گمان تک نہ تھا۔بلے کی آمد سے باخبر ہو کر نیولے نے پہلے اپنا سر پچھلے پنجوں کے درمیان کیا، پھر دم سیدھی کرکے غراہٹ کی ایسی خوف ناک آواز نکالی کہ پائپ کے اوپر بیٹھاہوا ہٹا کٹا بلا فوراً دم دبا کر وہاں سے بھاگ گیا۔
اس کے بعد ہم نے عرشے پر، نیولے کی موجودگی میں، اس بلے کو کبھی نہیں دیکھا۔جہازیوں کے بلانے اور پُس پُس کرنے پر بھی وہ باورچی خانے سے باہر نہیں آتا تھا۔صرف رات کے وقت ہی جب نیولے پنجرے میں بند ہوتے، وہ ٹہلنے کے لیے عرشے پر آتا۔
ایک رات جہازیوں کے شور سے میری آنکھ کھل گئی، میں کیبن سے نکل کر عرشے پر پہنچا۔ معلوم ہوا کہ ایک پہرے دار پر ایک سانپ نے حملہ کیا تھا۔یہ سانپ درختوں کے ان کھوکھلے لٹھوں میں سے نکلا تھا جو عرشے پر لدے ہوئے تھے۔پہرے دار نے بھاگ کر بڑی مشکل سے جان بچائی۔
سانپ دوبارہ درختوں کے کھوکھلے لٹھوں میں جا چھپا تھا اور اب سارے جہازی حیرانی، پریشانی اور خوف کی تصویر بنے ہوئے تھے۔پہرے دار کے بیان کے مطابق سانپ کوئی ہاتھ بھر موٹا اور دس بارہ ہاتھ لمبا تھا۔وہ درختوں کے ان کھوکھلے تنوں سے نکل کرکسی بھی کیبن میں اور کسی بھی جہازی کے بستر میں گھس سکتا تھا۔
میں لپک کرواپس کیبن میں گیا اور وہاں سے نیولوں کا پنجرا اٹھا لایا۔
جہازیوں نے عرشے پر روشنی کر دی اور میں نے لٹھوں کے قریب جا کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔دروازہ کھلتے ہی دونوں نیولے آگے پیچھے پنجرے سے نکلے، ایک لمحے کے لیے ذرا رک کر ادھر ادھر سونگھا اور پھر ان بھاری بھرکم لٹھوں میں گھس گئے۔
ہم سب چپ چاپ اور دم سادھے کھڑے تھے۔ وہی پہر دارجس پر سانپ نے حملہ کیا تھا، ایک کلہاڑا لے آیا تھا۔خاصی دیر بعد درختوں کے لٹھوں سے ایک دم باہر کو سرکتی نظر آئی۔ ایک شخص چلایا۔ ”وہ دیکھو! وہ رہی دم!“
پہرے دار آگے بڑھ کر کلہاڑے سے وار کرنے ہی لگا تھا کہ میں نے اس کا بازو پکڑ لیا۔وہ دم سانپ کی نہیں، نیولے کی تھی۔دم کبھی باہر آتی اور کبھی اندر چلی جاتی۔ پھر دو ننھے ننھے پنجے نمودار ہوئے۔نیولا لٹھے پراپنے پنجے جمانے کی کوشش کر رہا تھا اور کوئی چیز اسے اندر کی طرف کھینچ رہی تھی۔
آخر کار نیولے نے بل کھاتے ہوئے لٹھے پر اپنے پنجے مضبوطی سے جمالیے اور ایک جھٹکے کے ساتھ اپنے آپ کو پیچھے کی طرف کھینچا۔یوں وہ سانپ کی دم بھی باہر کی طرف چلی آئی جسے نیولے نے اپنے نوکیلے دانتوں میں دبا رکھا تھا۔
سانپ کی دم زور سے ہلی۔اس نے نیولے کو ہوا میں اچھال دیا اور وہ عرشے سے جا ٹکرایا۔ مگر یہ فوراً ہی اٹھا اور سانپ کی دم کو پھر اپنے نوکیلے دانتوں میں دبا لیا اور اسے باہر کی طرف کھینچنے لگا۔سانپ سمٹ کر نیولے کو د وبارہ لٹھوں کے اندر لے جانے کی کوشش کرنے لگا مگر نیولے نے لٹھے پر اپنے پنجے مضبوطی سے جمالیے تھے۔وہ کھینچ کھینچ کر سانپ کو باہرنکالنے لگا۔سانپ اگرچہ ہاتھ بھر موٹا تو نہیں تھا مگر اس کی موٹا ئی تین چار انگل سے کم بھی نہیں تھی۔ وہ اپنی دم کو بار بار کوڑے کی طرح عرشے پر مارتا تھا اور اس کے ساتھ نیولے کو بھی ادھر ادھر اچھال دیتا تھا۔مگر نیولے نے اپنے دانت سانپ کی دم میں مضبوطی سے گاڑ رکھے تھے۔
اب ہم سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھیں سانپ کا سر کب اور کس حال میں برآمد ہوتا ہے؟ مگر کافی انتظار کے بعد جب سانپ کی بجائے دوسرے نیولے کا سر باہر آیا تو ہم حیران رہ گئے۔لیکن جلد ہی ہماری یہ حیرانی بھی دور ہوگئی۔دوسرے نیولے نے سانپ کی گردن میں اپنے دانت گاڑ رکھے تھے۔سانپ بل کھاکھار اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کررہا تھا اور اس کوشش میں دونوں نیولوں کو ادھر ادھر پٹخنیاں بھی دے رہا تھا مگر نیولے جونکوں کی طرح اسے چمٹے ہوئے تھے۔
اب تک ہم خاموشی سے یہ سار ا تماشا دیکھتے آئے تھے۔ سانپ کا سر باہر آیا اور اس نے اپنے آپ کو نیولوں کی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کی تو کئی ایک جہازیوں پر بہادری کا دورہ پڑگیا اور جو کچھ جس کے ہاتھ لگا، لے کر سانپ پر پل پڑے۔
مجھے یہ ڈر تھا کہ جہازیوں کہ اس بہادری سے نیولوں کے چوٹ نہ لگ جائے۔میں نے آگے بڑھ کر اس نیولے کو الگ کر لیا جس نے سانپ کی دم پکڑ رکھی تھی۔میر ی اس حرکت پر وہ اتنا غضب ناک ہوا کہ میری انگلی پر کاٹ کھایا۔دوسرے نیولے کو ایک اور جہازی نے بڑی مشکل سے سانپ کی گردن سے الگ کیا۔ میں نے انہیں دوبارہ پنجرے میں ڈالا تو وہ یوں اس کی سلاخوں سے ٹکریں مارنے لگے جیسے پنجرے کو توڑ کر رکھ دیں گے۔میں نے انہیں کیبن میں لاکر گوشت کا ایک بڑا سا ٹکڑا دیا مگر انہو ں نے اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔
بہر حال اس واقعے کے بعد دونوں نیولے تمام جہازیوں کے لاڈلے بن گئے اور ہر کوئی اپنے کھانے کے بچے کھچے حصے سے ان کی تواضع کرنے لگا۔جب ہمارا سفر ختم ہوا تو دونوں نیولے نہ صرف مجھ سے بلکہ سارے جہازیوں سے پورے طور پر مانوس ہو چکے تھے۔سفر کے اختتام پر میں ان دونوں کو اپنے گھر لے آیااور انہوں نے جلد ہی میرے خاندان کے تمام افراد کو اسی طرح اپنا گرویدہ بنا لیا جس طرح تمام جہازیوں کو بنا لیا تھا۔