جب درخت جھک گیا
علی حیدر
…….
حضرت ابوموسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ حضور سروردو عالم کی نبوت سے پہلے آپ کے چچا ابوطالب قریش کے کچھ بزرگوں کے ساتھ شام کے سفرپرروانہ ہوئے۔ حضور بھی آپ کے ساتھ تھے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک بارہ سال تھی۔ جب شام کے علاقے میں پہنچے تووہاں ایک عیسائی راہب (کی خانقاہ ) کے پاس انھوں نے پڑاؤ ڈالا۔ اس راہب کا نام بحیرا تھا۔
قریش کے لوگ اپنے شام کے سفروں میں پہلے بھی اس راہب کے پاس سے گزراکرتے تھے ، لیکن وہ پہلے کبھی نہ تواپنی خانقاہ سے نکلتاتھا اورنہ کبھی ان کی طرف کوئی توجہ دیتاتھا، لیکن اس مرتبہ جب انھوں نے پڑاؤ ڈالا تویہ راہب آکر ان کے درمیان گھس گیااورحضورنبی کریم کادست مبارک پکڑ کرکہنے لگا:
” یہ سارے جہانوں کے سردار ہیں ۔یہ رب العالمین کے پیغمبر ہیں جن کواللہ تعالی رحمة للعالمین بنا کربھیجے گا۔ “
قریش کے لوگوں نے پوچھا کہ تمھیں کیسے پتا؟
راہب نے کہاکہ جب تم لوگ سامنے کی گھاٹی کے سامنے آئے توہردرخت اورپتھر نے انھیں سجدہ کیااور درخت اور پتھر نبی کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے اورمیں انھیں مہر نبوت کے ذریعے پہچان رہاہوں جو ان کے مونڈھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی طرح موجود ہے ۔ پھراس نے قافلے والوں کے لیے کھاناتیار کیا ۔
ترمذی کی روایت میں ہے کہ وہ کھانا وہیں درخت کے پاس لے کرآیا۔اس وقت حضور سروردوعالم اونٹوں کوچرانے گئے ہوئے تھے، جب واپس تشریف لائے توقافلے کے دوسرے لوگ درخت کے سائے میں بیٹھ چکے تھے اور اب سائے میں بیٹھنے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی، لیکن حضور سروردوعالم تشریف لائے تودرختوں کی شاخوں نے جھک کرآپ پرسایہ کردیا۔ اس پرراہب نے لوگوں کو متوجہ کرکے کہا:”دیکھو درخت اُن پرجھک کرسایہ کررہاہے۔“
اس کے بعد اس نے پوچھاکہ اُن کے سرپرست کون ہیں ؟
لوگوں نے بتایا کہ ابوطالب ہیں۔ راہب نے ابوطالب سے پرزور مطالبہ کیاکہ آپ انھیں آگے لے کرنہ جائیں۔ کیوں کہ روم کے لوگ انھیں پہچان لیں گے تو انھیں قتل کردیں گے۔(مسند بزار)
یہ جگہ کو ن سی تھی جہاں یہ درخت واقع تھا؟
اس کے بارے میں اردن کے بادشاہ کی طرف سے شہزادہ غازی کو یہ کام شروع کیا گیا کہ اردن میںپائے جانے والی اُن تاریخی یادگاروں کی تحقیق کریں، جن کاتعلق حضور اقدس یاآپ کے صحابہ کرام سے ہو۔ چناں چہ تحقیق کرنے والوں نے اس سلسلے میں ان وثائق کی چھان بین شروع کی جوحکومت کے پاس محفوظ تھے۔
ان میںانھیں اِس درخت کاذکرملاجس کے نیچے حضور اقدس نے قیام فرمایاتھا اوریہ کہ وہ درخت ابھی تک زندہ ہے۔ وثائق کی رہنمائی سے انھوں نے اس کی تلاش شروع کی تو انھیں یہ عجیب وغریب درخت دریافت ہواجوسینکڑوں مربع کلو میٹر میں پھیلے ہوئے صحراکے درمیان تنہا زندہ اورتوانا درخت تھا ۔
اس درخت سے کچھ فاصلے پرمحققین کو ایک عمارت کے کھنڈر بھی نظرآئے جس کے بارے میں یہ امکان تھاکہ شایدیہ بحیراراہب کی خانقاہ ہے ۔ انھوں نے آس پاس رہنے والے بدوؤں سے سے تحقیق کی تو انھوں نے بتایا کہ ہمارے خاندانوں میں یہ بات تواترکی حد تک مشہور ہے کہ اس درخت کے نیچے حضور اقدس نے قیام فرمایاتھا۔
شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں کہ یہ بات تووہاں جاکر بالکل واضح طورپر سمجھ آتی ہے کہ یہ کوئی غیرمعمولی درخت ہے۔ اس لیے کہ سینکڑوں مربع کلو میٹردورتک نہ کسی درخت کانام ونشان ہے اورنہ وہاں تک پانی پہنچنے کاکوئی راستہ نظرآتاہے ۔اس لحاظ سے یہ بات کوئی بعید یاتعجب خیز نہیں ہے کہ اس درخت سے چونکہ حضور اقدس کاایک معجزہ ظاہر ہواتھا اور اس کی بنا پربحیرا راہب کو آپ میں خاتم الانبیاءکی علامتیں نظرآئیں تھیں، اس لیے اللہ ربّ العزت نے اسے معجزاتی طور باقی رکھا ہو۔ بالخصوص جب کہ اس درخت سے تقریباً سومیٹر کے فاصلے پرایک عمارت کے کھنڈربھی موجود ہیں، جن کارخ اسی درخت کی طرف ہے۔
یہ جگہ اسی شاہراہ کے قریب واقع ہے جواُس زمانے میں تجارتی قافلے حجاز سے شام کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس سینکڑوں مربع کلومیٹر رقبے میں پھیلے بے آب وگیاہ صحرا میں تنہااِس درخت کا ہونا اور زندگی سے بھرپور رہنایقینا ایک غیرمعمولی بات ہے۔درخت کی دورتک پھیلی ہوئی جڑیں، اس کا غیر معمولی پھیلاؤ اور گھنا پن اس کی قدامت کی واضح علامت ہیں۔ یہ ایک پستے کادرخت ہے اورشہزادہ غازی نے بتایاکہ اس پراب بھی پستہ آتاہے اور میں نے کھایابھی ہے۔
شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی مدظلہ لکھتے ہیں کہ اس درخت کی چھاؤں یوں بھی بڑی خوشگوار ہے، لیکن جب چشمِ تصور نے یہاں محبوب دل نوازکو جلوہ افروز دیکھا تو اس تصور نے اس چھاؤں میں وہ مٹھاس پیداکردی جوکسی اورسائے میں حاصل نہیں ہوسکتی۔
اللّٰھم صل علی سیّدنا ومولانا محمد وعلی آلہ و اصحابہ اجمعین۔
٭٭٭