skip to Main Content

پتھر میں پھول

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پرستان کی تمام باسی نہایت امن و آشتی اور خوشی خوشی رہ رہے تھے کہ اچانک ایک جادوگرنی کہیں سے پرستان میں رہنے کے لیے آ گئی۔اِس جادوگرنی کا نام شگفتہ تھا۔ اُس کی آمد سے پرستان کے تمام رہنے والے پریشانی میں مبتلا ہو گئے کیونکہ پریاں ہمیشہ جادوگرنیوں سے ڈرتی ہیں۔ صرف اِس جادوگرنی کی باچھیں اِس لیے کھل رہی تھیں کیونکہ اِسے معلوم تھا کہ پریاں اُس سے ڈرتی ہیں۔ لیکن اُسے اِس کی بالکل پرواہ نہیں تھی کیونکہ وہ تو یہاں مستقل رہنے کے لیے آئی تھی۔ اُس نے قریبی پہاڑی پر رہنے کے لیے ایک گھر کا انتخاب کیا۔ جس کی چھتیں ٹیڑھی میڑھی تھیں۔ وہ وہاں دوسرے باسیوں سے دور تنہا رہ سکتی تھی۔ اُس کے گھر کے باہر ایک بہت خوبصورت باغیچہ بنا ہوا تھا۔ جو پری زاد پھولوں کے کنج تھے۔ جہاں گلاب اپنے سرخیاں بکھیرتے تھے۔ رات کی رانی کی مہک پھیلی رہتی تھی۔ خوبصورت بیلیں تھیں جو گھر کی دیواروں پر سرسراتی تھیں اور باغیچے کے ایک کونے میں سورج مکھی کے بڑے بڑے پھول تھے۔ جو ہر وقت سورج کی طرف منہ کیے رکھتے تھے۔ لیکن جادوگرنی کوپھولوں سے سخت نفرت تھی۔ اُسے اپنے باغیچے میں ایک پھول کی موجودگی بھی بوجھ لگتی تھی۔
اِسی لیے اُس نے پرستان کے مالی عنریق کو بلایا جو پہاڑی کے نیچے وادی میں رہتا تھا اوراُسے حکم دیا کہ سارے باغیچے کو کھود ڈالے۔ عنریق کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا۔ اُس نے پھر بھی جادوگرنی سے پوچھا کہ کیا وہ چاہتی ہے کہ تمام پھولوں کی کیاریاں کھود دی جائیں۔ اِس طرح تو تمام باغیچہ تباہ ہو جائے گا اور جو پرستان کی روایت کے خلاف ہے کیونکہ پرستان کے ہر گھر کے باہر باغیچہ لازمی ہے۔ جسے اُس کے باسی بہت شوق سے سینچتے ہیں۔ مگر شگفتہ جادوگرنی نے اپنی سرسبز آنکھوں سے گھور کر اُسے اپنا حکم ماننے کو کہا۔ توبے چارے عنریق مالی کی سٹی گم ہو گئی۔ شگفتہ جادوگرنی نے عنریق کو دوبارہ حکم دیا کہ وہ تمام باغیچہ کھود ڈالے اور زمین سے نکالے گئے پودوں کو آگ لگا دے اور پھر وادی سے بڑے بڑے پتھر لائے اور اُن کے باغیچہ میں پکا صحن بنا دے۔ تاکہ پھر وہاں کوئی پھول نہ اُگ سکے۔ عنریق بے چارہ فوراً کام میں جت گیا۔ اُس نے اپنا بیلچہ لیا اور سار ا باغیچہ کھود دیا۔ لیکن اُس نے پودوں کو آگ لگانے کی بجائے نہایت مہارت سے زمین سے نکالا اور وادی میں لے جا کر اُنہیں اپنے گھر کے باغیچے میں دوبارہ اُگا دیا۔ پھر وہ واپس آ گیا اور جادوگرنی کے باغیچے میں پتھروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر فرش بنا دیا۔ جو بے حد بدصورت لگ رہا تھا۔ مگر جادوگرنی اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی اب میراباغیچہ پرستان کا واحد باغیچہ ہو گا جس میں کوئی پھول نہیں اُگ سکے گا۔ پریاں یہ بدصورتی دیکھ کر کتنا جھنجھلائیں گی۔ عنریق مالی نے یہ الفاظ سنے تو اُس کے چہرے پر ایک خفیف سے مسکراہٹ بکھر گئی۔ جسے شگفتہ جادوگرنی نے بھی محسوس کیا۔ اُس نے عنریق کو دھمکی دی کہ اگر اُس نے اُسے اِس مسکراہٹ کا راز نہ بتایا تو وہ اُسے ایک ابابیل بنا دے گی۔ عنریق نے شگفتہ جادوگرنی سے کہا کہ بے شک وہ اُسے ابابیل سے بھی کسی چھوٹی چیزمیں تبدیل کر سکتی ہے لیکن میں تمہیں بتا ہی دیتاہوں۔ تم سوچ رہی ہو کہ اب اس پتھر والے صحن میں پھول نہیں اُگ سکتے۔ لیکن ایسا ہو گا نہیں کیونکہ یہاں پھر پھول اُگ جائیں گے۔ شگفتہ جادوگرنی غصے سے بولی۔ تم نہیں جانتے تم کس سے بات کر رہے ہو۔ میں اِس صحن کی دیوار پر ایسا منتر پڑھ کر پھونکوں گی کہ کوئی بھی آ کر یہاں کسی قسم کا بیج نہیں بو سکے گا اور ظاہر ہے جب کوئی یہاں بیج نہیں گرائے گا تو پھول کیسے اُگیں گے۔ لیکن عنریق پھر بھی مسکراتا رہا اور پھر اپنا بوڑھا سر جھٹک کر شگفتگہ جادوگرنی سے بولا۔ تم سمجھتی ہو کہ اپنے منتروں کی وجہ سے تم بہت طاقتور ہو۔ مگر تم سب سے طاقتور نہیں ہو۔ تم صرف دیکھو اور انتظار کرو۔
اچھا گر مجھ سے طاقتور پرستان میں کوئی اور بھی ہے تو مجھے اُسے جلد ڈھونڈنا چاہےے یا پھر مجھے پرستان چھوڑ دینا چاہےے۔ ٹھیک ہے میں دیکھتی ہوں مگر تم میرا منہ کیا تک رہے ہو۔ یہاں سے جاو¿ اور واپس نہ آنا۔ جادوگرنی عنریق مالی کی باتوں سے سخت ناراض تھی۔ عنریق بدستور مسکراتا ہوا واپس وادی میں آ گیا۔ اُدھر جادوگرنی نے اپنی تمام جادو کی کتابیں الماری سے نکالیں اور مطالعہ میں مصروف ہو گئی۔ آخر اُس نے ایک کتاب سے اپنی مرضی کا منتر ڈھونڈ نکالا۔ اِس منتر سے باغیچے والے صحن کے نزدیک کوئی نہیں آ سکتا تھا۔ پھر اُس نے ایک کمرے میں خود کو بند کر لیا۔ جہاں نیلے شعلوں والی آگ جل رہی تھی۔ وہ دوبارہ اپنی جادو کی کتابیں پڑھنے میں مشغول ہو گئی۔ وہیں اُسے کئی ہفتے گزر گئے۔ اِس عرصہ میں اُسے اس بات کی ہوش بھی نہ رہی کہ باہر سورج نکلا ہوا ہے یا بارش ہو رہی ہے۔ وہ صرف جادو پڑھنے اور جادو کرنے میں مشغول رہی۔ باہر دنیا میں سورج بھی چمکتا رہا۔ بارش بھی ہوئی اورتیز ہوا کے جھکڑ بھی چلتے رہے۔
جی ہاں تیز ہوا کے جھکڑ! تیزا ہوا جس کی نظر جادوگرنی کے باغیچے پر پڑی۔ جو اب بدصورت صحن بن چکاتھا۔ اُسے یہ جگہ اب انتہائی بری لگ رہی تھی۔ جو کبھی اُس کی پسندیدہ رہی تھی۔ وہ حیران تھی کہ پرستان میں کوئی جگہ اتنی بھدی بھی ہو سکتی ہے۔ پھر تیز ہوا تلاش کرنے نکلی۔ اُسے تلاش تھی پھلوں کے اُن بیجوں کی جنہیں وہ باآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکے۔ وہ چنبیلی کے پھلوں کے کنج میں گئی۔ سنبل کے درختوں سے اُڑتی ہوئی روئی کی صورت میں بیج اکٹھے کیے ۔ تیز ہوا کچھ ہی دیر میں اتنے پھولوں کے بیج اکٹھے کر چکی تھی جو ہم یہاں گن نہیں سکتے۔ تیزا ہوا اِن بیجوں کو اڑا کر بالآخر شگفتہ جادوگرنی کے صحن کے اوپر لے آئی۔ جو کبھی خوبصورت باغیچہ ہوا کرتا تھا۔ ظاہر کہ کوئی منتر خدا کی چلائی تیز ہوا کو نہیں روک سکتا۔ یہ ہوا اپنے ساتھ لائے ہوئے بیج بارش کی صورت میں صحن میں گراتی رہی اور وہ بیج پتھروں کے بیچوں بیچ درزوں میں بیٹھتے گئے۔ ایک آدھ بہادر بیج چلتا چلتا جادوگرنی کے کمرے میں کھلنے والی کھڑکی کے نیچے تک بھی پہنچ گیا۔ غرض کچھ دیر میں ان گنت بیج زمین میں جیسے بو دیے گئے۔ پھر موسم بہار میں یہی بیج پودوں کی صورت میں زمین سے باہر نکلنے لگے۔ اُن کی شاخوں پر ننھے ننھے سبز پتے اُگنے لگے۔ وہ بیج جو کھڑکی کے نیچے گہرا تھا۔ وہ اب پودا بن گیا تھا اور اُس پر لگے ہوئے پھول جادوگرنی کے کمرے کے اندر جھانک رہے تھے اور ہوا کے چلنے سے گویا وہ کھڑکی میں لگے شیشے پر دستک دے رہے تھے۔
شگفتہ جادوگرنی نے وہ دستک سنی تو رعونت سے سر اُٹھایا۔ جب اُس نے خوبصورت پھولوں کو باہر ہوا میں جھومتے دیکھا تو غصے سے اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب کو فرش پر دے مارا۔ دوڑی ہوئی آئی اور کھڑی سے باہر جھانکنے لگے۔ باہر ایک نہیں بلکہ ہزاروں پھول کھلے ہوئے تھے۔ بلکہ ایک دو پودے ایسے بھی تھے جو بعد میں درخت بننے والے تھے۔ سنبل کے درخت۔ جادوگرنی کے منہ سے ٹھنڈی آہ نکلی اور بے اختیار اُس نے دونوں ہاتھوں سے سر پیٹ لیا۔ وہ بڑبڑانے لگی”یہ کس کا کام ہو سکتا ہے۔ کوئی تو ہے جو میرے جادو کے باوجود میرے صحن میں آیا اور یہ بیج بوئے۔ ظاہر ہے وہ مجھ سے بھی زیادہ طاقت ور ہے۔ آخرہ وہ کون ہے؟ وہ مسلسل خود سے باتیں کر رہی تھی۔ آخر اُس نے وادی سے دوبارہ عنریق کو بلوایا اور اُسے اپنا صحن دکھایا جو پھولوں سے اٹا ہوا تھا اور اُسے کہنے لگی کہ کوئی اُس سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ نہ ہو وہ آئے اور مجھے اپنا قیدی بنا لے کیونکہ میرے تو بہت سے دشمن ہیں۔ کیا تم ایسے طاقت ور جادوگر کو جانتے ہو؟
عنریق مالی انتہائی سمجھ دار تھا۔ اُس نے جادوگرنی کے صحن کا ایک طائرانہ جائزہ لیا۔ اُسے بخوبی علم تھا کہ یہاں کیا ہوا ہے؟ وہ جانتاتھا کہ یہ کام صرف تیز ہوا کا ہے۔ پھر اُس نے ڈر سے کانپتی جادوگرنی کی طرف توجہ کی اور اُسے انتہائی سنجیدگی سے کہنے لگا۔ شگفتہ بی بی جس نے یہ کیا ہے وہ تم تو کیا تمام دنیا کی جادوگرنیوں سے طاقتور ہے۔ میں اِس وقت بھی محسوس کر رہا ہوں کہ وہ تمہاری تلاش میں آ رہا ہے۔ ابھی بھی وقت ہے اپنا جادو کا جاڑو اُٹھاو¿۔ اُس پر سوار ہو کر یہاں سے فرار ہو جاو¿ کیونکہ تم جانتی ہو کہ تمہارے جادو کے باوجود اُس نے یہاں پھول کھلا دیے ہیں۔ سنو سنو غور سے سنو وہ آ رہا ہے اور ظاہر ہے کہ تیز ہوا کی سرسراہٹ پورے صحن میں سنی جا سکتی تھی۔جادوگرنی نے اِس سراسراہٹ سے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ اُس کے دشمن پھولوں کے کنجوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ اُس کے منہ سے ایک سہمی ہوئی چیخ نکلی پھر اُس نے جلدی سے اپنا جاڑو اٹھایا اور اُس کا ایک سرا تھام کر اُس پر سوار ہو گئی۔ جو اُسے تیزی سے لے کر ہوا میں بلند ہو گیا اور دوبارہ پھر کبھی پرستان میں اُسے کسی نے نہیں دیکھا۔
خداکا شکر ہے یہ جادوگرنی مکار تو تھی مگر اتنی عقل مند نہیں تھی کہ ہوا کے طور طریقوں کو جان سکتی۔ عنریق دور جادوگرنی کو ایک کالے دھبے میں تبدیل ہوتے دیکھ کر خود سے بولا۔ پھر وہ بدصورت پتھروں کو کھودنے لگا۔ جلد ہی پتھر کو باغیچے سے نکال کراُس نے زمین کو دبارہ پھول اگانے کے قابل کر لیا۔ وہ پیارے پیارے پھولوں کے بیج اپنی جیب میں ڈال کر لایا تھا۔ اُس نے ہوا کا شکر ادا کیا کہ اُس نے بھی اچھاکام کیا مگر کیونکہ وہ مالی تھا اِس لیے باغبانی میں اُس کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ تیز ہوا شکریہ سن کر کھلکھلا کر ہنسی۔ پھر عنریق کے جانے کے بعد اُس نے دوبارہ اپنے دامن میں لیے چنبیلی کے بیجوں کو باغیچے میں بکھیرنا شروع کر دیا۔
بچو! آپ جانتے ہیں تیز ہوا کتنی شرارتی ہوتی ہے وہ آپ کے بالوں کو بکھیرتی ہے آپ کے ساتھ کھیلتی ہے وہ اب بھی عنریق کی لاعلمی میں چنبیلی کے بیجوں کو بکھیر رہی تھی کیونکہ اُسے چنبیلی کے پھول بہت پسند ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top