میں چھوٹا سا اک لڑکا ہوں
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
میری عمر چھ ماہ ہے میرا نام ماں باپ نے اللہ جانے کیا رکھا ہے۔ شاید خود ان کو بھی یاد نہ ہو کیونکہ سب لوگ مجھے عجیب عجیب ناموں سے پکارتے ہیں۔ کوئی ببلو کہتا ہے، کوئی پپو اور کوئی گڈو تو کوئی لڈو۔اللہ جانے ان بڑوں کو نام بگاڑنے میں کیا مزہ ملتا ہے۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح پیار کا اظہار ہوتا ہے۔ عجیب و غریب ناموں سے پکارنے کے علاوہ یہ بڑے میرے سامنے الٹی سیدھی حرکتیں بھی کرتے ہیں۔ کبھی کوئی بزرگ گال پھلا کر اور بھویں اچکا کر مجھے ہنسانے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی کوئی صاحب کتے بلیوں کی آوازیں نکالتے ہیں۔ کچھ حضرات مجھے بہلانے کے لیے اچھل کود سے بھی باز نہیں آتے۔ ایک حضرت نے تو ایک دفعہ حد ہی کردی۔ مجھے روتا ہوا پاکر وہ سر کے بل کھڑے ہوگئے۔مجھے ان کی اس اوٹ پٹانگ حرکت پر بے ساختہ ہنسی آگئی۔ ادھر وہ حضرت بہت خوش ہوئے کہ دیکھا میں نے روتے بچے کو چپ کرا دیا۔ وہ کئی روز تک اپنے دوستوں میں اس بات کا چرچا کرتے رہے ۔ کچھ بڑے ہم چھوٹے بچوں کو جھوٹ موٹ توتلی زبان میں ”پالا پالا بتا“ یعنی پیارا پیارا بچہ کہہ کر بہت خوش ہوتے ہیں ۔ ممکن ہے کچھ چھوٹے بچوں کو اس پر ہنسی آتی ہو لیکن میں اس پر بہت حیران ہوتا ہوں کہ ایک سمجھ دار اور معقول آدمی کو جان بوجھ کر توتلا بننے کی کیا ضرورت ہے؟لاحول ولا قوة۔
میں تو دن رات ان بڑوں کے تماشے دیکھتا ہوں اور اپنا سرپیٹتا ہوں کہ اتنے بڑے ہو گئے مگر رہے وہی گھامڑ کے گھامڑ۔ ایسے لوگوں میں ہمارے بھائی جان خاص طور پر شامل ہیں ۔ موصوف خیر سے پانچ سال کے ہیں ۔ اونٹ جتنے لمبے ہوگئے ہیں مگر حرکتیں وہی بچوں والی ہیں۔ میری تو جان جل جاتی ہے کہ یا اللہ! ان کو کب تمیز آئے گی۔
مثال کے طور پر کل کا ذکر ہے کہ یوں ہی لیٹے لیٹے میرا دل ذرا رونے کو چاہا ۔ہاں صاحب! آخر میں بھی انسان ہوں۔ میرا دل بھی رونے کو جی چاہتا ہے۔ لیٹے لیٹے تھک جاتا ہوں ۔پڑے پڑے بور ہو رہا تھا۔ ان لوگوں سے اتنا بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اخبار یا رسالہ ہی مجھے تھما دیں۔ دو گھڑی تصویریں دیکھوں گا تو جی بہلا رہے گا۔ لیکن خیر، ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟خوب یاد آیا، لیٹے لیٹے تھک گیاتو رونے کو جی چا ہا۔ ہلکے سروں میں غوںغاں شروع کی۔ میرا خیال تھا کہ گھر میں اتنے لوگ ہیں ،کوئی نہ کوئی توجہ کرے گا، لیکن کسی نے دھیان نہ دیا۔ اب مجھے ذرا بے چینی ہونے لگی ۔ میں نے اپنی آواز ذرا اونچی کردی اور اس میں ہلکی ہلکی چیخیں شامل کردیں۔ لیکن توبہ کیجئے جو کسی کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔گھر کے زیادہ تر لوگ اس طرح ٹی وی دیکھنے میں لگے ہوئے تھے جیسے وہی دنیا کا سب سے اہم کام ہو ۔ ابو البتہ اخبار میں کھوئے ہوئے تھے اور بھائی جان قبلہ چشم بددورمرغیوں کی دم کھینچنے اور بکریوں کے کان اینٹھنے سے فارغ ہو ں تو ننھے بھائی کی خبر لیں۔ آخر مجھے اپنی آواز ٹی وی کی آواز کے برابر کرنی پڑی۔
چند لمحوں بعد میری آواز ٹی وی کی آواز سے بھی بلند ہو گئی اور اس میں ہولناک چیخیں بھی شامل ہوئیں۔ تب کہیں جا کر کسی کو ہوش آیا کہ شاید منارو رہا ہے۔ نہ پوچھیے، اس” شاید“ پر مجھے کتنا غصہ آیا۔ یہاں چلاتے چلاتے گلے میں خراشیں پڑ گئیں اور وہاں ابھی تک شبہ ہی ہے کہ کوئی رو رہا ہے۔ کیا خوب، میں کوئی گانے کی مشق کر رہا تھا یار یڈیوپر فرمائشی پروگرام نشر کر رہا تھا ۔ وہ تو اللہ بھلا کرے بے چاری امی کا ۔ باورچی خانے سے دوڑی دوڑی آئیں اور مجھے فوراً بانہوں میں اٹھا کر چپ کرانے لگیں۔
آپ تو جانتے ہیں کہ امی کی گود میں تھوڑا سا رو لیا جائے تو بڑا فائدہ ہوتا ہے ۔ چمکارنے پچکارنے کے علاوہ دودھ یا بسکٹ ملنے کا بھی پورا پورا امکان رہتا ہے۔ جی ہاں، میں صحیح عرض کر رہا ہوں۔ شرمائیے نہیں، آپ خود بھی یہی کرتے رہے ہیں۔ اب بڑے ہو گئے ہیں تو کیا ہوا۔ تو جناب اللہ آپ کا بھلا کرے، میں نے ذرا دیر چپ رہ کر پھرتانیں اڑانی شروع کیں۔ ایں ایں ایں۔ ریں ریں ریں۔
اس پر امی جان نے مجھے بھائی جان کے ہاتھوں میں تھما یا اور خود بسکٹ لینے چلی گئیں۔ جی آپ نے بالکل صحیح پہچانا۔ یہ ہمارے وہی بھائی جان ہیں جن کا ذکر ہوچکا ہے۔ یہ پانچ سال کے ہو چکے ہیں مگر ابھی تک چاند کو برفی کا ٹکڑا یا بتاشا سمجھتے ہیں۔انہوں نے مجھے گود میں اس طرح دبوچ لیا جیسے میں کوئی فٹ بال ہوں۔ ظاہر ہے کہ ہر شریف آدمی اپنے آپ کو ایسی حالت میں پا کر شور مچاتا ہے۔ اس لیے میں نے بھی شور کرنا شروع کر دیا۔ اس پر وہ حضرت مجھے آپا کے پاس بٹھا کر خود ہوا ہوگئے۔اب آپا کا جی ٹی وی میں اٹکا ہوا تھا۔ وہ مجھے کیا دیکھتیں خاک۔ ٹی وی دیکھنے سے ہی فرصت نہ تھی۔ آپا نے مجھے سرپرآئی بلا سمجھ کر ٹالنا چاہا اور فرش پر بٹھا دیا۔ اتنا بھی خیال نہ کیا کہ میں ذرا سا بچہ ہوں، گرگیا تو چوٹ لگے گی، جب کہ میں ابھی پوری طرح بیٹھنا بھی نہیں سیکھا۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، یعنی میں دھڑام سے گر پڑا اور اتنی زور سے رونا شروع کیا کہ سب گھبرا گئے۔
کہاں تو یہ لوگ مجھے دیکھتے ہی نہ تھے اور کہاں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میرے پاس جمع ہوگئے۔ کاش یہ میرے گرنے سے پہلے ایسا کرتے لیکن بڑے جو ٹھہرے۔ خیر صاحب، اب ان لوگوں کے درمیان مجھے چپ کرانے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ چاچا جی کرکٹ کے بہت اچھے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے مجھے چپ کرانے کے لئے کرکٹ کی گیند کی طرح ہوا میں اچھالنا اور کیچ کرنا شروع کر دیا، مگر ایک چھ ماہ کے بچے اور کرکٹ کی گیند میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ اگر میں گر جاتا تو میرا سر اس طرح کھل جاتا ہے جیسے تربوز کی پھانکیں رکھی ہوں اور چوں کہ میں اپنے سر کو تربوز کی پھانکیں بنانا پسند نہیں کرتا اس لئے خطرہ بھانپ کر حلق پھاڑ پھاڑ کر رونے لگا۔ اب سب لوگ گھبر اگئے اور لگے اوندھی سیدھی حرکتیں کرنے۔ کوئی منہ سے طرح طرح کی آوازیں نکال رہا ہے تو کوئی بندروں کی نقل اتار رہا ہے۔ کسی نے تالیاں بجانی شروع کر دیں اور کوئی اپنی بھدی آواز میں لوریاں گانے لگا۔ ایک چھوٹا بچہ جسے چوٹ لگی ہے اور جو ڈر گیا ہے اسے چپ کرانے کا بھلا یہ کون سا طریقہ ہے کہ سب مل کر شور مچانے لگے۔
روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں۔ ناک سے پانی بہنے لگا۔ آپا کو کچھ اورنہ سوجھا تو انہوںنے ہمدرد نونہال کا خاص نمبر اٹھاکر میری ناک کے آگے نچانا شروع کیا۔ مجھے اتنا غصہ آیا کہ مت پوچھیے۔ ویسے اگر میں آپا کا کوئی رسالہ اٹھا لوں تو وہ چلانے لگتی ہیں کہ ”ہائیں ہائیں پھاڑ ڈالے گا۔“ انسان دو گھڑی دل بہلانے کیلئے کوئی رسالہ بھی نہ دیکھیے؟آپا رسالہ میرے ہاتھ سے چھین کر مجھے روتا ہوا چھوڑ کر جایا کرتی ہیں اور یہ وہی آپا تھیں کہ اب میں رو رہا تھا تو مجھے رسالہ تھما رہی تھیں۔ اللہ جانے ان بڑوں کی عقلوں کو کیا ہو جاتا ہے۔ یہ چھوٹوں کو رلائے بغیر کوئی چیز نہیں دیتے اور اگر کوئی چیزبچوں کو دینے کی نہیں ہے تو ہرگز نہیں دینی چاہیے۔ چاہے بچہ ہنسے یا روئے یا گائے۔
امی جو میرے لئے بسکٹ لینے گئی تھیں شاید کسی کام میں الجھ گئی تھیں۔ فوراً بھاگی بھاگی آئیں اور وہی کیا جو کرنا چاہیے تھا۔یعنی مجھے لپٹا لیا اور پیار کرنے لگیں۔ میرا سر سہلایا اور مجھے صحن میں لے گئیں۔ پرندے دکھانے لگیں اور میرے ہاتھ میں بسکٹ دے دیا۔ میں سب کچھ بھول کر پرندوں کو دیکھنے لگا اور اپنے پوپلے منہ میں بسکٹ رکھ کر چوسنے لگا۔
ادھر وہ سب کے سب دوبارہ اپنے انہی کاموں میں اس طرح لگ گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یہ وہی لوگ تھے جو مجھے چپ کرانے کے لئے سو سو جتن کر رہے تھے اور اب ایسے بن گئے تھے جیسے مجھے جانتے ہی نہ تھے۔
اب آپ ہی بتائیے کہ اسے کیا کہا جائے؟ یہ کیسے بڑے ہیں؟ یہ صرف روتے بچوں کا خیال کیوں رکھتے ہیں؟ کیا انہیں ہنستے مسکراتے کلکاریاں مارتے بچے پسند نہیں؟آپ بھی تو کہیں ایسے بڑوں میں شامل نہیں ہیں؟ کہیں آپ میرے بھائی جان یا آپا جیسے تو نہیں؟ آپ کاکوئی چھوٹا بھائی یا چھوٹی بہن ہے؟