بچاﺅ! بچاﺅ!
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب دوست اپنے ہیڈ کوارٹر” شرارت ہاؤس“ میں بیٹھے گرما گرم بحث میں مصروف تھے۔بحث اس مسئلے پر ہورہی تھی کہ پکنک کہاں منائی جائے۔پکنک منانے کا یہ منصوبہ عظیم کا تھا۔آپ تو جانتے ہی ہیں کہ منصوبے بنانے کا ماہر جتنا عظیم ہے اتنا ماہر منصوبہ ساز پاکستان تو کیا پوری دنیا میں کہیں نہیں ملے گا۔اس گھن چکر کے منصوبے کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں کہ ہم سب دوست ان پر عمل کرنے کو فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ منصوبے کے آخر میں ایسی زبردست پٹائی ہوتی ہے کہ بس اللہ دے اور بندہ لے۔
اور اب پکنک منانے کا یہ نیا منصوبہ ہمارے گھر کی چھت کی اس کوٹھڑی میں زیر غور تھا جس پر” شرارت ہاﺅس“ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔تمام لوگ اس پر زور دے رہے تھے کہ پکنک سمندر کے کنارے’ ہاکس بے‘ پر منائی جائے لیکن ہم تجویز کی شدید مخالفت کر رہے تھے اور طرح طرح کی دلیلیں دے کر سمندر کے کنارے جانے سے بچ رہے تھے۔اب آپ سے کیا پردہ،دراصل ہمیں تین چیزوں سے بے حد ڈر لگتا ہے، سمندر، کتے اور اندھیرا۔
خیر،تو بات ہو رہی تھی سمندر کے کنارے پکنک منانے کی۔ہم تو ہاکس بے کا نام سنتے ہی بے ہوش ہونے لگے تھے، کیونکہ ہمارے تصور میں وہ بڑی بڑی سمندری موجیں آنے لگی تھیں جو ہاکس بے ساحل پر اٹھتی ہیں۔ہمارے دوست ہم سے چلنے کے لیے اصرار کر رہے تھے اور ہم تھے کہ بس ”نہ “کی رٹ لگا رکھی تھی۔پہلے انہوں نے پیار سے سمجھایا ،پھر تھوڑا سا غصہ کیا، پھر ڈرایا دھمکایا اور آخر میں لالچ دینے لگے۔
عظیم بولا: ”ہم وہاں مزے مزے کے کھانے کھائیں گے۔“
وقار نے کہا:” سمندر کے کنارے گیلی ریت میں فٹ بال کھیلیں گے۔“
ذاکر بولا:” فوٹو بھی اتاریں گے اور سمندر میں نہائیں گے بھی۔“
سمندر میں نہانے کا سن کر ہم چلائے،”نہیں نہیں،میں نہیں جاؤں گا، نہیں جاؤں گا، نہیں جاؤں گا۔“
وہ سب ایک ساتھ بولے،”جاؤ گے،جاؤ گے،جاؤ گے۔“ہم نے جواب میں کچھ کہنا چاہا تو ہمارے منہ پر ہاتھ رکھ دیا گیا اور وہ سب مل کر چلانے لگے،”جائے گا بھئی جائے گا،ڈرنے والا جائے گا۔“ہم نے اس غیر جمہوری فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا چاہا لیکن اس نقار خانے میں ہم جیسے مریل طوطی کی آواز کون سنتا ۔
دوسرے دن چھٹی تھی۔تمام انتظام مکمل کرلینے کے بعد عظیم،ذاکر،وقار،ذیشان،توفیق،اعجاز،حمید،عاصف،انیس اور مرتضیٰ نعرے لگاتے ہوئے ہمارے کمرے میں داخل ہوئے اور ہمیں ڈنڈا ڈولی کرکے لے جانے لگے۔ہم نے اس نازک موقع پر بھی ان وجوہات پر روشنی ڈالنا چاہی جن کے سبب ہم پکنک پر نہیں جاسکتے تھے۔ مثلاً ہماری انگلی میں درد ہے،تیز ہوا چل رہی ہے۔گوشت کا ناغہ ہے وغیرہ۔مگر ان ظالموں نے ہماری ایک نہ سنی اور ہمیں دبوچ کر عظیم کے ماموں کی گاڑی میں ڈال دیا گیا اور ماموں نے فوراً گاڑی چلا دی اور ہم کراہتے ہوئے سوچنے لگے کہ کاش ہم کراچی میں نہ رہتے ہوتے جہاں سمندر پایا جاتا ہے یا کاش کراچی کے قریب کوئی سمندر نہ ہوتا یا کراچی کراچی میں نہ ہوتا لاہور میں ہوتا،جہاں سمندر نہیں ہے، لیکن خدا کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔یہ سوچ کر ہم نے اپنی حالت پر صبر کیا اور یہ سوچنے لگے کہ اس چھوٹی سی گاڑی میں بارہ آدمی کیسے سما گئے! کچھ سمجھ میں نہ آیا تو یہ سوچ کر بیٹھ رہے کہ خدا کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔
ہاکس بے میں پہنچتے ہیں سب کے سب سوائے ہمارے پانی میں کود گئے۔کسی نے لنگوٹی باندھ رکھی تھی،کوئی جانگیے میں تھا،کوئی پاجامہ پہن کر نہارہا تھا اور کوئی پتلون سمیت ہی پانی میں گھس گیا تھا،غرض جس کو جو کپڑا ملا وہ اسی میں نہانے لگا۔ ایک صاحب کو دیکھا،وہ ایسے ہی نہا رہے تھے۔غالباً انہیں کوئی کپڑا نہیں مل سکا تھا۔
اور رہے ہم،توہم کپڑے کی اس بڑی سی چھتری کے نیچے بیٹھ کر خدا کو یاد کر رہے تھے جس کے نیچے ہمارا سامان رکھا تھا۔ ہمیں تو موجوں کو دیکھ دیکھ کر ہول آرہا تھا اور وہ سب پانی میں خوشی سے سے چلاتے،شور مچاتے نہا رہے تھے۔آخر ہم نے خدا سے دعا کی کہ اے خدا ان سب کو سیدھی راہ دکھا! ان کی عقلوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔یہ باؤلے ہو گئے ہیں۔ان کی خطائیں معاف کر اور انہیں سیدھے راستے پر چلا( اس راستے پر جس پر ہم چل رہے ہیں۔)
اس فاتحہ کے بعد ہم نے بطور نیاز پیسٹریاں اور سموسے کھانے شروع کر دیے۔ابھی مشکل سے چھ سموسے اور آٹھ پیسٹریاں کھائی ہوں گی کہ اچانک کسی نے ہمیں پیچھے سے پکڑ لیا اور گھسیٹتا ہوا سمندر کی طرف لے جانے لگا ۔یہ ذاکر اور توفیق تھے۔ہم بہت چلائے اور خوب ہاتھ پاؤں مارے۔لیکن توبہ کیجئے وہ کہاں چھوڑنے والے تھے۔ لے جاکر سیدھا پانی میں پھینک دیا۔ہم ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ اچانک ایک زوردار لہر آئی اور ہم چھپاک سے پانی میں الٹے سیدھے گرگئے۔ہمیں سمندر کا نمکین پانی تھوکتے دیکھ کر سب لوگوں نے زوردار قہقہے لگائے۔ہم بھی کھسیانی ہنسی ہنسنے لگے اور نیکر پہن کر ڈرتے ڈرتے ان کے ساتھ نہانے میں شامل ہوگئے۔
آگے گہرے پانی میں دو لڑکے بڑی مہارت سے تیر رہے تھے۔جوں ہی کوئی لہر آتی،وہ بڑی صفائی سے پانی کے ساتھ ابھرتے اور پھر بیٹھتے چلے جاتے۔ہمارے منہ سے بے اختیار نکل گیا،” اُف! کتنے بے خوف لڑکے ہیں اور کتنی مہارت سے تیر رہے ہیں۔“
”یہ کون سی بڑی بات ہے؟اس طرح تو میں بھی تیر سکتا ہوں۔“عظیم شیخی بگھارتا ہوا بولا۔
”تم۔۔۔۔۔؟“ہم کم پانی میں آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے بولے۔”تمہیں تو پوری طرح ڈوبنا بھی نہیں آتا۔تیرو گے کیا؟“ہماری بات سن کر سب نے زوردار قہقہے لگائے۔عظیم کا چہرہ غصے اور شرم سے سرخ ہو گیا۔وہ بولا،”اور اگر میں تیر کر دکھاؤں تو؟“
”تب ہم مان لیں گے کہ تم واقعی تیرنا جانتے ہو۔“اعجاز نے کہا۔
عظیم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،جلدی جلدی الٹے سیدھے ہاتھ پیر مارتا ہوا گہرے پانی میں جا پہنچا اور اچانک جو ایک موج آئی تو سمندر کی تہہ میں بیٹھتا چلا گیا۔ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ دوسری لہر اسے بہا کر لے جانے لگی۔ہم سب گھبرا کر چلانے لگے،” بچاؤ! بچاؤ! مدد! مدد!“
کنارے پر کھڑے لوگ ڈرتے ہوئے آئے۔انہوں نے بھی ”بچاؤ !بچاؤ!“ کا شور مچا دیا۔تیرنا کسی کو بھی نہیں آتا تھا۔ادھر عظیم پانی میں غوطے کھا رہا تھا۔آخر ہمارا شور سن کر وہ لڑکے جن کی عظیم رِیس کر رہا تھا،ہماری طرف آئے اور بڑی مشکل سے اس کو کھینچ کر کنارے پر لے گئے۔عظیم نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔انہیں لڑکوں نے اس کو لٹایا اور اس کا پیٹ دبادباکر پانی نکالنے لگے جو وہ پی گیا تھا۔
شام کو واپسی پر عظیم کے ماموں اس کو ڈانٹتے ہوئے بولے:
” جب تمہیں تیرنا نہیں آتا تو کیا ضرورت تھی گہرے پانی میں جانے کی؟یاد رکھو! بے سوچے سمجھے کسی کی ریس کرنے سے ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔“
ہم جھک کر عظیم کے کان میں بولے،” دیکھا! میں نہ کہتا تھا کہ تمہیں تو پوری طرح سے ڈوبنا بھی نہیں آتا۔“
عظیم برے برے منہ بناتا ہوا کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا اور ہم دل ہی دل میں ان سموسوں کا حساب کرنے لگے جو ہم نے سب سے نظر بچا کر کھائے تھے۔