چلتے ہو تو مری کو چلیے!
ڈاکٹر رﺅف پاریکھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں تو ہم سال بھر شرارتیں کیا کرتے تھے لیکن چھٹیوں میں تو اتنی شرارتیں کرتے کہ توبہ ہی بھلی۔ نت نئے منصوبے بناتے اور گھر والوں سے پٹتے۔ آخر ایک دفعہ گھر والوں نے ہمیں مستقل سبق سکھانے کا تہیہ کرلیا۔ ہمارے خلاف ایک سازش تیار کی گئی۔ جس میں بڑی آپا اور بھائی جان پیش پیش تھے۔ اس سازش کا راز ہم پر اس وقت کھلا جب پانی سر سے گزر چکا تھا۔ اس لیے ہم کچھ نہ کرسکے۔ گھر والوں کی سازش سو فیصد کامیاب رہی اور ہم نے شرارتوں سے توبہ کرلی۔ یہ انقلاب کس طرح آیا۔ یہ داستان ہم آپ کو الف سے یے تک سناتے ہیں۔
ہوا یوں کہ چھٹیاں ہوتے ہی گھر والے اچانک ہم پر بے حد مہربانی ہوگئے۔ چھٹیوں کے پہلے ہی دن چھوٹی آپا بڑے پیار سے ہمارے سر کے بال سلجھاتے ہوئے بولیں۔ ”بھیا! آو میرے پیارے سے بھیا!“
اب ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ ساتھ ہی ہم خود بھی کھڑے ہوگئے اور خطرہ بھانپ کر بولے۔ ”بس بس رہنے دو۔ مجھے سب پتا ہے کہ یہ اتنا پیار کیوں جتایا جارہا ہے۔ دوپٹہ رنگوانا ہے یا کسی چڑیل سہیلی کے گھر کوئی کام ہے یا….“
”بس بس زیادہ ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔“ چھوٹی آپا مسکرا کر بولیں۔ ”میں تو صرف یہ کہہ رہی تھی کہ آﺅ تمھیں کپڑے نکال دوں، جوتے پالش کردیے ہیں، اپنا بیگ بھرلو اور تیار ہوجاﺅ۔“
”کیا….؟“ ہمیں اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ ”کپڑے نکال دوں، جوتے پالش کردیے ہیں، آپا تم نے؟ یہ ضرور خواب ہے۔“ ہم بولے اور آزمائش کے لیے آپا کے چٹکی لی۔ ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو ایسے موقعوں پر خود اپنی ہی انگلی کاٹ کر دیکھتے ہیں۔ آپا کی چیخ سن کر قائل ہونا پڑا کہ یہ خواب نہیں۔ ”مگر آپا یہ کیسے ہوسکتاہے کہ تم….“
آپا نے ہماری بات کاٹ دی اور بولیں: ”کمال ہے، تم نے میری بات کا صرف ایک ہی حصہ سنا ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنا بیگ بھرلو اور تیار ہوجاﺅ۔“
”بیگ بھرلو اور تیار ہوجاﺅ۔ سنیے محترمہ! میں پہیلیاں بوجھنے سے سخت عاجز آچکا ہوں۔ صاف صاف کہو کہ ماجرا کیا ہے؟“
اتنے میں بڑی آپا کمرے میں داخل ہوئیں اور گنگناتے ہوئے بولیں۔ ”پیارے پیارے بھیا! بھولے بھالے بھیا!“
”یا الٰہی! یہ ماجرا کیا ہے؟“ ہم حیران ہو کر بولے۔ ”سب کو اتنا پیار کیوں آرہا ہے؟“
”بھئی! تم اتنے دنوں کے لیے دور جو جارہے ہو۔“ آپا بولیں۔
”میں کہاں جارہا ہوں بھلا؟“ ہم نے پوچھا۔
تب ہمیں بتایا گیا کہ ہمیں عرفان چچا کے ہاں مری بھیجا جارہا ہے۔ عرفان چچا کا بڑا لڑکا اعجاز مری سے آیا ہوا تھا اور اب واپس جارہا تھا۔ ہمیں اسی کے ساتھ بھیجنے کا پروگرام تھا۔ یہ سنتے ہی ہم مارے خوشی کے ناچ اٹھے۔ ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ دراصل ہم سوچنے لگے تھے کہ ہمارے گھر کے لوگ کتنے اچھے ہیں اور ہمارا کتنا خیال کرتے ہیں۔ ہم تو یونہی خواہ مخواہ ان سے ناراض رہتے ہیں۔ اب ہم نے سوچا کہ اکیلے تو مری میں بور ہوجائیں گے۔ کیوں نہ اپنے لنگوٹیے یار عظیم کو بھی ساتھ لے چلیں۔
گھر والوں کے سامنے یہ تجویز رکھی تو انھوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم بھاگم بھاگ عظیم کے گھر پہنچے۔ عظیم کے والد سے ہم نے بات کی۔ انھوں کچھ پس و پیش کے بعد اجازت دے دی۔ اتنے میں عظیم بھی آگیا۔ ہم نے اسے خوشی خوشی ساری بات بتائی۔
”کمال ہے، تمھارے گھر والے اور پھر میرے ابو بھی اتنی جلدی کیسے راضی ہوگئے۔ اس میں ضرور کوئی چال ہے۔“ عظیم نے کچھ سوچ کر کہا۔
”راضی؟ ارے بھئی! یہ تو تجویز ہی گھر والوں کی ہے۔“ ہم بولے۔
”تب تو ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نہیں چلتا۔“ عظیم نے فیصلہ سنادیا۔
ہم نے دانت کچکچا کر اسے دیکھا۔ کم بخت رنگ میں بھنگ ڈال رہا تھا۔ پہلے تو ہم خوب چیخے چلائے۔ پھر اسے پیار سے منانے کی کوشش کی۔ عرفان چچا کے گھر اور مری کے بارے میں جو افسانے سن رکھے تھے، نمک مرچ لگا کر اسے سنائے۔ ”تمھیں پتا ہے کہ عرفان چچا کے گھر میں پھلوں کے باغ بھی ہے، خوب پھل توڑیں گے۔“ ہم بولے۔
عظیم نے کوئی جواب نہ دیا۔
”وہاں ایک جنگل بھی ہے اور ہاں ہم ایوبیہ، نتھیا گلی اور دوسری جگہوں پر بھی جائیں گے۔“ اس پر بھی وہ نہ مانا تو ہمیں عرفان چچا کے گھر میں ایک تالاب بھی بنانا پڑا۔ اب عظیم نیم رضا مند نظر آنے لگا۔ ہم نے پھلوں کی تعداد اور تالاب کے رقبے کو دگنا کردیا اور جب ہم نے مری کے جنگلوں میں تتلیاں، خرگوش، گلہریاں اور نہ جانے کیا کیا چیزیں اسے گنوائیں تو وہ ایک دم تیار ہوگیا اور ہاتھ پھیلا کر بولا: ”منظور!“
ہم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور بولے ”منظور!“
ہمارے اصولوں کے مطابق اب دونوں میں سے کوئی بھی پیچھے نہ ہٹ سکتا تھا اور معاہدہ پکا ہوگیا تھا۔
مری پہنچے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ عظیم بولا: ”یار اتنی خوب صورت جگہ تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی۔“
”دیکھا، میں نہ کہتا تھا کہ یہ موقع ضائع کرنا بے وقوفی ہوگی۔“ ہم فخر سے بولے۔
یہ موقع ضائع کرنا بے وقوفی تھی یا عقل مندی، اس کا فیصلہ ہم نے ذرا جلدی میں کرلیا تھا۔ کیوں کہ اس کے بعد حالات تیزی سے بدلنا شروع ہوگئے۔ عرفان چچا کے خوب صورت مکان میں پہنچ کر ان سے علیک سلیک اور دعاﺅں کے بعد ہم ابھی سستانے کا ارادہ کررہے تھے کہ عرفان چچا بولے: ”بچو!“
ہم بڑی تمیز سے بولے ”جی، چچا جان۔“ کیوں کہ عرفان چچا کے غصے سے ہم دونوں ہی واقف تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھاکہ بھوت بھی اپنے بچوں کو ٹھیک کرنے کے لیے ان کے پاس بھیجتے ہیں۔
”چائے پینے کو دل چاہ رہا ہے؟“ انھوں نے پوچھا۔
”نیکی اور پوچھ پوچھ۔“ عظیم بولا۔
”تو باورچی خانے میں جاﺅ اور سب کے لیے چائے بناﺅ۔“ عرفان چچا نے حکم دیا۔
”جی….؟ میرا مطلب ہے کہ ہم خود ہی….“ ہم اٹک اٹک کر بولے۔
”ہاں ہاں…. آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔“ عرفان چچا بولے۔
ہم دونوں مریل قدموں سے چلتے ہوئے باورچی خانے میں داخل ہوئے۔ ”یار! بسم اللہ ہی غلط ہوگئی۔“ عظیم بولا۔
”آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟“
چائے پینے کے بعد عرفان چچا بولے۔ ”دونوں اوپر اپنے کمرے میں جاﺅ۔ سامان قرینے سے رکھو۔ نہا دھولو۔ کچھ دیر آرام کرلو، پھر میرے پاس آنا۔“
ہم دونوں روانہ ہوئے۔ چچی ہمیں دیکھ دیکھ کر مسکراتی رہیں اور رہا اعجاز تو خدا جانے وہ کہاں اڑن چھو ہوگیا تھا۔ اسے بھی چچا نے کسی کام سے لگادیا ہوگا۔ ہم دونوں نے ان کی ہدایات پر عمل شروع کردیا۔
ہم نہانے دھونے سے فارغ ہوئے تو لیٹ گئے۔ عظیم کھڑکی میں سے نیچے دیکھ رہا تھا۔ ”لو بھئی! اعجاز میاں تو کام میں لگے ہوئے ہیں۔“
”اچھا…. کیا کررہا ہے؟“ ہم نے لیٹے لیٹے ہی پوچھا۔
”باغیچے کی گھاس کاٹ رہا ہے۔“
ہم اٹھ کر بیٹھ گئے۔ ”عرفان چچا کے باقی لڑکے کہاں ہیں؟“ عظیم نے پوچھا۔
”بورڈنگ ہاﺅس میں۔“ ہم نے جواب دیا۔
”اعجاز بڑی جماعت میں پڑھتا ہے۔ اسے رکھا ہے۔ باقی لڑکے بھی سال میں چند ہفتوں کے لیے گھر آتے ہیں۔“
”یار! مجھے تو خطرے کی بو آرہی ہے۔“ عظیم بولا۔
”کیا خطرہ؟“ ہم نے پوچھا۔
”ہمیں مری بھیجنا گھر والوں کی ایک چال ہے۔ مجھے لگتا ہے عرفان چچا ہم سے اتنا کام کروائیں گے کہ….“
اس کی بات ادھوری رہ گئی کیوں کہ عرفان چچا نے ہمیں آواز دے دی تھی۔ ہم دونوں نیچے پہنچے۔
”میرا خیال ہے کہ تم دونوں آرام کے بعد تازہ دم ہوچکے ہوگے۔ دونوں اعجاز کا ہاتھ بٹاﺅ۔ شاباش، اس کے بعد سیر کو چلے جانا۔“ عرفان چچا نے نادر شاہی حکم صادر فرمادیا۔ ہم دونوں چوں چراں کیے بغیر باغیچے میں کام کرنے لگے۔
شام کو تھک کر چور ہوگئے۔ سیر کرنے نکلے مگر کچھ دیر بعد واپس آگئے۔ ایسی تھکن طاری ہوئی کہ رات کا کھانا کھا کر سوئے تو صبح کی خبر لائے۔
ناشتے کے بعد عرفان چچا بولے: ”دونوں اپنا کمرہ صاف کرو۔ اس کے بعد سودا سلف لے آﺅ۔ میں دفتر جارہا ہوں اور اعجاز کو ایک کام سے پنڈی بھیج رہا ہوں۔ تم دونوں گیراج کے دروازے کی مرمت کردینا، ٹوٹ گیا ہے۔ اس کے بعد مزے سے سیر کو نکل جانا۔ اچھا خدا حافظ۔“
”خدا…. آ…. حا…. فظ!“ ہم مریل آواز میں بولے۔
ان کاموں سے فارغ ہوئے تو سیر کے لیے بہت تھوڑا وقت بچا تھا۔ گیراج کا دروازہ مرمت کرنے میں بہت دیر لگ گئی۔ خیر صاحب کچھ دیر گھوم پھر کر واپس ہوئے تو دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچکا تھا۔ کھانا کھا کر کچھ دیر لیٹے۔ ذرا دیر کو رسالہ پڑھا۔ چار بج گئے۔ اتنے میں عرفان چچا دفتر سے واپس آگئے۔ انھوں نے آتے ہی خوش خبری سنائی کہ وہ نہایت لذیذ رس گلے لائے ہیں۔ مگر ساتھ ہی یہ حکم جاری ہوا کہ باغ میں پڑے ہوئے سارے گملے رنگ دیے جائیں اور پودوں کو پانی دیا جائے جس کے بعد رس گلے کھائے جائیں گے۔
ہم بجھ کر رہ گئے مگر مرتے کیا نہ کرتے۔ اس کام سے فارغ ہوئے اور رس گلے کھا کر مال روڈ کی سیر کا ارادہ کرہی رہے تھے کہ چچی جان عرفان چچا کا اشارہ پاکر انگریزی گرامر کی کتابیں اور کاپیاں لے آئیں۔ اب حکم ہوا کہ ابتدائی پانچ مشقیں کی جائیں۔ کتاب میں پچاس مشقیں تھیں۔ اس طرح دس دن میں کتاب ختم ہوجائے گی۔ ہمیں دن میں تارے نظر آگئے۔ ساتھ ہی حکم تھا کہ غلطیاں کم سے کم ہوں۔ دوسری صورت میں ڈھائی سو اٹھک بیٹھک لگانے ہوں گے۔ وہ دن تو اسی میں گزرا۔ شام کو اعجاز آگیا۔ وہ ساتھ رنگ و روغن کے ڈبے لایا تھا۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا مگر چپ رہے۔
رات کو کھانے کے بعد عرفان چچا بولے: ”پیارے بچو!“
”جی!“ ہم سعادت مندی سے بولے۔
”کل چونکہ مری میں تمھاری پہلی صبح تھی، اس لیے میں نے تمھیں آرام کرنے دیا۔ اب کل صبح جلدی اٹھ جانا۔ فجر کی نماز پڑھ کر ورزش کریں گے۔“ عرفان چچا نے کہا۔
اس رات تو ہم ”جل تو جلال تو، آئی بلا کو ٹال تو“ پڑھتے ہوئے سوئے مگر صبح سویرے اٹھنا پڑا اور فجر کی نماز کے بعد ورزش بھی کرنا پڑی۔ جسم میں چستی آگئی تھی۔ کھل کر بھوک لگی۔ اس لیے ڈٹ کر ناشتہ کیا۔ ناشتہ بھی بہت لذیذ تھا۔ اس کے بعد سیر کو نکلے لیکن جلد ہی واپس آنے کی ہدایت تھی۔ واپسی پر عرفان چچا دروازے پر دفتر جانے کے لیے تیار کھڑے نظر آئے۔ ہمیں دیکھتے ہی اعجاز سے مخاطب ہو کر بولے: ”لو بھئی اعجاز! یہ دونوں بھی آگئے۔ پیارے بچو! اعجاز کے ساتھ مل کر ذرا گھر کے جنگلے کو رنگ ڈالو، دیکھو یہ بد رنگ ہو کر کتنا برا لگتا ہے۔ اچھا خدا حافظ!“
ہم نے مکان کے جنگلے پر نظر ڈالی۔ خاصا پھیلا ہوا تھا۔ ”لو بھئی عظیم! آج کا تو پورا دن گیا۔“ عظیم نے کوئی جواب نہ دیا۔ ہماری بات درست ثابت ہوئی۔ دوپہر کے کھانے اور چائے کے علاوہ وقفہ ہی نہ ہوسکا۔ شام کو وہی گرامر کی مشقیں۔ خدا خدا کرکے رات ہوئی اور سونے لیٹے تو عظیم بولا: ”خدا جانے کون سی منحوس گھڑی تھی جب ہم نے یہاں آنے کا ارادہ کیا تھا۔“
ہم بھلا جواب کیا دیتے۔ ہم تو خود رضائی میں منھ چھپائے رو رہے تھے۔
اسی طرح کئی ہفتے نکل گئے۔ قصہ مختصر ہم مری میں قیام کے دوران بے شمار نئے کام کرنا اور حساب اور انگریزی گرامر کی مشقیں کرنا سیکھ گئے اور کام کاج کرنے سے صحت بھی قدرے بہتر ہوگئی تھی۔
جب ہم چھٹیاں گزار کر گھر پہنچے تو بالکل سدھر چکے تھے۔ بھاگ بھاگ کر کام کرتے۔ تمام شرارتیں ختم، گھر والے اپنی کامیابی پر خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عرفان چچا واقعی بھوتوں کو بھی انسان بنادیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ ہم سے معافی بھی مانگتے کہ ہماری چھٹیاں بالکل ہی غارت ہوگئیں۔
لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ ہماری چھٹیاں غارت ہوگئیں کیوں کہ ہم نے عرفان چچا سے زندگی کا قیمتی ترین سبق سیکھا تھا اور وہ یہ کہ کام کرنے سے انسان صحت مند، دولت مند اور عقل مند رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو آپ بھی کام کرنا شروع کردیجیے۔ کچھ عرصے بعد آپ محسوس کریں گے کہ آپ پہلے سے زیادہ صحت مند اور عقل مند ہیں بالکل ہماری طرح۔