جی چاہتا ہے
اشتیاق احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام خان کا رونا سب کو حیرت زدہ کر رہا تھا…
آنسو اور لوگوں کی آنکھوں میں بھی تھے… لیکن وہ تو اس بری طرح سے رو رہا تھا جیسے اس کا باپ فوت ہوگیا ہو… جب کہ باپ تو فوت ہوا تھا، ارسلان کا، وجاہت کا،فرخ کا… بھائی تو فوت ہوا تھا، ارشد حیات کا… ماجد حیات کا… دیکھنے والے بالکل صاف طور پر دیکھ اور محسوس کر رہے تھے… ان کی آنکھوں میں تو بس آنسو تھے… وہ بھی کبھی آجاتے تھے اور کبھی رک جاتے تھے… ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے انہیں باپ اور بھائی کے مرنے کا کوئی خاص غم نہیں ہے… غم ہے تو اسلام خان کو… جو صرف ایک ملازم تھا…
نمازِ جناہ کے دوران بھی اس کی ہچکیاں لوگوں کو سنائی دیتی رہیں… اور ان پانچوں کی الجھن میں اضافہ کرتی رہیں… پھردفن تک بھی اس کی حالت میں کوئی فرق نہ پڑا… بس وہ روئے جارہاتھا… آنسو اس کی آنکھوں میں رک نہیں رہے تھے… ان کا ایک تار سا بندھ گیا تھا… مسلسل گر رہے تھے… اور یہ کیفیت ان پانچوں کا خون کھولائے دے رہی تھی… کیونکہ لوگ بار بار ان کی طرف دیکھ رہے تھے… انھوں نے اس دوران پوری کوشش کر ڈالی، لیکن اپنی آنکھوں سے مسلسل آنسو نہ بہاسکے، نہ اسلام خان کی طرح ہچکیاں لے سکے۔
”باپ اور بھائی مرا تو تم لوگوں کا ہے، لیکن لگتایہ ہے کہ اسلام خان کا مرا ہے۔“ کسی نے کہہ ہی دیا۔
دفن کے بعد سب لوگ قبرستان سے واپس روانہ ہوئے… آخر گھر پہنچ گئے… گھر میں بھی سکوت طاری تھا… لیکن پھر ان لوگوں کے اندر داخل ہونے کے بعد وہاں بھی اسلام خان کے رونے کی آواز سنائی دینے لگی… ان پانچوں اور گھر کے دوسرے افراد کی الجھن اور پریشانی کا کیا پوچھنا… اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہے تھے…
پیچ و تاب کھانے کا یہ سلسلہ تین دن تک جاری رہا… آخر تین دن بعد جب عزیز، رشتے دار اور دوست احباب سب رخصت ہوگئے… اور گھر میں صرف گھر کے لوگ یا بہت زیادہ قریبی دو چار افراد رہ گئے، تب انھوں نے اسلام خان کو طلب کر لیا… اب حالت یہ تھی کہ سب کے سب ہال میں کرسیوں اور صوفہ سیٹ پر بیٹھے تھے اور اسلام خان ان کے درمیان مجرم بنا کھڑا تھا… البتہ اس مجلس میں اس کے چہرے پر حیرت ضرور دکھائی دے رہی تھی… ایسے میں ارشد حیات کی گونج دار آواز لہرائی:
”یہ سب کیا ہے اسلام خان؟“
”جی… میں… میں سمجھا نہیں۔“ وہ گھبرا گیا۔
”یہ سب آخر ڈراما کیا ہے؟“
”جی… ڈراما… میں سمجھا نہیں، آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔“
”یہ جو تم نے رونے دھونے کا ڈھونگ رچا رکھا ہے… آخر یہ کب ختم ہوگا… بھائی ہمارا فوت ہوا ہے یا تمہارا… باپ ہمارا فوت ہوا ہے یا تمہارا… بے وقوف انسان… تین دن ہوگئے… تمہیں روتے ہوئے… تم نے رو رو کر گھر بھر دیا… جنازے میں لوگ ہمیں گھورتے رہے… لیکن تمہارا رونے کا سلسلہ ختم نہیں ہوا… بند کرو یہ ڈراما… اور سنو… آج سے تم ملازمت سے فارغ… ایسے ملازم سے ہم بھر پائے… جو ہماری رہی سہی عزت خاک میں ملا دے… ہمارا سارا بھرم کھول کر رکھ دے… بس تم چلتے پھرتے نظر آﺅ… جانے سے پہلے اپنا حساب کتاب لیتے جانا… ورنہ کہتے پھرو گے… انھوں نے تو میرے پیسے بھی مارلیے۔“ ارشد حیات روانی کے عالم میں کہتے چلے گئے۔ ادھر مارے حیرت اور صدمے کے اسلام خان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ آخر وہ چلّا اٹھا:
”نہیں… نہیں… مجھے اس گھر سے جدا نہ کریں… اس گھر میں تو خالد صاحب کی یا دیں رچی ہیں… میں ان یادوں کے سہارے جی لوں گا… بے شک آپ مجھے تنخواہ بھی نہ دیا کریں، بس دو وقت کی روٹی دے دیا کریں… اور رہی بات ان آنسوﺅں کی… یہ میرے اختیار میں نہیں تھے… میں نے جان بوجھ کر نہیں بہائے… میرا خالد حیات صاحب سے تیس سال پرانا ساتھ تھا… یہ آنسو تیس سال پرانے ساتھ کے آنسو تھے… ایک دو دن کا ساتھ ہوتا تو اور بات تھی… لیکن اگر میرے آنسو آپ کے لیے الجھن کا سبب ہیں تو میں ان کو روک لوں گا… اب نہیں روﺅں گا… دراصل آپ… آپ نہیں جانتے۔“
یہاں تک کہہ کر وہ یک دم خاموش ہوگیا… اس کے رکنے کے انداز سے یوں لگا جیسے اسے اچانک اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہو…
”کیا کہنے لگے تھے تم… ہم نہیں جانتے… کیا نہیں جانتے ہم… بولو… جواب دو… ہم کیا نہیں جانتے… وہ کیا بات ہے… جو تم جانتے ہو اورہم نہیں جانتے۔“ ماجد حیات نے جھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
”وہ… میرا مطلب ہے… خالد صاحب بہت عجیب آدمی تھے… بہت انوکھے… ان جیسے لوگ آج کے دور میں کہاں ملتے ہیں… اب میں ان کی کیا کیا باتیں آپ کو بتاﺅں… آپ لوگ تو گھر میں ہوتے تھے نا اورمیں ان کے ساتھ دکان پر… بس کیا بتاﺅں… کیا آدمی تھے وہ۔“
”حد ہوگئی… یہ ایک اور رہی… یعنی ہم تو ان کے بارے میں جانتے نہیں… اور یہ صاحب جانتے ہیں… جو صرف ایک ملازم تھے… ہم گھر کے افراد نہیں جانتے… واہ… خوب!“ ارسلان کے لہجے میں گہرا طنز آگیا۔
”جی ہاں! یہی بات ہے۔“ وہ اچانک بے خوف ہوگیا۔ اس کا چہرہ تن گیا۔
”کیا مطلب… کیا بات ہے؟“ وہ ایک ساتھ بولے۔
”ان کے بارے میں جو میں جانتا ہوں… آپ نہیں جانتے… دکان پر تو ان کے ساتھ میں رہتا تھا… آپ نہیں، رات کے وقت وہ تھکے ماندے گھر آتے تھے تو آتے ہی سو جاتے تھے… ادھر عشاءکی نماز جماعت سے ادا کی اور ادھر سو گئے… کہا کرتے تھے… ہمارے نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلّم کا یہی ارشاد ہے… رات کو جلدی سو جاﺅ تاکہ صبح جلد اٹھ سکو… اب آپ پوچھ بیٹھے ہیں تو پھر سن ہی لیں… وہ دنیا کے عجیب ترین انسان تھے… آپ دکان پر جو کھانا بھیجتے تھے… ان کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے وہ وہ چیزیں بھیجتے تھے، جو انہیں مرغوب تھیں… مثلاً اگر مرغ پکا ہوتا تو آپ ران والی بوٹیاں انہیں ضرور بھیجتے تھے… کھانے میں اگرفرنی شامل ہوتی تو اس کے اوپر بادام اور پستے کی موٹی تہہ ضرور جماتے تھے… اسی طرح گوشت میں مچھلی والی بوٹیاں انہیں پسند تھیں… آپ انہیں خوب دیکھ بھال کر ایسی بوٹیاں بھیجتے تھے… یہی بات ہے نا۔“ یہاں تک کہہ کر وہ رک گیا۔
”ہاں ہاں… یہی بات ہے… آخر وہ ہمارے بڑے تھے… ہم ان کا خیال نہ کرتے تو کون کرتا۔“ ارشد حیات بول اٹھے۔
”اورسنیے! جب وہ مجھے پھل کی دکان پر بھیجتے… کہ گھر کے لیے سیب لے آﺅ… آم لے آﺅ… جب میں سیب، آم اور دوسرے پھل خرید کر دکان پر لاتا تو۔“ وہ ایک بار پھر رک گیا۔
”تم رک کیوں جاتے ہو۔“ ماجد حیات نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”ایک دن کہنے لگے… آج میں چاہتا ہوں… کوئی بہت بڑی اور صاف ستھری سی مچھلی خریدی جائے… جاﺅ… مچھلی والی دکان پر جو سب سے بڑی مچھلی ہو… خرید کر لے آﺅ… میں گیا اور خرید کر لے آیا… وہ پورے بارہ سو روپے کی تھی۔“
”کیا مطلب… اتنی بڑی مچھلی تو تم گھر میں کبھی نہیں لائے۔“ وجاہت چلا اٹھا۔
”ایک دن مجھے دکان پر بٹھا کر خود کہیں چلے گئے… واپس آئے تو بہترین کپڑے کا ایک پورا تھان ان کے ہاتھ میں تھا۔“
”اور تم… تم وہ تھان گھر لے کر نہیں آئے تھے… ہمیں کوئی ایسا دن یاد نہیں آرہا… جب تم کوئی تھان لائے ہو۔“
”ایک دن گئے اور ایک اڑنے والا جہاز خرید کر لے آئے۔“
”غلط… اڑنے والا جہاز لینے کی فرمائش تو خود میں نے ان سے کی تھی اور وہ مجھے کھلونوں کی دکان پر لے گئے تھے… میں نے جو جہاز پسند کیا تھا… وہ انھوں نے مجھے خرید کر دیا تھا۔“ فرخ چلا اٹھا۔
”میں اس سے اگلے دن کی بات کر رہا ہوں… اگلے دن وہ ایک اس سے بھی بڑا اور اس سے بھی قیمتی جہاز خرید کر لائے تھے۔“
”کیا!!! اور… اور وہ جہاز کہاں گیا… گھر میں تو وہ آیا نہیں۔“ فرخ مارے غصے کے بولا۔
”اور ایک دن۔“ وہ جیسے ان کی بات سن ہی نہیں رہا تھا۔ بس اپنی کہے جارہا تھا۔
”بس بس… اور ایک اورایک دن کی لگا رکھی ہے… کوئی بات پوری کرتے نہیں اور اگلی شروع کر دیتے ہو… ہم سن سن کر تنگ آگئے ہیں۔“
”اگر آپ مزید نہیں سننا چاہتے تو میں بتائے دیتا ہوں… انھوں نے کبھی بھی دکان پر میرے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے… ران کی، مچھلی کی بوٹی خود نہیں کھائی… ہمیشہ مجھے کھلا دیتے تھے… میرے بار بار اصرار پر بھی وہ میری ایک نہیں سنتے تھے… بس زبردستی مجھے ہی کھلاتے… سیبوں میں سے جو سب سے اچھا سیب ہوتا، وہ پہلے ہی میرے لیے دکان پر رکھ لیتے تھے… باقی گھر بھجواتے تھے… یہی حال دوسرے پھلوں کا تھا… مچھلی خرید کر لائے تو بولے… ہمارے گھر میں تو کل مچھلی پکی تھی… تمہارا گھرانا ہمارے گھرانے سے بہت بڑا ہے… یہ مچھلی اپنے گھر لے جاﺅ… میں حیران رہ گیا… لیکن مچھلی تو لے جانا ہی پڑی … اس کے علاوہ تو وہ کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے… اسی طرح کپڑے کا وہ تھان مجھے دے کر بولے… تمہارے سارے گھر کے لیے ہے… اڑنے والا جہاز انھوں نے میرے بچوں کے لیے خریدا تھا… اور میں آپ کو کیاکیا بتاﺅں… یہ سلوک ان کا صرف مجھ سے نہیں تھا… آس پاس کے لوگوں اور غریب عورتوں… یتیم بچوں… اور بیواﺅں کے لیے بھی تھا… وہ جو خود کھاتے تھے… اس سے اچھا ہمیں کھلانا پسند کرتے تھے… اس سے زیادہ دوسروں کو کھلانا انہیں پسند تھا… اپنے بچوں کو جو چیز دلاتے تھے… اس سے بہتر یا اس سے بڑھ کر چیز دوسروں کے بچوں کو دلاتے تھے… اور آپ لوگوں کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے تھے… کہا کرتے تھے… میری یہ عادات میرے گھر والے برداشت نہیں کر سکتے… لہٰذا انہیں کچھ نہ بتایاکرو… ایک دن مجھ سے کہنے لگے… اور اسلام خان جانتے ہو… میں ایسا کیوں ہوں۔“
”جی… بھلا مجھے کیا معلوم؟“ میں بول اٹھا۔
”میں شروع سے ایسا نہیں تھا… آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم کی سیرت کی کتابوں کا مطالعہ کرنے کا مجھے بہت شوق تھا… یہ سب باتیں دراصل مجھ میں سیرت کی کتب پڑھ پڑھ کر آئی ہیں… اور ان میں سب سے زیادہ اثر میں نے ایک بہت چھوٹے سے واقعے سے لیا ہے۔“
”جی… کیا مطلب؟ چھوٹا سا واقعہ۔“
وہ بولے:
”ہاں! اسلام خان ! میں نے سیرت کی کتاب میں پڑھا… ایک روز ہمارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم اپنے ایک صحابی کے ساتھ جنگل میں چلے جارہے تھے… ایسے میں آپ ایک درخت کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے آپ نے دو مسواکیں توڑیں… ان میں سے ایک مسواک بالکل سیدھی تھی اور دوسری ٹیڑھی… آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے سیدھی مسواک اپنے صحابی رضی اللہ عنہ کو مرحمت فرما دی اور ٹیڑھی خود رکھ لی… اس پر صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
”اے اللہ کے رسول! سیدھی مسواک آپ رکھ لیں اور ٹیڑھی مجھے دے دیں۔“
اس کے جواب میں رحمتِ کائنات صلّی اللہ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا:
”جس طرح تمہارا جی یہ چاہتا ہے کہ سیدھی مسواک میں رکھ لوں، اسی طرح میرا بھی جی یہ چاہتا ہے کہ سیدھی مسواک تمہیں دے دوں اور ٹیڑھی خود رکھوں۔“
تم نے سنا اسلام خان… محسوس کیا ا س بات کی گہرائی کو… کاش مسلمان اس جملے میں چھپی حکمتوں پر غور کر لیں تو معاشرے کا نقشہ ہی بدل جائے، اور اسلام خان! اس چھوٹے سے… بالکل عام سے واقعے نے میری زندگی میں ایک انقلاب بپا کر دیا، مجھے بدل کر رکھ دیا… حیرت انگیز حد تک میں اپنے آپ کو بدلا ہوا محسوس کرنے لگا… ہر معاملے میں اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے لگا… تم نے مجھ میں جتنی باتیں دیکھیں، محسوس کیں، وہ سب کی سب اس ایک واقعے سے میرے اندر آئی ہیں… وہ دنیا سے رخصت ہوئے تو مجھے بے تحاشہ رونا آیا… ان کی ایک ایک بات، ایک ایک عادت مجھے تڑپانے لگی… خون کے آنسو رلانے لگی… ان کے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک پل آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا… میں روتا نہ توکیا کرتا… نہ رونا میرے اختیار میں نہیں تھا… جس طرح رونا لوگوں کے اختیار میں نہیں ہوتا…
اور… اور مجھے نہیں معلوم تھا، میرا رونا آپ کو پریشان کر دے گا… اس رونے کی وجہ سے آپ الجھن محسوس کریں گے… معلوم ہوتا تو میں منہ چھپا چھپا کر رو لیتا… کوئی مجھے روتے ہوئے دیکھ نہ سکتا… اور مجھے کیا معلوم تھا… میرا رونا مجھے اس پرانی ملازمت تک سے نجات دلا دے گا… جب کہ انھوں نے تو مجھے کبھی ملازم سمجھا ہی نہیں… خیر… قسمت میںیہی لکھا تھا… اب میں اجازت چاہوں گا… ہمیشہ ہمیشہ کے لیے… اچھا السلام علیکم…“
یہ کہتے ہوئے وہ ایک بار پھر رونے لگا… پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے وہ مڑا اور باہر جانے کے لیے قدم اٹھانے لگا… ایسے میں اس نے ان کی آواز سنی… انھوں نے ایک ساتھ… ایک آواز ہو کر کہا تھا:
”نہیں اسلام خان…نہیں… تم نہیں جاسکتے۔“
٭٭٭