حکایتیں ایسوپ کی
تحریر: Aesop´s Fables
مصنف: Aesop
ترجمہ: گل رعنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسوپ (۰۶۵ تا ۰۲۶ قبل مسیح) یونان کا ایک غلام کہانی نویس اور فلسفی تھا جو آزادی اظہار کی بنا پر ۰۰۰۲ سال قبل بادشاہ وقت کے حکم سے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کے نام سے سینکڑوں حکایات منسوب ہیں جو آج بھی بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو تھیلے:
ایک پرانی کہاوت کے مطابق دنیا کا ہر انسان دو تھیلے لے کرپیدا ہوا ہے جو اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہیں۔ ایک سامنے کی جانب اور دوسرا پشت کی جانب اور دونوں خامیوں اور غلطیوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ مگر جو تھیلا سامنے کی جانب لٹکا ہوا ہے وہ اس کے پڑوسی کی غلطیوں سے بھرا ہوا ہے اور جو پیچھے کی جانب ہے وہ اس کی اپنی غلطیوں سے بھرا ہوا ہے۔ نتیجتاً انسان اپنی خامیوں سے تو بے خبر رہتا ہے مگر اپنے پڑوسی کی خامیاں ہمیشہ اس کی نظر کے سامنے رہتی ہیں۔
بھیڑیا اور چرواہے:
ایک بھیڑیا کہیں سے گزر رہا تھا۔ راستے میں اسے ایک جھونپڑی نظر آئی۔ اس نے اندر جھانکا تو وہاں کچھ چرواہے بکرے کی بھنی ہوئی ران کے مزے اڑا رہے تھے۔ ”اگر یہ چرواہے مجھے ایسی دعوت اڑاتے دیکھ لیتے۔“ اس نے خود سے کہا ”تو طعنے دے دے کر میرا جینا حرام کر دیتے کہ میں کس قدر سفاک ہوں۔“
” لوگ اکثر ان اعمال کی بنا پر لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو وہ خود کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔“
بوڑھی عورت اور طبیب:
ایک بوڑھی عورت نے جو اندھی ہوگئی تھی، ایک طبیب کو بلایا اور کئی گواہوں کے سامنے اس سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اس کی بینائی لوٹا سکے تو وہ اسے منہ مانگا انعام دے گی۔ تاہم علاج میں ناکامی کی صورت میں اسے ایک پیسہ نہیں ملے گا۔ ان شرائط پر اتفاق کرنے کے بعد طبیب نے بوڑھی عورت کے گھر وقتاً فوقتاً آکر علاج شروع کر دیا مگر علاج کے بارے میں اس کی نیت ٹھیک نہ تھی۔ تاہم اس تمام عرصے میں وہ بوڑھی عورت کے گھر کا تمام قیمتی سامان اپنے گھر منتقل کرنے کا کام کرتا رہا۔ چند ہفتے گزرنے کے بعد بالآخر اس نے سنجیدگی سے بوڑھی عورت کا علاج کرنا شروع کر دیا اور اس کی بینائی بحال ہو گئی۔ لہٰذا طبیب نے عورت کو اس کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے اپنا انعام مانگا۔ مگر بوڑھی عورت نے جب بینائی بحال ہونے کے بعد دیکھا کہ اس کا گھر لٹ چکا ہے تو اس نے طبیب سے حیلے بہانے شروع کر دیئے۔ چنانچہ طبیب نے اسے عدالت میں طلب کر لیا اور اس پر رقم کی عدم ادائیگی کا الزام عائد کیا۔ اپنے دفاع میں بوڑھی عورت نے کہا۔
” یہ آدمی جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سچ ہے۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے میری بصارت بحال کر دی تو میں اس کو انعام دوں گی اور علاج میں ناکامی کی صورت میں اسے کچھ نہیں ملے گا۔ اب اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے میری بینائی بحال کر دی ہے مگر میں یہ نہیں مانتی۔ کیونکہ جب اس بیماری نے پہلی بار مجھ پر حملہ کیا تھا تو اس وقت بھی میں اپنے گھر میں موجود تمام قیمتی سامان اور فرنیچر دیکھ سکتی تھی۔ مگر اب جب کہ یہ کہتا ہے کہ اس نے میری بینائی بحال کر دی ہے ، میں اپنے گھر میں کسی سامان یا فرنیچر کا نام و نشان بھی نہیں دیکھ پا رہی۔“
”وہ جو دوسروں کے ساتھ چالاکی کرتا ہے اسے خود بھی نتائج بھگتنے کے لےے تیار رہنا چاہیے۔“
درخت اور کلہاڑی:
ایک لکڑہارا جنگل میں گیا اور درختوں سے درخواست کی کہ اسے اپنی کلہاڑی کا دستہ بناناہے اس نے نہایت تیزی کے ساتھ جنگل کے بڑے بڑے خوبصورت درخت کاٹنے شروع کر دیئے۔ جب تک شاہ بلوط کو صورت حال کا ادراک ہوا، اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ اس نے اپنے پڑوسی صنوبر کے درخت سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔
’ اپنے پہلے فیصلے سے ہم نے سب کچھ کھو دیا۔ اگر ہم نے اپنے غریب ساتھی کو قربان نہ کیا ہوتا تو ہم سب شاید مدتوں کھڑے رہنے کے قابل رہتے۔“
” جب طاقتور ، کمزور کے حقوق کی حفاظت سے دستبردار ہوجاتے ہیں تو ان جانے میں وہ خود انہےں اپنے مفادات کے خلاف آلہ کار بنا رہے ہوتے ہیں۔“
شور مچاتے پہیے:
ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک پر کچھ بیل سامان سے بھری ہوئی گاڑی کو دھکیل رہے تھے۔ اچانک گاڑی کے پہیوں سے چرچرانے کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ ڈرائیور نے ویگن سے سر نکالا اور چلا کر پہیوں سے کہا ”تم کیوں چلا رہے ہو جب کہ بیل جو بوجھ سے بھری ہوئی اس گاڑی کو دھکیل رہے ہیں وہ خاموش ہیں؟“
”ضروری نہیں کہ جو سب سے زیادہ شور مچا رہا ہو وہی سب سے زیادہ زخمی بھی ہو۔“
عقاب اور تیر:
ایک نشانے باز نے ایک عقاب کا نشانہ لیا اور اس کے دل مےں تیر دے مارا۔ جب موت کی تکلیف سے اس نے اپنا سر جھکایا تو اس نے دیکھا کہ تیر کے دونوں سروں پر اس کے اپنے پر لگے ہوئے تھے۔
”وہ زخم کتنے گہرے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔“ اس نے کہا۔ ” جو ان ہتھیاروں سے ہمیں لگتے ہیں جنہیں ہم خود دوسروں کو فراہم کرتے ہیں۔“
کنجوس:
یہ یقینی بنانے کے لیے کہ اس کی جائیداد ہمیشہ محفوظ رہے گی، ایک کنجوس نے اپنا سب کچھ فروخت کرکے ایک بہت بڑی سونے کی اینٹ خریدی جسے وہ زمین میں ایک سوراخ بنا کر چھپا کر رکھتا تھا کیونکہ وہ روزانہ دن میں کئی بار اس جگہ جا کر اپنا سونا دیکھا کرتا تھا، اس کے ملازموں میں سے ایک کو شک ہو گیا کہ اس کے مالک نے زمین میں کوئی خزانہ چھپا رکھا ہے۔ چنانچہ ایک دن جب کنجوس کسی کام سے باہر گیا تو نوکر نے خاموشی سے جا کر خفیہ جگہ سے سونا نکال لیا اور فرار ہو گیا۔ جب کنجوس اپنے کام سے واپس لوٹا اور اس نے سوراخ کو خالی پایا تو وہ اپنے بال نوچنے لگا اور چیخ چیخ کے رونے لگا۔ایک پڑوسی جو اس کے ماتم کو کافی دیر سے دیکھ رہا تھا، کہنے لگا، ”ارے بھئی! اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ بس ایک پتھر لو اور سونے کی جگہ رکھ دو! اور تصور کرو کہ یہ تمہارے سونے کی اینٹ ہے کیونکہ تمہارا اس سونے کی اینٹ کو زندگی بھر استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے بھی پتھر اس اینٹ کی جگہ کو پر کر سکتا ہے۔“
”دولت کی اہمیت اس کو جمع کرنے میں نہیں بلکہ اس کے استعمال میں ہے۔“
گھوڑا اور ہرن:
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گھوڑا اکیلا ایک چراہ گاہ کا مالک تھا۔ مگر ایک دن ایک ہرن اندر گھس آیا اور بے تکلفی سے گھاس کھانا شروع کر دی۔ بدلہ لینے کے لیے بے چین گھوڑے نے ایک آدمی سے کہا کہ کیا وہ ہرن سے انتقام لینے میں اس کی مدد کر سکتا ہے؟
”ہاں!“ آدمی نے کہا ”مگر اس کے لیے تمہیں مجھے اجازت دینی ہوگی کہ میں تمہارے منہ میں ایک رسی ڈالوں اور تمہاری پشت پر سوار ہو سکوں پھر میں وہ ہتھیار لینے جاؤں گا جن کی مدد سے میں ہرن کو سزا دے سکوں۔“ گھوڑا رضا مند ہو گیا اور آدمی اس کے منہ میں لگام ڈال کر اس کے اوپر سوار ہو گیا۔ تاہم اس وقت سے لے کر آج تک ہرن سے انتقام لینے کے بجائے گھوڑا انسان کی غلامی کررہا ہے۔
”ایسا انتقام بے فائدہ ہے جو کسی کو اپنی آزادی فروخت کرکے لیا جائے۔“
٭….٭