skip to Main Content

جھگڑالو میاں بیوی

رضا علی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔

ایک گاؤں تھا۔اس میں بہت سے چھوٹے چھوٹے مکان تھے۔ایک مکان میں میاں بیوی رہتے تھے۔یوں تو دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے ،لیکن ان میں جھگڑا بھی بہت ہوتا تھا۔
میاں کہتا:”بڑی بی!ذرا دروازہ بند کردو۔“
بیوی کہتی:”واہ ،میں کیوں بند کروں۔تم نے کھولا تھا،تم ہی بند کرو۔“
میاں کہتا :”نہیں، تم نے کھولا تھا۔“
بیوی کہتی :”تم نے ہی حکم دیا تھا تو میں نے کھولا،اب کم سے کم تم اسے بند تو کردو۔“
میاں کہتا:”میں نے ساری عمر تمہارے لیے محنت کی۔اب تم میرے لیے ایک ذرا سادروازہ بھی بند نہیں کر سکتیں۔“
بیوی کہتی:”کام بانٹ لو۔میں نے کھولا۔تم بند کرو۔“
میاں کہتا:”دیکھا،تم مان گئیں کہ دروازہ تم نے کھولا تھا۔“
بس دونوں اسی طرح لڑتے رہتے ،لیکن جب لڑتے لڑتے تھک جاتے تو چین سے رہنے لگتے۔
ایک روز بیوی بولی:”سنو،ہم دونوں عمر بھر لڑتے رہے۔سارے گاؤں والے ہم پر ہنستے ہیں۔آؤ اب لڑائی جھگڑا ختم کریں اور ایک کام کریں۔اپنے شادی والے کپڑے نکالیں۔تم دولہا بنو،میں دلہن بنوں۔پھر ہم نوجوانوں کی طرح بیٹھ کر کھانا کھائیں۔“
بڑے میاں کو یہ خیال بہت اچھا لگا۔دونوں بن سنور کر کھانے کی میز پر بیٹھے اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے،مگر اچانک بڑے میاں بیوی سے بولے:”ارے تم بھی عجیب عورت ہو،پھر دروازہ کھلا چھوڑ دیا۔اگر کسی ڈاکو نے حملہ کردیا تو سارا کھانا چھین کر لے جائے گا۔ جاؤ دروازہ بند کرو۔“
بیوی بولی:”ارے واہ،کبھی اپنی صورت دیکھی ہے جو بیٹھے حکم چلاتے ہو،خود جاؤ اور دروازہ بند کرکے آؤ۔“
میاں بولا:”تم دیکھو اپنی صورت،چڑیل جیسی صورت ہے تمہاری۔“یہ کہہ کر بڑے میاں نے میز پر گھونسا مارا۔
بیوی نے کہا:”ہو گی،مگر دروازہ تمہیں بند کرنا پڑے گا۔“
میاں نے کہا:”ہر گز نہیں۔“
بیو ی بولی:”ہر گزہاں۔“
اچانک میاں کو کچھ خیال آیا۔اس کا غصہ اتر گیا اور وہ بولا:”اس طرح ہم ساری عمر تو تومیں میں کرتے رہیں گے اور اپنا خون خود ہی جلاتے رہیں گے۔اب یوں کرتے ہیں کہ دونوں چپ ہو جاتے ہیں۔ چاہے کچھ ہو جائے ہم نہیں بولیں گے اور کوئی بولا تو اسے اٹھ کر دروازہ بند کرنا پڑے گا۔“
بڑی بی مان گئیں۔دونوں چپ ہو گئے۔صرف ان کی سانسوں کی آواز آرہی تھی۔ان کے منھ میں پانی آرہا تھا کیوں کہ سامنے مزے دار کھانا رکھا تھا۔
اتنے میں دروازے پر آکر ایک فقیر نے آواز دی:”اللہ کے نام پر بھوکے فقیر کو ایک روٹی کھلادو۔“
گھر والوں نے کوئی جواب نہ دیا تو فقیر کھڑا انھیں دیکھتا رہا۔پھر اس نے ہمت سے کام لیا اور اندر چلاآیا۔کیا دیکھتا ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت کھانے کی میز پر بت بنے بیٹھے ہیں۔
فقیرنے سوچا کہ شاید دونوں بیٹھے بیٹھے مر گئے۔اس نے بڑی بی کی ناک دبائی۔ان کا دم گھٹنے لگا ،مگر وہ چپ رہیں۔پھر فقیر نے بڑے میاں کا ایک کان کھینچا۔کان لال ہو گیا ،مگر بڑے میاں نے اف بھی نہ کی۔
آخر بوڑھا فقیر میز پر بیٹھ گیا اور مزے مزے کے کھانے ہڑپ کر گیا اور دونوں میاں بیوی اسی طرح خاموش بیٹھے رہے۔
اب فقیر نے اپنا منھ پونچھا اور مرغی کی ہڈیوں کاہاربنا کر بڑے میاں کے گلے میں ڈال دیا۔بڑے میاں دم سادھے بیٹھے رہے اور فقیر ہنستا ہوا چلا گیا۔
کچھ دیر بعد ایک چورنے کھلے ہوئے دروازے سے جھانک کر اندر دیکھا۔کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد بت بنے بیٹھے ہیں۔
وہ سمجھا کہ دونوں لکڑی کے بنے ہوئے ہیں۔اس نے عورت کی گردن پر گد گدی کی،لیکن وہ چپ رہی۔پھر چورنے بڑے میاں کے بال نوچے وہ بھی خاموش رہے ،آخر چورنے گھر کا سارا سامان ایک بوری میں بھرا اور لے کر چلتا بنا۔
اب ایک کتا گھر میں گھس آیا۔
اس نے دیکھا کہ بڑے میاں کے گلے میں مرغی کی ہڈیوں کا ہار پڑا ہوا ہے۔اس نے بڑے بڑے دانت نکال کر ان کے گلے پر حملہ کردیا۔ بڑی بی نے جو یہ دیکھا تو چلائیں:”کتے کے بچے!تو چاہتا ہے کہ میرے میاں کو پھاڑ کر کھائے۔ٹھہر تو ذرا۔“
یہ کہہ کر بڑی بی نے پیر سے جوتی اتاری اور اتنے زور سے ماری کہ کتا چلاتا ہوا بھاگا۔
بیوی کی آواز سنتے ہی میاں صاحب اٹھ کر ناچنے لگے اور کہنے لگے:”میں جیت گیا۔میں جیت گیا۔جاؤ اور جاکر دروازہ بند کرو۔“
بڑی بی بے چاری دروازہ بند کر نے چلی گئیں،مگر دونوں کی لڑائی جاری رہی۔آخر وہ سونے کے لیے لیٹے تو چپ ہوئے،لیکن ان کے خالی پیٹ شور مچاتے رہے۔دونوں بھوکے تھے۔
یہی ان کے لڑائی جھگڑے کی سزا تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top