بڑا آدمی
مولوی عبدالحق
۔۔۔۔۔۔
نام دیو،مقبرہ رابعہ دورانی(شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی بیگم) اورنگ آباد(دکن) کے باغ میں مالی تھا۔ ذات کا ڈھیڑ تھا جو بہت نیچ خیال کی جاتی ہے۔
مقبرے کا باغ میری نگرانی میں تھا۔ میرے رہنے کا مکان بھی باغ کے احاطے ہی میں تھا۔ میں نے اپنے بنگلے کے سامنے چمن بنانے کا کام نام دیو کے سپرد کیا ۔ میں اندر کمرے میں کام کرتا رہتا تھا۔ میری میز کے سامنے بڑی سی کھڑکی تھی، اس میں سے چمن صاف نظر آتا تھا۔ لکھتے لکھتے کبھی نظر اٹھا کر دیکھتا تو نام دیو کوہمہ تن اپنے کام میں مصروف پاتا۔ بعض دفعہ اس کی حرکتیں دیکھ کر تعجب ہوتا۔ مثلاً کیا دیکھتا ہوں کہ نام دیو ایک پودے کے سامنے بیٹھا۔ اس کا تھانولا(تنے کے آس پاس کی جگہ) صاف کر رہا ہے۔ تھانولا صاف کر کے حوض سے پانی لیا اور آہستہ آہستہ ڈالنا شروع کیا۔پانی ڈال کر ڈول درست کی اور ہر رخ سے پودے کو مڑ مڑ کر دیکھا ۔ پھر الٹے پاﺅں ہٹ کر اسے دیکھنے لگا۔ دیکھتا جاتا ، مسکراتا اور خوش ہوتا تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوتی اور خوشی بھی۔کام اسی وقت ہوتا ہے جب اس میں لذت آنے لگے۔بے مزا کام ،کام نہیں بے گار ہے۔
اب مجھے اس سے دلچسپی ہونے لگی ۔ یہاں تک کہ بعض وقت اپنا کام چھوڑکر اسے دیکھا کرتا، مگر اسے کچھ خبر نہ ہوتی کہ کوئی دیکھ رہا ہے یا اس کے آس پاس کیا ہورہا ہے۔وہ اپنے کام میں مگن رہتا۔ اس کے کوئی اولاد نہ تھی ۔ وہ اپنے پودوں اور پیڑوں ہی کو اپنی اولاد سمجھتا تھااور اس طرح ان کی پرورش اور نگہداشت کرتا،ان کو سرسبز اور شاداب دیکھ کر ایسا ہی خوش ہوتا جیسے ماں اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔ وہ ایک ایک پودے کے پاس بیٹھتا ، ان کو پیار کرتا، جھک جھک کے دیکھتا اور ایسا معلوم ہوتا ، گویا ان سے چپکے چپکے باتیں کر رہا ہے۔جیسے جیسے وہ بڑھتے اور پھولتے پھلتے ،اس کا دل بھی بڑھتااور پھولتا تھا۔ان کو توانادیکھ کر اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی۔ کبھی کسی پودے میں اتفاق سے کیڑا لگ جاتا یا کوئی اور بیماری لگ جاتی تو اسے بڑا فکرہوتا۔بازار سے دوائیں لاتا،باغ کے داروغہ یا مجھ سے کہہ کر منگاتا۔ دن بھر اسی میں لگا رہتااور اس پودے کی ایسی خدمت کرتا جیسے کوئی ہم درداور نیک دل ڈاکٹراپنے عزیز بیمار کی کرتا ہے۔ہزار کوششیں کرتا اور اسے بچا لیتا،جب تک وہ تن درست نہ ہوجاتااسے چین نہ آتا۔ اس کے لگائے ہو ئے پودے ہمیشہ پروان چڑھے اور کبھی کوئی پیڑ ضائع نہ ہوا۔
باغوں میں رہتے رہتے اسے جڑی بوٹیوں کی شناخت ہوگئی تھی۔خاص کر بچوں کے علاج میں اسے بڑی مہارت تھی۔دور دور سے لوگ اس کے پاس بچوں کے علاج کے لئے آتے تھے۔وہ اپنے باغ ہی میں سے جڑی بوٹیاں لاکر بڑی شفقت اور غور سے ان کا علاج کرتا۔کبھی کبھی دوسرے گاﺅں والے بھی اسے علاج کے لیے بلالے جاتے،بلا تامل چلا جاتا۔مفت علاج کرتا اور کبھی کسی سے کچھ نہیں لیتا تھا۔
وہ خود بھی بہت صاف ستھرا رہتا تھا اور ایسا ہی اپنے چمن کو بھی رکھتا،اس قدر پاک صاف جیسے باورچی خانے کا فرش،کیا مجال جو کہیں گھاس پھوس یا کنکر پڑا رہے۔راستے بنے ہوئے۔تنوں کے ارد گرد تھانولے بالکل درست۔سینچائی اور شاخوں کی کانٹ چھانٹ وقت پر،جھاڑنا بہاڑناصبح شام روزانہ،غرض سارے چمن کو آئینہ بنا رکھا تھا۔
باغ کے داروغہ(عبدالرحیم خان فینسی)خود بھی بڑے کار گزاراور مستعد شخص ہیں اور دوسروں سے بھی کھینچ تان کر کام لیتے ہیں۔اکثر مالیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنی پڑتی ہے ورنہ ذرا بھی نگرانی میں ڈھیل ہوئی،ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے یا بیڑی پینے لگے یا سائے میں جا لیٹے۔عام طور پرانسان فطرتاً کاہل اور کام چورواقع ہوا ہے۔آرام طلبی ہم میں کچھ موروثی ہوگئی ہے۔لیکن نام دیو کو کبھی کچھ کہنے سننے کی نوبت نہ آئی۔وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کام میں لگا رہتا،ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔
ایک سال بارش بہت کم ہوئی۔ کنوﺅں اور باولیوںمیں پانی برائے نام رہ گیا۔باغ پر آفت ٹوٹ بڑی۔ بہت سے پودے اور پیڑ ضائع ہو گئے۔جو بچ رہے وہ ایسے نڈھال اور مرجھائے ہوئے تھے جیسے دق کے بیمار لیکن نام دیو کا چمن ہرا بھرا تھا۔ وہ دور دور سے ایک ایک گھڑا پانی کا سر پر اٹھا کے لاتا اور پودوں کو سینچتا۔یہ وہ وقت تھا کہ قحط نے لوگوں کے اوسان خطا کر رکھے تھے اور انہیں پینے کو پانی مشکل سے میسر آتا تھا۔مگر یہ خدا کا بندہ کہیں نہ کہیں سے لے ہی آتا اور پودوں کی پیاس بجھاتا۔جب پانی کی قلت اور بڑھی تو اس نے راتوں کو بھی پانی ڈھو ڈھو کے لانا شروع کیا،پانی کیا تھا،یوں سمجھئے کہ آدھا پانی اور آدھی کیچڑ ہوتی تھی۔لیکن یہی گدلا پانی پودوں کے حق میں آب حیات تھا۔
میں نے اس بے مثل کارگزاری پر میں اسے انعام دینا چاہا تو اس نے لینے سے انکار کر دیا ۔ شاید اس کا کہنا ٹھیک تھا کہ اپنے بچوں کے پالنے پوسنے میں کوئی انعام کا مستحق نہیں ہوتا۔کیسی ہی تنگی ترشی ہو وہ ہر حال میں کرناہی پڑتا ہے۔
جب اعلا حضرت حضور نظام کو اورنگ آباد کی خشک آب و ہوامیں باغ لگانے کا خیال ہوا تو یہ کام ڈاکٹر سید سراج الحسن(نواب سراج یار جنگ بہادر مرحوم)ناظم تعلیمات کو تفویض ہوا۔ڈاکٹر صاحب کا ذوق باغبانی مشہور تھا۔مقبرہ رابعہ دورانی اور اس کا باغ جو اپنی ترتیب و تعمیر کے اعتبار سے مغلیہ باغ کا بہترین نمونہ تھا،وحشی جانوروں کا مسکن تھا اور جھاڑ جھنکار سے پٹا پڑا تھا۔آج ڈاکٹر صاحب کی بدولت سرسبزو شاداب اور آباد نظر آتا ہے۔اب دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے اور سیرو تفریح سے محظوظ ہوتے ہیں۔ڈاکٹرصاحب کو آدمی پرکھنے میں بھی کمال تھا۔وہ نام دیو کے قدردان تھے۔اسے مقبرے سے شاہی باغ میں لے گئے۔شاہی باغ آخر شاہی باغ تھا۔کئی کئی نگران اور بیسیوں مالی،اور مالی بھی کیسے کیسے،ٹوکیو سے جاپانی،تہران سے ایرانی اور شام سے شامی آئے تھے۔ان کے بڑے ٹھاٹ تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ وہ شاہی باغ کو حقیقت میں شاہی باغ بنانا چاہتے تھے۔ یہاں بھی نام دیو کا و ہی رنگ تھا۔ اس نے فن باغبانی کی کہیں تعلیم پائی تھی نہ اس کے پاس کوئی سند یا ڈپلوما تھا۔البتہ کام کی دھن تھی،کام سے سچا لگاﺅ تھا، اور اسی میں اس کی جیت تھی۔ شاہی باغ میں بھی اسی کا کام سب سے اچھا رہا۔ دوسرے مالی لڑتے جھگڑتے ، شراب پیتے ، یہ نہ کسی سے لڑتا جھگڑتا ، نہ شراب پیتا۔
ایک دن نہ معلوم کیا بات ہوئی کہ شہد کی مکھیوں کی یورش ہوئی۔ سب مالی بھاگ بھاگ کر چھپ گئے۔نام دیو کو خبر بھی نہ ہوئی کہ کیا ہو رہا ہے۔ وہ برابراپنے کام میں لگا رہا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ قضا سر پر کھیل رہی ہے۔مکھیوں کا غضب ناک جھلڑ اس غریب پر ٹوٹ پڑا۔اتنا کاٹا کہ بے دم ہو گیا۔ آخر اسی میں جان دے دی۔
وہ بہت سادہ مزاج تھا۔ بھولا بھالا اور منکسر مزاج تھا ۔اس کے چہرے پر بشاشت اور لبوں پر مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ چھوٹے بڑے ہر ایک سے جھک کے ملتا۔غریب تھا اور تنخواہ بھی کم تھی ، اس پربھی بساط سے بڑھ کر اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرتارہتا تھا۔کام سے عشق تھا اور آخرکار کام کرتے کرتے ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔
گرمی ہو یا جاڑ،ا دھوپ ہو یا سایہ ۔وہ دن رات برابر کام کرتا رہالیکن اسے کبھی یہ خیال نہ آیا کہ میں بہت کام کرتا ہوںیا میرا کام دوسروں سے بہتر ہے، اسی لیے اسے کبھی اپنے کام پر فخر یا غرور نہ تھا۔وہ یہ باتیں جانتا ہی نہ تھا،اسے کسی سے بیر تھا نا جلاپا۔وہ سب کو اچھا سمجھتا اور سب سے محبت کرتا تھا۔وہ غریبوں کی مدد کرتا،وقت پر کام آتا،آدمیوں،جانوروں،پودوں کی خدمت کرتا لیکن اسے کبھی یہ احساس نہ ہوا کہ وہ کوئی نیک کام کررہا ہے۔نیکی اسی وقت تک نیکی ہے جب تک آدمی کو یہ نہ معلوم ہو کہ وہ کوئی نیک کام کر رہا ہے۔جہاں اس نے یہ سمجھنا شروع کیا نیکی نیکی نہیں رہتی۔
جب کبھی مجھے نام دیو کا خیال آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ نیکی کیا ہے اور بڑا آدمی کسے کہتے ہیں۔ ہر شخص میں قدرت نے کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے۔ اس صلاحیت کو درجۂ کمال تک پہنچانے میں ساری نیکی اور بڑائی ہے۔ درجۂ کمال تک نہ کبھی کوئی پہنچا ہے ، نہ پہنچ سکتا ہے، لیکن وہاں تک پہنچنے کی کوشش ہی میں انسان انسان بنتا ہے۔یہ سمجھو کندن ہو جاتا ہے۔
حساب کے دن جب اعمال کی جانچ پڑتال ہوگی ۔خدا یہ پوچھے گا کہ میں نے جوصلاحیت تجھ میں ودیعت کی تھی، خلق اللہ(خدا کے بندوں) کو اس سے کیا فیض پہنچایا۔اگر نیکی اور بڑائی کا یہ معیار ہے تو نام دیو نیک بھی تھا اور بڑا بھی۔