سوت کا ریشم
عصمت چغتائی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ننھے بھائی ہمیں کتنی بار ہی بےوقوف بناتے،مگر ہم کو آخر میں کچھ ایسا قائل کردیا کرتے تھے کہ ان پر سے اعتبار نہ اٹھتا۔مگر ایک واقعے نے تو ہماری بالکل ہی کمر توڑ دی۔نہ جانے کیوں بیٹھے بٹھائے جو آفت آئی تو پوچھ بیٹھے:
”ننھے بھائی! یہ ریشم کیسے بنتا ہے؟“
”ارے بدھو! یہ بھی نہیں معلوم،ریشم کیسے بنتا ہے! اس میں مشکل ہی کیا ہے۔سادہ سوتی دھاگہ لو۔اسے دو پلنگوں کے پائے پر ایسا تان دو جیسے پتنگ کا مانجھا تانتے ہیں….بس جناب عالی! اب ایک یا دو حسب ضرورت انڈے لے لو۔ان کی زردی الگ کرلو،انہیں خوب کانٹے سے پھینٹو،اچھا نمک مرچ ڈال کر،آملیٹ بنا کر ہمیں کھلاؤ،سمجھیں؟“
”ہاں آں………… مگر ریشم؟“
”چہ…….. بے وقوف! اب سنو تو آگے۔باقی بچی سفیدی،اُ سے لے کر اتنا پھینٹو…. اتنا پھینٹو کہ وہ پھول کر کپا ہو جائے۔بس جناب اب یہ سفیدی بڑی احتیاط سے پلنگ کے پایوں پر تنے ہوئے تاگے پر لگا دو۔جب سوکھ جائے،سنبھال کے اتار کر اس کا گولا بنا لو، آپ چاہے اس کے ریشم سے ساڑھیاں بُنو،چاہے قمیصیں بناؤ۔“
”ارے باپ رے!“ہم نے سوچا۔ریشم بنانا اتنا آسان ہے اور ہم اب تک بدھو ہی تھے،جو اماں سے ریشمی کپڑوں کے لیے فرمائش کرتے رہے۔ارے ہم خود اتنا ڈھیروں ریشم بنا سکتے ہیں تو ہمیں کیا غرض پڑی ہے،جو کسی کی جوتیاں چاٹتے پھریں۔
بس صاحب،اسی وقت ایک انڈا مہیا کیا گیا۔تازہ تازہ کالی مرغی ڈربے میں دے کر اٹھی اور ہم نے جھپٹ لیا۔فوراً نسخہ پر عمل کیا گیا،یعنی زردی کا آملیٹ بنا کر خود کھا لیا،کیوں کہ ننھے بھائی نہیں تھے اس وقت۔اب سوال یہ پیدا ہوا کہ تاگہ کہاں سے آئے؟ظاہر ہے کہ تاگہ صرف آپا کی سینے پرونے والی صندوقچی میں ہی مل سکتا تھا۔سخت مرکھنی تھیں آپا۔مگر ہم نے سوچا،نرم نرم ریشم کی لچھیو ں سے وہ ضرور رام ہو جائیں گی….کیا ہے،ہم بھی آج انہیں خوش ہی کیوں نہ کر دیں۔بہت نالاں رہتی ہیں ہم سے،بدقسمتی سے وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھ بیٹھی ہیں۔آج ہم اُنہیں شرمندہ کر کے ہی چھوڑیں گے۔وہ بھی کیا یاد کریں گی کہ کس قدر فسٹ کلاس بہن اللہ پاک نے انہیں بخشی ہے۔جس نے سوت کا ریشم بنا دیا۔
آپاجان سو رہی تھیںاور ہم دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ ریشم کی ملائی لچھیاں دیکھ کر آپا بھی ریشم کا لچھا ہو جائیں گی….اور پھر ہمیں کتنا پیار کریں گی۔
سخت چپ چپا اور بدبودار تھاریشم بنانے کا یہ مسالہ۔ناتجربہ کاری کی وجہ سے آدھا تاگہ تو اُلجھ کر بے کار ہو گیا۔مگر ہم نے بھی آج تہیہ کر لیا تھا کہ اپنی قابلیت کا سکہ جما کر چین لیں گے۔
لہٰذا آ پاکی صندوقچی میں سے ہم نے ساری کی ساری رنگ برنگی سوتی اور ریشمی ریلیں لے کر دو پلنگوں کے درمیان تان دیں کہ ریشم تو اور چمک دار ہوجائے گا۔سوت ریشم ہو جائے گا۔اب ہم نے انڈے کی پھینٹی ہوئی سفیدی سے تانے ہوئے تاگے پر خوب گسّے دینے شروع کیے۔
اتنے میں آپاجان آنکھیں ملتی اور جمائیاں لیتی ہوئی ہمارے سر پر آن دھمکیں۔تھوڑی دیر تو وہ بھونچکی سی کھڑی یہ سارا تماشا دیکھتی رہیں۔
پھر بولیں:
”یہ…….. یہ کیا…….. کر رہی ہے مُردی؟“انہوں نے بہ دِقّت آواز حلق سے نکالی۔
”ریشم بنا رہے ہیں!“
ہم نے نہایت غرور سے کہا اور پھر نسخے کی تفصیل بتائی۔
اور پھر گھر میں وہی قیامت صغریٰ آگئی جو عموماً ہماری چھوٹی موٹی حرکتوں پر آجانے کی عادی ہو چکی تھی۔ناشکری آپا نے ہماری سخت پٹائی کی۔
گھر میں سب ہی بزرگوں نے دست ِ شفقت پھیرا:
”ریشم بنانے چلی تھیں!“
”اپنے کفن کے لئے ریشم بنا رہی تھی چڑیل۔“
لوگوں نے زندگی دُوبھر کردی،کیوں کہ واقعی ریشم بننے کے بجائے تا گہ،برتن مانجھنے کا جو نا بن گیا۔
ہم نے جب ننھے بھائی سے شکایت کی تو بولے:
”کچھ کسر رہ گئی ہو گی…….. انڈا باسی ہوگا۔“
”نہیں،تازہ تھا،اسی وقت کالی مرغی دے کر گئی تھی۔“
”کالی مرغی کا انڈا؟پگلی کہیں کی۔ کالی مرغی کے انڈے سے کہیں ریشم بنتا ہے؟“
”تو پھر……..؟“ہم نے احمقوں کی طرح پوچھا۔
”سفید جھک مرغی کا انڈا ہونا چاہیے۔“
”اچھا؟“
”اور کیا،اور آملیٹ تم خود نگل گئیں۔ہمیں کھلانا چاہیے تھا۔“
”تب ریشم بن جاتا؟“
”اور کیا!“بھیا نے کہا اور ہم سوچنے لگے۔سفید مرغی کم بخت کُڑک ہے، انڈوں پر بیٹھی ہے۔نہ جانے کب انڈے دینے شروع کرے گی۔خیر دیکھا جائے گا۔ایک دن آپا کو ہمیں مارنے پر پچھتانا پڑے گا۔جب ہم سارا گھر ریشم کی نرم نرم لچھیوں سے بھر دیں گے تو شرم سے آپا کا سر جھک جائے گا،اور وہ کہیں گی۔”پیاری بہن مجھے معاف کر دے تُو تو سچ مچ ہیرا ہے۔“
تو بچّو،اگر تم بھی ریشم بنانا چاہتے ہو تو نسخہ ےاد رکھو۔انڈا سفید مرغی کا ہو۔اگر فی الحال وہ کڑک ہے تو انتظار کرو۔اور زردی کا آملیٹ ننھے بھائی کو کھلانا۔خود ہرگز ہرگز نہ کھانا،ورنہ منتر الٹ پڑجائے گا،اور حالات نہایت بھونڈی صورت اختیار کرلیں گے۔پھر ہمیں دوش نہ دینا ۔