منیر احمد راشد
مزے میں تھے منے کے دن رات اب تک |
۔۔۔۔۔۔۔ |
ہُوا اُس کو احساس پھریہ یکایک |
ہے انجام اُس کا بڑا ہی بھیانک |
|
کہا یہ جو باجی نے اِک دن اچانک |
کہ ابا کو اب تو بتانا پڑے گا |
تمھیں ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا |
نہ کرتے ہو دانتوں کی اپنے صفائی |
۔۔۔۔۔۔۔ |
ہے کانوں میں کیچڑ کی تہہ بھی جمائی |
جو اکثر ہے بالوں میں مٹی اَٹائی |
|
تو صورت سے لگتے ہو مجنوں کے بھائی |
سبھی صاف ستھرا بنانا پڑے گا |
تمھیں ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا |
اگر پزا، برگرہی کھاتے رہو گے |
۔۔۔۔۔۔۔ |
جو چپس اور فرائز اُڑاتے رہو گے |
یونہی اپنی صحت گنواتے رہو گے |
|
اور امی کو ہر دَم ستاتے رہو گے |
تو موٹا سا ٹیکہ لگانا پڑے گا
تمھیں ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا |