۶ ۔ حجرِ اَسود کا ہنگامہ
ڈاکٹر عبدالرؤف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خانہ کعبہ مسلمانوں کی مقدّس ترین عبادت گاہ ہے ۔سب سے پہلے اِسے دُنیا کے سب سے پہلے اِنسان اور سب سے پہلے پیغمبر حضرتِ آدم ؑ نے تعمیر کیا تھا ۔حضرت جبرئیل ؑ جنت سے ایک بڑا سیاہ پتھّر لے آئے تھے ۔جسے اس عمارت میں نصب کر دیا گیا تھا ۔یہ پتھّر ،جسے حجرِاسود کہتے ہیں ،آ ج کل کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے ۔حضرت نوح ؑ کے دَور میں طُوفان سے اس عظیم عمارت کو بُہت نقصان پہنچا اور اس جگہ فقط ایک ٹیلہ سا باقی رہ گیا تھا۔حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے نامور فرزند حضرت اسمٰعیل ؑ نے خُدا کے حکم کی تعمیل میں کعبہ کی تعمیر نوکی ۔
خانہ کعبہ کو کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے ۔بیت اللہ (اللہ کا گھر )،بیت الحرام (پاکیزہ گھر ) ،مسجد الحرام (پاکیزہ مسجد ) وغیرہ ۔اِن سب ناموں سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ یہ عمارت بے حد مقدّس ہے اور صرف ایک اللہ کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہے ۔خانہ کعبہ کا احترام نا معلوم وقتوں سے ہوتا چلا آرہا ہے ۔ہر دَور میں لوگ یہاں حج اور عمرہ کرتے رہے ہیں ۔تاہم حضور ﷺ کی نبوّت سے کافی عرصہ پہلے رُوحانی تنزّل کی وجہ سے کعبہ بُت پرستی کے مرکز میں تبدیل ہو گیا تھا۔آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے اس میں ۳۶۰بُت نصب ہو چکے تھے ۔ہر عرب قبیلے کا اپنا علیٰحدہ بُت ہوتا تھا اور وُہ لوگ اُسی کی پُوجا کرتے تھے ۔مگر رُوحانی انحطاط کے ہر دور میں کُچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے تھے جو بُتوں کے آگے سر جھُکانے سے اِنکاری تھے ۔حضور ﷺکا شمار بھی اِسی قسم کے دانا لوگوں میں ہوتا ہے ۔
بارش اور سیلاب کی تباہی
خانہ کعبہ مکّہ مکرّمہ کے ایک ایسے نشیبی علاقے میں واقع ہے ،جہاں پُرانے زمانے میں بارش اور سیلاب کا پانی جمع ہو جایا کرتا تھا ۔اِس سے اس کی دیواروں اور اندرُونی حصّہ کو کافی نقصان پہنچتاتھا ۔پانی کی روک تھام کے لیے اُس زمانے میں خانہ کعبہ کے باہر ایک بند بنوایا گیا تھا ۔مگر یہ بند بھی پانی کے ریلوں کے آگے نہ ٹھہر سکا اور بار بار ٹوٹنے کے بعد آخرِ کار بالکل منہدم ہو گیا ۔جس کے بعد عمارت کو زیادہ نقصان پہنچتا رہا ۔ہوتے ہوتے صورتِ حال اس قدربگڑ گئی کہ ایک زمانے میں ےُوں دکھائی پڑنے لگا جیسے کعبہ کی خستہ عمارت عنقریب دھڑام سے آگرے گی ۔
اہلِ مکّہ اِس صُورتِ حال سے بُہت پریشان رہتے تھے ۔وہ کعبہ کے خستہ اور بوسیدہ حصّوں کو گِراکر اُنھیں از سرِنو تعمیر کرنا چاہتے تھے ۔مگر بات یہ تھی کہ ایّامِ جاہلیّت سے اُن کے ہاں یہ تو ہمّاتی تصوُّر چلا آتاتھا کہ خانہ کعبہ کا کوئی حصّہ گرانے سے خُدا کا عذاب نازل ہوتا ہے ۔اِس لیے کسی کو بھی مرمّت کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا ۔اُدھر مسلسل سیلابوں اور شہر سے آنے والے پانی نے کعبہ کی فصیل کو اس قدر کمزور کر دیا تھا کہ فوری مرمّت نا گزیر ہو گئی تھی ۔
حضور ﷺ طبعاًبے حد خلیق اور ملنسار تھے ۔آپ ﷺ اجتماعی اور فلاحی معاملوں میں اہلِ مکّہ کے ساتھ مل جُل کر رہتے تھے ۔آپ ﷺ کو بھی خانہ کعبہ کی خستہ حالی کا فکر دامن گیر رہتا تھا ۔بلکہ اِس عوامی تشویش کا اِحساس آپ ﷺ کو سب سے زیادہ لاحق تھا ۔
نذرانوں کی چوری اور ناگ کی موت
خانہ کعبہ کی تعمیرنو کو اولیّت مِلنے میں کئی باتوں کا دخل ہے ۔کعبہ کے وسط میں ایک کنواں ہوتا تھا۔ زیارت کے لیے آنے والے اِس کنویں میں اپنے نذرانے پھینک دیا کرتے تھے ۔ایک دفعہ کسی نے اِس کنویں سے کئی قیمتی اشیاء چُرالیں ۔چورکو چوری میں اِس لیے بھی آسانی ہُوئی تھی کہ کعبہ کی دیواریں نیچی بھی تھیں اور کچی بھی ۔اُن پر کوئی چھت بھی نہ تھی ۔بُہت تگ ودو کے بعدچور پکڑلیا گیا ۔جُرم کی پاداش میں اُس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے گئے ۔مگر نذرانوں والے کنویں سے مال ودولت کو مزید چوریوں سے بچانے کے لیے خستہ دیواروں کو گرا کر پُختہ دیواریں بنانا اور اُن پر چھت تعمیر کرنا پہلے سے کہیں زیادہ ناگزیر دکھائی دینے لگا۔
اِس کے علاوہ ایک دلچسپ واقعے بھی اس کام پر فوری توّجہ کا سبب بن گیا ۔کعبہ کے کنویں میں ایک پھن دار ناگ بھی رہتا تھا ۔وُہ دِن کے وقت کنویں سے نکل کر کعبہ کی منڈھیر پر بیٹھ جاتااورمزے سے دُھوپ سینکا کرتا تھا۔اگر کوئی شخص اُس کے نزدیک جانے کی جسارت کرتا تو وُہ پھن پھیلا پھیلا کر خوفناک پھُنکار کرتا اور ڈسنے کو لپکتا ۔جس سے سب لوگ بھاگ کھڑے ہوتے ۔
مرمّت اور تعمیرنو کا کا م شُروع ہونے میں اس ناگ کا خوف بھی حائل تھا ۔مگر پھر ہُوا ےُوں کہ اُن ہی دِنوں ایک بڑا عقاب اُڑتے اُڑتے اُدھر آنکلا ۔وُہ بجلی کی طرح ناگ پر لپکا اور اُسے دبوچ کر لے اُڑا ۔یہ واقعہ اس قدر دلچسپ اور معنی خیز تھا کہ ایک شاعر زبیر نے اِس پر بڑے خوبصورت شعر بھی لکھے ۔ناگ کے خاتمے کے بعد لوگ ےُوں محسوس کرنے لگے جیسے خانہ کعبہ کی تعمیرنو کے لیے خُدا نے اُن کا راستہ صاف کر دیا ہے ۔
یونانی انجینئر کی نگرانی
اِتّفاق کی بات ہے کہ عین اُن ہی دِنوں ایک ےُونانی تاجر اور انجینئر با قوم کا جہاز طوفان کی زد میں آگیا اور بندرگاہ جدّہ کے ساحل کے نزدیک آکر کنارے سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا ۔باقوم اپنے وقت کا ہُنر مند ا نجینئرتھا ۔اُسے معماری اور نجّاری میں بھی دسترس حاصل تھی ۔اہلِ مکّہ کو جہاز کی تبا ہی کی خبر ہُوئی تو اُنھوں نے باقوم کے پاس ایک وفد روانہ کیا۔وفد نے اُس کا ٹُوٹا پھُوٹا جہاز خرید لیا تا کہ اُس کی لکڑی کے تختے خانہ کعبہ کی تعمیرنو میں استعمال کیے جا سکیں ۔وفد نے باقوم کو اپنے ہمراہ مکّہ چلنے اور کعبہ کی مرمّت کے کام کی نگرانی کرنے پر راضی کر لیا ۔چنانچہ باقوم کی معاونت کے لیے مکّہ کے ایک تجربہ یافتہ کار یگر کی خدمات بھی حاصِل کر لی گئیں اور پھر بڑے زورو شور سے کام شُروع کر دیا گیا ۔
خانہ کعبہ کی تعمیرنَو کے لیے اِس تاریخی کام میں تمام قبیلے متّحد ہو کر پُورے جوش وخروش سے مصرُوف ہوگئے اور کوئی قبیلہ بھی اس شرف سے محروم نہ رہا ۔حضور ﷺ بھی اِس کارِخیر میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے رہے تھے ۔
ہنگامہ اور خانہ جنگی کا خطرہ
ہر قسم کا مطلوبہ تعمیری سامان فراہم کر لیا گیا ۔مکّہ کے آس پاس کی پہاڑیوں سے نیلے پتھّر جمع کر لیے گئے اور تعمیر کا کام پڑی سُرعت اور جانفشانی سے آگے بڑھنے لگا ۔جب دیواریں پانچ چھ فُٹ کے لگ بھگ اُٹھ گئیں تو حجر اَسود کو اس کی پُرانی جگہ پر نصب کرنے کا مرحلہ در پیش ہُوا ۔اس مقدّس پتھر کو اُٹھا کر اس کی قدیم روایتی جگہ پر رکھنا ایک ایسا بڑا اِعزاز تھا،جسے حاصل کرنے کے لیے ہر قبیلہ بے حد مضطرب تھا۔چنانچہ اس نازک معاملے پر گرما گرم بحث بازی کا سِلسلہ چھڑگیا اور جلد ہی نوبت تلخ کلامی اور تُوں تُوں مَیں مَیں تک جا پہنچی ۔کوئی قبیلہ اپنے حق سے دستبردار ہونے پر رضا مند نہ تھا ۔تکرار لمبی ہوتی گئی تو معاملہ جنگ و جدل کی سی صُورت اِختیار کرنے لگا ۔آناًفاناًتلواریں کھچ گئیں اور وُہ خُونخوار درندے مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے ۔
ایک جنگجو قبیلے نے تو حد کردی ۔اُنھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ کسی اور قبیلے کو حجرِاَسود نصب کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے ۔پُرانے زمانے میں عرب میں دستور تھا کہ جب کوئی شخص کسی مفاد کے لیے جان دینے کی قسم کھاتا تو اِنسانی خُون سے بھرے ہُوئے پیالہ میں اپنی اُنگلیاں ڈبولیتا تھا ۔اُس وحشی قبیلے کا سردار خون سے لبالب کٹورا خانہ کعبہ میں اُٹھا لایا ۔قبیلہ کے سب تندوتیز نوجوانوں نے خُون میں ہاتھ ڈبو ڈبو کر عہد کیا کہ اگر کسی اور قبیلہ نے حجرِاسود نصب کرنے کی جرأت کی تو وہ سب کٹ مریں گے ۔
غرض کہ پُورے چار دِن تناؤاور تصادم کی یہ خوفناک کیفیت لوگوں کے اعصاب پر بُری طرح سوار رہی ۔اور ےُوں دکھائی دیتاتھا کہ قتل وغارت کا ایک لا متناہی سِلسلہ کسی وقت بھی سارے مکّہ کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔
حضور ﷺ کی معاملہ فہمی
قریش کا ایک بُوڑھا سردار بُہت دانش مند انہ اور صُلح جُو تھا ۔وُہ چاہتا تھا کہ حجرِاَسود کا ہنگامہ کسی خون خرابے کے بغیر طے ہو جائے ۔چنانچہ اُس نے مشورہ دیا کہ کل صُبح جو شخص کوہ صفا والی جانب سے سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہو اُسے ثالث مان لیا جائے اور حجرِاَسود نصب کرنے کے بارے میں پھر جو بھی فیصلہ وہ دے اُسے تمام قبیلے حتمی طور پر تسلیم کر لیں ۔بُوڑھے سردار کی تجویزپر سب کا اتّفاق ہو گیا۔
دُوسری صُبح سب لوگ خانہ کعبہ کے باہر بیٹھ کر بے تابی سے اِنتظار کرنے لگے کہ کوہِ صفا کی طرف سے سب سے پہلے کون شخص اندر داخل ہوتا ہے ۔خُدا کی قدرت اُس صُبح جو شخص اُس سمت سے سب سے پہلے خانہ کعبہ میں داخل ہُوا وہ حضور ﷺ ہی تھے ۔حضور ﷺ کا احترام تو سبھی کرتے تھے ۔بلکہ یہاں تک کہ اصل نام پُکارنے کی بجائے آپ کو احتراماً’’امین ‘‘اور ’’صادق ‘‘کے معزّز ترین القابوں سے یاد کیا جاتاتھا ۔چُنانچہ جونہی آپ ﷺ خانہ کعبہ میں داخل ہُوئے ہر طرف خُوشی کے نعرے بلند ہُونا شُروع ہُوئے ۔لوگ بے ساختہ پُکار اُٹھے :’’یہ تو وُہی امین ہیں جنھیں ہم خُوب جانتے ہیں ۔ہم انھیں بخوشی اپنا ثالث تسلیم کرتے ہیں ۔‘‘
حضور ﷺ موقعہ کی نزاکت سے بخوبی آگاہ تھے ۔آپ ﷺ نے فرمایا ’’ایک چادر لاؤ‘‘۔چادر فوراًمہیّا کر دی گئی ۔آپ ﷺ نے اُسے زمین پر بچھا دیا اور اپنے مُبارک ہاتھوں سے حجرِاَسود اُٹھا کر چادر کے وسط میں رکھ دیا ۔پھر تمام قبیلوں کے منتخب نمائندوں سے فرمایا:’’اب تم سب اس چادر کے کنارے تھام لو اور اِسے اُٹھا کر اُس مقام تک لے جاؤجہاں حجرِاسود نصب ہونا ہے ۔‘‘سب لوگ چادر کے کنارے تھامے خُوشی خُوشی اُس مقا م پر پہنچ گئے ۔آپ ﷺ نے فرمایا :’’اب اِسے زمین پر رکھ دو ۔‘‘پھر آپ ﷺ آگے بڑھے ،حجرِاَسود اُٹھایااور اُسے مقرّر مقام پر رکھ دیا ۔آپ ﷺ کی اِس معاملہ فہمی اور دانشمندانہ تصیفے سے سارے متحارب قبیلے بے حد مسرُور اور مطمئن ہو گئے ۔
حضور ﷺ کی اِس دانشمندی سے وہ تندوتیز قبیلے ایک خونخوار خانہ جنگی سے بچ گئے ۔ورنہ وُہ اکھڑ لوگ تو مرنے مارنے کے لیے تیار ہو کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے ۔وہ جاہل لوگ جو ذرا ذرا سی باتوں پر تلواریں تان کر تصادم کے شعلوں میں کُود پڑنے کے عادی تھے ،بھلا عزّت اور ناموس کے اِتنے بڑے معاملوں پر صبروتحمل اور فہم و فراست سے کیسے کام لے سکتے تھے ۔حجرِاَسود کے اِس مشہُور واقعہ کو بُہت تاریخی اہمیت حاصل ہے ۔دَورِنبوّت میں حضور ﷺ کی یہ حدیث بھی اِسی واقعہ کی طرف ایک لطیف اِشارہ ہے کہ’’میں نبوّت کی عمارت کا آخری پتھّر ہوں ۔‘‘