گلفام نامہ
عبدالقادر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ زمانے کی ہے داستاں | تھا اک ملک کا بادشاہ گل زماں | |
بڑا ملک تھا اور بہت شان تھی | زمیں پر تھی شہرت، بہت آن تھی | |
رعایا تھی خوش حال اور شادماں | نہیں تھا کہیں رنج و غم کا نشاں | |
خدا نے دیے اس کو شہزادے تین | بہت نیک سیرت ، نہایت ذہین | |
بہت ناز سے اُن کو پالا گیا | علوم و فنوں سے نوازا گیا | |
خزانے میں دولت کا انبار تھا | بہت قیمتی اس میں اک ہار تھا | |
ہر اک شہزادہ اس ہار پر تھا فدا | وہی ہار تینوں کو مطلوب تھا | |
پریشان اس بات پر تھا پدر | عزیز اس کو تھے اپنے تینوں پسر | |
بہت عقل والا تھا شاہ کا وزیر | بڑا نیک دل اور روشن ضمیر | |
اُسی کو بلا کر کیا تذکرہ | ’’مجھے تم سے درکار ہے مشورہ | |
خزانے میں ہے ایک سونے کا ہار | مرے تینوں بیٹے ہیں اُس پر نثار | |
نہیں مجھ کو منظور دل توڑنا | کسے ہار دُوں تم بتاؤ ذرا‘‘ | |
وہ کہنے لگا ’’ہم نکالیں گے حل | کیا جائے گا پھر اُسی پر عمل‘‘ | |
ہوا طے کہ تینوں چلائیں گے تیر | ہوا کو وہ تیروں سے ڈالیں گے چیر | |
بہت آگے جس کا پہنچ جائے گا | وہ شہزادہ حقدار ہو جائے گا | |
ہوئی صبح صادق تو شاہ اور وزیر | وہ شہزادے لے کر کمان اور تیر | |
ہوئے پانچوں جنگل کی جانب رواں | جہاں تین بیٹوں کا تھا امتحاں | |
اُجالا ہوا ہر طرف دشت میں | چلائے گئے تیر اک وقت میں | |
کمانوں سے وہ تیر آگے گئے | اُسی سمت میں سب روانہ ہوئے | |
وہ پانچوں تھے گھوڑوں کے اوپر سوار | نتیجے کا اُن سب کو تھا انتظار | |
بڑے بھائی کا تیر آیا نظر | جو پہنچا تھا انگور کی بیل پر | |
گئے اور آگے وہ کہسار میں | ملا تیر منجھلے کا اک غار میں | |
کئی گھنٹے جاری رہا پھر سفر | نہیں تیر چھوٹے کا آیا نظر | |
کہا بادشاہ نے ’’قدم روک لو | بہت دُور آئے ہیں، واپس چلو | |
ہمیں تیر آخر میں جس کا ملا | اُسے ہار جا کر دیا جائے گا | |
تھا گلفام چھوٹا، وہ رونے لگا | بہاتے ہوئے اشک، کہنے لگا | |
’’ پلٹ کر یہاں سے نہیں جائیں گے | ہے اک تیر آگے، اُسے لائیں گے‘‘ | |
نہیں بات چھوٹے کی مانی گئی | خوشامد بھی بے کار ثابت ہوئی | |
کہا اُس نے ’’واپس نہیں جاؤں گا | اکیلا ہی جا کر اسے لاؤں گا‘‘ | |
وہ گلفام کو چھوڑ کر چل دیئے | بیاباں میں تنہا اسے کر گئے | |
سفر آگے گلفام کرتا رہا | لیے چشم پُر نم، وہ بڑھتا رہا | |
وہ وعدہ خلافی پہ دل گیر تھا | غم و یاس کی زندہ تصویر تھا | |
ملا راستے میں بڑا سا شجر | نظر آیا وہ تیر اک شاخ پر | |
شجر سے چڑھا، تیر کو چھو لیا | ذرا کھینچ کر اُس کو حاصل کیا | |
بڑا کارنامہ دکھایا مگر | نہیں مل سکا اُس کو اچھا ثمر | |
تھا گلفام پر غم کا گہرا اثر | شروع پھر ہوا واپسی کا سفر | |
اچانک یہ محسوس اس کو ہوا | کوئی اس کے پیچھے ہے بیٹھا ہوا | |
پلٹ کر جو دیکھا تو گھن آگئی | بڑی سی بندریا تھی بیٹھی ہوئی | |
اسے زور سے ایک دھکا دیا | زمیں پر بندریا کو پہنچا دیا | |
اچھل کر بندریا ہوئی پھر سوار | نہیں مانی انسان سے اپنی ہار | |
دوبارہ بندریا کو دھکا دیا | زمیں بوس اُس جانور کو کیا | |
یہی کھیل دونوں کا ہوتا رہا | وہ آتی رہی ، وہ گراتا رہا | |
لگا سوچنے اس میں کیا راز ہے | بندریا کا یہ کیسا انداز ہے | |
مجھے اس نے بندر تو سمجھا نہیں؟ | مرا منہ تو لنگور جیسا نہیں؟ | |
مجھے سمجھے لنگور یا آدمی | نہیں پیار کی اس کے دل میں کمی | |
اسے پیار ہے ایک انسان سے | محبت ملی مجھ کو حیوان سے | |
بندریا کو اب میں کروں گا نہ دُور | اسے ساتھ اپنے رکھوں گا ضرور | |
اسے محل میں ساتھ لے کر گیا | وہ خوش تھا کہ اک پیارا ساتھی ملا | |
ہوئی رات تو اک تماشا ہوا | بندریا کا جب راز افشا ہوا | |
بدن سے اتاری بندریا نے کھال | تو ظاہر ہوئی اک پری بے مثال | |
پری تھی نہاں کھال میں اس طرح | صدف میں ہو پنہاں گہر جس طرح | |
کہا اس پری نے ’’سدا خوش رہو | خدا سے مراد اپنی مانگا کرو | |
جو گزری ہے تم پر، مجھے ہے خبر | پری ہوں ، پرستان ہے مستقر | |
ہے میرے گلے میں جو ہیروں کا ہار | اسے کر رہی ہوں میں تم پر نثار‘‘ |
اسے ہار دے کر وہ رخصت ہوئی | مگر جاتے جاتے نصیحت یہ کی |
’’نہ کرنا کبھی فانی دنیا سے پیار |
فقط آخرت ہے بہت پائیدار‘‘
|
Facebook Comments