سیما صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک تھا بادشاہ۔۔۔ اس کے دو بیٹے تھے ’’زریاب‘‘ اور ’’نایاب‘‘۔ زریاب مغرور اور بدمزاج تھا۔ جبکہ نایاب شریف اور نیک دل۔ بادشاہ کا ایک وزیر بھی تھا جو بہت عقل مند تھا۔ (وزیر ہمیشہ عقل مند ہی ہوا کرتے ہیں۔۔۔ کیونکہ حماقتوں کے لئے بادشاہ جو موجود ہیں)
ایک دن بادشاہ کے سر میں اچانک درد شروع ہوگیا۔۔۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ بالوں کے نیچے کوئی خفیہ پھوڑا نکل آیا ہو۔ دور دراز سے حکیم اور ڈاکٹر بلوائے گئے (حالانکہ قریب میں بھی کئی اچھے حکیم تھے) مگر بادشاہ کا مرض روز بروز بڑھتا گیا۔۔۔ ایک دن وزیر باتدبیر ایک قریبی حکیم کو پکڑ لایا۔ اس نے جو سر کو ٹٹولا ۔۔۔ تو معلوم ہوا کہ سر میں دو چھوٹے چھوٹے سینگ اُبھرے ہوئے ہیں۔ حکیم نے قدرے جھجھکتے ہوئے کہا ’’بادشاہ سلامت! آپ کے سر پر سینگ نکل آئے ہیں!‘‘
حکیم کی یہ تفتیشی رپورٹ سُن کر بادشاہ بھڑک اُٹھا اور بولا ’’یہ کیا بکواس ہے۔۔۔ ہم بادشاہ ہیں یا کوئی گائے بکری؟‘‘
حکیم ہاتھ جوڑ کر بولا ’’جناب ہونی کو کون روک سکتا ہے اور ہونے کو دنیا میں کیا نہیں ہوتا؟‘‘
بادشاہ قدرے نرم پڑتے ہوئے بولا ’’مگر اس ’’انہونی‘‘ کا کوئی علاج تو ہوگا؟‘‘
’’جی حضور!! ہے تو سہی۔ مگر اتنا دشوار جیسے بغیر انگلیوں کے بانسری بجانا‘‘۔
’’حکیم تم تمہید نہ باندھو۔۔۔ نسخہ بیان کرو!‘‘ بادشاہ نے چڑ کر کہا۔
حکیم نے کہا ’’بادشاہ سلامت ملک پرستان میں ایک ’’البیلا جن‘‘ رہتا ہے، یہ تمام جنوں کا سردار ہے۔ اس کے چار بچے ہیں۔ سب سے چھوٹے بچے نے ایک سفید طوطا پالا ہوا ہے، اس طوطے میں جن کی جان ہے (حالانکہ بچے میں ہونی چاہئے تھی) بچہ ہمہ وقت اس کا پنجرہ اپنے پاس رکھتا ہے، کبھی کھیل ہی کھیل میں اس کا گلا گھونٹنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ (اس معاملے میں اسے ماں کی خاموش حمایت حاصل ہے) اگر اس طوطے کی گردن مروڑ دی جائے تو جن بھی فی الفور ہلاک ہوجائے گا اور اس کے مرتے ہی محل میں زلزلہ سا آجائے گا۔ زمین سے ’’سیاہ لاوا‘‘ برآمد ہوگا جس کی حفاظت ایک خوفناک بلا کررہی ہوگی۔ اگر اس لاوے سے بادشاہ کے سینگوں کی مالش کی جائے تو یہ ایسے غائب ہوجائیں گے جیسے گدھے کے سر سے سینگ! (یعنی گدھے کی طرح بادشاہ کے بھی سر پر سینگ نہیں رہیں گے)۔
بادشاہ یہ لمبا چوڑا نسخہ سن کر قدرے پریشان ہوگیا۔ کہنے لگا کہ ’’یہ تو بتاؤ کہ پرستان کونسی ’’بس‘‘ جاتی ہے‘‘۔ حکیم نے بادشاہ کی حماقت آمیز بات سُن کر تاسف سے سر ہلایا اور بولا۔۔۔ ’’وہاں کوئی کوچ یا بس نہیں جاتی۔۔۔ اس کے لئے آپ کو ’’جادوئی قالین‘‘ یعنی ’’فلائنگ کارپٹ‘‘ کا انتظام کرنا ہوگا جو کسی جن یا جادوگر کی کسٹڈی میں ہوگا‘‘۔
’’اچھا تو کسی جادوگر سے تمہاری واقفیت ہے۔۔۔ میرا مطلب ہے کوئی ایڈریس وغیرہ!‘‘۔
’’جناب اگر میں جادوگر کا ایڈریس بھی بتادوں تو کہانی یہیں ختم نہ ہوجائے گی‘‘۔
’’کہانی۔۔۔ کون سی کہانی۔۔۔‘‘ بادشاہ آگ بگولا ہوکر بولا۔۔۔ ’’سیدھی طرح بتاؤ۔۔۔ ورنہ تمہاری حکمت کا لائسنس کینسل کرادوں گا۔۔۔ کیا سمجھے!‘‘
حکیم منمنا کر بولا ’’جناب آپ کے صاحبزادے ماشاء اللہ دانا و بینا ہیں، مجھے یقین ہے کہ وہ جادوگر یا جن کو ڈھونڈ نکالیں گے اور اس کی مدد سے ’’اُڑن قالین‘‘ بھی ارینج کرلیں گے‘‘۔
’’ٹھیک ہے!‘‘ بادشاہ نے ہنکارا بھر کر کہا ’’لیکن جب تک شہزادے اس مہم سے فارغ نہیں ہوتے تم شاہی قلعے میں محصور رہوگے۔ غمگین اشعار کہوگے اور ٹائم پاس کرنے کے لئے چکی پیسوگے‘‘۔
حکیم نے گھبرا کر کہا ’’جناب یہ آپ بادشاہوں کا اچھا طریقہ ہے۔۔۔ جو نیکی کرتا ہے اُسی کو دریا میں ڈلوا دیتے ہیں۔۔۔ نسخہ بتانے کی اچھی سزا ملی ہے! یہ بھی فرمائیے کہ اگر میرا نسخہ کارگر رہا اور آپ کے سینگ غائب ہوگئے تو انعام کیا ملے گا؟‘‘
’’انعام!!‘‘ بادشاہ نے قدرے تفاخر سے کہا ’’ہم ایک بڑا ترازو منگوائیں گے۔ اس کے ایک پلڑے میں تمہیں اور دوسرے میں وہ سارا آٹا رکھا جائے گا جو تم (دورانِ قید) چکی میں پیسو گے، تمہارے وزن کے مساوی آٹا تمہیں بخش دیا جائے گا‘‘۔
’’کیا!!‘‘ حکیم کا چہرہ اُتر گیا ۔۔۔ ’’جناب میں نے تو سُنا تھا کہ بادشاہ منہ مانگا انعام دیتے ہیں۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ مجھے اشرفی وغیرہ سے نواز دیں‘‘۔
’’ہاں ہاں!!‘‘ بادشاہ نے ہاتھ اُٹھا کر تسلی آمیز انداز میں کہا ’’اطمینان رکھو۔۔۔ تمہیں اشرفی برانڈ آٹا ہی دیا جائے گا‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شاہی اہلکار حکیم کو پکڑ کر لے گئے تو وزیر موصوف نے آزردگی سے کہا ’’جناب مجھے آپ کا شاہی مستقبل خطرے میں نظر آرہا ہے۔ آج آپ کے سینگ نکلے ہیں کل کلاں کو چند مزید ’’اضافے‘‘ ہوگئے تو رعایا کا کیا ردعمل ہوگا؟‘‘
بادشاہ کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔۔۔ کہنے لگا ’’ایسی دہلا دینے والی صورتحال کا نقشہ نہ کھینچو۔۔۔ ہم ابھی اپنے شہزادوں کو بلواتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ ہمارے لئے حکیم صاحب کا تجویز کردہ نسخہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ آخر ہم ان کے باپ ہیں۔ کیا عزت رہ جائے گی جب ہم شہزادوں کے سسرال، ان کا رشتہ لینے سینگوں سمیت جائیں گے‘‘۔ (لڑکی والے تو دُم دبا کر بھاگ جائیں گے!)
وزیر باتدبیر نے پُرخیال انداز میں ہنکارا بھر کر کہا ’’مگر بادشاہ سلامت میری رائے میں دونوں شہزادوں کو ایک ساتھ اس مہم پر نہ بھیجیں (ورنہ کہانی جلدی ختم ہوجائے گی) یہ مہم جان جوکھوں میں ڈال دینے والی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سینگوں کے چکر میں بیٹوں سے بھی جائیں۔ پہلے بڑے صاحبزادے زریاب کو بھیجئے‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شہزادہ زریاب کے لئے پہلا مرحلہ جادوگر جن کی تلاش تھی، جس کا ایڈریس نامعلوم تھا، لہٰذا وہ یونہی منہ اُٹھائے گھوڑے پر سوار اِدھر اُدھر گھومتا رہا۔۔۔ یہاں تک کہ ایک ویران جنگل میں جا پہنچا، جنگل اس حد تک ویران تھا کہ اس میں کوئی جانور تک نہ تھا۔ بس ایک کُٹیا تھی۔۔۔ جس سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔۔۔ زریاب نے اندر جھانکا تو دیکھا کہ ایک درویش بیٹھا سگریٹ پھونک رہا ہے۔ کُٹیا کی دیواروں پر جا بجا زرد کاغذ پر بنے خزانے کے نقشے آویزاں تھے۔ مگر شہزادے نے اس میں دلچسپی ظاہر نہ کی۔ ایسے چھوٹے موٹے خزانے تو ان کے والد صاحب رعایا سے ٹیکس کے نام پہ نکلوالیا کرتے تھے۔ زریاب کو دیکھتے ہی درویش سمجھ گیا کہ یہ یقیناً پرستان کے جادوگر کا ایڈریس معلوم کرنے آیا ہے۔ درویش اس جنگل میں صدیوں سے رہتا آیا تھا، اب تک درجنوں شہزادوں کو پرستان کا پتہ سمجھا سمجھا کر تھک چکا تھا۔ چنانچہ اس نے بوریت سے جمائی لیتے ہوئے، کٹیا کے کونے میں پڑی پوٹلی کی جانب اشارہ کیا اور کہا ۔۔۔ ’’وہ پوٹلی اُٹھا لو۔۔۔ اس میں تمہیں طلسماتی ٹوپی اور جادوئی انگوٹھی مل جائے گی۔۔۔ اور ہاں جاتے ہوئے کُٹیا کا دروازہ بند کرتے جانا‘‘۔ یہ کہہ کر درویش بابا لمبی تان کر سوگیا۔ شہزادے نے خفگی سے کہا ’’عجب آدم بے زار درویش ہو۔ چیزیں پکڑا دیں اور طریقۂ استعمال بتایا نہیں؟‘‘ درویش نے چادر کا کونا منہ سے اُٹھایا۔ تکیہ کے نیچے سے ایک پرچہ نکالا اور جھلا کر بولا ’’یہ لو۔۔۔ طریقۂ استعمال میں نے فوٹو کاپی کراکر رکھ لیا ہے۔۔۔ اسے پڑھ کر اپنا سفر طے کرنا۔ ہاں واپسی میں یہ تینوں چیزیں مجھے واپس کردینا اور اس پرچے کی بیس فوٹو کاپیاں بھی کراتے لانا، میرا تو حال خراب ہوگیا فوٹو کاپی کرا کراکر‘‘۔
شہزادے کو درویش کی بدزبانی پر بہت غصہ آیا۔ آخر کو شہزادہ تھا۔ دل ہی دل میں ٹھان لی کہ واپسی میں اس درویش کے بچے کو ایسا مزا چکھاؤں گا کہ ساری درویشی بھول جائے گا۔
پرچے پر لکھی ہدایات کے مطابق شہزادے نے عمل شروع کیا۔ انگوٹھی باریک ٹین کی پتری جیسی نوک دار تھی، اُسے پتھر پر رگڑا تو شہزادے کا ہاتھ کٹ گیا اور بھل بھل خون بہنے لگا، ابھی وہ اس اُفتاد سے پریشان ہی تھی کہ فضا میں گڑگڑاہٹ سی محسوس ہوئی، ایک جانب سے دھواں سا اُٹھا جیسے کسی نے کچرا جلادیا ہو۔۔۔ ایک کالا جن نمودار ہوا۔ سینگوں کی وجہ سے وہ اسے اپنے والد سے مشابہ ہی معلوم ہوا۔ جن نے نیند سے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’ہاں! بولو کیا مصیبت آپڑی۔۔۔ صبح صبح؟‘‘ شہزادہ خون بہنے سے اس قدر پریشان تھا کہ بے ساختہ منہ سے نکلا ۔۔۔ ’’ڈاکٹر ۔۔۔ ڈاکٹر کو حاضر کیا جائے‘‘۔ مرہم پٹی کے بعد جب ڈاکٹر غائب ہوگیا تو شہزادے کو خیال آیا کہ اصل میں تو مجھے اُڑن قالین کی ڈیمانڈ کرنی تھی۔۔۔ یہ معمولی بینڈیج تو میں کسی بھی کلینک سے کراسکتا تھا۔
خیر دوبارہ انگوٹھی کو رگڑا۔۔۔ خوفناک گڑگڑاہٹ کی آواز آئی۔۔۔ مگر یہ کیا؟ جن کے بجائے ۔۔۔ جن کا ایک گول مٹول سا بچہ نمودار ہوا اور ہُوہُو کرکے بدتہذیبی سے ہنسنے لگا۔ شہزادے نے پوچھا ’’تم کون ہو!‘‘ جن کے بچے نے کہا ’’ابا نے مجھے بھیجا ہے۔ پہلی بار وہ خود آتے ہیں اور اگر کوئی بار بار تنگ کرے تو مجھے بھیج دیتے ہیں۔ ویسے یہ آپ انگلیاں زخمی کرنے کے بجائے سیدھی طرح ہمارے موبائل نمبر پر ٹرائی کیوں نہیں کرلیتے۔ خیر جلدی بولیں، کام کیا ہے؟‘‘
شہزادے نے سوچا کہ یہ ’’جن سروس‘‘ خاصی ناقص ہے، بہرحال آزمانے کو بولا ’’اُڑن قالین حاضر کیا جائے۔۔۔ تاکہ ہم پرستان کے ’’البیلا جن‘‘ کے علاقے کا وزٹ کرسکیں!‘‘
جن کا بچہ بولا ’’اوہو! البیلے جن کا بچہ نرالا جن تو میرا بیسٹ فرینڈ ہے۔ آج اس کی برتھ ڈے پارٹی ہے اس نے کہا بھی تھا کہ جِن جِن کے بچے آنا چاہیں، ساتھ لیتے آنا‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے چُٹکی بجائی اور ایک مختصر اور گھسا پٹا قالین کا ٹکڑا سامنے آگیا۔ دونوں گھس گھسا کر بیٹھ گئے۔ قالین کیسے فضا میں بلند ہوا، اس کے گیئر اور اسٹیئرنگ وغیرہ کہاں تھے؟ شہزادے کو کچھ معلوم نہ ہوا، کیونکہ اس نے ٹیک آف کے ساتھ ہی آنکھیں بند کرلی تھیں اور قالین آسمان کی وسعتوں میں اُڑتا چلا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جن کے بچے نے شہزادے کو ایسا دھکا دیا کہ اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں، وہ گرتے گرتے بچا تھا، جن کے بچے نے کہا ’’ذرا کھسک کر بیٹھو۔۔۔ اس طرح پھیل کے کیوں بیٹھے ہو! (یہ تمہارے باپ کا قالین نہیں۔۔۔ میرے باپ کا ہے!)‘‘۔
شہزادہ جو قالین کے کنارے سے تقریباً لٹکنے لگا تھا۔۔۔ کھسک کر اوپر آیا اور طیش میں آکر ایک زوردار طمانچہ جن کے بچے کو رسید کیا۔ بس بھئی جن کے بچے نے تو رو رو کر آسمان سر پر اُٹھالیا (جو پہلے ہی سر پر تھا)۔ شہزادے نے موقع کی نزاکت کا خیال کرتے ہوئے بچے کو چُمکارنے کی کوشش کی، کیونکہ وہ قالین کا فلائنگ روٹ اور لینڈنگ کا طریقہ نہیں جانتا تھا۔ مگر وہ تو کسی طرح قابو میں ہی نہ آتا تھا، کسی بگڑے ہوئے لاڈلے بچے کی طرح چیخ چیخ کر امی امی کی صدائیں لگانے لگا اور اس کی پکار میں کچھ ایسا اثر تھا کہ فوراً ہی قالین سے چند گز کے فاصلے پر ایک خوفناک ’’جنانتنی‘‘ نمودار ہوئی جو بہت طیش میں معلوم ہوتی تھی۔ اس کے کھلے ہوئے بال فضا میں کالی گھٹاؤں کی طرح لہرا رہے تھے اور سفید بڑے بڑے دانت آسمانی بجلیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ وہ اچانک ہی شارک مچھلی کی طرح قالین کے عین نیچے پہنچی اور اُسے اُلٹ دیا۔ جن کا بچہ عین اُسی لمحے کود کر ماں کی گود میں جا چھپا اور شہزادہ زریاب روتا چلاتا، زمین کی اتھاہ گہرائیوں کی جانب لڑھکتا چلا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دن گزرتے گئے۔۔۔ بادشاہ زریاب کے انتظار میں سوکھ کر کانٹا ہوگیا۔۔۔ اس کے سینگ گھاس کی طرح تیزی سے بڑھتے گئے، یہاں تک کہ سر پر پہنے ہوئے تاج کو توڑ کر باہر جھانکنے لگے۔ ملکہ نے رو رو کر اپنا بُرا حال کرلیا، کیونکہ اس کے سرتاج ان کانٹوں کا جھاڑ معلوم ہونے لگے تھے۔ بادشاہ رعایا کا سامنا کرنے سے کترانے لگا تھا۔ رعایا البتہ مطمئن تھی، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ گدھے کے سر پر کبھی سینگ نہیں اُگ سکتے۔
آخر بادشاہ نے اپنے چھوٹے صاحبزادے ’’نایاب‘‘ کو بلوایا۔۔۔ اور کہا ’’بیٹا ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ زریاب کسی مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ ادھر میں سینگوں کی وجہ سے سخت پریشان ہوں (کوئی ہیئر اسٹائل سوٹ ہی نہیں کرتا) اب یہی صورت ہے کہ جدھر سینگ سمائیں اُدھر نکل جاؤں اور راج پاٹ چھوڑ کر جنگل کی راہ لوں۔ رعایا کے سامنے شرمندگی مجھ سے سہی نہیں جاتی، کیوکہ مجھے اس کی پریکٹس نہیں‘‘۔
نایاب نے کہا ’’اباجان! آپ فکر نہ کیجئے، میں آج ہی اس مہم پر نکلتا ہوں آپ کے لئے ’’سیاہ لاوا‘‘ بھی لاؤں گا اور واپسی میں اگر موڈ ہوا تو بھائی کو بھی لیتا آؤں گا‘‘۔
*۔۔۔*۔۔۔*
عقل مند شہزادہ ’’نایاب‘‘ ذرا متفکر نہیں تھا۔۔۔ اُسے معلوم تھا کہ راستے میں اسے کوئی نہ کوئی ’’مددگار‘‘ قسم کے درویش ضرور ملیں گے۔ اگر اُس نے ذرا بھی سمجھ داری یا چاپلوسی سے کام لیا تو وہ فوراً جادو کی چھڑی یا گھڑی دے ڈالیں گے۔ شہزادے نے سامانِ سفر اکٹھا کیا اور ہوا کے گھوڑے پر سوار تیزی سے روانہ ہوا۔ جنگل کی کُٹیا میں اُسی دریش سے ملاقات ہوئی۔ (ننھے جن کی امی نے قالین اُلٹتے وقت جادوئی انگوٹھی اور ٹوپی زریاب کی جیب سے نکال کر درویش تک پہنچا دی تھی، کیونکہ اسے معلوم تھا کہ شہزادے کا چھوٹا بھائی بھی اس مہم پر نکلنے ہی والا ہے)۔
شہزادے نے کھانا نکال کر نہایت ادب سے درویش کو پیش کیا۔۔۔ درویش کئی روز سے بھوکا تھا، اس نے یہ کھانا سیر ہوکر کھایا۔ (معلوم نہیں جب اس کے پاس سارے جادوئی آئٹم موجود تھے تو وہ اپنے لئے آرڈر دے کر کھانا کیوں نہیں منگواتا تھا؟) بہرحال درویش کی دی ہوئی انگوٹھی کو رگڑنے سے جو جن حاضر ہوا وہ خاصی عجلت میں معلوم ہوتا تھا۔ بولا ’’ضرور تمہیں بھی پرستان جانا ہوگا؟ جسے دیکھو منہ اُٹھائے چلا آرہا ہے۔ اُڑن قالین تم لوگ بُک کرلیتے ہو اور ہمیں اگر اپنی فیملی کے ساتھ کہیں جانا ہو تو ٹیکسی کرنی پڑتی ہے‘‘۔ اس احتجاج کے بعد جن نے شہزادے کے لئے اُڑن قالین بچھا دیا۔ ڈائریکشن ایسی رکھی کہ اگر راستے میں کسی ہوائی جہاز سے ٹکرا کر کریش نہ ہوجائے تو سیدھا ’’نرالے جن‘‘ کی چھت پر لینڈ کرے۔
’’البیلے جن‘‘ کے محل میں بہت ہلچل تھی۔ کیونکہ اس کے لاڈلے بیٹے ’’نرالے‘‘ کی برتھ ڈے پارٹی تھی۔ جن کی بیوی ’’انوکھی‘‘ نے جشنِ سالگرہ کی خوشی میں گھر کی صفائی شروع کررکھی تھی۔ اس نے سوچا کہ اس کا بچہ برتھ ڈے ٹیبل پر طوطے کا پنجرہ بھی ضرور رکھے گا۔۔۔ چنانچہ اس نے پنجرہ کھول کر طوطا باہر نکال دیا اور اس کی صفائی کرنے لگی۔ جن کا بچہ اس کے پیچھے بھاگا تو وہ اُڑ کر کپڑوں کی الگنی پر جا بیٹھا۔ جن کی بیوی نے کوئی پروا نہ کی، کیونکہ اس میں جن کی جان تھی اس کی نہیں! اتنے میں ’’البیلا جن‘‘ اپنے کمرے سے ’’آدم بو‘‘ ’’آدم بو‘‘ چلاتا ہوا باہر آیا۔۔۔ بیوی نے تنک کر کہا ’’آپ کو تو ہر وقت آدم بو آتی رہتی ہے۔ اس دوران جن کی نظر طوطے پر پڑی تو حواس باختہ ہوکر بولا ’’یہ طوطا کیوں پنجرے سے باہر ہے؟ تمہیں میری جان کی کچھ پروا نہیں؟‘‘۔
بیوی نے پنجرہ جھاڑتے ہوئے خفگی سے کہا ’’تو کسی ڈھنگ کی جگہ اپنی جان کیوں نہیں رکھتے؟‘‘ جن نے نوکر کو طوطا پکڑنے کا حکم دیا اور خود اندر جاکر ٹی وی دیکھنے لگا۔ نوکر نے دو چار بار بے دلی سے ہُش ہُش کرکے طوطے کو اُترنے کا اشارہ دیا، مگر کامیاب نہ ہوا۔ (اگر جن آدم بو آدم بو کی رٹ لگانے کے بجائے ذرا اُچک کر اوپر دیکھ لیتا تو اُسے یقیناً ’’نایاب‘‘ نظر آجاتا جو چھت سے صحن میں جھانک رہا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
نایاب کو الگنی پر بیٹھا طوطا نظر آگیا۔۔۔ یوں تو آس پاس اور بھی کئی طوطے اُڑ رہے تھے، مگر الگنی والے طوطے کی شکل پر جو حماقت برس رہی تھی اس سے وہ جان گیا کہ ہو نہ ہو اسی میں جن کی جان ہے۔ اس دوران طوطا الگنی سے اُتر کر صحن میں مٹر گشت کرنے لگا۔ شہزادے نے ’’طلسماتی ٹوپی‘‘ پہن لی، تاکہ کسی کو دکھائی نہ دے سکے، پھر چپکے چپکے نیچے اُتر آیا۔۔۔ اور آہستگی سے رومال ڈال کر طوطے کو چھاپ لیا۔ جن کی بیوی نے یہ منظر دیکھا تو اُسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ ان کا طوطا، رومال کو کسی دوپٹہ کی طرح سر سے لپیٹے خودبخود فضا میں معلق ہورہا ہے۔ (ظاہر ہے کہ طلسماتی ٹوپی نایاب نے پہنی تھی، طوطے نے نہیں!) جن کی بیوی بدحواس ہوکر چیخی، ’’ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ نرالے کے ابا دیکھئے تو سہی۔۔۔ یہ آپ کی جان کہاں جاکر اٹک گئی؟‘‘ جن نے سُنا تو اس کے تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ بوکھلا کر باہر نکلا، مگر نایاب کے لئے اتنی مُہلت کافی تھی (جو جن کی بیوی نے فراہم کی!) وہ طوطے کو لے کر چھت پر چڑھ گیا۔ یہ بولنے والا طوطا تھا، اس کی خاص عادت یہ تھی کہ وہ مخاطب کے آخری الفاظ دُہراتا رہتا تھا۔ چنانچہ شہزادے نے جب چُمکار کر کہا ’’مٹھو بیٹا چُوری کھائے گا؟‘‘ تو طوطا کسی ضدی اور بدتہذیب بچے کی طرح بولا ’’کھائے گا۔۔۔ کھائے گا۔۔۔ کھائے گا!‘‘ شہزادے نے ہوشیاری سے دوسرا سوال پوچھا ’’مٹھو بیٹا گلا دبوائے گا؟‘‘ تو طوطا فوراً بولا ’’دبوائے گا۔۔۔ دبوائے گا۔۔۔ دبوائے گا!‘‘ لہٰذا شہزادے نے اس کی فرمائش کے احترام میں جونہی اس کی گردن مروڑی اسی لمحے ایسی خوفناک گڑگڑاہٹ پیدا ہوئی جیسے بیک وقت کئی آندھی، طوفان اور زلزلے آگئے ہوں۔ جن اور پریاں سر کے بل کھڑے ہوگئے، زمین تہس نہس ہوگئی، صرف شہزادہ نایاب چھت سے ٹانگیں لٹکائے آرام سے بیٹھا چیونگم چباتا رہا۔ محل کی زمین سے سیاہ تیل کا ایک فوارہ سا پھوٹ پڑا۔ شہزادے نے دیکھا کہ ایک ’’خوفناک بلا‘‘ جو دو منہ والے اژدھے کی صورت میں تھی پَھن پھیلائے اس سیاہ لاوے کی حفاظت کررہی تھی۔ یہ ہیبت ناک بلا دو منہ ہونے کی وجہ سے ہی مار کھا گئی۔۔۔ بے چاری دائیں اور بائیں دیکھتی رہی اور شہزادے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی تلوار سے اس کے دو ٹکڑے کردیئے۔ سیاہ لاوا سونگھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو خام پیٹرول تھا۔۔۔ ’’ہت تیری کی!!‘‘ شہزادہ بڑبڑایا۔
’’پیٹرول تو ہم اپنے علاقے کے کسی پیٹرول پمپ سے بھی لے سکتے تھے۔ اس کے لئے درویش نے ہمیں ناحق دوڑوایا‘‘۔ خیر اب وہ یہاں آہی گیا تھا تو یہ تیل اپنی منرل واٹر کی خالی بوتل میں بھر لیا۔ اُڑن قالین کی تلاش میں نظر دوڑائی تو دھک سے رہ گیا۔ اس آندھی طوفان میں قالین کہیں اُڑ گیا تھا۔۔۔ اب کیا ہو؟ اتنے میں اسے ایک نیک دل پری زاد نظر آیا، جو زلزلے کے متاثرین میں اس لئے شامل نہ ہوا تھا کہ بہادر شاہ زادے کی مدد کرسکے (جس نے اب تک کوئی خاص بہادری نہ دکھائی تھی سب کچھ بائی چانس ہی ہوا تھا) نیک دل پری زاد نے کہا ’’شہزادے کیوں پریشان ہوتے ہو، آؤ میں تمہیں تمہارے وطن تک پہنچادوں‘‘۔ پری زاد نے شہزادے کو اپنے پروں پر بٹھالیا اور اُڑنے لگا۔ راستے میں ایک جنگل سے گزر ہوا تو شہزادے نے کیا دیکھا کہ ایک بیری کے درخت پر ’’زریاب‘‘ اُلٹا لٹکا ہوا ہے۔ آخر بڑا بھائی تھا، لہٰذا شہزادے نے پری زاد سے التجائیہ انداز میں کہا کہ ’’اچھے پری زاد اسے بھی ساتھ لے لو۔۔۔ یہ میرا نکما بھائی ہے۔۔۔ ابا نے دوا لینے بھیجا تھا اور یہ یہاں اُلٹا لٹکا جھولا جھول رہا ہے!‘‘ پری زاد نیک دل ضرور تھا، مگر عقل سے پیدل نہیں۔ بُرا مان کر بولا ’’میں نے ذرا ’’لفٹ‘‘ کیا دے دی، تم تو فری ہی ہوگئے۔ خود سوچو کہ تم اسّی اسّی کلو کے دو دو بھائی میرے اُوپر سواری کروگے تو میرا کچومر نہ نکل جائے گا؟ جاؤ جاکر تم بھی بھائی کے ساتھ جھولا جھولو‘‘۔ یہ کہہ کر پری زاد نے نایاب کو نیچے پٹخ دیا۔ نایاب نے زمین سے اُٹھ کر مٹی جھاڑی اور چوٹیں سہلاتے ہوئے بیر کے درخت کو جھنجھوڑا تو چند جنگلی بیروں کے ساتھ بھائی بھی ٹپک پڑا۔ دونوں بھائی گلے ملے اور پیدل اپنے وطن کا رُخ کیا۔۔۔ درویش کی چیزیں اُسے واپس نہیں کیں، کہ ابا کا کیا بھروسہ، کل کوئی اور پرابلم کھڑی کرلیں۔ گھر پہنچے تو بادشاہ نے ان کا شاندار استقبال کیا۔
سیاہ لاوا گرم کرکے بادشاہ کے سر پر ملا گیا تو تھوڑی ہی دیر میں سینگ چُرمُرا کر غائب ہوگئے۔ بھوسا جلنے کی بو آنے لگی تو شہزادے سمجھ گئے کہ آگ اب دماغ تک پہنچ رہی ہے، لہٰذا فوراً پانی ڈال کر بادشاہ کو ٹھنڈا کیا۔ بادشاہ ’’نایاب شہزادے‘‘ سے بہت خوش ہوا۔ اسی دن رشتہ لے کر ’’شہزادی نورباف‘‘ کے گھر گیا اور یوں شہزادے نایاب کی شادی نورباف سے ہوگئی اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے (جو اس مہم پر جائے بغیر بھی رہ سکتے تھے)
*۔۔۔*۔۔۔*