skip to Main Content
اللہ دیکھ رہا ہے

اللہ دیکھ رہا ہے

مظہر یوسف زئی

…………………

     امیرالمومنین حضرت عمر ابنِ خطاب فاروقِ اعظمؓ اپنی خلافت کے دنوں میں مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے تھے اور لوگوں کی ضرورتوں اور شکایتوں کو سنتے تھے۔ ہر صوبے کے عامل (گورنر) سے ان کے علاقوں کی مکمل روداد منگواتے تھے۔ سفر میں ہوتے تو راہ چلتوں سے حال معلوم کرتے تھے۔ رات کو مدینہ منورہ کی گلی کوچوں اور بازاروں میں گشت لگا کر وہاں کے رہنے والوں کی خبر گیری کرتے تھے۔
ایک رات آپؓ معمول کے مطابق حضرت ابنِ عباسؓ کو ساتھ لئے مدینہ منورہ کی گلیوں کا گشت لگا رہے تھے۔ رات کافی ہوچکی تھی۔ مکانوں اور خیموں کی روشنیاں گل ہوچکی تھیں۔ مدینہ منورہ کے باشندے گہری نیند سو رہے تھے، مگر ایک پھٹے پرانے خیمے میں ابھی تک چراغ ٹمٹما رہا تھا اور دو عورتوں کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ ان عورتوں میں ایک ماں تھی اور دوسری اس کی بیٹی۔
ماں، بیٹی سے کہہ رہی تھی ’’دودھ بیچ کر جو پیسے تو لاتی ہے وہ اتنے کم ہوتے ہیں کہ گھر کا خرچہ بڑی تنگی ترشی سے چلتا ہے۔ میں جب تیری عمر کی تھی تو دودھ میں پانی ملایا کرتی تھی اور بڑے آرام اور آسائش سے گزر بسر ہوتی تھی۔ بیٹی! میری مان اور صبح سے دودھ میں پانی ملانا شروع کردے۔ چار پیسے زیادہ آئیں گے تو گھر کی حالت تو سُدھرے گی۔
’’توبہ۔ توبہ۔ اماں کیسی باتیں کرتی ہو‘‘۔ بیٹی، ماں کو ٹوکتے ہوئے بولی۔ پھر اس نے سمجھانے کے انداز میں کہنا شروع کیا۔ ’’اماں! جب تم دودھ میں پانی کی ملاوٹ کرتی تھیں اُس وقت تم مسلمان نہیں تھیں۔ الحمدللہ! اب ہم مسلمان ہیں، لہٰذا ہم دودھ میں پانی نہیں ملا سکتے‘‘۔
ماں بولی ’’آخر اس میں حرج ہی کیا ہے۔ دودھ میں پانی ملانے سے اسلام پر کون سی آنچ آتی ہے‘‘۔
’’اماں کیا ہوگیا ہے تمہیں؟ کیا تم بھول گئی ہو کہ ہمارے خلیفہ حضرت عمرؓ کی ہدایت ہے کہ دودھ میں پانی قطعی نہ ملایا جائے‘‘۔ بیٹی نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
ماں نے جواب دیا ’’اری نیک بخت! کیا خلیفہ نہیں جانتے کہ ہم جیسے غریب اگر دودھ میں پانی ملا کر نہ بیچیں گے تو دونوں وقت کی روٹی کیسے حاصل کریں گے‘‘۔
’’اماں میری! اس طرح حاصل کی ہوئی روٹی حلال رزق نہیں۔ میں مسلمان ہوں اور کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جو خلیفہ کی ہدایت کے خلاف ہو اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہو‘‘۔ بیٹی نے اپنا فیصلہ سنادیا۔
’’پگلی کہیں کی۔ یہاں کون سے خلیفہ بیٹھے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ انہیں تو کانوں کان خبر تک نہیں ہوگی۔ اب تم سوجاؤ۔ صبح سویرے میں دودھ میں پانی ملاؤں گی‘‘۔ ماں نے فیصلہ کن انداز میں بیٹی کو سمجھایا۔
بیٹی تڑپ کر کہنے لگی ’’نہ اماں نہ۔ خلیفہ نہیں دیکھ رہے ہیں تو کیا ہوا۔ اللہ تو دیکھ رہا ہے‘‘۔
اس کے بعد خیمے میں خاموشی چھاگئی۔ چراغ بجھا دیا گیا۔ ماں اور بیٹی بستر پر لیٹ گئیں۔ دوسرے دن صبح ہوتے ہی امیرالمومنین حضرت عمرؓ خلیفہ دوم نے اس لڑکی کے یہاں ایک شخص کو دودھ خریدنے کے لئے بھیجا۔ دودھ کا معائنہ کیا۔ دودھ خالص تھا، اس میں پانی کی ملاوٹ قطعی نہیں تھی۔ حضرت عمرؓ نے اپنے رات کے ساتھی حضرت ابنِ عباسؓ سے دریافت کیا کہ ایسی نیک کردار اور اللہ سے ڈرنے والی مسلمان لڑکی کے لئے کیا انعام ہونا چاہئے؟‘‘
حضرت ابنِ عباسؓ نے رائے دی کہ اسے کم از کم ایک ہزار درہم انعام میں دیئے جائیں۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابنِ عباسؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ایسی نیک خصلت اور پاک سیرت لڑکی کی ایمانداری کو سکوں میں نہیں تولا جاسکتا۔ میں تو اس لڑکی کو ایسا انعام دینا چاہتا ہوں جو اس کے شایانِ شان ہو۔
ماں اور بیٹی کو دربارِ خلافت میں طلب کیا گیا۔ رات کا واقعہ دہرایا گیا۔ ماں کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور بیٹی کا چہرہ صداقت کے نور سے جگمگا اُٹھا۔ حضرت عمرؓ نے لڑکی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اسلام کو تم جیسی بیٹیوں کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کا خلیفہ ہونے کی حیثیت سے میری خواہش ہے کہ میں تمہیں اپنی بیٹی بنالوں‘‘۔
حضرت عمرؓ فاروقِ اعظم کے دو بڑے فرزند حضرت عبداللہ اور حضرت عبدالرحمن کی شادی ہوچکی تھی، مگر آپ کے تیسرے فرزند حضرت عاصم کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ حضرت عاصم قد آور اور حسین شخصیت کے مالک تھے۔ اپنے وقت کے اچھے شاعر تھے، عالم تھے اور اسلامی اخلاق اور سیرت کا نمونہ تھے، لہٰذا اس پاک باز لڑکی کا نکاح ان سے کردیا گیا۔
خلفائے راشدین یعنی حضرت ابوبکرؓ۔ حضرت عمر فاروق اعظمؓ۔ حضرت عثمانِ غنیؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد اگر کوئی خلیفہ مذہب کی مجسم تصویر تھا تو وہ سلسلۂ بنو امیہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز تھے اور آپ اسی صاحبِ کردار، نیک سیرت اور دودھ میں پانی نہ ملانے والی خاتون کے نور سے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top