گلشن منزل
نذیرانبالوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حارث کی باتوں سے امی ابو اور امین کی آنکھوں میں چمک آگئی کیونکہ صبح کا بھولا اپنے گھر جو لوٹ آیاتھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حارث گھر میں داخل ہوا تو دروازے کے پاس ٹوٹے فرش کے ایک گڑھے میں ایسا پاؤں پڑا کہ وہ مشکل سے گرتے گرتے بچا۔گھر کے
ٹوٹے پھوٹے صحن میں کھڑے ہو کر اس نے اِدھر اُدھر نگاہ ڈالی تو اسے یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے پلستراتری دیواریں ، پرانے دروازے،بدنما کھڑکیاں اور جگہ جگہ سے ا کھڑا ہوا فرش اس کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی سی تیر گئی۔اس گھر میں دو ہی تو کمرے تھے ۔ایک کمرہ سامان سے بھراپڑا تھاجب کہ دوسرا کمرہ مہمانوں کیلئے تھااس میں چند پرانی کرسیاں اور ایک بے رنگ میز پڑی تھی۔یہ کمرہ مہمانوں کے علاوہ پڑھائی لکھائی ،کھانے پینے اور رات کے وقت سونے کیلئے بھی کام آتا تھا۔دونوں کمروں کے آگے ایک چھوٹا سا برآمدہ بھی تھاجس میں چولہا اور گھر کی فالتو چیزیں رکھی تھیں۔حارث اب برآمدے کی اتری ہوئی سفیدی کو دیکھ رہاتھا۔اس کی امی جان اس کیلئے گرم گرم رو ٹی پکانے میں مصروف تھیں۔انہیں معلوم تھا کہ حارث کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔امی جان نے حارث کا اداس چہرہ دیکھ کر پوچھا۔’’کیا آج پھر ذیشان کے گھر گئے تھے؟‘‘
’’نہیں ‘‘حارث نے اپنا بستہ برآمدے کے کونے میں کھونٹی پر لٹکاتے ہوئے کہا۔
’’پھر منہ کیوں لٹکا ہوا ہے۔کیا اسکول میں کوئی بات ہوئی ہے؟‘‘امی جان نے پوچھا۔
’’نہیں ‘‘حارث نے اپنے پرانے سے جوتے اتارتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر اداس کیوں ہو؟‘امی جان بے تاب ہو کر بولیں۔
’’یہ گھر ہے یا کھنڈر!کھنڈر بھی شاید ہمارے گھر سے خوبصورت ہوگا۔‘‘حارث نے اپنی پرانی جرسی غصے سے ایک طرف پھینکتے ہوئے کہا۔
’’اچھا تو یہ بات ہے۔میں نے تمہیں کل شام ذیشان کے گھر جانے سے منع بھی کیا تھامگر تم کب میری بات مانتے ہو۔ذیشان کا گھر دیکھ کر تو تمہیں اپنا گھر کھنڈر ہی دکھائی دے گا۔میرے بچے!وہاں مت جایا کرو۔‘‘امی جان نے روٹی توے پر ڈالتے ہوئے کہا۔
’’میں ذیشان کے گھر جاؤں گا۔جاؤں گا۔ضرور جاؤں گا۔‘‘حارث ضد میں آکر بولتا چلا گیا۔
’’ذیشان کے گھر جاؤ گے تو اداس ہو کر ہی آؤ گے۔‘‘امی جان نے کہہ تو دیا مگر ان کی باتوں کاحارث پر بھلا کب اثر ہوتا تھا۔اس نے بد دلی کے ساتھ تھوڑا بہت کھانا کھایا اور پھر حسب معمول اس کے قدم ذیشان کے گھر کی طرف بڑھ گئے۔دو گلیاں پار کرنے کے بعد و ہ ایک تین منزلہ گھر کے سامنے کھڑا تھا۔جسکے دروازے پر’’گلشن منزل‘‘لکھا تھا۔یہ مکان کچھ عرصے قبل ہی تعمیر کیا گیا تھا۔حارث نے مکان کے باہر لگے سنگِ مرمر کو دیکھاتو اسے اچھا لگا ۔کھڑکیوں کے سبز رنگ کے شیشے اس کو بھلے لگ رہے تھے۔اس نے کال بیل پر ہاتھ رکھاتو چند لمحوں بعد ذیشان دروازے پر موجودتھا:
’’آؤ………آؤ حارث آؤ۔میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔‘‘
حارث بغیر کچھ کہے ذیشان کے ساتھ ہو لیا۔چپس کا عمدہ فرش،سفید رنگ سے پینٹ کی گئی دیواریں،لکڑی کے نفیس دروازے،روشن بلب اور ٹیوب لائٹ،کمرے میں موجود اعلیٰ فرنیچر اور فرش پر بچھا نرم نرم قالین گھر کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ذیشان حارث کو دوسری منزل پر اپنے کمرے میں لے آیا۔حارث جب پہلی بار اس کمرے میں آیا تھا تو اس نے حیران ہو کر پوچھا تھا۔’’کیا یہ کمرہ صرف تمہارے لئے ہے؟‘‘
’’ہاں یہ کمرہ صرف اور صرف میرا ہے۔یہاں کی ہر چیز میری ہے۔‘‘ذیشان بولا۔
’’تمہارے گھر میں کل کتنے کمرے ہیں؟‘‘حارث نے پوچھا ۔
’’پندرہ کمرے اور ایک بڑا سا ڈرائنگ روم۔‘‘ذیشان نے جواب دیا۔
’’پندرہ کمرے؟‘‘حارث نے دہرایا۔
’’ہاں پندرہ کمرے،پاپا تو کہہ رہے تھے کہ چوتھی منزل بھی بنے گی۔بس یونہی انہیں امی جان نے روک دیا ورنہ مزید چار کمروں کا اضافہ ہوجاتا۔‘‘ذیشان آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولا۔
’’کیا میں تمہارے گھر میں کبھی کبھار آسکتا ہوں ؟‘‘حارث نے پوچھا۔
’’کبھی کبھار کیوں تم روز ہمارے گھر آسکتے ہو۔بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔تم جب مرضی آؤ یہ تمہارا اپنا گھر ہے۔‘‘ذیشان کی بات سن کر حارث خوش ہو گیا۔
’’آج میرے پاس تمہیں دکھانے کیلئے ایک چیز ہے۔‘‘ذیشان کمرے میں قدم رکھتے ہوئے بولا۔
’’کیا ہے وہ چیز؟‘‘حارث نے سوال کیا۔
’’وہ دیکھو کل رات ہی میرے پاپامیرے لئے کمپیوٹر لائے ہیں۔میں اپنے اسکول میں کمپیوٹر سے متعلق بنیادی باتیں جان چکا تھا،اسی لئے یہ کمپیوٹر مجھے ملا ہے۔کیا تمہارے اسکو ل میں کمپیوٹر لیب ہے؟‘‘ذیشان کے سوال پر حارث نے اپنا سر نفی میں ہلادیا۔
’’تم فکر مت کرو میں تمہیں کمپیوٹر چلانے کا طریقہ بتادوں گا۔جب انٹر نیٹ کا کنکشن مل جائے گا تو ہم دنیاجہان کی ویب سائٹ کاوزٹ کریں گے۔‘‘حارث ذیشان کی باتوں کا ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا۔اس کی نگاہیں تو کمپیوٹر پر جمی ہوئی تھیں۔
دونوں نہ تو ایک گلی میں رہتے تھے اور نہ ایک اسکول میں پڑھتے تھے۔ان کی دوستی ایک قریبی کرکٹ گراؤنڈ میں ہوئی تھی۔حارث اپنی گلی کے لڑکوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کیلئے گیا تھا۔گراؤنڈ میں پہنچ کر سب دوستوں نے فیصلہ کیا کہ آپس میں کھیلنے کے بجائے کسی دوسری ٹیم سے میچ کھیل لیتے ہیں ۔گلی نمبر 6کے لڑکے جن میں ذیشان بھی شامل تھا ایک طرف کھیل رہے تھے۔
عثمان گلی نمبر6کے لڑکوں کی طرف بڑھا۔’’کیا ہمارے ساتھ میچ کھیلو گے؟‘‘
’’ہاں ضرور، ہم آپ لوگوں کے ساتھ ضرور میچ کھیلیں گے۔’’فہدبولا۔
یوں سارے لڑکے ایک جگہ اکٹھے ہوگئے۔کھلاڑی گنے گئے۔گلی نمبر6کے کل کھلاڑی سات جبکہ حارث کی گلی کے کھلاڑی9تھے۔اب یہ طے پایا کہ گلی نمبر6والوں کو ایک کھلاڑی دے دیا جائے۔یہ قرعہ حارث کے نا م نکلا۔حارث اب گلی نمبر 6کی ٹیم میں شامل تھا۔میچ کا آغاز ہوا ۔دس اوورز کے میچ میں حارث کی گلی نمبر6والوں کی باری آئی تو افتتاحی بلے بازوں میں ذیشان اور حارث کھیلنے کیلئے آئے۔دونوں نے عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا اور آٹھ اوورز ہی میں اپنی ٹیم کو کامیابی سے ہم کنار کردیا۔حارث نے پانچ چوکوں اور ایک چھکے کی مدد سے36رنز بنائے تھے جب کہ ذیشان نے گیارہ رنز بنائے تھے۔
’’تم تو بہت عمدہ کھیلتے ہو۔آج سے تم ہماری ٹیم کی طرف سے ہی کھیلا کرو گے۔‘‘ذیشان نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔اس دن کے بعد سے دونوں کی دوستی گراؤنڈ سے بڑھتے بڑھتے گھر تک جا پہنچی۔یہ دوسال پہلے کی بات ہے۔جب دونوں جماعت ششم کے طالب علم تھے۔اب دونوں جماعت ہشتم میں تھے۔ایک سال قبل ذیشان کے پرانے مکان کی جگہ نئے مکان کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا۔ذیشان کے ابو نے چند سال پہلے ہی جوتے بنانے کا چھوٹا سا کام شروع کیا تھا جو ترقی کرتے ہوئے ایک فیکٹری کی شکل اختیار کرگیا ۔روپے ہاتھ میں آتے ہی مکان کی تعمیر شروع کردی گئی ۔مکان کی تعمیر کے وقت ذیشان کے گھر والے اسی گلی کے ایک گھر میں عارضی طورپر مقیم رہے۔اتوار کے دن ذیشان کی زبانی حارث کو نئے مکان کے متعلق معلومات مل جاتی تھیں۔مکان کی تعمیر میں عمدہ مٹیریل کا استعمال کیا گیا تھا۔تین منزلہ مکان جب مکمل ہواتو جو بھی اس کو دیکھتا،دیکھتا ہی رہ جاتا۔اس بستی میں اس گھر سے اونچااور خوبصورت کوئی دوسرا گھر نہ تھا۔نئے مکان کی تعمیر مکمل ہونے پر ذیشان کے ہاں ایک پر تکلف دعوت کا انتظام کیا تھا یہی
وہ موقع تھا جب حارث نے پہلی بار یہ عمدہ گھر اندر سے دیکھا۔اسکی نظریں جگمگاتی چیزوں سے ہٹتی نہ تھیں۔گھر کی ہر چیز شاندار تھی۔اس دعوت کے بعد وہ
اپنے گھر واپس آیاتو یہاں کی ہر چیز اس کو کاٹ کھانے کو دوڑتی۔اگلی صبح اس کے ابا جان تو پھل منڈی چلے گئے۔مگروہ اپنی امی کے سامنے سوالیہ نشان بناکھڑا تھا:
’’ابو سے کہیں وہ بھی ذیشان کے گھرجیساخوبصورت گھر بنائیں۔‘‘
’’یہ گھربھی خوبصورت ہے بیٹا۔‘‘اس کی امی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ہمارا گھر خوبصورت نہیں ہے‘‘حارث نے امی جان کی بات پوری بھی نہ ہونے دی۔
’’تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے سر چھپانے کی جگہ تو دے رکھی ہے۔وہ لوگ بھی تو ہیں جو بغیر گھر کے جھونپڑیوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔اللہ نے چاہا تو ہم بھی ایک دن اس گھر کو نئے سرے سے تعمیر کریں گے۔‘‘امی جان کی بات سن کر حارث خاموشی سے گھر کے ٹوٹے پھوٹے فرش کو گھورنے لگا۔
ابا اور امی نے سمجھا بجھا کر حارث کو ذیشان کے گھر جانے سے روکنے کی کوشش کی مگر وہ کب باز آنے والا تھا۔اسے جب بھی موقع ملتا وہ ذیشان کے ہاں چلا جاتااور اداس ہو کر واپس آتا۔وہ اس دن بھی اداس ہوا تھا جب اس کے ابو گاؤں سے اس کی خالہ کے بیٹے امین کو اپنے گھر لائے تھے۔امین کی والدہ تو بچپن ہی میں وفات پا گئی تھیں جب کہ اس کے والد بھی چند ماہ پہلے دل کا دورہ پڑنے سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔خاندان کے سبھی لوگ ر وزگارکی تلاش میں مختلف شہروں میں بکھرے ہوئے تھے۔گاؤں میں تھوڑی سی زمین تھی جس پر کاشت کاری کر کے امین کے والدروزگار کماتے تھے۔باپ کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد اب گاؤں میں امین کاکوئی سہارانہ تھا۔حارث کے ابواسے اپنے گھر لے آئے۔گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہو گیا تھا۔
کمرے میں حارث کی چار پائی کے ساتھ اس کی چار پائی بچھا دی گئی۔حارث کے اسکول میں اسے چھٹی جماعت میں داخل کروادیا گیا۔امین کے آنے کے بعد حارث نے یہ بات نوٹ کی تھی کہ ابا جان جو اس سے پہلے کبھی کبھار ہی پھل لاتے تھے اب تقریباً روزانہ پھل لانے لگے تھے۔جتنا پھل حارث کو ملتا تھا اتنا ہی امین کے حصے میں آتا تھا۔حارث کا نیا جوتا آتا توامین کو بھی نیا جوتا ملتا۔اسکول جاتے ہوئے دونوں کو دودوروپے ملتے تھے۔رات کو سوتے وقت دونوں کو دودھ کا ایک ایک گلاس پینے کو ملتا۔حارث کے امی ابو جس قدر امین سے پیار کرتے وہ اُسی قدر اس سے نفرت کرتاتھا۔اس کو بلا وجہ مارتا۔اس کی چیزیں چھین لیتا۔ابھی پرسوں ہی امی جان پڑوس میں اور اباجان پھل منڈی گئے ہوئے تھے کہ حارث نے امین کا پین چھین لیا۔
’’حارث بھائی مجھے اسکول کا کام کرنے دیں ۔میرا پین واپس کردیں۔‘‘امین نرمی سے بولا۔
’’تمہارے باپ کا ہے پین،کیوں واپس کروں؟یہ میرے ابو لائے ہیں اس لئے یہ میرا پین ہے۔‘‘حارث کا لہجہ تلخی سے بھرا ہوا تھا۔
’’حارث بھائی مجھے تنگ مت کریں میرا پین واپس کردیں۔‘‘امین نے التجا کی۔
’’نہیں کروں گاپین واپس،جاؤکرلو جو کرنا ہے۔‘‘حارث غرّایا۔
امین اپنا پین واپس لینے کیلئے آگے بڑھا تو حارث نے ایک مکا اس کے منہ پر جڑ دیا۔وہ لڑ کھڑا کر دیوار سے جا ٹکرایا۔اس کو چکر سا آگیا۔حارث نے اسی پر بس نہ کی اس نے ایک زوردار مکا اسکی کمر میں بھی دے مارا۔امین درد کی شدت سے رونے لگا۔روتے روتے اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں۔امی جان جب آئیں تو امین کی سرخ آنکھیں دیکھ کر تڑپ اٹھیں۔انہوں نے امین کے سر پر پیارسے ہاتھ رکھاتو امین نے سارا ماجراکہہ سنایا۔امی جان نے حارث کو ڈانٹااور اس سے امین کوپین لے کر دیا۔حارث امین کو اپنے ساتھ گراؤنڈ میں بھی نہیں لے کر جاتا تھا۔حارث جب بھی ذیشان کے ہاں جاتاامین کو تنگ کرنے کے نت نئے طریقے اپنے ساتھ لاتا۔کبھی اس کی کوئی کتاب جان بوجھ کر کہیں چھپا دیتا اور کبھی اس کی جراب اِدھراُدھرپھینک دیتا۔امین جب بھی حارث کو حارث بھائی کہتا وہ یہی کہتا کہ میں نہیں ہوں تمہارا بھائی!امین یہ سن کر خاموش ہوجاتا۔
سالانہ امتحان میں مصروف ہونے کی وجہ سے کافی دنوں تک حارث ذیشان کے گھر نہ جا سکا۔امتحان سے فارغ ہو کر وہ ذیشان سے ملنے گیا توذیشان کی بجائے دس گیارہ سال کے ایک لڑکے نے دروازہ کھولا جس نے پُرانے سے کپڑے پہن رکھے تھے۔
’’حارث میرے کمرے میں آجاؤ‘‘ذیشان اپنے کمرے سے جھانک رہا تھا۔
’’یار یہ کون ہے؟‘‘حارث نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سوال کیا۔
’’یہ ہماراایک رشتہ دار نادرہے۔کچھ ہی عرصے پہلے اس کے والدین ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ابا جان پچھلے ہفتے اسے گھر لائے ہیں۔‘‘
’’اچھا تو یہ ہمارے ہی گھر والا معاملہ ہے۔‘‘حارث بولا۔
’’تمہارے گھر والا معاملہ نہیں ہے۔تم نے تو امین کو بہت سرپہ چڑھارکھا ہے۔میرے امی ابو تو اسے یہاں اس لئے لائے ہیں کہ گھر کا کام کاج کردیاکرے گا اور بازار سے سودا سلف بھی لے آیاکرے گا۔یوں ہمیں ایک طرح سے مفت میں نوکر مل گیاہے۔یہ دیکھو کل میرے ابو میرے لئے نئی پینٹ شرٹ لائے ہیں۔‘‘
’’کیا یہ صرف تمہارے لئے آئی ہے؟‘‘حارث نے پوچھا۔
’’ہاں یہ صرف میرے لئے آئی ہے۔یہ ہمارا گھر ہے تمہارا گھر نہیں‘‘ذیشان یہ کہہ ہی رہاتھاکہ نادرچائے کے کپ لئے آگیا۔دونوں چائے پیتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔حارث اپنے گھر میں امین کو اور گلشن منزل میں ذیشان کے ساتھ مل کر نادر کو تنگ کرتا۔وہ نادر کو کمرے میں بندکرکے باہر سے دروازہ بند کردیتے۔وہ بے چارہ کمرے میں بند چیختا چلّاتاتو دونوں قہقہے لگاتے،خوشی سے ہاتھ پر ہاتھ مارتے پھر خود ہی دروازہ کھول دیتے۔اتنی دیر میں نادر کا روروکر برا حال ہو جاتا۔
سالانہ امتحان پاس کرنے کے بعد حارث جماعت نہم اور امین جماعت ہفتم میں چلا گیا تھا۔نئے تعلیمی سال کا پہلا دن تھا۔حارث تو اسکول گیا مگر امین بخار کی وجہ سے اسکول نہ جا سکا۔تیسرے پیریڈ میں اسلامیات کے اُستاد نے سبق کے دوران ایک ایسی بات بتائی کہ حارث شرمندہ ہوتا چلا گیا۔اس نے اسکول میں بڑی بے چینی سے وقت گزارا۔جونہی اسکول سے چھٹی کی گھنٹی بجی وہ تیزتیزقدم اُٹھاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔جب وہ گھرمیں داخل ہوا توکمرے میں امی جان لحاف میں لیٹے امین کا سر دبا رہی تھیں۔ابا جان بھی پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے۔حارث نے اپنا جوتا ایک طرف رکھتے ہی گھر کے ٹوٹے پھوٹے فرش کو چوما،بے رنگ دروازوں،کھڑکیوں کے ساتھ چمٹا ،پلستر سے بے نیاز دیواروں کی طرف بہت ہی پیار بھری نظروں سے دیکھا۔اس کے امی ابو حیران تھے کہ حارث کو کیا ہو گیا ہے۔
’’پیارے امی ابو میں کتنا غلط تھا۔ہمارا گھر ذیشان کے گھر سے بہت خوبصورت ہے۔خوبصورت ہی نہیں دل نشین بھی ہے۔مجھے آج ایسی بات کا پتا چلا ہے جس کا مجھے پہلے علم نہ تھا۔‘‘
’’کون سی بات بیٹا؟‘‘امی جان کے پوچھنے پر حارث بولا:
’’ہمارے اسلامیات کے اُستاد نے ایک حدیث مبارک سنائی ہے کہ:’’مسلمانوں کے گھرمیں سب سے بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم موجودہواور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جا رہا ہواور بدترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہاہو۔‘‘میں نے گلشن منزل میں نادر کے ساتھ ہونے والا برا سلوک بھی دیکھا ہے اور اپنے گھر میں امین کے ساتھ ہونے والا اچھا سلوک بھی میری نظروں کے سامنے ہے۔گلشن منزل ذیشان کا گھر نہیں گلشن منزل تو ہمارا گھر ہے۔جہاں محبت کے پھول کھلتے ہیں۔میں اب کبھی بھی اپنے گھر کو برا نہیں کہوں گا۔ہمارا گھر تو پیارا گھر ہے۔بہت خوبصورت گھر!میں اس گھر کو مزید خوبصورت بناؤں گا اور امین کو اپنا چھوٹا بھائی بناکر رکھوں گا۔‘‘
حارث کی باتوں سے امی ابو اور امین کی آنکھوں میں چمک آگئی کیونکہ صبح کا بھولا اپنے گھر جو لوٹ آیاتھا۔