برف ہی برف
بیگم ثاقبہ رحیم الدین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں برفوں کی زمین زیارت آئے ہوئے دو چار دن گزرے ہیں۔ ہمارے سامنے بلند پہاڑ زرغوں ہے۔ ہر طرف برف ہی برف ہے۔ ہم نے پچھلے چھ سالوں میں ہلکی دھوپ میں، گہرے بادلوں کے سائے میں، دھیمی بوندا باندی میں اور رات کی چاندنی میں برف کو دیکھا ہے۔ ہم شام سے مسلسل سوچ میں پڑے ہیں یہ کون سی کہانی ہے جو ہمارے ساتھ ساتھ ہے۔ فضا سہانی اور ہر طرف خاموشی ہے۔ ہم جب برفوں میں ٹہلنے نکلتے ہیں تو کہانی ہے کہ ہمارے سنگ سنگ گھومتی پھرتی ہے۔ آخر آج شام وہ خودبخود ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی اور بولی ’’میں ہوں برف کی کہانی مجھے ساتھ لے چلو، اپنے ننھے منے دوستو اور پیارے ساتھیوں کے پاس‘‘۔
میرے بچو سنو ایک پرانے زمانے کی کہانی، دور اور بہت دور دیس کی کہانی۔ یہاں سے کالے کوسوں دور ایک پہاڑی جگہ ٹھنڈی ہواؤں اور دھند سے گھری زمین، بادلوں سے ڈھکا آسمان اور ہنستے گاتے لہراتے ہوئے چشمے ہیں۔ یہ اس زمین کی کہانی ہے جہاں روبن چڑیا رہتی ہے۔ دیکھو تو جنوری میں یہاں سب کچھ سفید ہی سفید ہے اور ہر طرف برف ہی برف ہے۔ بچو ذرا بوجھو تو اس جگہ کا نام آں ہاں۔ یہ کالام ہے۔
بہت دنوں کا قصہ ہے کہ یہاں ایک بہت عالم فاضل برہمن رہتا تھا۔ وہ خود بتاتا تھا کہ وہ نہ برہمن ہے نہ مسلمان۰ بس وہ تو ایک بہت بڑا انسان ہے۔ بہت سے لوگ اس کی باتیں سمجھ نہ پاتے تھے۔ تقریباً دس سال پہلے تک تو وہ قدیم کتابیں پڑھتا تھا اور اپنے بڑوں سے کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا تھا۔ وہ عالم لوگوں سے ملتا جلتا بھی تھا۔ اب جانے کیا بات تھی کہ وہ سب سے الگ الگ رہنے لگا۔ وہ عالم اپنے سوا سب کو جاہل سمجھنے لگا۔ اس کے بات کرنے کا طریقہ بدل گیا۔ وہ اپنے کسی کام میں کسی سے مشورہ نہ لیتا۔ وہ کسی کو اپنے برابر کا نہ جانتا تھا۔ عالم کا غرور بڑھتا گیا۔ اس کے دل میں محبت اور دوستی کے جذبات مرتے گئے۔ وہ برف ہی برف بنتا گیا۔
اب ہوا یہ کہ عالم کی خودپسندی کی وجہ سے سارے لوگ اس سے دور ہوگئے اور مخالف ہوگئے۔ نہ کوئی اس سے ملنے آتا اور نہ اسے اپنے گھر بلاتا۔ پھر بھی عالم اپنے آپ سے کہتا کہ مجھے کسی کی پروا نہیں۔ یہ سب بے وقوف اور جاہل ہیں۔ میں بڑا اور میری باتیں بڑی بڑی۔ یہ کیا جانیں یہ کیا سمجھیں۔ عالم کا جیسے جیسے غرور بڑھتا گیا، لوگ اس کی بری طرح سے مخالفت کرتے اور الگ الگ رہتے تھے۔
ایک دن کیا ہوا بچو۔ عالم کو یہ ضرورت پیش آئی کہ بال ترشوانا ہے۔ وہ اپنے گاؤں کے حجام کے پاس گیا۔ حجام مسکرایا اور بولا ’’جناب عالم صاحب، آپ ذرا بیٹھ جائیں، انتظار کریں، اپنے اوزار کہیں بھول آیا ہوں، لے کر آتا ہوں پھر بال کاٹوں گا‘‘۔ عالم خاصی دیر بیٹھا رہا، مگر حجام واپس نہ آیا۔ عالم غصے کے ساتھ اُٹھا اور گھر واپس آگیا۔
عالم دو چار دن بعد ٹہلنے گیا تو وہیں سے دھوبی کے پاس چلا گیا کہ گھر میں کپڑوں کی بہت ضرورت تھی۔ اس نے کہا ’’ہم نے کئی دن پہلے کپڑے دھونے کے لئے دیئے تھے، ہمیں واپس دے دو‘‘۔ دھوبی نے جواب دیا ’’اے عالم میں نے تمہارے کپڑے اپنے چچا کو دیئے تھے۔ اس نے کہیں رکھ دیئے ہیں۔ جب وہ واپس آکر مجھے دے گا تو میں دھوکر تمہیں لوٹا دوں گا‘‘۔ عالم نے چڑ کر پوچھا ’’تمہارا چچا کب تک واپس آئے گا‘‘۔
دھوبی نے جواب دیا ’’مجھے معلوم نہیں وہ کب تک آئے گا۔ چچا کے دوست کا اچانک انتقال ہوا ہے، وہ وہیں گئے ہیں‘‘۔
عالم سخت پریشان ہوا اور غصے سے دھوبی کو دیکھتا ہوا گھر واپس آیا۔
ایک دفعہ کیا ہوا کہ عالم کی بیوی بیمار پڑگئی۔ وہ گھر کا سارا بندوبست سنبھالتی تھی۔ عالم نے سوچا کہ کچھ خریداری میں کروں۔ وہ کریانہ فروش کہہ لو یا جنرل اسٹور کہہ لو، کے پاس گیا۔ اس نے گندم، چاول، نمک اور گھی خریدنا چاہا۔ دکاندار نے اپنی دکان کے دروازے کے پٹ بند کرتے ہوئے بڑے ادب سے کہا:
’’محترم عالم، کاش میں آج آپ کی خدمت کرسکتا، مجھے بڑا افسوس ہے کہ تمام اشیاء ختم ہوچکی ہیں اور خدا ہی جانے کب ملیں‘‘۔ عالم کو مایوسی بھی ہوئی، طیش بھی آیا۔ چہرہ سرخ ہوگیا اور وہ دانت پیستے ہوئے گھر واپس آگیا۔
کچھ دن گزرے کچھ راتیں۔ عالم وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہوتا جارہا تھا۔ ایک شام اسے یاد آیا کہ جوانی میں اسے پرندے پالنے کا شوق تھا۔ وہ شہر کے ایک چڑی مار کے پاس گیا۔ وہ چڑی مار چڑیاں مارنے کے ساتھ ساتھ چند چڑیاں اپنے گھر میں پنجرے میں بھی رکھتا تھا اور کبھی بیچ بھی دیتا تھا۔ اس کے پنجرے میں ایک پیاری سی چڑیا روبن بھی رہتی تھی۔ جب عالم اس چڑی مار کے پاس گیا تو چڑی مار نے چڑیا بیچنے سے انکار کردیا۔ عالم نے خفا ہوکر کہا کہ کاش میں چڑی مار کو جوتے مار مار کر مار ڈالتا اور وہ تیز تیز چلتا ہوا واپس لوٹا۔ خوبصورت روبن سب کچھ ٹک ٹک دیکھتی رہی۔
نہ جانے کیا بات ہوئی کہ چڑی مار کو تھوڑی دیر بعد کچھ لحاظ آیا اور وہ خود جاکر روبن کو عالم کو دے آیا۔ عالم حد سے زیادہ خوش ہوا۔ مگر وہ چڑی مار کے سامنے رعب میں رہا اور خوشی کا اظہار نہ کیا۔
عالم سکتے کے عالَم میں آگیا، جب اس نے روبن کو چہچہاتے سنا۔ وہ کہنے لگی ’’میں تو برفوں میں پلی، بادلوں میں کھیلی کودی، جھرنے میں اُچھلی کودی، میں بھلا کاہے کو تم سے ڈروں۔ جب تک تم پڑھتے رہو، اور کچھ نہ کچھ سیکھتے رہو تو عالم۔ ورنہ تم برف کی سل۔ اور جنوری میں کوئی تمہارے دروازے پر کچھ مانگنے آئے تو اسے دوگے برف اور کیا۔ برف ہی برف‘‘۔
بس پھر کیا ہوا۔ کمرے کی کھڑکی ذرا سا کھلی تھی۔ روبن کچھ چہچہائی اور پل کی پل میں پُھر سے اُڑی۔ یہ جا اور وہ جا۔ نظر سے اوجھل ہوگئی۔ عالم کا سر چکرا گیا۔ وہ دھم سے پلنگ پر بیٹھ گیا اور رونے لگا۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے عالم اپنی غلطیوں پر بہت پشیمان ہوا۔ اس کی سمجھ میں آگیا کہ اس دنیا میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں، ہر ایک کا اپنا اپنا کام، اپنی اپنی کمائی اور اپنی اپنی زندگی۔ دنیا کے سارے انسان ایک تار میں پروئے گئے ہیں کہ آپس میں میل ملاپ رکھیں اور دوستی رکھیں۔
کالام کی ساری بستی پھر خوشیوں سے بھر گئی، خوشیوں سے بس گئی۔سردی گزری، بہار آئی، پھر ہر طرف پھول ہی پھول تھے اور سورج جگمگاتا تھا۔
اچھا بچو اب چلتے ہیں۔ پیارا اللہ تمہیں پھول ہی پھول بنائے رکھے اور تمہارے آس پاس بہار ہی بہار رہے۔ پرسوں شام کو ضرور آنا ۔۔۔ وعدہ رہا نئی کہانی کا۔ اللہ حافظ