skip to Main Content
’’اے دل کی خلش چل یونہی سہی ‘‘

’’اے دل کی خلش چل یونہی سہی ‘‘

عائشہ ناز

………………………….

’’سنومیاں !چھ مہینے ہوگئے تم نے کرایہ نہیں دیا بس آج شام اپنا سامان سمیٹو اورمکان خالی کردو۔‘‘میرے مالک مکان امجدصاحب مجھے حکم سنا کر چلے گئے تھے میں گزشتہ چھ ماہ سے بیکارتھا جانے کیسے فیکٹری میں آگ لگ گئی تھی اوراس کی زد کی وجہ سے صاحب نے سارے چھوٹے ملازمین کی چھٹی کردی تھی ۔

میری بھی وہی عام سی کہانی تھی باپ ایک غریب آدمی تھا سووقتی سکون کی خاطر اس نے ہیروئین کا نشہ کرنا شروع کردیا اورجلد ہی قبرکی آغوش میں ابدی نیند جا سویا ۔اماں کو چچانے گھر سے نکال دیا ۔وہ گھر گھر کام کر نے لگی اورہم ایک کمرے کے معمولی مکان میں رہنے لگے جس کا کرایہ ادا کرنے کی فکر میں ماں نے لوگوں کے کپڑے بھی سینا شروع کر دئیے تھے ۔ماں مجھے پڑھانا چاہتی تھی مگر مجھے پڑھنے کا شوق نہیں تھا جب میں ایک ایک کلاس میں تین تین سال لگاکر آٹھویں میں پہنچا تو ماں نے اس دنیا سے ناتاتوڑ لیا مگر دنیا سے نہیں صرف مجھ سے دنیا سے ناتا توابا کے مرنے کے بعد خودبخود ٹوٹ گیا تھا۔مجھے ایک گارمنٹ فیکٹری میں 2000کی معمولی تنخواہ پر نوکری مل گئی اورمیں اس میں سے آٹھ سوروپے اس کمرے کا کرایہ دیتا اورباقی میں اپنا خرچہ اٹھاتا ۔لیکن پھر فیکٹری میں لگنے والی آگ کی زد میں مجھ سمیت کتنے ہی مزدوروں کی مزدوری بھی آگئی۔ میں سامان سمیٹ رہاتھا جب امجد صاحب ایک بار پھر آئے اوربولے ’’یہ سامان اٹھانے کی ضرورت نہیں جب کرایہ اداکر وگے توسامان مل جائے گا‘‘کرایہ اداکرنا میرے بس میں نہ تھا سوچند جوڑے ایک پرانے بیگ میں رکھ کر سامان پر الوداعی نظرڈالتا ہو اباہر نکل آیا۔امجد صاحب کو چابی دینے کے بعد میرارخ اپنے ایک دوست شریف کی جانب تھا ۔وہ شہر کے ایک پوش علاقے میں رہائش پذیر تھا ۔جانے کیا کرتاتھا وہ ورنہ پہلے تو وہ بھی میری ہی طرح تھا ہاں مگر پڑھائی میں مجھ سے اچھا تھا۔ شریف کے گھر پہنچا تو گارڈ نے مجھے اندر جانے نہیں دیاپھر انٹر کام پر شریف سے بات کر نے کے بعد میری اس گھر میں انٹری ہوئی ۔’’ارے عاصم تم کیسے ہوبھئی ‘‘شریف نے گرم جوشی سے میرا استقبال کرتے ہوئے کہا وہ شاہد میرے گلے بھی لگنا چاہتا تھا مگر میرے حلئے نے اسے ایساکرنے سے روک دیا ۔کہاں وہ سوٹ میں ملبوس اورکہاں میں معمولی شلواراورقمیض اوراسفنج کی چپل پہن کر آنیوالا معمولی شخص۔ ’’بیٹھو‘‘شریف نے ایک صوفے کی طرف اشار ہ کیا جس کے کور ہلکے سرمئی رنگ کے تھے۔میں مرعوب ساہوکر بیٹھ گیا ۔’’کیا بات ہے تم کچھ پریشان لگ رہے ہو ‘‘جب میں کافی دیر تک اپنی آمد کا مقصد بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتارہا توبالآخر شریف نے پوچھ ہی لیا۔’’وہ دراصل میری نوکری ختم ہوگئی تومیں چاہتا تھا کہ اگرتم میری نوکری کا کوئی بندوبست کر دوتوبڑی مہربانی ہوگی‘‘۔میں نے جھجکتے ہوئے اپنا مقصد واضح کیا۔’’ارے تم فکر ہی نہ کر و میں آج ہی تمہیں باس سے ملوا دونگاسمجھو تمہاری نوکر ی پکی ‘‘شریف نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’کیا تم سچ کہہ رہے ہو شریف ‘‘ میں نے حیرت اورخوشی کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔ ’’ہاں ابھی کھانا کھاؤ شام کو باس سے ملنے چلنا‘‘۔اس وقت میں اور شریف با س کے سامنے موجود تھے۔یہ ادھیڑعمر کا ایک کرخت چہرہ شخص تھا۔ باس میری طرف دیکھ کر گویا ہوا۔’’دیکھو ہمارے یہاں کام کرنے کے دواصول ہیں اوران پر سختی سے عمل کرنا ہمارے ہر ملازم کیلئے ضروری ہے ‘‘ ۔ ’’ جی ‘‘میں نے آہستہ سے کہا۔’’پہلا اصول‘‘ باس نے اپنی انگشت شہادت اٹھائی ۔
’’ اپنے ضمیر کو تھپک تھپک کر اتنی گہری نیند سلادو کہ یہ تمہارے کسی کام میں مداخلت نہ کرسکے ۔یا پھر ضمیر بولے تو اس کی با ت پر کان نہ دھرو کیونکہ اگر تم نے اس کی بات پر دھیان دیا توہر کام کرنے سے پہلے سوبار سوچو گے اور یہ ہمارے ددسرے اصول کے خلاف ہے اور ہمارا دوسرااصول یہ ہے کہ ‘‘ با س نے اپنی دوسری انگلی اٹھائی ۔’’باس جو کہے اس پر فوراً عمل کر و انکاریا کوئی سوال کرنے کی گنجائش نہیں ۔اب تم جا سکتے ہو۔‘‘ با س نے اپنی ریوالونگ چےئر(کرسی) کا رخ گھما کر دیوار کی جانب کرلیا۔اورہم دونوں اُٹھ کر باہر نکل آئے ۔میں نے شریف کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا مگر اس کے چہرے پر بلا کی سنجیدگی تھی ۔وہ مجھے ایک کمرے میں لے آیا ۔یہاں صرف ایک میز اوردو کرسیاں پڑی تھیں۔باقی کمرہ خالی تھا وہ ایک کرسی پر خود بیٹھ گیا اوردوسری پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ’’دیکھو عاصم تم سمجھ ہی گئے ہوکہ یہاں کوئی قانونی کام نہیں ہوتا اورنہیں سمجھے تواب جا ن لو کہ ہمارا تعلق اغواکرنیوالے گروہ سے ہے ‘‘۔میں گھبراکر کھڑا ہوگیا۔’’بیٹھو بیٹھو ‘‘ شریف نے مجھے تسلی دی ’’دیکھو تم اب چاہو بھی تو یہاں سے نہیں جاسکتے باس کا کام تم جیسے غریب اوربیکارلوگوں کو اپنے گینگ میں شامل کرنا ہے ۔ہم تمہیں بہت آسان کام دینگے ‘‘ وہ مجھے دھیرے دھیرے بتانے لگا ۔’’ہمارا گروپ اغوا برائے تاوان والے گروپ سے تعلق نہیں رکھتا اسمیں بڑامسئلہ ہے ،بڑے لوگوں کے بچے اغواکرنا ۔گارڈزکامقابلہ اوربڑے لوگوں کے تعلقات بھی بڑے ہوتے ہیں۔ وہ پولیس سے مددلینے میں ذرادیرنہیں لگاتے اورغریب لوگ بے چارے ‘‘ وہ تھوڑی دیر رکا پھر جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگائی اورہونٹوں سے لگالی پھر بولا’’ ہاں تومیں کیاکہہ رہا تھا غریب لو گ،غریب لوگ رو پیٹ کر خاموش ہوجاتے ہیں پولیس ان کی مدد نہیں کرتی اورکرے بھی کیسے ۔ہم پورابھتہ دیتے ہیں ان کو اورہمارا کام بن جاتاہے ۔‘‘
’’ مگر غریب بچوں کو اغواکرنے سے کیافائدہ ہوتاہے؟‘‘ میں نے گویا پریس کانفرنس ختم ہونے کے بعد سوال کرنے والے کسی رپورٹر کی طرح کہا۔’’ اب بھی نہیں سمجھے ‘‘ شریف ہنستے ہوئے بولا۔’’یارتم بھی بڑے بے وقوف ہو ارے ہم ان سے بھیک منگواتے ہیں ‘‘۔’’تم یہاں کیاکرتے ہوشریف ؟‘‘ میں نے پوچھا ’’میری چھوڑوتمہیں جو کرنا ہے وہ سنو تمہیں بچوں کو بھیک مانگنے کے طریقے سکھانا ہیں ۔یاد نہیں بچپن میں کیساایکسپرٹ تھا وہ لنگڑے کالواورگنجے فقیر کی کیسی نقلیں اتارتاتھا‘‘۔شریف بول رہاتھااورمیں سوچ رہاتھابچپن میں ہرآتے جاتے فقیر کی نقلیں اتاراکرتاتھا۔بچپن میں کیاگیا یہ مذاق کبھی حقیقت کاروپ دھارلے گا۔میں نے تو تصور بھی نہیں کیا تھا مگر بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر میں نے یہ کام قبول کیا۔میں بچوں کو مختلف طریقے سکھاتا۔میں اس دن منہ ٹیڑھا کر کے ایک بچے کو بھیک مانگنا سکھا رہا تھا جب گُلو میرے پاس آیا اسکے ساتھ ایک بچہ بھی تھا’’یار عاصم سکھا اسکو تو ہی مجھ سے تو یہ مانتا ہی نہیں‘‘اس نے جھنجلائے ہوئے لہجے میں کہا اور بچے کو چھوڑ کر چلا گیا۔گُلو بھی یہاں اسی کام پر معمور تھا جو میں کرتا تھا۔میں چند دن ہی میں اپنے کام میں ماسٹر ہو چُکا تھا جو بچہ مجھ سے ذرا ضدکرتا میں اسے سخت سزا دیتا باس کے دونوں اصول مجھے ازبر تھے کبھی کبھی میں سوچتامیں کیا تھا کیا ہو گیا ہوں۔میں ضمیر کو کبھی جاگنے نہیں دیتا تھا مجھے لگتا تھا ضمیر مَر گیا ہے۔میں نے ایک نظر بچے پر ڈالی میرے اسطرح دیکھنے سے سہم گیا۔’’ادھر آؤ‘‘میں نے اشارہ سے اُسے بلایا وہ ڈر کے مارے وہیں کھڑارہا۔’’بالے ذرا ادھر لاوٗ اسے میرے پاس ‘‘میں نے ایک بچے سے کہا اور اس نے اسے میرے سامنے لا کر کھڑا کردیا۔وہ دس گیارہ برس کا ایک معصوم بچہ تھا۔’’کیا بات ہے کیوں نہیں سیکھتے تم ہمارے طریقے ‘‘میں نے حتی الامکان لہجے کو سخت بنایا میں بھیک نہیں مانگوں گا مجھے اپنی امی کے پاس جانا ہے‘‘اسکے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی بچے نے میرے آگے زبان کھولی تھی میں نے اسکو بہت بری طرح مارا وہ میری مار نہ سہ سکا اور بیہوش ہو گیا۔میں غصے میں بھرا وہاں سے نکل گیا۔دو دن تک وہ بچہ بخار میں پڑا رہا پھر تیسرے دن اسکا انتقال ہو گیا۔اس دن پہلی بار میرے دل پر جیسے چوٹ سی لگی تھی ۔بے وجہ ہی آنسو میر ی آنکھوں میں آگئے۔میرادل اس دن کسی کام میں نہ لگا۔رات کو سونے لیٹاتو اس بچے کی معصوم صورت میری نگاہوں میں پھرنے لگی۔ 
’’میں تو کام پوری توجہ سے کر تا ہوں‘‘۔’’تمہار ا خیال ہے میں جھوٹ بول رہاہوں ‘‘ باس گرجا مجھے ملنے والی کوئی اطلاع غلط نہیں ہوتی سارادن گم صم رہنا ،کسی سے بات نہ کرنا یہ سب کیا ہے‘‘۔ با س نے سوالیہ نظروں سے میری جانب دیکھا۔ ’’میں چند دن آرام کرنا چاہتا ہوں مجھے چھٹی چاہئے ایک ہفتہ کی ‘‘ میں نے اپنا مدعا بیان کیا ۔’’مگر اس کے بعد میں تمہیں کوئی چھٹی نہیں دونگا‘‘۔باس نے گویا میری چھٹی منظورکرتے ہوئے کہا کہ ۔اب میں آزاد تھا سب سے پہلے میں اقرارکے پاس گیا ۔یہ ہمارے گینگ کا خاص آدمی تھا ۔اس کا کام یہ تھا کہ جتنے بھی بچے آتے ان کے نام اورپتے ایک رجسٹرمیں درج کردیتا۔مجھے اس بچے کے گھر کا پتہ درکار تھا ۔جو میں نے اقرارسے حاصل کرلیا ۔اس نے بغیر کسی تردید کے مجھے اس کے پتے سے آگاہ کردیا تھا ۔اس کا گھر شہر کے پسماندہ علاقے میں تھا معمولی سادوکمروں کا مکان تھا جس پر ٹین کی چادروں کی چھت تھی ۔جگہ جگہ سے کی ہوئی مرمت کے آثاربتارہے تھے کہ یہ مکان موسم کے تھپیڑے برداشت کرتے کرتے تھک گیا تھا میں ابھی مکان کاجائزہ لے رہاتھا کہ اچانک گلی میں ایک شور بلند ہوا اورمیں جو نہ جانے کو نسی کشش کی تحت کھینچا اس کے گھرتک چلاآیا تھا اس جانب متوجہ ہوگیا تھا ۔میں نے دیکھا ایک الجھے بالوں اورملگجے کپڑوں والی عورت نے ایک بچے کو پکڑ رکھاہے وہ اسے خود سے چمٹائی پیارکررہی تھی کبھی اس کے ماتھے کو چومتی کبھی بال سنوارتی ساتھ ہی کھڑے لو گ اس بچے کو چھڑانے کی کوشش کررہے تھے جو گھبر اکر رورہاتھا پھر کچھ لو گوں نے آگے بڑھ کر بچہ چھڑالیا ۔وہ عورت رونے لگی اچانک اس نے زمین سے پتھر اٹھا کر ہجوم کی سمت پھینکا ۔’’نہیں چھوڑونگی میں کسی کو، میرے بچے کو لے گئے میرے چاند کو لے گئے، دے دو میرا بچہ مت چھینو مت چھینو ۔‘‘ وہ روتے روتے اچانک ہنسنے لگی ’’آجا میرے لعل میں تیرے لئے دودھ والے چاول پکاؤ گی آجا آجا میرے بچے ‘‘ ہجوم منشر ہوچکا تھا ۔میں ابھی تک وہیں تھا آگے بڑھتا بھی کیسے زمین نے قدم جو جکڑ لئے تھے ۔یہ اسی بچے کی ماں تھی جسے میری بے حسی نے موت کی نیند سلادیا تھا ۔بخار تو اس کی موت کا ذریعہ بنا تھا میں نے سوچ لیا تھا اب میں مزید یہ کا م نہیں کرونگا جا نے کتنے ماں باپ ایسے ہونگے جو اپنے جگر گوشوں کے غم میں پاگل ہوگئے ہونگے ۔میں ایک فلاحی ادارے کی سمت روانہ ہوگیا ۔ڈائریکٹ پولیس کی جانب جا نے کی حماقت میں نے نہیں کی تھی۔ ’’کاش ہم اپنی پولیس پر اعتماد کرسکتے ٹھیک ہے سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے مگر اتنی مچھلیوں میں اندازہ نہیں ہوتا کہ کونسی گندی ہے ‘‘ میں نے بڑے دکھ سے سوچا میں نے سب سے پہلے تو اس ادارے کے سربراہ کو ساری بات بتائی پھر انہیں تمام اڈوں کے مقامات سے آگاہ کردیا ۔ چلتے وقت انہوں نے کہا تھا ’’تم فکر نہ کر و انشاء اللہ تعالیٰ کل تک مجرم اپنے انجام کو پہنچ جائینگے پھر اسی رات اڈوں پر چھاپہ پڑا اورتمام بچے پولیس نے اپنی تحویل میں لے لئے مجھے بھی گرفتارکرلیاگیا مگر چونکہ میں نے پولیس کی مدد کی تھی اس لئے جلد ہی رہا ہو گیا ۔تھانے میں سینکڑوں ایسے والدین جمع تھے جن کے لخت جگر ان سے بچھڑ گئے تھے اتنے سارے بچوں کو ان کے والدین تک پہنچاکر میں نے روحانی خوشی محسوس کی تھی مگر ایک پھانس ہے جو مرتے دم تک میرے دل میں پھنسی رہے گی آج بھی جب میں سونے لیٹتاہوں توایک پاگل عورت کاچہرہ میری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے ایک آواز میرے کانوں میں گونجتی ہے ۔’’آجا میرے لعل میں تیرے لئے دودھ والے چاول پکاؤنگی ‘‘۔
اوریہ میری سزاہے جو مجھے سونے نہیں دیتی خدامجھے معاف کرے ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top