skip to Main Content
بدلتا موسم

بدلتا موسم

 شازیہ فرحین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھائی جان کو اپنے پیچھے کھڑا دیکھ کر میں نے نمک پاروں پر پلیٹ ڈھانپ دی۔
’’آج کس چیز کا تجربہ ہوا ہے‘‘۔ انہوں نے مذاق اُڑانے والے انداز میں پلیٹ سرکائی۔
’’حنا معلوم ہوتا ہے تمہیں جغرافیے سے گہری دلچسپی ہے‘‘۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے چند تیڑھے میڑھے نمک پاروں پر چوٹ کی اور بُرے بُرے منہ بنانے لگے۔
’’بھائی جان آپ تو بس ایسے ہی ہیں، اتنے مزیدار تو بنے ہیں‘‘۔ میں نے چائے بناتے ہوئے دھیرے سے کہا۔ اسی لمحے امی کچن میں داخل ہوئیں اور بھائی جان کو مجھ سے اُلجھتا دیکھ کر مسکرائیں۔
’’ایک تو میری بچی اتنی سی عمر میں اتنے سارے کام کرلیتی ہے اوپر سے تم لوگ اسے ستاتے بھی ہو‘‘۔
’’ہاں ویسے یہ تو ہے اب دیکھیں نا، حنا منٹوں میں میرے شلوار قمیص پر استری کرکے دے گی، یہ تو ویسے بھی بہت ہی اچھی ہے‘‘۔ بھائی جان نے پینترا بدلتے ہوئے اپنا کام نکالنا چاہا اور پھر میں نے بھی بخوشی ان کے کپڑوں پر استری کردی۔
استری سے فارغ ہوکر میں اسکول کا کام لے کر بیٹھ گئی اور ابھی میں مصروف ہی تھی کہ کچن سے کھڑر کھڑر کی آوازوں نے مجھے بتادیا کہ امی کچن میں برتن دھونے میں مصروف ہیں، جبکہ دوسری طرف ننھے ٹیپو کے رونے کی آوازوں نے ایک ہنگامہ کررکھا ہے۔
’’امی پلیز آپ ٹیپو کو دیکھ لیں میں برتن دھولوں گی‘‘۔ میں نے آواز لگائی، مگر امی ہنوز اپنے کام میں مصروف رہیں، کچھ دیر تک میں نے امی کا انتظار کیا، مگر جب وہ نہ آئیں تو میں نے ٹیپو کو گود میں لے کر ٹہلنا شروع کردیا۔
اتنے میں بیل بجی، دروازہ کھولنے پر میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میری عزیز دوست صائمہ کھڑی پیار سے مجھے گھو رہی تھی۔
صائمہ کو اندر لاکر میں نے کتابیں سمیٹیں اور ٹیپو کو جھولنے والی کرسی پر بٹھادیا۔
’’تو گویا چھوٹے بھائی کو سنبھالا جارہا ہے‘‘۔ صائمہ نے مسکراتے ہوئے مجھ سے کہا۔
’’ہاں امی آج دراصل کچن میں برتن دھو رہی تھیں، اس لئے یہ محترم پیں پیں کا شور الاپ رہے تھے۔
’’تو کیا تمہارے گھر میں برتن دھونے کے لئے ملازم نہیں!‘‘ صائمہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’نہیں بھئی برتن دھونے کی ذمہ داری تو میری ہے‘‘۔
میرے اس طرح کہنے پر اس نے میری ہتھیلیوں کو غور غور سے دیکھا۔
’’اچھا جبھی تو تمہارے ہاتھوں میں اتنی خشکی رہتی ہے۔۔۔!‘‘ ابھی وہ میری ہتھیلیوں کا جائزہ ہی لے رہی تھی کہ امی کی آواز آئی۔
’’حنا ذرا جلدی سے گڑیا کی فیڈر تیار کردو‘‘۔
’’اچھا امی‘‘۔ میں نے جواب دیا اور صائمہ سے معذرت کرتے ہوئے جلدی سے فیڈر تیار کیا اور صائمہ کے پاس چلی آئی۔
’’اُف توبہ! تم اس قدر کام کس طرح کرلیتی ہو‘‘۔ صائمہ نے مجھے عجلت میں چائے بناتا دیکھ کر رسان سے کہا تو میں اسے دیکھنے لگی۔
’’مجھے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے جھاڑو پوچے کا کام بھی تم ہی کرتی ہوگی‘‘۔ صائمہ نے میرے کام کو ہی موضوع بنایا ہوا تھا۔
’’ظاہر ہے امی اب اکیلے تو سب کچھ کرنے سے رہیں ویسے بھی اب میں نہم میں ہوں کوئی چھوٹی سی بچی تو نہیں۔۔۔‘‘ میں نے عام سے لہجے سے کہا اور اس کے تاثرات دیکھنے لگی۔
’’تو کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ پڑھائی کے بعد جو وقت بچے اس میں تم اچھی اچھی کہانیاں پڑھو، کمپیوٹر پر نت نئے گیم کھیلو اور دوپہر کے بعد خوب لمبی تان کر سوجاؤ‘‘۔ صائمہ نے مجھے دیکھ کر حیرانگی سے کہا۔
’’ہاں جی تو چاہتا ہے لیکن کیا کروں؟‘‘
’’کرنا کیا ہے امی سے کہہ دو میں یہ سارے کام نہیں کرسکتی، ویسے بھی تمہاری عمر اتنی تو نہیں کہ گھر کا آدھا بوجھ تم پر ڈال دیا جائے۔۔۔‘‘ صائمہ نے ہمدردی سے میری جانب دیکھا۔
’’میں تو سوچ بھی نہیں سکتی کہ اتنے سارے کام تم کس طرح کرلیتی ہو، جھاڑو پوچا لگانا، برتن دھونا، چائے بنانا، کپڑے پریس کرنا، چھوٹے بہن بھائیوں کو سنبھالنا، توبہ ہے تم انسان ہو یا مشین۔۔۔‘‘
صائمہ دیر تک مجھ سے اس قسم کی باتیں کرتی رہی، شاید وہ سچ ہی کہہ رہی تھی اتنی سی عمر میں امی نے مجھے اتنے ڈھیروں کام سونپ دیئے تھے، بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔
آج پہلی دفعہ میں نے اس رُخ سے سوچا اور خیالوں میں کھوگئی، صائمہ کی باتوں کا ایک ایک لفظ میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔
انہیں خیالوں کی وادی میں گھومتی گھامتی میں دیر تک دیوار پر نظریں جمائے بیٹھی رہی اور پھر تکیے میں منہ دے کر سوگئی۔
شام کا دھندلکا پھیلا تو میں آنکھیں موندتے ہوئے اُٹھی اور منہ ہاتھ دھو کر بال بناتے ہوئے سنگھار میز کے آگے کھڑی ہوگئی۔
’’حنا ذرا چائے تو بنادو‘‘۔ امی کی گونجتی ہوئی آواز نے میرے کانوں تک رسائی حاصل کی، مگر میں یوں چوٹی ڈالنے میں مگن رہی جیسے میں نے ان کی بات سنی ہی نہ ہو۔
آدھے گھنٹے کی سخت محنت کے بعد میں صائمہ کا سکھایا ہوا ہیئر اسٹائل فرنچ ناٹ ڈالنے میں کامیاب تھی۔
’’کیا ہوا حنا چائے کیوں نہیں بنائی؟‘‘ امی ننھے ٹیپو کی نیپی تبدیل کرنے کمرے میں آئیں تو مجھ سے پوچھ بیٹھیں۔
’’امی میرا موڈ نہیں ہے آپ خود بنالیں‘‘۔ میں نے رکھائی سے جواب دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں امی سے تلخ لہجے میں بات کررہی تھی اور امی حیران ہوتی ہوئیں مجھے گھور رہیں تھیں اور پھر وہ اُلٹے قدموں واپس چلی گئیں اور میں اپنے کمرے میں بیٹھی کہانیوں سے دل بہلانے لگی۔
’’کیا ہوا ہماری بیٹی کی طبیعت تو ٹھیک ہے‘‘۔ رات کو کھانے کی میز پر ابو نے مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا تو میں نے اثبات میں سر ہلادیا اور چپ چاپ کھانے میں مگن رہی۔
صبح بھی خلاف معمول دیر تک بستر پر لوٹتی رہی ورنہ روزانہ نماز پڑھ کر آٹا گوندھنا میرا معمول تھا۔
امی دو دفعہ مجھے جگانے بھی آئیں مگر میں یونہی لیٹی رہی، امی سمجھ گئی تھیں کہ یہ سب کام نہ کرنے کے بہانے ہیں۔
ناشتے سے فارغ ہوکر جھاڑو لگانے میں بھی میں نے سستی دکھائی اور نہایت لاپرواہی سے یہ کام انجام دیا۔
’’امی جھاڑو پوچے کے لئے ماسی لگوادیں‘‘۔ میں نے بیزار سے لہجے میں ڈائننگ ہال سے کچرا نکالتے ہوئے کہا۔
’’کیوں بھئی یہ اچانک ماسی کا خیال کیسے آگیا‘‘۔ امی نے چونک کر پوچھا۔
’’بس ایسے ہی، اب دیکھیں نا جھاڑو پوچے میں کتنا وقت لگ جاتا ہے اور پھر تھکن الگ۔ بھئی مجھ سے تو اب یہ سب کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ میں نے لمبی چوڑی تمہید باندھتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا اور پھر پورے دن اپنے کمرے میں مقید رہی اور پھر جب کمرے سے نکلی تو بھائی جان نے مجھے اپنی قمیص تھمادی کہ اسے استری کردوں۔
’’بھائی جان آپ امی سے کہہ دیں میرا دل نہیں چاہ رہا‘‘۔ میں نے ٹالنے والے انداز میں ان سے کہا۔
’’خیر چھوڑو دل نہیں چاہ رہا تو کوئی بات نہیں، لیکن اس طرح دس من کا منہ تو نہ بناؤ، اب ایسی بھی کیا بیزارگی۔۔۔‘‘ بھائی جان روانی میں بولے چلے جارہے تھے اور میں سنجیدگی سے کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔
’’امی میں کچھ دنوں کے لئے ماموں جان کے گھر جانا چاہتی ہوں‘‘۔ میں نے اٹل لہجے میں امی کو اطلاع دی۔
’’مگر اس سے پہلے تو تم کو وہاں جانا بالکل اچھا نہیں لگتا تھا‘‘۔ امی نے جرح کی۔
’’بس ایسے ہی موڈ ہورہا ہے‘‘۔ میں نے آہستگی سے کہا اور امی خوب سمجھ گئیں کہ یہ سب کام نہ کرنے کے بہانے ہیں اور واقعی میں کام سے فرار کی خاطر تو وہاں جانا چاہتی تھی۔
شام تک گھر میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ میں پندرہ دن کے لئے ماموں کے گھر جارہی ہوں اور پھر بھائی جان مجھے ماموں کے گھر چھوڑ آئے۔
ماموں جان مجھے دیکھ کر بہت خوش تھے، جبکہ ممانی جان نے کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہ کیا، اتنے بڑے گھر میں وہ دونوں ملازموں کی آدھی درجن فوج کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔
میرا پہلا دن تو خوشگوار گزرا، کیونکہ ماموں جان نے مجھے خوب کمپنی دی، لیکن دوسرے روز جب وہ آفس گئے تو میں حد درجہ بور ہوگئی، کیونکہ ممانی مزاج کی تلخ تھیں اور دن بھر کتابوں کے مطالعے میں غرق رہتیں۔
’’کاش ماموں جان کا کوئی بچہ ہوتا‘‘۔ میں نے تاسف سے سوچا ا ور پھر خود بھی کہانیوں کی کتابیں پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔
دو تین دن یونہی میرے پسندیدہ شغل جاری رہے، مگر اب مجھے سخت بوریت محسوس ہورہی تھی اور جی چاہ رہا تھا کہ کچھ کروں، مگر کیا، میں نے خود سے سوال کیا اور پھر بلا ارادہ کچن میں آگئی اور جھٹ پٹ برتن کھنگالنے لگی۔
’’ارے یہ کیا کررہی ہو؟‘‘ ممانی کی تلخ آواز پر میں نے پلٹ کر دیکھا۔
’’چلو فوراً اندر، یہ ملازم کس لئے ہیں؟‘‘
ممانی نے کڑک لہجے میں کہا تو میں بغیر کچھ کہے اندر آگئی اور پھر سرونٹ کوارٹر کی طرف نکل گئی جہاں ملازموں کے بچے کھیل رہے تھے۔
بچے کلکاریاں مارتے ہوئے ایک دوسرے پر چڑھے ہوئے قہقہے لگا رہے تھے، ایسے میں مجھے ننھا ٹیپو اور گڑیا شدت سے یاد آئے اور ایک گرم گرم آنسو میری ہتھیلی پر جا ٹھہرا۔
گھر میں تو آج تک مجھے اس قسم کی بوریت اور تنہائی محسوس نہ ہوئی، میں نے سوچا اور پھر یہاں آنے کی اپنی بے وقوف پر بری طرح مچل گئی۔
بھائی جان کی نوک جھونک، ابو کی شفقت، امی کی محبت بھری نظریں، ٹیپو اور گڑیا کا مجھ سے والہانہ پیار۔ یہ سب کچھ چھوڑ کر میں کیوں چلی آئی۔
خود سے ہی لاتعداد سوالات کرتے ہوئے مجھے امی بری طرح یاد آنے لگیں۔ امی مجھ سے واقعی بے انتہا محبت کرتی ہیں جبھی تو اس دن آنٹی سے کہہ رہی تھیں۔
’’میری بچی تو میرے اتنے سارے کام کرتی ہے کہ میرے دل سے اس کے لئے دعا ہی نکلتی ہے۔ واقعی حنا تو میری ہیرا ہے ہیرا۔۔۔‘‘ امی اس دن پیار سے مجھے گھورے جارہی تھیں اور میں بھی اپنی تعریف پر خوشی سے بے قابو تھی۔
’’امی میری پیاری امی پلیز مجھے بلوا لیجئے‘‘۔ میں نے روتے ہوئے تکیے میں منہ دیا اور سوگئی۔
ماموں جان کے آنے پر میں نے واپسی کا تقاضا شروع کردیا۔
’’کیوں بھئی اتنی جلدی کیوں، ابھی تو صرف دو تین ہی دن ہوئے ہیں‘‘۔
’’بس مجھے بوریت ہورہی ہے، یہاں کوئی کام بھی تو نہیں کرنے کے لئے‘‘۔ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
’’تو تم کرلیا کرو، ایسی کیا بات ہے جاؤ میرے لئے ایک اچھی سی چائے بنا کر لاؤ‘‘۔ ماموں جان نے مجھے خوش کرنے کے لئے کہا تو ممانی جان نے فوراً مداخلت کی۔
’’نہیں بھئی کچھ ہوگیا تو اُلٹی مصیبت‘‘۔ ممانی جان کی سردمہری پر ماموں جان بھی خاموش ہوگئے۔ واقعی اپنا گھر تو پھر اپنا ہی ہوتا ہے۔ ممانی کے رویے پر میں نے تاسف سے سوچا اور پھر میرے بے حد اصرار پر ماموں مجھے گھر چھوڑ کر آنے پر راضی ہوگئے۔
گاڑی میں بیٹھ کر میں بہت خوش تھی اور کچھ ہی دیر کی مسافت کے بعد میں گھر میں تھی۔
’’تم تو پندرہ دن کے لئے گئی تھیں‘‘۔ بھائی جان نے گیٹ پر ہی مجھے دیکھ کر حیرانگی سے سوال کیا۔ جواب میں، میں صرف مسکرائی۔
’’باجی باجی، برآمدے میں کھلونوں سے کھیلتا ہوا ٹیپو بھی مجھے دیکھ کر میری جانب لپکا۔ میں نے اسے لپٹا کر ڈھیروں پیار کیا اور پھر لڑکھڑاتے قدموں سے میں امی کے پاس آئی۔ امی حسبِ معمول کچن میں برتن دھونے میں مصروف تھیں۔
’’تم اتنی جلدی کیسے آگئیں‘‘۔ امی کی نظروں میں ڈھیروں سوال تھے اور وہ مجھے دیکھ کر زیرِ لب مسکرا رہی تھیں، جبکہ میں سر جھکائے نادم سی ان کے آگے کھڑی تھی۔
’’ادھر آؤ‘‘۔‘‘۔ امی نے مجھے قریب بلایا۔
میں دھیرے سے ان کے قریب گئی اور پھر میری آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسوؤں کے قطرے دیکھ کر انہوں نے مجھے گلے سے لگایا اور پیار سے میرا ماتھا چوم لیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top