آپ پانی کیسے پیتے ہیں؟
حمیرہ خاتون
………………….
’’امی، امی، آج پھر بھیا نے کھڑے ہوکر پانی پیا ہے؟‘‘ ننھے خزیمہ نے کھانا پکاتی ہوئی اسماء کو آکر مطلع کیا۔
’’نہیں امی، پہلے میں بھول گیا تھا، مگر جب مجھے یاد آیا تو پھر میں بیٹھ گیا تھا‘‘۔
حذیفہ نے فوراً ہی بھائی کے پیچھے پیچھے آکر وضاحت دی۔ اس کی وضاحت پر اسماء کے چہرے پر بڑی ہی بے ساختہ مسکراہٹ اُبھری تھی۔
’’بہت ہی اچھا کیا حذیفہ آپ نے‘‘۔ اسماء نے مسکرا کر کہا ’’ابھی شروع شروع میں تو آپ بھولیں گے، مگر جب بھی آپ کو یاد آئے آپ وہی کیا کریں‘‘۔ اسماء نے جلدی جلدی روٹیاں دستر خوان میں لپیٹیں۔ ’’چلیے کھانا لگاتے ہیں‘‘۔ اس نے بچوں کو پلیٹیں دی جو کہ انہوں نے لے جاکر دستر خوان پر رکھ دیں۔ یہ اُن کا روز کا معمول تھا۔ دوپہر میں بچوں کے اسکول سے آتے ہی جب تک وہ یونیفارم تبدیل کرکے فریش ہوتے تب تک وہ گرم گرم روٹیاں بنالیا کرتی تھیں اور پھر تینوں مل کر دوپہر کا کھانا کھایا کرتے۔ خزیمہ اور حذیفہ دو بھائی تھے، خزیمہ کے جی ون اور حذیفہ کے جی ٹو میں ایک انگلش میڈیم اسکول میں زیرِ تعلیم تھے۔ اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسماء خود بھی بچوں کی پڑھائی میں کافی دلچسپی لیتی تھی اور باتوں باتوں میں انہیں اسلامی آداب و واقعات بتایا کرتی تھی۔ اس کی دلی خواہش تھی کہ اس کے بچے نہ صرف اچھے طالب علم بلکہ اچھے مسلمان بچے بھی بن سکیں، وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ آج کل کے والدین نئے زمانے کا ساتھ دینے کے لئے، اپنے بچوں کو ماڈرن بنانے کے لئے انہیں مغربی انداز تو ضرور بتاتے ہیں، مگر اسلامی طور طریقے اور آداب بتانے میں شرماتے ہیں اور وہ یہ بھی دیکھ چکی تھی کہ مغربی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آج کل کے بچے مغربی تہذیب کو بھی اس کی خرابیوں کے ساتھ قبول کررہے تھے۔ وہ شادی سے پہلے ایک اچھے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھایا کرتی تھی۔ وہاں چند ہی دن میں اس نے مشاہدہ کیا کہ بچے اکثر کھڑے ہوکر، اُلٹے ہاتھ سے ایک ہی سانس میں پانی پیتے ہیں، بعض اسٹوڈنٹس دوران کلاس یا راستے میں بھی اپنی منرل واٹر کی بوتل اُلٹے ہاتھ سے پکڑ کر، منہ سے لگا کر، ایک ہی سانس میں غٹاغٹ پانی پی لیا کرتے تھے، ویسے بھی اسکول میں الیکٹرک کولر لگا تھا اور کولر کے قریب بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا، لہٰذا اسٹوڈنٹس اکثر کھڑے ہوکر ہی پانی پیا کرتے تھے۔ اسماء کا رجحان شروع ہی سے مذہب کی طرف زیادہ تھا۔ وہ لاشعوری طور پر اسلامی آداب پر عمل کرنے کی کوشش کی کرتی تھی۔ اسے بچوں کے اس طرح پانی پینے کا انداز بہت ہی ناگوار گزرتا تھا، لہٰذا اس نے پرنسپل صاحبہ سے بات کرکے وہاں کولر کے پاس دو کرسیاں رکھوادیں اور ساتھ ہی ایک بڑے پوسٹر پر بڑے خوش خط انداز میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پانی پینے کا طریقہ لکھ کر آویزاں کردیا۔ اس طرح پانی پینے والے بچے جب تک کولر سے پانی نکالتے۔ لاشعوری طور پر ہی ان کی نظریں اس خوبصورت خوش خط پوسٹر کا طواف کرنے لگتی تھیں۔ لکھا تھا۔
’’کیا آپ کو علم ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح پانی پیا کرتے تھے؟
آپؐ پانی بیٹھ کر پیتے و دیکھ کر پیتے۔ بسم اللہ پڑھ کر پیتے، تین سانس میں پیتے، سیدھے ہاتھ سے پیتے، پڑھ کر الحمدللہ کہتے۔ آپ بھی اپنے پیارے نبی کریمﷺ کے طریقے پر عمل کرئیے، کیونکہ آپ ان سے محبت کرتے ہیں‘‘۔
بچوں کو علم ہی نہیں ہوتا اور وہ خوبخود اس طریقے کے مطابق پانی پینے لگتے تھے۔ چند ہی دنوں میں بچوں میں ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں ٓئی کہ بچے کولر کی جگہ کے علاوہ بھی پانی پیتے ہوئے لاشعوری طور پر اسلامی آداب کی پیروی کرنے لگے تھے اور جب ہی اسماء نے سوچا تھا کہ ہم دن میں کتنی مرتبہ پانی پیتے ہیں، مگر ہم کتنی مرتبہ ان سنتوں کا خیال رکھتے ہیں، اگر ہم خلوصِ نیت کے ساتھ ہر مرتبہ پانی پیتے وقت ان آداب کو ذہن میں تازہ کرکے ان پر عمل کریں تو کم از کم ہمارا ایک عمل تو سنت کے مطابق ہو ہی جائے گا اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اخلاصِ نیت اور مسلسل کوشش ہی عمل کا راستہ کھولتی ہیں اور اگر ایک مرتبہ یہ راستہ کھل جائے تو اعمال کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے اور کون نہیں جانتا کہ اعمال ہی ہمارا کردار تشکیل دیتے ہیں تو کیوں نہ خالص نیت کے ساتھ اپنی چھوٹی چھوٹی عادتوں اور اعمال کو درست کرکے اپنے کردار کی تشکیل کے لئے اس بہترین انسان کے اسوۂ کامل کی پیروی کی جائے جس کے لئے ہمیں بحیثیت مسلمان ہمارے رب کی طرف سے بتادیا گیا ہے
’’بے شک تمہارے لئے رسولﷺ کی ذات میں بہترین نمونہ ہے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب)
ساتھیو! کبھی آپ نے سوچا کہ آپ کس طرح پانی پیتے ہیں اور کتنی سنتوں کا خیال رکھتے ہیں؟ اگر نہیں سوچا تو ذرا عادتاً پانی پی کر دیکھیے آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کا عمل اپنے پیارے نبیﷺ کے عمل سے کتنی مطابقت رکھتا ہے۔
یہ چھوٹا سا عمل اور ایک عادت ہی سہی، مگر آپ کے لئے ایک بڑے اجر کا ذریعہ بن سکتا ہے۔