ایک تھا بادشاہ
فریال یاور
………………
پیارے بچو! ایک تھا بادشاہ۔ بہت ہی رحمدل، نیک اور سب سے زیادہ اﷲ کے بندوں سے پیار کرنے والا۔ اس بادشاہ کو اﷲ تعالیٰ نے حکومت کے لیے وسیع مملکت عطا فرمائی تھی مگر بچو! اس بادشاہ کے حکومت کرنے کے ڈھنگ ہی نرالے تھے۔ وہ بادشاہ تو تھا مگر نہ بادشاہوں جیسے قیمتی کپڑے پہنتا اور نہ ہی بڑے بڑے محلات میں رہتا بلکہ اپنے چھوٹے سے گھر میں رہتا۔ مگر اس کے دربار کی شان و شوکت دوسرے بادشاہوں کے دربار کی شان و شوکت سے کہیں زیادہ تھی۔
دوسرے بادشاہوں کے درباری اپنے بادشاہ کے حکم کی تعمیل اس ڈر سے کرتے کہ کہیں ان کا بادشاہ ناراض نہ ہوجائے جبکہ اس بادشاہ کے درباری ڈرتے صرف اﷲ سے تھے اور اپنے بادشاہ سے نہایت محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ یہ محبت ہی تھی کہ بادشاہ کوئی کام کو کہتا توہر ایک کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ پہلے اس کام کو انجام دے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس بادشاہ کو خدمت خلق کا بھی بے حد جذبہ عطا کیا تھا اور وہ اپنا سارا وقت اﷲ کی مخلوق کی خدمت کرنے میں یا اﷲ کا شکر ادا کرنے میں صرف کرتا تھا۔
ایک مرتبہ بادشاہ نے دور کہیں دیکھا کہ ایک غلام چکی میں آٹا پیس رہا ہے اور ساتھ ہی درد سے کراہ بھی رہا ہے۔ بادشاہ اس غلام کے قریب گیا اور پوچھا:’’ بھائی خیریت تو ہے تم چکی بھی پیستے ہو اور کراہ بھی رہے ہو آخر کیا وجہ ہے؟‘‘
غلام نے انتہائی بے بسی سے جواب دیا:’’ مجھے بخار ہے اسی وجہ سے جسم میں درد بھی ہے اور مجھے کام کرنا مشکل ہو رہا ہے مگر میرا مالک بہت ظالم ہے۔ وہ مجھے چھٹی نہیں دیتا کہ میں کچھ آرام کرسکوں۔‘‘ بادشاہ تو تھا ہی رحم دل اس نے غلام کو تسلی دی اور اسے آرام سے لٹا دیا پھر خود سارا آٹا پیس دیا یہی نہیں بلکہ آتے وقت غلام سے کہہ آیا کہ تمہیں جب بھی آٹا پیسنا ہو مجھے بلوا لیا کرو۔ غلام نے بادشاہ کی طرف احسان مند نظروں سے دیکھا۔
اسی طرح ایک دن بادشاہ کا گزر ایک ایسے راستے سے ہوا جہاں اس نے ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جو ایک بڑا بوجھ اٹھائے اپنا فاصلہ طے کررہی تھی۔ بادشاہ نے جو یہ دیکھا تو اس کے سر کا بوجھ اتار کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا۔ پھر بڑھیا کی بتائی ہوئی جگہ پر جا کر وہ بوجھ پہنچا آیا۔
ایک دفعہ بادشاہ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی مہم پر جانا پڑا۔ دوران مہم بادشاہ اور اس کے ساتھی سفر کرتے کرتے تھک گئے تو ایک جنگل میں رک گئے تاکہ کچھ دیر آرام کر لیا جائے اور کچھ کھا پی لیا جائے۔ کھانا پکانے کے لیے ساتھیوں نے آپس میں مختلف کام بانٹ لیے کہ ایک جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لے آئے۔ ایک پانی بھر کر لے آئے۔ ایک چولھا تیار کرے اور اس میں آگ جلائے اور ایک کھانا پکائے۔ بادشاہ وہیں موجود تھا۔ اس نے لکڑیاں جنگل سے کاٹ کر لانے کی ذمہ داری خود لے لی۔ ساتھیوں نے کہا:’’ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں۔ آپ آرام فرمائیں ہم ہیں کام کرنے کے واسطے۔‘‘ مگر بادشاہ نے اس بات کو پسند نہیں کیا کہ وہ آرام کرے اور اس کے ساتھی کام کریں۔ لہٰذا باقی کام ساتھیوں کو سونپ کر بادشاہ خود جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایا اور کھانا پکانے میں مدد کی۔
ایک مرتبہ تو حد ہی ہو گئی کہ ایک پاگل عورت بادشاہ کے پاس آئی اور بادشاہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا:’’ میرے ساتھ چلو مجھے تم سے کچھ کام ہے۔‘‘ بادشاہ کچھ کہے بغیر خاموشی سے اس عورت کے ساتھ چل دیا کچھ دور جا کر عورت نے اس سے کچھ کام کہا۔ بادشاہ نے وہ کام کچھ کہے بغیر کردیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ عورت پاگل ہے اور یونہی کہہ رہی ہے۔ جب بادشاہ وہ کام کرچکا تب عورت نے اسے جانے کی اجازت دی۔
بادشاہ لوگوں کی خدمت کرتے وقت یہ نہیں خیال کرتا تھا کہ وہ جس کی خدمت کررہا ہے وہ اس کا اپنا ہے یا کوئی غیر ۔ امیر ہے یا غریب مالک ہے یا غلام، دوست ہے یادشمن کیونکہ بادشاہ یہ جانتا تھا کہ جو شخص اﷲ کے بندوں سے پیار کرتا ہے اور کسی غرض کے بغیر ان کی خدمت کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اسے عزت دیتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مقام بہت اونچا ہے۔
ایک جگہ چند عورتیں اپنی بکریوں کے لیے پریشان کھڑی تھیں۔ بادشاہ کا گزر جب ان عورتوں کے پاس سے ہوا تو اس نے رک کر ان عورتوں سے پوچھا:’’ کیا بات ہے تم لوگ کیوں پریشان کھڑی ہو؟‘‘ ان عورتوں نے جواب دیا:’’ ہمارے گھر کے مرد دوسرے علاقے میں گئے ہیں اور ان کی واپسی کچھ دنوں بعد ہو گی۔ اس وقت ہمیں دودھ کی ضرورت ہے اور ہمیں دودھ دوہنا نہیں آتا۔ ہمارے مرد ہی ان بکریوں کا دودھ دوہا کرتے تھے۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ نے کچھ ہی دیر میں ان کی یہ مشکل آسان کر دی کہ ان بکریوں کا دودھ دوہہ دیا اور یہ خدمت اس دن تک انجام دی۔ جب تک ان کے مرد واپس نہیں آگئے۔
ایک دن بادشاہ نے بازار میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا۔ جو بہت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ نابینا بھی تھی۔ وہ بیچاری عورت اپنی لاٹھی زمین پر ٹیکتی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی کہ اچانک اسے کسی پتھر سے ٹھوکر لگی اور وہ بوڑھی عورت گر پڑی۔ پاس ہی چند شریر لڑکے پیچھے تھے جو نابینا بڑھیا کو گرتا دیکھ کر ہنسنے لگے مگر بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر بڑھیا کو اٹھایا اور سہارا دے کر گھر تک چھوڑ آئے۔ اس دن کے بعد اس اندھی بڑھیا کو کھانا بھی بادشاہ خود ہی اس کے گھر پہنچا آتا۔
ایک دفعہ دشمن نے حملے کا منصوبہ بنایا مگر بادشاہ کے جاسوسوں نے بروقت بادشاہ کو اس حملے کی اطلاع دے دی۔ بادشاہ نے فوراً اعلان جنگ کروایا اور اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور انہیں دشمن کے منصوبے سے آگاہ کیا۔ ساتھ ہی دشمن سے مقابلے کے لیے ان سے راے لی، ہر ایک نے اپنی اپنی راے دی۔ مگر ان میں سے ایک ساتھی کی راے کو بادشاہ اور اس کے تمام ساتھیوں نے بہت پسند کیا۔ وہ راے تھی کہ شہر کے گرد خندق کھود کر دشمن کو شہر کے باہر ہی روکا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے۔ اب بادشاہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وقت بہت کم ہے اور کام زیادہ ہے۔ مقابلہ اگرچہ سخت ہے مگر محنت سے اور مستقل لگن سے کیا جائے تو ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور فتح ہمارا مقدر ہوگی۔
اب ایک مناسب جگہ چن لی گئی اور وہیں بادشاہ کا کیمپ بنایا گیا تاکہ بادشاہ اپنے کیمپ میں بیٹھ کر جنگی حالات کا بہتر طریقے سے جائزہ لے اور جنگ سے متعلق احکامات دے سکے۔ خیمہ نصب کرنے کے بعد بادشاہ کے سپاہی خندق کھودنے کے لیے گئے تو بادشاہ کو باقی سپاہیوں کے ساتھ خندق کی کھدائی کرتے پایا اور اس حال میں دیکھا کہ جسم پر مٹی جم گئی تھی اور اپنے کرتے کے دامن میں خندق کے پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے۔ اس طرح اس خندق کی وجہ سے دشمن باوجود کوششوں کے اس علاقہ میں داخل نہ ہوسکا۔ بادشاہ اور اس کے ساتھیوں کو فتح نصیب ہوئی۔ بادشاہ نے اپنی فتح پر بجاے اکڑنے اور غرور کرنے کے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اﷲ کا شکر ادا کیا جس نے انہیں فتح و عزت نصیب کی۔
ان تمام باتوں کے باوجود بادشاہ ہر روز لوگوں کی خدمت اسی طرح کیا کرتا، کبھی کسی کو سہارا دے کر گھر پہنچا دیا اور کبھی کسی غلام کے حصے کا کام انجام دے دیا۔ بادشاہ کو اس طرح تمام لوگوں کی طرح کام کرتے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرتے دیکھ کر ایک مغرور آدمی نے بادشاہ سے کہا:’’ اس طرح لوگوں کے چھوٹے موٹے کام کرکے آپ نے اپنے خاندان کا نام بدنام کر دیا ہے۔‘‘ مگر مغرور آدمی کی بات سن کر بادشاہ نہ ہی غضب ناک ہوا اور نہ ہی شرمندہ ہوا۔ بلکہ انتہائی فخر سے بادشاہ نے یہ بات کہی۔
’’میں ہاشم کا پوتا ہوں ۔جو امیروں اور غریبوں کی یکساں مدد کرتا تھا۔ جو اپنے سے کم درجہ کے لوگوں کو حقیر نہیں جانتا تھا۔‘‘
پیارے بچو! اب تو آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ یہ عظیم بادشاہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جنہیں اﷲ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی بادشاہی عطا کی مگر انہوں نے کبھی اس بات پر غرور کیا نہ دوسرے لوگوں سے خود کو الگ سمجھا بلکہ عام لوگوں کی طرح انہی لوگوں کے درمیان چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے تھے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کردیتے۔ کبھی کوئی سائل ان کے دروازے سے خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
’’مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے اس پر ظلم نہ کرے اور نہ مصیبت میں ڈالے اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت پوری کرتا ہے، اﷲ اس کی قیامت میں سختیوں کو دور کرے گا۔‘‘
قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ترجمہ: ’’اے بنی نوع انسان بلاشبہ تمہارے لیے رسول خدا کی ذات میں بہتر (زندگی کا) طریقہ موجود ہے۔‘‘
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جس طرز کی تبدیلی لوگوں میں پیدا کرنا چاہتے تھے آپؐ خود اس کا عملی نمونہ بنے۔ آج اگر ہم بھی ایک مثالی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر چلنا ہوگا۔