کوتوال کا بیٹا
کہتے ہیں، بادشاہ اغلمش نے ایک بار کوتوال کے بیٹے کو دیکھا تو ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مترادف، اسے اپنے مصاحبین میں شامل کر لیا
یہ نیک فطرت نوجوان دانا بادشاہ کی توقعات کے عین مطابق ثابت ہوا وفاشعاری اور دیانت داری و شرافت میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ جو کام بھی اس کے سپرد کیا جاتا وہ اسے بحسن و خوبی انجام دیتا تھا۔
اس کی قابلیت اور شرافت کے باعث جہاں بادشاہ کی نظروں میں اس کی قدرومنزلت زیادہ ہوتی چلی جا رہی تھی وہاں حاسدوں کی پریشانیوں اور دکھوں میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر انھوں نے صلاح مشورہ کر کے نوجوان کے سر ایک تہمت دھری اور بادشاہ کے کانوں تک یہ بات پہنچائی کہ حضور جس شخص کو ہر لحاظ سے قابل اعتبار خیال فرماتے ہیں وہ حد درجہ بد فطرت اور بدخواہ ہے۔
اگرچہ حاسدوں نے یہ سازش بہت خوبی سے تیار کی تھی اور انھیں یقین تھا کہ بادشاہ نوجوان کو قتل کروا دے گا لیکن دانا بادشاہ نے یہ بات محسوس کر لی کہ قصور نوجوان کا نہیں بلکہ حاسدوں کا ہے۔ چنانچہ اس نے جوان کو بلایا اور اس سے پوچھا، کیا وجہ سے کہ لوگ تمہارے متعلق ایسی خراب رائے رکھتے ہیں۔
نوجوان نے جواب دیا، اس کا باعث اس کے سواکچھ نہیں کہ حضور اس خاکسار پر نوازش فرماتے ہیں۔ بس یہی بات ان کے لیے باعث حسد ہے
ہے ازل سے یہ حاسدوں کا چلن
خوش نصیبوں کا چاہتے زوال
کیا قصور اس میں آفتاب کا ہے
کہ کوئی کر سکے نہ کسب کمال
دیکھے اس کو اگر نہ چمگادڑ
منبع نور کیوں ہو رو بہ زوال
حاصل کلام:
حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ درس دیا ہے کہ انسان میں اگر واقعی کوئی گن ہو تو وہ قدر دانی سے محروم نہیں رہتا۔
نگاہیں کا ملوں پر پڑ ہی جاتی ہیں زمانے میں
دوسرے یہ کہ اگر خوش بختی سے کسی کو عروج حاصل ہو تو اسے بد خواہوں اور حاسدوں کی طرف سے بے پروا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ تیسری بات یہ کہ اگر کسی کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ اس نے یہ جرائم کیے ہیں تو تحقیق کیے بغیر رائے قائم نہں کرنی چاہیے۔