سب ٹھیک ہے نا۔۔۔!!
فوزیہ خلیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اے ہے۔۔۔ کتنا کھاؤ گے لڑکو۔اب گھر کو بھی جاؤ‘‘
تینوں بچے جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے انہوں نے امی کو سر پکڑے دیکھا۔
’’ کیا ہوا امی؟‘‘ خزیمہ نے گھبرا کر پوچھا۔
’’ کیا آپ کی طبیعت خراب ہے؟‘‘ عکاشہ نے کہا۔
’’ آپ بولتی کیوں نہیں ہیں امی!‘‘مصعب نے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’ آپا عطرت کو تو تم لوگ جانتے ہی ہو۔آج۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئیں۔
’’ ہاں کیا ہوا آج۔ آج پھر کچھ کہہ دیا انہوں نے آپ کو۔‘‘ عکاشہ بولا۔
’’ ہاں وہ بہت غصے میں بھری ہوئی تھیں۔ اب کیا کہیں۔۔۔ عادت ہے ان کی۔ کہنے لگیں۔ میرا بیٹا دو روز سے بخار میں ہے۔ تم طبیعت تک پوچھنے نہیں آئیں۔ تم کو آنا چاہیے تھا اور اگر نہ آسکیں تو کم از کم فون پر خیریت ہی پوچھ لیتیں۔ مگر تم میں تو مروت اور اخلاق ہے ہی نہیں اور اس ہی قسم کی اور سخت سخت باتیں کہہ رہی تھیں۔ ‘‘ امی نے دوبارہ سر تھام لیا۔ پھر بولیں۔
’’ اور میں کروں کیا۔ مجھے تو پتا تک نہیں چلا کہ ان کا بیٹا دو روز سے بخار میں ہے۔‘‘
’’تو آپ انہیں بتاتی ناں۔ کہ مجھے تو پتا تک نہیں چلا۔‘‘ خزیمہ نے کہا۔
’’بتاتی تو جب ۔۔۔ جب وہ کچھ سنتی۔ مگر آپا عطرت کی عادت ہے وہ کسی کی سنتی ہی کب ہیں۔ بس برا بھلا کہتی رہیں اور پھر فون بند کر دیا۔‘‘
’’ بس آپ ان سے تعلقات ختم کر لیں۔ کون سی ہماری ان سے قریبی رشتہ داری ہے۔‘‘
’’ اپنی کوئی ضرورت پڑتی ہے تو کیسے فوراً آجاتی ہیں۔‘‘ عکاشہ نے منہ بنا کر کہا۔
’’بری بات ہے بیٹا۔ ہم یوں کسی مسلمان سے قطع تعلق نہیں کرسکتے۔۔۔‘‘ امی کہہ ہی رہی تھیں کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ بچوں کے ٹیوٹر اندر داخل ہوئے اور بچے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
*۔۔۔*
تمہیں پتا ہے خزیمہ ، عکاشہ۔۔۔ کل پھر آپا عطرت نے امی کو فون کیا تھا کہ تمہیں تو کچھ ہوش ہی نہیں میرا چھوٹا بیٹا سیڑھیوں سے گر گیا تھا۔ تم نہ طبیعت پوچھنے گھر آتی ہو نہ فون کرتی ہو۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر امی کو بے نقط سنا دیتی ہیں اور پھر ہمارے تمام خاندان میں الٹ پلٹ باتیں کہتی پھرتی ہیں اور امی ہیں کہ کسی بھی بات کا کوئی جواب ہی نہیں دیتیں۔ ‘‘ مصعب نے مکا ہوا میں لہرایا۔
’’ آپا عطرت کو اپنی عادت بدلنا ہوگی۔‘‘ خزیمہ نے نعرہ لگایا۔
’’ہاں عادت بدلنا ہوگی۔ ہم ان کو مزید اپنی امی کو پریشان کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘ عکاشہ بولا۔
’’اس کے لیے ہمیں کوئی ترکیب سوچنا ہوگی۔‘‘ مصعب نے کہا اور تینوں بچے سوچ میں ڈوب گئے۔
’’ مجھے آخر ایک بات سوجھ ہی گئی۔ ‘‘ عکاشہ نے سر اٹھایا اور اپنے بھائیوں کو کچھ بتانے لگا۔
*۔۔۔*
’’ السلام علیکم آپا عطرت۔۔۔ کیسی ہیں آپ۔ سب خیریت ہے ناں۔ ہم خاص کر آپ کی طبیعت پوچھنے آئے ہیں۔‘‘
’’ ہائیں۔۔۔ اسکول کے یونیفارم میں۔‘‘
’’ہاں آپا۔۔۔ اسکول میں جو مجھے آپ کا خیال آیا تو گھبراہٹ شروع ہو گئی کہ نہ جانے آپا کے ہاں خیریت ہو یا نہ ہو۔ بس گھر جانے کے بجائے اسکول سے سیدھے یہیں آگئے۔ بس دل ہول رہا تھا برے برے خیال آرہے تھے۔‘‘ عکاشہ بولتا جا رہا تھا۔
’’ اﷲ نہ کرے۔۔۔ برے برے خیال کیوں؟‘‘ آپا واقعی ہول گئیں۔
’’ آپ سنتی نہیں ہیں پوری بات۔۔۔ بیچ میں ٹوک دیتی ہیں۔ ہاں تو برے برے خیال آرہے تھے اچانک ہمارے انکل راستے میں نظر آئے۔ پوسٹ مارٹم کرتے ہیں وہ مردوں کا ۔‘‘ عکاشہ نے پھر بولنا شروع کیا۔
’’کیا واہیات بکے جا رہا ہے لڑکے۔‘‘
’’ہاں تو ان انکل سے میں نے وعدہ کرا لیا ہے اگر پوسٹ مارٹم کے لیے ایک مردہ لائیں گے تو ایک مردے کے ساتھ دوسرا فری۔‘‘ عکاشہ نے پھر کہنا شروع کیا۔
’’ کون سے مردے۔ کیسے مردے۔ تجھے کیا ہوگیا ہے لڑکے۔‘‘ آپا برا مان گئیں۔
’’ آپا ۔۔۔ امی نے ایک بار کہا تھا آپ کو کبھی غیر نہ سمجھیں۔ ہمیشہ اپنا سمجھیں۔‘‘ خزیمہ نے کہا۔
’’ ہاں تو پھر ۔۔۔ میں نے تو ہمیشہ انہیں اپنا ہی سمجھا ہے۔ بس وہی ہیں کہ کبھی خیریت پوچھنے تک نہیں آتیں۔‘‘
’’ خیریت پوچھنے ہی کے لیے بھیجا ہے ہم بھائیوں کو۔اور ساتھ میں کہا ہے آپ کو ہمیشہ اپنا سمجھیں۔ ہاں تو کھانا لگائیے ناں۔جلدی۔‘‘ خزیمہ بولا۔
’’اے لو۔۔۔ کھانا کون سا۔ دوپہر کو تو ہم بہت کم ہی کچھ پکاتے ہیں۔ ‘‘ آپا عطرت نے بوکھلا کر کہا۔
’’آپا ۔۔۔ اپنوں کے ساتھ آپ جھوٹ۔۔۔‘‘ خزیمہ کا جملہ درمیان میں رہ گیا کہ مصعب کچن میں سے ایک پتیلی، اور روٹیاں لے کر نکلا۔
’’ آج ہم آپ کی خدمت کریں گے آپا۔ آپ بیٹھی رہیں گی اور کھانا ہم لگائیں گے۔‘‘ مصعب جلدی جلدی کھانا لگانے لگا۔
’’ آپ نے آج چکن بنائی ہے آپا۔ بھئی واہ۔ مزہ آگیا۔ اور سنو۔۔۔ تم دونوں چکن کھانے میں ذرہ بھر تکلف نہ کرنا۔ اپنوں سے تکلف کیسا؟‘‘ مصعب بولا ۔ تینوں نے تیزی سے ہاتھ چلانے شروع کیے۔
’’اے۔۔۔ کتنا کھاؤ گے لڑکو۔‘‘ آپا نے ہلکان ہوکر ہاتھ سے روٹی چھینتے ہوئے کہا۔
’’اب گھر جاؤ تمہاری ماں پریشان ہو رہی ہوگی۔‘‘
’’ نہیں آپا! اگر اچانک کسی کو ڈاکٹر یا سرجن کے پاس لے جانا پڑا تو آپ کیا کریں گی؟‘‘
’’ کس کو لے جانا ہوگا ڈاکٹر کے پاس۔۔۔‘‘ وہ برا مان گئیں۔
’’ جیسے اچانک کوئی ایکسی ڈنٹ۔۔۔‘‘
’’اے لڑکے ۔۔۔ کیا اول فول بک رہا ہے۔‘‘
’’ آپا آپ کے گھر کے تمام مرد اس وقت باہر ہیں اور بری گھڑی۔۔۔ ‘‘ خزیمہ کا جملہ درمیان میں رہ گیا کہ اچانک باہر کی گھنٹی بجی۔
’’ اب ہم چلتے ہیں آپا ۔ کل پھر اسی وقت آئیں گے۔‘‘ مصعب بولا۔
’’ کل۔۔۔ اسی وقت۔۔۔ وہ کیوں؟‘‘ آپا عطرت نے دل تھام لیا۔
’’خیریت معلوم کرنے۔۔۔ اچھا ٹا۔۔۔ ٹا۔۔۔‘‘ تینوں باہر نکل گئے۔
*۔۔۔*
’’ آج تم تینوں لڑکے اسکول سے پھر یہیں آگئے۔‘‘ آپا عطرت نے برا سا منہ بنایا۔
’’ہم تو خیریت پوچھنے آئے ہیں ۔‘‘
’’ ابھی کل ہی تو پوچھی تھی خیریت۔‘‘ انہوں نے جل کر کہا۔
’’ارے آپا، کل اور آج میں چوبیس گھنٹوں کا فرق ہے اور چوبیس گھنٹے بہت ہوتے ہیں۔ چند سیکنڈ کے لیے زلزلے آتے ہیں اور کتنی اموات۔۔۔‘‘
’’اموات۔۔۔ زلزلے۔‘‘ آپا نے لرز کر کہا۔
’’ہاں آپا۔۔۔ اچھا اندر تو آنے دیں۔ بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
’’ نہیں اندر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس پوچھ لی خیریت۔ اب اپنے گھر جاؤ۔‘‘
’’ آپ تو برا مان رہی ہیں آپا۔ گھر آئے بغیر خیریت کیسے پتا چلے گی۔‘‘ مصعب نے کہا۔
’’ فون پر بھی خیریت پوچھی جا سکتی ہے۔ فون کر لیا کرو۔‘‘ انہوں نے کھٹ سے دروازہ بند کر لیا۔
*۔۔۔*
’’ ہیلو آپا۔ سب خیریت ہے ناں۔ ببن خالو اور بچے ٹھیک ہیں ناں۔‘‘ خزیمہ کہہ رہا تھا۔
’’ ہاں سب خیریت ہے۔ بس تمہارے ببن خالو صبح سے چھینک رہے ہیں۔‘‘
’’ہائے اﷲ ۔۔۔ گویا ہمارے خالو بیمار ہیں۔‘‘ خزیمہ نے دلخراش چیخ ماری۔
’’ہم ان کی عیادت کو آرہے ہیں۔ سنا ہے زیادہ چھینک اکثر جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔‘‘
’’اے خاک تمہارے منہ میں۔۔۔ ہاں گھر آنے کی ضورت نہیں۔ فون پر پوچھ لینا کافی ہے۔‘‘
’’ اچھا پھر جی بھر کر بات تو کر لینے دیں۔‘‘
آدھ گھنٹہ بات کرکے خزیمہ نے ریسور مصعب کو دے دیا۔ مصعب نے بات کر کے عکاشہ کو تھما دیا۔ عکاشہ نے ابھی بولنا شروع ہی کیا تھا کہ آپا عطرت نے ریسیور کھٹ سے کریڈل پر پٹخ دیا۔
*۔۔۔*
’’ السلام علیکم آپا۔ سب خیریت تو ہے ناں۔‘‘ مصعب نے ڈری ڈری آواز حلق سے نکالی۔
’’ ہیلو ۔۔۔ کون۔ رات کے تین بج رہے ہیں۔ یہ خیریت پوچھنے کا کون سا وقت ہے۔‘‘
’’اے لو آپا۔۔۔ اکثر حادثات ، چوریاں، ڈکیتیاں تو سب رات ہی میں ہوتی ہیں۔‘‘
’’ چچ ۔۔۔ چوریاں۔۔۔ ڈکیتیاں۔۔۔!!‘ ‘ انہوں نے کانپ کر کہا۔
’’ہاں محسوس کیجئے۔ اگر دھم کی آواز آرہی ہے تو کوئی آپ کی دیوار کود کر اندر آنا چاہ رہا ہے۔‘‘
’’اری نیک بخت۔ یہ رات کے تین بجے کس سے باتیں کررہی ہو۔‘‘
ببن خالو کی نیند میں ڈوبی آواز سنائی دی۔
مصعب نے ریسور کریڈل پر رکھ دیا۔
’’ میں تو ایک گھنٹہ سے کم کبھی بھی بات نہ کرتا۔ مگر ببن خالو جاگ گئے تھے۔‘‘اس نے کہا پھر بولا۔
’’ اور تم دونوں بھی جب کبھی ان سے بات کرو۔ خیریت پوچھنے میں ایک گھنٹہ ضرور لگانا۔‘‘
*۔۔۔*
’’ السلام علیکم عطرت آپا۔۔۔ سب خیریت۔۔۔ ‘‘ عکاشہ کہنے جا رہا تھا کہ انہوں نے ٹوک دیا۔
’’ بس کرو۔ میرا سر پھٹ رہا ہے۔ خدا سمجھے۔ ایک دن میں چھٹی بار خیریت ۔ ابھی تم لوگوں کے ہاں فون کا بل آئے گا۔ تو سب پتا چل جائے گا۔ میرا کیا ہے کرو لمبی لمبی کالیں۔ سناؤ لمبے لمبے قصے۔ مجھے کیا۔‘‘
’’بل تھوڑی آئے گا ہمارا۔‘‘ عکاشہ نے مسکرا کر کہا۔ ’’ ارے آپا ۔ بل تو آپ کا آئے گا۔‘‘
’’ میرا۔۔۔ وہ کیوں۔ پاگل ہوا ہے لڑکے۔‘‘
’’ ہاں آپا یہ زونگ کی یاری کال ہے۔ بل وہ دے گا جو کال وصول کرے گا۔ ‘‘ عکاشہ نے کہا۔ پیچھے دھم سے گرنے کی آواز آئی بے ہوش ہو کر گرنے کی۔
*۔۔۔*
تینوں بچے جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے انہوں نے امی کو مسکراتے دیکھا۔
’’خیریت تو ہے امی جان۔ آپ کیوں مسکرا رہی ہیں۔‘‘ مصعب نے حیران ہو کر پوچھا۔
’’تمہاری آپا عطرت کا فون آیا تھا ابھی۔‘‘
’’ اچھا کیا کہہ رہی تھیں وہ۔‘‘ خزیمہ چوکنا ہو گیا۔
’’ کہہ رہی تھیں سب خیریت ہی ہوتی ہے ہمارے ہاں۔ خواہ مخواہ پریشان مت ہوا کرو۔ کیا ہوا جو گھر نہیں آپاتیں۔‘‘
’’ پھر کیا کہا آپ نے۔‘‘ عکاشہ بولا۔
’’ میں کیا کہتی شکریہ ادا کیا ان کا۔ میں نے کہا اچھا آپا فون پر خیریت دریافت کر لیا کروں گی۔ تو گھبرا گئیں۔ نہیں فون کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کسی کی طبیعت خراب ہوئی تو میں خود ہی بتا دیا کروں گی۔ تم بلاوجہ دل پر نہ لیا کرو۔ پتا نہیں کیا ہوگیا ہے ان کو۔ کچھ بتایا نہیں کھل کر۔‘‘
’’اچھا امی جان اب تو مطمئن ہیں ناں آپ۔ نہ وہ آپ سے شکو ہ کریں گی نہ سارے خاندان میں آپ کے حوالے سے کوئی برائی کریں گی۔‘‘
’’ مگر یہ سب ہوا کیسے۔ مجھے تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ بہرحال میری پریشانی ختم ہو گئی۔ ‘‘ امی نے کہا اور کچن میں چلی گئیں اور تینوں بچے زیر لب مسکرانے لگے۔
*۔۔۔*