skip to Main Content
نواسی رسول

نواسی رسول

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کا وقت ہے۔ ماحول پر چھائی اداسی نے اسے انتہائی غمناک بنا دیا ہے۔ سورج ڈوبنے کو ہے۔ اس کے گرد چھائی شفق کی سرخی بھی اس معصوم شہادت میں شریک ہے۔ سامنے میدان میں ایک قافلہ قیدی خواتین اور بچوں پر مشتمل غم سے نڈھال چلا جا رہا ہے۔ یہ قافلہ کوفہ کی جانب رواں دواں ہے۔ قریب ہی میدانِ جنگ میں خاندانِ نبوت کے فرزندانوں کے جسم بے کفن پڑے ہیں اور معصوم بھوکے پیاسے بچوں کے لاشے نیزے میں پروئے پڑے ہیں۔ ایک ایسی درندگی جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ زمین و آسمان، چرند پرند سب اس غم میں شریک ہیں اور حق و باطل کے درمیان معرکہ اپنے انجام کو پہنچ چکاتھا۔ قافلہ حسینی کے پسماندگان میں عورتیں اور بچے اور بیمار شامل ہیں۔ اب شامی فوج کی اسیری میں کوفہ کی جانب رواں ہے۔ شہداء کے لاشے ابھی میدان کربلا میں خاک و خون میں لت پت پڑے ہیں۔ جب یہ ستم رسیدہ قافلہ ان کے پاس سے گزرا تو اہل قافلہ فرط غم سے نڈھال ہو گئے اس موقع پر قافلہ حسینی کی ایک بے باک خاتون نے انتہائی غمزدہ الفاظ میں یوں فریاد کی ۔
’’اے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آئیے۔ دیکھیے۔ آپ کے حسین رضی اللہ عنہ کا خون آلود لاشہ چٹیل میدان میں پڑا ہے۔ اس کا جسم پارہ پارہ کر دیا گیا ہے۔ آپ کے گھرانے کی لڑکیاں رسیوں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ اے میرے نانا۔ یہ آپ کی اولاد ہے۔ جسے ہنکایاجا رہا ہے۔ ذرا حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھیے۔ اس کا سر کاٹ دیا گیا ہے۔ اس کا عمامہ اور چادر چھن گئی ہے۔‘‘
قافلہ آگے بڑھتا ہے اور کوفہ میں داخل ہوتا ہے۔ اہل کوفہ ہزاروں کی تعداد میں انہیں دیکھنے کے لیے جمع ہیں۔ ان میں سے بعض کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ بے وفا کوفیوں کے ہجوم کو دیکھ کر اس خاتون کوہِ الم کی بیٹی کو ضبط تاب نہ رہی۔ ان لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا:’’لوگوں اپنی نظریں نیچی رکھو۔ یہ محمد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لٹی ہوئی اولاد ہے۔‘‘ 
یہ المناک نوحہ کہنے والی مقدس خاتون نواسی رسول زینب بنت علی رضی اللہ عنہا تھیں۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا جمادی الاولیٰ ۵ ہجری میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے وقت آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں موجود نہیں تھے۔ تین دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدھے فاطمۃ الزہرہ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت زینب کو گود میں لیا اور بہت دیر تک روتے رہے۔ پھر دہن مبارک میں کھجور چبائی اور لعاب مبارک بچی کے منہ میں ڈالا اور بچی کا نام زینب تجویز کیا۔ چھ سال بعد نانا کا وصال اس بچی کے لیے ایک بڑا سانحہ تھا لیکن اس وقت کسے معلوم تھا کہ آئندہ زندگی میں اس معصوم بچی پر اس قدر قیامت ٹوٹے گی کہ اس کی کنیت ام المصائب مشہور ہو جائے گی۔ چھ سال بعد ہی حضرت زینب رضی اللہ عنہا اپنی ماں کی شفقت سے بھی محروم ہوگئیں۔ یہ سانحہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے لیے سخت صدمے کا تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زیر سایہ پرورش پانے لگیں۔ انہوں نے اپنے باپ کے علم اور دوسرے اوصاف سے خوب استفادہ کیا۔ 
۱۷ رمضان ۴۰ ہجری کو حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں سجدہ ریز تھے کہ ایک بدبخت نے ان پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اسی تلوار کے زخم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ۲۱ رمضان کو شہید ہو گئے اور ایک مرتبہ پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا لیکن ابھی ان کے نصیب میں مزید غم سہنا لکھے تھے۔
۱۰ محرم الحرام ۶۱ہجری کو کربلا کا سانحہ پیش آیا۔ جس میں حضرت زینب کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے ، بھائی، بھتیجے اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا۔ اس موقع پر سیدہ زینب نے بہت بہادری اور صبر کا مظاہرہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ نو اور دس محرم کی درمیانی شب کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی تلوار صاف کی جانے لگی تو انہوں نے چند اشعار پڑھے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے یہ اشعار سنے تو رونے لگیں اور کہا: ’’اے کاش آج کا دن دیکھنے کے لیے میں زندہ نہ ہوتی۔‘‘
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کو صبر کی تلقین کی اور نہایت بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اور دیگر خواتین اور بچوں کو قید کر لیا گیا۔ کوفہ لے جایا گیا۔ جہاں سے انہیں کوفہ کے گورنر ابن زیاد کے حکم پر دمشق روانہ کر دیا گیا۔ انہیں یزید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر یزید کے سامنے پیش کیا گیا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور دیگر خواتین رونے لگیں۔ اس موقع پر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے ایک دردناک تقریر کی۔ جس سے یزید کو خوف محسوس ہوا کہ لوگ اس کے خلاف نہ ہوجائیں۔ اس لیے اس نے حضرت زینب رضی اللہ عنہا اور دوسری قیدی خواتین کو بہت احترام سے رکھا اور ان کا خاص خیال رکھا اور چند دن بعد اس قافلے کو مدینہ منورہ روانہ کر دیا گیا۔ جب آپ رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ آئیں تو سارا مدینہ منورہ سوگوار تھا۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا روضہ رسول پر حاضر ہوئیں تو ان کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے فرمایا: ’’اے میرے پیارے نانا جان! میں آپ کے فرزند اور اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر لائی ہوں۔ آپ کی اولاد کو رسیوں میں جکڑ کر کوفہ اور دمشق کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ 
حضرت زینب رضی اللہ عنہا بنت علی تاریخ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے علم و فضل، ذہانت، حق گوئی اور صبر و استقامت کے واقعات آج بھی تاریخ میں روزِ اوّل کی طرح تازہ ہیں۔ آپ کا گھرانہ روئے زمین کا بہترین گھرانا تھا۔ آپ کے نانا سید الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ نانی اسلام کی خاتونِ اول حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ والد اسد اﷲ، باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ والدہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا تھیں اور بھائی جنت کے جوانوں کے سردار تھے۔ آپ کے مشہور القاب شریک الحسین ناموس الکبریٰ کے، قرۃ العین المرتضیٰ، خاتونِ کربلا ہیں۔ آپ زہد و تقویٰ، شرم و حیا میں حضرت فاطمہ کا نمونہ تھیں اور علم و فضل میں پورے قریش میں کوئی لڑکی آپ کی برابری نہیں کر سکتی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر حضرت عبداﷲ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی بے حد خدمت کرتی تھیں۔ گھر میں خادم بھی تھے مگر وہ گھر کا کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔ بے حد سخی تھیں۔ کوئی سوالی آپ کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جاتا۔ 
ایک مرتبہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا چند عورتوں کے سامنے کھٰیٰعص کی تفسیر بیان کررہی تھیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لائے اور بڑے غور سے ان کی تقریر سنتے رہے جب ان کا بیان ختم ہوا تو امیر المومنین رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا : ’’ میں نے تمہارا بیان سنا اور مجھے خوشی ہوئی کہ تم کلامِ الٰہی کے معنی اتنے عمدہ طریقے سے بیان کر سکتی ہو۔‘‘
کربلا کے سانحے نے حضرت زینب رضی اللہ عنہ کو اس قدر نڈھال کر دیا تھا کہ سانحہ کربلا کے بعد کسی نے آپ کے چہرے پر پھر کبھی مسکراہٹ نہیں دیکھی۔ آپ مدینے آکر کربلا کے واقعات لوگوں کے سامنے نہایت درد کے ساتھ بیان کرتی تھیں اور لوگ ان سے بہت متاثر ہوتے اور ان میں اولاد رسول کی حمایت کا جذبہ پیدا ہوتا۔ یزید کو یہ بات جان کر اپنی مخالفت کا خطرہ محسوس ہوا اوراس نے حضرت زینب رضی اللہ عنہ کو کسی دوسرے شہر جانے کا حکم دیا۔ پہلے تو آپ راضی نہ ہوئیں پھر بعض ہمدردوں کے سمجھانے پر حضرت سکینہ و فاطمہ بنتِ حسین رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مصر چلی گئیں اور سانحہ کربلا کے دو سال بعد ۶۳ ہجری میں وفات پائی۔

*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top