skip to Main Content
صرف ایک یقین

صرف ایک یقین

نذیر انبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امجد پورے یقین سے بولتا رہا اور بے یقینوں کو آخر یقین آ  گیا کہ۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میڈیکل سٹور میں داخل ہونے والے نوجوان نے نسخہ کاؤنٹر پر رکھاتو ایک ادھیڑ عمرشخص نے نسخہ غور سے دیکھا اور پھر ادویات نکالنے کے لیے الماری کی طرف بڑھا۔اسی اثنا میں تین نقاب پوش میڈیکل اسٹور میں داخل ہوئے۔
’’ہینڈز اپ‘‘ایک نقاب پوش چیخا۔
ادھیڑ عمر شخص نے پیچھے دیکھا تو بوکھلا سا گیا۔
’میں کہتا ہوں ہاتھ اوپر کرو۔‘‘
اب دوا لینے اور دینے والے دونوں کے ہاتھ اوپر تھے۔
ایک نقاب پوش کاؤنٹر میں بنی دراز کی طرف بڑھا تو بہت سے نوٹوں نے اس کا استقبال کیا۔چند لمحوں ہی میں ساری رقم وہ ایک تھیلے میں ڈال چکا تھا۔
’’اوئے زیادہ ہوشیار بننے کی کوشش مت کرنا ورنہ مال تو جائے گا ہی ساتھ تمہاری جان بھی جائے گی۔‘‘ایک نقاب پوش چلّایا۔
’’چلو نکلو یہاں سے ‘دیر مت کرو۔‘‘
تینوں نقاب پوش نوٹوں کا تھیلا لیے میڈیکل سٹور سے فرار ہو گئے۔ڈاکوؤ ں کے بھاگتے ہی ادھیڑ عمر شخص نے پولیس ایمرجنسی نمبر 15پر فون کیا۔کچھ ہی دیر میں پولیس میڈیکل سٹور پہنچ چکی تھی ۔
’’میاں جی کتنے ڈاکو تھے؟‘‘انسپکٹر نے ادھیڑ عمر شخص امجد سے پوچھا۔
’’تین تھے جی۔‘‘
’’کیسی شکل و صورت تھی؟‘‘
’’تینوں نے نقاب پہن رکھے تھے۔‘‘
’ان کی قد و قامت کیسی تھی؟‘‘
’’ایک تو خاصا لمبا تھا اورباقی دونوں درمیانے قد کے تھے۔‘‘
’’کتنا کیش لے کر گئے ہیں؟‘‘
’’ایک لاکھ روپیہ تو وہ تھا جو میں صبح لے کر آیا تھا۔‘‘
’’کہاں سے ایک لاکھ روپیہ لائے تھے۔‘‘
’’کچی آبادی میں میرا ایک چھوٹا سا مکان تھا۔پرسوں وہ بیچا ہے۔مکان کے خریدار نے ایک لاکھ روپیہ پیشگی دیا تھا۔‘‘
’’اتنا کیش اسٹور پر کیوں لائے؟‘‘
’’شام میں یہ رقم میں نے کسی کو دینی تھی‘‘
’’کس کو دینی تھی؟‘‘
’’یہ میں نہیں بتا سکتا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘
’’میں تمام تھانو ں اور ناکو ں پر کھڑے پولیس کے جوانوں کو ڈکیتی کی اطلاع کر رہا ہوں ۔مجھے یقین ہے کہ آپ کی رقم آپ کو ضرور مل جائے گی۔‘‘
’’انسپکٹر کی بات سن کر امجد نے کہا۔
’’مجھے پختہ یقین ہے کہ میرا پیسہ ضرور مجھے ملے گا۔‘‘
امجد نے شام کو جسے ایک لاکھ روپیہ دینا تھا وہ آیا تو سارا ماجرا جان کر بولا:
’’بہت افسوس ہوا ہے اللہ غارت کرے ڈاکو ؤ ں کو۔‘‘
’’میں نے آپ سے جو وعدہ کیا تھا وہ میں بہت جلد پورا کروں گا۔‘‘
’’کیاآپ اب بھی مجھے رقم دے سکیں گے؟‘‘
’’ان شا اللہ!‘‘امجد پورے یقین سے بولا۔
’’اللہ آپ کو سلامت رکھے ‘ڈاکوؤں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی ؟‘‘
’’ہاں پولیس کارروائی میں مصروف ہے۔‘‘
’’اچھا میں اب چلتا ہوں۔‘‘
بازار کی یونین کا صدر قیوم بھی میڈیکل سٹور پر آیا۔کچھ دُکاندار وں نے مشتعل ہو کر ٹائر جلا کر سڑک بند کرنے کی کوشش کی تو یونین کے صدر کی اس یقین دہانی پر کہ ڈاکو جلد از جلد گرفتار ہو جائیں گے‘مظاہرین منتشر ہو گئے۔امجد کے چہرے پر سکون واطمینان دیکھ کر ایک دکاندار نے کہا:
’’مجھے تو لگتا ہے کہ ڈاکوتمہارے سٹور سے کچھ بھی نہیں لے کرگئے۔‘‘
’’ڈاکو ایک لاکھ روپے سے زائد تو میرے سٹور سے لے کر گئے ہیں مگر۔‘‘
’’مگر کیا؟‘‘دُکاندار نے امجد کی بات اچک لی۔
’’مگر مجھے یقین ہے کہ وہ رقم لازماً مجھے ملی گی۔‘‘بھلا کبھی گئی چیز بھی ملی ہے!‘‘ایک شخص نے طنزیہ لہجہ اپنایا۔
’’آپ لوگ کچھ بھی کہیں جو روپے ڈاکو لے کر گئے ہیں میرے ہیں اور میرے ہی رہیں گے۔‘‘
’’اچھا بھئی تمہیں تمہارے روپے مبارک ہوں‘ہم تو چلے‘امجد ان بے یقینو ں کو جاتے ہوئے یقین کی آنکھ سے تکتا رہا۔وہ رات اسی پختہ یقین کے ساتھ گھر پہنچا۔بیگم ڈکیتی کا سنتے ہی بو کھلا گئی۔
اتنا بڑا واقعہ گزر گیا اور آپ نے مجھے اطلاع تک نہ دی۔ہائے اللہ اتنا زیادہ نقصان ہو گیا ہے۔کیسے پورا ہوگا یہ نقصان!‘‘
’’کچھ نہیں ہوا ہمارا نقصان۔‘‘
’’کیوں نہیں ہوا ہمارا نقصان‘ڈاکو اتنی بڑی رقم پستول کی نوک پر لے گئے اورآپ کہتے ہیں کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔موئے کسی گاڑی کے نیچے آئیں‘غرق ہوں‘تباہ و بر باد ہوں‘‘امجد کی بیگم ڈاکو ؤ ں کو کوسنے لگی۔
’’بیگم مت دو بد دعائیں۔‘‘
’’کیا دعائیں دوں۔ میرا کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔‘‘
’’ہمارے روپے آجائیں گے۔‘‘
’’کیسے آجائیں گے؟‘‘بیگم نے امجد کی بات کاٹی۔
’’کیسے آئیں گے‘ یہ تو مجھے معلوم نہیں مگر یہ یقین ہے کہ روپے ضرور آئیں گے‘تم اطمینان رکھو ہمارا ایک روپیہ بھی ضائع نہیں ہو گا۔‘‘امجد کی یہ بات سن کر بیگم خاموش ہو رہی۔
اگلے دن اخبارات نے جرائم کے صفحہ پر اس خبر کو نمایاں جگہ دی۔اس خبر سے امجد کے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھی واردات کے بارے میں پتا چل گیا۔اب اظہار افسوس کا سلسلہ شروع ہوا۔کوئی سٹور پر آیا تو کوئی گھر پر یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلا۔جو بھی آتا ملک میں بد امنی کار ونا روتا‘ڈاکو ؤں کو برا بھلا کہتا اور آخر میں بے یقینی کی دیوار کھڑی کر کے چلا جاتا۔پولیس بھی کئی بار موقع واردات پر آئی۔جائے وقوعہ کا حتمی نقشہ بناتی اور امجد کو بہت جلد ڈاکوؤں کے گرفتار ہونے کا کہہ کر چلی جاتی۔اس واردات کو کئی ماہ گزر گئے۔ڈاکوؤں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔بازار کے کچھ دُکاندار تو مستقل امجد کا مذاق اڑانے لگے۔ابھی پرسوں کی تو بات ہے۔وہ چائے پینے کے لیے بشیر کے ہوٹل گیا تو ایک گنجے شخص نے کہا:
’’وہ دیکھو یقین صاحب آئے ہیں۔‘‘
یہ جملہ سن کر ہوٹل میں بیٹھے سبھی لوگوں نے امجد کو گھورا۔
’’اچھا‘اچھاتم میڈیکل سٹور والے امجد کی بات کر رہے ہو‘یہ تو بھولا بادشاہ ہے‘کہتا تھا کہ ڈاکو جو روپے لے کر گئے ہیں اسے مل جائیں گے۔آج کل تو ہاتھوں دئیے روپے کوئی واپس نہیں کرتا وہ تو چھین کر لے گئے ہیں۔‘‘بشیر کی بات سن کر امجد فوراً بولا:
’’مجھے اب بھی یقین ہے کہ میری رقم مجھے ضرور ملے گی۔‘‘
’’لگتا ہے ڈاکے نے اس کے دما غ پر اثر کیا ہے۔‘‘ایک شخص بولا۔
’’آپ ایسی کوئی بات نہ کہیں جس سے میں غصہ میں آکر آپ کو کچھ کہوں۔مجھے میرے روپے ملتے ہیں یا نہیں یہ میرا ذاتی معاملہ ہے۔‘‘امجد کے لہجہ کی تلخی نے سب کو خاموش کر دیا۔
کچھ دنوں بعد تھانے سے اطلاع آئی کہ کچھ ڈاکو پکڑ ے گئے ہیں‘ہو سکتا ہے ان میں سے کسی نے میڈیکل سٹور پر ڈاکا ڈالا ہو۔امجد تھانے پہنچا۔تھانے دار کے کہنے پر پکڑے ہوئے ڈاکوؤں نے وہ جملے بولے جو ڈکیتی کے دوران ڈاکوؤ ں نے جملے بولے تھے۔جملوں کو سن کر امجد نے کہا:’نہیں ان میں سے کوئی نہیں ہے۔میں تینوں ڈاکوؤں کی آواز یقینی طور پر پہچان سکتا ہوں ۔‘‘
پولیس آئے روز کسی نہ کسی ڈا کو کی نشاندہی کے لیے امجد کو تھانے بلا لیتی۔سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ڈاکو کہاں چلے گئے ہیں۔پولیس بھر پور کوششوں کے باوجود ڈاکو پکڑنے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔
ایک صبح امجد نے میڈیکل سٹور کھولا تو دروازے کے قریب ایک پیکٹ نظر آیا۔اگلے ہی لمحے وہ لفافہ کھول چکا تھا۔لفافہ نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔لفافے میں ایک خط تھا۔جس میں لکھا تھا۔
امجد صاحب!
السلام علیکم!
ہم آپ کو آپ کی رقم لوٹا رہے ہیں۔یہ رقم آپ کی ہے اس پر ہمارا کوئی حق نہیں۔بے روزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر آپ کے میڈکل سٹور میں کامیاب ڈاکے کے بعد ہم بہت خوش تھے۔ہم نے لوٹے ہوئے روپوں کو فضول خرچی میں اڑا دیا،کئی جگہوں پر ہم نے ڈاکے ڈالے اور پکڑے نہ گئے۔ایک رات نہر کنارے ایک شاندار بنگلے میں ڈاکہ ڈالنے گئے تو پکڑے گئے۔گھر کے مالک نے ہمارے ساتھ بہت بڑی نیکی کی ایسی نیکی کہ ہم بُرے سے اچھے انسان بن گئے۔ا ن کے دل میں اتر جانے والی باتوں سے ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ندامت سے ہمارے سر جھک گئے۔ہماری تعلیمی قابلیت پوچھنے کے بعد انہوں نے کہا کہ اگر تم ملازمت کرنا چاہو تو میری فیکٹر ی حاضر ہے۔حرام چھوڑو اور حلال کی طرف آؤ۔اس نیک آدمی کا حسن و سلوک اور پھر ملازمت کی آفر سے ہم نے ہاں کردی اور عہد کیا کہ جن جگہوں پر ہم نے ڈاکے ڈالے تھے لوٹی ہوئی رقم انہیں واپس کر کے رہیں گے۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ رقم ہم نے کہاں سے لی ہے۔یہ اسی نیک آدمی نے قرض دیا ہے ہم محنت کر کے یہ قرض ادا کریں گے۔امید ہے آپ ہمیں معاف کر دیں گے۔
فقط:آپ کے مجرم
امجد کی خوشی دیدنی تھی ۔تھوری ہی دیر میں سب کو اس واقعے کی خبر ہوگئی ۔امجد کے یقین کے سامنے سارے بے یقین سر جھکائے کھڑے تھے۔سب نے اس قدر پختہ یقین کے بارے میں پوچھا تو امجد بولا: 
’’مجھے کامل یقین تھا کہ مجھے میرے پیسے ضرور ملیں گے کیونکہ یہ میری حلال کمائی کے پیسے تھے۔میں نے ہمیشہ حلال طریقے سے روپیہ کمایا ہے‘یقین کی دوسری وجہ ایسی نیکی ہے جس کا ارداہ میں نے کیا تھا۔‘‘
’’وہ نیکی کیا ہے؟‘‘ایک شخص نے پوچھا۔
وہ نیکی شاید میں لوگوں پر ظاہرنہ کرتا مگر اب سب کے فائدے کی بات ہے اس لیے بتا رہا ہوں ۔میں نے اپنا مکان صرف اس لیے بیچا تھاکہ ایک دوست کو روپوں کی ضرورت تھی۔جس دن ڈاکہ پڑا اس شام میں نے ایک لاکھ روپے بطور قرض ایک دوست کو دینا تھا۔میں نے ایک حدیث مبارکہ پڑھی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو مسلمان کسی مسلمان کو ایک بار قرض دے گاتو اس کا اتنا ثواب ملے گاگویا اس نے دو مرتبہ اتنی رقم راہ خدا میں دی ۔‘‘امجد پورے یقین سے بولتا رہا اور بے یقینوں کو آخر یقین آگیا کہ اگر ارادے نیک اور یقین پختہ ہو تو ہر بات ممکن ہے۔تا ہم اس کے لیے صرف ایک پختہ یقین کا ہونا ضروری ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top