تعاقب
نذیر انبالوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘‘اے انسانو!ہمیں نیکی نگر میں امن و سکون کی زندگی بسر کرنے دو۔’’
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’نیکی نگر میں ایک ہفتہ کے دوران آنے والی ساری نیکیاں مل کر ملکہ نیکی کے دربار میں حاضر تھیں۔ملکہ نیکی نے سب کو محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں تمام نئی آنے والی نیکیوں کو اس پاکیزہ اور پر سکون نیکی نگر میں خوش آمدید کہتی ہوں ہم سب کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں نیک بنایا ہے ۔ویسے تو ہم بس یہاں کسی انسان کے اچھے عمل کی وجہ سے پہنچی ہیں۔یہاں کا دستور ہے کہ جو نیکی بھی یہاں آتی ہے ۔وہ اپنے بارے میں بتاتی ہے کہ وہ کس اچھے کام کے باعث یہاں آئی ہے۔‘‘
وزیر نیکی نے یہ سن کر دائیں طرف بیٹھی نیکیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’ملکہ یہ سب ہماری نئی آنے والی سہیلیاں ہیں ‘باری باری ان کی گفتگو کی دعوت دیتی ہوں ۔آپ تشریف لائیں۔‘‘
ایک خوبصورت نیکی نے سلام کرنے کے بعد یوں اپنی بات شروع کی ۔
’’میں سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے ہمیں نیکی نگر میں خوش آمدید کہا‘اپنے جیسی بہت سی نیکیوں کو یہاں دیکھ کر میں بہت خوش ہوں۔یہاں کا ماحول واقعی بہت پُر سکون ہے۔مجھے یہاں پہنچانے والا فرحان ہے ‘فرحان کی عمر دس سال کے قریب ہے ۔وہ علامہ اقبال ٹاؤن کے ایک سکول میں پڑھتا ہے ۔اس کا سکول گھر کے قریب ہی ہے اس لیے وہ پیدل ہی سکول جاتا ہے۔پرسوں وہ سکول سے واپس آرہا تھا کہ ایک بوڑھا سڑک کے کنارے کھڑا التجا کررہا تھا کہ اس کو کوئی سڑک پار کروا دے یہ آواز سن کر فرحان نے بوڑھے کا ہاتھ تھاما اور دائیں بائیں گاڑیوں کو دیکھ کر بڑی احتیاط سے سڑک عبور کر وا دی ۔یہی وہ لمحہ تھا جب دنیا میں ہر وقت موجود نیکیوں میں سے فرحان نے مجھے اپنا بنا لیا تھا۔فرحان مجھے پا کر بہت خوش تھا ۔بوڑھے نے اس کے سر پر پیار کرتے ہوئے ڈھیروں دعائیں دی تھیں‘فرحان کا ایک معمولی سا اچھا عمل مجھے یہاں لے آیا ہے۔‘‘
’’یہ یادرکھو کوئی نیکی معمولی نہیں ہوتی ‘نیکی بس نیکی ہوتی ہے۔‘‘ملکہ نیکی بولی۔
وزیر نیکی کے اشارے پر ایک اور نیکی اپنے بارے میں بتانے کے لیے کھڑی ہوئی ’’میں یہاں آکر بہت خوش ہوں ۔مجھے یہاں لانے والے نیک انسان کا نام وہاب ہے۔وہ ایک سرکاری دفتر میں ملازم ہے ایک شام وہ دفتر سے گھر واپس آرہے تھے کہ گول باغ والی سڑک پر ہر گزرنے والا پھسل کر گر رہا تھا ۔یہ پھسلن کیچڑ کی وجہ سے نہ تھی۔یہاں سے گزرنے والے کسی ٹرک کا موبل آئل سڑک پر بہہ گیا تھا۔ٍ کسی کو اتنی توفیق نہیں ہو رہی تھی کہ اس پھسلن کا کوئی حل تلاش کرے ۔جو بھی گزرتا ایک نظر سڑک پر پھیلے موبل آئل پر ڈالتا اور آگے بڑھ جاتا ۔جو تیزی کے ساتھ بغیر دیکھے ہوئے اپنی سواری کو موبل آئل سے گزارتا وہ یا تو بری طرح گرتا یا گرتے گرتے بچتا۔آس پاس کے دُکاندار اس صورتِ حال سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔وہاب نے جب یہ صورتِ حال دیکھی تو اس کو بہت افسوس ہوا۔اس نے موٹر سائیکل ایک طرف کھڑی کی اور خود تیزی سے اس جگہ کھڑا ہو گیا جہاں موبل آئل پھیلا ہوا تھا۔اس نے ایک نوجوان کو اپنی طرف بلایا۔
’’جی بھائی جان‘‘نوجوان بولا۔
’’میری مدد کرو ‘ میں یہاں کھڑا ہوتا ہوں تم کہیں سے مٹی لے آؤ۔‘‘
’’یہاں مٹی کہاں ملے گی بھائی صاحب ہر طرف پختہ سڑکیں ہیں۔‘‘
’’تم کوشش تو کرو۔اس موبل آئل کے گرنے کی وجہ سے لوگ بہت مشکل میں ہیں۔‘‘وہاب کی بات سن کر نوجوان بولا۔
’’میں کچھ نہیں کر سکتا تم بھی ہٹو یہاں سے کیا تم نے ٹھیکہ لے رکھا ہے‘جو بھی یہاں سے گزرے گا خود احتیاط سے گزر جائے کیا اس کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں نہیں دے رکھیں۔‘‘
وہاب نے اس نوجوان سے مزید کوئی بات نہ کی اور ایک دُکاندار سے مخاطب ہوا۔
’’بھائی صاحب !آپ ہی میری کچھ مدد کریں ۔‘‘
’’حکم کریں جی۔‘‘دُکاندار نے مسکرا کر کہا۔
’’یہاں کسی کو کھڑا کر دیں میں کہیں سے تھیلے میں مٹی لے کر آتا ہوں۔‘‘
’’بھئی دُکان میں تو سارے ملازم مصروف ہیں ‘ویسے یہاں تو آئے روز ایسا ہوتا رہتا ہے‘جاؤ میا ں اپنا کام کرو ‘یہ موبل آئل گاڑیوں کے گزرنے سے خود بخود ختم ہو جائے گا۔‘‘وہاب دُکاندار کی یہ باتیں سن کر مایوس تو ہوا مگر اس نے ہمت نہ ہاری آخر وہ ایک لڑکے کو اپنی جگہ کھڑے ہونے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
’’میں ابھی اپنی موٹر سائیکل پر کہیں سے مٹی لاتا ہوں ۔‘‘
وہاب تھوڑی دیر ہی میں اپنے پاس موجود تھیلے میں مٹی لانے میں کامیاب ہو گیا۔مٹی کو سڑک پر پھیلے موبل آئل پر ڈال دیا گیا۔وہاب نے نوجوان کا شکریہ ادا کیا اور خود چند منٹوں کے لیے سڑک کے کنارے کھڑا ہو گیا۔مٹی نے موبل آئل کی پھسلن ختم کر دی تھی۔وہ گزرتی گاڑیوں کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔میرے ساتھ یہ نیکی بھی یہاں آئی ہے!!‘‘
’’یہ کون ہے؟۔‘‘وزیر نیکی نے پوچھا۔
’’جس لڑکے نے وہاب کی مدد کی تھی یہ نیکی اس کی ہے۔‘‘
اس کے بعد تین نیکیاں اکھٹی کھڑی ہو گئیں ۔ان میں سے ایک نے نہایت ادب سے کہا۔’’اگر اجازت ہو تو ہم کچھ عرض کریں۔‘‘
’’اجازت ہے۔‘‘ملکہ نیکی نے پوچھا۔
’’ہم تینوں یہاں تین نیک دوستوں کے نیک عمل کرنے کے باعث پہنچی ہیں۔‘‘
’’وہ نیک عمل کیا ہے؟۔‘‘وزیر نیکی نے پوچھا۔
’’اتوار کے دن ایک شخص رستم پارک میں تبسم شہزاد کا گھر تلاش کر رہا تھا۔اس کے پاس مکمل پتا تھا مگر اس کے باوجود اس کو مطلوبہ گھر نہیں مل رہا تھا۔رستم پارک ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔یہاں کی ویلفیئر سوسائٹی نے جب کام کا آغازکیا تھا تو ہر گلی کے کونے پر ایک بورڈ پر اس گلی میں واقع مکانوں کے نمبر لکھے تھے ۔ان بورڈز پر مختلف اداروں نے اپنے اشتہار چسپاں کر دئیے تھے جس سے مکانوں کے نمبر ان کے نیچے چھپ گئے تھے۔ایک انجان جب رستم پارک میں آتا تو اس کو کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اسی طرح کی دقت کا سامنا اس شخص کو بھی تھا جو تبسم شہزاد کا گھر تلاش کر رہا تھا ۔تینوں دوست گلی میں کھڑے تھے کہ اس شخص نے ان کو مخاطب کیا تھا۔
’’بچو! یہ بتاؤ یہاں تبسم شہزاد صاحب کہاں رہتے ہیں ؟‘‘
’’وہی تبسم شہزاد صاحب جن کی مین بازار میں کتابوں کی دُکان ہے۔افضل بولا۔
’’جی بالکل وہی۔‘‘
’’انکل وہ سامنے کی لائن میں نیلے رنگ کا دروازہ اُنہی کا ہے۔‘‘
’’میں یہاں کافی دیر سے چکر لگا رہا ہوں۔‘‘
’’انکل آپ بورڈ سے نمبر دیکھ لیتے۔‘‘عدنان کی یہ بات سن کر اس شخص نے کہا۔
’’بورڈ پر بھی نمبر تلاش کیا تھا۔‘‘
’’تو پھر کیوں گھر نہیں مل رہا تھا؟‘‘جاوید بھی بول پڑا۔
’’غور سے دیکھو ہر بورڈ پر بے شمار اشتہار چسپاں ہیں۔اگر یہ اشتہار بورڈ پر چسپاں نہ ہوتے تو میں آسانی سے تبسم شہزاد کا گھر تلاش کر لیتا۔وہ شخص تو یہ کہہ کر چلا گیا مگر تینوں کو خاموش کر گیا۔تینوں نے گلی کی نکڑ پر لگے بورڈ پر نگاہ ڈالی۔وہ اشتہارات سے بھر پور تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ ایک بالٹی میں پانی لیے ایک کپڑے کی مدد سے ان اشتہارات کو بورڈ سے اتار رہے تھے ۔گیلے ہونے پر اشتہار بڑی آسانی سے اتر گئے۔ان تینوں کو یہ اچھا کام کرتے دیکھ کر اور بھی کئی گلیوں کے لوگوں نے یہ نیک عمل کیا اور اب نیکی نگر میں بہت سی نیکیاں ان بورڈز سے اشتہار اتارنے کے باعث آئی ہیں۔اب رستم پارک میں آنے والوں کو اپنا مطلوبہ مکان آسانی سے مل جاتا ہے۔‘‘
وزیر نیکی نے اس نیکی کو اپنی کہانی سنانے کے لیے کہا جس کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا۔روشن چہرے والی نیکی یوں سب سے مخاطب ہوئی۔
’’اس دنیا میں جہاں انسانوں میں مال و دولت اکھٹا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔وہاں جواد جیسے نیک انسان بھی موجود ہیں ۔جواد ایک فیکٹری میں مزدور ہے سارادن کام کرنے کا معاوضہ سو روپے ملتا ہے۔وہ انہی پیسوں میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔جمعرات کو وہ فیکٹری سے واپس آرہاتھا کہ بازار سے گزرتے ہوئے اس کی نظر ایک بٹوے پر پڑی۔اس نے ہاتھ اٹھا کر بٹوا اٹھا لیا۔بٹوا خاصا بھاری تھا۔اس نے ایک طرف جا کر بٹوا کھولا تو اس کو چکر سا آگیا۔بٹوا ہزار ہزار کے نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ایک لمحے کے لیے اس پر شیطان نے غلبہ پانے کی کوشش کی مگر وہ اس کی گرفت میں نہ آیا۔اس نے پختہ عزم کر لیا کہ یہ بٹوا وہ اس کے مالک تک پہنچائے گا۔اس کی بیوی بھی آڑے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تعالیٰ نے غیب سے ان کی مدد کی ہے مگر جواد نہ مانا اس کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے آزمایا ہے کہ میں اس غربت میں بھی اپنے پاس آئی اتنی رقم کو واپس کرتا ہوں یا نہیں ۔وہ آزمائش پر پورا اترا اور بٹوا اس کے مالک تک پہنچا یااور میں یہاں پہنچی۔میں یہاں بہت خوش ہوں۔‘‘
’’یہاں سبھی بہت خوش ہیں ‘یہاں امن‘سکون اور آرام ہی آرام ہے مگر۔‘‘ملکہ نیکی کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ جواد کی نیکی نے پوچھا۔
’’مگر کیا؟‘‘
’مگر اتنے امن و سکون کے باوجود ایک خطرہ بھی ہر وقت رہتا ہے۔‘‘
’’کونسا خطرہ؟‘‘نئی آنے والی ایک نیکی نے سوال کیا ۔
’’کالی فوج کا خطرہ‘بد صورت کالی فوج بہر حال ہم اس فوج کا ہر لمحہ مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں ۔آپ گھبرائیں مت‘یہاں سکون سے زندگی بسر کریں ۔‘‘ملکہ نیکی کی تسلی کے باوجود نئی نیکیاں سوالیہ نشان بنی ہوئی تھیں کہ آخر یہ کالی فوج کون ہے؟
نیکی نگر کے پرسکون ماحول میں اس وقت بے چینی پیدا ہوئی جب فرحان کی نیکی گھبرائی ہوئی ملکہ نیکی اور دوسری نیکیوں کے پاس آئی۔
’کیا بات ہے‘تم اس قدر گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟‘‘
’’وہ……وہ……فرحان کی نیکی سے جملہ بھی ادا نہیں ہو رہا تھا۔
’’کیا ہوا ہے؟……‘‘
’’وہ میرے سامنے سیاہ رنگت والے نے وہاب کی نیکی کو ہڑپ کر لیا۔میرے دیکھتے دیکھتے نیکی اس بدصورت کی خوراک بن گئی۔‘‘ ’’یہ تو بہت برا ہوا ہے۔‘‘
’’آخر یہ کون سیاہ رنگت والا ہے؟‘‘ایک نیکی بولی۔
’’یہ ہمارا ازلی دشمن ہے۔یہ ہمیشہ ہمارے تعاقب میں رہتا ہے ۔کبھی نیکیاں اس دشمن کی خوراک بن جاتی ہیں اور کبھی بچ جاتی ہیں ۔‘‘
’’یہ یہاں آتا کیسے ہے؟‘‘
’’اس کوبھی ہماری طرح بھیجنے والے انسان ہیں ۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
جب انسان نیک کام کرتا ہے تو ہم یہاں آجاتی ہیں اور جب اس کے دل میں کسی کی کامیابی کو دیکھ کر حسد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو یہ بدصورت یہاں آجاتے ہیں۔
’تو یہ حسد ہے۔‘‘
’’ہاں یہ سیاہ رنگت والے حسدہیں۔ہمیں ہر لمحہ انہی کا خطرہ رہتا ہے۔‘‘
’’تو اس کا مطلب ہے وہاب حسد میں مبتلا ہوا ہو گا۔‘‘
’’یقیناًایسا ہی ہوا ہے۔کیونکہ پیارے نبی صلی علیہ والہ وسلم کا ارشاد ہے کہ’’حسد سے بچو۔حسد آدمی کی نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے یا گھاس کو کھا جاتی ہے۔‘‘ملکہ نیکی ابھی بول رہی تھی کہ ایک سیاہ رنگت والے نے جاوید کی نیکی کا تعاقب شروع کر دیا۔نیکی بھاگتی ہوئی سب کی نظروں سے اوجھل ہو گئی ۔کافی دیر حسد نے اس کا تعاقب کیا آخر وہ ایک دم غائب ہو گیا۔نیکی کے لیے یہ بات حیران کرنے کے لیے کافی تھی۔حسد غائب کیسے ہو گیا۔جب وہ ملکہ نیکی کے سامنے اس معمہ کے لیے کھڑی تھی کہ وزیر نیکی نے کہاتھا۔
’’جاوید نے حسد کرنا چھوڑ دیا ہو گا۔اس لیے نیکی نگر سے تمہارا تعاقب کرنے والا حسد غائب ہو گیا۔‘‘ملکہ نیکی نے وزیر نیکی کی بات کی تائید کی۔
اس سے اگلے دن نیکی نگر کی ساری نیکیاں ایک جگہ جمع تھیں ‘سب نے یک زبان ہو کر انسانوں سے ایک التجا کی تھی۔
’’اے انسانو!ہمیں نیکی نگر میں امن و سکون کی زندگی بسر کرنے دو۔تم نے ہمیں یہاں بھیج ہی دیا ہے تو یہاں حسد کو ہمارا تعاقب کرنے کے لیے مت بھیجو۔حسد سے ہمیں بچاؤ۔‘‘
اس التجا کا کچھ انسانوں پر اثر ہوا اور کچھ پہلے والے راستے پر ہی چلتے رہے اس لیے آج بھی نیکی نگر میں سیاہ رنگت والے بد صورت نیکیوں کا تعاقب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔