skip to Main Content
نقطے کہاں گئے؟

نقطے کہاں گئے؟

نذیرانبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نقطوں نے دیوار سے کاپی تک آتے آتے واصف کو کیا نکتہ سکھایا۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واصف کی اُردو کی کاپی اس کے سامنے کھلی ہوئی تھی۔کاپی پر سرخ روشنائی سے لگے ہوئے نقطے اس کو بہت بُرے لگ رہے تھے ۔اب اس کاپی کی وجہ سے اسے امی ‘ابو‘آپی اور ٹیوٹر سے ڈانٹ پڑنے کا خطرہ تھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح لفظوں پر اتنے نقطے لگانا بھول گیا تھا ۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے ہر لفظ پر پورے نقطے ڈالے تھے ۔جب اس نے سکول میں اُردو کے پیریڈ میں کام چیک کروانے کے لیے سر عابد کو کاپی دی تھی تو انہوں نے معنی خیز نظروں میں اسے گھورا تھا ۔انہوں نے کاپی چیک کرتے ہوئے کہا تھا:
’’تم بھی عامر کے رستے پر چل نکلے ہو۔‘‘ 
’’کیا مطلب سر؟‘‘واصف نے پوچھا۔ 
’’عامر تو سکول سے چلا گیا ہے پر لفظوں پر نقطے نہ لگانے کی عادت کو یہیں چھوڑ گیا ہے۔‘‘
’’میں نے تو ایسا نہیں کیا ‘سر!‘‘
’تو پھر کس نے کیا ہے‘لو تم خود دیکھ لو ۔‘‘
’’سر! میں نے تو نقطے پورے لگائے تھے ۔‘‘واصف بولا۔ 
’’تو پھر نقطے کہاں گئے ؟‘‘
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔‘‘
’’آئندہ خیال رکھنا ورنہ سزا ملے گی ۔‘‘سر عابد نے کاپی چیک کر کے واصف کو واپس کرتے ہوئے کہا۔
’’واصف کاپی لے کر اپنی جگہ پر واپس آیا تو سرخ روشنائی دیکھ کر ثمران بولا۔
’’واہ کتنی خوبصورت لکھائی ہے۔‘‘
’’ہاں یار بہت رنگین لکھائی ہے ۔‘‘ایاز بھی بول پڑا۔
’’ہاں ہاں اڑا لو میرا مذاق‘ ‘میں پریشان ہوں اور تم لوگوں کو مذاق کی سوجھی ہوئی ہے۔‘‘
’’واصف نے روہانسی صورت بناتے ہوئے کہا ۔
’’واقعی معاملہ بڑا سنجیدہ ہے،اب مذاق نہ کرنا۔‘‘ایاز نے ثمران کو سمجھایا۔
’’یار !یہ نقطے کہاں گئے ہیں ؟‘‘
’’مجھے کیا پتا؟‘‘واصف جلدی سے بولا۔
’’لگتا ہے تم نقطے لفظوں پر لگانا بھول گئے ہو۔‘‘ثمران نے کہا۔
’’نہیں یار ! ایسا نہیں ۔‘‘
’’تو پھر ایسا کیسے ہوا؟‘‘ایازنے پوچھا۔
’’میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آرہا۔‘‘
’’کہیں کسی نے شرارتاً نقطوں کو مٹا نہ دیا ہو ۔‘‘ایاز سوچتے ہوئے بولا۔
’’ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟یہ تو کوئی اور ہی چکر ہے۔‘‘ثمران نے کہا۔
’’ان تینوں کے درمیان نقطوں کی بات مزید زیر بحث رہتی مگر کاپیاں چیک کرنے کے بعد سر عابد نے نیا سبق پڑھانے کے لیے کتابیں کھولنے کو کہا تو تمام بچے خاموش ہو گئے ۔اس پیریڈ کے آخر میں سر نے سبق‘آدابِ معاشرت سے چند سطریں بچوں کو لکھوائیں تو واصف نے توجہ کے ساتھ انہیں نوٹ کیا۔جب وہ لکھی ہوئی سطریں لے کر سر کے پاس گیا تو انہوں نے کہا :
’’واصف ! تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ان جملوں میں کہیں بھی تم نے نقطے نہیں لگائے ۔‘‘
’’سر!میں نے تمام لفظوں پر نقطے لگائے ہیں ۔‘‘واصف فوراً بولا۔
سر عابد نے کچھ کہے بغیر املاوالی عبارت کو بھی سرخ روشنائی سے چیک کر کے واصف کو واپس کر دیا ۔چھٹی ہونے تک وہ نقطوں کی وجہ سے پریشان ہی رہا۔بات تھی بھی پریشانی والی ۔ساتویں جماعت کا لائق طالب علم اور سرخ روشنائی سے بھری ہوئی کاپی !وہ گھر بھر کا لاڈلا ضرور تھا مگر پڑھائی کے معاملے میں اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جاتی تھی ۔امی ‘ابوکے علاوہ آپی بھی کالج سے آنے کے بعد اس کو کچھ وقت دیتی تھیں ۔ٹیوٹر کے آنے سے قبل آپی نے اس کی کاپی ایک نظر دیکھ لی تھی۔
’’میں نے کل کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا جانے والا کرکٹ میچ دیکھ لینا مگر توجہ سے سکول کا کام بھی ضرور کرنا۔‘‘آپی نے قدرے خفا ہوتے ہوئے کہا ۔
’’میں نے توجہ سے تو کا م کیا تھا۔‘‘
’’تو پھر نقطے کہاں گئے؟‘‘
’’آپی ‘آپ یقین کریں میں نے لفظوں پر نقطے لگائے تھے ۔‘‘
’’تو پھر ان نقطوں کو کوئی جن کھا گیا ہے یا کوئی بھوت۔‘‘
’’میں کیا کہہ سکتا ہوں ‘‘واصف نے معصوم سی صورت بناتے ہوئے کہا ۔
’’یہ نقطے نہ تو کسی جن نے غائب کیے ہیں اور نہ کسی بھوت نے‘ان نقطوں کے غائب ہونے کی وجہ تمہاری غفلت اور لاپروائی ہے۔تم نے میچ دیکھتے ہوئے یہ کام کیا ہوگا۔جب توجہ کسی اور طرف ہو تو ایسا ہی کام ہوتا ہے۔آئندہ ایسی حرکت نہ ہو۔‘‘آپی نے تو لیکچر ہی دے ڈالا تھا۔اس وقت واصف کے پاس سوائے چپ رہنے کے کوئی اور راستہ نہیں تھا ۔شام تک اسے اسی طرح کی باتیں امی ‘ابو اور ٹیوٹر کی زبانی بھی سننے کو ملیں۔سبھی اس کو قصوروار ٹھہرا رہے تھے۔اس نے ٹیوٹر کی موجودگی میں سکول کا سارا کام کیا۔ٹیوٹر نے اس کا کام دیکھتے ہوئے کہا:
’’شاباش‘‘
اس شاباش سے اس کا سیروں خون بڑھ گیامگر اگلے ہی روز اُسے اپنا لہو رگوں میں جمتا ہوا محسوس ہواجب اسلا میات کے استاد نے اسے بلا کر کہا:
’’کام اس طرح کرتے ہیں ‘لفظوں پر نقطے کون لگائے گا؟‘‘
’’میں نے تمام لفظوں پر نقطے لگائے ہیں ۔‘‘
’’خاک نقطے لگائے ہیں‘جال کے جیم کے نیچے نقطہ نہیں لگایا یہ لفظ اب حال پڑھا جا رہا ہے اور یہ دیکھوظاہر پر نقطہ نہ ہونے کیو جہ سے یہ لفظ طاہر پڑھا جا رہا ہے۔واصف!آخر یہ سب کیا ہے ؟‘‘
’’سر!میں خود پریشان ہوں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔‘‘
’’تم توجہ دو تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔‘‘
’’جی سر!‘‘واصف اتنا ہی بول پایا۔
’’وقت کے ساتھ ساتھ واصف کی پریشانی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا ۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔اسی پریشانی میں ماہانہ ٹیسٹ بھی آگیا ۔واصف نے تمام پرچے پوری توجہ سے دئیے مگر جب رزلٹ آیا تو اس کے نمبر پہلے کی نسبت خاصے کم تھے اور ان نمبرو ں میں کمی کی بڑی وجہ لفظوں پر نقطوں کا غائب ہونا تھا۔جماعت میں پہلی بار اس نے اتنے کم نمبر لیے۔وہ خود تو پریشان تھا ہی‘اس کے ساتھ اس کے گھر والے اور اس کے اساتذہ بھی پریشان تھے۔
پندرہ تاریخ کو سکول کے نوٹس بورڈ پر مقابلہ نویسی کے بارے میں اعلان پڑھتے ہی واصف اُردو کے سربراہ اکمل صاحب کے کمرے میں پہنچ گیا اور پُر اعتماد لہجے میں بولا:
’’سر!میں اس سال بھی مقابلے میں حصہ لوں گا۔‘‘ 
’’تم نے پچھلے سال اس مقابلے میں پہلا انعام تو ضرور حاصل کیا تھا مگر تم اس بار تو اس مقابلے میں شرکت نہیں کر سکتے۔‘‘
’’مگر کیوں سر؟‘‘واصف نے پوچھا۔
’’مجھے فیاض صاحب نے بتایا ہے کہ تم لفظوں پر نقطے لگانا بھول جاتے ہو‘بتاؤ کیا یہ بات سچ ہے؟‘‘سر اکمل نے پوچھا۔
’’سر!یہ بات اس حد تک سچ ہے کہ میں لفظوں میں جو نقطے لگاتا ہوں وہ خود بخود غائب ہو جاتے ہیں ۔‘‘واصف بولا۔
’’کیسی انہونی باتیں کر رہے ہو‘بھلا ایسا کس طرح ہو سکتا ہے؟‘‘سر اکمل نے واصف کو بغور دیکھتے ہوئے کہا ۔
’’سر!میں لفظوں پر نقطے تو لگاتا ہوں مگر وہ نقطے نہ جانے کس طرح غائب ہو جاتے ہیں؟‘‘واصف کی بات سن کر سر اکمل نے کہا۔
’’تمہاری ان باتوں پر کوئی بھی یقین نہیں کرے گا۔مضمون نویسی کا یہ بہت اہم مقابلہ ہے ۔تم نے بلا شبہ اس میں پچھلے سال عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا مگر اس سال تمہیں اس مقابلے میں بھیج کر خطرہ مول نہیں لے سکتا۔‘‘
’’سر!پلیز مجھے اس مقابلے میں شرکت کرنے دیں۔‘‘
’’میں ایسا نہیں کر سکتا۔‘‘سر اکمل نے صاف انکار کر دیا۔
دوسرے دن واصف اپنے ابو کے ساتھ پرنسپل کے د فتر میں موجود تھا۔پرنسپل نے اکمل صاحب کو بُلا کر ساری بات معلوم کی تو واصف کے ابو نے کہا:
آپ ابھی واصف سے کچھ لکھوا لیں ‘ابھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔‘‘
پرنسپل نے کچھ سوچ کرواصف کو زبانی کچھ جملے لکھوائے جو اس نے درست لکھے ۔پرنسپل کی ہاں کے سامنے اکمل صاحب نے کچھ نہ کہا اور واصف کا نام مقابلے کے لئے بھیج دیا۔مقابلے کے روز جب وہ جوہر ٹاؤن کے سکول میں پہنچا تووہ ہال میں بائیں طرف بیٹھے عامر کو دیکھ کر طنزیہ انداز میں بولا:
’’تمہیں سکول والوں نے شرکت کے لیے بھیجا ہے!۔‘‘
’’ہاں ‘میں اپنے سکول کی نمائندگی کر رہا ہوں ۔‘‘
’’پھر تو تمہاے سکول کا خدا ہی حافظ ہے۔لفظوں پر تم سے نقطے لگتے نہیں اور آگئے ہو مقابلہ کرنے!۔‘‘واصف طنز کے نشتر چلا رہا تھا۔عامر خاموش ہی رہا ۔عامر چند ماہ قبل انہی کے سکول میں پڑھتا تھا۔وہ لفظوں پر نقطے لگانا بھول جاتا تھا۔اس نے اپنی ابتدائی تعلیم برطانیہ میں حاصل کی تھی ۔وہ سات سال کی عمر میں پاکستان آیا تھا ۔یہاں آکر اسے اردو زبان بولنے ،پڑھنے اور لکھنے میں دقت پیش آتی تھی۔وہ لکھتے ہوئے لفظوں پر صحیح سے نقطے نہیں لگاسکتا تھا۔بعض اوقات تو نقطوں کو غلط جگہ لگانے کی وجہ سے جملے کا مفہوم ہی بدل کر رہ جاتا تھا ۔دعا‘دغا بن جاتا‘خالی حالی کی صورت اختیار کر لیتا‘ جلال حلال بن جاتا اور حس ‘جس ہو جاتا۔عامر کی ان غلطیوں پر جماعت کے بچوں کو مسکرانے کا موقع مل جاتا تھا۔ایک روز تفریح کے وقفہ میں واصف نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا:’’اگر اس کے نام میں بھی نقطہ ہوتا تو شاید یہ وہ بھی غلط لکھتا۔اسے نقطوں کو غائب کرنے کا جادو گر کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔‘‘واصف کی بات سن کر عامر ایک طرف چلا گیا تو بہت سے قہقہوں نے اس کا تعاقب کیا ۔
آج کئی ماہ کے بعد واصف نے عامر کو دیکھا تھا مگر اس کے اپنے روئیے میں کوئی تبدیلی نہ آئی ۔مضمون لکھنے کے لیے موضوع مشکل نہیں تھا ۔واصف نے مقررہ وقت میں چھ صفحات پر مشتمل مضمون لکھ لیا ۔اس نے آخری دس منٹ میں مضمون کو دوبارہ پڑھاتا کہ کوئی غلطی رہ گئی ہو تو اسے درست کیا جا سکے ۔واصف مطمئن تھا ۔پچھلے سال کی طرح اس نے کافی عمدہ مضمون لکھا تھا ۔جب وہ ہال سے باہر آیا تو عامر نے آگے بڑھ کر اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا:
’’واصف !تم نے یقینابہت عمدہ مضمون لکھا ہو گا ۔میں تو ابھی زبان سیکھ رہا ہوں ۔مجھے یقین ہے پچھلے سال کی طرح اس سال بھی اول انعام تمھارا ہی ہو گا ۔‘‘ 
’’تو کیا اول انعام تمھارا ہی ہو گا؟‘‘واصف نے ایک اور طنز کا تیر چلایا۔
’’میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں کہ اول انعام تمہارا ہی ہو گا۔‘‘یہ کہہ کر عامر اپنی سکول وین میں بیٹھ گیا ۔واصف نے اس کی بات سن کر اپنے سر کو اس طرح جھٹکا جیسے کہہ رہا ہو کہ تمہارے کہنے کی کیا وقعت ہے!کچھ دنوں بعد اطلاع آئی کہ دس تاریخ کو مضمون نویسی میں انعام یافتگان کو سکول ہال میں انعامات دئیے جائیں گے ۔چنانچہ اس روز مقابلے میں شریک سبھی سکولوں کے طلبہ اپنے اپنے اساتذہ کے ہمراہ ہال میں موجود تھے۔تلاوتِ کلام پاک، نعتِ رسول ﷺ مقبول اور پرنسپل کے خطاب کے بعد انعامات کا سلسلہ شروع ہوا۔سبھی کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔تیسری پوزیشن کے لیے جب گرین پبلک سکول کے طالب علم کا نام پکارا گیا تو واصف کو یقین تھا کہ پہلاانعام اسی کا ہے۔دوسری پوزیشن گل پبلک سکول کے طالب علم عامر کے حصے میں آئی تھی ۔عامر کا نام سن کر اسے کچھ حیرت ہوئی ۔وہ امید لگائے بیٹھا تھا کہ چند لمحوں بعد اس کانام پکارا جائے گا اور بہت جلد اس کے ہاتھوں میں پہلے انعام کی ٹرافی ہو گی مگر اس کی آنکھوں تلے اس وقت اندھیرا چھا گیا جب پہلی پوزیشن کے لیے جانباز ہائی سکول کے طالب علم یاسر کا نام پکارا گیا۔انعامات کی تقسیم کے بعد کمپیئر نے بتایا کہ واصف کا مضمو ن بھی اچھا تھا مگر اکثر لفظوں سے نقطے غائب تھے جس سے جملوں کا مفہوم بدل گیا تھا ۔عامر نے اسی طرح زبان سیکھنے کے لیے کوشش جاری رکھی تو اگلی مرتبہ وہ پہلی پوزیشن بھی لے سکتا ہے۔ناکامی اور مایوسی نے واصف کی زبان پر چپ کا تالا لگا دیا تھا ۔کوئی بھی اس کی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھاکہ لفظوں سے نقطے خود بخود غائب ہو جاتے ہیں۔اس نے مایوسی کے ساتھ آنکھیں ملیں مگر وہ جو کچھ دیکھ رہا تھا حقیقت میں اس کے سامنے ہی ہو رہاتھا ۔تھوڑی دیر بعد کمرہ ان نقطوں کے قہقہوں سے گونجنے لگا۔پھر اس کے کانوں نے یہ جملہ سنا:
’’ہم کامیاب ہو گئے‘واصف ناکام ہو گیا۔ہم کامیاب ہو گئے۔‘‘
’’کون ہو تم؟‘‘واصف کے لہجے میں گھبراہٹ تھی۔
’ہم نقطے ہیں۔وہی نقطے جو تمہاری لکھی ہوئی عبارت سے خودبخود غائب ہو جاتے ہیں۔‘‘ایک نقطہ فوراً بولا۔
’’تت…………تت…………تم ایساکیوں کرتے ہو؟‘‘واصف نے پوچھا۔
’’تم نے ہمیں خود ایسا کرنے کے لیے کہا ہے۔‘‘نقطے نے کہا۔
’’میں نے کب تمہیں ایسا کرنے کے لیے کہا ہے؟‘‘واصف بے چارگی سے بولا۔
’’عامر کو توتم اچھی طرح جانتے ہواور یہ بھی جانتے ہو کہ اسے اُردو زبان صحیح طرح سے لکھنی نہیں آتی تھی۔‘‘
ایک نقطے کی یہ بات سن کر واصف تیز لہجے میں بولا:
’’ہاں …………ہاں……….جانتا ہوں۔‘‘
’’تمہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ تم کس طرح عامر کا مذاق اڑاتے تھے۔وہ جتنا عرصہ تمہارے سکول میں رہاتمہارے مذاق کا نشانہ بنتا رہا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تم اس کی مدد کرتے مگر تم اس کو مشکل میں دیکھ کر اس پر مسکراتے اور اس پر طنزیہ جملے کستے تھے۔‘‘نقطے کی باتوں سے واصف کا سر ندامت سے جھکتا چلا گیا۔واصف کو شرمندہ دیکھ کر دوسرا نقطہ بولا:
’’ہم سب نے مل کر تمہیں راہ راست پر لانے کا فیصلہ کیا اور اب تم جب بھی کوئی اُردو کی عبارت لکھتے ہو‘اس میں نقطے غائب ہو جاتے ہیں۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ پیارے نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ:’’تو اپنے بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہ کر‘ورنہ اللہ اس پر رحم فرمائے گا اور تجھے مصیبت میں مبتلا کر دے گا۔‘‘تمہاری بری حرکتیں دیکھ کر ہم نے عامر سے دوستی کر لی ہے۔‘‘
’’تم بھی میرے ساتھ دوبارہ دوستی کر لو۔مجھے معاف کر دو ‘میں آئندہ کبھی کسی کا مذاق نہیں اڑاؤں گا۔میں اپنی غلطی پر نادم ہوں۔‘‘واصف کی بات سن کر نقطوں نے قہقہے لگانے بند کر دئیے۔اب کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔دیوار پر نقطے ساکن ہو چکے تھے ۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سارے نقطے کسی سوچ میں گم ہوں۔واصف نے نقطوں کو دیکھتے ہوئے بولا:
’’تم سب خاموش کیوں ہو ؟میری بات کا جواب دو‘پہلے کی طرح میرے ساتھ دوستی کر لو!۔‘‘
’’نقطوں میں سے ایک بڑا نقطہ بولا:
’’میرے دوستو !میں واصف کی باتوں میں سچائی محسوس کر رہا ہوں ‘اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔میرا خیا ل ہے کہ اس کو ایک موقع دینا چاہیے۔اگر اس نے آئندہ کسی کا مذاق اڑایا تو ہم دوبارہ اسے سبق سکھانے کے لیے آجائیں گے۔اب اسے معاف کر دو۔‘‘بڑے نقطے کی بات سن کر سبھی نقطے یک زبان ہو کر بولے:
’’واصف !جاؤ تمہیں معاف کیا مگر تمہیں اپنے روئیے کی معافی عامر سے مانگنا ہو گی ۔‘‘
’’میں ایسا ہی کرو ں گا۔‘‘واصف کا اتنا کہنا تھا کہ دیوار سے سارے نقطے اتر کر اس کی کاپی پر لکھے ہوئے لفظوں پر آگئے ۔نقطوں نے دیوار سے کاپی تک آکرواصف کو یہ نکتہ سکھا دیا تھا کہ کسی کی مصیبت میں مسکرانا نہیں چاہیے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top