کھلی کچہری
راحیل یوسف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے دو بج رہے تھے۔ میری موٹر سائیکل تاریکی اور سرد ہواؤں کو چیرتی گھر کی طرف رواں دواں تھی۔
’’اپنی بھی کیا زندگی ہے آدھی رات تک جاگو اور صبح الوؤں کی طرح سوئے پڑے رہو‘۔ خیال کی ایک رو ذہن میں دوڑ گئی۔ میں کچھ دیر پہلے ہی اپنے صفحے کی کاپی فائنل کرکے روزنامہ ’’آسمان‘‘ کے دفتر سے نکلا تھا۔ آج موسم کچھ زیادہ سرد تھا۔ دوسری طرف موٹر سائیکل مزار قائد کے قریب سے گزر رہی تھی جہاں ملحقہ علاقہ کھلا تھا، اس لئے سردی کی شدت بھی کچھ زیادہ محسوس ہورہی تھی۔ میں نے سرد ہواؤں سے بچنے کے لئے موٹر سائیکل کی رفتار آہستہ کردی۔
’’یہ کیا۔۔۔؟ الیکٹرک پول پر لگے بلب کی کمزور روشنی میں مجھے ایک سایہ حرکت کرتا نظر آیا۔ سیاہ شیروانی و جناح کیپ میں ملبوس ’’یہ کون ہے۔۔۔ اور اس حلیے میں اس وقت۔۔۔ معلوم کرنا چاہئے‘‘۔ میری رگ صحافت اچانک پھڑک اُٹھی اور میں موٹر سائیکل سائے کے پاس لے گیا۔
’’اے بھائی کون ہو تم اور اس وقت‘‘۔ میں نے اس سے دریافت کیا۔ اُس وقت اس کی پشت میری طرف تھی۔
’’میں ۔۔۔ محمد علی ہوں‘‘۔ اس نے جواب دیا۔
’’محمد علی۔۔۔‘‘ میں نے اس کا نام زیرِ لب دہرایا، اسی اثناء میں اس نے اپنے چہرے کا رُخ میری طرف پھیر دیا۔
’’قائداعظم‘‘۔ میرے منہ سے بے اختیار الفاظ برآمد ہوئے۔ وہ قائداعظم ہی تھے۔ بلاشبہ قائداعظم۔۔۔ وہی چہرہ، قد کاٹھ۔۔۔ حلیہ۔۔۔ اوہ میرے خدا میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ میں نے اپنی آنکھیں ملیں، لیکن یہ خواب نہیں حقیقت تھی۔
’’آپ۔۔۔ آج یہاں۔۔۔ یقین نہیں آرہا‘‘۔ میں نے حیرانی سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ میں! آج اپنے وطن کو دیکھنے کا دل چاہا، سو یہاں آگیا‘‘۔ قائداعظم نے کہا۔ آواز میں وہی وقار و گرج تھی جیسی میں ٹی وی پر نشر ہونے والی قائداعظم کی ریکارڈنگز میں سنا کرتا تھا۔
’’آپ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ابھی تو آیا ہوں۔۔۔ اب تک کوئی ٹھکانہ نظر میں نہیں‘‘۔
’’آپ برا نہ مانیں تو میرے ساتھ میرے گھر چلیں‘‘۔ میں نے پُرخلوص پیشکش کی۔
’’تمہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہوگی‘‘۔
’’نہیں پریشانی نہیں، بلکہ یہ تو میرے لئے اعزاز کی بات ہوگی‘‘۔ میں نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
انہوں نے بھی سر تسلیم ختم کردیا اور میری موٹر سائیکل پر پیچھے بیٹھ گئے۔
’’میرا گھر زیادہ دور نہیں۔۔۔ باقی باتیں وہیں پہنچ کر کریں گے‘‘۔ میں نے سر گھما کر کہا اور موٹر سائیکل پھر اسی رفتار سے دوڑنے لگی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’اب اپنی آمد کا مقصد تفصیل سے بتائیے‘‘۔ میں نے اگلی صبح ان سے دریافت کیا۔ ہم ابھی ابھی ناشتہ کرکے فارغ ہوئے تھے۔ قائداعظم اخبار کے مطالعہ میں مصروف تھے۔
’’کچھ خاص نہیں۔ میں پاکستان دیکھنا چاہتا تھا۔ یہاں کے لوگوں سے ملنا چاہتا تھا۔ کیا تم اس سلسلے میں میری مدد کرسکتے ہو؟‘‘۔
انہوں نے میری طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھا ’’جی ہاں کیوں نہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
’’ارے میں نے تم سے یہ پوچھا ہی نہیں کہ تم کیا کرتے ہو۔ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ انہیں جیسے اچانک یاد آیا۔
’’میرا نام کاظم حسین ہے اور میں ایک اخبار میں کام کرتا ہوں‘‘۔
’’یعنی تم صحافی ہو۔۔۔ صحافیوں نے تحریک پاکستان میں بڑی اہم خدمات انجام دیں۔ مسلمانوں کے سیاسی شعور کی بیداری میں مسلم اخبارات کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ تم مولاناجوہر اور مولانا ظفر علی خان کے وارث ہو‘‘۔ انہوں نے اچھی خاصی تقریر کرڈالی۔
’’نہیں جناب مجھے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان سے نہ ملائیے۔ میں نے تو شاید ہی اس ملک کی فلاح کے لئے کوئی کام کیا ہو‘‘۔ میں جذباتی ہوگیا۔
’’چلئے چھوڑئیے ان باتوں کو میں کل ہی عوام سے آپ کی ملاقات کا اہتمام کرتا ہوں‘‘۔ میں نے کہا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
قائداعظم روبرو۔۔۔ نہیں یہ کچھ ٹھیک نہیں۔ قائداعظم عوام کی عدالت میں۔ نہیں اس سے تو لگ رہا ہے کہ قائداعظم نے پاکستان بنا کر کوئی جرم کردیا ہے۔ یہ ٹھیک نہیں۔ قائداعظم کھلی کچہری میں۔ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ خاصی دیر سوچ و بچار کے بعد میں نے پروگرام کے نام کو حتمی شکل دے دی۔ پروگرام کے انتظامات کی وجہ سے میں دفتر کی چھٹی کرچکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں، میں مقامی اشتہاری ایجنسی کو پروگرام کے بینرز و پوسٹرز کے آرڈر دے چکا تھا اور رات تک شہر کے اہم مقامات پروگرام کے بینروں اور پوسٹروں سے بھرے پڑے تھے۔ آئیے اپنے قائداعظم سے ملاقات کیجئے۔
قائداعظم کھلی کچہری میں
اتوار کی سہ پہر 3 بجے بمقام مزار قائد
*۔۔۔*۔۔۔*
3 بج چکے تھے، مزار قائد کے سامنے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی۔ قائداعظم کے خطاب کے لئے میں نے ایک کھلی سوزوکی کا اہتمام کیا تھا جس میں میگافون اور لاؤڈ اسپیکر لگے تھے۔ قائداعظم نے حسبِ عادت بروقت اپنا خطاب شروع کرنے کے لئے مائیک اپنے ہاتھ میں پکڑا۔
’’عزیز ہم وطنو!۔۔۔ السلام علیکم۔
’’میں آج صرف آپ لوگوں سے ملنے آیا ہوں۔ آپ لوگوں کو دیکھنے اور آپ کے احساسات جاننے کے لئے۔ آج آپ کہئے۔ میں آپ کی باتیں سنوں گا۔ قائداعظم نے کہا اور خاموش ہوگئے۔ ہجوم سے ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی آگے بڑھا ’’قائداعظم میری بات سنیے‘‘۔ اس نے چیخ کر کہا۔
’’بولئے ۔۔۔ میں سُن رہا ہوں‘‘۔ قائداعظم نے کہا۔ ’’میں ایک سرکاری افسر ہوں ابھی میرے تبادلے کے احکامات آگئے ہیں، وہ بھی ایک پسماندہ گاؤں میں، میں وہاں جانا نہیں چاہتا۔ آپ مہربانی فرما کر ان احکامات کو منسوخ کروادیں‘‘۔ اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔
یہ آپ کہہ رہے ہیں؟ آپ سرکاری افسر ہیں جن کا فرض عوام کی خدمت ہے۔ آپ کو پتہ ہے جب پاکستان بنا تھا تو سرکاری افسروں نے درختوں کے نیچے بیٹھ کر اپنے فرائض انجام دیئے تھے۔ بعض دفتروں میں میز اور کرسیاں تک نہیں تھیں، اب یہ سب کچھ ہے۔۔۔ پھر بھی آپ صرف پسماندگی کی وجہ سے گاؤں میں جانے سے انکار کررہے ہیں؟‘‘ قائداعظم حیرت زدہ رہ گئے۔
’’یہ بولیئے ناں کہ یہ مسئلہ آپ کے اختیار سے باہر ہے، خوامخواہ لیکچر دے رہے ہیں‘‘۔ سرکاری افسر بڑبڑایا اور بھیڑ میں کہیں غائب ہوگیا۔
’’قائداعظم ہماری بھی سنئیے‘‘۔ مجمع سے تین آدمی آگے بڑھے۔ ’’قائداعظم ہم لوگ غریب دکاندار ہیں، لیکن علاقے کی ایک تنظیم کے دہشت گرد ہم سے زبردستی بھتہ وصول کرکے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے کاروبار تباہ ہوئے جارہے ہیں‘‘۔ ان تین میں سے ایک شخص نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔
’’آپ نے پولیس میں رپورٹ درج کروائی؟‘‘ قائداعظم نے سوال کیا۔
’’ہاں۔۔۔ مگر پولیس ان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ وہ کچھ نہیں کررہی، زیادہ شور کرو تو تنظیم کے لوگ جان سے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے‘‘۔ وہ لوگ روہانسے سے ہوگئے۔
’’اوہ میرے خدا۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟‘‘ قائداعظم نے اپنا سر پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتے۔اچانک کسی کونے سے پولیس کی بھاری نفری آدھمکی۔۔۔ پھر کیا تھا شیلنگ اور لاٹھی چارج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے بھی کونے میں دبک جانے میں ہی عافیت جانی۔ اسی دوران میں نے دیکھا کہ پولیس والے قائداعظم کو گھسیٹتے ہوئے موبائل میں ڈال رہے ہیں۔ ہنگامے کے چھٹنے کے بعد میں اپنی موٹر سائیکل اسٹارٹ کرکے تھانے کی طرف چل پڑا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’جی جناب‘‘ ایس ایچ او نے میری طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’جی میں روزنامہ ’’آسمان‘‘ کا سب ایڈیٹر ہوں‘‘۔ میں نے اپنا تعارف کرایا۔
’’آئیے آئیے تشریف رکھئے جناب‘‘۔ اس نے پریس کے لئے روایتی مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا۔
’’میں قائداعظم کی رہائی کے لئے تشریف لایا تھا‘‘۔
’’قائداعظم کی۔۔۔ آپ کا مطلب ہے اس بہروپئے کی‘‘۔ اس نے سامنے بینچ پر بیٹھے ہوئے قائداعظم کی طرف اشارہ کیا۔
’’او۔۔۔ اس نے تو ہمیں پریشان کردیا‘‘۔ اس نے مزید کہا۔
’’جی یہ بہروپئے نہیں قائداعظم ہیں، ان کا احترام کیجئے‘‘۔ میں نے دبی دبی آواز میں احتجاج کیا۔
’’او احترام ہی تو کررہے ہیں ورنہ اب تک چھتر پریڈ کراچکے ہوتے‘‘۔
’’میں پوچھ سکتا ہوں ان کا جرم کیا ہے‘‘۔
’’جرم۔۔۔ لوگوں کو جمع کرکے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنا، لاؤڈ اسپیکر کا ناجائز استعمال۔۔۔ ویسے میں نے ابھی پرچہ نہیں کاٹا ہے‘‘۔ ایس ایچ او نے اپنا احسان جتلایا۔
’’دفعہ 144۔۔۔کیا انگریزوں کا کالا قانون پاکستان میں بھی رائج ہے‘‘۔ بنچ پر بیٹھے قائداعظم دم بخود رہ گئے۔
’’اوہ۔ آپ چپ بیٹھئے بزرگو‘‘۔ ایس ایچ او نے انہیں جھڑکا۔
’’جناب ان کی رہائی کی کوئی صورت نہیں بن سکتی‘‘۔ میں نے التجا کی۔
’’اوہ بن سکتی ہے۔۔۔ کیوں نہیں بن سکتی‘‘۔
’’پھر بتائیے ناں‘‘۔
’’قائداعظم‘‘۔ اس نے انگلیوں سے ایک مخصوص اشارہ کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ میں اُلجھ سا گیا۔
’’ارے مطلب صاف ہے آپ کے قائداعظم آپ کے ساتھ ہمارے قائداعظم ہماری جیب میں۔۔۔‘‘ وہ مسکرایا۔
میں بھی اب سمجھ چکا تھا، تھوڑی دیر میں 4 نیلے قائداعظم اس کی جیب میں چلے گئے اور بابائے قوم میرے ساتھ۔
’’ہم بھی قائداعظم سے بڑی محبت کرتے ہیں‘‘۔ ایس ایچ او نے جیب پر ہاتھ مارتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا اور میں قائداعظم کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
قائداعظم میرے گھر میں بیٹھے خالی خالی آنکھوں سے مجھے گھور رہے تھے۔
’’کیا پاکستان ایسا ہوگیا ہے۔ کسی کو بات کہنے کی آزادی نہیں۔ اپنے ہی لوگوں پر اپنی ہی پولیس لاٹھیاں برساتی ہے۔ تھانوں سے لوگ رشوتیں دے کر چھوٹتے ہیں۔ سرکاری افسر اپنے فرائض سے غافل ہیں۔ لوگوں کے جان و مال دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں‘‘۔ وہ جذباتی ہوگئے۔
’’ہاں ایسا ہی ہے ہم تو بسر کررہے تھے، اب آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں‘‘۔ میری آواز بھی رندھ گئی۔
’’مجھے اب چلنا چاہئے۔ اس سے زیادہ دیکھنے کی میرے اندر سکت نہیں‘‘۔ انہوں نے شکست خوردہ لہجے میں کہا اور وہ گھر سے باہر نکل گئے۔ میں ان کے پیچھے بھاگا۔ وہ آگے چل رہے تھے کہ اچانک ایک چھوٹا بچہ ان کے سامنے آگیا۔
’’قائداعظم‘‘۔ وہ حیرت سے بولا۔
’’ہاں بیٹا‘‘۔ ان کے لہجے میں بھی شفقت آگئی۔
’’آپ نے پاکستان بنایا تھا ناں۔۔۔ میں نے اپنی کتاب میں پڑھا ہے۔ آپ تو پاکستان کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔۔۔ لیکن امی کہتی ہیں یہاں دشمنوں نے اپنی سازشوں کے جال بچھا لئے ہیں، وہ ملک کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن میں نے اور میرے دوستوں نے بھی عہد کرلیا ہے ہم پڑھ لکھ کر پاکستان کو ترقی یافتہ، مضبوط اور اسلام کا قلعہ بنائیں گے‘‘۔ بچہ بولتا چلا گیا اور قائداعظم کی آنکھوں میں اُمید کے دیپ جل اُٹھے۔
’’بیٹا ۔۔۔ دل لگا کر پڑھو اللہ تمہیں تمہارے ارادوں میں کامیاب کرے‘‘۔ انہوں نے اسے گلے لگا کر دعا دی اور پھر ایک انجانی راہ پر چل پڑے۔ میں اپنے دروازے پر کھڑا ان کو دیکھتا رہ گیا۔