skip to Main Content

پیارے نبی ﷺ کی سیرت طیبہ

مصنفہ:

ڈاکٹر بشریٰ امام الدین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیر نگرانی:

ڈاکٹر صلاح الدین ثانی

پرنسپل:

پاکستان شپ اونرز گورنمنٹ کالج

نارتھ ناظم آباد، کراچی

۱۔ دنیا کا سب سے پہلا نبی اور پہلا انسان

اللہ نے جب یہ دنیا آباد کرنا چاہی تو سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر ان کی بیوی حواء علیہا السلام کو بہترین شکل و صورت کے ساتھ پیدا کیا۔(۱) حضرت آدم ؑ کو پہلا نبی (۲) اور زمین میں اپنا خلیفہ و نائب بنایا۔(۳) اور پوری نسل انسانی کو ساری مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی۔ (۴) فرشتوں سے انسان کی بڑائی کا اعتراف کروایا۔(۵) صرف شیطان نے بڑا ماننے سے انکار کیا۔
اللہ تعالیٰ : کیا بات ہے جب میں نے تمہیں آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا تو کیوں نہیں کیا؟ (۶)
شیطان : میں انسان سے بہتر مخلوق ہوں وہ مٹی سے بنے ہیں میں آگ سے۔(۷)
اللہ تعالیٰ : نکل جاؤ تم ہمیشہ کے لئے میری رحمت سے دور ہو اور تم پر قیامت تک میری لعنت ہے۔(۸)
شیطان : ٹھیک ہے مجھے قیامت تک مہلت دیں۔
اللہ تعالیٰ : ٹھیک ہے مہلت دی گئی۔
شیطان : میں بھی انسان کو گمراہ کرنے کے لئے ہر راستہ اختیار کروں گا۔(۹)
اللہ تعالیٰ : ٹھیک ہے مگر میرے نیک بندے تمہاری باتوں میں نہیں آئیں گے۔(۱۰)
اور جو لوگ تمہاری باتیں مان کر میری نافرمانی کریں گے میں ان کو بھی تمہارے ساتھ جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالوں گا۔(۱۱)
انسانوں کی رہنمائی کے لئے بھیجے جانے والے پیارے پیغمبر :
جب کفر پھیلنے لگا تو ان کو سیدھے راستے پر چلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک کے بعد دوسرے پیغمبر، رسول اور پیارے پیارے نبی بھیجے۔ جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بیان کی گئی ہے۔ ان میں سے زیادہ مشہور یہ ہیں:
حضرت نوح علیہ السلام :
ساڑھے نوسو سال تک لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، اللہ کے عذاب سے ڈراتے رہے۔ مگر بہت تھوڑے سے لوگ مسلمان ہوئے، بلکہ اللہ کے نبی کو چیلنج کرنے لگے۔
قوم نوح : تم سچے ہو تو ہم پر عذاب لاؤ۔ (۱۳)
حضرت نوح علیہ السلام : ان شاء اللہ تم پر ضرور عذاب آئے گا۔ تم نے مجھے تھکایا ہے اللہ کو نہیں تھکاسکتے۔ (۱۴)
اللہ تعالیٰ : جو لوگ ایمان لاکر مسلمان ہوچکے ہیں ان کے علاوہ اب آپ کی قوم سے کوئی ایمان نہیں لائے گا اس لئے آپ ان کے بارے میں غم نہ کریں۔(۱۵)
نوح علیہ السلام : اے اللہ میں نے تورات دن اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی ہے۔ مگر نہیں مانتے ہیں۔(۱۶) میری نافرمانی کرتے ہیں۔(۱۷) میرے خلاف بڑی بڑی سازشیں کرتے ہیں۔ (۱۸) خود تو گمراہ ہیں، دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔(۱۹)
نوح کی دعاء :
رَبِّ لَا تَذَرْ عَلٰی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلا یَلِدُوْٓ اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًا (۲۰)
اے میرے پروردگار تو میری قوم کے کافروں میں سے کسی کو زمین پر زندہ نہ چھوڑ اگر تو ان کو اسی طرح چھوڑ دے گاتو یہ تیرے (مسلمان) نیک بندوں کو بھی گمراہ کریں گے اور ان کی نسل بھی انہی کی طرح کافر و نافرمان پیدا ہوگی۔
اللہ تعالیٰ : اے نوحؑ آپ ہماری رہنمائی میں ایک بڑا بحری جہاز تیار کیجئے۔ کفر و نافرمانی کرنے والوں کے بارے میں اب کوئی بات نہ کیجئے۔ یہ جلد (سیلاب میں) غرق ہونے والے ہیں۔ (۲۱)
نوح علیہ السلام نے بحری جہاز تیار کرنا شروع کر دیا۔(۲۲)
قوم نوح : ارے دیکھو یہ کیسے پاگل لوگ ہیں۔ خشکی میں سفر کے لئے بحری جہاز تیار کررہے ہیں۔ (۲۳)
نوح علیہ السلام : آج تم ہمارا مذاق اڑا رہے ہو، کل جب تمہیں ذلت آمیز (سیلاب کا) عذاب ملے گا (اس میں ڈوب کر چیخ رہے ہوگے) تو ہم تمہارا مذاق اڑائیں گے۔(۲۴)
اللہ تعالیٰ : اے نوح ہمارا سیلابی عذاب شروع ہو چکا ہے۔ اب آپ مسلمانوں کو اور جانوروں کے دو دو جوڑے لے کر جہاز میں سوار ہو جائیں اور جہاز سے کہیں:
بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرِھٰا (۲۵)
اللہ کے نام سے چلو۔
جہاز سیلابی پانی میں چلنے لگا۔ سارے نافرمان جس میں حضرت نوحؑ کا نافرمان کافر بیٹا بھی تھا ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔(۲۶)
پہلے کافر مسلمانوں پر ہنستے تھے آج مسلمان کافروں پر ہنس رہے تھے اور ان کا برا انجام دیکھ رہے تھے۔ شیطان لوگوں میں جب دوبارہ کفر اور گمراہی پھیلانے لگا تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سیدھے راستے پر چلانے کے لئے وقفے وقفے سے مختلف انبیاء کرام بھیجے جن میں حضرت ادریس علیہ السلام (۲۷) کو قوم بابل کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو قوم عاد کی طرف۔ (۲۸) حضرت صالح علیہ السلام کو قوم ثمود کی طرف۔(۲۹) بھیجا گیا۔ جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے۔ لیکن ان کی قوموں میں سے سوائے چند افراد کے کوئی مسلمان نہیں ہوا۔ بالآخر ان سب کافروں پر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور ہلاک کر دئیے گئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام :
حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے ابراہیم علیہ السلام اللہ کے پیغمبر بنے۔(۳۰)آپ کا لقب خلیل اللہ (اللہ کا دوست) تھا۔ جس گھر میں آپ نے آنکھ کھولی وہی شرک اور بت پرستی کا مرکز تھا۔ لہٰذا آپ نے سب سے پہلے اپنے والد اور قوم (۳۲) کو اسلام کی دعوت دی۔(۳۱)
ابراہیم علیہ السلام : آپ لوگ ان بتوں اور مورتیوں کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟(۳۳)
والد اور قوم ابراہیم : ہم نے اپنے والدین دادا پردادا سب کو انہی بتوں کی عبادت کرتے ہوئے دیکھا اس لئے ہم بھی ان کی عبادت کرتے ہیں۔ (۳۴)
ابراہیم علیہ السلام : آپ لوگ اور آپ کے والدین وغیرہ سب کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔(۳۵)
والد اور قوم ابراہیم : دیکھو اگر تم بتوں کی برائی اور ان کی مخالفت سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں پتھروں سے مار مار کر قتل کر دیں گے۔(۳۶)
ابراہیم علیہ السلام : ٹھیک ہے لیکن میں تو اقرار کرتا ہوں کہ آسمانوں زمینوں اور اس میں موجود تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا میرا اور تمہارا رب تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔(۳۷) میں آج سے آپ لوگوں سے الگ ہوتا ہوں۔ لیکن اللہ سے آپ کی ہدایت اور مغفرت کی دعاء کرتا رہوں گا۔(۳۸)
میں کیونکر جہاں میں کسی اور کی طرف دیکھوں۔ خدا کی ذات ہی کافی ہے دوستی کے لئے۔
ابراہیم علیہ السلام والد کے احترام کا لحاظ کرتے ہوئے الگ ہوگئے لیکن قوم کو شرک و بت پرستی سے مختلف طریقوں سے روکتے رہے۔ آپ کی قوم بت پرستی کے ساتھ چاند سورج اور ستاروں کو بھی خدا سمجھتی تھی۔ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں بتایاکہ جو مسلسل چمک نہیں سکتا ان میں سے کسی کی روشنی دن ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔ کسی کی رات ہونے پر، بھلا وہ خدا کیسے ہوسکتا ہے۔(۳۹) قوم کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا، پھر بتوں کی عبادت سے روکنے کی کوشش کی مگر باز نہ آئے۔
ابراہیم علیہ السلام : اللہ کی قسم جب تم لوگ نہیں ہوگے تو میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا۔ (۴۰)
شاید پھر تمہیں یقین آ جائے کہ یہ خدا نہیں ہوسکتے ہیں۔ جب ساری قوم میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھی تو ابراہیم علیہ السلام خاموشی سے ان کے سب سے بڑے بت کے مندر (بت خانہ) میں گئے۔ وہاں پتھر کے بنے ہوئے بہت سے بت رکھے تھے، ان کے سامنے مختلف قسم کے کھانے، پھل رکھے تھے جو لوگوں نے ان پر چڑھائے تھے۔ آپ نے انہیں مخاطب کرکے کہا :
ابراہیم ؑ : تم یہ کھانے کیوں نہیں کھاتے ہو؟ جواب دو؟ کیوں نہیں بولتے؟ (۴۱)
پتھر کے بت بھلا کیا بولتے۔پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس مندر کے چھوٹے بتوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے، البتہ بڑے بت کو چھوڑ دیا، تاکہ قوم کو معلوم ہو جائے کہ بڑا بت چھوٹے بتوں کو نہیں بچاسکا تو کسی اور کو کیسے بچائے گا۔(۴۲)
جب قوم کے لوگوں نے واپس آکر دیکھا تو کہنے لگے۔
قوم ابراہیم : کس نے ہمارے خداؤں پر اتنا ظلم ڈھایا ہے؟ (۴۳)
کچھ لوگوں نے کہا : ایک نوجوان ہے جس کا نام ابراہیم ہے اسی نے یہ کام کیا ہوگا۔(۴۴)
قوم کے سردار : ہمارے سامنے پکڑ کر لاؤ اس گستاخ اور ظالم نوجوان کو تاکہ سب دیکھ لیں ہم اسے کیسی سزا دیتے ہیں۔ (۴۵)
ابراہیم علیہ السلام گرفتار کرکے لائے گئے۔
قوم کے سردار : اے ابراہیم کیا تم نے ہمارے خداؤں (بتوں) کے ساتھ یہ ظلم کیا ہے؟ (۴۶)
ابراہیم علیہ السلام : بڑے بت نے یہ کام کیا ہوگا اگر بول سکتا ہے تو اسی سے پوچھ لو کس نے چھوٹے بتوں کو توڑا ہے۔ (۴۷)
قوم کے سردار : شرمندگی سے سرجھکا کر کہنے لگے آپ تو جانتے ہیں. یہ بت جو ہمارے خدا ہیں بول نہیں سکتے ہیں۔(۴۸)
ابراہیم علیہ السلام : بہت افسوس کی بات ہے تم نے ایسے پتھروں کو خدا بنا رکھا ہے جو نہ تمہیں فائدہ پہنچا سکتے ہیں،نہ نقصان۔(۴۹) بلکہ خود اپنے کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے نہیں بچاسکتے۔ لوگو !عقل سے کام لو یہ کیسے خدا ہیں؟ جنہیں تم خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہو، پھر اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کرتے ہو؟(۵۰)
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لے آتے، بتوں کی عبادت چھوڑ دیتے مگر ایسا نہیں ہوا، بلکہ شاہ عراق نمرود تک ابراہیم علیہ السلام کی شکایت لے جائی گئی۔ نمرود تو خود بھی خدا ہونے کا دعویدار تھا، اس نے سوچا اگر لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کی بات مان لی تو میری بادشاہی اور خدائی دونوں ختم ہو جائیں گی، لہٰذا اس نے حکم جاری کیا، ابراہیم علیہ السلام کو پیش کیا جائے۔
ابراہیم علیہ السلام : نمرود سے ! اگر تم خدا ہو تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھاؤ، میرا رب تو وہی ہے جو اسے مشرق سے نکالتا ہے۔ مغرب میں ڈوباتا ہے۔(۵۱)
نمرود عقلی دلیل کا جواب نہ دے سکا، تو اس نے حکم جاری کیا:
نمرود کا حکم : لوگو بہت سی لکڑیاں جمع کرکے آگ لگاؤ، اس میں ابراہیم کو زندہ جلاکر اپنے پتھر کے بتوں اور خداؤں کی مدد کرو۔ (۵۲)
اللہ کا حکم : اے آگ ابراہیم کے لئے ٹھنڈی ہو جاؤ، ان کا ایک بال بھی نہیں جلنا چاہئے اور انہیں صحیح سلامت رہنا چاہئے۔ (۵۳)
آگ پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ جب اس نے آگ سے جلانے کا اثر چھین لیا تو وہ کیسے جلا سکتی تھی۔
آج بھی ہو گر ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستان پیدا
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعاء قبول فرمالی:
رَبَّنَا لَآ تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَاغْفِرْلَنَا (۵۴)
اے ہمارے رب ہم کو ان لوگوں کے لئے فتنہ نہ بنا جو کافر ہیں اور ہماری مغفرت فرما دے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی دعا پوری کی، اور کافر ابراہیم علیہ السلام کو کسی مصیبت و آزمائش میں نہیں ڈال سکے۔
مکہ کو آباد کرنا اور کعبہ کو تعمیر کرنا :
ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو کعبہ کے پاس لاکر آباد کیا۔(۵۵) جب اسماعیل علیہ السلام بڑے ہوگئے تو اللہ نے انہیں بھی نبی بنایا، پھر دونوں باپ بیٹوں نے مل کر اپنے ہاتھ سے کعبۃ اللہ (اللہ کا گھر) تعمیر کیا۔ (۵۶) جس کی طرف منہ کرکے سارے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام کی ہمارے نبی ﷺ کے لئے دعا :
پھر اللہ سے بہت سی دعائیں مانگیں ، جن میں سے دو اہم دعائیں یہ تھیں۔ پہلی یہ کہ مکہ کو امن و امان والا شہر بنا اور یہاں کے رہنے والوں کو کھانے پینے کی ہر قسم کی اشیاء عطا فرما۔(۵۷) دوسری دعا فرمائی :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ٰایٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُم الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ (۵۸)
اے ہمارے رب ہماری نسل میں اس آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دے جو لوگوں کو تیرے قرآن کی آیتیں پڑھ کر سنائے اور احکامات سکھائے، حکمت اور عقلمندی کی باتیں بتائے اور لوگوں کے دلوں کو برائیوں سے پاک کرے۔
اللہ نے آپ کی ساری دعائیں قبول فرمائیں اور اسماعیل علیہ السلام کی چالیسویں(۴۰) نسل میں ہمارے پیارے پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔(۵۹)
دیگر مشہور انبیاء کرامؑ :
ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے اسحٰق تھے، اللہ نے انہیں بھی نبی بنایا۔(۶۰) حضرت اسحق علیہ السلام کو قوم لوط کا پیغمبر بنایا، حضرت یعقوب علیہ السلام جن کا نام اسرائیل بھی تھا، انہی کی نسل کے لوگوں کو بنی اسرائیل (یہودی) کہا جاتا ہے۔ اس قوم کی اصلاح کے لئے سب سے زیادہ انبیاء بھیجے گئے۔ جن میں زیادہ مشہور حضرت یوسف، حضرت موسیٰ، حضرت ہارون اور حضرت عزیر علیہم السلام ہیں۔ لیکن یہودی پھر بھی باز نہ آئے، مسلسل نافرمانی کرتے رہے۔ یہی وجہ ہے قرآن نے انہیں دنیا کی سب سے بری قوم قرار دیا ہے۔ ان کے علاوہ حضرت شعیب، حضرت الیاس، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت ایوب، حضرت یحییٰ علیہم السلام بھی اللہ کے پیغمبر تھے۔
پیارے نبی سے پہلے آنے والے پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت :
انبیاء کرام میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سو سے چھ سو سال پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے۔ جن کے ماننے والے عیسائی کہلاتے ہیں۔(۶۱) حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی آپ ﷺ کی آمد کی بشارت دی تھی اور اپنے ماننے والوں کو آپ ﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا تھا۔(۶۲)

 

سوال جواب

۱)۔۔۔ دنیا کے پہلے نبی پہلے انسان اور پہلے خلیفہ کون تھے؟
حضرت آدم علیہ السلام۔
۲)۔۔۔ حضرت آدم کی بیوی کا نام بتائیے؟
حواء علیہا السلام
۳)۔۔۔ دنیا کے تمام انسان کس کی اولاد ہیں؟
حضرت آدم و حواء علیہم السلام کی۔
۴)۔۔۔ شیطان نے حضرت آدم ؑ کو سجدہ نہ کرنے کی کیا دلیل بیان کی؟
میں آگ سے پیدا ہوا ہوں اور انسان مٹی سے اس لئے مجھے انسان پر فضیلت ہے۔
۵)۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے نافرمانی پر شیطان کو کیا حکم دیا؟
نکل جاؤ تم ہمیشہ کے لئے میری رحمت سے دور ہو جاؤ، تم پر میری لعنت ہے۔
۶)۔۔۔ اللہ نے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے کتنے پیغمبر بھیجے؟
ایک لاکھ چوبیس ہزار۔
۷)۔۔۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کتنی عمر تھی اور کتنے عرصہ لوگوں کو تبلیغ کرتے رہے؟
نو سو پچاس سال تک۔ (950)
۸)۔۔۔ نوح علیہ السلام کی دعاء بیان کریں؟
رَبِّ لا تَذَرْ عَلٰی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا اِنَّکَ اِنْ تَذَرْھُمْ یُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلا یَلِدُوْ اِلاَّ فَاجِراً کَفَّارًا
۹)۔۔۔ حضرت نوحؑ نے سیلاب سے بچنے کے لئے اللہ کے حکم سے کیا تیار کیا؟
بحری جہاز تیار کیا۔
۱۰)۔۔۔ بحری جہاز میں کون کون سوار ہوئے؟
حضرت نوح علیہ السلام پر ایمان لانے والے اور جانوروں کے دو دو جوڑے۔
۱۱)۔۔۔ جہاز کو چلانے کے لئے کیا کوڈ مقرر تھا؟
بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرِھَا (اللہ کے نام سے چل)
۱۲)۔۔۔ قوم بابل، قوم عاد، اور قوم ثمود کی طرف کس کس نبی کو بھیجا گیا؟
قوم بابل کی طرف حضرت ادریس ؑ ، قوم عاد کی طرف حضرت ہود علیہ السلام اور قوم ثمود کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بناکر بھیجا گیا۔
۱۳)۔۔۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کس کی نسل سے تھے اور آپ کا لقب کیا تھا؟
حضرت نوح ؑ کی نسل سے تھے اور آپ کا لقب خلیل اللہ تھا۔
۱۴)۔۔۔ حضرت ابراہیم ؑ کے والد نے بت پرستی کے صحیح ہونے پر کیا دلیل پیش کی؟
ہمارے باپ دادا سب ان بتوں کی عبادت کرتے تھے اس لئے ہم بھی کرتے ہیں۔
۱۵)۔۔۔ ابراہیم علیہ السلام کوکیا دھمکی دی گئی؟
تمہیں. پتھروں سے مار مار کر قتل کر دیں گے۔
۱۶)۔۔۔ حضرت ابراہیم ؑ نے کیا دھمکی دی اور ان کے بتوں کے ساتھ کیا کیا؟
آپ نے دھمکی دی کہ میں تمہارے بتوں کے ساتھ ایک چال چلوں گا۔ وہ چال یہ تھی کہ جب ساری قوم میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھی، آپ نے بت خانے میں جاکر ان کے بڑے بت کے علاوہ سارے بت توڑ دئیے۔
۱۷)۔۔۔ قوم کے سرداروں نے کیا اعتراف کیا اور حضرت ابراہیم ؑ نے کیا جواب دیا؟
سرداروں نے کہا آپ تو جانتے ہیں ہمارے خدا بول نہیں سکتے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا جو خدا نہ بول سکتے ہوں نہ نفع و نقصان پہنچاسکتے ہوں، نہ اپنے کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچاسکتے ہوں، بھلا وہ خدا کیسے ہوسکتے ہیں۔
۱۸)۔۔۔ نمرود سے حضرت ابراہیم ؑ نے کیا سوال کیا؟
آپؑ نے فرمایا اگر تم خدا ہو تو سورج کو مغرب سے نکال کر مشرق میں ڈوبا کر دکھاؤ۔
۱۹)۔۔۔ نمرود حضرت ابراہیم ؑ کی دلیل کا جواب نہ دے سکا، تو اس نے کس سزا کا اعلان کیا؟
نمرود نے کہا لکڑیاں جمع کرکے اس میں حضرت ابراہیم ؑ کو جلاکر اپنے خداؤں کی مدد کرو، لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ سے جلانے کی طاقت چھین لی اور حضرت ابراہیم ؑ محفوظ رہے۔
۲۰)۔۔۔ ابراہیم ؑ نے کعبہ کے پاس کسے لاکر آباد کیا؟
اپنی بیوی ہاجرہ ؑ اوراپنے بیٹے اسماعیل ؑ کو۔
۲۱)۔۔۔ کعبہ شریف کی تعمیر کس نے کی؟
ابراہیم ؑ اوراسماعیل ؑ نے مل کر،
۲۲)۔۔۔ کعبہ کی تعمیر کے بعد دوسری دعاء کیا مانگی؟
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ ایٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِِّیْھِمْ
۲۳)۔۔۔ اسماعیل ؑ کی کس نسل میں ہمارے پیغمبر ﷺ پیدا ہوئے؟
چالیسویں نسل میں۔
۲۴)۔۔۔ ہمارے پیغمبر ﷺ سے پہلے کون سے پیغمبر دنیا میں آئے؟ اور انہوں نے کیا خوشخبری سنائی؟
چار سو سے چھ سو سال پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے ہمارے پیغمبر ﷺ کے آنے کی خوشخبری سنائی تھی۔

 

حواشی و حو الہ جات

۱۔ سورۂ والتین، ۹۵/ آیت نمبر ۴،
۲۔ سورۂ البقرۃ ۲/ آیت نمبر ۳۱،
۳۔ سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۳۰،
۴۔ سورۂ الاسراء ۱۴/ آیت ۷،
۵۔ سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۳۳،
۶۔ سورۂ الاعراف ۷/ آیت نمبر ۱۲،
۷۔ سورۂ الاعراف ۷/ آیت نمبر ۱۲،
۸۔ سورۂ ’’ق‘‘ ۱۵/ آیت نمبر ۳۴،اور سورۂ ’ص‘ ۳۸/ آیت نمبر ۷۷،
۹۔ سورۂ الاعراف ۷/ آیت نمبر ۱۳۔۱۷،
۱۰۔ سورۂ الحجر ۱۵/ آیت نمبر ۴۰،اور سورۂ ’’ص‘‘ ۳۸/ آیت نمبر ۸۳
۱۱۔ سورۂ الاعراف ۷/ آیت نمبر ۱۸،
۱۲۔ سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۲۰ اور سورۂ الاعراف۷/ آیت نمبر ۲۰،
۱۳۔ سورۂ ہود ۱۱/ آیت نمبر ۳۲حضرت نوحؑ کی عمر کے لئے دیکھئے سورۂ عنکبوت ۲۹/ ۱۴،
۱۴۔ سورۂ ہود ۱۱/ آیت نمبر ۳۳،
۱۵۔ سورۂ ہود ۱۱/ آیت نمبر ۳۶
۱۶۔ سورۂ نوح ۷۱/ آیت نمبر ۵
۱۷۔ سورۂ نوح ۷۱/ آیت نمبر ۲۱
۱۸۔ سورۂ نوح ۷۱/ آیت نمبر ۲۲
۱۹۔ سورۂ نوح ۷۱/ آیت نمبر ۲۴
۲۰۔ سورۂ نوح ۷۱/ آیت نمبر ۲۶۔۲۷
۲۱۔ سورۂ ہود۱۱/ آیت نمبر ۳۷
۲۲۔ سورۂ ہود۱۱/ آیت نمبر ۳۸
۲۳۔ سورۂ ہود۱۱/ آیت نمبر ۳۸
۲۴۔ سورۂ ہود۱۱/ آیت نمبر ۳۸۔۳۹،
۲۵۔ سورۂ ہود۱۱/ آیت نمبر ۴۰۔۴۱،
۲۶۔ سورۂ ہود۱۱/ آیت نمبر ۴۵۔۴۶،
۲۷۔ سورۂ مریم ۱۹/ آیت نمبر ۵۶ اور سورۂ انبیاء ۲۱/ آیت نمبر ۸۵،
۲۸۔ سورۂ ہود۱۱/ آیت نمبر ۵۰
۲۹۔ سورۂ الاعراف ۷/ آیت نمبر ۷۳
۳۰۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۵۱، سورۂ مریم ۱۹/ آیت نمبر ۴۱،
۳۱۔ سورۂ الانبیاء ۲۱/ آیت نمبر ۵۲
۳۲۔ مولانا حفظ الرحمن سیوھاری نے والد لکھا ہے۔ یہی زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔ دیکھئے قصص الانبیاء خلاصہ قصص القرآن سید تنظیم حسین ص / ۵۰، (ضیاء برادرز بک سینٹر گلشن اقبال کراچی ۱۹۹۶)
۳۳۔ سورۂ الانبیاء ۲۱/ آیت نمبر ۵۲
۳۴۔ سورۂ الانبیاء ۲۱/ آیت نمبر ۵۳
۳۵۔ سورۂ الانبیاء ۲۱/ آیت نمبر ۵۴
۳۶۔ سورۂ مریم۱۹/ آیت نمبر ۴۶
۳۷۔ سورۂ الانبیاء ۲۱/ آیت نمبر ۵۶
۳۸۔ سورۂ الشعراء ۲۶/ آیت نمبر ۸۶، دعاء کا سبب سورۂ التوبۃ ۹/ آیت نمبر ۱۱۴، سورۂ مریم ۱۹/ آیت نمبر ۴۷،
۳۹۔ سورۂ الانعام۶/ آیت نمبر ۷۵ تا ۷۸،
۴۰۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۵۷
۴۱۔ سورۂ الصفت ۳۷/ آیت نمبر ۹۱،
۴۲۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۵۸ اور سورۂ الصفت ۳۷/ آیت نمبر ۹۳،
۴۳۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۵۹
۴۴۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۶۰
۴۵۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۶۱
۴۶۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۶۲
۴۷۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۶۳
۴۸۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیت نمبر ۶۵
۴۹۔ سورۂ الانبیاء۲۱/ آیات نمبر ۶۶۔۶۷،
۵۰۔ سورۂ الصفت ۳۷/ آیات نمبر ۹۵۔۹۶،
۵۱۔ سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۲۵۸
۵۲۔ سورۂ الانبیاء ۲۱/ آیت نمبر ۶۸
۵۳۔ سورۂ الانبیاء ۲۱/ آیت نمبر ۶۹
۵۴۔ سورۂ الممتحنہ ۶۰/ آیت نمبر ۵،
۵۵۔ سورۂ ابراہیم ۱۴/ آیت نمبر ۳۷
۵۶۔ سورۂ آل عمران ۳/ آیت نمبر ۹۷
۵۷۔ سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۱۲۶
۵۸۔ سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۱۲۹
۵۹۔ اس میں سیرت نگاروں کا اختلاف ہے۔ بعض نے ۳۷ اور بعض نے ۳۱ نسلیں بعض نے ساٹھ نسلیں لکھا ہے۔ دیکھئے سیرت حلبیہ ترجمہ ام السیر علامہ علی ابن برہان الدین الحلبی، ترجمہ مولانا محمد اسلم قاسمی، ج ۱/ ص ۸۱، دارالاشاعت اردو بازار کراچی، ۲۹۹
۶۰۔ سورۂ ہود ۱۱/ آیت نمبر ۷۱۔۷۳، اور سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۱۳۶،
۶۱۔ سیرت حلبیہ علی بن برہان الحلبی ، ج ۱/ ص ۹۰، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ اور آپ ﷺ کے درمیان کوئی نبی آیا یا نہیں، بخاری کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کوئی نبی نہیں آیا، جبکہ سیرت نگاروں کی رائے ہے کہ چار نبی آئے ہیں۔ دیکھیں مذکورہ کتاب کی ج ۱/ ص ۸۸، بخاری نے ابوہریرہؓ سے روایت نقل کی ہے جس میں آپ ﷺ کے صریح الفاظ ہیں :
لیس بینی و بینہ نبی ، میرے اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کوئی نبی نہیں آیا یہی بات زیادہ صحیح ہے۔
۶۲۔ سیرت حلبیہ ، ج ۱/ ص ۱۶۳، اور ج ۲/ص ۳۳،

 

۲۔پیارے حضورﷺ کی پیدائش سے پہلے دنیا کی حالت

ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو اس وقت دنیا کی اخلاقی حالت نہایت خراب تھی۔ سیاسی اعتبار سے ایران اور روم بڑی طاقتیں اور ترقی والی حکومتیں سمجھی جاتی تھیں۔ ایران کا ملک عراق سے لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا اور وہاں کے لوگوں کا مذہب مجوسیت (آگ کی عبادت کرنے والے) تھا۔ روم کی سلطنت یورپ، ایشیا اور افریقہ کو گھیرے ہوئے تھی اور یہاں کے لوگ عیسائی مذہب کے پیرو تھے۔
ایران : اس وقت ایران میں لوگ ستاروں کی عبادت کرتے تھے۔ آگ کی عبادت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بادشاہ اور امیر لوگوں کی بھی خدا کی طرح عبادت کی جاتی تھی۔ لوگ خود ہی مختلف قسم کے بُت بناکر اُن کے سامنے سجدے کرتے تھے، غرض خدا کے علاوہ وہ دنیا کی ہر طاقت کے سامنے سرجھکاتے تھے۔
رُوم : یہی حال روم کا تھا۔ ستاروں اور دیوتاؤں کی پرستش کے علاوہ رُومی قبروں کو بھی پوجتے تھے۔ لوگوں کا مذہب اگرچہ عیسائی تھا، لیکن اُن میں سینکڑوں فرقے موجود تھے۔ جن میں آئے دن سخت لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ ہر فرقے کا پوپ (مذہبی لیڈر پادری) اپنے آپ کو خدا سمجھتا تھا اور اُس کے ماننے والے اس کو سجدہ کرتے تھے۔ ان میں دین داری کا اونچا درجہ رہبانیت (یعنی دنیا کو چھوڑ دینا) تھا۔
برصغیر : یہی حالت اس وقت پاکستان اور بھارت کی تھی۔ جسے برصغیر کہا جاتا ہے۔ یہاں دیوی دیوتاؤں کی تعداد ۳۳ کروڑ سے بھی زیادہ تھی۔ ذات پات کی تفریق زوروں پر تھی۔ شراب کا رواج عام تھا۔ شرک، (یعنی اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کی عبادت کرنا) اوہام اور گندے خیالات اپنی انتہا پر تھے۔ جوا عام تھا۔ لوگ اپنی عورتوں کو جوئے میں ہار دیتے تھے۔ ایک عورت کئی کئی شوہر کر لیتی تھی۔ لڑائی میں ہار جانے کے ڈر سے عورتوں کو خود ان کے باپ بھائی اور شوہر اپنے ہاتھوں سے قتل کر دیتے تھے۔ ننگے مرد اور عورتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ حتیٰ کہ انسان کے گندے اعضاء کی عبادت کی جاتی تھی۔ اور یہ سب کچھ عبادت اورنیکی سمجھ کر کیا جاتا تھا۔
عرب : عرب بہت وسیع خطہ تھا۔ لیکن اہم مقامات آج مملکت سعودی عرب کا حصہ ہیں۔ اس زمانے میں عرب کی حالت دنیا کی دوسری سلطنتوں سے بڑھ کر خراب تھی۔ یہاں کے رہنے والے بتوں، پتھروں، درختوں، ستاروں، فرشتوں اور جنوں کی پوجا کرتے تھے۔ ان کے ناموں پر قربانیاں دیتے تھے اور ان سے اپنی مرادیں مانگتے تھے۔ یہ لوگ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے اور جنوں کو خدا کا عزیز اور رشتہ سمجھتے تھے اسی نسبت سے اُن کے بُت بناکر ان کی پرستش کرتے تھے۔
عرب میں شرک پھیلنے کی چار صورتیں :
ابراہیم علیہ السلام نے بہت محنت سے اللہ کی توحید کو پھیلایا اور شرک کو ختم کیا تھا لیکن آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد شیطان نے مختلف حیلے، بہانے سے لوگوں کو شرک کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا۔
پہلی صورت : یہ ہوئی کہ عربوں کو ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل ؑ سے بے انتہا عقیدت تھی اور کعبہ چونکہ انہی دونوں کی تعمیر تھی اس لئے ان کو کعبہ سے بھی بڑی محبت تھی۔ پھر یہ محبت اسی تک محدود نہ رہی، اس کے اردگر جتنے پتھر تھے وہ بھی ان کے نزدیک بہت محبوب اور متبرک بن گئے۔ اب اگر وہ مکہ سے باہر جاتے، چاہے روزگار کے لئے، چاہے کاروبار کے لئے، تو وہاں کا ایک پتھر بھی ساتھ لے لیتے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے سفر میں برکت ہوگی، اور مقصد میں کامیابی۔
دوسری صورت : یہ ہوئی جو لوگ مکہ سے کچھ دور رہتے تھے، وہ بھی کعبہ کے پاس سے پتھر اٹھا اٹھا کر لے گئے، اور اپنے یہاں نصب کر لئے اور اب وہ کعبہ کی طرح ان کا طواف کرتے اور حجر اسود کی طرح ان کو بوسہ دیتے۔
تیسری صورت : جس کی وجہ سے یہ عقیدہ اور تیزی سے پھیلا۔ آتش فشاں پہاڑ پھٹتے، تو لاوے کی شکل میں جو پتھر نکلتے، ان کے بارے میں تصور تھا کہ یہ ٹوٹے ہوئے تارے ہیں، جو آسمان سے زمین میں آ گئے ہیں اور یہیں سے وہ پتھر مقدس سمجھے جانے لگے۔ کیونکہ بعض قومیں تاروں کی عظمت کی قائل تھیں۔ پھر عظمت کا یہ تصور مزید آگے بڑھا اور ان پتھروں کی عبادت ہونے لگی۔
چوتھی صورت : یہ ہوئی کہ شیطان انہیں پتھروں سے مانوس تو کرہی چکا تھا۔ اب ان مشرکین عرب کو راہ چلتے جو بھی خوبصورت پتھر نظر آتا یا کسی مخلوق کی شکل
سے مشابہ ہوتا اسی کو مقدس سمجھ کر عبادت کرنے لگتے۔
مجسمہ سازی اور بت پرستی کا باقاعدہ آغاز :
لوگ پھر ایک قدم اور آگے بڑھے یعنی اب وہ پتھروں کو خود تراشتے۔ خود اپنی پسند کے مجسمے بناتے اور جس بزرگ یا دیوتا سے چاہتے انہیں منسوب کر دیتے، نیز جو دل چاہتا ان کا نام رکھ لیتے۔ پھر ان کو ایک جگہ نصب کرکے ان کی عبادت کرنا شروع کر دیتے۔ عقیدت و محبت میں ان پر نذرانے چڑھاتے اور ان کے نام پر منتیں مانتے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ دیوتا اللہ کے یہاں سفارش کریں گے۔ بگڑے ہوئے کام بھی بنا دیں گے اور آخرت میں ذریعہ نجات بھی ہوں گے۔
پہلے بت کی آمد :
مکہ میں سب سے پہلے جو بت داخل ہوا، اور پھر صحن کعبہ میں نصب ہوا۔ وہ ہبل تھا۔ اس کو لانے والا شخص عمرو بن لحی تھا۔ یہ شام کا سفر کر رہا تھا کہ راستے میں ایک مقام سے گزر ہوا۔ دیکھاکہ قوم عمالیق مورتیاں پوج رہے ہیں۔ اس کو یہ منظر بہت بھلا معلوم ہوا۔ چنانچہ ان سے اس نے کہا کہ ایک بت ہمیں بھی دے دو۔ ہم اپنے یہاں لے جائیں گے اور ہم بھی اس کی پوجا کریں گے۔ اس پر لوگ بخوشی تیار ہوگئے۔ وہ بت لے کر مکہ آ گیا اور کعبہ کے بیچ میں رکھ دیا۔(۱)
پھر رفتہ رفتہ کعبہ میں اور مورتیاں آئیں۔ اور ان میں دو مشہور مورتیاں اِسَافْ اور نَاءِلَہْ بھی تھیں۔ یہ زمزم کے کنویں پر نصب تھیں۔(۲)
پھر ہر قبیلہ نے سوچا کہ اب دوسرے قبیلے کے بت کو اپنا خدا کیوں بنائیں، لہٰذا ہر ایک قبیلہ نے اپنا الگ بت بناکر عبادت شروع کر دی۔
عُزّٰی : یہ قریش کا سب سے بڑا بت تھا۔
آاتْ : طائف میں ایک قبیلہ تھا، ثقیف، یہ اس کا بت تھا۔
مَنَاتْ : مدینہ میں دو مشہور قبیلے تھے، اوس اور خزرج یہ ان کا
بت تھا۔
ظالموں نے صرف اسی پر بت پرستی ختم نہیں کی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تصویر بھی کعبہ کے اندر بنا ڈالی۔
عربوں کی خوبیاں :
عرب کے لوگوں کی حالت اس زمانے میں عجیب تھی۔ گندمی رنگ، اونچی پیشانی، مضبوط جسم، سیاہ آنکھوں اور تیز نظر والے یہ لوگ بڑے بہادر، مہمان نواز، آزادی پسند، دریا دل اور بات کے پکے تھے۔ ان کا حافظہ بہت مضبوط تھا اور وہ شعر و شاعری کے بہت قدردان تھے۔ اپنی زبان عربی پران کو اس قدر فخر تھا کہ دنیا کے دوسرے ملکوں کے لوگوں کو وہ گونگا کہتے تھے۔
معاشرتی خرابیاں :
اس کے ساتھ ان میں دنیا بھر کے ملکوں اور قوموں کی برائیاں بھی جمع ہوگئی تھیں۔ اس وقت عرب کی آبادی چند لاکھ سے زیادہ نہ تھی۔ اس کا زیادہ حصہ صحراؤں میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتا تھا۔ وہ اونٹوں، گھوڑوں اور بھیڑ بکریوں کے گلے (ریوڑ) لئے چارے کی تلاش میں پھرتے رہتے، جہاں کوئی چشمہ، کھجور کے کچھ پیڑ اور کچھ سبزہ نظر آیا وہیں ڈیرے ڈال دئیے۔ ان لوگوں کو بدوی یا اعرابی (دیہاتی) کہا جاتا تھا۔ جو لوگ شہروں اور قصبوں میںآباد تھے وہ حضری کہلاتے تھے۔ شہروں اور قصبوں میں مکہ، طائف، یثرب اور خیبر بہت مشہور تھے۔ شہری اور بدوی سارے ہی عرب طرح طرح کی خرابیوں میں مبتلا تھے۔ کوئی مرکزی حکومت موجود نہیں تھی جو امن و امان قائم رکھتی، اس لئے مختلف قبیلوں میں آئے دن لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ ان کی وجہ معمولی ہوتی تھی، ایک نے دوسرے کے چشمے سے پانی لے لیا، ایک کا جانور دوسرے کی چراگاہ میں چلا گیا، ایک قبیلے کے شاعر نے کسی دوسرے قبیلے کے خلاف کوئی شعر کہہ دیا۔ بس اسی بات پر لڑائی چھڑجاتی جو کئی کئی سال تک جاری رہتی اور ہزاروں آدمی مارے جاتے۔ بعض لڑائیاں تیس تیس چالیس چالیس برس تک چلتی رہتیں۔ یہ لوگ کھلے بندوں شراب پیتے، جوا کھیلتے، بے حیائی کے کام کرتے، سود کھاتے اور راہ چلتے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے۔
مولانا الطاف حسین حالی نے ان کی تصویر کشی کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے:
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا :۔: کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
یوں ہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں :۔: یوں ہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
پیاری پیاری بچیوں کو زندہ دفن کرنا :
عربوں کے بعض قبائل میں ایک انتہائی گندی رسم یہ تھی کہ بچوں کے پیدا ہونے پر خوش ہوتے اور بچیوں کے پیدا ہونے پر غم کرتے، شرم سے منہ چھپاتے تھے۔(۳) صرف یہی نہیں بلکہ بچی کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں دفن کر دیتے تھے۔ کچھ عربوں کا خیال تھا یہ بڑی شرم کی بات ہے کہ کوئی ہمارا داماد بنے، کچھ عربوں کا خیال تھاکہ ان لڑکیوں پر تو خرچہ کرنا پڑے گا، انہیں جیب سے کھلانا پڑے گا اس لئے وہ بچیوں کو قتل کر دیتے تھے۔(۴)
عرب کے سیاسی حالات اور آپ ا کا خاندانی پس منظر :
قبیلہ قریش کا سلسلہ نسب حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعے ابراہیم علیہ السلام سے جاملتا ہے۔ قریش کی چھٹی نسل میں قُصَیْ بِنْ کِلآبْ پیدا ہوئے۔ انہوں نے مکہ پر قبیلہ جُرْھَمْ کو ان کے بعد قبیلہ خُزَاَعَہْ کو حکمراں دیکھا۔
قُصَیْ نے اپنے منتشر خاندا ن کو جمع کیا پھر کعبہ اور مکہ سے دونوں قبیلوں کو نکال کر اس پر قریش کی حکومت قائم کرلی اور مکہ کے مختلف حصے قریش کے مختلف خاندانوں میں تقسیم کرکے باقاعدہ ایک مضبوط حکومت کی بنیاد رکھی۔(۵) مکہ میں کعبہ کی عظمت کا خیال کرکے پکے مکانات نہیں بنائے جاتے تھے، قصی نے سب سے پہلے ایک پختہ مکان ’’دار الندوہ‘‘ (مشورہ کرنے کا مکان) کے نام سے بنایا۔ جہاں قبیلہ کے سردار جمع ہوکر مشورہ کرتے تھے۔ اس کے بعد لوگوں نے پکے مکانات بنانا شروع کئے۔
مکہ کے پانچ اہم عہدے :
قصی نے مکہ اور کعبہ کی زیارت کے لئے آنے والوں کی خدمت کے لئے پانچ عہدے قائم کئے، پہلے کا نام سقایہ، دوسرے کا رفادہ تھا۔ تیسرے کا نام حجابہ تھا۔ چوتھے کا نام لواء، پانچویں کا نام دارالندوہ تھا۔
۱۔ سِقَایَہْ : اس کا کام تھا کہ حاجی آئیں تو ان کے لئے میٹھے پانی کا انتظام کرے۔ چاہ زمزم پٹ چکا تھا۔ اس لئے پانی نایاب بھی تھا بہت دور دور سے لانا پڑتا۔
۲۔ رِفَادَہْ : قریش نے ایک سالانہ رقم مقرر کی جس سے منیٰ اور مکہ میں حاجیوں کی ضیافت کی جاتی۔ اس کے ذمہ اسی کا انتظام تھا۔
۳۔ حِجَابَہْ : کعبہ سے متعلق بھی ایک عہدہ قائم کیا اور اس کا نام ’’حجابہ‘‘ رکھا۔ جو اس عہدے کا ذمہ دار ہوتا۔ وہی کعبہ کیچابی کا مالک ہوتا۔ کعبہ سے متعلق سارے کام اسی کے سپرد ہوتے۔ کوئی کعبہ کے اندر جانا چاہتا، تو پہلے اُس سے اجازت لیتا۔ اس کی اجازت کے بغیر اندر جانا منع تھا۔
۴۔ لِوَاءْ : جنگ کے موقع پر جھنڈا اٹھانے کا اعزاز ۔
۵۔ دَارُالنَّدْوَہْ کا انتظام : مشورہ کے لئے مہمان بلانے کا انتظام (۶)
قُصَیْ کے انتقال کے بعد رِفَاَدَہْ اور سِقَاَیَہْ عَبْدِشَمْس کو ملا۔ حِجَابَہْ، لِوَاءْ اور دارالندوہ کا انتظام عَبْدُ الدَّارْ کی اولادوں کو ملا۔ عبدشمس نے اپنے عہدے اپنے بھائی ہاشم (۷) کو دے دیے(۸) ہاشم بہت بہادر تھے۔ انہوں نے حاجیوں کی خدمت کے ساتھ مکہ کے لوگوں کو خوشحال بنانے کے لئے رومی بادشاہ سے معاہدہ تجارت کیا۔ حبشہ کے بادشاہ سے معاہدہ کیا، راستے میں جتنے قبائل تھے ان سے معاہدہ کیا تاکہ قافلہ تجارت لوٹا ماری سے محفوظ رہے۔ ہاشم کی وفات کے بعد مطلب حکمراں بنے اور دونوں عہدے رَفَادَہُ و سِقَاَیَہْ ان کے پاس رہے۔ مطلب کے انتقال کے بعد عَبْدُالْمُطَّلِبْ حکمراں بنے اور یہ دونوں عہدے ان کے پاس آ گئے۔
دادا عَبْدُالْمُطَّلِبْ اور آپ ﷺ کے والد عَبْدُاللّٰہ :
عبدالمطلب نے نذر مانی تھی اگر میرے دس بیٹے ہوئے تو میں ایک بیٹا اللہ کے لئے ذبح کردوں گا، آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب کو اللہ نے دس بیٹے عطا فرمائے۔ جب وہ جوان ہوگئے تو انہوں نے قرعہ ڈالا تاکہ وہ ایک بیٹا اللہ کے نام پر قربان کریں۔ قرعہ میں حضرت عبداللہ کا نام نکلا۔ عبدالمطلب نے اُن کو پچھاڑا اور چھری گلے پر چلانی چاہی مگر خاندان کے سب لوگ دوڑے اور انہوں نے عبدالمطلب کو روک دیا۔ آخر انہوں نے عبداللہ کے بجائے سو اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کر دیے۔(۹) اس طرح آپ ﷺ کے والد ذبح ہونے سے محفو ظ رہے۔
حضرت عبداللہ اور آمنہ کی شادی خانہ آبادی :
آپ ﷺ کے والد اور والدہ کی شادی بہت اہتمام سے ہوئی۔ ’’نذر‘‘ والا واقعہ ہوا، تو گھر گھر اس کا چرچا ہوگیا۔ اس سے ان کی عظمت اور بڑھ گئی اور سب دل و جان سے انہیں چاہنے لگے۔ چنانچہ بہت سی عورتوں نے نکاح کی خواہش کی، اور کوشش بھی کی! لیکن یہ شرف سب کو کیسے ملتا، کہ وہ ایک ہی کی قسمت میں تھا۔ اُن کے بیٹے کی ماں کون ہوگی؟ یہ بھی خدا کے یہاں طے تھا۔ اُن کی شادی آمنہ سے ہوئی، جو وہب بن عبدمناف کی بیٹی اور قریش کی سب سے معزز خاتون تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بنی زہرہ کے سردار کی بیٹی تھیں۔
باپ نے بیٹے کی طرف سے نکاح کا پیغام دیا۔ آمنہ کے گھر والوں نے اسے باعث شرف سمجھا اور خوشی خوشی تیار ہوگئے۔ پھر چٹ پٹ شادی ہوگئی۔(۱۰) دستور تھا کہ دولہا شادی کے بعد تین دن سسرال میں رہتا۔ عبداللہ بھی تین دن سسرال میں رہے۔ پھر گھر چلے آئے۔ ساتھ میں دُلہن بھی آئی۔ اُس وقت عبداللہ کی عمر سترہ سال تھی۔
آپ ﷺ کے والد عبداللہ کا انتقال :
شادی کو ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے، تاجروں کا ایک کارواں (قافلہ) شام جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ عبداللہ بھی ہو لئے۔ پھر واپسی میں مدینہ سے گزرے، یہاں ان کے باپ کا ننھیال تھا۔ تھکے تو تھے ہی، دم لینے کے لئے ٹھہر گئے۔ اتفاق سے بیمار پڑ گئے۔ ساتھیوں نے انہیں وہیں چھوڑ دیا اور مکہ کا رُخ کیا۔ وہاں پہنچ کر باپ کو بیماری کی خبر دی۔
عبدالمطلب نے بیماری کا حال سنا، تو فوراً بڑے بیٹے حارث کو مدینہ دوڑایا کہ وہاں جاکر بھائی کی تیمارداری کریں اور جب وہ اچھے ہو جائیں تو اپنے ساتھ لے کر آئیں۔
لیکن افسوس ۔۔۔ !! حارث نے اپنے بھائی عبداللہ کو نہ دیکھا وہ اُنہیں اپنے ساتھ مکہ نہ لائے۔ کہ باپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔ دُلہن کے دل کو قرار آتا۔ کچھ دن پہلے ہی عبداللہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ اور جسم سپرد خاک ہوچکا تھا۔ حارث واپس آئے تو عبداللہ کے بجائے عبداللہ کی موت کی خبر لائے۔ (۱۱)
کسے معلوم تھا کہ شام کا یہ سفر، سفرِ آخرت بننے والا ہے۔
اچانک موت کی خبر سن کر لوگوں کو رنج بھی غیر معمولی ہوا، ساری قوم سوگوار تھی۔ ہر طرف اداسی چھائی ہوئی تھی۔
بوڑھے باپ پر تورنج و غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ صدمہ سے دل پاش پاش ہوگیا عبداللہ کی موت پر صبر آئے تو کیسے؟
اور آمنہ کا تو سہاگ ہی اُجڑ گیا۔ دل کی دنیا ویران ہوگئی۔ سارے ارمان حسرتوں میں تبدیل ہوگئے۔ کتنی اُمیدیں تھیں، جو خاک میں مل گئیں، کتنے حسین خواب تھے، جو شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ کتنی آرزوئیں اور تمنائیں تھیں جو سینے ہی میں دفن ہو کے رہ گئیں۔ کل جو خاتون، قریش کی نازنینوں کی نگاہ میں قابلِ رشک بنی ہوئی تھی، آج اس کی حالت قابل رحم تھی، جو سر، دوسرے سروں کے درمیان شرف و عزت سے اونچا ہو رہا تھا، آج وہ رنج و غم سے نڈھال تھا۔
آپ ﷺ کے والد عبداللہ کا انتقال ہوا، تو آمنہ اُمید (حمل) سے تھیں۔
ابرہہ کا کعبۃ اللہ پر حملہ :
آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب اپنے بیٹے عبداللہ کی وفات کے غم سے سنبھلے نہیں تھے کہ مکہ اور کعبہ پر ایک اور مصیبت آ گئی، یمن کے بادشاہ ابرھہ نے کعبۃ اللہ کے مقابلے میں ایک اور کعبہ بنایا تھا۔ پھر لوگوں کو اس کی زیارت کا حکم دیا، مگر کوئی اس کی زیارت کو نہیں گیا۔ بلکہ ایک عرب نے وہاں گندگی بھی کر دی، لہٰذا اس نے جذبہ حسد کے تحت اس کعبۃ اللہ کو تباہ کرنے کا پروگرام بنایا، اور ۱۳ ہاتھیوں کے ساتھ ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر ۵۷۱ء میں مکہ پر حملہ آور ہونے کے لئے پہنچا۔
ابرہہ کی فوج نے مکہ کے باہر ڈیرہ ڈالا۔ وہاں عبدالمطلب کے کچھ اونٹ چر رہے تھے۔ ابرہہ کے لشکریوں نے ان کو پکڑ لیا۔ عبدالمطلب کو خبر ہوئی تو وہ ابرہہ کے پاس گئے اور اُس سے کہا کہ آپ کے آدمیوں نے میرے اونٹ پکڑ لئے ہیں۔ مہربانی کرکے وہ واپس دے دیں۔ اُن کی بات سن کر ابرہہ بہت حیران ہوا، کیونکہ اُس کا خیال تھا کہ عبدالمطلب اس سے کعبہ کو تباہ نہ کرنے کی درخواست کریں گے۔ اس نے کہا، اے قریش کے سردار بڑی حیرت کی بات ہے کہ تم کو اپنے مقدس مقام کعبہ کا تو کچھ خیال نہیں ہے اور اپنے چند اونٹوں کی فکر ہے۔
عبدالمطلب : ان اونٹوں کا مالک میں ہوں اس لئے ان کو چھڑانے کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں۔ اس گھر (کعبہ) کا بھی ایک مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا۔
ابرہہ نیطیش میں آکر کہا : ’’میں دیکھوں گا کہ کعبہ کا مالک اس کو میرے ہاتھ سے کیسے بچاتا ہے۔۔۔؟ ہاں تم اپنے اونٹ لے جاؤ۔‘‘
اس سوال و جواب کے بعد عبدالمطلب واپس آ گئے۔(۱۲)
عبدالمطلب کے واپس آنے کے بعد ابرہہ نے فوج کو تیاری کا حکم دیا اور پھر مکہ پر حملہ کے لئے آ گے بڑھا۔ اس وقت ایک عجیب واقعہ ہوا۔ آسمان پر ابابیل پرندوں کے جھنڈ اور غول نمودار ہوئے، جن کی چونچوں میں پتھر کے کنکر تھے۔ انہوں نے یہ کنکر ابرہہ کے لشکر پر برسانے شروع کر دئیے، جس پر بھی یہ کنکر پڑتے تھے اس کا جسم فوراً چیچک کے دانوں کی طرح گل سڑ جاتا تھا۔ اس طرح ابرہہ، اس کی فوج اور ہاتھی سب کے سب بری طرح ہلاک ہوگئے اور ان کی لاشیں کھائے ہوئے بھوسے کی مانند ہوگئیں۔ اس کے بعد سیلاب آیا اور سب لاشوں کو سمندر میں بہالے گیا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کو بچالیا۔(۱۳)
قرآنِ مجید کی سورۂ فیل میں اسی کا ذکر ہوا ہے۔ اس میں ابرہہ کے لشکر کو ’’اصحاب الفیل‘‘ کہا گیا ہے کیونکہ ان کے پاس ہاتھی بھی تھے۔ اسی نسبت سے عربوں میں یہ سال ’’عام الفیل‘ ‘ یعنی ہاتھیوں کا سال کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اور وہ اسی سال سے تاریخوں کا حساب کرنے لگے۔

 

سوال جواب

۱)۔۔۔ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب دنیامیں تشریف لائے اس وقت دنیا کی بڑی طاقتیں کونسی تھیں؟ اور ان کا مذہب کیا تھا؟
اس وقت دو بڑی طاقتیں ایران اور روم تھیں، ایران کے لوگوں کا مذہب مجوسیت تھا اور روم کے لوگوں کا مذہب عیسائیت تھا۔
۲)۔۔۔ عرب میں شرک کس طرح پھیلا؟
شرک چار صورتوں میں پھیلا۔
۳)۔۔۔ خانہ کعبہ میں سب سے پہلا بت کس نے نصب کیا اور بت کا نام کیا تھا؟
خانہ کعبہ میں نصب ہونے والا پہلا بت ہُبُلْ تھا اور اسے عُمَرْ بِنْ لَحِیْ لایا تھا۔
۴)۔۔۔ عربوں کے مشہور بتوں کے نام کیا تھے؟
عربوں کے مشہو ر بت اِسَافْ، نَاءِلَہْ، عُزّیٰ، لاتْ تھے۔
۵)۔۔۔ بدوی یا اعرابی کسے کہتے ہیں؟
جو لوگ صحراؤں میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے وہ بدوی یا اعرابی کہلاتے ہیں۔
۶)۔۔۔ حضری کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟
جو شہروں اور قصبوں میں آباد تھے، حضری کہلاتے تھے۔
۷)۔۔۔ عرب اپنے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے؟
بیٹے کی پیدائش پر خوش ہوتے اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔
۸)۔۔۔ قریش کا سلسلہ نسب کون سے پیغمبر سے ملتا ہے؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے۔
۹)۔۔۔ دارالندوہ کس نے بنایا تھا؟
قصی بن کلاب نے۔
۱۰)۔۔۔ قصی نے حاجیوں کی خدمت کے لئے کون سے پانچ عہدے قائم کئے تھے؟
سِقَایَہ، رِفَادَہْ، حِجَابَہ، لِوَاءْ، دَارُ النَّدْوَہْ،
۱۱)۔۔۔ قصی کے بعد خدمت کے عہدے کس کس کو ملے؟
رِفَادَہ اور سقایہ عبدشمس کو اور حجابہ، لواء، دارالندوہ ۔ عبدالدار کی اولادوں کو ملا۔
۱۲)۔۔۔ عبدالمطلب نے کیا نذر مانی تھی؟
انہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوئے تو میں ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردوں گا۔
۱۳)۔۔۔ حضرت عبدالمطلب نے اپنی نذر کو کس طرح پورا کیا؟
انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ کے بجائے سو اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کئے۔
۱۴)۔۔۔ حضرت عبداللہ کی شادی کس سے اور کتنی عمر میں ہوئی؟
حضرت عبداللہ کی شادی سترہ سال کی عمر میں وہب بن عبد مناف کی بیٹی آمنہ سے ہوئی۔
۱۵)۔۔۔ عبداللہ کا انتقال کب ہوا؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے چند ماہ پہلے۔
۱۶)۔۔۔ ابرہہ کون تھا؟
یمن کا بادشاہ تھا۔
۱۷)۔۔۔ ابرہہ نے کعبہ شریف پر حملہ کیوں کیا؟
لوگ ابرہہ کے بنائے ہوئے کعبہ کی زیارت نہیں کرتے تھے لہٰذا اس نے جذبہ حسد کے تحت کعبہ پر حملہ کیا۔
۱۸)۔۔۔ ابرہہ نے کب اور کتنا لشکر لے کر خانہ کعبہ پر حملہ کیا؟
ابرہہ نے ۱۳ ہاتھیوں کے ساتھ ساٹھ ہزار کا لشکر لے کر حملہ کیا۔
۱۹)۔۔۔ حملہ آور لشکر کا کیا انجام ہوا؟
ابابیل کے حملے سے پورا لشکر کھائے ہوئے بھس کی طرح ہوگیا۔
۲۰)۔۔۔ قرآن کریم کی کونسی سورۃ میں اس واقعہ کا ذکر ہوا ہے؟
سورۂ الفیل۔

 

حواشی و حوالہ جات
۱۔ سیرت حلبیہ برہان الدین حلبی ، ج ۱/ ص ۶۵، اور فتح الباری ابن حجر، ج ۱۷/ ص ۱۵۶، البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر ج ۲/ ص ۲۰۶،
۲۔ ایضاً، ص ۶۷/ ص ۱۲۲،
۳۔ سورۂ النحل ۱۶/ آیت نمبر ۵۸،
۴۔ سورۂ التکویر ۸۱/ آیت نمبر ۸،
۵۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم فی مکارم اخلاق الرسول الکریم، ج ۱/ ص ۱۸۸، دارالوسیلۃ للنشر المملکۃ العربیۃ ، السعودیۃ،
۶۔ ایضاً، ج۱/ ص ۱۸۸،
۷۔ ایک بار کا واقعہ ہے کہ مکہ میں زبردست قحط پڑا۔ ہاشم نے اس موقع پر شوربہ میں روٹیاں چورا کیں اور لوگوں کو کھلایا۔ اس وقت سے اُن کا نام ہاشم پڑ گیا کہ ہشم کے معنی ہیں، چورہ کرنا، اور ہاشم کے معنی ہوئے چورہ کرنے والا۔
۸۔ سیرت حلبیہ ج ۱ /ص ۵۲،
۹۔ سیرت حلبیہ ج ۱ /ص ۱۳۱۔۱۳۰،
۱۰۔ سیرت حلبیہ ج ۱ /ص ۱۳۸، اور طبقات ابن سعد ج ۱/ص ۸۶،
۱۱۔ سیرت حلبیہ ج ۱ /ص ۱۷۰۔۱۷۱،
۱۲۔ سیرت حلبیہ ج ۱ /ص ۱۹۸۔۱۹۹،
۱۳۔ سیرت حلبیہ ج ۱ /ص ۲۰۲۔۲۰۳،

 

۳۔ہمارے حضورﷺ کی پیدائش

مکہ پر حملہ کرنے والے ابرہہ اور اس کی فوج کو برباد ہوئے پچاس دن گزر چکے تھے۔(۱) ربیع الاوّل کا مہینہ تھا۔ جاڑا ختم ہو چکا تھا اور بہار کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ درختوں میں کونپلیں پھوٹ رہی تھیں کہ ایک دن جب رات کا اندھیرا دور ہو رہا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور مکہ کے اونچے نیچے پہاڑوں پر صبح کا نور بکھر رہا تھا۔اس وقت ہمارے پیارے حضور ﷺ پیدا ہوئے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کب پیدا ہوئے؟ کون سی تاریخ تھی اس میں سیرت نگاروں کا بہت اختلاف ہے۔ لیکن اس پر اکثر کا اتفاق ہے کہ پیر کا دن اور ربیع الاوّل کا مہینہ تھا۔(۲) محمود پاشا فلکی (جو قسطنطنیہ کا مشہور ہیئت دان اور منجم گزرا ہے) کے مطابق یہ ۹/ربیع الاوّل کی تاریخ ہے بمطابق ۲۰/ اپریل ۵۷۱ عیسوی، ۱۲ / ربیع الاوّل تاریخ پیدائش ہو ہی نہیں سکتی۔(۳)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے پہلے حضرت آمنہؓ نے خواب میں دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک نور نکلا ہے، جس سے ملک شام کے محل روشن ہوگئے ہیں۔(۴)
نومولود بچہ بہت ہی خوب صورت تھا۔ چاند بھی اس کے سامنے پھیکا تھا۔
آمنہ نے اپنے خسر عبدالمطلب کو خبر کی کہ آکر پوتے کو دیکھ لیں۔
عبدالمطلب دوڑے ہوئے آئے اور نظر پڑتے ہی کھل اٹھے۔
بچہ کو گود میں لیا۔ سینے سے لگایا۔ ماتھے پہ بوسہ دیا۔ پھر اسے لئے ہوئے کعبہ پہنچے اور اس کا طواف کیا اور بچہ کا نام محمد رکھا (محمد کے معنی ہیں جس کی سب تعریف کریں)(۵)
ننھے حضور ﷺ کی رسم عقیقہ :
ولادت کے ساتویں دن عبدالمطلب نے اونٹ ذبح کرایا، اور قریش کی دعوت کی۔ لوگ کھانے سے فارغ ہوگئے، تو کسی نے پوچھا:
عبدالمطلب ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے پوتے کا نام محمد رکھا؟ خاندانی نام کیوں نہیں رکھا؟
عبدالمطلب : میں نے چاہا کہ آسمان پر بھی اس کی تعریف ہو، اور زمین پر بھی۔ خالق کو بھی وہ پیارا ہو، اور مخلوق کو بھی۔ حضور ﷺ جب پیدا ہوئے تو پیدائشی مختون تھے (یعنی ختنہ کی ضرورت نہیں تھی)۔(۶)
ننھے حضور ﷺ کو دودھ پلانے والیاں :
قریش میں اُونچے گھرانوں کی عورتیں اپنے بچوں کو دُودھ خود نہیں پلاتی تھیں، دیہاتوں سے دائیوں کی ٹولیاں آتیں۔ وہ بچوں کو اپنے یہاں لے جاتیں۔ اُن کو دودھ پلاتیں۔ ان کی پرورش کرتیں۔ پھر جب وہ بڑے ہو جاتے تو واپس کر جاتیں اور دوسرے بچے لے جاتیں۔ اس سے بچے خوب تندرست رہتے اور فصیح عربی بھی سیکھ لیتے۔ مگر دائیوں کے آنے کے موسم متعین تھے۔ محمد ﷺ کی ولادت ہوئی تو اس وقت کوئی دودھ پلانے والی دائی نہ ملی۔ عبداللہ کا ایک بھائی تھا ابولہب اس کے ایک باندی تھی ثویبہ ۔ دو تین دن آمنہ نے خود دُودھ پلایا(۷) پھر بچہ کو ثویبہ کے حوالے کردیا، کہ جب تک کوئی دائی نہ ملے، اس کو وہ دُودھ پلائے۔
ثویبہ نے بس کچھ ہی دن دودھ پلایا تھا (۸) کہ قبیلہ بنی سعد کی دودھ پلانے والی دائیاں آ گئیں۔(۹)
دائیاں بچے تلاش کرنے لگیں۔ وہ گھروں میں جاتیں۔ ماؤں کو اپنی خدمات پیش کرتیں۔ مائیں جس کو پسند کرتیں، اپنا بچہ اس کے حوالے کر دیتیں۔
ساری ماؤں نے دائیوں کا انتخاب کرلیا، ساری دائیوں کی گودیں بھر گئیں صرف ایک دائی رہ گئی۔ اس کو کسی نے نہیں پوچھا۔ اس لئے کہ وہ ذرا کمزور اور لاغر تھی، مفلسی کا بھی شکار تھی۔ یہ تھی ابوذویب کی بیٹی حلیمہ۔
بچہ بھی صرف ایک ہی رہ گیا کہ دائیاں اس سے دور ہی دُور رہیں، کوئی اسے لینے کے لئے تیار نہ تھی۔ وہ بچہ تھا عبداللہ کا بیٹا محمدﷺ۔
دائیوں کو معلوم ہوگیا تھا محمد ﷺ یتیم ہے۔ باپ کے سایہ سے محروم ہے۔ اس لئے انہوں نے اس کی پرورش کو حقیر جانا، کہ اس یتیم کو لے کر کیا کریں! اس کا دادا ہمیں کیا دے گا؟ ماں سے بھی کیا مل جائے گا؟
جب واپسی کا وقت آ گیا دائیوں نے گھر لوٹنے کا ارادہ کیا، ہر ایک خوش تھی کہ اس کی گود میں بچہ تھا۔
حلیمہ کا شوہر بھی ساتھ تھا۔ حلیمہ نے اس سے کہا۔
بخدا، مجھے شرم آتی ہے کہ ساری سہیلیوں کی گودیں بھری ہوں اور ایک میری ہی گود خالی رہے۔ میں تو جاتی ہوں۔ اسی یتیم کو لئے لیتی ہوں۔ خالی ہاتھ لوٹنے سے یتیم کو لے جانا بہرحال بہتر ہے۔
شوہر حَارِثْ اِبْنِ عَبْدُ الْعُزَّیٰ نے کہا: أُمِّ کَبْشَہْ (۱۰)جاؤ، لے آؤ۔ کیا حرج ہے؟ ہوسکتا ہے کہ اللہ اسی میں برکت دے، چنانچہ حلیمہ بچے کو لینے کے لئے آمنہ کے پاس پہنچیں۔
حضرت آمنہ کو ملال تھا کہ اُن کے لال کو کسی نے نہ پوچھا۔ سہیلیوں کے بچے ہاتھوں ہاتھ لئے۔ مگر ان کے بچہ کو کسی نے لینا گوارا نہ کیا۔ حلیمہ نے بچے کو لیا تو آمنہ کا مایوس چہرہ بھی خوشی سے دمک اٹھا۔
ننھے حضور ﷺ کی برکتیں (معجزات) :
(۱) حلیمہ نے جب محمدﷺ کو دودھ پلایاتو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ محمد ﷺ نے بھی خوب جی بھر کر دودھ پیااور ان کے بعد حلیمہ کے بیٹے نے بھی سیر ہو کر دودھ پی لیا۔حالانکہ اس سے پہلے اس اکیلے بچے کے لیے بھی دودھ پورا نہ ہوتا تھا۔
(۲) حلیمہ کی ایک اونٹنی تھی۔ دُبلی پتلی، بالکل مریل، بھوک لگی، شوہر اس کا دودھ نکالنے لگے۔ تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ تھن جو ہمیشہ سوکھا رہتا۔ آج بالکل بھرا ہوا تھا۔ اور دودھ خود بخود ٹپکا پڑ رہا تھا۔ شوہر نے خود بھی پیا، بیوی کو بھی پلایا۔ دونوں نے جی بھر کے پیا۔
(۳) رات ہوئی تو دونوں نے بچوں کو پہلو میں سُلالیا۔ پھر خود بھی سو رہے۔ نیند اتنے آرام اور چین کی تھی کہ بالکل ہی بے خبر ہوگئے۔
پھر صبح ہوئی، تو شوہر بولا: حلیمہ ! کیا خیال ہے؟؟ بخدا بہت مبارک بچہ ملا ہے۔
حلیمہ بولیں: بخدا میرا بھی یہی خیال ہے۔
(۴) پھر دائیوں کا قافلہ گھروں کو لوٹا۔ حلیمہ کی گدھی آگے آگے تھی، اور مستانہ وار بڑھ رہی تھی۔ سہیلیوں نے یہ دیکھا تو آواز دی۔
واہ ری، ابو ذویب کی بیٹی !! ذرا ٹھہرونا۔ ہمیں بھی تو آ لینے دو۔ ارے، یہ وہی گدھی تو ہے، جس پر تم آئی تھیں۔ یہ تو راستے میں رُک رک جاتی تھی۔ بار بار تم پیچھے ہو جاتی تھیں!!!
حلیمہ نے کہا: ہاں ، ہاں ، بخدا یہ وہی ہے!
سہیلیاں بولیں : بخدا یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔ (۱۱)
(۵) آپ ﷺ سے جن معجزات (۱۲) کا مسلسل ظہور ہو رہا تھا حلیمہ اسے دیکھ کر حیران ہوتیں تھیں،مثلاً حضور ﷺ جب دودھ پیتے تو ایک چھاتی سے پیتے، دوسری چھاتی اپنے رضاعی بھائی (دودھ شریک بھائی) عبداللہ کیلئے چھوڑ دیتے تھے۔(۱۳)
پیارے بچے کا بکریاں چرانا :
ننھے حضور ﷺ بچپن سے بہت فرماں بردار اور خدمت گزار تھے۔ اپنے دودھ پلانے والی دائی حلیمہ سعدیہ کی ماں کی طرح عزت اور خدمت کرتے، روزانہ اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ بکریاں چرانے جاتے تھے۔ حلیمہ جو کام کہتیں دل لگاکر محنت کے ساتھ کرتے تھے۔(۱۴)
ننھے حضور ﷺ کی آمنہ کے پاس واپسی کے دواسباب :
ننھے حضور ﷺ اب پانچ سال کے ہوگئے۔ حلیمہ سے جدائی کی ساعت آن پہنچی۔
محمد ﷺ سے حلیمہ کو بے حد محبت تھی۔ وہ سچ مچ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔ ان کے دل کا سکون تھے۔ محمد ﷺ کو بھی حلیمہؓ سے بے انتہا محبت تھی۔ نبوت ملنے کے بعد بھی جب وہ آپ کے پاس آئیں، تو آپ ﷺ ’’میری ماں، میری ماں‘‘ کہہ کر لپٹ گئے۔ حلیمہ کے لئے محمد ﷺ کی جدائی سوہانِ روح تھی۔ لیکن کرتیں کیا؟ کہ اب گھر پہنچانا ضروری تھا، مزید روکنا ممکن نہ تھا۔
پہلا سبب عیسائیوں کا ہمارے نبی ﷺ کو پہچاننا :
ایک روز وہ بیٹھی ہوئی تھیں، اور ساتھ میں محمد ﷺ بھی تھے کہ اتنے میں حبشہ کے کچھ عیسائیوں کا گزر ہوا۔ بچے پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھہر گئے۔ قریب آئے اور اُسے بڑے غور سے دیکھنے لگے۔ ایک ایک چیز کا جائزہ لینے لگے۔ حلیمہ سے پوچھا بھی:
کیسا بچہ ہے یہ ؟
پھر وہ آپس میں باتیں کرنے لگے۔
اس بچے کو لے لیں۔ اس کو اپنے یہاں لے چلیں گے۔ یہ بچہ ایک عظیم انسان ہوگا۔ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ کیا بنے گا!
حلیمہ ان کا مطلب سمجھ گئیں، اُن کے ارادوں کو بھانپ گئیں، ان کی سازشوں سے گھبرا اٹھیں اور ڈریں کہ کہیں سچ مچ وہ اُسے چھین نہ لیں، موقع پاکر اُچک نہ لیں یا کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ چنانچہ وہ نظربچا کر بھاگ کھڑی ہوئیں، اور بچے کو لے کر غائب ہوگئیں۔
دوسرا سبب ننھے حضور ﷺ کا آپریشن تھا :
آپﷺ ایک دن اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ جنگل میں بکریاں چرا رہے تھے، جبرائیل و میکائیل تشریف لائے، آپ کو پکڑ کر لٹایا۔ آپ کا سینہ مبارک چیر کر دل کو نکالا (شق صدر کے یہی معنی ہیں) پھر اسے آسمان سے آئے ہوئے طباق میں رکھ کر برف یا آب زم زم سے دھویا پھر سینے میں لگاکر دوبارہ سینہ جوڑ دیا۔ یہ حرکت دیکھ کر رضاعی بھائی بھاگتا ہوا گھر گیا، حلیمہ کو بتایا۔ میاں بیوی دوڑتے ہوئے آئے۔ آپ ﷺ کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے پوری بات انہیں سنائی تو وہ مزید ڈر گئیں، اور آمنہ کے پاس پہنچا دیا۔(۱۵)

پیارے حضور ﷺ والد کی تلاش میں
اور والدہ کا انتقال

حضور ﷺ اپنی والدہ حضرت آمنہ کے ساتھ رہتے تھے۔ اب ماں کی مامتا تھی، اور دادا کی سرپرستی۔ دونوں محمد ﷺ سے بہت پیار کرتے، ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھتے اور ہر طرح سے آپ ﷺ کا خیال رکھتے، آپ چھ برس کے ہوگئے، تو ماں کا دل چاہا کہ چل کر شوہر کی قبر دیکھیں، چنانچہ وہ مدینہ کے لئے روانہ ہوگئیں اور محمد کو بھی لیتی گئیں۔ شوہر کی ایک باندی تھی، اُمِ ایمن، وہ بھی سفر میں ساتھ تھیں۔ وہاں ایک مشہور خاندان تھا، بنی نجار، محمد ﷺ کے دادا کی ننھیال اسی خاندان میں تھی، اس لئے بی بی آمنہ جاکر وہیں ٹھہریں۔
بی بی آمنہ مدینہ منورہ پہنچیں، تو پیارے بیٹے کو وہ گھر دکھایا، جہاں اس کے پیارے والد نے وفات پائی تھی۔ وہ جگہ بھی دکھائی جہاں وہ ہمیشہ کی نیند سو رہے تھے۔(قبر مبارک)
آج پہلا دن تھا کہ اس معصوم بچے نے یتیمی کا مفہوم سمجھا۔ آج پہلا موقع تھا کہ اس کے شیشۂ دل پر رنج و غم کا عکس پڑا۔
وہاں ایک مہینہ گزار کر بی بی آمنہ نے گھر لوٹنے کا ارادہ کیا اور محمد ﷺ کو لے کر مکہ کے لئے روانہ ہوگئیں۔ شوہر کی طرح بی بی آمنہ بھی بیمار پڑ گئیں۔ حجفہ سے ۲۳ میل پر ایک گاؤں ہے ابواء ۔ وہاں پہنچیں تو حالت نازک ہوگئی، اور پھر سنبھل نہ سکھیں۔ وفات پا گئیں، اور وہیں دفن ہوئیں۔ عبداللہ کی وفات بھی تو پردیس میں ہوئی تھی! اور دفن بھی اسی طرح ہوئے تھے۔ قوم و وطن سے بہت دُور!
آپ ﷺ یتیم تھے۔ باپ کے سائے سے محروم تھے۔ ابھی اس یتیمی کا شعور ہوا ہی تھا کہ ماں بھی انتقال کر گئیں، باپ کی قبر دیکھی ہی تھی کہ ماں کی بھی قبر تیار ہوگئی ۔ اب آپ ﷺ تنہا رہ گئے۔ ماں ساتھ تھیں، تب بھی آپ ﷺ کو یتیمی کا ملال تھا۔ بھلا دل پر کیا بیتی ہوگی جبکہ یہ سہارا بھی ٹوٹ گیا۔(۱۶)
پیارے یتیم، دادا کی سرپرستی اور محرومی :
اُمِّ ایمن نے آپ ﷺکو اپنی حفاظت میں لے لیا اور بڑے پیار سے گھر لائیں۔ مکہ پہنچے تو آپ ﷺ بلک بلک کر رو رہے تھے۔ آج آمنہ کے لال کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔
اس حادثے کا عبدالمطلب پر بڑا اثر ہوا اور محمد ﷺ کے لئے ان کے سینے میں ماں کی محبت اور باپ کی شفقت اُبل پڑی۔ اب وہ آپ ﷺ پر بے انتہا مہربان ہوگئے۔ پہلے سے زیادہ چاہنے لگے۔ بڑی محبت سے پیش آتے۔ لطف و کرم کی بارش کرتے۔ ہر آن آپ ﷺ کا خیال رکھتے۔ ہر طرح سے دلجوئی فرماتے۔ اپنی ذات اور اپنی اولاد سے بڑھ کر آپ ﷺ کی فکر رکھتے۔
عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ کعبہ کے زیر سایہ اپنی گدی پر بیٹھتے تو بیٹے ادب و احترام میں گدی سے ذرا دُور بیٹھے ہوتے۔ لیکن محمد ﷺ آ جاتے، تو عبدالمطلب انہیں اپنے پاس بلاتے، اپنی گدی پر بٹھاتے، اور پیار سے پیٹھ سہلاتے۔ لیکن افسوس! عبدالمطلب بھی زیادہ نہ ٹھہرے، محمد ﷺ ابھی آٹھ سال دو ماہ دس دن کے ہوئے تھے کہ دادا بھی ۸۲ سال کی عمر میں چل بسے۔ دادا کی موت سے آپ ﷺ کے دل کو سخت صدمہ پہنچا۔ ویسا ہی صدمہ جیسا اس سے پہلے ماں باپ کی موت پر ہوا تھا۔(۱۷)
دادا کے انتقال کے بعد اپنے چچا ابوطالب کی سرپرستی میں آ گئے۔(۱۸) یتیمی سے دُرِّیَتِیْمِیْ (۱۹) تک کا سایہ طویل ہوتا گیا۔
محنت و مشقت کرکے کمانے والا پیارا بچہ :
عبدالمطلب کی کئی بیویاں تھیں، ان بیویوں سے دس بیٹے تھے، ابوطالب نہ تو بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور نہ مالدار ہی تھے۔ البتہ سب سے زیادہ با ہمت تھے۔
عبدالمطلب کی طرح ابوطالب بھی بھتیجے کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے۔ سوتے تو ساتھ لے کر سوتے، کہیں جاتے تو ساتھ لے کر جاتے۔ آپ ﷺ کے آگے نہ ان کو اپنی جان کی فکر ہوتی، نہ اپنے بچوں کی۔ ان کو آپ ﷺ سے اس قدر محبت کیوں تھی؟ آپ ﷺ دن رات ان کی نگاہوں کے سامنے رہتے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ آپ ﷺ کے اندر سچائی اور ایمان داری ہے۔ شرافت اور پاکبازی ہے۔ بات بات سے ذہانت کا ثبوت ملتا ہے۔ ایک ایک چیز سعادت مندی اور خوش بختی کا پتہ دیتی ہے۔
چچا کی سرپرستی میں چار سال گزر گئے۔ جسم پروان چڑھتا رہا۔ عقل کا دائرہ وسیع ہوتا رہا، اور فطری صلاحیتیں اُبھرتی رہیں۔
بارہ سال کے ہوئے تو جسم میں کافی مضبوطی اور توانائی آ چکی تھی۔ عقل میں غیر معمولی گہرائی تھی۔ ذہانت بلا کی تھی۔ روح میں بے پناہ عظمت و بلندی تھی۔ وسعت و ہمہ گیری تھی۔ احساس و شعور سے وہ پوری طرح بھرپور تھی۔
پیارے بچے نے چچا کا ہاتھ بٹانے میں اور محنت کرنے میں بالکل شرم محسوس نہیں کی، خود فرماتے ہیں میں چند قیراط (رقم۔ پیسوں) کے بدلے اہل مکہ کی بکریاں چراتا تھا۔(۲۰) بکریاں چرانا بہت مشقت کا کام ہے۔ صبح سے شام تک جانوروں کو قابو میں رکھنا درندوں سے حفاظت کرنا، گم شدگی سے بچانا بہت اہم ذمہ داری ہے۔
بارہ سال کا تاجر بچہ :
آپ ﷺ کی عمر تقریباً بارہ سال تھی (۲۱) ابوطالب نے شام کے تجارتی سفر پر جانے کا ارادہ کیا۔ سفر دور دراز کا تھا اور راستہ دشوار، اس لئے آپ ﷺ کو ساتھ لے جانے کا خیال نہ تھا، لیکن وہ چلنے لگے، تو آپ ﷺ لپٹ گئے، ابوطالب نے سوچا، سفر تو دشوار ہے، مگر بھتیجا بھی ہوشیار ہے، اور یہی سوچ کر وہ بخوشی ساتھ لے جانے پر تیار ہوگئے۔
تجارتی قافلہ روانہ ہوگیا، قافلہ میں آپ ﷺ بھی تھے۔ راستے میں آپ ﷺ جو کچھ دیکھتے، اس پر غور کرتے۔ جو کچھ سنتے، اس پر سوچ بچار کرتے، اور سب کچھ ذہن میں محفوظ کرتے جاتے۔
قافلہ مختلف علاقوں سے گزرا۔ بہت سے شہروں میں ٹھہرا اور بالآخر شام کی سرزمین پر پہنچ گیا، اور وہاں کے ایک مشہور شہر بُصریٰ میں پڑاؤ ڈال دیا۔
بُحیِریٰ عیسائی راہب کا ہمارے نبی ﷺ کو پہچان لینا :
بُصریٰ میں بُحِیریٰ نامی ایک رَاہِبْ تھا۔ اس کے گرجا گھر کے پاس ہی ایک سایہ دار جگہ تھی۔ قریشی تاجر جب بھی بصریٰ پہنچتے۔ وہیں پر ٹھہرتے۔ ٹھہر کر کچھ دیر آرام کرتے، پھر آڑھتیوں اور بیوپاریوں سے ملتے۔
ابھی کوئی بہت زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔ لوگ اسی طرح اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے کہ ایک قاصد آیا اور بولا:
آپ لوگ بحیریٰ کے یہاں تشریف لے چلیں۔ انہوں نے کھانے کا اہتمام فرمایا ہے، اور آپ تمام لوگوں کو دعوت دی ہے۔
لوگ حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ نگاہیں گویا ایک دوسرے سے پوچھ رہی تھیں؟
وہ یہاں کئی بار آئے، ٹھہرے اور چلے گئے، لیکن بحیریٰ نے کبھی نہیں پوچھا، آج ہی وہ کیوں اتنا مہربان ہوگیا؟
بہرحال کرتے کیا، دعوت قبول کرلی اور تمام لوگ قاصد کی رہنمائی میں روانہ ہوگئے۔ ہاں صرف محمد ﷺ رہ گئے۔ آپ ﷺ نہیں گئے۔ اس لئے کہ ابھی آپ ﷺ بچے تھے۔ بحیریٰ نے سب کا ہی پرتپاک خیرمقدم کیا، بولا:
بھائیو! میں چاہتا ہوں کہ آج تم سب میرے ساتھ کھانا کھاؤ، اور تم میں سے کوئی بھی نہ رہ جائے۔
اہلِ قافلہ بولے: ہم سب آ گئے ہیں، ہاں، ایک چھوٹا لڑکا بھی ساتھ تھا، اس کو وہیں چھوڑ آئے ہیں۔
بحیریٰ نے کہا : نہیں نہیں لڑکا ہے تو کیا ہوا، اس کو بھی بلاؤ، وہ بھی یہیں کھانا کھائے گا۔
اس سے ان کی حیرانی اور بڑھ گئی، کہ ایک تو خلافِ معمول دعوت کی۔ پھر یہ بھی اصرار کہ کوئی رہ نہ جائے۔ چنانچہ انہوں نے پوچھا:
بحیریٰ ! کیا بات ہے کہ آج آپ نے ہماری دعوت کی ہے۔ اس سے پہلے تو کبھی کرتے نہ تھے؟
بحیریٰ نے کہا: آپ لوگ مہمان ہیں۔ ہمارے پڑوس میں آکر ٹھہرے ہیں۔ ہم پر آپ کا حق ہے۔ ہمیں اس کا خیال کرنا ہی چاہئے۔ میں نے چاہا کہ آپ لوگوں کی کچھ خاطر خواہ تواضع ہو جائے اور کیا بات ہوسکتی ہے؟
انہوں نے کہا : بخدا کوئی بات ہے ضرور!!
پھر قاصد ابوطالب کے ڈیرے پر گیا اور محمد ﷺ کو ساتھ لے کر آیا۔ بحیریٰ اور تمام مہمان بیٹھے آپ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے۔
بحیریٰ کی نظریں محمد ﷺ پر پڑیں تو جم کر رہ گئیں۔ وہ ٹکٹکی لگائے آپ ﷺ کو دیکھتا ہی رہ گیا۔
سب نے کھانا کھایا، اور ادھر اُدھر پھیل گئے۔ کوئی تو چہل قدمی کر رہا تھا اور کوئی گھوم گھوم کر بحیریٰ کا گرجا گھر دیکھ رہا تھا۔ اس وقت بحیریٰ آپ ﷺ کے پاس آیا اور بولا:
بیٹے! تمہیں لات و عزیٰ کی قسم! جو کچھ پوچھوں بتلا دینا!!
آپ ﷺ نے فرمایا : جِرْجِیْس (راھب کا نام تھا) لات و عزیٰ کی قسم نہ دیجئے۔
بحیریٰ نے کہا : اچھا خدا کی قسم! جو کچھ پوچھوں، سب بتلا دینا!
آپ ﷺ نے فرمایا: پوچھیے، کیا پوچھتے ہیں؟
اب بحیریٰ آپ ﷺ سے آپ ﷺ ہی کے بارے میں مختلف سوالات کرنے لگا۔ کچھ مزاج اور طبیعت کا حال پوچھا۔ کچھ عادات و اخلاق کے بارے میں دریافت کیا۔ اور آپ ﷺ اس کے ہر سوال کا جواب دیتے رہے۔ اتنے میں ابوطالب محمد ﷺ کو لینے آ گئے۔
بحیریٰ نے پوچھا : یہ لڑکا تمہارا کون ہوتا ہے؟
ابوطالب : یہ میرا بیٹا ہے۔
بحیریٰ: یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تمہارا بیٹا نہیں۔ اس لڑکے کا باپ زندہ ہو، یہ ہو نہیں سکتا۔
آپ ﷺ کے بارے میں بحیریٰ کی یہ معلومات دیکھیں، تو ابوطالب دنگ رہ گئے۔
بولے: ہاں، یہ میرا بھتیجا ہے۔
بحیریٰ: اور اس کا باپ؟
ابوطالب : ابھی یہ ماں کے پیٹ ہی میں تھا کہ باپ کا انتقال ہو گیا۔
بحیریٰ: تم نے سچ کہا۔ اب اپنے بھتیجے کو گھر واپس لے جاؤ، اور دیکھو، اسے یہودیوں سے بچائے رکھنا۔ خدا کی قسم! اگر انہوں نے دیکھ لیا، اور جس حدتک میں نے اسے پہچان لیا ہے۔ انہوں نے پہچان لیا، تو اس کی جان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ تمہارا یہ بھتیجا ایک عظیم انسان ہوگا۔
لوگوں نے پوچھا تمہیں اس کے نبی ہونے کا کیسے پتہ چلا؟ کہنے لگا میں نے درختوں کو اس کے سامنے جھکتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہماری کتابوں میں یہی علامات لکھی ہیں۔ ابوطالب یہ سن کر پریشان ہوگئے۔ انہیں اپنے سفر سے زیادہ پیارا بھتیجا عزیز تھا، لہٰذا انہوں نے بصریٰ ہی سے پیارے محمد ﷺ کو واپس مکہ روانہ کر دیا۔(۲۲)
بہادر نوجوان محمد ﷺ :
آپ ﷺ بچپن سے بہادرانسان تھے، جب آپ ﷺ کی عمر پندرہ اور بیس سال کے درمیان تھی قبیلہ قریش اور قبیلہ قیس کے درمیان جنگ ہوئی۔ جسے حرب فجار کہاجاتا ہے۔ آپ ﷺ نے اس میں شرکت کی، لیکن لڑائی میں حصہ نہیں لیا، اس لئے کہ آپ ﷺ قومیت کی خاطر جنگ کرنے کو پسند نہیں فرماتے تھے۔(۲۳)
مظلوموں کا حامی نوجوان ﷺ :
عرب میں مدتوں جاری رہنے والی جنگ، ظلم و تشدد کے خاتمے، امن کے قیام اور مظلوموں کی مدد کے لئے چند افراد نے ایک معاہدہ کیا تھا جس میں فضل بن فضالہ، فضل ابن وداعہ اور فضل بن حارث شامل تھے۔ ان افراد کے ناموں کی مناسبت سے اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔(۲۴) حضور ﷺ اس معاہدے میں شریک تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اگر مجھے اس معاہدہ کو توڑنے پر سرخ اونٹ بھی پیش کئے جائیں تو بھی میں اسے توڑنے پر تیار نہیں ہوں گا۔(۲۵) اس معاہدہ کے وقت آپ ﷺ کی عمر بیس سال تھی۔(۲۶)
مکہ کا کامیاب نوجوان تاجر ﷺ :
جب آپ ﷺ کی عمر پچیس سال ہوئی، مکہ میں آپ ﷺ کی امانت وصداقت کا چرچا ہوچکا تھا۔ اس لئے خدیجہؓ نے اپنے مال کی تجارت کے لئے آپ ﷺ کو منتخب کیا۔ آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کا سامان تجارت لے کر ملک شام کا سفر کیا۔ آپ ﷺ کے ہمراہ خدیجہؓ کا غلام میسرہ بھی تھا، یہ سفر بہت کامیاب رہا۔ خوب نفع حاصل ہوا۔(۲۷) اور حیران کن واقعات بھی پیش آئے۔ جب واپس مکہ آئے۔ آپ ﷺ دروازہ پر پہنچے تو خدیجہؓ نے بڑے خلوص سے استقبال کیا اور خیریت سے واپس آنے پر خوشی کا اظہار کیا۔ پھر آپ ﷺ نے بڑے اچھے اور دلکش انداز سے سفر کا پورا حال سنایا۔ کاروبار کی بھی روداد بیان کی کہ کیا بیچا؟ کیا خریدا اور کتنا نفع اٹھایا؟
خدیجہؓ پورے شوق اور دلچسپی سے ساری داستان سنتی رہیں، دل ہی دل میں عش عش کرتی رہیں۔ آپ ﷺ کی باتوں سے انہیں بڑی خوشی ہو رہی تھی۔ آپ ﷺ کی خوش کلامی ان کے دل کو بھا رہی تھی۔ اور آپ ﷺ کی ایمانداری اور سچائی ان کا دل موہ رہی تھی۔ پھر اس بار تجارت میں بے انتہا برکت ہوئی۔ اتنی کہ اور کبھی نہ ہوئی تھی۔ اس سے بھی وہ بہت متاثر تھیں۔
پھر میسرہ کی زبانی آپ ﷺ کے حالات سنے، تو دل خوشی سے لبریز ہوگیا، اور پھر اتنی حیرت اور مسرت ہوئی جس کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔
میسرہ نے بتایا کہ آپ ﷺ نے کس طرح تجارت کی۔ معاملات میں کتنی سچائی اور ایمانداری دکھائی، اور پھر کس قدر ان کے مالِ تجارت کی فکر رکھی، اور جان و دل سے اس کی حفاظت کی۔
عیسائی راہب نسطور کا محمد ﷺ کے نبی ہونے کی خبر دینا :
پھر راہب نَسْطُوْر کا واقعہ سنایا اور آپ ﷺ کے بارے میں اُس نے جو خوش خبری دی تھی، وہ بھی سنائی کہ:
جہاں قافلے کا پڑاؤ تھا، اس سے قریب ہی ایک بہت بھاری درخت تھا۔ ایک روز معمول کے مطابق آپ ﷺ اسی کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ میسرہ اُدھر کچھ کام میں مصروف تھا۔ پاس ہی ایک گرجا گھر تھا۔ اس میں سے ایک راہب نکلا، اور میسرہ کے پاس آیا۔ یہ تھا نسطور راہب (پادری)، میسرہ یہاں تجارت کے لئے ہرسال آتا تھا، اس لئے نسطور اس سے خوب واقف تھا۔ وہ بولا:
میسرہ!تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟
میسرہ : قریش کا ایک جوان !
راہب : تم نے اس میں کیا کیا اوصاف دیکھے؟
میسرہ : ایمانداری، پاکیزگی اور ستھرائی، نرم مزاجی، اور خوش اخلاقی، افکار و خیالات کے سمندر میں اسی طرح غرق رہنا، نگاہ تصورات سے کائنات کا مطالعہ کرنا۔
نسطور نے بڑی بے تابی سے پوچھا : اور آنکھیں کس قسم کی ہیں؟
میسرہ پہ کچھ گھبراہٹ سی طاری ہوئی، بولا:
آنکھیں سیاہ اور چوڑی ہیں۔ سفید حصے میں سرخ ڈورے ہیں۔ پلکیں سیاہ اور باریک ہیں۔ کچھ بڑی بڑی بھی ہیں، جو آنکھوں کا حسن دوبالا کرتی ہیں۔
نسطور، جو اب آپ ﷺ کے پاس آنے کے لئے پرتول رہا تھا، بولا: میسرہ! جو اس درخت کے نیچے ٹھہرے اور اس میں یہ یہ خوبیاں ہوں، وہ نبی ہی ہوسکتا ہے!
پھر وہ آپ ﷺ کے پاس آیا اور اس کی قوم میں جو جو مذہب رائج تھے ان کے بارے میں سوالات کرنے لگا۔ وہ چاہتاتھا کہ اس سلسلے میں آپ ﷺ کے خیالات معلوم ہوں، اور اندازہ ہو کہ آپ ﷺ کے دل میں ان مذاہب کا کیا مقام ہے۔ آخر میں اس نے کہا جو علامات آپ ﷺ کے اندر پائی جاتی ہیں وہ ہماری کتاب میں موجود ہیں۔ خدیجہؓ (۲۸) میسرہ کی روئیداد سن کر بہت حیران ہوئیں۔
پیارے محمد ﷺ کا معجزہ :
میسرہ :ایک واقعہ اور ہوا، جس پر میں حیران رہ گیا۔ سفر سے ہم لوگ واپس ہو رہے تھے، میرے ساتھ دو اونٹ تھے۔ دونوں تھک کر جواب دے چکے تھے۔ میں بہت پیچھے تھا۔ اندیشہ ہوا کہ کہیں قافلہ آگے نہ بڑھ جائے اور میں تنہا رہ جاؤں۔ چنانچہ جلدی سے میں محمد ﷺ کے پاس گیااور اُن کو سارا حال بتایا، یہ سن کر پہلے تو انہوں نے دونوں سواریوں کے پیر سہلائے، پھر نکیل ہاتھ میں لی اور ان کو ہنکایا، اور اب وہ اس طرح اچھلنے لگے جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔
خدیجہ بہت حیران ہوئیں۔ بولیں: بھئی! ان میں تو بڑی عجیب و غریب خصوصیات ہیں!!
خدیجہؓ عقیدت اور محبت کے درمیان :
جس شخص میں اتنی ساری خوبیاں ہوں، ظاہر ہے کہ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے اس کا ساتھ نصیب ہو۔چنانچہ وہ خدیجہؓ جن کو قریش کے بڑے بڑے رئیسوں نے نکاح کا پیغام بھیجا تھا اورانہوں نے ہر ایک کو ٹھکرا دیا تھا۔انہوں نے اپنی ایک سہیلی نَفِیْسَہ بِنْتِ عَلِّیہ سے ان خوبیوں کا ذکر کیاتو انہوں نے بے ساختہ کہا:
خدیجہ!کیا حرج ہے؟ امین سے نکاح کرلو!
خدیجہ : اس کی شکل کیا ہوگی؟
نفیسہ : میں اس کی ذمہ دار ہوں۔
پھر وہ آپ ﷺ کے پاس آئیں اور بولیں:
محمد ﷺ ! نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟
آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پاس ہے کیا جو کرلوں؟
وہ بولیں : اچھا بتاؤ، اگر کوئی انتظام ہو جائے، اور ایک نہایت حسین اور مالدار خاتون سے نکاح کرنے کو کہا جائے۔ تو کیا تیار ہو جاؤ گے؟
آپ ﷺ نے فرمایا : وہ کون؟
وہ بولیں: خدیجہ !
خدیجہؓ کے اخلاق اور دانائی سے آپ ﷺ بہت متاثر تھے۔ آپ ﷺ نے جیسا سنا تھا، ان کو ویسا ہی پایا تھا۔ لوگ ان کو ’’طاہرہ‘‘ کہتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان کو طاہرہ (پاک صاف) ہی پایا تھا۔ مگر ان سے نکاح؟ یہ تو آپ ﷺ کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔
آپ ﷺ نے فرمایا : لیکن خدیجہ سے نکاح کی کیا شکل ہوگی؟
نفیسہ نے آپ ﷺ کو بھی وہی جواب دیا : یہ میرے ذمہ ہے!
پھر آپ ﷺ ابوطالب کے پاس پہنچے، اور ان سے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ ابوطالب نے سنا تو سخت حیران ہوئے۔ مگر آپ ﷺ کی زبان سے کبھی جھوٹ یا غلط بات تو سنی نہ تھی۔ اس لئے انکار بھی نہ کرسکتے تھے۔ البتہ بولے:
تعجب ہے بیٹے! خدیجہ ، قریش کی معزز خاتون، مال و دولت اور جاہ و منصب والوں کو تو ٹھکرا دے، اور تم کو اپنا شوہر بنانا پسند کرلے!
پھر بولے۔!
لیکن بیٹے ! اگرچہ تم مال کے کنگال ہو، پر شرف و عزت سے مالا مال ہو!
آپ ﷺ نے فرمایا : چچا! نہ مجھے مال کی لالچ ہے، نہ اس کی کوئی ضرورت،
عظیم محمد ﷺ کی خدیجہؓ سے شادی خانہ آبادی :
ابوطالب نے حمزہ کو ساتھ لیا، اور خدیجہؓ کے چچا عمرو بن اسد کے پاس گئے۔ حضرت خدیجہؓ کے بھائی عمرو بن خویلد سے بھی ملے، اور آپ ﷺ کی طرف سے خدیجہؓ کے لئے نکاح کا پیغام دیا۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر ۲۵ سال دو ماہ دس دن ہوچکی تھی۔ (۲۹) جبکہ حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال ہو چکی تھی۔(۳۰) اور آپ ﷺ سے ان کی یہ تیسری شادی تھی۔ (اس سے قبل دونوں شوہر انتقال کر چکے تھے) شادی کا دن طے ہوگیا۔ تمام شرفاء خدیجہؓ کے مکان پر جمع ہوئے۔ ابوطالب نے خطب�ۂ نکاح دیا۔ خطبہ بہت شاندار تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے بڑے آپ ﷺ کے اخلاق و اوصاف سے کس قدر متاثر تھے۔ حمد و ثنا کے بعد بولے:
’’یہ میرے بھائی عبداللہ کا بیٹا محمد ﷺ ہے۔ یہ وہ نوجوان ہے کہ قریش میں اس جیسا کوئی نہیں، ہاں، مال اس کے پاس کم ہے۔ لیکن مال تو چلتی پھرتی چھاؤں ہے۔ محمد ﷺ میرا عزیز ہے۔ یہ تم سب جانتے ہو۔ وہ خویلد کی بیٹی خدیجہ سے نکاح کرنا چاہتا ہے اور میرے مال سے بیس اونٹ مہر مقرر کرتا ہے۔ بخدا اس کا مستقبل انتہائی شاندار ہے۔‘‘
اس طرح یہ مبارک تقریب انجام پاگئی، اور خاتون قریش، امینِ قریش کے گھر آ گئی۔ (۳۲)
مثالی میاں بیوی :
خدیجہؓ کے ساتھ آپ ﷺ کی زندگی انتہائی پرلطف تھی۔ ان کی رفاقت آپ ﷺ کے لئے راحت ہی راحت تھی۔ وہ ایک نہایت ہوشیار، تجربہ کار اور سمجھدار خاتون تھیں۔ انہوں نے آپ ﷺ کی طبیعت اور مزاج کو، آپ ﷺ کی پسند اور ناپسند کو خوب پہچان لیا، اور ہمیشہ اس کا پورا پورا خیال رکھا۔ آپ ﷺ کے جذبات اور رجحانات کو، آپ ﷺ کی امنگوں اور دلچسپیوں کو اچھی طرح سمجھ لیا، اور ان کے سلسلے میں آپ ﷺ کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا اور ہر طرح سے سہولتیں پہنچانے کے لئے کمربستہ رہیں۔
تو کیا آپ ﷺ خدیجہؓ کے حقوق سے غافل رہے؟ نہیں، ایسا نہ تھا۔ اگر خدیجہؓ ایک وفاشعار اور فرض شناس بیوی تھیں، تو آپ ﷺ بھی ایک مثالی شوہر تھے۔ عبادت کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ خدیجہؓ کا بھی پورا خیال رکھتے۔ ان کے سارے حقوق ادا کرتے۔ اُن کے ذوق، اور طبیعت کی پوری رعایت رکھتے۔ ان کے مال کی ہر طرح حفاظت کرتے، ان کی تجارت کو فروغ دیتے۔وہ جب تک زندہ رہیں آپ ﷺ نے دوسری شادی نہیں کی۔ غرض آپ ﷺ ایک انتہائی محبوب اور حق شناس شوہر تھے۔ خدیجہؓ کے لئے آپ ﷺ کے رہن سہن میں بڑی دل کشی، اور جاں نوازی تھی۔ آپ ﷺ کا ساتھ ان کے لئے بڑا ہی سکون بخش اور پُرکیف تھا۔
خانہ کعبہ کی نئی تعمیر
خانہ کعبہ کو کعبۃ اللہ، بیت اللہ اور بیت الحرام بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ملکر اسے تعمیر کیا۔(۳۲) اس جگہ پہاڑوں کی وجہ سے سیلاب زیادہ آتا تھا، جس کے سبب ایک دفعہ قوم عمالقہ نے دوسری دفعہ جرھم قبیلہ نے اسے تعمیر کیا۔ (۳۳) تیسری دفعہ جب عہد نبوی ﷺ میں سیلابی پانی نے اسے تباہ کیا تو آپ ﷺ نے دیگر افراد کے ساتھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔
سوال پیدا ہوا کہ پرانی عمارت ڈھا دی جائے؟ اور پھر سے نئی عمارت بنائی جائے؟ اگر یہ رائے ہے تو اس کا وزن کون اٹھائے؟ کون اسے ڈھائے؟ اور پھر کون اسے تعمیر کرے۔
کعبہ اللہ کا سب سے مقدس گھر ہے۔ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں اسے ڈھانے سے اللہ ناراض نہ ہو جائے۔ کہیں سر پر کوئی عذاب نہ آ جائے۔ عقل حیران تھی کہ کریں تو کیا کریں؟
خدا کا کرنا، انہی دنوں ایک رومی آدمی مصر سے جہاز لے کر چلا۔ وہ حبشہ جا رہا تھا مگر جہاز جدہ کی بندر گاہ پر پہنچا تو ساحل سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔ اس جہاز پر عمدہ قسم کی لکڑیاں اور بہترین قسم کا تعمیر ی سامان تھا۔ اس آدمی نے سارا سامان بندرگاہ پر اتار دیا، اور انتظار کرنے لگا کہ کوئی جہاز حبشہ جانے والا ملے تو سامان لاد کر وہ لے جائے۔ قریش کو اس واقعہ کی خبر لگ گئی، لہٰذا فوراً انہوں نے کچھ آدمی دوڑائے۔ جہاز والے کا نام باقوم تھا۔ قریش نے اس سے تختے خرید لئے۔ یہ رومی شخص انجینئر تھا۔ لہٰذا اس کے مشورے اور مکہ کے رہنے والے مصری کاریگر صلیح کے مشورے سے کعبہ کی تعمیر شروع کی گئی۔
ان کے ساتھ تمام قریش نے مل کر کعبہ کی تعمیر کا کام شروع کیا۔ مختلف قبیلوں نے عمارت کے مختلف حصے آپس میں تقسیم کرلئے تاکہ تعمیر کے شرف سے کوئی محروم نہ رہ جائے۔ لیکن جب حجرِ اسود کے نصب کرنے کا موقع آیا تو سخت جھگڑا پیدا ہوا، ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ یہ شرف اس کو حاصل ہو۔ یہ جھگڑا اتنا بڑھا کہ تلواریں میانوں سے نکل آئیں۔ پیالے میں خون بھر کر اس میں ہاتھ ڈبوکر عہد کرنے کی رسم ادا کی گئی۔ چار روز تک یہ جھگڑا جاری رہا۔ پانچویں دن ابواُمیّہ بن مغیرہ نے جو قریش میں سب سے بوڑھا تھا، مشورہ دیا کہ کل صبح جو سب سے پہلے حرم میں داخل ہو اس سے اس جھگڑے کا فیصلہ کرالیا جائے، وہ جو رائے دے اسے سب مانیں، اس تجویز کو سب نے قبول کرلیا۔(۳۴)
پیارے نبی ﷺ کا پیارا فیصلہ :
اللہ کی قدرت کہ صبح کو سب سے پہلے حرم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے۔ سب نے کہا یہ سچے اور امانت دار ہیں، ہمیں ان کا فیصلہ منظور ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو قبیلے دعویدار ہیں، وہ سب ایک ایک سردار منتخب کرلیں۔ جب یہ انتخاب ہوگیا تو حضور ﷺ نے ایک چادر بچھاکر حجر اسود کو اس میں رکھ دیا اور سرداروں سے کہا کہ چادر کے چاروں کونے تھام لیں اور اُوپر کو اٹھائیں۔ جب چادر اس مقام تک آئی جہاں حجر اسود کو نصب کرنا تھا تو حضور ﷺ نے اُسے اٹھاکر نصب فرما دیا۔ اس طرح ایک سخت لڑائی ایک پینتیس سالہ نوجوان کی بہترین تدبیر سے رُک گئی۔

 

سوال جواب

۱)۔۔۔ آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟
اکثر سیرت نگاروں کا اتفاق ہے پیر کا دن ۹/ ربیع الاوّل کی تاریخ تھی، بمطابق ۲۰/ اپریل ۵۷۱ عیسوی۔
۲)۔۔۔ آپ ﷺ کا نام کیاتھا اور کس نے رکھا؟
آپ ﷺ کی والدہ نے آپ کا نام احمد اور دادا عبدالمطلب نے محمد رکھا تھا۔
۳)۔۔۔ آپ ﷺ کا رسم عقیقہ کب اور کس نے کیا؟
ولادت کے ساتویں روز عبدالمطلب نے آپ ﷺ کی رسم عقیقہ ادا کی۔
۴)۔۔۔ آپ ﷺ کو پیدائشی اعتبار سے کیا خصوصیت حاصل تھی؟
مختون تھے۔
۵)۔۔۔ آپ ﷺ کو کتنی خواتین نے کتنے کتنے عرصہ دودھ پلایا؟
حضرت آمنہؓ نے دو یاتین دن اس کے بعد حضرت ثوبیہؓ نے کچھ دن اور اس کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے تقریباً دو سال تک آپ ﷺ کو دودھ پلایا۔
۶)۔۔۔ آپ ﷺ کے رضاعی والد اور حلیمہ کے شوہر کا نام کیا تھا؟
حارث ابن عبد العزیٰ،
۷)۔۔۔ آپ ﷺ کے رضاعی بھائی کا نام کیا تھا؟
عبداللہ۔
۸)۔۔۔ حضرت حلیمہ کی کنیت کیا تھی؟
اُمِّ کَبْشَہْ
۹)۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آمنہ کے پاس کب واپس آئے؟
جب آپ ﷺ کی عمر پانچ سال کی ہوئی تو عرب دستور کے مطابق واپس اپنی والدہ کے پاس آ گئے۔
۱۰)۔۔۔ پہلا شق صدر (آپریشن) کا واقعہ کب اور کہاں پیش آیا؟
چار سال کی عمر میں جب آپ اپنے بھائی کے ساتھ جنگل میں بکریاں چرا رہے تھے۔
۱۱)۔۔۔ حضرت آمنہ نے کہاں وفات پائی اس وقت آپ ﷺکی عمر کیا تھی؟
حضرت آمنہ نے ابواء گاؤں میں وفات پائی اس وقت آپ ﷺ کی عمر چھ سال تھی۔
۱۲)۔۔۔ والدہ کے انتقال کے بعد آپ ﷺ کی پرورش کس نے کی؟
آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب نے۔
۱۳)۔۔۔ آپ ﷺ کے دادا کا انتقال کب ہوا؟ اس وقت آپ ﷺ کی عمر کیا تھی؟
آپ ﷺ آٹھ سال دوماہ دس دن کے تھے جب آپ کے دادا ۸۲ سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
۱۴)۔۔۔ دادا کے انتقال کے بعد آپ کی پرورش کس نے کی؟
دادا کے انتقال کے بعد آپ ﷺ کے چچا ابوطالب نے آپ ﷺ کو اپنی پرورش میں لے لیا۔
۱۵)۔۔۔ آپ ﷺ اپنے چچا کا ہاتھ کس طرح بٹاتے تھے؟
معاوضہ پر اہل مکہ کی بکریاں چراکر۔
۱۶)۔۔۔ ابوطالب نے تجارت کے لئے کہاں کا سفر کیا؟ اور ان کے ساتھ کون تھا؟
شام کا سفر کیا، ساتھ میں نبی کریم ﷺ تھے۔
۱۷)۔۔۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر کتنی تھی؟
بارہ سال،
۱۸)۔۔۔ شام میں قافلہ نے کس جگہ پڑاؤ ڈالا؟
مشہور شہر بصریٰ میں۔
۱۹)۔۔۔ کون سے راہب نے آپ ﷺ کو نبی کی حیثیت سے پہچان لیا تھا؟
بُحیریٰ نامی راہب نے۔
۲۰)۔۔۔ عیسائی راہب نے کیا پیش گوئی کی تھی؟
راہب نے کہا تمہارا بھتیجا ایک عظیم انسان ہوگا۔
۲۱)۔۔۔ لوگوں نے راہب سے کیا سوال کیا؟
تمہیں آپ ﷺ کے نبی ہونے کا کیسے پتہ چلا؟
۲۲)۔۔۔ راہب نے کیا جواب دیاتھا؟
اس نے کہا میں نے درختوں کو آپ ﷺ کے سامنے جھکتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور ہماری کتابوں میں یہ علامات لکھی ہوئی ہیں۔
۲۳)۔۔۔ بحیریٰ نے ابوطالب کو کیا نصیحت کی؟
اس نے کہا محمد ﷺ کو یہودیوں سے بچا کے رکھنا اگر انہوں نے پہچان لیا تو جان کے پیچھے پڑ جائیں گے۔
۲۴)۔۔۔ حرب فجار کب اور کن لوگوں کے درمیان لڑی گئی؟
حرب فجار قبیلہ قریش اور قیس کے درمیان لڑی گئی اس وقت آپ ﷺ کی عمر پندرہ سے بیس سال کے درمیان تھی۔
۲۵)۔۔۔ جنگوں کے خاتمے کے لئے کونسا معاہدہ کیا گیا؟
حلف الفضول کا معاہدہ کیا گیا۔
۲۶)۔۔۔ معاہدے کا نام حلف الفضول کیوں رکھا گیا؟
معاہدے میں شامل ہونے والے افراد کے نام میں فضل آتا تھا اس لئے اس معاہدے کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔
۲۷)۔۔۔ معاہدہ حلف الفضول کے وقت آپ ﷺ کی عمر کتنی تھی؟
بیس سال،
۲۸)۔۔۔ حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر آپ ﷺ نے کہاں کا سفر کیا اور آپ کے ساتھ کون تھا؟
شام کا سفر کیا اور آپ کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کا غلام میسرہ تھا۔
۲۹)۔۔۔ آپ ﷺ کے نبی ہونے کی دوسری گواہی کس نے دی؟ اور کیا ثبوت پیش کیا؟
نسطور راہب (پادری) نے دی اور بتایا جو علامات آپ ﷺ کے اندر ہیں وہ ہماری کتاب میں موجود ہیں۔
۳۰)۔۔۔ حضرت خدیجہؓ نے کس خاتون کے ذریعے آپ ﷺ کو شادی کا پیغام بھیجا؟
نفیسہ بنت علیہ کے ذریعے۔
۳۱)۔۔۔ آپ ﷺ کے نکاح کاپیغام خدیجہ کے بھائی کے پاس لے کر کون گیا؟
ابوطالب اور حمزہؓ آپ ﷺ کے نکاح کا پیغام لے کر گئے۔
۳۲)۔۔۔ حضرت خدیجہؓ کا لقب کیا تھا؟
طاہرہ (پاک باز) تھا۔
۳۳)۔۔۔نکاح کے وقت آپ ﷺ کی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر کیا تھی؟
آپ ﷺ کی عمر ۲۵ سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر ۴۰ سال تھی۔
۳۴)۔۔۔آپ ﷺ کے نکاح کا خطبہ کس نے دیا؟
حضرت ابوطالب نے۔
۳۵)۔۔۔خانہ کعبہ کو کن ناموں سے پکارا جاتا ہے؟
خانہ کعبہ کو کعبۃ اللہ، بیت اللہ اور بیت الحرام کہا جاتا ہے۔
۳۶)۔۔۔ خانہ کعبہ کس پیغمبر نے تعمیر کیا تھا؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کے ساتھ مل کرتعمیر کیا تھا۔
۳۷)۔۔۔کعبہ کی تعمیر بعد میں کتنی مرتبہ ہوئی اور کن لوگوں نے کی؟
ایک مرتبہ قوم عمالقہ نے اس کے بعد جرھم قبیلہ نے، تیسری مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں اس کی تعمیر کی گئی۔
۳۸)۔۔۔حجر اسود نصب کرنے کا جھگڑا کتنے روز جاری رہا؟
چار روز تک۔
۳۹)۔۔۔ جھگڑے کا فیصلہ کس نے کرایا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
۴۰)۔۔۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر کتنی تھی؟
۳۵ برس۔

 

حواشی و حوالہ جات
۱۔ بعض نے تیس دن بھی لکھا ہے لیکن زیادہ مشہور وہی ہے جسے ہم نے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ احمد بن محمد القسطلانی ، ج ۱/ ص ۱۳۹،(المکتب الاسلامی ۱۹۹۱ء ؁) اور بھجۃ الأماثل و بغیۃ المحافل فی تلخیص المعجزات والسیر و الشمائل عماد الدین یحی بن أبی بکر الحرضی، ج ۱/ ص ۳۸، (المکتبۃ العلمیۃ المدینۃ المنورہ)
۲۔ سیرت حلبیہ برہان الدین حلبی، ج ۱/ ص ۱۹۳۔۱۹۶،
۳۔ قصص الانبیاء سید تنظیم حسین ص ۴۶۰،
۴۔ معجم البلدان شہاب الدین أبی عبداللہ یا قوت بن عبداللہ الحموی الرومی ، ج۱/ ص ۴۴۱، (دارصادر بیروت لبنان) اور عیون الاثر فی فنون المغازی والشمائل و السیر فتح الدین محمد بن محمد بن سید الناس الیعمری الاندلسی، ج ۱/ ص ۳۴، (دارالمعرفۃ بیروت)
۵۔ صحیح بخاری کی روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا نام محمد ہے، احمد ہے، ماحی ہے، حاشر ہے، اور عاقب ہے۔ ج ۲/ص ۲۷، (دارالمعرفۃ بیروت) آپ ﷺ کے اس کے علاوہ بھی بہت سے نام احادیث میں منقول ہیں، آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی، دیکھئے طبقات ابن سعد، ج۱/ ص ۱۰۶، (دارصادر بیروت)
۶۔ طبقات ابن سعد (اردو) ج ۱/ ص ۶۴،
۷۔ سیرت النبی ، شبلی نعمانی، ج ۱/ ص ۱۷۲،
۸۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری، ابن حجر عسقلانی ، ج ۹/ ص ۱۴۰، (دارالریان للتراث القاہرۃ ۱۴۰۷ھ)
۹۔ بَنِیْ سَعْد ھَوَازِنْ ہی کے قبیلہ کو کہتے ہیں۔
۱۰۔ یعنی کَبْشَہْ جو ان کی بیٹی تھی اس کی ماں یہ ان کی کینت تھی دیکھئے، سیرت حلبیہ ج ۱/ص ۲۸۰،
۱۱۔ سیرت حلبیہ برہان الدین حلبی، ج ۱/ ص ۲۸۰۔۲۹۰،
۱۲۔ انبیاء کرام ؑ سے خلاف عادت و خلاف فطرت جو کام صادر ہوتا ہے اسے معجزہ کہتے ہیں یہ نبی کی سچائی کی دلیل ہوتا ہے، بزرگوں سے اس طرح کا جو کام ہوتا ہے اسے کرامت کہتے ہیں اور گمراہ لوگوں سے اس طرح کا جو کام سرزد ہو اسے استدراج اور نظر کا دھوکہ کہتے ہیں۔
۱۳۔ سیرت حلبیہ ، ج ۱/ص ۲۸۵،
آپ ﷺ کے ثویبہ کے تعلق سے صرف ایک رضاعی بھائی (دودھ پینے میں شریک بھائی) حضرت حمزہؓ تھے۔ جبکہ حلیمہ کے تعلق سے چار رضاعی بہن بھائی تھے۔ عبداللہ، حذیفہ، انیسہ اور شیما، سیرت حلبیہ سے ایک نام کبشہ بھی معلوم ہوتا ہے۔ دیکھئے : ج۱/ ص ۲۸۰،
۱۴۔ سیرت حلبیہ ، ج ۱/ ص ۳۹۶،
۱۵۔ یہ آپ ﷺ کا پہلا شق صدر تھا۔ یعنی پہلی دفعہ آپ کا سینہ آپریشن کرکے برائیوں کو نکال کر نیکیوں سے بھرا گیا تھا۔ اس وقت آپ ﷺ کی عمر چار پانچ سال کے درمیان تھی، دیکھئے صحیح مسلم کتاب الایمان باب الاسراء / ۷۴، اور سیرت ابن ہشام ج / ۱ ص / ۱۶۶، اور طبقات ابن سعد ج ۱/ ص ۱۱۲، شق صدر چار دفعہ ہوا۔ ایک دفعہ چار سال میں (جو آپ ﷺ نے مطالعہ کیا) دوسری دفعہ دس سال میں تیسری دفعہ نبوت کے وقت چوتھی دفعہ معراج کے وقت، دیکھئے سیرت المصطفیٰ ﷺ ، مولانا ادریس کاندھلوی، ج ۱/ ص ۷۸،
۱۶۔ طبقات ابن سعد، ج ۱/ ص ۱۱۶، اور سیرت ابن ہشام ، ج ۱/ ص ۱۵۵،
۱۷۔ مصنف عبدالرزاق الصنعانی، ج ۵ / ص ۳۱۸،
۱۸۔ طبقات ابن سعد، ج ۱/ ص ۱۱۷،
۱۹۔ یتیم اسے کہتے ہیں جس کے والد کا انتقال ہوگیا ہو، اور درِیتیم اسے کہتے ہیں جس کے والد اور والدہ دونوں انتقال کرچکے ہوں۔
۲۰۔ فتح الباری ابن حجر عسقلانی، ج ۴/ ص ۵۱۶، حدیث نمبر ۲۲۶۲، اور سیرت حلبیہ، ج ۱/ ص ۳۹۴ تا ۳۹۷،
۲۱۔ طبقات ابن سعد ، ج ۱/ ص ۱۲۱،
۲۲۔ المواہب اللدنیۃ احمد بن محمد القسطلانی، ج ۱/ ص ۱۸۸، اور بھجۃ الامثال و بغیۃ المحافل أبی بکر العامری، ج ۱/ ص ۴۵،
۲۳۔ سیرۃ المصطفیٰ مولانا کاندھلوی ، ج ۱/ ص ۹۴، لیکن موسوعۃ نظرۃ النعیم کے مقالہ نگار کی رائے ہے کہ آپ ﷺ نے اس جنگ میں بالکل شرکت نہیں کی، دیکھئے ج ۱/ ص ۱۹۷، مگر زیادہ صحیح بات وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی ہے۔
۲۴۔ دیکھئے سیرت حلبیہ ج ۱/ ص ۴۱۵،
نام کی دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جو ناحق کسی کا مال چھینے فضول میں ستائے اس کا دفاع کرنا مقصد تھا۔ اس لئے اسے حلف الفضول کہا گیا ہے۔ دیکھئے سیرت حلبیہ ج ۱/ ص ۴۱۲،
۲۵۔ سیرت النبی ﷺ ، شبلی نعمانی ج ۱/ ص ۱۸۳،
۲۶۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم، ج ۱/ ص ۱۹۷،
۲۷۔ سیرت حلبیہ ج ۱/ ص ۴۱۹،
۲۸۔ سیرت حلبیہ ج ۱/ ص ۴۲۰ تا ۴۲۸،
۲۹۔ کتاب خلاصۃ سیر سید البشر محب الدین أبی جعفر الطبری، ص ۳۸، (مکتبہ نزار مصطفی الباز مکۃ المکرمۃ ۱۹۹۷ء)
۳۰۔ سیرت ابن ہشام، ج ۱/ ص ۱۱۴،
۳۱۔ طبقات ابن سعد ج ۱/ ص ۱۵۵،
۳۲۔ سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۱۲۷،
۳۳۔ فتح الباری ابن حجر عسقلانی ج /۷، ص/ ۱۸۰،
۳۴۔ یہی روایت زیادہ مشہور ہے لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مغیرہ نے کہا تھا میری بات مانو، پہلا قریشی جو ’’باب الصّفا‘‘ سے داخل ہوکر آئے۔ اس کا فیصلہ اس پر چھوڑ دو۔
یہ رائے سب نے مان لی۔ کعبہ کے گرد حرم شریف کی چار دیواری ہے اس کے دروازوں میں سے ایک کا نام باب الصّفاہے، کیونکہ یہ صفا پہاڑ کی طرف پڑتا ہے۔ سب نے نگاہیں باب الصفا پہ گاڑ دیں، اور انتظار کرنے لگے کہ دیکھیں ان کی قسمت کا فیصلہ کس کے ہاتھ میں جاتا ہے اور وہ کس طرح اس گتھی کو سلجھاتا ہے۔ رب کا کرشمہ دیکھو، تھوڑی ہی دیر بعد ایک خوب صورت جوان باب الصفا سے نمودار ہوتا ہے۔ وہ تیزی سے چلا آ رہا ہے۔ دیکھتے ہی سب چیخ پڑتے ہیں:
’’امین! امین! محمدﷺ! امین کا فیصلہ تسلیم !!!‘‘
موسوعۃ نظرۃ النعیم میں باب الصّفا کی جگہ باب بنی شیبہ لکھا ہے، دیکھئے ج/۱ ص/۲۰۰، ممکن ہے ایک قدیم نام ہو۔

۴۔ محمدﷺ اللہ کے رسول مقرر ہونے سے پہلے
پیارے محمد ﷺ کا غار حراء میں اللہ کی عبادت کرنا :
مکہ سے ۶؍ میل پر حراء نامی ایک پہاڑ ہے۔ اس میں ایک غار ہے، جو غارِ حراء کے نام سے مشہور ہے۔ محمد ﷺ اسی غار میں چلے جاتے۔ کئی کئی دن، اور کئی کئی راتیں وہیں رہتے۔
وہاں نہ انسانوں کا شور و غل ہوتا، نہ دُنیا کے ہنگامے۔ بالکل تنہائی اور خاموشی کا عالم ہوتا۔ آپ ﷺ وہیں غور و فکر میں مصروف رہتے، اور جو کچھ روکھا سوکھا میسر ہوتا، اُسی پر قناعت کرتے۔ معمول تھا کہ غار سے جب مکہ واپس ہوتے سب سے پہلے آپ ﷺ کعبہ جاتے، اور اُس کا طواف کرتے۔ پھر بال بچوں میں آتے۔ بی بی خدیجہ بہت ہی پیار اور محبت سے پوچھتیں:
’’محمد ﷺ ! خیریت تو ہے؟‘‘
آپ ﷺ فرماتے: ’’ہاں! خدا کا شکر ہے‘‘
خواب اور بشارتوں کا آغاز :
آپ ﷺ کو برابر سچے خواب دکھائی دینے لگے، اِس طرح جو باتیں جاننے کے لئے آپ ﷺ بے چین تھے اور جن کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے آپ ﷺ تڑپ رہے تھے۔ اب وہ سورج، چاند کی طرح روشن ہوگئیں۔ حق بالکل عیاں ہوکر نظروں کے سامنے آ گیا اور باطل کی بھی ساری حقیقت آپ ﷺ پر واضح ہوگئی۔ اس سے آپ ﷺ کو بے حد خوشی ہوئی۔ دل گلاب کی طرح کھل اٹھا اور سینہ نور ایمان سے دمک اٹھا۔ لیکن ساتھ ہی گھبراہٹ طاری ہوئی اور خوف و دہشت سے برا حال ہوگیا۔
آپ ﷺ کو ایک زمانے سے حقیقت کی تلاش تھی(۱) اس حقیقت کو پاکر آپ ﷺ کو بے پناہ خوشی ہوئی۔ لیکن اس کا اعلان کرنے پر قوم کا کیا رویہ ہوگا؟ یہ سوچ کر آپ ﷺ گھبرا اٹھے اور خوف سے دل لرزنے لگا۔
اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہدایت دی! آپ ﷺ کو وہ راہ سجھائی جو اس کے نیک بندوں کی راہ ہے۔ لیکن قوم تو گمراہی کے دلدل میں پھنسی ہے۔ اسے ہدایت کی شاہراہ پر کون لائے گا؟ باطل سے اسے بیزار کون کرے گا!! اور حق کو اس کے دِل میں کون اتارے گا؟
جب خواب صبح کی طرح روشن ہو جاتا، اس کی تعبیر کھل کر سامنے آ جاتی اور نامعلوم باتیں بھی معلوم ہو جاتیں، تو آپ ﷺ بہت فکرمند ہوتے۔ ذہن میں طرح طرح کے خیالات گونجنے لگتے اور آپ ﷺ کو اپنے بارے میں شبہ ہونے لگتا۔ چنانچہ آپ ﷺ نے خدیجہؓ کو سارا حال کہہ سنایا، اور دل پر جو بیت رہی تھی، وہ بھی بتایا۔ خدیجہؓ نے ساری باتیں توجہ سے سنیں۔ پھر آپ ﷺ کی ڈھارس بندھائی۔ بولیں:
’’میرے سرتاج! آپ ﷺ فکر نہ کریں۔ آپ ﷺ جیسے پر شیطان کہاں راہ پاسکتا ہے۔‘‘
اس سال رمضان آیا، تو آپ ﷺ پھر غارِ حرا چلے گئے، اور ہر چیز سے کٹ کر غور و فکر اور عبادت میں لگ گئے۔ کسی کسی وقت گھر والے بھی آ جاتے۔ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتے، اور کچھ کھانا پانی بھی رکھ جاتے۔ غریب محتاج بھی آتے رہتے اور آپ ﷺ کی سخاوت سے سیراب ہوتے۔(۲)
حضرت محمد ﷺ کا اللہ کی طرف سے نبی مقرر ہونا اور قرآن کریم نازل ہونے کا آغاز:
جب آپ ﷺ کی عمر چالیس سال ہوئی، رمضان کے کچھ دن گزر گئے۔ ایک روز آپ ﷺ غار میں آرام فرما رہے تھے۔ صبح کا وقت تھا۔ اچانک ایک فرشتہ دکھائی دیا۔ انتہائی حسین و جمیل فرشتہ ہاتھ میں ایک ریشم کا ٹکڑا بھی تھا۔ فرشتے نے کہا:
اِقْرَاء : پڑھو ، (یہ جبرائیل ؑ تھے۔)
آپ ﷺ بہت گھبرائے، فرمایا : مَااَقْرَءُ : مجھے پڑھنا نہیں آتا۔
اب آپ ﷺ کو ایسا محسوس ہوا، جیسے وہ گلا گھونٹ رہا ہو اور جسم مبارک کو بھینچ رہا ہو۔ پھر اس نے چھوڑ دیا اور کہا : اِقْرَاء : پڑھو۔
آپ ﷺ نے فرمایا : مَااَقْرَءُ : مجھے پڑھنا نہیں آتا۔
یہ کہنا تھا کہ آپ ﷺ کو پھر محسوس ہوا کہ جسم مبارک کو بھینچ رہا ہے پھر اس نے چھوڑ دیا، او کہا اَِقْرَء : پڑھو ،
آپ ﷺ کو اندیشہ ہوا، کہ اگر اس بار بھی وہی جواب دیا تو وہ اس بار اور زور سے بھینچے گا، چنانچہ فرمایا:
مَاذَا اَقْرَءُ : کیا پڑھوں؟ فرشتے نے جواب دیا:
اقْرَأبِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقْ O خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ O اِقْرَا وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ O الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ O عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ O (۳)
پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے، پڑھو اور تمہارا رب مہربان رب ہے۔ جس نے قلم سے سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو اُسے معلوم نہ تھا۔
فرشتے کے بتانے پر آپ ﷺ نے یہ پڑھا اور پڑھتے ہی ذہن پر نقش ہوگیا۔ پھر فرشتہ چلا گیا۔
اب آپ ﷺ کھڑے ہوئے۔ خوف سے پریشان تھے۔ اور گھبراہٹ سے چہرہ اترا ہوا تھا، آپ ﷺ سہمی سہمی نگاہوں سے غار میں ہر طرف دیکھنے لگے۔ حیرانی کا عالم تھا۔ سارے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ پسینے سے شرابور تھے۔ دل ہی دل میں سوچنے لگے۔
ابھی مجھ سے کس نے باتیں کیں ہیں؟ کون مجھے پڑھاکر گیا ہے؟
پھر تیزی سے غار سے باہر آئے، اور پہاڑ کی گھاٹیوں سے گزرنے لگے، پورا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔ دل میں بار بار خیال آتا کہ شروع میں جو خواب نظر آئے وہ تو بالکل صحیح نکلے۔ ان سے بہت سی نئی باتیں معلوم ہوگئیں، جس چیز کی تلاش تھی وہ کھل کر سامنے آ گئی۔ لیکن وہ کون تھا؟ جو ابھی یہاں کھڑا تھا؟ وہ کون تھا؟ جو پڑھنے کو کہہ رہا تھا؟
اچانک ایک آواز آئی : محمد ﷺ !
نگاہ اٹھاکر دیکھا، جبرائیل آدمی کی صورت میں کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنا رسول مقرر کیا ہے۔ (۴)
پہلی وحی پیر کے دن رمضان المبارک میں نازل ہوئی۔
پھر فرشتہ چلا گیا، اور آپ ﷺ حضرت خدیجہؓ کے پاس آ گئے۔ خوف سے لرزتے ہوئے اور پسینے میں نہائے ہوئے۔ آتے ہی آپ ﷺ نے فرمایا:
’’مجھے کچھ اڑھادو! مجھے کچھ اڑھا دو!‘‘
فوراً حضرت خدیجہؓ نے چادر اڑھا دی۔ مگر آپ ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر وہ بہت گھبرائیں اور دل میں طرح طرح کے خیالات امنڈنے لگے کہ کیا آپ ﷺ کی طبیعت خراب ہوگئی؟ یا کیا آپ ﷺ پر کوئی آفت آ پڑی؟ پھر جب سکون ہوا۔ خوف کچھ دُور ہوا، اور جسم کی کپکپی میں کمی ہوئی تو بولیں! آپ ﷺ تھے کہاں؟ اور آپ ﷺ کو ہوا کیا؟
بی بی خدیجہؓ کا آپ ﷺ کی ہمت بندھانا:
اس کے بعد جو کچھ آپ ﷺ نے دیکھا تھا وہ بیان کیا۔ اور فرمایا : ’’مجھے اپنے بارے میں ڈر ہے‘‘ مگر بی بی خدیجہؓ یہ باتیں سن کر ذرا بھی نہ گھبرائیں، بلکہ انہوں نے آپ ﷺ کو بہت ہی عزت کی نظروں سے دیکھا۔ چہرہ پر یقین و اطمینان کی مسکراہٹ تھی۔ پھر آپ ﷺ کو اطمینان دلایا۔ اور بولیں:
میرے چچا کے بیٹے! خوش ہو جائیے، اور جو کر رہے ہیں، کرتے رہیے، اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں خدیجہؓ کی جان ہے۔ آپ ﷺ اس امت کے نبی ہوں گے۔ آپ ﷺ تو سچ بولتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، امانتیں ادا کرتے ہیں، مجبوروں اور بے کسوں کو سہارا دیتے ہیں۔ مہمانوں کی خاطر تواضح کرتے ہیں۔ حق کے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔ بھلا اللہ آپ ﷺ کو ضائع کیسے کرسکتا ہے۔
حضرت خدیجہؓ کی ان باتوں سے آپ ﷺ کی بہت ڈھارس بندھی۔ ساری بے چینی دور ہوگئی۔ اور چہرۂ مبارک خوشی سے تمتما اُٹھا۔ آپ ﷺ نے اس دلجوئی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ پھر آنکھیں بند کرلیں اور سوگئے۔(۵)
ادھر بی بی خدیجہؓ نے آپ ﷺ کی باتوں پر غور کیا۔ تو انہیں بے انتہا خوشی ہوئی، لیکن ساتھ ہی کچھ ڈر ہوا۔ کچھ خوف اور اندیشہ ہوا۔ کہ یہ بھی اخلاص و محبت کا تقاضا تھا۔ چنانچہ انہوں نے سوچا، چلیں چچازاد بھائی ورقہ کے پاس، کچھ اُن سے پوچھیں شاید وہ کچھ بتائیں۔
یہ ورقہ، نوفل کے بیٹے۔ اور انتہائی حکیم اور دانا تھے۔ مختلف مذاہب کو انہوں نے کھنگال ڈالا۔ اور بڑی باریک بینی سے ہر ایک کا جائزہ لیا۔ پہلے یہودیت کی طرف میلان ہوا۔ پھر عیسائیت کو اختیار کیا۔ انجیل پر گہری نظر تھی۔ حضرت خدیجہؓ آئیں، ان کو سارا ماجرا سنایا اور آپ ﷺ پر جو گزرا سب کہہ سنایا۔ سب کچھ سن کر وہ بولے۔
پاک ہے، پاک ہے۔۔۔ قسم ہے اس ذات کی جس کی مٹھی میں ورقہ کی جان ہے۔ خدیجہؓ اگر تمہاری بات صحیح ہے، تو یہ وہی جبرئیل ؑ ہے، جو موسیٰ ؑ کے پاس آتا تھا۔ بخدا وہ محمد ﷺ امت کے نبی ہوں گے۔ کہو کہ ڈریں نہیں۔
پیارے حضور ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی عورت :
بی بی خدیجہؓ خوشی سے بے تاب ہوگئیں۔ آتے ہی بولیں : ’’مبارک ہو، مبارک ہو!‘‘
پھر چچازاد بھائی ورقہ سے جو باتیں ہوئی تھیں وہ سب بیان کیں۔ اور کہا کہ وہ آپ ﷺ سے ملنا چاہتے ہیں۔ پھر اُسی وقت وہ ایمان لے آئیں۔ (۷)
عیسائی راہب ورقہ کا ایمان لانا :
آپ ﷺ نے ساری داستان سنا دی۔ ورقہ نے کہا :
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم اس امت کے نبی ہوگے۔ یہ وہی فرشتہ ہے جو موسیٰ کے پاس آتا تھا۔ بھتیجے! نبی ہونے کا اعلان کردے، تو لوگ جھٹلائیں گے۔ ہر طرح ستائیں گے، گھر سے بے گھر کر دیں گے، جنگ کرنے سے بھی نہ چوکیں گے، کاش اس وقت میں زندہ رہتا!
آپ ﷺ نے فرمایا : تو کیا لوگ مجھے بے گھر کردیں گے؟
ورقہ نے کہا: ہاں، جب بھی کوئی نبی آیا، قوم نے اُس کے ساتھ یہی سلوک کیا۔ اگر وہ دن دیکھنے نصیب ہوئے تو ایسی مدد کروں گا کہ اللہ ہی جانتا ہے۔
پھر سر مبارک کی طرف بڑھے اور بہت ہی شفقت سے بوسہ دیا۔(۸)
اس کے بعد پیارے نبی ﷺ لوٹ آئے۔ مگر اب آپ ﷺ بہت فکرمند اور اُداس تھے۔ بار بار سوچتے، میرے کمزور کاندھوں پر نبوت کا بوجھ آپڑا ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟
میں لوگوں کو کیسے بلاؤں؟ سیدھی راہ کیسے سجھاؤں؟ یہ تو گمراہ ہیں۔ اور حق سے بدک رہے ہیں۔ خدا سے بیزار ہیں، بتوں کے پرستار ہیں۔ بدی کے علمبردار ہیں، اور نیکی سے برسرپیکار ہیں۔ پھر غضب ہے انہیں اپنی جہالت پر ناز بھی ہے۔
مگر تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا۔
پہلی وحی کے بعد ایک مدت تک حضرت جبرئیل ؑ کوئی اور وحی نہ لائے۔ وحی کا رک جانا، آپ ﷺ کے لئے بڑے غم کا باعث ہوا۔ جب آپ ﷺ کا غم حد سے بڑھ جاتا تو جبرئیل ؑ آپ ﷺ کے سامنے ظاہر ہوتے اور کہتے:
آپ یقیناًاللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ؑ ہوں۔
تبلیغ کا حکم :
ایک دن کہیں سے آپ ﷺ گزر رہے تھے کہ یکایک آسمان سے آواز آئی۔ سر اٹھاکر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غارِ حراء میں آیا تھا، فضا میں ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔
اے اللہ! تو کتنا مہربان ہے، اپنے مومن اور مخلص بندے پر!!
فرشتے کو دیکھتے ہی آپ ﷺ ہلنے لگے۔ کانپنے اور لرزنے لگے۔ پہلی بار کبھی آپ ﷺ کا جسم کانپ رہا تھا۔ ہوا کے پتوں کی طرح ہل رہا تھا۔ لیکن کیا یہ کانپنا بھی اسی طرح کا تھا؟ کیا یہ ہلنا بھی اُسی جیسا تھا؟ خوف اور گھبراہٹ کا؟ رُعب اور دہشت کا؟ نہیں، اس میں مسرت کی حلاوت تھی۔ خوشی اور اطمینان کی ٹھنڈک تھی۔ آپ ﷺ اسی حال میں گھر آئے اور فرمایا : ’’مجھے کچھ اُڑھا دو، اڑھا دو۔‘‘ چنانچہ آپ ﷺ پہ ایک کپڑا ڈال دیا گیا، کہ اتنے میں فرشتہ یہ وحی لے کر آگیا:
یٰٓاَ یُّھَا الْمُدَّثِّرُ O قُمْ فَاَنْذِرْ O وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ O وَ ثِیَابَکَ فَطَھِّرْ O وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ O (۹)
اے کپڑے میں لپٹنے والے! اُٹھو، پھر ڈراؤ، اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو۔ اوراپنے کپڑے پاک رکھو۔ اور گندگیوں سے الگ رہو۔
تبلیغ کا حکم آتے ہی آپ ﷺ نے اپنے گھر سے تبلیغ کا آغاز کیا:
خدا کا کرنا، کچھ دنوں بعد وحی رُک گئی۔ اِدھر دعوت کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اور کافروں کی طرف سے مخالفت بھی ہو رہی تھی۔ مخالفت کے لئے تنکے کا سہارا کافی تھا۔ وحی کا رُک جانا تو آپ ﷺ پر یونہی بار ہوتا، اور پھر کافروں کا طعنہ طبع نازک پر تیر کا کام کرتا۔ چنانچہ آپ ﷺ سخت بے چین ہوئے۔ لیکن زیادہ دن نہ ہوئے کہ حضرت جبرائیل ؑ پھر وحی لے کر آ گئے۔
وَالضُّحیٰ وَالَّیْلِ اِذَا سَجیٰ O مَاوَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰی O وَلَلْاٰخِرَۃُ خَیْرُ‘ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی O وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضیٰ O اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْماً فَاٰویٰ O وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَھَدٰی O وَوَجَدَکَ عَآءِلاً فَاَغْنیٰ O فَاَمَّاالْیَتِیْمَ فَلَا تَقْھَرْ O وَاَمَّا السَّآءِلَ فَلَا تَنْھَرْ O وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْO(۱۰)
گواہ ہے سورج کی روشنی، اور رات کی تاریکی جب وہ چھا جائے۔ آپ ﷺ کے رب نے نہ آپ ﷺ کو چھوڑا ہے اور نہ وہ آپ ﷺ سے ناخوش ہے۔ اور آپ ﷺ کے لئے انجام ابتداء سے بہتر ہے۔ اور جلد ہی آپ ﷺ کا رب آپ ﷺ کو دے گا اور آپ ﷺ خوش ہو جائیں گے۔ کیا ایسا نہیں، کہ اُس نے آپ ﷺ کو یتیم پایا تو ٹھکانا دیا۔ اور بے خبر پایا تو سیدھی راہ سجھائی، اور آپ ﷺ کو محتاج پایا، تو مالدار کر دیا۔ تو آپ ﷺ بھی کسی یتیم کے ساتھ سختی نہ کریں۔ اور نہ کسی سائل کو جھڑکیں اور اپنے رب کی نعمتوں کا چرچا کرتے رہیں۔
اللہ! اللہ! خدا آپ ﷺ سے ناراض نہیں ہوا۔ ناخوش ہوکر آپ ﷺ کو چھوڑ نہیں دیا۔ بلکہ رحمتوں سے ڈھانپ لیا۔ اور نعمتوں سے خوش کر دیا۔
اب وحی برابر آنے لگی۔ آپ ﷺ کے پاس حضرت جبرئیل ؑ آتے۔ آپ ﷺ کو اللہ کی آیتیں سناتے اور بتاتے کہ کیا کریں؟ اور کس طرح کریں؟
سب سے پہلے آپﷺ کی نبوت پر ایمان لانے والے
آپ ﷺ کو جیسے ہی تبلیغ کا حکم ملا آپ ﷺ نے اس کا آغاز اپنے گھر سے کیا۔ سب سے پہلے آپ ﷺ کی بیوی حضرت خدیجہؓ مسلمان ہوئیں۔
سب سے پہلا مسلمان بچہ :
حضرت علیؓ جو آپ ﷺ کے زیرسایہ پرورش پارہے تھے اور دس سال کے چھوٹے بچے تھے۔ انہوں نے آپ دونوں کو نماز پڑھتے دیکھا۔ پوچھا: یہ کیا کر رہے ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا : یہ اللہ کا سچا دین ہے، اللہ نے اسی پر چلنے کا حکم دیا ہے اور مجھے اپنا رسول بنایا ہے۔
علیؓ : کیا میں بھی ایمان لاسکتا ہوں اور آپ ﷺ کی طرح نماز پڑھ سکتا ہوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں نہیں؟
علیؓ : میں آپ ﷺ پر ایمان لاتا ہوں اور پیروی کا عہد کرتا ہوں۔(۱۱)
حضرت زیدؓ جو آپ ﷺ کے خادم اور غلام بچے تھے وہ بھی ایمان لائے۔(۱۲)
سب سے پہلا مسلمان نوجوان :
حضرت ابوبکر صدیق ؓ جو اَبُوْقُحَافَہْ تَیْمِیْ کے بیٹے تھے آپ ﷺ کے قریبی دوست تھے آپ ﷺ سے بے حد محبت کرتے تھے۔ پیارے نبی ﷺ نے جیسے ہی اسلام کی دعوت دی اور قرآن کی آیتیں سنائیں فوراً ایمان لے آئے، ابوبکرؓ انتہائی معزز شخصیت کے حامل تھے، آپ کے ایمان لانے سے نبی کریم ﷺ کو بہت حوصلہ ملا اور اسلام بھی تیزی سے پھیلنے لگا۔(۱۳)
روشن ستارے صحابہ ہمارے :
حضرت ابوبکرؓ کے ایمان لانے کے بعد عثمان بن عفان ، زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، اور طلحہ بن عبیداللہ۔ پھر جراح کے بیٹے ابوعبیدہ اور ابوارقم کے بیٹے ارقمؓ مسلمان ہوئے۔ پھر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ مرد بھی، عورتیں بھی۔ جو عورتیں اسلام لائیں۔ ان میں پیارے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کی بیٹیاں بھی تھیں۔(۱۴)
سوال جواب
۱)۔۔۔ نبوت سے پہلے آپ ﷺ کس جگہ عبادت کیا کرتے تھے؟
غارِ حرا میں۔
۲)۔۔۔ غارِ حرا کہاں واقع ہے؟
مکہ سے ۶ میل پر حرا نامی ایک پہاڑ ہے، اس میں ایک غار ہے جسے غارِ حراء کہتے ہیں۔
۳)۔۔۔ آپ ﷺ پر پہلی وحی کب نازل ہوئی، اس وقت آپ ﷺ کی عمر کیا تھی؟
پیر کے دن رمضان کے مہینہ میں اس وقت آپ کی عمر چالیس سال تھی۔
۴)۔۔۔ آپ ﷺ پر پہلی وحی کون سے فرشتے لے کر آئے؟
حضرت جبرائیل ؑ ۔
۵)۔۔۔ حضرت جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ سے کیا کہا؟
حضرت جبرائیل ؑ نے کہا : اِقراء (پڑھو)
۶)۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب میں کیاکہا؟
مَا اَقْرَءُ (مجھے پڑھنا نہیں آتا)
۷)۔۔۔ غار حراء سے واپسی کے بعد سارا واقعہ آپ نے سب سے پہلے کس کو سنایا؟
حضرت خدیجہؓ کو۔
۸)۔۔۔ حضرت خدیجہؓ آپ ﷺ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کس کے پاس گئیں؟
اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس۔ جو عیسائی مذہب کے عالم تھے۔
۹)۔۔۔ ورقہ نے کیا کہا؟
اس نے کہا محمد ﷺ کے پاس وہی فرشتہ آیا ہے جو اس سے پہلے موسیٰ و عیسیٰ علیہم السلام کے پاس آیا تھا، بخدا یہ نبی ہوں گے اور اگر میں زندہ رہا تو ایسی مدد کروں گا کہ اللہ ہی جانتا ہے۔
۱۰)۔۔۔ آپ ﷺ پر عورتوں میں سے سب سے پہلے کون ایمان لائیں؟
حضرت خدیجہؓ
۱۱)۔۔۔ بچوں میں سب سے پہلے آپ ﷺ پر کون ایمان لایا؟
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے غلام حضرت زیدؓ
۱۲)۔۔۔ نوجوانوں میں سب سے پہلے کون ایمان لایا؟
نوجوانوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایمان لائے۔
۱۳)۔۔۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد کا نام کیا تھا؟
ابوقحافہ تیمیؓ۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ قرآن نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے : وَوَجَدکَ ضَالاًّ فَھَدَیٰ ، سورۂ والضحیٰ، ۹۳/ آیت نمبر ۷،
۲۔ قصص الانبیاء، مولانا حفض الرحمن ، سیوہاروی، ص / ۴۶۷،
۳۔ سورۂ العلق ۹۶/ آیت نمبر ۱۔۵،
۴۔ سیرت حلبیہ علی بن برہان الدین حلبی ج /۲، ص ۱۱۲۔۱۱۳،
۵۔ کتاب خلاصہ سیرت سید البشر محب الدین الطبری ، ص /۴۰، اور سیرت حلبیہ ج / ۲، ص /۱۱۶،
۷۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ، ج / ۱، ص / ۲۱۴،
۸۔ صحیح مسلم ، ج / ۱، ص /۹۷، اور فتح الباری، ج /۱، ص/۱۹۶،
۹۔ سورۂ المدثر ۷۴/ آیت نمبر ۱۔۵،
۱۰۔ سورۂ والضحیٰ ۹۳/ آیت ۱۔۱۱،
۱۱۔ سیرت حلبیہ ج /۲، ص /۲۰۲،
۱۲۔ سیرت حلبیہ ، ج/۲، ص /۲۱۱، اور جامع ترمذی ، ج/۵،ص/۶۴۲، سیرت ابن ہشام ج/۱،ص۱۵۳،
۱۳۔ سیرت حلبیہ ، ج/۲،ص۲۲۲،
۱۴۔ سیرت ابن ہشام ج/۱،ص/۱۵۵،
۵۔اسلام کے پھیلنے میں کافروں کا رکاوٹیں
پیدا کرنا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا
اسلام رفتہ رفتہ پھیلنے لگا۔ لوگ مسلمان ہوتے لیکن کھلم کھلااسلام کا اعلان نہ کرتے۔ ابھی آپ ﷺ نے بھی کھل کر تبلیغ کا کام نہ شروع کیا تھا۔ ابھی کھل کر لوگوں کو اسلام کی دعوت نہ دی تھی اور جو مسلمان تھے وہ بھی اپنے اسلام کو چھپاتے اور اندر ہی اندر دین کی تبلیغ کرتے۔ جن لوگوں میں وہ ایمان داری کی بو پاتے اور کچھ حق کی طلب محسوس کرتے، بس ان کو ہی وہ دین کی دعوت دیتے اور قریشی سرداروں کی نظروں سے بہت بچ بچ کر رہتے۔ نماز کا وقت ہوتا، تو چھپ چھپا کر غاروں میں چلے جاتے اور وہاں اطمینان سے نماز ادا کرتے۔ بتوں کی دنیا میں توحید کی آواز! کتنی عجیب آواز تھی!! کیا محمدﷺ ابوطالب کا یتیم بھتیجا نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ کیا وہ سب کو دین سے پھرجانے پہ ابھارتا ہے؟ کیا وہ دیوتاؤں سے بیوفائی پر اکساتا ہے؟
قومی دین سے بغاوت!! آبائی دین سے عداوت !! کیا محمدﷺ کی یہ ہمت ہوگئی؟
ہرطرف ایک ہلچل مچ گئی اور ہنگامہ بپا ہوگیا۔ جسے دیکھئے غصے سے بے تاب تھا۔ کسی نے تو کہا : ’’محمد ﷺ پر جن کا اثر ہے، اور کوئی بات نہیں‘‘ کسی نے کہا:’’اس کو نام و نمود کی ہوس ہے۔ اور یہ تو ایک نشہ ہے، جس کو زمانہ خود ہی اتار دے گا۔ ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں‘‘
ابوطالب کے بھی دل میں آیا کہ چلیں، بھتیجے سے ملیں اور دیکھیں اس نے کیسا دین نکالا ہے۔
ایک دن ابوطالب اسی ارادہ سے گھر سے نکلے۔ ساتھ ہی علیؓ کے بھائی جعفرؓ بھی تھے۔ آئے تو دیکھا کہ آپ ﷺ ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے ہیں اور ساتھ میں لخت جگر علیؓ بھی ہیں۔ دونوں آبادی سے بہت دُور آکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو ابوطالب نے پوچھا۔
بھتیجے! تم نے یہ کیسا دین اپنایا ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا : چچا! یہ اللہ کا دین ہے۔ اس کے فرشتوں کا دین ہے۔ یہی سارے نبیوں اور رسولوں کا دین ہے۔ دادا ابراہیم ؑ کا بھی یہی دین ہے۔ اللہ نے یہ دین دے کر مجھے دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ چچا جان! آپ کا مجھ پر سب سے زیادہ حق ہے۔ میری خیرخواہی کے آپ سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ آپ کے ساتھ میری سب سے بڑی خیرخواہی یہی ہے کہ آپ کو اس دین کی دعوت دوں۔ آپ کو بھی چاہئے میری اس خواہش کو ٹھکرائیں نہیں۔
ابوطالب نے کہا: بھتیجے ! باپ دادا کا دین چھوڑنا تو میرے لئے ناممکن ہے۔ البتہ میری ہمدردیاں تمہارے ساتھ ہیں، جب تک جان میں جان ہے، تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
مسلمان جب نماز پڑھتے، تو مشرکین مکہ ان کا مذاق اڑاتے۔ وہ رکوع کرتے تو یہ قہقہہ لگاتے اور جب وہ سجدے کرتے، تو یہ جملے چُست کرتے۔ روز بروز یہ چیز بڑھتی ہی گئی۔ بدمعاشوں نے اسے ایک ہنسی دل لگی کا سامان بنالیا۔ مسلمان مکہ کی گھاٹیوں میں عصر اور چاشت کی نمازیں پڑھاکرتے۔ ٹھیک اسی وقت یہ بھی وہیں پہنچ جاتے، پھر کچھ آنکھیں مارتے۔ کچھ اشارے بازیاں کرتے اور پھر زور کا قہقہہ لگاتے! اتفاق سے ایک دن مسلمانوں کو غصہ آ گیا اور جوش سے وہ بے قابو ہوگئے۔ پھر فریقین کی آستینیں چڑھ گئیں، اور لڑائی شروع ہوگئی۔ حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے ایک مشرک کو ایسا مارا کہ کھوپڑی پھٹ گئی اور پھر خون کے فوارے جاری ہوگئے۔ یہ پہلا خون تھا، جو عرب میں اسلام کے لئے بہا۔(۱)
جتنا ہوسکتا، پیارے نبی ﷺ مشرکوں سے دُور رہتے، تاکہ مسلمان ان کی شرارتوں سے محفوظ رہیں۔ چنانچہ قرآن سنانا ہوتا، یا کوئی نئی وحی ہوتی، تو آپ ﷺ سب کو دارارقم میں لے کر چلے جاتے۔
رشتہ داروں کو اسلام کی تبلیغ کا حکم :
آپ ﷺ کو نبی ہوئے تین سال ہوگئے۔ اب ہر ایک جان گیا کہ آپ ﷺ ایک نئے دین کی دعوت دیتے ہیں اور سب کو معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ زور پکڑ گئے ہیں، اور ساتھی کافی بڑھ گئے ہیں۔ چنانچہ اب اللہ کا حکم ہو اکہ آپ ﷺ کھلم کھلا دعوت دیں۔ جو کام اب تک چھپ کر کرتے تھے، اب اعلانیہ کریں۔
فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ (۲)
آپ کو جو حکم ہے، کئے جائیں اور مشرکوں کے چکر میں نہ پڑیں۔
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ O وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ O فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءُ‘ مِّمَّاتَعْمَلُوْنَ O وَتَوَکَّلْ عَلَی العَزِیْرِ الرَّحِیْمِ O الَّذِیْ یَرٰکَ حِیْنَ تَقُوْمُ وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِیْنَ O اِنَّہ‘ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ O (۳)
اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراؤ اور ایمان لانے والوں میں سے جو لوگ تمہاری پیروی اختیار کریں، ان کے لئے اپنے شانے جھکادو (تواضع سے پیش آؤ) لیکن اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں، تو ان سے کہہ دو، جو کچھ تم کرتے ہو، اس سے میں بری ہوں اور اس زبردست اور مہربان پر بھروسہ کرو۔ جو تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب تم اٹھتے ہو اور سجدہ گزار لوگوں میں تمہاری نقل و حرکت کو بھی (دیکھ رہا ہوتا ہے) بے شک وہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔
حکم الٰہی کے آتے ہی آپ ﷺ نے اپنے رشتہ داروں سے اسلام کی دعوت کا آغاز کیا۔ اس کی صورت یہ تھی، آپ ﷺ نے جھٹ پٹ کھانے کی دعوت کا انتظام کیا اور تمام رشتہ داروں کو کھانے پر بلایا، اوروں کے ساتھ ابولہب کوبھی بلایا۔ حالانکہ پھوپھیوں نے منع کیا تھا، اور خود آپ ﷺ بھی جانتے تھے کہ وہ آپ ﷺ کا سخت دشمن ہے۔ ہر ہر بات سے جلتا ہے اور مخالفت کے لئے ہر آن تیار رہتا ہے۔
دعوت میں بہت سے لوگ آئے۔ سب کھانے پینے میں شریک ہوئے۔ ان میں آپ ﷺ کے چچا بھی تھے۔ چچا زاد بھائی بھی تھے اور سبھی رشتہ دار تھے آپ ﷺ وہیں بیٹھ گئے۔ کہ لوگ کھا پی چکیں تو اپنی بات کہیں اور سب کو دین کی دعوت دیں۔
ابولہب نے سوچا یہ تو بڑا اچھا موقع ہے۔ لاؤ محمد ﷺ کو گھیریں۔ اُس نے جو باپ دادا کا دین چھوڑا ہے اور اک نیا دین گھڑ لیا ہے اس پر کچھ ڈرائیں، دھمکائیں۔ اتفاق سے عزیزوں میں سارے لوگ بھی موجود ہیں۔ خوب بات بنے گی۔ یہ سوچ کر وہ فوراً کھڑا ہوا۔ بولا:
محمد ﷺ ! یہ تمہارے چچا ہیں، اور چچازاد بھائی، دیکھو تم وہی باتیں کرو جو جوان کو اچھی لگیں۔ یہ جو کچھ دنوں سے نئی نئی باتیں کر رہے ہو کہتے ہو کہ باپ، دادا کا دین غلط ہے، اور اس سے ہٹ کر ایک نیا دین نکالا ہے۔ تو دیکھو، اِن حرکتوں سے باز آجاؤ۔ اس طرح کی باتیں اچھی نہیں۔ تم تو اپنے بھائیوں پر ایسی مصیبت لائے ہو کہ خدا کی پناہ۔ ہاں، یہ بھی یاد رہے کہ سارے عرب کے مقابلے میں تمہاری قوم کچھ بھی نہیں۔ اب اگر تم اپنی حرکتیں نہیں چھوڑتے تو بھائیوں کو حق ہوگا کہ پکڑ کر تمہیں قید میں ڈال دیں۔ یہ ان کو گوارا ہے، پر یہ بات گوارا نہیں کہ قریش تم پر پل پڑیں اور پھر سارا عرب بھی انہی کا ساتھ دے۔
پیارے نبی ﷺ نے بہت چاہا کہ کچھ بولیں۔ لوگوں کو رب کا پیغام سنائیں اور ان کو اللہ کی نافرمانی سے ڈرائیں، اور بتائیں کہ ان میں کیا کیا برائیاں ہیں۔ لیکن ابولہب نے موقع ہی نہ دیا۔ وہ لوگوں کو بھڑکاتے ہوئے پھر بولا:
یہ تو بخدا بہت بری بات ہے۔ تم لوگ ابھی سے اس کا ہاتھ پکڑلو۔ اس کا انتظار کیوں ہے کہ دوسرے پکڑیں کہ اس وقت تو تم بڑی مشکل میں پڑ جاؤ گے۔ اگر حوالے کر دو گے تو ذلیل ہوگے اور ہمیشہ کے لئے بدنام ہوگے۔ اور اگر حمایت کرو گے تو مارے جاؤ گے۔(۴)
آپ ﷺ کی ایک پھوپھی صفیہؓ تھیں۔ وہ بھی وہاں موجود تھیں۔ یہ سب سن کر وہ بے تاب ہوگئیں اور بولیں:
میرے بھائی! تجھ کو شرم نہیں آتی کہ بھتیجے کی مخالفت کر رہا ہے؟ خدا کی قسم جاننے والے تو ایک زمانے سے کہتے آ رہے ہیں کہ آلِ مطلب میں ایک نبی ہوگا۔ سن لے وہ نبی یہی ہے۔
ابوطالب : جب تک جان میں جان ہے ہم اس کا ساتھ دیں گے۔
ابولہب : بھائیو! چلو، یہاں سے نکل چلو۔ اب یہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں۔
چنانچہ سب اٹھ کر چل دئیے اور آپ ﷺ دل کی بات دل ہی میں لئے رہ گئے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے ایک بار پھر دعوت کا انتظام کیا اور خاندان والوں کو دوبارہ کھانے پر بلایا۔ پھر جب لوگ کھا پی چکے تو رب کا پیغام سنایا لیکن اس کا بھی کچھ اثر نہیں ہوا۔
ساری دنیا کو اسلام کی تبلیغ کا حکم :
آپ ﷺ مایوس نہ ہوئے۔ پورے ولولے سے کام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ عام لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کا حکم نازل ہوگیا:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَااُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ الرَّبِّکَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ (۵)
اے رسول ﷺ جو (توحید و رسالت کا) پیغام آپ کی طرف آپ کے رب نے نازل کیا ہے اسے آپ لوگوں تک پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے لوگوں کے خوف سے اسے پہنچانے میں کوتاہی کی تو سمجھ لیں آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا۔
فاران کی چوٹی :
ایک دن کی بات ہے آپ ﷺ صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئے اور فرمایا: قریشی بھائیو!!
لوگ چونک اٹھے : ارے بھائی یہ کون پکار رہا ہے؟ کس کی آواز ہے یہ !!
کسی نے کہا : محمد ﷺ ہیں۔ صفا کی پہاڑی سے پکار رہے ہیں۔
پھر کچھ ہی دیر میں سب جمع ہوگئے اور بے تابی سے پوچھنے لگے۔ کیا بات ہے بھائی، کیا بات ہے؟
آپ ﷺ نے فرمایا : ذرا آپ لوگ یہ تو بتائیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے ایک فوج نکلنے والی ہے تو کیا آپ یقین کریں گے؟
لوگوں نے کہا: ہاں، ہاں، ضرور، نہ ماننے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہم نے آپ ﷺ کی زبان سے تو کبھی جھوٹی بات سنی نہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا : میرے پیارے عزیزو! میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈراتا ہوں۔ جو تمہارے سامنے ہے۔ میں اسے اسی طرح دیکھ رہا ہوں جیسے اس وقت پہاڑ کے دوسری طرف دشمن کا لشکر موجود ہو۔ قریشی بھائیو! خداکی ناراضگی سے بچو! اور اپنے آپ کو آگ سے بچاؤ۔ اگر کہیں اللہ ناراض ہوگیا، اور تم کو اس نے آگ میں جھونکنا چاہا تو میں نہیں بچاسکوں گا۔ آگ سے بچنے کی تو بس ایک ہی تدبیر ہے۔ اللہ کو ایک مانو، اور میرے رسول ہونے کا اقرار کرلو۔
یہ سننا تھا کہ ابولہب کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا، جیسے لال انگارہ، چنانچہ فوراً وہ تن کر اٹھا اور کڑک کر بولا:
تیرا برا ہو! تو نے اسی لئے بلایا تھا۔(۶) قرآن میں نازل ہوا:
تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبْ (۷)
ابی لہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے۔
ابولہب کو دیکھ کر آپ ﷺ سناٹے میں آ گئے اور بڑی حسرت کے ساتھ چچا کی طرف دیکھا کہ کاش کچھ دیر وہ خاموش رہے اور آپ ﷺ لوگوں میں تقریر کرسکیں۔ ان کو سچے دین کی دعوت دے سکیں اور ان کو رب کا پیغام سنا سکیں۔ لیکن اس کو ذرا بھی ترس نہ آیا۔ اس کا انداز اور سخت ہوگیا اور وہ آپ ﷺ کو جلی کٹی سناتا رہا۔
آخر لوگ وہاں سے چل دئیے۔ آپ ﷺکی یہ کوشش بھی زیادہ موثر نہ ہوسکی۔
حضور ﷺ پر ظلم و ستم کی انتہاء
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکے کے کافروں کو اُن کی بری عادتوں، بت پرستی، چوری اور جھوٹ جیسی برائیوں کو ترک کرنے کے لئے کہا تو وہ سب آپ ﷺ کی جان کے دشمن بن گئے۔ لہٰذا کافر غصے سیبے قابو ہوگئے۔ بالکل آگ بگولا ہوگئے اور انہوں نے قسمیں کھائیں:
اب ہم محمدﷺ کے لئے ننگی تلوار ہیں۔ جہاں پائیں گے، اسے ستائیں گے، اور جس طرح ہوسکے گا اس کا دل دکھائیں گے۔ جسم کو بھی زخمی کریں گے اور روح کو بھی چھلنی کریں گے، اور۔۔۔ اور اس کے دین کو مٹا کر چھوڑیں گے۔
چنانچہ انہوں نے اپنے شاعروں اور بدمعاشوں کو آپ ﷺ کے خلاف بھڑکا دیا۔ اب وہ آپ ﷺ کو گالیاں دیتے، آپ ﷺ پر تہمتیں لگاتے، اشعار میں آپ ﷺ کی ہجو (برائی) کرتے، لوگوں میں آپ ﷺ کے خلاف بدگمانیاں پھیلاتے اور آپ ﷺ کی عقل و نیت پر حملے کرتے۔ کوئی کہتا، یہ تو جادو گر ہے، کوئی کہتا اس پر تو جادو کا اثر ہے اور کوئی کہتا اس کو شہرت کی لالچ ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب ابوطالب مکہ میں بااثر شخص تھے۔ ان کی وجہ سے لوگوں کو حضور ﷺ پر ہاتھ ڈالنے کی ہمت نہ پڑتی تھی لیکن کئی بدبخت لوگ موقع کی تاک میں رہتے اور جہاں موقع پاتے، حضور ﷺ کو سخت تکلیف پہنچاتے۔ ایک دن ابوطالب کے پاس آئے اور کہنے لگے : وَلِیْدْ بِنْ عَمَّارَہُ کو اپنا بیٹا بنالو یہ آپ کی خدمت کرے گا، محمد ﷺ کو ہمارے حوالے کردو تاکہ قتل کر دیں۔
ایک روز کفار کے سب سردار مل کر جناب ابوطالب کے پاس پہنچے اور کہا: جن بتوں کو ہمارے باپ دادا پوجتے آئے ہیں، انہیں تمہارا بھتیجا اس قدر برا کہہ چکا ہے کہ ہم برداشت نہیں کرسکتے۔ ہمیں صرف آپ کا لحاظ ہے۔ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھا لیجئے ورنہ لحاظ جاتا رہے گا۔
جناب ابوطالب نے آپ ﷺ کو بلایا اور نہایت محبت سے سمجھایا کہ واقعی ساری قوم کا مقابلہ ممکن نہیں ہے، مجھ پر بوجھ نہ ڈالو، میں تمہاری حمایت کرتے کرتے تھک گیا ہوں۔
اپنے شفیق چچا کی زبان سے یہ الفاظ سن کر حضور ﷺ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا :
یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تب بھی میں اللہ کے حکم سے باز نہ آؤں گا۔(۸)
آپ ﷺ کے گلے میں پھندا ڈال کر قتل کی کوشش کرنا :
ایک دن حضور ﷺ خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط نے اپنی چادر کو حضور ﷺ کے گلے میں ڈال کر اتنے بل دیے کہ حضور ﷺ کا دم گھٹنے لگا۔ حضور ﷺ اسی حالت میں سجدے میں پڑے تھے کہ حضرت ابوبکرؓ آ گئے، انہوں نے عقبہ کو دھکا دیا اور حضور ﷺ کے گلے سے کپڑا نکالا اور کافروں سے کہا:
افسوس ہے کہ تم لوگ ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے۔(۹)
یہ سن کر سب کفار حضرت ابوبکرؓ پر پل پڑے اور انہیں لہولہان کر دیا۔
آپ ﷺ پر اوجھڑی ڈال کر قتل کی سازش :
ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ ابو جہل ادھر آ نکلا۔ عقبہ بن ابی معیط اور کئی دوسرے کفار مکہ اس کے ہمراہ تھے۔ ابوجہل نے عقبہ سے کہا فلاں اونٹ کی ایک اوجھڑی پڑی ہے اسے اٹھالاؤ اور محمد ﷺ کے اوپر رکھ دو! وہ بدبخت گیا اور اوجھڑی لاکر حضور ﷺ کی گردن پر رکھ دی۔
اوجھڑی اتنی وزنی تھی کہ حضور ﷺ سجدے سے سر نہ اٹھا سکے۔ یہ حالت دیکھ کر سب کفار خوش ہوئے اور کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ حضرت فاطمہؓ کو اطلاع ہوئی تو وہ بھاگی بھاگی آئیں اور اوجھڑی کو گردن سے ہٹایا۔(۱۰)
ایک مرتبہ کعبہ کے صحن میں کفار مکہ نے حضور ﷺ کے گرد گھیرا ڈال لیا اور طرح طرح کی گستاخیاں کرنے لگے۔ کسی نے حضرت حارث بن ابی حالہ کو خبردی، وہ بھاگے آئے اور لوگوں کو منع کیا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تو چھوڑ دیا مگر حضرت حارث کو وہیں شہید کر دیا۔
ابولہب کا آپ ﷺ کی بیٹیوں کو طلاق دلوانا :
رقیہؓ اور ام کلثومؓ آپ ﷺ کی دو بیٹیاں تھیں، ان دونوں کا عتبہ اور عتیبہ سے نکاح کر دیا تھا۔ عتبہ اور عتیبہ ابولہب کے بیٹے تھے اور باپ ہی کی طرح یہ دونوں بھی اسلام کے کٹر دشمن تھے۔ چنانچہ ایک زمانے تک یہ نیک بیویوں کے ناک میں دم کئے رہے۔ اور کڑوی کڑوی باتوں سے ان کو اذیت پہنچاتے رہے مگر بدنصیب ابولہب کو اس سے بھی تسکین نہ ہوئی۔ اس نے اپنے بیٹوں سے دونوں کو طلاق دلوادی، پھر چونکہ وہ پیارے نبی ﷺ کے پڑوس ہی میں رہتا تھا۔ اس لئے اس کا وجود آپ ﷺ کے لئے ایک مستقل دردسر تھا۔ حد یہ ہے کہ آئے دن وہ آپ ﷺ کے دروازے پر کوڑا کرکٹ پھینک دیتا اور کبھی غلاظت بھی لاکر ڈال جاتا۔ اس کی بیوی اُم جمیل بھی کچھ کم نہ تھی۔ یہ راستے میں کانٹے بچھا دیا کرتی۔
دشمنوں کا آپ ﷺ کے ساتھ یہ برتاؤ تھا، مگر اس پر بھی آپ ﷺ نے شرافت کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
چنانچہ ابوجہل جہاں پاتا، وہ آپ ﷺ کو کوستا اور برا بھلا کہتا اور اوروں کو بھی آپ ﷺ کے خلاف اکساتا۔ آپ نماز پڑھتے تو کچھ اوباشوں کو ساتھ لے کر خوب ہنسی اڑاتا اور دعوت و تبلیغ کا کام کرتے تو غنڈوں کو جمع کرکے قہقہہ لگاتا اور بار بار لوگوں سے کہتا: محمد ﷺ کو قتل کردو پھر زندگی چین سے گزارو،
ایک دن تو اس نے ساتھیوں سے کہا: خدا کی قسم، کل ایک پتھر لے کر بیٹھوں گا۔ اتنا بھاری کہ اٹھائے نہ اٹھے اور جونہی محمد ﷺ سجدے میں جائیں گے اس کا سر پیس کر رکھ دوں گا۔ پھر چاہے تم لوگ میرا ساتھ دو، یا چھوڑ کر الگ ہو جاؤ۔ آل مناف بھی جو کچھ کریں گے دیکھا جائے گا۔
ساتھیوں نے بھی خوب ہمت افزائی کی، اور جوش دلاتے ہوئے بولے: توبہ، توبہ ہم لوگ ساتھ چھوڑ سکتے ہیں!! آپ بالکل بے غم رہیے، اور جو جی میں آئے بے دھڑک کیجئے۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
چنانچہ صبح ہوئی تو ابوجہل نے ایک بھاری پتھر لیا اور کعبہ کے پاس انتظار میں بیٹھ گیا، اورقریب ہی ساتھی بھی بیٹھ گئے، پھر روز کی طرح پیارے نبی ﷺ آئے اور رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان کھڑے ہوئے اور نماز میں مصروف ہوگئے پھر جونہی آپ سجدے میں گئے ابوجہل نے پتھر اٹھایا، اور آپ ﷺ کی طرف بڑھا، ساتھی چپ چاپ بیٹھے رہے اور غور سے دیکھتے رہے، کہ کیا ہوتا ہے؟
کتنا عجیب منظر تھا یہ۔۔۔! ایک دشمن خدا اس سر کو کچلنے جا رہا تھا جو سر خدا کے سامنے جھکا ہوا تھا، اور اس وجود کو مٹانے جا رہا تھا۔ جس کا نگہبان خود خدا تھا۔
ساتھی ہونے والے حادثہ پر نظریں جمائے، دھڑکتے ہوئے دل سے ابوجہل کو دیکھتے رہے۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ وہ لوٹ پڑا۔ چہرہ اُترا ہوا، تھا۔ اور آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں اور ہاتھ میں پتھر جوں کا توں تھا۔
ساتھی سخت حیران ہوئے۔ بڑھ کر انہوں نے پوچھا: ارے ابوالحکم ! کیا ہوا، کیا ہوا؟
ابوجہل : (ہانپتے ہوئے)ارے، تم کو کچھ نہیں دِکھتا؟ سامنے آگ کا الاؤ ہے۔ ذرا بھی آگے بڑھتا تو بھسم ہوکر رہ جاتا۔
یہ سن کر وہ اور حیران ہوئے اور حیرت سے اس کا منہ تکنے لگے۔ پھر انہوں نے سوچا کہ معلوم ہوتا ہے، ارادہ بدل گیا ہے اور کرنے کو جی چاہتا نہیں، بس اسی کے لئے یہ سب حیلے بہانے ہیں۔ چنانچہ ایک ساتھی تو جوش سے بے تاب ہوگیا، اور فوراً اس نے وہی پتھر اٹھایا، اوراسی ارادہ سے آپ ﷺ کی طرف بڑھا، مگر کچھ ہی دُور گیا، کہ اس کے بھی قدم رک گئے، اور پھر وہ لوٹ پڑا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ بھی اُترا ہوا تھا اور خوف سے آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں۔
اس طرح اللہ نے آپ ﷺ کی مدد کی، اور دشمنوں کی سازش دھری رہ گئی، یہی وعدہ اللہ نے کیا تھا:
وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسْ (۱۱)
آپ اسلام کی دعوت بلاخوف دیتے رہیں، لوگوں سے اللہ آپ کو محفوظ رکھے گا۔
مشرکین مکہ کا مسلمانوں پر ظلم وستم
بااثر صحابہ کرامؓ پر تو بزدل کافروں کا بس نہ چلتا تھا، وہ غریب مسلمانوں کو پکڑ لیتے۔ انہیں تیز دھوپ میں گرم ریت پر لٹاتے، چھاتی پر بھاری پتھر رکھتے تاکہ وہ کروٹ نہ بدل سکیں۔ جلتی ریت بدن پر بچھاتے۔ گرم لوہے سے جسم کو داغتے اور گہرے پانی میں انھیں ڈبکیاں دیتے۔ ان قبیلوں نے آپس میں ایک معاہدہ بھی کیا۔
اس معاہدہ کی رو سے کوئی قبیلہ کسی مسلمان کو پناہ نہیں دے سکتا تھا۔ ہر قبیلہ کا فرض تھا کہ جہاں کہیں مسلمان مل جائیں وہ انکے لئے سر اپاظلم و ستم بن جائے۔ ان کو خوب مارے پیٹے اور جس طرح ہوسکے انہیں ذلیل و رسوا کرے۔ اگر کسی کا غلام یا باندی مسلمان ہو جائے، تو اس پر وہ ذرا بھی ترس نہ کھائے۔ ترس کھانا تو درکنار، اسے وہ اتنا ستائے کہ وہ نئے دین سے بیزار ہو جائے اورپھر اپنے آبائی دین ہی کی طرف لوٹ آئے اور بتوں کی عبادت کرنے لگے۔
مسلمان مظلوم خاندان :
انہی جواں مردوں میں یاسرؓ ، ان کی بیوی سمیہؓ اور بیٹے عمارؓ بھی تھے۔ یہ تینوں مکہ کے غریبوں میں سے تھے۔ اور بہت پہلے اسلام لے آئے تھے۔ خاندان والے اُن کے کپڑے اُتار دیتے اور جب دوپہر سخت ہو جاتی، تو تپتی ہوئی ریت پر لٹا دیتے، اس کے علاوہ کبھی آگ میں جلاتے اور کبھی پانی میں غوطے دیتے۔ اسی بے کسی کے عالم میں رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوتا، تو آپ ﷺ ان کو تسلی دیتے اور بہت ہی درد بھرے لہجے میں فرماتے:
صبر کرو، تمہارا ٹھکانا جنت ہے۔(۱۲)
پہلی مسلمان شہید خاتون :
حضرت یاسرؓ نے تو اسی طرح تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ لیکن حضرت سمیہؓ کو ابوجہل نے شہید کیا۔ یہ ہر وقت ان کی جان کے پیچھے پڑا رہتا۔ اور بڑی بے دردی سے ستاتا۔ چنانچہ ایک روز انہیں جوش آ گیا۔ اور گفتگو کا لہجہ ذرا سخت ہوگیا۔ اب کیا تھا، ابوجہل غصہ سے بے تاب ہوگیا۔ اتفاق سے اس وقت ہاتھ میں برچھی بھی تھی۔ کھینچ کر اس نے ایسا مارا کہ آپ کا دم نکل گیا۔ اس طرح اسلام میں سب سے پہلے شہادت کا شرف انہی کو نصیب ہوا۔(۱۳)
مظلوم عمار:
حضرت عمارؓ کو بھی ظالم لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں چھوڑ دیتے یا تپتی ہوئی زمین پر لٹاکر اتنا مارتے کہ وہ بے ہوش ہو جاتے۔ لیکن اس مارپیٹ اور دھوپ کی سختی سے ایمانی گرمی میں کوئی کمی نہ ہوتی۔(۱۴)
مظلوم خباب:
انہی جواں مردوں میں حضرت خبابؓ بھی تھے۔ یہ ام انمار کے غلام تھے۔ ام انمار روز لوہے کی سلاخیں گرم کرتی اور ان کے سر پر رکھ دیا کرتی۔ اس کے علاوہ اور نہ جانے ان پر کیا کیا ستم ہوتے۔ حدیہ ہے کہ ایک دن کوئلے دہکائے گئے، اور وہ اُن پر چت لٹا دئیے گئے اور اسی حال میں کوئلے ٹھنڈے ہوگئے۔ تاب نہ لاکر حضرت خبابؓ نے ان بے دردیوں کی فریاد رحمتِ عالم ﷺ سے کی تو آپ ﷺ نے ان کے لئے دعا فرمائی :
خدایا! خبابؓ کی مدد کر۔
چنانچہ دعا رنگ لائی اور ام انمار کے سر میں کوئی بیماری ہوگئی۔ حکیموں نے اسکا علاج کیا بتایا۔۔۔! گرم سلاخوں سے وہ سر کو داغا کرے چنانچہ حضرت خبابؓ لوہے کی سلاخیں گرم کرتے، اور پھر اس کا سر داغتے تھے۔ (۱۵)
مظلوم بلال:
انہی جواں مردوں میں ایک حضرت بلالؓ بھی تھے۔ یہ حبشہ کے رہنے والے تھے اور خلف کے بیٹے امیہ کے غلام تھے۔ امیہ ان کا کھانا پانی سب بند کر دیتا۔ پھر جب بھوک پیاس سے وہ بے قرار ہو جاتے اور ٹھیک دوپہر ہو جاتی، تو وہ تپتی ہوئی چٹانوں پر انہیں چت لٹا دیتا اور چھاتی پر بہت بھاری پتھر رکھوا کر کہتا :
یا تو محمد ﷺ کا ساتھ چھوڑ دو، اور لات و عزیٰ کو پوجو۔ ورنہ اسی طرح ایڑیاں رگڑتے رہو۔
حضرت بلالؓ یہ سارے مظالم سہتے اور اس وقت بھی زبانِ مبارک سے نعرہ توحید بلند کرتے ہوئے کہتے :
اَحَدُ‘ ! اَحَدُ‘ !!
خدا ایک ہے، بس ایک ہے۔
بلالؓ تو ایمان کے نشے میں چور تھے۔ اور یہ نشہ ایسا نہ تھا ، جو جسمانی تشدد سے اُتر جاتا۔ چنانچہ جوش کے عالم میں وہ بار بار یہی الفاظ دُہراتے۔
رحمتِ عالم ﷺ کا گزر ہوتا، تو اُن کی یہ مظلومی دیکھ کر تڑپ اٹھتے، اور بہت ہی درد بھرے لہجہ میں فرماتے :
بلالؓ ! گھبراؤ نہیں، اللہ جلد ہی نجات دے گا۔
ورقہ بن نوفل کا گزر ہوتا تو وہ کہتے :
بلالؓ ! بخدا وہ ایک ہی ہے، ہاں، وہ ایک ہی ہے۔
پھر وہ ظالموں کی طرف متوجہ ہوتے اور کہتے:
خدا کی قسم! اگر تم لوگوں نے اسی طرح اس کی جان لے لی، تو میں اس کی قبر کو زیارت گاہ بناؤں گا۔
غرض حضرت بلالؓ یہ سختیاں جھیلتے رہے، اور صبر کرتے رہے بالآخر ایک دن حضرت ابوبکرؓ اُمیہ کے پاس گئے اور بولے:
ارے تجھ کو ذرا بھی خدا کا ڈرنہیں کہ اس بے چارے کو مارے ڈال رہا ہے؟
وہ بولا: تم نے ہی تو اس کو بگاڑا ہے۔ اب تم ہی بچاؤ بھی۔
حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا :
میرے پاس ایک مشرک غلام ہے۔ تو اسے لے لے، اور اسے مجھے دے دے۔
وہ بولا! چلو ، منظور ہے۔ لے جاؤ اسے۔
اس طرح حضرت ابوبکرؓ نے اپنا غلام امیہ کو دے دیا۔ اور اس سے حضرت بلالؓ کو لے کر آزاد کر دیا۔(۱۶)
صرف حضرت بلالؓ ہی نہیں، اور نہ جانے کتنے غلام تھے، جو مسلمان ہو گئے تھے۔ اور اس جرم میں بے رحم آقاؤں کے ظلم کا نشانہ بن رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ ان مظالم کو دیکھ دیکھ کر تڑپ اٹھتے۔ آخر اُن سے رہا نہ گیا اور سب کو خرید خرید کر انہوں نے آزاد کر نا شروع کر دیا ۔ یہاں تک کہ ایک دن ان کے والد ابوقحافہ نے کہا: بیٹے! تم تو بہت کمزور کمزور غلام آزاد کر رہے ہو، ذرا ایسے غلام آزاد کرو جو بہادر اور طاقتور ہوں کہ وقت پڑے تو کچھ کام بھی آسکیں، اور مصیبت میں تمہاری مدد کرسکیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا: اباجان! میرا مقصد تو صرف اللہ کو خوش کرنا ہے۔ اللہ کو آپ کا یہ جملہ اتنا پسند آیا کہ وحی نازل فرمائی:
وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہُ مِنْ نِعْمَۃٍ تُجْزٰی اِلاَّ ابْتِغَآ ءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعلیٰ O وَلَسَوْفَ یَرْضٰی O (۱۷)
اور کسی کا اس کے ذمہ کوئی احسان نہیں ہے، جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو۔ اسے بس اپنے بلند و برتر سب کی خوشی حاصل کرنی ہے اور وہ جلد ہی راضی ہو جائے گا۔
مظلوم ابوفکیہ:
حضرت ابوفکیہؓ کے پاؤں میں امیہ رسی ڈال دیتا اور لوگوں سے کہتا، انہیں گھسیٹ کر لے جاؤ اور گرم ریت پر لٹاؤ۔
ایک دفعہ اُمیہ خود انہیں گھسیٹتا ہوا لے جا رہا تھا کہ راستے میں ابوفکیہؓ نے اُمیہ سے کہا : ’’میرا اور تیرا خدا، اللہ ہے۔‘‘
اس پر اُمیہ نے اُن کا اس زور سے گلا گھونٹا کہ لوگوں نے سمجھا دم نکل گیا۔
ایک دفعہ ان کے سینے پر اتنا بھاری پتھر رکھ دیا کہ ان کی زبان باہر نکل آئی۔
حضرت عثمانؓ جب مسلمان ہوئے تو اُن کے چچا اُن کو رسی سے باندھ کر بے حد مارتے تھے۔(۱۸)
اسی طرح حضرت زبیرؓ کو ان کے چچا چٹائی میں لپیٹ کرناک میں دھواں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہو جاتے۔ اسی ظلم کا مظاہرہ دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ جاری تھا۔ جس میں مصعب، صہیب، بینہ، زنیرہ اور ام عبیس شامل ہیں۔
سوال جواب
۱)۔۔۔ اسلام کی ابتدا میں قرآن کریم سننا ہوتا یا نزول وحی کا وقت ہوتا توآپ ﷺ کہاں تشریف لے جاتے؟
دارارقم میں۔
۲)۔۔۔ آپ ﷺ کو کھلم کھلا تبلیغ کا حکم کب ملا؟
نبوت کے تیسرے سال۔
۳)۔۔۔ حکم الٰہی کے بعد آپ نے تبلیغ کا آغاز کہاں سے کیا؟
تبلیغ کا آغاز آپ نے سب سے پہلے رشتہ داروں سے کیا۔
۴)۔۔۔ رشتہ داروں میں سب سے زیادہ مخالفت کس نے کی؟
آپ ﷺ کے چچا ابولہب نے۔
۵)۔۔۔ کونسی پھوپھی نے آپ ﷺ کا ساتھ دینے کا اعلان کیا؟
حضرت صفیہؓ نے۔
۶)۔۔۔ آپ ﷺ نے تبلیغ عام کا آغاز کہاں سے کیا؟
فاران کی چوٹی یعنی صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر لوگوں کو اسلام کی دعوت دی۔
۷)۔۔۔ آپ ﷺ کی تبلیغ کی کس نے مخالف کی؟
آپ ﷺ کے چچا ابولہب نے۔
۸)۔۔۔ قرآن کریم ابولہب کے بارے میں کیا کہتا ہے؟
تَبَّتْ یَدَا أَبِیْ لَھَبْ یعنی اس کے لئے دنیا و آخرت میں تباہی ہے۔
۹)۔۔۔ کفار آپ ﷺ کی شکایتیں لے کر کس چچا کے پاس جاتے تھے؟
آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کے پاس۔
۱۰)۔۔۔ مشرکین مکہ نے ابوطالب کو کیا پیشکش کی؟
کہنے لگے ہمارے نوجوان ولید بن عمارہ کو اپنا بیٹا بنالو اور محمد (ﷺ) کو ہمارے حوالے کردو تاکہ ہم اسے قتل کردیں۔
۱۱)۔۔۔ لوگوں کی شکایتیں سن کر آپ کے چچا نے آپ ﷺ سے کیا کہا؟
مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو، میں تمہاری حمایت کرتے کرتے تھک گیاہوں۔
۱۲)۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے چچا کی بات سن کر کیا جواب دیا؟
آپ ﷺ نے فرمایا یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں۔ تب بھی میں اللہ کے حکم سے باز نہ آؤں گا۔
۱۳)۔۔۔ خانہ کعبہ میں آپ ﷺ کو کس نے کس طرح قتل کرنے کی کوشش کی؟
سجدے کی حالت میں گلے میں پھندا ڈال کر عقبہ بن ابی معیط نے آپ ﷺ کوقتل کرنے کی کوشش کی۔
۱۴)۔۔۔ آپ ﷺ کو کس نے بچایا؟
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے۔
۱۵)۔۔۔ آپ ﷺ پر اوجھڑی ڈال کر قتل کرنے کی سازش کس نے کی؟ اور کس نے بچایا؟
سازش ابوجہل اور عقبہ بن ابی معیط نے کی اور حضرت فاطمہؓ نے اوجھڑی ہٹاکر جان بچائی۔
۱۶)۔۔۔ اسلام کی راہ میں سب سے پہلے کسے شہید کیا گیا؟
حارث بن ابی حالہ کو۔
۱۷)۔۔۔ رقیہ اور ام کلثوم کون تھیں اور کس کی بیویاں تھیں؟
آپ ﷺ کی صاحبزادیاں تھیں اور ابولہب کے بیٹے عتبہ اور عتیبہ کی بیویاں تھیں۔
۱۸)۔۔۔ آپ کی صاحبزادیوں کو طلاق کس نے دلوائی؟
ابولہب نے۔
۱۹)۔۔۔ آپ ﷺ کی راہ میں کانٹے کس نے بچھائے؟
ابولہب کی بیوی ام جمیل نے۔
۲۰)۔۔۔ ابوجہل نے جب رسول اللہ ﷺ کا سر پتھر سے کچلنے کا ارادہ کیا تو کیا واقعہ ہوا؟
جیسے ہی وہ پتھر لے کر آگے بڑھا تو اسے آگ کا الاؤ نظر آیا اور وہ ناکام واپس آ گیا۔
۲۱)۔۔۔ ابوالحکم کس کی کنیت تھی؟
ابوجہل کی۔
۲۲)۔۔۔ کفار مکہ مسلمانوں پر کس طرح ظلم کرتے تھے؟
تیز دھوپ میں گرم ریت پر لٹاکر۔ گرم لوہے سے جسم کو داغ کر، پانی میں ڈبو کر اور بھوکا پیاسا رکھ کر۔
۲۳)۔۔۔ کفار کے قبیلوں نے آپس میں کیا معاہدہ کیا تھا؟
معاہدہ کی رو سے کوئی قبیلہ کسی مسلمان کو پناہ نہیں دے سکتاتھا۔ہر قبیلہ پر فرض تھا کہ جہاں مسلمان ملیں وہ ان کے لئے سراپا ظلم و ستم بن جائیں۔
۲۴)۔۔۔ کفار یا سرؓ اور ان کی بیوی سمیہؓ اور بیٹے عمارؓ کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے؟
انہیں تپتی ریت پر لٹاتے اور بے پناہ اذیتیں دیتے تھے۔
۲۵)۔۔۔ رسول اللہ ﷺ یاسر کے خاندان کو اس حالت میں دیکھ کر کیا فرماتے؟
صبرکرو، تمہارا ٹھکانہ جنت ہے۔
۲۶)۔۔۔ پہلی مسلمان شہید خاتون کا نام بتائے۔
حضرت یاسرؓ کی بیوی سمیہؓ ۔
۲۷)۔۔۔ حضرت خبابؓ کس کے غلام تھے۔ اور ان کی مالکہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتی تھی؟
حضرت خبابؓ اُمِّ اَنْمَارْ کے غلام تھے، وہ روزانہ لوہے کی سلاخیں گرم کرکے آپؓ کے سرپر رکھتی تھی۔
۲۸)۔۔۔ حضرت خبابؓ کی فریاد سن کر رسول اللہ ﷺ نے کیا دعا فرمائی اور آپ ﷺ کی دعا کس طرح قبول ہوئی؟
آپ ﷺ نے دعا فرمائی خدایا! خبابؓ کی مدد کر۔ چنانچہ انمار کے سر میں ایسی بیماری ہوگئی جس کا علاج سلاخیں گرم کرکے سر پر رکھنا تھا۔ اور یہ کام خباب انجام دیتے تھے۔
۲۹)۔۔۔ بلال حبشیؓ کون تھے اور کہاں کے رہنے والے تھے؟
بلالؓ خلف کے بیٹے امیہ کے غلام تھے۔ اور حبشہ کے رہنے والے تھے۔
۳۰)۔۔۔ بلالؓ کے ایمان لانے پر امیہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا تھا؟
کھانا پانی بند کر دیتا اور تپتی دھوپ میں چٹانوں پر لٹا دیتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھوا دیتا۔
۳۱)۔۔۔ بلالؓ ظلم سہتے ہوئے کیا کہتے تھے؟
اَحْدُ‘ اَحْدُ‘ کی صدا لگاتے تھے، یعنی اللہ ایک ہے بس ایک ہے۔
۳۲)۔۔۔ رسول اللہ ﷺ بلالؓ کی یہ حالت دیکھ کر کیا فرماتے ؟
بلالؓ گھبراؤ نہیں اللہ جلد نجات دے گا۔
۳۳)۔۔۔ورقہ بن نوفل نے بلالؓ کو اس حالت میں دیکھ کر کفار سے کیا کہا؟
خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ان کی اسی طرح جان لے لی تو میں اس کی قبر کو زیارت گاہ بناؤں گا۔
۳۴)۔۔۔حضرت ابوبکرؓ نے بلالؓ کو کس طرح آزاد کرایا؟
اپنا غلام امیہ کو دے دیا اور حضرت بلالؓ کو لے کر آزاد کر دیا۔
۳۵)۔۔۔حضرت ابوبکرؓ مظلوم مسلمان غلاموں کی کس طرح مدد کرتے تھے؟
مسلمان غلاموں کو خرید کر انہیں آزاد کر دیتے تھے۔
۳۶)۔۔۔ ابوقحافہ کون تھے؟ اور انہوں نے ابوبکرؓ سے کیا کہا؟
ابوقحافہ حضرت ابوبکرؓ کے والد تھے، انہوں نے ابوبکرؓ سے کہا کہ تم صرف کمزور غلام آزاد کرتے ہو، بہادر غلام بھی آزاد کرو تاکہ وقت پڑنے پر کام آئیں، اور مصیبت میں مدد کریں۔
۳۷)۔۔۔حضرت ابوبکرؓ نے والد کو کیا جواب دیااور اللہ نے آپ کے جواب پر کیا فرمایا؟
آپؓ نے فرمایا میرا مقصد اللہ کو خوش کرنا ہے۔ اس جواب کو اللہ نے پسند فرمایا اور تائید میں قرآن نازل فرمایا۔
۳۸)۔۔۔امیہ ابوفکیہؓ کے ساتھ کیا سلوک کرتا تھا؟
ابوفکیہؓ کے پیروں میں رسی ڈالتا اور انہیں گرم ریت پر لٹاتا تھا۔ سینہ پر وزنی پتھر رکھ دیتا تھا۔
۳۹)۔۔۔ حضرت عثمانؓ کے اسلام لانے پر ان کے چچا نے کیا سلوک کیا؟
رسی سے باندھ کر مارا کرتے تھے۔
۴۰)۔۔۔حضرت زبیرؓ کے چچا نے ان کے اسلام لانے پرکیا سلوک کیا؟
وہ حضرت زبیرؓ کو چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں دیتے تھے یہاں تک کہ آپؓ بے ہوش ہوجاتے۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ سیرت حلبیہ علی بن برہان حلبی، ج /۲، ص ۲۴۵،
۲۔ سورۂ الحجر، ۱۵/ آیت نمبر ۹۴،
۳۔ سورۂ الشعراء ۲۶/آیت نمبر ۲۱۴۔۲۲۰،
۴۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص ۲۴۸،
۵۔ سورۂ مائدہ ۵/ آیت نمبر ۶۷،
۶۔ فتح الباری ج / ۸، ص ۳۶۰، ۶۰۹، حدیث نمبر ۴۷۷۰ اور ۴۹۷۱،
۷۔ سورۂ لہب ۱۱/ آیت نمبر ۱،
۸۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج /۱، ص ۲۲۹،
۹۔ سیر النبی شبلی نعمانی، ج / ۱، ص /۲۲۱،
۱۰۔ سیرت حلبیہ ج / ۱ص / ۲۶۹،
۱۱۔ سورۂ مائدہ ۵/ آیتنمبر ۶۷،
۱۲۔ سیرت حلبیہ ج / ۲ص /۲۹۱،
۱۳۔ ایضاً
۱۴۔ ایضاً
۱۵۔ ایضاً ص ۲۹۰،
۱۶۔ ایضاً ص ۲۸۳ تا ۲۸۸،
۱۷۔ سورۂ واللیل ۹۲/ آیت نمبر ۱۹۔۲۱،
۱۸۔ رحمۃ للعالمین قاضی سلمان منصور پوری، ج / ۱ص /۵۲،
۶۔دعوت دین۔ایک نئے دور میں
حضرت حمزہ کا قبول اسلام:
نبوت کا چھٹا سال تھا۔ ایک روز آپ ﷺ کے پاس سے ابو جہل کا گزر ہوا، دیکھتے ہی وہ گالیاں دینے لگا۔ اور جتنا برا بھلاآپ ﷺ کو کہہ سکتا تھا، کہتا رہا، مگر آپ ﷺ اُس کے منہ نہ لگے۔ منہ لگنا تو درکنار آپ ﷺ اس کی طرف متوجہ بھی نہ ہوئے۔ یہ بات اس کو اور بری لگی۔ وہ غصے سے بیتاب ہوگیا۔ چنانچہ جھک کر اس نے زمین سے مٹھی بھر کنکری اٹھائی، اور روئے مبارک پر پھینک ماری۔ پھر آپ ﷺ کو دیر تک بری بری باتیں سناتا رہا۔ اور منہ میں جو کچھ آتا رہا، بکتا رہا۔
وہیں ایک لونڈی کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی، یہ عبداللہ تیمی کی لونڈی تھی۔ ہاں ، وہی عبداللہ تیمی جو قریش کے سرداروں میں سے تھا۔ اس لونڈی کو حضورﷺ سے بے پناہ الفت تھی۔ اگرچہ لوگ اس بات سے بے خبر تھے اور اُس نے بھی کبھی کسی کوبتایا نہیں تھا۔
شام کو اُسے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی۔ یہ آواز ابوقبیس نامی پہاڑ کی طرف سے آ رہی تھی۔ دیکھا تو ایک آدمی چلا آ رہا تھا۔ قد درمیانہ تھا۔ آنکھیں سیاہ تھیں۔ کاندھے چوڑے چوڑے تھے۔ چہرے سے وقار اور ہیبت ٹپک رہی تھی۔ کمر میں تلوار بندھی تھی۔ اور گردن سے کمان لٹک رہی تھی۔ پشت پر ترکش بھی تھا۔ وہ کون تھا؟ شیر قریش۔ حمزہؓ تھا۔ ہاں وہی حمزہؓ جو عبدالمطلب کا بیٹا اورحضور ﷺ کا چچا تھا۔ ایک رشتہ سے آپ ﷺ کی خالہ کا بیٹا تھا۔ اور دودھ شریک بھائی بھی تھا۔ وہ شکار سے واپس ہواتھا۔ اور کعبہ کا طواف کرنے جا رہا تھا۔ اس کا ہمیشہ کا یہی معمول تھا۔ شکار سے واپس ہوکر سب سے پہلے وہ کعبہ جاتا وہاں پہنچ کر طواف کرتا اور پھر گھر واپس آتا۔ حمزہؓ قریب ہوا، تو لونڈی بولی:
ابوعمارہ! کیا آپ لوگوں میں غیرت نام کو نہ رہی کہ بنی مخزوم کے غنڈے محمد ﷺ کو اتنی آزادی سے ستا رہے ہیں۔
حمزہؓ چلتے چلتے رک گیا، اور بڑی حیرانی سے اس نے پوچھا:
عبداللہ کی لونڈی! تو کیا کہہ رہی ہے؟
لونڈی: میں کیا بتاؤں، آج تمہارے بھتیجے پہ کیا بیتی! محمد ﷺ یہیں پر تھے کہ اتنے میں کہیں سے ابوجہل بھی آ گیا۔ آتے ہی اُس نے وہ وہ گالیاں دیں کہ میں تو سرپیٹ کے رہ گئی۔ پھر اسی پر بس نہ کیا، مٹھی بھرکنکری بھی اس نے ان کے منہ پر پھینک ماری۔
حمزہؓ : کیا یہ آنکھوں دیکھی بات ہے؟
لونڈی: ہاں، میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے۔ اور میرے ان کانوں نے سنا ہے۔
یہ سننا تھا کہ حمزہؓ غصے سے لال ہوگیا۔ چنانچہ لپک کر وہ کعبہ گیا، اور آج کسی سے کوئی بات چیت نہ کی۔ سلام تک نہ کیا۔ وہاں ابوجہل پر نظر پڑ گئی۔ جو لوگوں کے درمیان بیٹھا تھا۔ تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور کمان سنبھال کر اس زور سے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ اب کیا تھا۔ خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔ اور پورا چہرہ لہولہان ہوگیا۔ پھر حمزہؓ نے للکارتے ہوئے کہا محمد ﷺ میرا بھتیجا ہے، جسے تونے بے وارث سمجھ رکھا ہے، وہ میرا بھتیجا ہے، اس کا چہرہ گالیاں اور پتھر کھانے کے لئے نہیں ہے۔
حمزہؓ بہت بارعب آدمی تھا۔ اس کے غصہ سے ہر ایک کانپتا تھا۔ وہ بگڑ جاتا تو کوئی بول نہ سکتا تھا۔ اس لئے ابوجہل نے اس خطا کو خوشنما بناتے ہوئے کہا:
صاحب ! اس نے تو ہم کو اُلو سمجھ لیا ہے۔ جو چاہتاہے بک دیتا ہے، کبھی ہماری عقلوں پر چوٹیں کرتا ہے اور کبھی باپ دادا کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ اس پر بھی بس نہیں۔ وہ ہمارے دیوتاؤں تک کو نہیں بخشتا۔ پھر ہمارے جتنے لونڈی غلام ہیں۔ ان سب کو وہ بہکاتا ہے۔
حمزہؓ بولے تم سے زیادہ نادان ہے بھی کون، کہ اللہ کو چھوڑ کر بے جان بتوں کو پوجتے ہو!
سن لو، میں بھتیجے کے ساتھ ہوں۔ اب اسلام ہی کے لئے میرا جینا ہے اور اسلام ہی کے لئے میرا مرنا ہے۔
چونکہ ابوجہل قبیلہ بنی مخزوم سے تھا اور وہاں اس قبیلہ کے بھی کچھ لوگ موجود تھے۔ اس لئے فوراً وہ ابوجہل کی مدد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے، اور بولے:
حمزہؓ ! معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے دین سے پھر گئے ہو،
حمزہؓ بولے جب اس کے دین کا حق ہونا مجھ پر واضح ہوگیا، تو پھرکیوں نہ مانوں؟ سن لو! محمد ﷺاللہ کے رسول ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں، بالکل حق ہے، خداکی قسم اب میں اس سے نہیں پھرسکتا۔ ہاں، اگر تم سچے ہو، اور کچھ کرسکتے ہو تو مجھے روک کر دیکھ لو۔
ابوجہل نے حمزہؓ کا یہ غصہ دیکھا تو وہ ڈرا اور سمجھ گیا کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ساتھیوں سے وہ بولا:
ہٹاؤ۔ جانے دو، میں نے واقعی محمد ﷺ پر بڑاظلم کیا۔
اس طرح حمزہؓ نے بھرے مجمع میں اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔ اور پوری بیباکی سے کہہ دیا کہ میرا وہی دین ہے، جو محمد ﷺ کا ہے۔
مگر پھر لوٹ کر جب گھر آئے تو فکر مند ہوئے کہ کیا میں جو کچھ کہہ کے آیا ہوں، صحیح ہے؟ کہیں میں نے جذباتی ہو کر جوش میں آکر غلط بات کا تو اعلان نہیں کیا؟
اسی طرح وہ سوچتے رہے۔ یہاں تک کہ آنکھوں آنکھوں میں رات کٹ گئی۔ وہ پوری رات جاگتے رہے، اور دُعا کرتے رہے:
خدایا! مجھ کو سیدھا راستہ دکھا۔ میرے دل کو سکون عطا فرما۔ پھر صبح ہوئی تو انہیں ایسامعلوم ہوا گویا، دل کو پورا اطمینان ہوگیا۔ اور یقین کے نور سے جگمگا اٹھا۔ چنانچہ وہ دوڑے ہوئے اپنے بھتیجے محمد ﷺ کے پاس آئے اور اپنے مسلمان ہونے کی خوش خبری سنائی اور آخر دم تک دین کے لئے جان لڑانے کا عہدکیا۔
حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہونے سے دنیائے کفر میں زلزلہ آگیا۔ کیونکہ باطل ایک بہت بڑے بہادر اور جانباز سپاہی سے محروم ہوگیا۔
حضرت حمزہؓ کے ایمان لانے سے آپ ﷺ کو کتنی خوشی ہوئی؟ اس کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟ لوگوں نے دیکھا کہ اس وقت چہرہ مبارک گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا، اورچاند کی طرح چمک رہا تھا۔ نیز اسی موقعے پر بے اختیار آپ ﷺ کی زبان سے نکلا :
خدایا! حمزہؓ کو ثابت قدم رکھ۔
کیونکہ حمزہؓ قریش کے سب سے بڑے پہلوان تھے۔ ان کی بہادری کا ہر طرف چرچا تھا۔ ہر چھوٹابڑااُن سے دبتا تھا۔ اس طرح ان کے مسلمان ہونے سے اسلام کو بڑی تقویت ملی۔(۱)
حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو حضرت عمرؓ اس وقت ستائیس برس کے تھے، بڑے بہادر اور طاقت والے مانے جاتے تھے، جو لوگ اسلام قبول کرتے، عمر خاص طور پر انہیں ظلم کا نشانہ بناتے۔ انکی کنیز لبینہؓ نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ عمرؓ اسے اس قدر مارتے کہ خود تھک کر بے حال ہو جاتے اور کہتے:
میں تھوڑی دیر دم لے لوں، تو پھر ماروں گا۔(۶)
حضرت عمرؓ واحد شخصیت ہیں جن کے اسلام لانے کی دعا خود حضور ﷺ نے کی تھی۔(۳) عمر ایک روز کہنے لگے، کیوں نہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کوقتل کر دیا جائے تاکہ ہر روز کا یہ قصہ ختم ہو۔ آخر یہ ارادہ کرکے اٹھے، تلوار ہاتھ میں لی اور سیدھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلے، راستے میں نعیمؓ بن عبداللہ ملے جو مسلمان ہو چکے تھے، انہوں نے حضرت عمرؓ کو اس قدر غصے کی حالت میں دیکھا تو پوچھا!
’’عمر ! کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘
بولے : محمد (ﷺ) کا فیصلہ کرنے جا رہا ہوں۔
نعیمؓ بن عبداللہ نے کہا : پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو، تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں۔
نعیم بن عبداللہ کا خیال تھا کہ عمر اپنے بہنوئی کے گھر جائیں گے تو وہ بھاگ کر حضور ﷺ کو عمر کے ارادہ سے آگاہ کر دیں گے۔
حضرت عمرؓ نے یہ بات سنی تو فوراً پلٹے اور بہن کے گھر پہنچے، وہ اس وقت قرآن مجید پڑھ رہی تھیں۔ عمرؓ کے آنے کا سنا توفوراً چپ ہوگئیں اورقرآن کے ورق چھپا دیئے، لیکن عمرؓ کے کانوں میںآواز پڑ چکی تھی۔ کڑک کر پوچھا: یہ کیسی آواز تھی؟
بولیں: کچھ نہیں۔
عمرؓ نے کہا: میں سن چکا ہوں، تم دونوں مسلمان ہوگئے ہو۔
یہ کہتے ہوئے بہنوئی کو مارنا شروع کر دیا۔ بہن بچانے کے لئے آگے بڑھیں تو وہ بھی زخمی ہوگئیں اور ان کے ماتھے سے خون بہنے لگا۔ اسی حالت میں بولیں:
عمر! جو جی میںآئے کرو، اب ہم اسلام نہیں چھوڑ سکتے۔
بہن کے منہ سے نکلے ہوئے ان لفظوں نے عمرؓ کے دل پر خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف نگاہ کی تو وہ خون میں لت پت تھیں ، دیکھ کر دل بھر آیا بولے: اچھا، تم لوگ جو پڑھ رہے تھے وہ مجھے بھی سناؤ۔
ان کی بہن فاطمہؓ نے سورہ حدید کی تلاوت شروع کی۔ ابھی انہوں نے چند آتیں ہی پڑھی تھیں کہ حضرت عمرؓ بے اختیار پکار اٹھے:
’’میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔‘‘
یہ وہ زمانہ تھا کہ قریش حضور ﷺ کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے اور حضور ﷺ کوہِ صفا پر حضرت ارقمؓ کے مکان میں رہتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے آستانہ مبارک پر پہنچ کر دستک دی۔ صحابہؓ نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ تلوار ہاتھ میں پکڑے آئے ہیں۔ حضرت حمزہؓ نے صحابہ کرامؓ کی گھبراہٹ دیکھی تو کہا:
آنے دو، اچھے ارادے سے آیا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اڑا دوں گا۔
حضرت عمرؓ مکان میں داخل ہوئے توحضور ﷺ نے آگے بڑھ کر ان دامن کھینچا اور پوچھا:
عمر! کس ارادے سے آئے ہو؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بارعب آواز سے عمرؓ کانپنے لگے اور گردن جھکاکر دھیمی آوازمیں عرض کیا:
یا رسول اللہ ! مسلمان ہونے کے لئے آیا ہوں۔
یہ سننا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور سب صحابہؓ نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کہ مکہ کی تمام پہاڑیاں گونج اٹھیں۔
حضرت عمرؓ کے مسلمان ہونے سے اسلام کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس وقت اگرچہ قریباً چالیس آدمی اسلام لاچکے تھے۔ ان میں قریش کے مشہور بہادر حضرت حمزہؓ بھی شامل تھے۔ لیکن ابھی تک مسلمان کھلم کھلا آزادی کے ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ بلکہ دار ارقم میں چھپ کر عبادت کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے مسلمان ہونے سے مسلمانوں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے کہ انہوں نے کعبہ میں جاکر نماز پڑھنی شروع کردی۔
حضرت عمرؓ نے عرض کیا: خدا کی عبادت اور چھپ کر کی جائے، بخدا یہ نہ ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ جن مجلسوں میں اب تک میں نے کفر کے گن گائے ہیں۔ اب اسلام کے نعرے لگاؤں گا۔
چنانچہ آپ ﷺ نے ساتھیوں کی دو صفیں بنائیں۔ ایک کے امیر حضرت عمرؓ تھے۔ اور دوسرے کے حضرت حمزہؓ ۔ پھر بہادرجوانوں کی دونوں صفیں کعبہ کی طرف بڑھیں اور وہاں پہنچ کر انہوں نے نماز ادا کی۔ پھر نعرہ لگایا کہ جس سے مکہ کی پہاڑیاں دہل گئیں:
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ‘ رَّسُوْلُ اللّٰہ
آج ماہ اسلام کی تابانی کا پہلا دن تھا۔ آج پہلی بار اسلام پوری شان و شوکت سے نمودار تھا۔ اس دن قریش کو جتنا رنج و ملال ہوا، اس سے پہلے اور کبھی نہ ہوا تھا۔ اور مسلمانوں کو جتنی خوشی تھی، اس کا اندازہ کرنا بھی مشکل ہے۔ ان سے کہیں زیادہ خوشی خود حضرت عمرؓ کوتھی کہ آج دنیا کی سب سے بڑی دولت سے وہ مالا مال تھے۔
پھر حضرت عمرؓ نے گھوم گھوم کر اسی رات اپنے اسلام کا اعلان کیا، اور لوگوں کو بھی اس کی دعوت دی۔ گویا جودلیری اور بیباکی کبھی اس سے روکنے میں صرف ہو رہی تھی، آج وہی دلیری و بیباکی اس کی تبلیغ میں نمایاں تھی، ابوجہل ان کاماموں تھا، اس لئے اس کے یہاں بھی گئے۔ گھر کی کنڈی کھٹکھٹائی تو وہ باہر آیا اور بہت ہی پیار و محبت سے بولا:
خوش آمدید بھانجے! کہو کیسے آئے؟
عمرؓ نے جواب دیا: بس یہ بتانے آیا ہو کہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آیا اور محمد ﷺ کو نبی مان لیا۔ نیز ان کی ساری باتوں کو تسلیم کرلیا۔
یہ کہنا تھا کہ ابوجہل کے دل و دماغ پر جیسے بجلی گر گئی۔ اس نے زور سے دروازہ پیٹا اورکڑ ک کر بولا: خدا تجھے غارت کرے اورتیرے دین کا بھی جنازہ اٹھے!
مشرکین مکہ ایک دن عمرؓ پر پل پڑے ان کو ستانے اور تنگ کرنے لگے مگر عمرؓ نے بھی تلوار سے مقابلہ کیا۔ کافروں میں ہوتے ہوئے بھی ڈر کا نام نہ تھا۔ بار بار وہ شیر کی طرح گرجتے اور پوری بے باکی سے کہتے :
سن لو! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ کوئی بھی ہلا تو سر قلم کر دوں گا۔
اسی وقت پیارے نبی ﷺ نے انہیں فاروق کا خطاب دیا کہ اللہ نے ان کے ذریعہ حق اور باطل میں فرق کیا۔
یہ نبوت کا چھٹا سال تھا اور ذی الحجہ کا مہینہ، حضرت حمزہؓ کو مسلمان ہوئے صرف تین ہی دن ہوئے تھے کہ حضرت عمرؓ بھی اسلام لے آئے۔(۴)
قرآن کا اثر ولید پر:
ایک روز کا واقعہ ہے، قریش جمع تھے اور آپس میں باتیں کر رہے تھے، پیارے نبی ﷺ کا ذکر چھڑا تھا اور وہی اپنی بے بسی کا رونا تھا کہ عتبہ بن ربیعہ۔ قریش کا ایک بڑا سردار بولا:
بھائیو! کیا میں جاؤں، اور محمد ﷺ سے گفتگو کروں؟ میرا خیال ہے کہ اس کے سامنے کچھ باتیں رکھوں، ہوسکتا ہے کوئی بات وہ مان لے، اور سر سے یہ مصیبت ختم ہوجائے۔
سب نے کہا : ضرور جاؤ، ضرور جاؤ! ابو الولید! جاکر اس کو کسی طرح راضی کرو۔ چنانچہ عتبہ اٹھ کر پیارے نبی ﷺ کے پاس آیااور بولا:
بھتیجے! تمہیں معلوم ہے کہ تم کتنے اونچے خاندان کے فرزند ہو۔ ہمارے دل میں تمہارا کیامقام ہے؟ اس سے بھی تم خوب واقف ہو، مگر تم نے تو بہت بری دعوت دینی شروع کی ہے۔ دیکھ رہے ہو پوری قوم اختلاف کا شکار ہوگئی ہے۔ اور سارا نظام درہم برہم ہوگیا، اچھا سنو میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں، ہوسکتا ہے کہ کوئی بات دل کو لگ جائے اور تم اپنا یہ مذہب چھوڑ دو۔
پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں ، ہاں کہیے ابو الولید! میں خوشی سے سنوں گا
عتبہ کہنے لگے : بھتیجے! قوم میں پھوٹ ڈالنے، اختلاف پیدا کرنے سے کیافائدہ؟ دولت چاہتے ہو، تو بتاؤ، تمہارے سامنے ہم دولت کے ڈھیر لگا دیں۔ سرداری کا شوق ہے تو تمہیں اپنا سرداربنالیں۔ بادشاہت کی تمنا ہو تو اس کے لئے بھی ہم تیار ہیں، پھرتمہارے بغیر کوئی فیصلہ نہ ہوگا۔ اور جو تم کہو گے، وہی ہوگا۔ اور اگر آسیب یاجن بھوت کا اثر ہوگیا ہے اور اس کے مقابلے میں تم بے بس ہو جاتے ہو، تو بتاؤ ہم علاج کااچھے سے اچھا انتظام کریں گے، اور جب تک اچھے نہیں ہو جاؤ گے پانی کی طرح دولت بہا ئیں گے۔
عتبہ وہی باتیں کرتا رہا، جو اس سے پہلے لوگ کرچکے تھے، جب عتبہ اپنی بات سے فارغ ہوا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ابوالولید: اب کچھ میری باتیں بھی سن لیجئے۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے سورۂ سجدہ کی تلاوت کی۔ عتبہ پوری توجہ سے سنتا رہا۔ اور کئی جگہ تو اسکا دل دہل دہل گیا۔ پھر آپ ﷺ تلاوت سے فارغ ہوئے تو وہ اٹھا۔ اور قریش کی طرف لوٹ پڑا۔ لیکن اب اس کی رائے پہلی جیسی نہ تھی۔ اب اس کے دل کی دنیا بدل چکی تھی۔ چنانچہ ساتھیوں کی نظر پڑی، تو انہوں نے دور ہی سے کہا: خدا کی قسم! یہ وہ چہرہ نہیں، جو یہاں سے لے کر یہ گیاتھا۔ پھر وہ قریب ہوا تو سب نے پوچھا: کہو ابو الولید کیا ہوا؟
ابوالولید کہنے لگا : خداکی قسم! میں نے شاعروں کے قصیدے سنے ہیں۔ کاہنوں کے بھی کلام سنے ہیں۔ لیکن یہ چیز ہی اور ہے۔ اس جیسی چیز تو میرے کانوں نے اب تک نہیں سنی۔ بھائیو! میری بات مان لو اور جو کچھ وہ کرتا ہے، کرنے دو، اس کو عرب پر چھوڑ دو۔ اگر وہ غالب آ گئے تو تمہارا مقصد حاصل ہے۔ بھائی کے خون میں ہاتھ رنگنے سے بھی بچ جاؤ گے۔ اور اگر وہ اس کے سامنے جھک گئے تو اس کی عزت تو تمہاری عزت ہے۔ اس کی طاقت تو تمہاری طاقت ہے۔
قریش کہنے لگے: خدا کی قسم، تم بھی اس کے جادو سے بچ نہ سکے۔
عتبہ: میں نے جو سمجھا کہہ دیا۔ اب تمہارا جو دل چاہے کرو۔
قریش کسی کو قرآن گنگنا تا سن لیتے، تو بہت ستاتے، اور مذاق اڑاتے کسی کو نماز پڑھتا دیکھ لیتے، تو آواز کستے اور قہقہے لگاتے۔وہ یہ سب صرف ضد اور دشمنی میں کرتے تھے ورنہ جانتے سب تھے کہ یہ سچا قرآن ہے۔
قرآن کا اثر ابوجہل، ابوسفیان اور اخنس پر :
قرآن۔۔۔ ہاں، یہی قرآن، جس سے مشرکین کو چڑ تھی، اسے سننے کیلئے بھی وہ بے قرار رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے چھپ چھپ کے اسے سناکرتے۔ ہر ایک کو شوق تھا کہ ذرا محمد ﷺ کا کلام سنیں۔ اوردیکھیں وہ کیسا قرآن ہے۔ جس کے سامنے شاعروں کی شاعری پھیکی پڑ گئی۔ کاہنوں کا کلام ماند پڑ گیا اور جو جادو گروں سے بھی نمبر لے گیا ہے۔
چنانچہ جب رات کی تاریکی پھیل جاتی۔ اور ہر طرف سناٹا چھا جاتا، تو قریش کے بڑے بڑے سردار حجرہ مبارک ﷺ کا رخ کرتے۔ اور وہاں قریب ہی کہیں دبک کر بیٹھ جاتے، خاموشی اور سکون کا وقت ہوتا۔ اس سکون میں آپ ﷺ نماز میں مصروف ہو جاتے۔ بہت ہی میٹھی آواز سے قرآن پڑھتے اور خوبصورتی کے ساتھ تلاوت کرتے۔ یہ لوگ خاموشی سے بیٹھے سناکرتے، پھر فجر طلوع ہونے کو ہوتی، تو دبے پاؤں گھر لوٹ آتے۔ اس طرح رات کے پردے ہی میں یہ سب ہو جاتا اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوتی۔ حتیٰ کہ خود آپ ﷺ بھی بے خبر رہتے، ایک دن کی بات ہے، ابوجہل، ابوسفیان اور اخنس اپنے اپنے گھروں سے نکلے، ہر طرف اندھیرا اورسناٹا تھا۔ یہ تینوں حجرہ مبارک کے پاس آئے اورقریب ہی چھپ چھپ کے بیٹھ گئے۔
تینوں اپنے اپنے گھروں سے چلے۔ مگر چونکہ رات اندھیری تھی۔ کوئی کسی کو دیکھ نہ سکا، پھر وہاں پہنچے تو آپ ﷺ قرآن پڑھ رہے تھے۔ انتہائی پیاری آواز سے جو کانوں کو بہت اچھی لگ رہی تھی۔ چنانچہ ہر ایک قریب ہی دبک کر چھپ کر بیٹھ گیا اور سنتا رہا، صبح ہونے کو ہوئی، تو سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ پڑے۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ راستے میں ایک جگہ آکر تینوں مل گئے ،ایک دوسرے کو دیکھ کر تینوں اپنی غلطی پر شرمند ہ ہوئے۔ اور ہمیشہ کے لئے کان پکڑ لئے۔ ہرایک نے کہا:
اگر کسی نے دیکھ لیا تو پھر بڑا غضب ہو جائے گا۔ ہمارا سارا کھیل بگڑ جائے گا، اور محمد ﷺ کے لئے میدان صاف ہو جائے گا۔ ہم دن میں لوگوں کو قرآن سننے سے روکتے ہیں، رات میں خود سنتے ہیں، آئندہ کوئی نہیں آئے گا۔ مگر دوسری رات آئی، تو ابوجہل پھر حجرہ مبارک کے پاس جاکر دبک گیا اور قرآن سننے لگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج تو وہ دونوں آئیں گے نہیں۔
کچھ دیر بعد ابوسفیان بھی آ پہنچا اور وہ بھی قریب ہی دبک کر بیٹھ گیا۔ اس کا بھی خیال تھا کہ آج تو وہ دونوں آئیں گے نہیں۔
کچھ ہی دیر بعد اخنس بھی آ پہنچا اور وہ بھی کہیں قریب ہی بیٹھ گیا۔ اس کا بھی خیال تھا کہ آج تو وہ دونوں آئیں گے نہیں۔
پھر صبح ہونے کو ہوئی، تو تینوں لوٹ پڑے۔ مگر اتفاق سے آج بھی سب کی مڈبھیڑ ہوگئی۔ چنانچہ وہ سب پھر شرمندہ ہوئے اور آئندہ کے لئے توبہ کی۔
تیسری رات آئی تو پھر ابوجہل نے حجرہ مبارک کا رخ کیا۔ اس نے سوچا کہ دونوں دوبارہ آئے، اور ہر بار پکڑے گئے، بھلا اب پھر یہ غلطی کیسے کر سکتے ہیں؟
اس طرح ہر ایک نے یہی سوچا، اور پھر جاپہنچا اور راستے میں آج بھی مڈبھیڑ ہوگئی، چنانچہ تینوں نے پھر اظہار شرمندگی کیا اور پھر ان میں نیا عہد و پیمان ہوا۔ ہر ایک نے پھر قسمیں کھائیں کہ اب کبھی نہیں آئیں گے۔
اس کے بعد صبح ہوئی تو اخنس ابوسفیان کے پاس گیا۔ بولا:
ابوحنظلہ : محمد ﷺ کا کلام تم نے سن لیا۔ اب بولو، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ابوسفیان : قسم ہے ابوثعلبہ ! کچھ تو ایسی چیزیں سنیں، جن کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ ان سے کیا مراد ہے۔ لیکن کچھ ایسی باتیں بھی ہیں، جن کا مدعا ہی نہیں کھلتا۔ سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ ان سے مراد کیا ہے؟
اخنس : خدا کی قسم! اپنا بھی یہی حال ہے۔
پھر وہ ابوجہل کے پاس آیا۔ اور اس سے بھی یہی سوال کیا۔ ابوجہل نے کہا: کچھ سناتم نے؟ ہم اور عبدمناف ہمیشہ نیک نامی میں برابر رہے۔ کوئی بھی ایسا کام نہیں، جو انہوں نے کیا، اور ہم نے چھوڑ دیا۔ ہر موقع پر ہم ان کے دوش بدوش رہے۔ اور ہر میدان میں ان کے حریف رہے۔ یوں سمجھ لو ہم دونوں مقابلہ کے دو گھوڑے تھے۔ اب آج وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک نبی ہے اور اس کے پاس وحی آتی ہے، بتاؤ اب اس چیز میں ہم ان کا مقابلہ کیسے کریں، خدا کی قسم ! ہم تو قیامت تک ایمان نہیں لائیں گے، اس کی ایک بات بھی نہیں مانیں گے!
اللہ اللہ! یہ کینہ اور حسد!
شعب ابی طالب میں آپ ﷺ کے خاندان اور مسلمانوں کو قید کرنا :
۷نبوی میں کفار نے حضور ﷺ اور اُن کے خاندان کو پہاڑ کے ایک درے میں قید کر دیا۔ اس درے کا نام شعب ابی طالب تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے مسلم اور غیر مسلم رشتہ داروں کو اجازت نہ تھی کہ بازار سے جاکر کھانے کی چیزیں خریدیں اور کھائیں۔ کوئی رحم کھاکر اگر کوئی کھانے کی چیز پہنچانا چاہتا تھاتواسے روک دیا جاتا تھا۔ (۵) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے چھوٹے چھوٹے بچے بھوک کی وجہ سے روتے تھے، تو کفار مکہ درے کے سامنے کھڑے ہوکر قہقہے لگاتے تھے۔
کتنا کٹھن مرحلہ تھا یہ! سارا ماحول دشمن، دوست، عزیز سب سے ان بن، پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں۔ لوگوں سے کوئی لین دین نہیں، گویا موت ہر وقت منہ کھولے کھڑی ہو۔ مگر ایسے میں اللہ نے مدد کی اور کچھ دلوں کو اُن کے لئے نرم کر دیا۔ چنانچہ مسلمانوں کی بے بسی دیکھ کر انہیں ترس آنے لگا۔ اور اب وہ چھپ چھپ کر اُن کے پاس آتے اور کچھ کھانے پینے کا سامان دے جاتے۔ انہی لوگوں میں ایک حزام کے بیٹے حکیم تھے۔ خدیجہؓ ان کی پھوپھی تھیں۔ یہ اپنی پھوپھی کو روٹی، سالن دے جاتے۔ حضرت خدیجہؓ خود کھاتیں، اوروں کو بھی کھلاتیں۔ اسی طرح عمرؓ کے بیٹے ہشام بھی اُن مسلمانوں کے بڑے ہمدرد تھے۔ وہ اونٹ پہ بہت سا کھانا کپڑا لاد لیتے۔ پھر رات ہو جاتی تو ان مظلوموں کے پاس آتے۔ اونٹ کو گھاٹی کے باہر ہی بٹھا دیتے۔ اور سارا سامان اندر پہنچا دیتے۔ ہشام برابر ایسا ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ کچھ دنوں میں قریش کو بھی پتہ چل گیا۔ اور اب وہ ان کو بھی ستانے لگے۔ لیکن وہ اپنی ہمدردیوں سے باز نہ آئے۔(۶) پھر ہشام نے ایک کام اور کیا۔ وہ ابوامیہ کے بیٹے زہیر کے پاس گئے، جو عاتکہ کا بیٹا تھا اور عبدالمطلب کا نواسہ تھا۔ اس سے جاکر ہشام نے کہا:
زبیر! تم تو خوب عیش کرو۔ عمدہ سے عمدہ کھانے کھاؤ۔ اور اچھے سے اچھے کپڑے پہنو۔ اور تمہارے ماموں اس طرح رسوائی اور بے کسی کے ساتھ دن پورے کریں، کیا تمہیں یہ گوارا ہے۔۔۔! خدا کی قسم اگر یہ لوگ ابو الحکم (ابوجہل) کے ماموں ہوتے، اور تم اس سے ایسا کرنے کو کہتے، تو وہ ہرگز نہ تیار ہوتا۔
زہیر: میں تن تنہا کرہی کیا سکتا ہوں؟ خدا کی قسم اگر کوئی اور ساتھ دینے والا ہوتا تو میں اس معاہدہ کو توڑ دیتا۔
ہشام: کوئی اور مل جائے تو؟
زہیر : وہ کون؟
ہشام : میں!
زہیر : اچھا ایک اور آدمی تلاش کرو، کوئی اور مل جائے تو بڑا اچھا رہے گا۔ چنانچہ دونوں جوان معاہدہ توڑنے کے لئے کمربستہ ہوگئے۔ وہ معاہدہ جو سارے قریش کا معاہدہ تھا۔ اوراب کسی تیسرے کو ڈھونڈنے لگے۔ اللہ نے ان کی مدد کی اور نہ صرف ایک، بلکہ تین تین بہادر اُن کے ساتھ ہوگئے اور یہ تینوں قریش کے معزز سردار تھے۔ ایک عدی کے بیٹے مطعم تھے۔ دوسرے ہشام کے بیٹے ابو البحتری، اورتیسرے اسود کے کے بیٹے زمعہ تھے۔
صبح ہوئی تو ہشام، مطعم، ابوالبحتری اور زمعہ گھر سے نکل کھڑے ہوئے، کعبہ کے قرب ہی قریش جلسہ جمائے بیٹھے تھے۔ یہ چاروں سردار بھی وہیں جاکر بیٹھ گئے۔ مگر زہیر گئے اور انہوں نے کعبہ کا طواف کیا۔ پھر آکر بولے:
مکہ والو! ہم تو مزے سے کھاتے پیتے ہیں اور بنی ہاشم ایک ایک نوالہ کو ترس رہے ہیں۔ نہ کسی سے لین دین کرسکتے ہیں، نہ خرید و فروخت، کیا یہ مناسب ہے؟ کیا انسانیت اور شرافت کا تقاضا یہی ہے؟ خدا کی قسم میں تو بیٹھ نہیں سکتا، جب تک کہ اس معاہدہ کی دھجیاں نہ اُڑ جائیں۔ یہ سنتے ہی ابوجہل تن کر اٹھا اور کڑک کر بولا: تو نے غلط کہا۔ خدا کی قسم یہ ہرگز نہ ہوگا! اسی دم زہیر کے سب ساتھی ایک ساتھ بول اٹھے، ہاں بالکل ٹھیک ہے، یہ ہوگا، ضرور ہوگا، ہوکر رہے گا۔ ابوجہل سمجھ گیا کہ یہ سوچی، سمجھی اسکیم ہے۔ اور اس میں بولنا بے کار ہے۔ چنانچہ وہ مایوس ہو کر بیٹھ گیا۔
پھر مطعم عہدنامہ پھاڑنے کے لئے آگے بڑھا، مگر دیکھا تو اُس کو دیمک چاٹ گئی تھی، اور اب صرف ایک فقرہ باقی تھا، جو عہد نامہ کے شروع میں تھا۔ وہ فقرہ تھا :
بِاِسْمِکَ اللّٰھُمَّ (۷)
اے اللہ! تیرے نام سے
عہد نامہ چاک ہوگیا تو پیارے نبی ﷺ اور مخلص ساتھی درہ سے باہر آ گئے اور پوری سرگرمی سے پھر دعوت و تبلیغ میں لگ گئے۔ یہ نبوت کا دسواں سال تھا۔
چچا ابوطالب کی وفات کا صدمہ:
چچا! ایک فقرہ کہہ دیجئے، کہ قیامت کے دن میں آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ میرے مہربان چچا! صرف لا الہ الا اللہ کہہ دیجئے۔
چچا نے جواب دیا، اہل عرب طعنے دیں گے، اور کہیں گے کہ ابوطالب تو موت سے ڈر گیا۔ بھتیجے! اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا تو میں تیری بات ضرور مان لیتا۔
پیارے نبی ﷺ کو چچا سے بہت محبت تھی۔ آپ ﷺ کے دل میں اُن کی بڑی چاہ تھی۔ جہاں آپ ﷺ ان کے لئے دنیا کی کامیابی چاہتے تھے، وہیں آخرت کی سرخروئی کے بھی متمنی تھے۔ وہ اسلام نہیں لائے، تو آپ ﷺ تڑپ کر رہ گئے۔(۸) دل کو بہت سخت چوٹ لگی۔ اور پھر حسرت و غم میں آپ ﷺ گھلنے لگے۔ آپ ﷺ کا یہ حال ہوا تو خدا کی طرف سے وحی ہوئی:
اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلْکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشًآءُ (۹)
تم جس کو چاہو، ہدایت نہیں دے سکتے، اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
آپ ﷺ کا کام صرف یہ ہے کہ حق پہنچا دیں وہ مانیں یا نہ مانیں۔
اس طرح ابوطالب مرگئے۔ ہاں، وہی ابوطالب، جو آپ ﷺ کے سہارا اور مددگار تھے۔ آپ ﷺ کے غمگسار تھے۔
بی بی خدیجہؓ کا انتقال:
پھر اس صدمے کو ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے، کہ ایک دوسرا صدمہ و سانحہ پیش آ گیا، وہ سانحہ کیا تھا؟ بی بی خدیجہؓ۔۔۔آہ۔۔۔بی بی خدیجہؓ کا انتقال ، ہاں ، وہی خدیجہؓ، جو آپ ﷺ کی باوفا بیوی اور آپ ﷺ کے دُکھ درد کی شریک تھیں۔
ہاں، وہی خدیجہؓ ، جو آپ ﷺ کے لئے پیار و محبت کا دریا تھیں۔(۱۰) ہاں، وہی خدیجہؓ ! جنہوں نے پہلے دن سے آپ ﷺ کا ساتھ دیا۔ مایوسی میں ہمت بندھائی۔ اُداسی میں حوصلہ دیا، اور پھر اسی حال میں جان دے دی۔
ہاں ، وہی خدیجہؓ جو رب پر سب سے پہلے ایمان لائیں۔
ہاں، وہی خدیجہؓ جن کو ، خوداللہ نے سلام کہلایا۔ اور جنت میں موتیوں کے محل کی خوشخبری سنائی۔
ابوطالب اور خدیجہؓ کی موت کیا تھی؟ ایک سہارا تھا جو ٹوٹ گیا۔ ایک قلعہ تھا جو ڈھ گیا۔ لیکن اللہ کا سہارا باقی تھا۔ وہی آپ ﷺ کو کافی تھا۔ اس سال آپ ﷺ کو دو صدمے پہنچے۔ اس لئے اسے عام الحزن کا سال قرار دیا گیا ہے۔(۱۱)
اہل طائف کو اسلام کی دعوت:
ایک مرتبہ آپ ﷺ قبیلہ طائف کے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے گئے۔ انہیں بہت سمجھایا لیکن انہوں نے آپ ﷺ سے اچھا سلوک نہ کیا۔ شہر کے سب لڑکوں اور اوباش لوگوں کو حضور ﷺ کے پیچھے لگا دیا۔ حضور ﷺ جدھر جاتے بدمعاش اور اوباش لوگوں کا گروہ گالیاں بکتا اور پتھر کنکر مارتا ہوا پیچھے پیچھے جاتا۔
حضرت زیدؓ بن حارثہ آپ ﷺ کے ہمراہ تھے، جو آپ ﷺ کی حفاظت کر رہے تھے۔ آخر پتھروں اور کنکروں کی بوچھاڑ میں حضور ﷺ اور زیدبن حارث دونوں زخمی ہو گئے۔ راستے میں جو کوئی اس منظر کو دیکھتا تھا وہ بھی اوباش لوگوں کا ساتھی بن جاتا تھا اور پتھر مارنے میں شریک ہو جاتا تھا۔
حضور ﷺ طائف سے باہر نکل آئے، لیکن اُن لوگوں نے پیچھا نہ چھوڑا اور شہر سے تین میل باہر تک حضور ﷺ کے پیچھے آئے۔ حضور ﷺ کا پاک جسم پتھروں کی بارش سے لہولہان ہوگیا اور پنڈلیوں سے اس قدر خون بہا کہ جوتیاں بھر گئیں۔(۱۲)
آخرحضور ﷺ نے انگوروں کے ایک باغ میں پناہ لی، جو عتبہ و شیبہ کا تھا۔(۱۳) اوباش لوگ واپس چلے گئے، تو دونوں بھائیوں نے اپنے عیسائی غلام عداس کے ذریعے انگور بھیجے۔(۱۴) واپس آتے ہوئے مقام نخلہ میں رات گزاری جہاں جنوں کی ایک جماعت نے اسلام قبول کیا۔(۱۵) واپس مکہ آنے کے لئے اخنس اور سہیل سے پناہ دینے کی درخواست کی، انہوں نے انکار کیا تو مطعم کی پناہ میں ذی قعدہ ۱۰ نبوی میں مکہ آئے۔
سوال جواب
۱)۔۔۔ حضرت حمزہؓ سے آپ ﷺ کا کیا رشتہ تھا؟
حضرت حمزہؓ آپ ﷺ کے چچا ہونے کے ساتھ دودھ شریک اور خالہ زاد بھائی بھی تھے۔
۲)۔۔۔ حضرت حمزہؓ کو ابوجہل کی گستاخیوں کی خبر کس نے دی؟
عبداللہ تیمی کی لونڈی نے۔
۳)۔۔۔ حضرت حمزہؓ نے شکایتیں سن کر ابوجہل کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
فوراً کعبہ میں داخل ہوئے اور ابوجہل کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔
۴)۔۔۔ حمزہؓ کی کنیت کیا تھی؟
ابو عمارہ۔
۵)۔۔۔ حمزہؓ نے اسلام کس طرح قبول کیا؟
بھتیجے کی حمایت کرتے ہوئے کہنے لگے میں بھتیجے کے ساتھ ہوں اور اب اسلام ہی کے لئے میرا مرنا اور جینا ہے۔
۶)۔۔۔ حضرت حمزہؓ کے اسلام لانے سے کفار کیوں پریشان ہوگئے تھے؟
کیوں کہ حمزہؓ قریش کے سب سے بڑے پہلوان تھے۔ ان کی بہادری کا ہر طرف چرچا تھا۔
۷)۔۔۔ حضور ﷺ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو حضرت عمرؓ کتنے برس کے تھے؟
حضرت عمرؓ ستائیس برس کے نوجوان تھے۔
۸)۔۔۔ حضرت عمرؓ کا اسلام لانے سے پہلے اسلام کے لئے کیسا رویہ تھا؟
حضرت عمرؓ اسلام لانے سے قبل اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے اور مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے۔
۹)۔۔۔ کس شخصیت کے اسلام لانے کی دعا خود حضور ﷺ نے کی؟
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کی۔
۱۰)۔۔۔ عمر رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلے تو راستے میں نعیم بن عبداللہ نے کیا کہا؟
انہوں نے کہا عمر رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے جا رہے ہو، پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کی تو خبر لو وہ مسلمان ہوچکے ہیں۔
۱۱)۔۔۔ عمر اپنی بہن فاطمہ کے گھر پہنچے تو بہن اور بہنوئی کیا کر رہے تھے؟ اور ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
بہن اور بہنوئی اس وقت قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ دونوں کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔
۱۲)۔۔۔ فاطمہؓ نے عمرؓ کو کونسی سورۂ پڑھ کر سنائی؟
سورۃ اَلْحَدِیْد،
۱۳)۔۔۔ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے قبل کتنے لوگ اسلام لا چکے تھے؟
تقریباً چالیس آدمی۔
۱۴)۔۔۔ مسلمانوں نے کعبہ میں پہلی بار جماعت کے ساتھ نماز کب ادا کی؟
جب حضرت عمرؓ اسلام لائے۔
۱۵)۔۔۔ حضرت عمرؓ نے اسلام لانے کے فوراً بعد نماز سے متعلق کیا اعلان کیا؟
خدا کی عبادت اور چھپ کر کی جائے بخدا یہ نہ ہوگا۔
۱۶)۔۔۔ حضرت عمرؓ نے اسلام لانے کے بعد کیاکیا؟
جتنے بڑے بڑے کافر تھے اور جہاں جہاں بیٹھتے تھے ہر جگہ جاکر اپنے اسلام کا اعلان کیا۔
۱۷)۔۔۔ حضرت عمرؓ نبوت کے کون سے سال میں ایمان لائے؟
ذی الحجہ کے مہینے میں نبوت کے چھٹے سال، حضرت حمزہؓ کے ایمان لانے کے تین دن بعد اسلام لائے۔
۱۸)۔۔۔ عتبہ نے رسول اللہ ﷺ کو اسلام چھوڑنے کے لئے مشورہ دیا تو آپ ﷺ نے اس کے جواب میں کونسی سورہ تلاوت فرمائی؟
سورہ سجدہ۔
۱۹)۔۔۔ قرآن کی تلاوت سننے کے بعد عتبہ کے کیا تاثرات تھے؟
وہ بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا میں شاعر ہوں لیکن اس جیسی چیز میں نے اب تک نہیں سنی ہے۔
۲۰)۔۔۔ قرآن کی تلاوت چھپ کر کون لوگ سنتے تھے؟ اور کس وقت سنتے تھے؟
ابوجہل، ابوسفیان اور اخنس رات کو چھپ کر آپ ﷺ سے قرآن کی تلاوت سنا کرتے تھے۔
۲۱)۔۔۔ کفار نے حضور ﷺ کے خاندان کو کب اور کہاں قید کر دیا تھا؟
کفار نے ۷؍ نبوی میں حضور ﷺ اور ان کے خاندان کو شعب ابی طالب نامی پہاڑی درے میں قید کر دیاتھا۔
۲۱)۔۔۔ حضرت خدیجہؓ کے لئے کھانا کون لاتا تھا؟
حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حزام۔
۲۳)۔۔۔ حضرت عمرؓ کے کون سے بیٹے مسلمانوں کے لئے کھانا اور کپڑا وغیرہ لے کر آتے تھے؟
ہشام۔
۲۴)۔۔۔ ہشام نے معاہدہ توڑنے کے لئے کن کن لوگوں کو تیار کیا؟
زہیر، مطعم، ابوالبحتری اور ذمعہ۔
۲۵)۔۔۔ مطعم جب عہدنامہ پھاڑنے کے لئے آگے بڑھا تو کیا دیکھا؟
مطعم نے دیکھا کہ عہدنامہ تو دیمک چاٹ چکی تھی اس پر صرف ایک فقرہ اللہ کا نام رہ گیا تھا۔
۲۶)۔۔۔ یہ عہد نامہ نبوت کے کون سے سال میں ختم ہوا؟
دسویں سال میں۔
۲۷)۔۔۔ کون سے چچا کے انتقال پر آپ ﷺ کو بہت زیادہ غم ہوا؟
حضرت ابوطالب کے انتقال پر آپ ﷺ کو بہت صدمہ ہوا۔
۲۸)۔۔۔ ابوطالب نے کیوں اسلام قبول نہیں کیا؟
کفار کے طعنوں کے ڈر سے۔
۲۹)۔۔۔ عام الحزن کا سال کسے کہتے ہیں؟
جس سال ابوطالب اور حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا۔
۳۰)۔۔۔ اہل طائف کو جب آپ ﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے آپ ﷺ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
آوارہ لڑکوں کو آپ ﷺکے پیچھے لگا دیا۔ جنہوں نے آپ پر پتھر برسائے حتیٰ کہ آپ ﷺ کو لہو لہان کردیا۔
۳۱)۔۔۔ آپ ﷺکی حفاظت کے لئے آپ کے ہمراہ کون سے صحابی تھے؟
حضرت زید بن حارثہ۔
۳۲)۔۔۔ حضور ﷺ نے کہاں پناہ لی؟
انگوروں کے ایک باغ میں جو عتبہ و شیبہ کا تھا۔
۳۳)۔۔۔ جنوں کی جماعت نے کہاں اسلام قبول کیا تھا؟
مقام نخلہ میں جہاں آپ ﷺ نے رات گزاری تھی۔
۳۴)۔۔۔ آپ ﷺ کس کی پناہ میں مکہ آئے اور کب آئے؟
آپ ﷺ مطعم کی پناہ میں ذی قعدہ ۱۰ ؍ نبوی میں مکہ واپس آئے۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ طبقات ابن سعد ج /۳ ص ۹، سیرت ابن ہشام، ج ۱/ص ۳۶۰، اور سیرت حلبیہ ج/۲، ص /۲۸۰ تا ۲۸۲،
۲۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص ۲۸۹،
۳۔ سنن أبوداؤد ج/۲، ص ۵۳۸، سنن نسائی ۶/۱۱۹، اور سیرت حلبیہ ج/۲ص ۳۷۵،
۴۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص ۳۷۵ تا ۳۸۸، اور موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۲۴۱۔۲۴۲،
۵۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص ۳۹۳، سیرت ابن ہشام ج/۱، ص/۴۳۰،
۶۔ فتح الباری ابن حجر عسقلانی ج/۷، ص/۱۹۲،
۷۔ سیرت ابن ہشام ج/۱، ص ۴۳۴،
۸۔ سیرت حلبیہ ج/۱، ص ۴۳۴،
۹۔ سورہ القصص، ۲۸/ آیت نمبر ۶۵، اور فتح الباری ج/۱، ص /۵۹۲،
۱۰۔ فتح الباری ج/۷، ص/۲۲۴، سیرت ابن ہشام ج/۲، ص /۶۶،
۱۱۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص / ۴۲۰،
۱۲۔ طبقات ابن سعد ج/۱، ص ۲۱۱، سیرت ابن ہشام ج/۲، ص/۷۰،
۱۳۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص۴۳۹،
۱۴۔ ایضاً، ص/۴۴۰، یہ نصرانی غلام مسلمان ہوگیا طبقات ابن سعد ج/۱، ص/۱۲۱،
۱۵۔ قرآن میں بھی جنوں کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔ دیکھئے سورۂ احقاف ۴۶/ آیت نمبر ۲۰۔۳۱،
۱۶۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص/۴۵۵، سیرت ابن ہشام ج/۲،ص/۲۴، اور طبقات ابن سعد ج/۱، ص/۲۱۲،۷۔ مظلوم
۷ ۔ مسلمانوں کی حبشہ ہجرت
اللہ کے لئے گھربار چھوڑکر کسی دوسری جگہ جابسنے کا نام ہجرت ہے۔ جب عرب کی زمین مسلمانوں کے لئے تنگ ہوگئی اور وہاں رہنا اُن کے لئے بہت مشکل ہوگیا تو پیارے نبی ﷺ نے مخلص ساتھیوں سے فرمایا :
خدا کی زمین بہت وسیع ہے۔ اپنے لئے اب کوئی اور جگہ تلاش کرو۔ ہوسکتا ہے کہ اس طرح ظالموں سے نجات مل جائے اور تم آرام سے زندگی بسر کرسکو۔(۱)
ساتھیوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ﷺ ہی بتائیں، ہم کہاں جائیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا : حبشہ چلے جاؤ۔ وہاں کا بادشاہ بڑا ہی انصاف پسند ہے، کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا، لوگ وہاں بہت سکھ چین سے رہتے ہیں۔(۲)
حبشہ افریقہ کا ایک مشہور ملک ہے جو عرب سے بہت قریب ہے۔ دونوں کے درمیان صرف ایک سمندر حائل ہے۔ جس کا نام بحر احمر ہے۔ وہاں کے بادشاہ کو نجاشی کہتے ہیں اور وہ عیسائی مذہب کے پیرو تھے۔
رجب کا مہینہ اور نبوت کا پانچواں سال تھا۔ اشارہ پاتے ہی چودہ مسلمانوں نے حبشہ کا رخ کیا، (۳) مشرکین مکہ کو پتہ چلا تو انہیں بہت غصہ آیا۔ اس ہجرت کے قائد حضرت عثمانؓ تھے۔(۴)
چنانچہ فوراً انہوں نے شاہ حبشہ کے پاس دو سفیر بھیجے۔ ایک ابوربیعہ کا بیٹا عبداللہ تھا، اور دوسرا عاص کا بیٹا عمرو۔ یہ لوگ گئے تاکہ بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں، اور مسلمانوں کو پکڑ کر پھر اپنے یہاں لے آئیں۔ بادشاہ کو راضی کرنے کے لئے قیمتی تحفے بھی ساتھ لے گئے تھے۔
حبشہ پہنچتے ہی وہ پہلے پادریوں سے ملے، کیونکہ اسکیم یہ تھی کہ پہلے انہی کو اپنا ہم نوا بنایا جائے۔ چنانچہ اس غرض سے ان کو بھی کچھ تحفے دئیے۔ پھر اس کے بعد دونوں بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور بڑی نیازمندی سے تحفے پیش کئے۔ پھر بولے:
بادشاہ سلامت! ہمارے یہاں سے کچھ مجرم بھاگے ہیں اور انہوں نے آپ کی بادشاہت میں پناہ لی ہے۔ جناب والا انہوں نے قومی دین سے بغاوت کی ہے، آپ کا عیسائی دین بھی نہیں اپنایا ہے۔ایک نیا ہی دین لے کر وہ اُٹھے ہیں، اس کو نہ ہم جانتے ہیں نہ آپ، ہم ان سے عاجز آ چکے ہیں۔ چنانچہ ہماری قوم نے ان کو لینے کے لئے ہمیں بھیجا ہے۔ وہ ان کی رگ رگ سے واقف ہیں اور ان کے عزائم کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔
پادریوں نے بھی فوراً تائید کی اور پرزور انداز میں بولے:
جہاں پناہ! یہ بالکل سچ کہتے ہیں، واقعی کچھ مجرم یہاں گھس آئے ہیں۔ انہیں ضرور ان کے حوالے کر دیا جائے۔(۵)
لیکن نجاشی بادشاہ نے انکار کیا، اس نے کہا: جن لوگوں نے ہمارے یہاں پناہ لی ہے اور ہمارے پاس رہنا پسند کیا ہے، میں ان کی باتیں بھی سنوں گا۔ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، حاضر کئے جائیں۔
چنانچہ مسلمان حاضر ہوئے، تو بادشاہ نے پوچھا:
سنا ہے کہ تم لوگوں نے قومی دین چھوڑ دیا ، اور میرا دین بھی نہیں اپنایا اور جو دوسرے دین ہیں، ان سب سے بھی بیزار ہو۔ سنا ہے کہ تم لوگ کوئی نیا دین لے کر اٹھے ہو۔ آخر وہ کون سا دین ہے؟ کیا قصہ ہے؟
ابوطالب کے بیٹے حضرت جعفرؓ بھی موجود تھے۔ وہ سب کی طرف سے بولے:
اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے، بت پوجتے تھے۔ مردار کھاتے تھے، طاقت ور کمزور کو کھا جاتا تھا۔ اتنے میں اللہ نے ہم میں ایک رسول ﷺ بھیجا۔ اُس رسول ﷺ کے خاندان کو ہم اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کی سچائی اور پاکبازی سے بھی خوب واقف ہیں۔ اس رسول ﷺ نے ہم کو سچے دین کی دعوت دی، اور اس نے کہا کہ ہم صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، بے جان بتوں کو پوجنا چھوڑ دیں۔ سچ بولیں، ایماندار بنیں، صلہ رحمی کریں، پڑوسیوں کو آرام پہنچائیں، ظلم سے باز آئیں، بدکاری چھوڑ دیں، یتیموں کا مال نہ کھائیں، شریف عورتوں پر تہمت نہ لگائیں، نماز پڑھیں اور خیرات دیں۔ چنانچہ ہم نے اس کو سچ جانا اور اس پر ایمان لے آئے۔ نیز اللہ کی طرف سے اس نے جو کچھ بتایا اسے جان و دل سے تسلیم کرلیا۔ بس یہی جرم ہے، جس پر قوم ناراض ہو گئی، اور ہم کو بے دردی سے ستانے لگی، تاکہ ہم اس دین سے توبہ کرلیں، اور پھر غلط راہوں میں بھٹکتے پھریں۔ جب ہم بالکل ہی تنگ آ گئے اور وہاں زندگی گزارنا مشکل ہوگیا تو مجبوراً ہم نے آپ کے ملک میں پناہ لی کہ شاید یہاں سکون و چین نصیب ہو جائے اور ظلم و ستم کا سایہ سر سے ٹل جائے۔(۶)
بادشاہ نجاشی بولا:
اس پر جو کلام اُترا ہے، اُسے میں بھی سننا چاہتا ہوں۔ کیا تمہارے پاس کچھ موجود ہے؟
حضرت جعفرؓ تو موقع کی تلاش میں تھے ہی، انہوں نے انتہائی سوز کے ساتھ سورۂ مریم کی چند آیتیں سنا دیں۔ نجاشی پر ان آیتوں کا بہت اثر ہوا۔ چنانچہ اس پر رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے بے تحاشا آنسو اُبل پڑے، وہ اتنا رویا کہ داڑھی بھیگ گئی۔(۷) جتنے پادری وہاں موجود تھے، ان سب کا بھی دل پگھل کر رہ گیا، اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔
پھر نجاشی بولا:
خدا کی قسم ! یہ اور عیسیٰ کا کلام دونوں ایک ہی چشمہ کی شاخیں ہیں اور ایک ہی چراغ کے پرتو ہیں۔
پھر اس نے قریش کے سفیروں سے کہا: ’’واپس جاؤ، بخدا اب یہ تمہارے ساتھ نہیں جائیں گے‘‘
نجاشی نے قیمتی تحفوں کو اس نے نفرت اور حقارت سے ٹھکرا دیا، اور سفیروں کی ایک بات بھی سننے کو تیار نہ ہوا۔ چنانچہ وہ دونوں ناکام و نامراد واپس مکہ آ گئے۔ اور مسلمان حبشہ میں آرام و اطمینان سے رہنے لگے۔ نجاشی اور اس کے بعض متعلقین نے اسلام قبول کرلیا۔جب اس کا انتقال ہوا تو نبی کریم ﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔(۸)
شاہ حبش کے دربار میں حضرت جعفرکی تقریر
سراپا انتشار و جہل تھے ہم
نہ مرکز تھا نہ کوئی ربطِ باہم
بتوں کو پتھروں کو پوجتے تھے
خدائے جز و کل سے پھر گئے تھے
جہالت، معصیت، بدکاریاں تھیں
جفا کوشی تھی، دل آزاریاں تھیں
ہماری قوم بالکل بے سری تھی
کہیں چوری کہیں غارت گری تھی
کیا مبعوث حق نے اک نبیؐ کو
ضرورت جس کی تھی ہر زندگی کو
وہ ہم ہی میں سے اک فردِ بشر ہے
مگر ہاں! صاحبِ علم و خبرہے
ہم اس کی زندگی کو جانتے ہیں
کہ بچپن سے اسے پہچانتے ہیں
وہ ہے اک پیکرِ صدق و امانت
بہت ہی نیک طینت، پاک سیرت
ہے اس کی زندگی بے داغ و سادہ
وہ سچاہے زیادہ سے زیادہ
سبق توحید کا ہم کو سکھایا
خدا کا راستہ اس نے دکھایا
کہا اس نے کہ ذاتِ حق کو پوجو
بنو انساں، بری باتوں کو چھوڑو
نہیں حق کے سوا معبود کوئی
پرستش شرک ہے لات و ہبل کی
دل آزاری کسی کی بھی نہ چاہو
کیا ہے وعدہ تو اس کو نبھاؤ
ہمیشہ سے تھی جو غدار و خودسر
بگڑ بیٹھی ہماری قوم اس پر
ہمیں کیا، خود نبیؐ کو بھی ستایا
جو ممکن ہوسکا وہ ظلم ڈھایا
مصائب پر مصائب سہہ چکے ہیں
بہت مظلوم بن کے رہ چکے ہیں
پیمبرؐ کو ستاتے ہیں یہ ظالم
ہنسی ان کی اڑاتے ہیں یہ ظالم
مظالم سہتے سہتے، چورُ ہوکر
ہم آئے ہیں یہاں مجبور ہوکر
کہا شہ نے ذرا نزدیک آؤ
مجھے قرآن کچھ پڑھ کر سناؤ
پڑھیں جعفرؓ نے آیاتِ الٰہی
نہ تھا اس پر ذرا بھی رعبِ شاہی
کلامِ حق تھا، جعفرؓ کی زباں تھی
محمدؐ کی ہدایت درمیاں تھی
خداکی آیتیں تاثیر بن کر
ہوئیں پیوست دل میں تیر بن کر
کہا یہ شاہ نے با چشمِ گریاں
محمدؐ ہیں وہی فخر رسولاں
خبر جن کی ہمیں عیسیٰ نے دی ہے
مواعظ میں بہت تعریف کی ہے
میں جن کا ذکر سنتا تھا، یہی ہیں
محمدؐ ہی نبی آخری ہیں
اگرچہ ہے تعارف غائبانہ
زہے قسمت ملا ان کا زمانہ
دوسری ہجرت حبشہ :
مسلمان جو ہجرت کرگئے تھے انہیں پتہ چلا کہ مکہ میں حضرت حمزہؓ اور حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بعد مسلمانوں پر ظلم و ستم ختم ہوگیا ہے تو وہ مکہ آ گئے، مگر انہیں پتہ چلا ابھی تک پہلے جیسے حالات ہیں تو ۷؍نبوی میں ایک سو افراد دوبارہ حبشہ چلے گئے۔
حضرت سودہؓ و عائشہؓ سے شادی خانہ آبادی :
مسلمان عورتیں آپ ﷺ پر دشمنوں کا حملہ دیکھتیں، تو بہت رنجیدہ ہوتیں۔ اور کلیجہ مسوس کے رہ جاتیں۔ چنانچہ ایک دن حضرت خولہؓ خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں۔ یہ حکیم کی بیٹی اور عثمان بن مظعونؓ کی بیوی تھیں۔ بولیں :
کیوں نہیں آپ ﷺ شادی کرلیتے؟ کوئی خدیجہؓ جیسی نہ ملے نہ سہی۔ لیکن کچھ توسکون ہوگا۔ کچھ تو دل کا بارہلکا ہوگا۔
پیارے نبی ﷺ: حکیم کی بیٹی! کس کی طرف اشارہ ہے؟
خولہؓ : کنواری بھی مل سکتی ہے اور چاہیں تو شوہر آشنا بھی مل جائے گی۔
پیارے نبی ﷺ : کنواری کون ؟
خولہؓ : آپ ﷺ پر سب سے زیادہ حق ابوبکرؓ کی بیٹی کا ہے۔
پیارے نبی ﷺ: اور شوہر آشنا کون؟(یعنی جس کی ایک دفعہ شادی ہوچکی ہو)
خولہؓ : زمعہ کی بیٹی سودہؓ، وہ آپ ﷺ پر ایمان لائی ہیں۔ اور تمام باتیں خوشی خوشی تسلیم کی ہیں۔ مہاجرین حبشہ میں اُن کے شوہر بھی تھے۔ وہاں سے وہ واپس آئے تو اللہ کو پیارے ہوگئے۔
پیارے نبی ﷺ : اچھا جاؤ دونوں کے لئے بات چیت کرو۔
خولہؓ سودہؓ کے پاس گئیں، بولیں: اللہ! اللہ!! تمہاری قسمت! کتنی برکتوں کا تم پہ سایہ ہے! سودہؓ کو بہت تعجب ہوا، (بڑی بے تابی سے)آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں کچھ سمجھ نہیں سکی۔
خولہؓ : رسولِ خدا ﷺ تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ اسی کے لئے بات کرنے آئی ہوں۔
سودہؓ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا، بولیں!
سبحان اللہ! ! ذرا جائیے والد سے بھی تذکرہ کیجئے۔ دیکھئے، وہ کیا کہتے ہیں۔
خولہؓ سودہؓ کے والد کے پاس گئیں اور اُن کو یہ مبارک خبر سنائی۔ والد نے یہ خبر سنی تو بے اختیار ان کی زبان سے نکلا: اس جوڑے کا کیا کہنا!
پھر عائشہؓ کے گھر پیغام لے کر گئیں انہوں نے خوش آمدید کہا، یہ برکتوں اور رحمتوں کی بارش؟ رسول خدا ﷺ عائشہؓ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔
اُم رومانؓ کہنے لگیں واہ واہ!!کتنی مبارک تقریب ہوگی یہ! ذرا ٹھہرو ابوبکرؓ بھی آ جائیں۔
پھر کچھ ہی دیر میں ابوبکرؓ بھی آ گئے۔ اور انہوں نے بڑی خوشی خوشی اس برکت کا خیرمقدم کیا۔
اس طرح حضرت خولہؓ نے آپ ﷺ کی شادی سودہؓ اور عائشہؓ سے کرادی۔ البتہ عائشہ کی رخصتی بعد میں کرنے کا فیصلہ ہوا۔ شادی سے ساتھیوں کا تعلق آپ ﷺ سے اور زیادہ استوار ہوگیا۔ دونوں نکاح ہوگئے۔ سودہؓ رخصت ہوکر آپ ﷺ کے گھر چلی آئیں مگر عائشہؓ ابھی چھوٹی تھیں اس لئے چند سال بعد رخصت ہوئیں۔(۹)
محبوب ﷺ کا حبیب کائنات کی طرف سفرمعراج
پیارے نبی ﷺ کی ایک چچازاد بہن تھیں، ہند، یہ ابوطالب کی بیٹی تھیں اور لوگوں میں امّ ہانی کے نام سے مشہور تھیں۔ نبوت کا دسواں سال اور رجب کا مہینہ تھا۔ ایک رات آپ ﷺ انہی کے گھر سوئے۔ حسب معمول طلوع فجر سے پہلے آنکھ کھل گئی۔ آپ ﷺ اسی وقت اٹھ گئے۔ ساتھ ہی وہ بھی اُٹھ گئیں۔ آپ ﷺ نے وضو کیا، نماز ادا کی، پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
اُم ہانی! عشاء کی نماز میں نے یہیں پڑھی تھی، تمہارے ساتھ۔ تم نے تو دیکھا ہی تھا۔ پھر میں بیت المقدس گیا۔ وہاں نماز پڑھی۔ پھر اس وقت کی نماز تمہارے ساتھ پڑھی۔
ام ہانی یہ سن کر حیرت کی تصویر بن گئیں کہ عشاء کی نماز آپ ﷺ نے ہمارے گھر پڑھی۔ پھر درمیانِ شب بیت المقدس میں پڑھی، پھر اس وقت کی ہمارے ساتھ پڑھی۔ آخر یہ کیونکر ہوا؟
چنانچہ وہ آپ ﷺ کے پاس آکر بیٹھ گئیں اور بولیں: ذرا تفصیل سے بتائیے، کیا کیا ہوا؟ اور کیسے ہوا؟
آپ ﷺ نے فرمایا: أم ہانی! میں سو رہا تھا کہ یکا یک محسوس ہوا، جیسے کوئی جگا رہا ہے، چنانچہ میری آنکھ کھل گئی۔ اب جو دیکھا تو چھت شق تھی اور حضرت جبرئیل ؑ میرے پاس تھے، اور یہ بالکل پہلا اتفاق تھا۔ اس سے پہلے تو وہ کبھی اس طرح آئے نہیں۔ وہ جب کبھی آتے تو سامنے سے آتے تھے۔(۱۰)
دوسرا آپریشن پیارے محبوب ﷺ کا :
آتے ہی انہوں نے ہاتھ پکڑا، اور مجھ کو لے کر کعبہ کی حطیم (کعبہ کی دیوار) کے پاس آئے۔ پھر وہاں لٹاکر میرا سینہ چاک کیا اور سونے کی ایک پلیٹ جو ایمان و حکمت سے لبریز تھی۔ میرے سینہ میں انڈیل دی۔ پھر سینہ بند کر دیا۔(۱۱) اس کے بعد ایک بہت سفید جانور آیا، جو خچر سے ذرا چھوٹا اور گدھے سے کچھ بڑا تھا۔ اس پر ہم دونوں سوار ہوگئے۔ اور چشم زدن میں بیت المقدس پہنچ گئے۔(۱۲) وہاں پہنچ کر میں نے نماز پڑھی۔ میرے پیچھے سارے نبیوں نے بھی پڑھی۔
آپ ﷺ سیدھے کعبہ پہنچے، دیکھا تو قریش کے کچھ لوگ وہاں بیٹھے ہوئے تھے، جاکر آپ ﷺ بھی ان کے پاس بیٹھ گئے تاکہ جو کچھ دیکھا اسے ان سے بیان کریں، لیکن پھر سوچا، تو کچھ تردد ہوا، اور آپ ﷺ ایک گہری سوچ میں ڈوب گئے۔
ابوجہل بھی وہیں تھا اور عدی کا بیٹا مطعم بھی۔ ابوجہل نے چہرہ اترا ہوا دیکھا تو اٹھ کر قریب آیا، اور بولا:
محمد ﷺ ! کیا ہوا؟ آج کوئی نئی بات تو نہیں!
اب آپ ﷺ کو اپنی بات کہنے کا موقع مل گیا۔ فرمایا
ہاں ، آج رات مجھے سیر کرائی گئی ہے۔
ابوجہل : کہاں تک؟
پیارے نبی ﷺ : بیت المقدس تک
ابوجہل کی ہنسی چھوٹ رہی تھی، اور قریب تھا کہ وہ زور کا قہقہہ لگاتا، لیکن اس نے ضبط سے کام لیا۔ کیونکہ یہ بات، آپ ﷺ کو ناکام کرنے اور لوگوں کی نظروں میں آپ ﷺ کی باتوں کو مشتبہ بنانے کیلئے ایک کامیاب ہتھیار بن سکتی تھی۔
اس نے آپ ﷺ کا اور حوصلہ بڑھایا، بولا: اچھا اگر اوروں کو بھی بلالوں تو کیا ان سے بھی یہ باتیں بیان کردو گے؟
آپ ﷺ نے فرمایا ہاں
ہاں سننا تھا کہ ابوجہل نے زور سے آواز لگائی۔
اے آلِ کعب بن لوی! فضا کو چیرتی ہوئی یہ آواز کانوں سے ٹکرائی۔ اور آناً فاناً سارے لوگ اکٹھا ہوگئے۔ ابوالحکم ! کیا بات ہے، کیا بات ہے؟ اب اس نے آپ ﷺ کی طرف اشارہ کیا کہ:جو ابھی سنایا ہے، ذرا ان لوگوں کو بھی سنا دو۔
آپ ﷺ نے فرمایا :
آج رات براق نامی ایک جانورآیا۔ اس پر بیٹھ کر میں نے بیت المقدس کی سیر کی، وہاں پہنچا تو نبیوں کی جماعت آئی۔ ان میں ابراہیمؑ بھی تھے، موسیٰ اور عیسیؑ بھی تھے۔ میں نے ان سب کی امامت بھی کی۔
یہ سن کر اکثر بے قابو ہوگئے، اور ایک زور کا قہقہہ بلند ہوا۔ ابوجہل بولا (تمسخر کے انداز میں)
اچھا، تو سارے نبی زندہ کرکے تمہارے پاس لائے گئے تھے؟ ذرا ان کا حلیہ تو بیان کرو۔
آپ ﷺ نے فرمایا : عیسیٰ نہ تو پستہ قد ہیں، اورنہ زیادہ لانبے، سینہ چوڑا ہے۔ جسم سے خون ٹپکا پڑتا ہے۔ سر کے بال سرخی مائل ہیں۔ موسیٰ کا جسم بھاری بھرکم اور سانولا ہے اور قد لانبا ہے، اور خدا کی قسم ابراہیم ؑ سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہیں ، صورت میں بھی، سیرت میں بھی۔
سب نے دانتوں تلے انگلیاں دبالیں کہ محمد ﷺ یہ کیا کہہ رہے ہیں! کیا یہ واقعی سچ ہے، یا جھوٹ اور من گڑھت ہے۔
اس طرح کچھ دلوں پر تو آپ ﷺ کی عظمت اور بڑائی کا سکہ بیٹھ گیا۔ کچھ لوگوں کی عقلیں حیران اور ذہن پریشان ہوگئے۔ کچھ لوگ آپ ﷺ کو جھٹلانے اور مذاق اڑانے میں لگ گئے۔ (۱۳) اور کچھ لوگ آپ ﷺ کے عزیز دوست ابوبکرؓ کے گھر پہنچے کہ ان کو بھی یہ عجیب خبر سنا دیں! بولے:
ابوبکرؓ ! ذرا اپنے نبی ﷺ کی توسنو۔ کہتے ہیں کہ آج رات مجھ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی ہے۔
ابوبکرؓ نے فرمایا : کیا انہوں نے کہا ہے؟
وہ بولے: جی ہاں، حصرت ابوبکرؓ نے فرمایا : اگر انہوں نے کہا ہے تو یقیناًسچ کہا ہے۔
وہ بولے: یہ بھی کوئی یقین میں آنے والی بات ہے! وہ بیت المقدس گئے، اور صبح سے پہلے ہی لوٹ آئے؟
انہوں نے فرمایا : بے شک یہی کیا؟ مجھے تو اس سے بھی زیادہ عجیب عجیب باتوں پر یقین ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رات یادن کا کوئی بھی وقت ہو، آسمان سے میرے پاس ذرا سی دیر میں خبریں آ جاتی ہیں اور مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں۔ بتاؤ یہ کتنی عجیب بات ہے؟ جب آپ ﷺ کو پتہ چلا تو آپ ﷺ نے فرمایا ابوبکر اللہ نے آپ کو صدیق کا لقب عطا کیا ہے۔(۱۴)بڑھتے بڑھتے آپ ﷺ عرش الٰہی کے قریب پہنچ گئے، وہاں آپ ﷺ پر اور امت پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں۔ پھر واپس ہوئے تو حضرت موسیٰ کے یہاں سے آپ ﷺ کا گزر ہوا، دیکھتے ہی انہوں نے پوچھا:
کہیے : کیا فرض ہوا اُمت پر؟
آپ ﷺ نے فرمایا : پچاس نمازیں۔
موسیٰ نے فرمایا : لوٹ کر جائیے اور رب سے کمی کی درخواست کیجئے، چنانچہ آپ ﷺ گئے اور کمی کی درخواست کی، اس طرح اللہ نے آدھی نمازیں کم کر دیں۔ واپسی میں پھر حضرت موسیٰ سے آپ ﷺ کی ملاقات ہوئی، انہوں نے سنا تو فرمایا پھر جائیے اور کمی کی درخواست کیجئے، اتنی نمازیں بھی امت پر گراں ہوں گی، آپ ﷺ پھر لوٹ کر گئے اور کمی کی درخواست کی، اللہ نے درخواست قبول کی اور کچھ نمازیں پھر کم کر دیں، موسیٰ کو معلوم ہوا ، تو فرمایا :
ایک بار اور جائیے اور مزید کمی کی درخواست کیجئے۔
آپ ﷺ پھر تشریف لے گئے تو اللہ نے اس بار پانچ نمازیں کر دیں اور فرمایا : یہ پانچ نمازیں ہیں، لیکن ثواب ان کا پچاس کا ہے، میرے فیصلے بدلا نہیں کرتے،
پوری رات گزر گئی، اور مخلص ساتھی بیٹھے رہے۔ آپ ﷺ نے آسمان پر جوجو مناظر دیکھے تھے اور خدا کی قدرت کے جو جو جلوے نظر آئے تھے پوری دلچسپی سے بیان فرما رہے تھے اور ساتھی مزے لے لے کر سن رہے تھے آپ ﷺ نے جنت میں جو کچھ دیکھا تھا، وہ بھی بیان فرمایا اور نیک ساتھیوں کو مژدہ بھی سنایا، کہ جنت میں یہ نعمتیں ہیں جو تمہارے انتظار میں ہیں۔
مکہ اور اس سے باہر اسلام کا فروغ
عرب میں تین مشہور بازار تھے بازار عکاظ، بازار مجنہ، بازار ذی مجاز ہر سال بیرون مکہ سے لوگ بڑی تعداد میں یہاں آتے، آپ ﷺ وہاں تشریف لے جاتے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے۔(۱۵) طفیل دوسی قرآن سن کر مسلمان ہوئے۔(۱۶) عیسائی وفد آیا مسلمان ہوکر گیا۔ سوید آئے قرآن سنکر مسلمان ہوگئے، بہت سے قبائل میں جاکر اسلام کی دعوت دی، جس میں قبیلہ اُوس، خزرج، کندہ، کلب، بنو حنیفہ، اور بنومضر شامل تھے۔
بیعت عقبہ اولیٰ :
(پہلی بیعت) مدینہ کے دونوں اہم قبائل اوس و خزرج کے لوگ ہر سال مکہ حج اورتجارت کے لئے آتے۔ آپ ﷺ انہیں گھاٹی میں اسلام کی دعوت دیتے تھے۔(۱۷) یہی بیعت ’’بیعت عقبہ اولیٰ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اور یہ نبوت کے گیارہویں سال ہوئی۔
پھر وہ لوگ مدینہ لوٹے، تو آپ ﷺ نے مصعبؓ بن عمیر کو بھی ساتھ کر دیا ، کہ وہ اہل مدینہ کو قرآن پڑھائیں اور انہیں دین کے احکام سکھائیں۔(۱۸)
مدینہ میں اسلام بہت تیزی سے پھیلا۔ لوگ پہلے ہی سے حق کے پیاسے تھے۔ اور مدت سے اس کے لئے تڑپ رہے تھے۔ اسی لئے حضرت مصعبؓ کو اشاعت اسلام میں کوئی خاص زحمت نہ ہوئی۔ لوگ پروانہ واردین اسلام قبول کر رہے تھے۔ اور حضرت مصعبؓ پورے جوش اور ولولہ سے ان کو علم دین سکھا رہے تھے۔ لوگ دین کی برکتیں دیکھتے، اور قرآن کی چند آیتیں سنتے، پتھر سے موم ہوجاتے۔ خود بھی اسلام میں آ جاتے، اور وں کو بھی اس کی دعوت دیتے۔
بیعت عقبہ ثانیہ :
(دوسری بیعت) مدینہ سے پھر قافلہ آیا، نبوت کا بارہواں سال تھا، اس میں ۷۳ مرد اور دو عورتیں تھیں، کعبہ میں ان کی آپ ﷺ سے ملاقات ہوئی۔ عہد و بیعت کے لئے مناسب جگہ بھی تجویز ہوئی۔
رات کا تہائی حصہ گزر گیا۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ سارے ہنگامے خاموش ہوگئے۔ قریش نیند کے نشہ میں مست ہوگئے، بیرونی حاجی بھی محو خواب ہو گئے۔ اس وقت مدینہ کے مسلمان چپکے سے اُٹھے۔ ان میں تہتر مرد تھے اور دو عورتیں تھیں۔ یہ لوگ چھپ چھپا کر وہاں سے چل کھڑے ہوئے اور مکہ سے کچھ فاصلے پر عقبہ پہنچ گئے۔ وہاں وہ ٹیلوں اور چٹانوں کی آڑ میں دبک گئے۔ اور آپ ﷺ کا انتظار کرنے لگے۔
کچھ دیرمیں آپ ﷺ بھی آ گئے۔ آپ ﷺ نے قرآن پاک کی چند آیتیں پڑھیں۔ پھر فرمایا: جن چیزوں سے تم اپنے بال بچوں. کو بچاتے ہو، کیا مجھ کو بھی بچاؤ گے؟ میں بس اتنا ہی اطمینا ن چاہتا ہوں، اہل مدینہ میں ایک شخص براء تھے۔ یہ معرور کے بیٹے تھے۔ اور قوم کے بہت بڑے سردار وں میں تھے۔ سارے لوگ ان کی عزت کرتے تھے۔ بے تکلف انہوں نے ہاتھ بڑھایا۔ اور یہ کہتے ہوئے دست مبارک پر بیعت کی:
ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ ہم آپ ﷺ کو بچائیں گے۔ اللہ کے رسول ﷺ ! ہم سے آپ ﷺ بیعت لے لیں۔ بخدا ہم تو لڑائی کے شہسوار ہیں، آپ ﷺ جب چاہیں، جنگ کے لئے تیار ہیں۔ جنگ سے بھاگنا تو ہماری مردانگی کے خلاف ہے۔ یہی باپ دادا کا شعار ہے۔
برا ء نے ابھی بات ختم بھی نہ کی تھی، کہ تیہان کے بیٹے ابوالہیثم بول اٹھے یہ بھی مدینہ کے معزز لوگوں میں تھے، عرض کیا:
اللہ کے رسولﷺ! ہمارے یہود سے کافی تعلقات ہیں۔ بیعت کے بعد یہ تعلقات ٹوٹ جائیں گے۔ ایسا تو نہ ہو کہ اللہ آپ ﷺ کو فتح عطا فرمائے تو آپ ﷺ ہم کو چھوڑ کر اپنی قوم میں لوٹ آئیں۔
یہ سن کر آپ ﷺ بے اختیار مسکرا پڑے۔ پھر فرمایا:
نہیں، میراخون تمہارا خون ہے۔ میری آبرو تمہاری آبرو ہے۔ میری امان تمہاری امان ہے، تم میرے اور میں تمہارا ہوں۔ جس کو تم معاف کرو گے، اس کو میں بھی معاف کروں گا۔ جس سے تمہاری جنگ ہوگی، اس سے میری بھی جنگ ہوگی اور جس سے تمہاری صلح ہوگی، اس سے میری بھی صلح ہوگی۔
اس کے بعد لوگوں نے بیعت کے لئے ہاتھ بڑھا دئیے۔ سب ایک ساتھ بول اٹھے: مالی نقصان ہمیں گوارا ہے۔ سرداروں کا قتل ہونابھی گوارا ہے۔ پر رسول اللہ ﷺ کو چھوڑنا گوارا نہیں۔ اللہ کے رسول! عہد پر ہم قائم رہیں، تو ہمارا کیا اجر ہوگا؟
ارشاد ہوا: جنت ملے گی، جنت،
سب نے کہا: تو اپنا ہاتھ لایئے۔
آپ ﷺ نے ہاتھ بڑھادیا۔ اور سب نے باری باری بیعت کرلی۔ یہی بیعت ہے، جو ’’بیعت عقبہ ثانیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
یہ معاہدہ خفیہ نہ رہ سکا مشرکین مکہ کو اس کا علم ہوگیا، انہوں نے شور مچا دیا۔ قریش کے لوگو! یہ اوس و خزرج تم سے جنگ کے منصوبے بنا رہے ہیں، دیکھو، یہ محمدﷺ سے جاں نثاری کی قسمیں کھا رہے ہیں۔
مدینہ کے مسلمانوں نے کہا اجازت ہو، تو کل ہم اہل منیٰ پر چڑھائی کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہمیں ابھی اس کا حکم نہیں ملا ہے۔ تم سب اپنے اپنے خیموں میں چلے جاؤ۔ چنانچہ مسلمان فوراً اپنی اپنی خوابگاہوں پر پہنچ گئے۔ اور آنکھیں بند کرکے سو رہے۔ صبح ہوئی تو قریش نے اہلِ مدینہ کے خیموں کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر انہیں. سخت سست کہا۔ آنکھیں لال پیلی کرتے ہوئے بولے:
مدینہ والو! خدا گواہ ہے کہ ہر قبیلہ سے جنگ کرنا ہمیں گوارا ہے مگر تم سے نہیں۔ پھر تم یہ کیا منصوبے بنا رہے ہو؟ محمد ﷺ کو اپنے یہاں کیوں لے جاناچاہتے ہو؟ کیوں ہمارے مقابلے میں تلواریں نکالنا چاہتے ہو؟
انصار کا اندازہ صحیح نکلا۔ قریش بہت جلد ساری بات جان گئے۔ اور رات میں جو کچھ ہوا تھا، سب خبر پاگئے۔ اب جیسے ان کے ہوش اڑ گئے۔ عقبہ سے وہ بوکھلا گئے۔ اور فوراً مدینہ کے لوگوں کا پیچھا کیا، کہ وہ ہاتھ سے جانے نہ پائیں۔(۱۹)
لیکن ناکامی ہوئی۔ البتہ ایک انصاری پکڑے گئے۔ یہ عبادہ کے بیٹے سعد تھے۔ اب کیا تھا۔ ظالموں نے خوب خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ ان کے بازو پیٹھ پر باندھ دئیے، اور مارتے پیٹتے، بالوں سے گھسیٹتے مکہ لائے،وہاں پہنچ کر انہیں مسلسل ستاتے رہے۔ مکہ ہی میں دو آدمی تھے۔ جبیر اور حارث، یہ دونوں سوداگر تھے۔ اس لئے شام بھی جایا کرتے تھے۔ راستے میں مدینہ سے گزرتے، تو سعد ہی اُن کو پناہ دیتے اور اُن کا مال تجارت لٹنے سے بچاتے۔ اس احسان کے بدلے میں دونوں نے سعد کو پناہ دے دی۔ پھر کہیں جاکر ان بے چارے کی جان چھوٹی۔
قریش باہم مشورہ کرتے رہے کہ محمد ﷺ کے سلسلے میں کیا کیا جائے، کس طرح اُسے ناکام کیا جائے۔
 سوال جواب 
۱)۔۔۔ ہجرت کسے کہتے ہیں؟
اللہ کے لئے گھربار چھوڑ کرکسی دوسری جگہ جا کرآباد ہونے کا نام ہجرت ہے۔
۲)۔۔۔ مسلمانوں نے پہلی ہجرت کہاں کی؟
حبشہ کی طرف۔
۳)۔۔۔ افریقہ اور عرب کے درمیان کونسا سمندر حائل ہے؟
بحر احمر۔
۴)۔۔۔ حبشہ کس جگہ کا نام ہے اور اس کے حکمراں کو کیا کہتے ہیں؟
حبشہ عرب سے نزدیک افریقہ کا ملک ہے اس کے حکمراں کو نجاشی کہا جاتا تھا۔
۵)۔۔۔ حبشہ کا بادشاہ کون تھا اور وہ کس مذہب کا ماننے والا تھا؟
حبشہ کا بادشاہ نجاشی تھا اور عیسائی مذہب کو ماننے والا تھا۔
۶)۔۔۔ پہلی ہجرت کب ہوئی اور کتنے مسلمانوں نے کی؟
نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینہ میں چودہ مسلمانوں نے حبشہ ہجرت کی۔
۷)۔۔۔ مہاجرین کے قائد کون تھے؟
حضرت عثمانؓ
۸)۔۔۔ بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کے لئے سفیر بن کر کون حبشہ گیا؟
ایک ربیعہ کا بیٹا عبداللہ دوسرا عاص کا بیٹا عمرو۔
۹)۔۔۔ سفیر بادشاہ سے ملنے سے پہلے کس سے ملے؟
وہاں کے پادری سے ملے۔
۱۰)۔۔۔ مسلمانوں کی طرف سے کس نے سربراہی کی؟
ابوطالب کے بیٹے جعفر طیارؓ نے۔
۱۱)۔۔۔ حضرت جعفرؓ نے کونسی سورۃ تلاوت فرمائی؟
سورہ مریم کی چند آیتیں۔
۱۲)۔۔۔ نجاشی نے سورۂ مریم سن کر کیا کہا؟
بخدا یہ اور عیسیٰ کا کلام دونوں ایک ہی چشمہ کی شاخیں ہیں۔
۱۳)۔۔۔ نجاشی نے سفیروں کو کیا جواب دیا؟
واپس جاؤ، بخدا یہ اب تمہارے ساتھ نہیں جائیں گے۔
۱۴)۔۔۔ نجاشی اور اس کی حکومت کے افراد پر قرآن کریم کا کیا اثر ہوا؟
قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے اور وہ مسلمان ہوگئے۔
۱۵)۔۔۔ حبشہ کی جانب دوسری ہجرت کس سن میں ہوئی؟ اور کتنے آدمیوں نے ہجرت کی؟
۷ ؍ نبوی میں یہ ہجرت ہوئی اور سو آدمیوں نے ہجرت فرمائی۔
۱۶)۔۔۔ حضرت خولہؓ کون تھیں اور انہوں نے حضور ﷺ کو کیا مشورہ دیا؟
خولہ حکیم کی بیٹی اور عثمان بن مظعونؓ کی بیوی تھیں انہوں نے حضور ﷺ کو دوسری شادی کا مشورہ دیا تھا۔
۱۷)۔۔۔ خولہؓ کس کس کے گھر آپ ﷺ کا رشتہ لے کر گئیں تھیں؟
حضرت سودہؓ اور عائشہؓ کے گھر گئیں اور ان دونوں کا رشتہ آپ ﷺ سے طے کرایا۔
۱۸)۔۔۔ کس خاتون کا نکاح اور رخصتی فوراً ہوگئی؟
حضرت سودہؓ کی،
۱۹)۔۔۔ حضرت عائشہؓ کی رخصتی فوراً کیوں نہ ہوسکی؟
اس لئے کہ وہ بہت چھوٹی تھیں، چند سال بعد انکی رخصتی طے پائی۔
۲۰)۔۔۔ حضرت عائشہؓ کے والد کون تھے؟
حضرت ابوبکرؓ صدیق
۲۱)۔۔۔ ہند کون تھیں؟ اور ان کا لقب کیا تھا؟
آپ کے چچا ابوطالب کی بیٹی تھیں اور لقب ام ہانی تھا۔
۲۲)۔۔۔ سفر معراج کا واقعہ کب پیش آیا؟
نبوت کے دسویں سال رجب کے مہینہ میں۔
۲۳)۔۔۔ آپ ﷺ نے عشاء کی نماز کہاں ادا کی؟
آپ ﷺ نے عشاء کی نماز أم ہانی کے گھر میں ادا کی۔
۲۴)۔۔۔ حضرت جبرائیل ؑ آپ کو لے کر کہاں گئے تھے اور کیا کیا؟
کعبہ کی دیوار کے پاس لائے پھر وہاں آپ ﷺ کا آپریشن کیا۔(جسے شق صدر کہا جاتا ہے)
۲۵)۔۔۔ کعبہ کے بعد جبرائیل آپ کو کہاں لے کر گئے؟
جبرائیل ؑ آپ کو بیت المقدس میں لے کرگئے۔
۲۶)۔۔۔ بیت المقدس میں آپ کس جانور پر سوار ہو کر گئے؟
براق نامی جانور پر۔
۲۷)۔۔۔ آپ ﷺ نے بیت المقدس میں کن لوگوں کی امامت فرمائی؟
آپ ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔
۲۸)۔۔۔ عشاء اور فجر کی نماز آپ نے کہاں ادا کی؟
ام ہانی کے گھر میں۔
۲۹)۔۔۔ معراج کا واقعہ لوگوں کو سنایا تو انکا کیا رویہ تھا؟
کچھ لوگوں نے اپ ﷺ کا مذاق اڑایا اور کچھ آپ سے بہت متاثر ہوئے۔
۳۰)۔۔۔ ابوبکرؓ کو صدیق کا لقب کس نے دیا اور کیوں دیا؟
واقعہ معراج کی تصدیق پر آپ ﷺ نے یہ لقب عطا فرمایا۔
۳۱)۔۔۔ معراج کی رات آپ ﷺ پر اور امت پر کتنی نمازیں فرض ہوئی تھیں؟
پچاس نمازیں۔
۳۲)۔۔۔ کس پیغمبر کے مشورہ پر آپ ﷺ نے اللہ سے نمازوں میں کمی کی درخواست کی؟
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر۔
۳۳)۔۔۔آپ ﷺ نماز میں کمی کی درخواست بارگاہ الٰہی میں کتنی مرتبہ لے کر حاضر ہوئے؟
تین مرتبہ۔
۳۴)۔۔۔آخری مرتبہ میں کتنی نمازیں فرض ہوئیں؟
پانچ وقت کی نمازیں فرض ہوئیں۔
۳۵)۔۔۔عرب کے مشہور بازار کون سے تھے؟
بازار عکاظ، بازار مجنہ، بازار ذی مجاز۔
۳۶)۔۔۔ طفیل دوسی کیسے مسلمان ہوئے؟
قرآن کی تلاوت سن کر۔
۳۷)۔۔۔سوید نے مسلمان ہونے کے بعد کن قبیلوں کو اسلام کی دعوت دی؟
قبیلہ اوس، خزرج، کندہ، کلب، بنو حنیفہ اور بنو مضر شامل تھے۔
۳۸)۔۔۔بیعت عقبہ اولیٰ کیا ہے؟ کب ہوئی؟ کس کے ساتھ ہوئی؟
جس پہاڑ کی گھاٹی میں آپ ﷺ دعوت اسلام دیتے تھے وہاں نبوت کے گیارہویں سال قبیلہ اوس و خزرج کے لوگوں نے آپ ﷺ سے بیعت کی اور آپ ﷺ کی خاطر جان قربان کرنے کا عہد کیا۔
۳۹)۔۔۔ آپ ﷺ نے کس صحابی کو اہل مدینہ کو قرآن پڑھانے اور دین کی باتیں سکھانے کے لئے مقرر کیا؟
مصعب بن عمیرؓ
۴۰)۔۔۔ بیعت عقبہ ثانیہ کب اور کہاں ہوئی؟اور کتنے لوگوں نے بیعت کی؟
نبوت کے بارہویں سال عقبہ کے مقام پر ہوئی، جس میں ۷۳ مرد اور دو عورتیں شامل تھیں۔
۴۱)۔۔۔ سب سے پہلے کس نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی؟
معرور کے بیٹے براءؓ نے۔
۴۲)۔۔۔ تیہان کے بیٹے ابو الہیثم نے آپ ﷺ سے کس خدشہ کا اظہار کیا؟
جب اللہ آپ کو فتح عطا فرمائے گا تو آپ ﷺ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم میں تو نہ لوٹ جائیں گے۔
۴۳)۔۔۔مشرکین مکہ کو جب بیعت عقبہ ثانیہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے کیا کیا؟
مدینہ کے لوگوں کا پیچھا کیا لیکن ناکام رہے۔
۴۴)۔۔۔مشرکین کسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئے؟
عبادہ کے بیٹے سعدؓ کو،
۴۵)۔۔۔ سعدؓ کو کس نے پناہ دے کر جان بچائی؟
جبیر اور حارث نے۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ یہ فیصلہ آپ ﷺ نے قرآنی حکم کے بعد کیا، سورۂ الزمر ۳۹/آیت نمبر۱۰،
۲۔ فتح الباری ج/۷، ص /۲۷۷، حدیث نمبر ۳۸۷۶،
۳۔ فتح الباری ابن حجر عسقلانی ج/۷، ص /۱۸۷،
۴۔ فتح الباری ج/۷،ص/۲۲۷، حدیث نمبر ۳۸۷۶
۵۔ سیرت ابن ہشام ، ج / ۱، ص / ۲۸۹،
۶۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص /۴۰۰،
۷۔ سیرت ابن ہشام ج/۱ ص/۲۸۹، قرآن نجاشی کی مدح میں نازل ہوا، دیکھئے سورۂ المائدہ ۵/آیت نمبر ۸۳۔۸۵،
۸۔ صحیح مسلم ج/۲، ص /۶۵۷، فتح الباری ، ج /۶ ص /۱۴۱، حدیث نمبر ۱۲۴۵،
۹۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص/ ۴۲۲ تا ۴۲۵،
۱۰۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص /۴۷۳،
۱۱۔ یہ دوسری دفعہ شق صدرہوا ہے ایک شق صدر کا واقعہ بچپن کے حالات میں گزرچکا ہے ہے اس شق صدر کا تذکرہ کتب احادیث میں موجود ہے۔ دیکھئے فتح الباری ج/۱ ص /۴۵۸، کتاب الصلوٰۃ اورکتاب الحج فی ماء الزمزم ج/۳، ص /۴۹۲ اور صحیح مسلم ج/۱، ص /۱۴۸، باب الاسراء و المعراج،
۱۲۔ فتح الباری ج/۹ ص/۱۷۶، حدیث نمبر ۵۵۷۶، صحیح مسلم ج/۱، ص /۱۴۵، حدیث نمبر ۱۶۲،
۱۳۔ سیرت حلبیہ ج/۲، ص /۴۹۵،
۱۴۔ ایضاً، ص/۵۰۱،
۱۵۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۲۵۱،
۱۶۔ سیرت حلبیہ ج/۲ ص / ۴۶۷،
۱۷۔ سیرت ابن ہشام ج/۲، ص/۳۶،
۱۸۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱، ص/۲۵۳،
۱۹۔ فتح الباری ج/۷، ص/۲۲۱، سیرت ابن ہشام ج/۲، ص/۱۰۳،
۸۔مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کا حکم
مدینہ کی فضا بالکل تیار ہوگئی کہ، پیارے نبی ﷺ جائیں، تو سرآنکھوں پہ بٹھائے جائیں۔ ہاتھوں ہاتھ لئے جائیں۔ اور پھر؟
اک نئے دور کا آغاز ہوسکے۔
لہٰذا اب خدا کا حکم آ گیا اور آپﷺ نے سب کو ہجرت کی اجازت دے دی۔ فرمایا۔
تم لوگ ہوشیاری کے ساتھ مدینہ چلے جاؤ۔ اور ایک، ایک، د و، دو، کرکے جاؤ۔ قافلوں کی شکل میں نہ نکلو، کہ خواہ مخواہ قریش کی نظریں اٹھیں اور وہ تمہارے ارادوں کو بھانپ لیں۔
اس طرح بہت سے مسلمان کوچ کرگئے۔ اور قریش بالکل بے خبر رہے۔ لیکن یہ بات چھپنے والی کب تھی؟ آخر کار وہ بھی جان گئے اور ساری صورت حال ان کی سمجھ میں آ گئی۔ سب سے پہلے مصعب بن عمیر اور عبداللہ بن ام مکتوم نے ہجرت کی۔(۱) اکثر صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کی ہدایت کے مطابق خاموشی سے ہجرت کرگئے۔
حضرت عمرؓ کا مشرکین کو چیلنج اور ہجرت :
حضرت علیؓ اورحضرت عمرؓ وہ واحد اشخاص ہیں، جنہوں نے علی الاعلان ہجرت کی۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں عمرؓمسلح ہوکر کعبہ پہنچے، اعلان کیا مشرکین مکہ کے سرداروں میں جو شخص اپنی ماں کی کوکھ کو ویران کرنا چاہے، جو اپنے بچوں کو یتیم کرنا چاہے، جو اپنی بیوی کو بیوہ کرنا چاہے وہ مجھے مکہ سے باہر آکر ملے اور مجھے ہجرت سے روک کر دکھائے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں سارے قریش کو سانپ سونگھ گیا۔(۲)
پیارے نبی ﷺ کے قتل کی سازش اور
ہجرت کا حکم
آپ ﷺ اپنے چاہنے والوں کے پاس مدینہ پہنچنے کے لئے بے چین تھے کہ اللہ کی طرف سے ہجرت کی اجازت مل گئی۔ ابھی ہجرت کی تیاری جاری تھی کہ مشرکین مکہ نے آپ ﷺ کے قتل کی سازش تیار کی۔ سارے سردار دارالندوۃ میں جمع ہوئے۔ کیا کرنا چاہئے :
ایک نے کہا : محمد ﷺ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر کمرہ میں بند کردو۔
دوسرے نے کہا : محمد ﷺ کو پکڑ کر کسی دور دراز علاقہ میں چھوڑ آؤ۔(۳)
پھر آخر ہم کیا کریں؟ سب ایک ساتھ بول اُٹھے۔ آوازوں سے گھبراہٹ اور مایوسی ٹپک رہی تھی۔ ابوجہل بولا ایک شکل ہے، جو اب تک کسی نے نہیں سوچی سب نے پوچھا: (بڑی بے تابی سے) ارے، وہ کیا ابوالحکم؟
اس نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ پہلے ہم ہر قبیلے سے ایک پہلوان اور شیر دل جوان چنیں۔ پھر ہر ایک کے ہاتھ میں تیز تلوار دیں۔ اور سب ایک ساتھ محمد ﷺ پر ٹوٹ پڑیں۔اس طرح اس کا کام تمام ہو جائے گا۔ اور ہم کو ہمیشہ کے لئے آرام مل جائے گا۔ کیونکہ اس طرح خون تمام قبیلوں میں بٹ جائے گا اور ظاہر ہے کہ بنی ہاشم تمام قبیلوں کا مقابلہ تو نہ کرسکیں گے۔ مجبوراً خوں بہا (یعنی سو اونٹ) پر ہی راضی ہو جائیں گے۔
یہ رائے سب کو پسند آئی۔ ابوجہل کو مبارک باد دی۔(۴) قرآن نے ان کی اسی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اور وہ وقت یاد کرو جب کافر تمہارے بارے میں چالیں چل رہے تھے کہ تمہیں قتل کر دیں یا تمہیں جلاوطن کردیں وہ اپنی چالیں چل رہے تھے۔ اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے عمدہ چال چلنے والا ہے۔
مشرکوں نے قتل کی اسکیم بنالی اور اس کے لئے ہر ایک نے کمر کس لی۔ کیونکہ اب تو خون سارے قبیلوں میں بٹ رہا تھا۔ اور چونکہ سارے قبیلے اس میں شریک ہو رہے تھے۔ آل ہاشم بدلہ بھی نہیں لے سکتے تھے۔
پیارے نبی ﷺ کی دعاء :
اِدھر آپ ﷺ اللہ سے دعاء کر رہے تھے:
رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْ خَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّیْ مِںْ لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَّصِیْراً (۶)
اے میرے رب تو جہاں بھی مجھے لے جائے سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکالے بھلائی کے ساتھ نکال اور اپنی طرف سے ایک طاقت کو میرا مددگار بنا دے۔
ادھر اللہ نے آپ ﷺ کو خبرکردی۔ حضرت علیؓ بھی ساتھ ہی تھے۔ ان سے آپ ﷺ نے فرمایا : مجھ کو ہجرت کا حکم ہوچکا ہے۔ دشمن آج گھر کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اور میرے قتل کے لئے بے تاب ہیں۔ پھر فرمایا: علیؓ ! میں آج مدینہ روانہ ہو جاؤں گا۔ تم میرے بستر پر سورہو اور میری سبز چادر بھی اُوڑھ لو۔ اللہ نے چاہا تو کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔ صبح جاکر سب امانتیں واپس کر دینا۔ پھر تم بھی چلے آنا۔
بات کیا تھی؟ قریش اگر جان کے دشمن تھے لیکن آپ ﷺ ہی ان کے ’’امین‘‘ بھی تھے۔ جس کو کوئی امانت رکھنی ہوتی، آپ ﷺ ہی کے پاس رکھتا۔ اس وقت بھی آپ ﷺ کے پاس بہت سی امانتیں تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ حضرت علیؓ کو ساتھ نہ لے گئے بلکہ امانتیں واپس کرنے کیلئے مکہ چھوڑ گئے۔
پھر حضرت علیؓ بستر مبارک پر لیٹ گئے۔ اور سبز چادر اوڑھ کر سو گئے۔ دشمنوں کو آپ ﷺ کا انتظار تو تھا ہی۔ ایک ایک لمحہ اُن پر بار ہو رہا تھا۔ دیر ہوگئی، تو کھڑکی سے اندر جھانکنے لگے۔ بستر مبارک پر نظر پڑی تو آپس میں بولے وہ دیکھو، محمدﷺ سو رہا ہے۔ جسم پر چادر بھی ہے۔(۷)
اس سے دو ہی تین دن پہلے آپ ﷺ ابوبکرؓ کے گھر گئے تھے۔ دوپہر کا وقت تھا، دروازہ پر دستک دی تو حضرت ابوبکرؓ باہر آئے۔ فرمایا: یہاں کون لوگ ہیں؟ ذرا دیر کے لئے انہیں ہٹا دو۔ کچھ مشورہ کرنا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یہاں آپ ﷺ کی حرم کے سوا اور کوئی نہیں۔ (عائشہؓ سے شادی ہو چکی تھی)
آپ ﷺ نے فرمایا : ہجرت کی اجازت مل گئی ہے۔
حضرت ابوبکرؓ (نہایت بیتابی سے) میرا باپ آپ ﷺ پر قربان، کیا۔۔۔!! مجھ کو بھی رفاقت کا شرف حاصل ہوگا؟
آپ ﷺ نے فرمایا ہاں
یہ سننا تھا کہ آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے۔ عرض کیا:
اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے کچھ سامان تیار کیا ہے۔ جو جہاد میں کام آئے گا، سفر کے لئے دو اونٹنیاں بھی تیار کرلی ہیں۔ اور عبداللہ بن اریقط سے بھی بات کرلی ہے۔ سفر میں اس سے سہولت رہے گی۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی اونٹنیوں کی ضرورت نہیں۔ پہلے تو ہم جنوب کا رخ کریں گے اور غار ثور میں کچھ دن ٹھہریں گے۔(۸)
غارِ ثور مکہ سے جنوب میں ہے، تین میل کی مسافت پر۔ اور یمن کے راستے میں ہے۔ آپ ﷺ سمجھتے تھے کہ ہر شخص جو سنے گا کہ محمد ﷺ مکہ سے چلے گئے۔ وہ یہی سمجھے گا کہ محمد ﷺ مدینہ ہی کے راستے میں ہوں گے، اور شمال کی طرف دوڑے گا، کیونکہ مدینہ مکہ سے شمال میں ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ایسا نقشہ بنایا، کہ پیچھا کرنے والے ناکام ہوکر لوٹ جائیں اور ان کو پتہ بھی نہ چلے کہ آپ ﷺ کدھر گئے؟ اور کہاں گئے؟
مکہ کی آخری رات جبکہ دشمنوں نے گھر کو گھیر لیا تھا، سیدھے آپ ﷺ ابوبکرؓ کے گھر پہنچے۔ ان کو ساتھ لیا اور گھر کے عقب میں ایک کھڑکی تھی۔ اس سے نکل کر باہر آئے۔ اور رات کے پرسکون اور تاریک سناٹے میں تیز تیز قدم بڑھانے لگے۔ پھر مکہ سے باہر پہنچے۔ تو جنوب کا رخ کیا۔ اور غارِ ثور کی طرف تیزی سے بڑھے۔ یہ پیر کا دن تھا اور جب مدینہ پہنچے تو پیر کا دن تھا۔(۹)
ادھر صبح تڑکے ہی حضرت علیؓ کی آنکھ کھل گئی۔ اور وہ بستر چھوڑ کر اُٹھ گئے۔ آہٹ ہوئی تو دشمن بھی چوکنے ہوگئے، کہ اب کام کرنے کا وقت آگیا۔
لیکن ۔۔۔ یہ محمد ﷺ کے بستر سے کون اٹھا؟
لوگ بار بار بے تابی کے ساتھ کھڑکی سے اندر جھانکتے۔ اور حیران ہوکر وہاں سے ہٹ جاتے۔
یہ سوکر اٹھنے والا محمدﷺ تو نہیں! یہ تو ابوطالب کا لڑکا علیؓ ہے۔ اُف! اُف! یہ کیا ماجرا ہے؟
گھر میں گھس کر علیؓ سے پوچھا: تمہارا ساتھی کہاں ہے؟ جواب ملا: مجھے نہیں معلوم!
پیارے نبی ﷺ اور ابوبکرؓ کی تلاش :
اب وہ علیؓ کو پکڑ کر باہر لائے اور بے تحاشا انہیں پیٹتے رہے، کہ محمد ﷺ کا پتہ چل جائے۔ لیکن علیؓ بار بار یہی کہتے رہے، مجھے معلوم نہیں۔
پھر جب وہ بالکل مایوس ہوگئے تو علیؓ کو لے جاکر کعبہ میں بند کر دیا۔ مگر وہاں بھی ان کو رحم نہ آیا اور وہ برابر ستاتے رہے۔ یہاں تک کہ کچھ رشتہ داروں نے ان کو رہا کروایا۔
کچھ دوڑ کر ابوبکرؓ کے گھر گئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ابوبکرؓ آپ ﷺ کے گہرے دوست ہیں اور آپ ﷺ کو اُن سے خاص لگاؤ ہے۔ انہی لوگوں میں ابوجہل بھی تھا۔ کنڈی کھٹکھٹائی، تو بڑی بیٹی اسماؓ نکلیں۔ دشمنوں نے پوچھا باپ کہاں ہیں؟ اسماءؓ نے جواب دیا: کچھ پتہ نہیں وہ کہاں گئے۔
دشمن سمجھ گئے کہ ابوبکرؓ بھی محمد ﷺ کے ساتھ ہی فرار ہوگئے۔ ابوجہل غصہ سے بے تاب تو تھا ہی۔ بدبخت سے برداشت نہ ہوا، اور اس نے اتنی زور سے معصوم گال پر ایک چانٹا رسید کیا کہ کان سے بالی نکل کر دور جاگری۔
ایک آدمی مل گیا۔ جو پیروں کے نشان پہچاننے میں ماہر تھا۔ نام اُس کا سراقہ بن مالک تھا۔ وہ رسول ﷺ اور عاشقِ رسولؓ کے پیروں کے نشانات دیکھتا ہوا چلا۔ پیچھے پیچھے قریش کا ایک مجمع تھا۔ چلتے چلتے وہ مکہ سے باہر آ گئے۔ اب سراقہ نے جنوب کا رخ کیا۔ اور کوہ ثور کی طرف بڑھا۔ لوگ سخت حیران تھے۔ ہر ایک تعجب سے کہہ رہا تھا:
آخر محمد ﷺ کدھر گئے ؟ جنوب کی طرف یا شمال کی طرف۔
دشمنوں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ لیکن وہ سراقہ کے ساتھ چلتے رہے کہ شاید وہ کامیاب ہو جائے اور محمد ﷺ کا پتہ چل جائے۔ سراقہ ریت پر پیروں کے نشان دیکھ دیکھ کر چلتا رہا۔ پھر ۔۔۔ پھر وہ کوہِ ثور پر چڑھنے لگا۔
سراقہ نے سامنے ایک پتھر کی طرف اشارہ کیا۔ اور کہا اس پتھر تک تو وہ دونوں آئے، پھر نہیں معلوم، کدھر گئے؟
یہ کہنا تھا کہ ایک قہقہہ بلند ہوا۔ ارے سراقہ ! آج تمہیں کیا ہوگیا؟ خدا کی قسم، اس طرح تو تم کبھی نہیں بہکے۔
محمدﷺ اس وقت غار میں کھڑے نماز میں مصروف تھے۔ اور یار غار پاس ہی بیٹھے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ دل دھک دھک کر رہا تھا، کہ کہیں ظالموں کی نظر آپ ﷺ پر نہ پڑ جائے۔
پھر حضور ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے۔ حضور ﷺ کی جان خطرہ میں دیکھ کر ابوبکرؓ خوف و گھبراہٹ سے بدحال تھے۔ چہرہ اترا ہوا تھا۔ اور دل بیٹھا جا رہا تھا۔ آپﷺ سب بھانپ گئے۔ فوراً ڈھارس بندھائی اور فرمایا گھبراؤ نہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے:
ولاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا (۱۰)
اس پر مکڑی کا ڈیرہ ہے۔ غار کے منہ پر دو جنگلی کبوتروں کا گھونسلہ بھی ہے۔ راستہ میں درخت بھی کھڑا ہے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ اس کے اندر کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ آواز ابوبکرؓ نے بھی سنی۔
پیارے نبی ﷺ اور ابوبکرؓ کے سر کی قیمت :
مکہ کے چودہ مشرک سرداروں نے جنہوں نے آپ ﷺ کے قتل کا فیصلہ کیا تھا جب اس قتل میں ناکام رہے تو انہوں نے اعلان کیا جو بھی محمد ﷺ کو پکڑ کر لائے گا، سو اونٹ انعام پائے گا۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ یہ سو اونٹ اسی کو ملیں۔ اس لالچ کے پیچھے وہ دیوانے تھے۔ کیسی تھکان، اور کیسی زحمت؟ سب سے بیگانہ تھے۔(۱۱)
حضور ﷺ بروز جمعہ ۲۶۔۲۷ صفر کی رات گھر سے نکلے، پیارے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ تین دن جمعہ ہفتہ اتوار اسی غار میں ٹھہرے رہے۔ ابوبکرؓ کے بیٹے عبداللہؓ دن بھر پتہ لگاتے کہ قریش کیا کیا منصوبے بنا رہے ہیں؟ پھر جو کچھ خبر ملتی، رات کو آکر سنا جاتے۔ ساتھ میں ان کی بہن اسماءؓ بھی ہوتیں۔ یہ گھر سے کھانا پکا کر لاتیں۔ کچھ رات گئے، ابوبکرؓ کا غلام عامر بن فہیرہ بکریاں چرا کر لے آتا۔(۱۲) آپ ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ ان کا دودھ پی لیتے۔ پھر تینوں مکہ واپس چلے جاتے۔ عبداللہ اور ان کی بہن آ گے آگے ہوتیں اور عامر بن فہیرہ اور اس کی بکریاں پیچھے پیچھے۔ تاکہ ان دونوں کے پیروں کے نشانات مٹتے جائیں۔ اس طرح تین دن گزر گئے۔(۱۳) ابوبکرؓ نے عبداللہؓ سے کہا: میں نے جو دو اونٹنیاں تیار کی ہیں، انہیں لیتے آنا۔ لیکن دیکھو، کسی کو پتہ نہ چلے، ساتھ میں عبداللہ بن اریقط کو بھی بلاتے لانا۔ یہ ایک کافر تھا مگر حضرت ابوبکرؓ کو اس پر اعتماد تھا۔ اس لئے انہوں نے اسے اجرت پر طے کرلیا تھا، کہ کسی غیر آباد راستے سے وہ مدینہ پہنچا دے۔
شام ہوتے ہی عبداللہؓ غارِ ثور کے لئے روانہ ہوگئے۔ ساتھ میں ان کی بہن اسماءؓ اور عامر بن فہیرہ بھی تھا۔ پیچھے پیچھے عبداللہ بن اریقط بھی تھا۔ جو حضرت ابوبکرؓ کی دونوں اونٹنیاں اور اپنی ایک اونٹنی لے کر آ رہا تھا۔ کچھ دیرمیں یہ لوگ اونٹنیوں کے ساتھ غار پر آ پہنچے۔ دونوں میں جو زیادہ اچھی تھی، اسے ابوبکرؓ نے آپ ﷺ کو پیش کیا اور عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ اس پر سواری فرمائیے۔(۱۴)
محسنِ عالم ﷺ کو کسی کا احسان لینا کب گوارا تھا۔ فرمایا: میں دوسرے کی اونٹنی پر نہیں بیٹھتا۔
حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا: یہ اب آپ ﷺ کی قصواء اونٹنی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر فدا ہوں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں جتنے میں خریدا ہے، اتنی ہی قیمت پر۔
ابوبکرؓ کو مجبوراً تیار ہونا پڑا۔(۱۵) حضرت اسماءؓ نے سفر کا سامان کیا، گھر سے وہ ایک ناشتہ دان میں کھانا، اور پانی سے بھرا ہو ایک مشکیزہ لائی تھیں۔ ان دونوں کو اونٹنی پر رکھنا تھا۔ مگر باندھنے کے لئے کوئی بندھن نہیں تھا۔ اس لئے پریشان ہوئیں کہ کیا کریں؟
پھر ایک ترکیب سمجھ میں آ گئی۔ نطاق (کمر میں باندھنے والا کپڑا) کو پھاڑ کر انہوں نے دو ٹکڑے کئے اور ایک سے ناشتہ دان اور مشکیزہ کو باندھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ذات النظاقین (دو نطاقوں والی) کے لقب سے مشہور ہوئیں۔
پھر آپ ﷺ اور ابوبکرؓ دونوں اونٹنیوں پر سوار ہوگئے۔ عبداللہ بن أریقط بھی اپنی اُونٹنی پر بیٹھ گیا۔ ابوبکرؓ نے پیچھے غلام کو بھی بٹھالیا کہ راستے میں کوئی ضرورت پیش آئے، تو زحمت نہ ہو۔ پھر یہ قافلہ عبداللہ بن اریقط کی رہنمائی میں روانہ ہوگیا، اور ساحلی راستے سے ہوتا ہوا چلا، جو بالکل سنسنان اور غیر آباد تھا۔ مدینہ جانے والے اس راستے کو اختیار نہیں کرتے تھے۔
سراقہ کا تعاقب اور آپ ﷺکا معجزہ :
سراقہ بن جعثم کو اطلاع ملی، تین افراد کو مدینہ جاتے دیکھا گیا ہے وہ خاموشی سے آپ ﷺ کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوا تاکہ تنہاء سو سرخ اونٹ حاصل کرلے، دونوں میں سے کسی کو گرفتار یا قتل کرکے، تعاقب میں گھوڑا بھی کچھ ہی دور بڑھا تھا کہ اس نے ٹھوکر کھائی اور قریب تھا کہ وہ سراقہ کو زمین پر پھینک دے۔ لیکن سراقہ جلدی سے سنبھلا، اور پھر اس کو ایڑ لگائی۔ اب گھوڑا ہوا میں اڑنے لگا۔ مگر زیادہ دور نہیں گیا تھا کہ پھر ٹھوکر لگی، لیکن سراقہ کی ہمت پست نہ ہوئی اور اس نے دوبارہ گھوڑے کو سنبھالا اور پھر ایڑ لگائی۔ اگرچہ اب وہ کچھ مرعوب تھا۔ کچھ خوفزدہ اور ہراساں تھا۔ کچھ مایوسی کا بھی شکار تھا۔
قافلہ ایک دن، رات برابر چلتا رہا۔ راستے میں نہ کسی دشمن کا سامنا ہوا۔ اور نہ کوئی پیچھا کرنے والا نظر آیا۔ لہٰذا ابوبکرؓ کو اب بالکل اطمینان تھا اور دل کی گھبراہٹ اور پریشانی دور ہوچکی تھی۔ حضور ﷺ کے بارے میں اب کسی بھی خطرہ کا اندیشہ نہ رہ گیا تھا۔ پھر چونکہ یہ دوسرے دن دوپہر کا وقت تھا اوردھوپ کی گرمی سے جسم بھنا جا رہا تھا۔ اس لئے ابوبکرؓ کی خواہش ہوئی کہ حضرت محمد ﷺ کچھ آرام فرمالیں چنانچہ ہر طرف نظر دوڑائی، تو ایک چٹان کے نیچے سایہ نظر آیا، وہ وہیں جاکر اُتر گئے۔
ابوبکرؓ کی نظر جنوب کی طرف پڑی۔ دیکھا تو ایک سوار بہت تیزی سے لپکا چلا آ رہا تھا۔ ابوبکرؓ کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ عرض کیا، اللہ کے رسول ﷺ ! اب تو ہم دھر لئے گئے! مگر آپ ﷺ کے اطمینان کا وہی حال تھا۔ بہت ہی سکون کے ساتھ فرمایا :
ابوبکرؓ ! گھبراؤ نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔(۱۶) اللہ سچ مچ ان کے ساتھ تھا! سراقہ کا گھوڑا اب بہت قریب آ چکا تھا۔ اب وہ بالکل نظروں کے سامنے تھا اور اس کی ٹاپوں کی آواز کانوں میں آ رہی تھی۔ لیکن یکایک بہت زور کی ٹھوکر لگی اور اس بار اس کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے تھے۔ سوار لڑھک کر زمین پر گرا۔ اس کا چہرہ ریت سے بھر گیا۔ اور ہمت نے بھی جواب دے دیا۔
سراقہ کو اب یقین ہوگیا کہ آثار اچھے نہیں۔ اور میں نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے خدا اس سے راضی نہیں۔ چنانچہ وہ وہیں پر رک گیا۔ اور زور سے آپ ﷺ کو اور ساتھیوں کو آواز دی:
میں جعثم کا بیٹا سراقہ ہوں۔ ذرا ٹھہر جاؤ۔ کچھ باتیں کروں گا۔ بخدا میں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ اطمینان رکھو، میں کچھ بھی نہیں کروں گا۔
محمد ﷺ نے فرمایا: ابوبکرؓ ! پوچھو، وہ کیا چاہتا ہے؟
ابوبکرؓ نے پوچھا: کہو، کیا چاہتے ہو؟
سراقہ نے جواب دیا: امن کی تحریر۔
رحمتِ عالم ﷺ نے درخواست قبول کی۔ اور ابوبکرؓ کو لکھنے کا حکم دیا۔
چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا۔ آپ ﷺ نے جو کچھ فرمایا ابوبکرؓ نے اس پر لکھ دیا۔ پھر سراقہ کو دے دیا۔ سراقہ نے اس کو لیا۔ اور گھوڑے پر سوار ہوکرمکہ لوٹ گیا۔(۱۷)اس نے کچھ زاد راہ تیار پیش کیا۔ مگر آپ ﷺ نے قبول نہیں فرمایا۔(۔۱۸) اس کے واپس ہوتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا، اے سراقہ تمہارا اس وقت کیا حال ہوگا۔ جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے۔ بعد میں سراقہ مسلمان ہوگیا تھا اور عہد فاروقی میں کسریٰ فارس کے کنگن مال غنیمت میں آئے تو عمرؓ نے انہیں یہ کنگن پہناکر آپ ﷺ کی پیش گوئی پوری کر دی۔(۱۹)
یہ سب ہوا تھا، لیکن سراقہ نے کسی سے کچھ نہ کہا۔ البتہ اب اس کو آپ ﷺ سے بے حد محبت ہوگئی، اور بے انتہا الفت و ہمدردی۔ چنانچہ اب اگر وہ دیکھتا کہ کوئی آپ ﷺ کا پیچھا کرنے جا رہا ہے یا تلاش کی غرض سے نکل رہا ہے تو اُسے وہ بہکاتا۔ اور جس طرح بن پڑتا روکنے کی کوشش کرتا۔ یہ تھا جادو جس نے چند لمحوں میں انہیں تسخیر کرلیا۔
حضرت علیؓ کا مدینہ پہنچنا :
حضرت علیؓ لوگوں کی امانتیں لوٹاکر تین دن بعد مکہ سے پیدل نکل کھڑے ہوئے، آپؓ کے پاس سواری نہیں تھی، پیدل چلتے چلتے پیر لہو لہان ہوگئے۔(۲۰)
آپ ﷺ کا مدینہ پہنچنا :
مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی آبادی تھی۔ یہ ذرا اونچائی پر واقع تھی اور عالیہ اور قباء کے نام سے مشہور تھی۔ یہاں مسلمانوں کے کئی اونچے گھرانے تھے۔ رسول خدا ﷺ ۸؍ ربیع الاول بمطابق ۶۲۲ عیسوی بروز پیریہاں پہنچے اور اُن کے مہمان ہوئے اور چودہ دن وہیں ٹھہرے رہے۔ وہاں کے دورانِ قیام میں خود دستِ مبارک سے ایک مسجد کی بنیاد بھی ڈالی۔ جو ’’مسجد قباء‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسی مسجد کی تعریف اللہ نے قرآن میں کی ہے۔ کہ اس مسجد کی بنیاد تقویٰ پر ہے اس لئے اس کی مستحق ہے کہ آ پﷺ اس میں نماز ادا کریں۔(۲۱) یہیں پر علیؓ کی آپ ﷺ سے ملاقات بھی ہوئی۔ وہ بھی آپ ﷺ کے بعدامانتیں لوٹا کر ہجرت کرکے آگئے۔
کھجور کے درخت کے نیچے پیارے نبی ﷺکی اپنے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔ لوگ شوق سے بے تاب تھے۔ لیکن آپ ﷺ کو پہچان نہ سکتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے دھوپ سے بچانے کیلئے سر پر چادر تانی، تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہی اللہ کا پیارا رسول ﷺ ہے۔
یہ جمعہ کا دن تھا۔ راستے ہی میں نماز کا وقت ہوگیا۔ اس وقت آپ ﷺ بنی سالم کے محلہ میں تھے۔ اس لئے جمعہ کی نماز آپ ﷺ نے یہیں ادا فرمائی۔ آپ ﷺ کے ساتھ ان جانثاروں نے بھی نماز ادا کی، جو آپ ﷺ کو دیکھنے سے پہلے ہی مسلمان تھے۔
مدینہ میں شاندار استقبال :
مدینہ کے ہر خاندان کی تمنا تھی کہ رسول ﷺ خدا کو اپنا مہمان بنائے۔ ہر قبیلہ سامنے آکر عرض کرتا:
اللہ کے رسول آپ ﷺ ہمارے یہاں ٹھہریں۔ دیکھئے، یہ گھر ہے، یہ مال ہے، یہ جان ہے۔
رسول خدا ﷺ مسکراتے ہوئے شکریہ ادا فرماتے۔ اور ان کے لئے دعائے خیر کرتے۔ اس وقت آپ ﷺ اونٹنی پر سوار تھے۔ آپ ﷺ نے اس کی مہار ڈھیلی کر دی اور فرمایا : میں وہاں ٹھہروں گا جہاں اللہ ٹھہرائے گا۔
اونٹنی مدینہ کی گلیوں میں چل رہی تھی۔ اورصحابہؓ آپ ﷺ کے اردگرد تھے لوگوں کا ایک انبوہ تھا، جو جوش میں نعرے لگا رہا تھا:
اللہ اکبر، محمد ﷺ آگئے۔ اللہ اکبر، رسولِ خدا ﷺ آ گئے۔
معصوم بچے اور بچیوں کے استقبالیہ گیت :
ننھے ننھے لڑکے اور معصوم بچیاں دف بجا رہی تھیں۔ اور خوشی میں گاتی جا رہی تھیں:
طَلَعَ الْبَدْ رُعَلَیْنَا مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوَدَاعٖ
چودہویں کا چاند ہمارے سامنے نکل آیا ، وداع کی گھاٹیوں سے
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا مَادَعَا لِلّٰہِ دَاعٖ
ہم پر خدا کا شکر واجب ہے، جب تک دعا مانگنے والے دعا مانگیں
اَیُّھَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا جِئتَ بِالْاَمَرِ الْمُطَاعٖ
اے ہم میں آنے والے! یہاں تیری باتیں سنی جائیں گی
عورتیں گھروں کی چھتوں پر چڑھ گئی تھیں، اپنے معزز مہمان کو ایک نظر دیکھنے کے لئے۔ مرد بھی اونچی اونچی جگہوں پر چڑھ گئے تھے۔ اور اس طرح خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔(۲۲)
مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کے لئے دو بچوں کی زمین کا انتخاب :
پیارے نبی ﷺ کی اونٹنی چلتی رہی، پھر ایک جگہ آکر ٹھہر گئی۔ اور وہیں بیٹھ گئی۔ یہ خاندان نجار کے دو یتیموں کی زمین تھی۔ اس میں کچھ قبریں تھیں۔ کچھ کھجور کے درخت تھے۔
اونٹنی بیٹھی تو پیارے نبی ﷺ اتر آئے۔ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ آپ ﷺ یہاں مسجد بنانا چاہتے تھے۔
عفرا کے بیٹے معاذؓ آگے بڑھے۔ عرض کیا: رسولِ خداﷺ ! سہل اور سہیل دو بچے ہیں، یہ زمین انہی کی ہے۔ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ چکا ہے اور اب وہ دونوں میری ہی پرورش میں ہیں۔ آپ ﷺ خوشی سے یہاں مسجد بنوائیں۔ میں انہیں راضی کرلوں گا۔
لیکن آپ ﷺ نے خودان یتیموں کو بلا بھیجا۔ ان دونوں نے سنا تو یہ زمین مفت دینی چاہی۔ مگر آپ ﷺ نے یہ پسند نہ فرمایا اور قیمت دے کر خرید لی۔ پھر زمین برابر کی گئی۔ اور مسجد بننی شروع ہوگئی۔(۲۳) اونٹنی حضرت ابوایوب کے گھر کے آگے ٹھہری تھی لہٰذا آپ ﷺ انہی کے گھر مہمان بنے۔ حضرت ابوایوبؓ آپ ﷺ کا بہت خیال رکھتے اور ہر طرح کا آرام پہنچانے کی کوشش کرتے۔ سات مہینے آپ ﷺ یہیں ٹھہرے رہے۔(۲۴) اس مدت میں مسجد بن کر تیار ہوگئی، اور مسجد کے قریب امہات المؤمنین (آپ ﷺ کی بیویوں) کے مکانات بھی تیار ہوگئے، جنہیں حجرہ (کمرہ) کہا جاتا ہے۔ پھر آپ ﷺ ان میں منتقل ہوگئے۔(۲۵)
 سوال جواب
۱)۔۔۔ سب سے پہلے کن صحابہؓ نے مدینہ ہجرت کی؟
حضرت مصعب بن عمیرؓ اور عبداللہ بن مکتومؓ نے۔
۲)۔۔۔ کن صحابہؓ نے علی الاعلان مدینہ ہجرت کی؟
حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ نے۔
۳)۔۔۔ نبی کے قتل کی تجویز کس نے پیش کی تھی؟
دشمن رسول ابوجہل نے۔
۴)۔۔۔ ہجرت کرتے وقت آپ ﷺ نے اپنے بستر پر کس کو لٹایا؟ اورکیوں؟
حضرت علیؓ کوتاکہ وہ اہل مکہ کی امانتیں لوٹا سکیں۔
۵)۔۔۔ سفر ہجرت میں آپ ﷺ کے ساتھی کون تھے؟
حضرت ابوبکر صدیقؓ ۔
۶)۔۔۔ مکہ سے نکل کر آپ ﷺ نے کہاں اور کتنے دن قیام فرمایا؟
مکہ سے نکل کر آپ ﷺ نے غارثور میں تین دن قیام فرمایا۔
۷)۔۔۔ جس دن مکہ سے نکلے وہ کون سا دن تھا؟
پیر کا دن تھا۔
۸)۔۔۔ غار ثور مکہ سے کتنے فاصلے پر ہے؟
مکہ سے تین میل دور جنوب کی جانب۔
۹)۔۔۔ آپ ﷺ اپنے بستر پر نہ ملے تو کفار نے کہاں تلاش کیا؟
ابوبکر صدیق ؓ کے گھر پر۔
۱۰)۔۔۔ ابوجہل نے اسماءؓ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
ابوجہل نے حضور ﷺ کا پتہ نہ ملنے پر اسماءؓ کے چہرے پر اتنی زور سے چانٹا مارا کہ کان کی بالی دور جاگری۔
۱۱)۔۔۔ پیروں کے نشان پہچاننے کا ماہر کون تھا؟
سراقہ بن مالک۔
۱۲)۔۔۔ سراقہ کو پیروں کے نشان کہاں تک ملے؟
غار ثور تک۔
۱۳)۔۔۔ جب کفار غارِ ثور پہنچے اس وقت آپ ﷺ کیا کر رہے تھے؟
نماز ادا کر رہے تھے۔
۱۴)۔۔۔ آپ ﷺ نے ابوبکرؓ کو اطمینان دلانے کے لئے کون سی آیت سنائی؟
فرمایا: لَا تَحْزنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا
۱۵)۔۔۔ کفار غار ثور پر پہنچنے کے باوجود آپ کو کیوں تلاش نہ کرسکے؟
کیونکہ غار ثو رپر مکڑی نے اپنا جال بنایا ہوا تھا اور کبوتروں کا گھونسلہ ہونے کی وجہ سے وہ سمجھے یہاں کوئی نہیں ہے۔
۱۶)۔۔۔ مکہ کے کتنے سرداروں نے آپ کے قتل کا فیصلہ کیا تھا؟
چودہ سرداروں نے۔
۱۷)۔۔۔ محمد ﷺ کو پکڑ کر لانے والے کے لئے کتنا انعام مقرر کیا گیا تھا؟
سو اونٹ انعام مقرر کیا گیا تھا۔
۱۸)۔۔۔ حضور ﷺ غار میں کتنے دن ٹھہرے؟ دن اور تاریخ بتائیے؟
تین دن غار میں رہے یہ جمعہ ہفتہ اتوار کے دن اور ۲۷ تا ۲۹ صفر تھی۔
۱۹)۔۔۔ غارِ ثور میں قریش کے مشوروں اور خبروں کی اطلاع کون دیتا تھا؟
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے بیٹے عبداللہ۔
۲۰)۔۔۔ غار ثور میں کھانا اور دودھ کون پہنچاتا تھا؟
حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی اسماءؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے غلام عامر بن فہیرہ دودھ پہنچاتے۔
۲۱)۔۔۔ سفر ہجرت میں راستہ بتانے کے لئے اجرت پر کس کو مقرر کیا تھا؟اور کیاوہ مسلمان تھا؟
عبداللہ بن اریقط کو مقرر کیا تھا وہ مسلمان نہیں تھے۔
۲۲)۔۔۔ حضور ﷺ نے جس اونٹنی پر ہجرت کی وہ کس نے پیش کی تھی اور اس کا نام کیا تھا؟
حضرت ابوبکرؓ نے پیش کی تھی نام قصوا تھا۔
۲۳)۔۔۔ ذات النطاقین کا لقب کسے اور کیوں دیا گیا؟
حضور ﷺ نے حضرت اسماءؓ کو یہ لقب اس لئے دیا کہ کھانا باندھنے کے لئے کوئی ڈوری نہ تھی۔ اسماءؓ نے اپنے کمر کا پٹکہ کھولا اور اس کے دو ٹکڑے کرکے ایک کمر پر باندھ لیا دوسرے سے کھانا باندھ دیا۔
۲۴)۔۔۔ اس سفرمیں کل کتنے آدمی تھے؟ اور کون کون تھے؟
چار آدمی تھے۔ محمد ﷺ، حضرت ابوبکر صدیقؓ ، غلام عامر بن فہیرہ، رہبر عبداللہ بن اریقط،
۲۵)۔۔۔ آپ ﷺ کا تعاقب کس نے اورکیوں کیا؟
سراقہ بن جعثم نے آپ ﷺ کا تعاقب کیا تاکہ اکیلے ہی انعام کے سو اونٹ حاصل کرلے۔
۲۶)۔۔۔ سراقہ جب رسول اللہ ﷺ کے قریب پہنچا تو کیا واقعہ ہوا؟
اس کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی اور سراقہ گر پڑا،پھر اس نے آپ ﷺ سے امن کی تحریر مانگی، ابوبکرؓ نے لکھ کر دے دی۔
۲۷)۔۔۔ آپ ﷺ نے سراقہ کو کیا پیش گوئی کی؟
فرمایا اے سراقہ تمہارا اسوقت کیا حال ہوگا جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے، حضرت عمرؓ کے دور میں یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔
۲۸)۔۔۔ حضرت علیؓ لوگوں کی امانتیں لوٹاکر مکہ کب روانہ ہوئے؟
حضور ﷺ کے روانگی کے تین دن بعد۔
۲۹)۔۔۔ آپ ﷺ مدینہ کب پہنچے؟
۸؍ ربیع الاوّل بمطابق ۶۲۲ عیسوی بروز پیر۔
۳۰)۔۔۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے کہاں قیام فرمایا؟
مدینہ سے تین میل پہلے چھوٹی سی بستی میں جسے عالیہ اور قباء کہا جاتا تھا۔
۳۱)۔۔۔ قباء میں کتنے دن ٹھہرے؟
چودہ دن۔
۳۲)۔۔۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے کس مسجد کی بنیاد رکھی؟
مسجد قباء کی۔
۳۳)۔۔۔ حضرت علیؓ کی ملاقات آپ ﷺ سے کہاں ہوئی؟
قباء میں۔
۳۴)۔۔۔ آپ ﷺ نے سب سے پہلے جمعہ کی نماز کہاں ادا فرمائی؟
محلہ بنی سالم میں۔
۳۵)۔۔۔ آپ ﷺ مدینہ میں کس جانور پر سوار ہوکر داخل ہوئے؟
اپنی قصواء نامی اونٹنی پر۔
۳۶)۔۔۔ مدینہ کے ہر شخص نے آپ ﷺ کو اپنا مہمان بنانا چاہا تو آپ ﷺ نے کیا جواب دیا؟
میری اونٹنی جہاں رک جائے گی میں وہاں قیام کروں گا۔
۳۷)۔۔۔ مدینہ کے بچوں نے آپ ﷺ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
بچوں نے آپ کا دف بجاکر شاندار طریقے سے استقبال کیا۔
۳۸)۔۔۔ مدینہ میں آپ ﷺ نے کہاں قیام فرمایا؟ اور کتنے دن؟
حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر سات مہینہ قیام فرمایا۔
۳۹)۔۔۔ مدینہ میں مسجد کی تعمیر کے لئے کونسی جگہ منتخب کی گئی اور وہ جگہ کس کی تھی؟
جس جگہ آپ ﷺ کی اونٹنی نے قیام کیا اسی کو منتخب کیا وہ زمین دو یتیم بچوں سہیل اور سہل کی تھی۔
۴۰)۔۔۔ اس زمین کی قیمت کس نے ادا کی؟
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ۔
۴۱)۔۔۔ امہات المؤ منین کے حجرے کہاں تعمیر کئے گئے؟
مسجد نبوی ﷺ کے قریب تعمیر کئے گئے۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ فتح الباری ابن حجر عسقلانی ج/۷، ص/۲۶۰، حدیث نمبر ۳۹۲۴۔۳۹۲۵،
۲۔ سیرت حلبیہ علی بن برہان الدین حلبی ج/۳، ص/۶۵۔۶۶،
۳۔ سیرت حلبیہ ج/۳، ص/۷۴،
۴۔ ایضاً، ص/۷۶،
۵۔ سورۂ الانفال ۸/آیت نمبر ۱۳،
۶۔ سورۂ بنی اسرائیل ۱۷/آیت نمبر ۸،
۷۔ سیرت حلبیہ ج/۳ص/۷۷، اور ص/۹۶،
۸۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم، ج/۱، ص/۲۵۸،
۹۔ فتح الباری ج/۷، ص/۲۳۶،
۱۰۔ سورۂ التوبہ ۹/آیت نمبر ۴۰،
۱۱۔ اونٹ بھی سرخ والے اعلیٰ نسل کے۔
۱۲۔ یہ مسلمان غلام تھے، دیکھئے الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ج/۴،ص/۱۴،
۱۳۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱، ص/۲۵۸،
۱۴۔ فتح الباری ج/۷، ص/۲۵۵،
۱۵۔ سیرت حلبیہ ج/۳، ص/۹۱،
۱۶۔ سورۃ التوبۃ ۹/ آیت نمبر ۴۰،
۱۷۔ فتح الباری ج/۷، ص/۲۵۵، اور صحیح مسلم ج/۴، ص/۳۰۹، حدیث نمبر ۲۰۰۹،
۱۸۔ فتح الباری ج/۷ ص/ ۲۳۸،
۱۹۔ سیرت حلبیہ ج/۳، ص/۱۲۴،
۲۰۔ ایضاً ص/۱۴۱۔۱۴۲،
۲۱۔ سورۂ التوبۃ ۹/ آیت نمبر ۱۰۸،
۲۲۔ فتح الباری ج/۷، ص/۲۵۱۔۲۵۰،
۲۳۔ سیرت حلبیہ ج/۳، ص/۱۷۴۔۱۷۱، فتح الباری ج/۷، ص/۲۶۵،
۲۴۔ سیرت ابن ہشام ج/۱، ص/۴۹۴، اور فتح الباری ج/۳ ص/۲۴۵ اور طبقات ابن سعد ج/۱، ص/ ۲۳۶، او ر سیرت حلبیہ ج/۳/ص/۱۷۲،
۲۵۔ سیرت حلبیہ ج/۳، ص/۲۱۸، فتح الباری ج/۳، ص/۱۱۲، اور طبقات ابن سعد ج/۱ ص/۲۴۰،
۹۔مدینہ کا تعارف
مدینہ کا قدیمی نام یثرب تھا۔ آپ ﷺ کے قیام کے بعد اس کا نام مدینہ ہوا۔ یہ سعودی عرب کا دوسرا اہم ترین شہر ہے۔ مکہ سے تقریباً ڈھائی سو میل کے فاصلہ پر ہے، ہجرت نبوی ﷺ کے وقت یہاں دو بڑے قبیلے آباد تھے، اُوس اور خزرج۔ اسی طرح یہودیوں کے تین بڑے قبیلے آباد تھے۔ بنو نضیر، بنو قینقاع اور بنو قریظہ۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد ایک طبقہ منافقوں کا بھی وجود میں آ گیا جس کا سربراہ عبداللہ بن أبئ بن سلول تھا۔ (منافقین زبان سے اسلام کا نام لیتے تھے دل سے کافر تھے)
مدینہ میں آپ ﷺ کے اہم کارنامے :
آپ ﷺ نے مدینہ پہنچ کر بنیادی کاموں کی طرف اپنی توجہ مبذول کی، سب سے پہلا مہاجرین کا مسئلہ تھا۔ اس کے بعدمدینہ کے داخلی استحکام کا مسئلہ تھا، تیسرے نمبر پر مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ تھا۔
مواخات کا نظام :
مدینہ پہنچنے کے پانچ ماہ بعد آپ ﷺ نے پینتالیس مہاجرین اور پینتالیس انصار میں مواخات (بھائی چارہ) کا نظام قائم کیا۔(۱) حتیٰ کہ ایک دوسرے کا وارث بھی قرار دیا گیا۔ (۲)
اللہ اکبر! حضور ﷺ کے حسن تدبیر کو کیا کہیے! بس سنئے اور داد دیجئے! آپ ﷺ نے انصار اور مہاجرین کو جمع کیا۔ پھر انصارؓ سے فرمایا: یہ مہاجرین تمہارے بھائی ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ ایک انصاری کو بلاتے۔ پھر ایک مہاجر کو بلاتے اور فرماتے، یہ اور تم بھائی بھائی ہو۔ اب وہ سچ مچ بھائی بھائی تھے۔ انصار اپنے اپنے بھائیوں کو گھروں پر لے گئے۔ انہیں اپنے یہاں ٹھہرایا۔ رہنے کے لئے گھر دیا۔ مال وجائداد میں ان کا حصہ لگایا۔ اور ہرطرح کا آرام پہنچایا۔ اب مدینہ اُن کا اپنا وطن تھا۔ جہاں ان کے لئے ہر طرح کی سہولت تھی۔ غرض اس بھائی چارے سے انصار اور مہاجرین کے تعلقات بہت مضبوط ہوگئے اور دونوں میں گہری محبت اور الفت ہوگئی۔ ہر ایک دوسرے کو دل سے چاہنے لگا۔ ہر ایک جو اپنے لئے پسند کرتا، وہی بھائی کے لئے بھی پسند کرتا اور جو چیز خود ناپسند ہوتی، وہ بھائی کے لئے بھی ناپسندہوتی۔ یوں سمجھئے اب وہ ایک جان دو قالب تھے۔
مہاجرین تو محنت کے عادی تھے، موقع پاتے ہی کاروبار میں لگ گئے۔ کوئی تو تجارت میں لگ گیا۔ اور کوئی انصار کی زمین میں کاشت کرنے لگا۔ حرکت میں برکت تو ہوتی ہی ہے۔ اللہ نے کاروبار میں برکت دی۔ اس طرح بہت جلد وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوگئے۔ اورپھر سے اپنے گھر بسالئے۔
تعلیم و تربیت کا ادارہ :
کچھ مسلمان ایسے بھی تھے جو بہت زیادہ مفلس تھے۔ ان کے رہنے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ کسی کاروبار کے بھی وہ لائق نہ تھے۔ اس طرح دو، دو، تین، تین دن ان کے فاقہ میں گزر جاتے۔ حضور ﷺ ان کا بہت خیال رکھتے اور بیت المال سے انہیں وظیفہ بھی دیتے۔ مسجد نبوی ﷺ کے ایک کنارہ پر چبوترہ تھا۔ جسے صفہ کہتے ہیں۔ رات میں یہ بیچارے وہیں رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے کو حصول علم کے لئے وقف کر دیا تھا۔ (۳)
میثاقِ مدینہ :
آپ ﷺ نے مدینہ کے داخلی استحکام کیلئے مدینہ اور اس کے اردگرد کی تمام طاقتوں سے معاہدے کئے لیکن زیادہ مشہور اور زیادہ اہمیت کا حامل میثاق مدینہ تھا۔ یہ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہجرت کے پانچویں ماہ میں ہوا۔ اس کی اہم شقیں یہ تھیں۔
۱۔ دونوں فریقوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے میں مذہبی آزادی ہوگی۔
۲۔ جنگ کے وقت یہود جان و مال سے مسلمانوں کا ساتھ دیں گے، مسلمانوں کے خلاف مدد کی اجازت نہیں ہوگی۔
۳۔ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کرے تو مسلمانوں کی مدد کرنا لازمی ہوگا۔
۴۔ مسلمان اگر کسی سے صلح کریں گے تو یہود بھی اس صلح میں شامل ہوں گے۔
۵۔ جو طاقت اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرے گی مدینہ کی دیگر طاقتیں مل کر اس کے خلاف لڑیں گی۔
۶۔ اس معاہدہ کے شرکاء پر مدینہ میں ہنگامہ آرائی، قتل و خونریزی حرام ہوگا۔
۷۔ اگر باہمی جھگڑا ہو جائے یا اختلاف پیش آ جائے تو اس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کریں گے۔(۴)
یہ معاہدہ کس قدرمذہبی رواداری اور عدل و انصاف پر مبنی ہے اس کا بنیادی مقصد لوگوں کے درمیان امن بھائی چارہ اور اتحاد پیدا کرنا تھا۔
یہودی مدت سے ایک نبی کے منتظر تھے۔ چنانچہ جہاں انہیں ’’نبی‘‘ کے آنے کی امید تھی، وہاں وہاں وہ جاکر بستے تھے۔ انکا خیال تھا کہ آنے والا نبی ہمارے ہی مذہب کا پیرو ہوگا۔ اور جب وہ آئے گا، تو ہمارے مذہب کے پیر جم جائیں گے۔ اور ہر طرف اسی کا بول بالا ہوگا اور عیسائی مذہب دنیا سے مٹ جائے گا۔ کوئی نام لیوا بھی نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شروع میں آپ ﷺ کے مدینہ تشریف لانے سے بہت خوش تھے اور خوشی خوشی معاہدے پر راضی ہوگئے تھے۔ مگر آپ ﷺ نے جب بالکل ہی نیا دین پیش کیا اور نئی نئی باتیں بتائیں۔ جو یہودیوں کے بالکل خلاف تھیں۔ بھلا اب برداشت کی کہاں تاب تھی؟ اب صبر و سکوت کاکیا سوال تھا؟ اب آپ ﷺ ان کے لئے حلق کا کانٹا بن گئے۔ معاہدہ کا انہوں نے کوئی خیال نہیں رکھا اور ہر قسم کی سازشوں میں شریک ہونے لگے، مجبوراًآپ ﷺ کو ان کے خلاف کارروائی کرنا پڑی۔
مدینہ میں ہنگامی حالات :
مدینہ میں انصار کا ایک رئیس عبداللہ بن اُبئ تھا، انصار چاہتے تھے کہ اس کو اپنا بادشاہ بنالیں۔ اس کے لئے ایک شاہی تاج بھی تیار ہوگیا تھا۔ لیکن حضور ﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو اس کی تاج پوشی دھری کی دھری رہ گئی، کیونکہ سب انصار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوگئے۔ یہ دیکھ کر عبداللہ بن اُبی جل کر کباب ہوگیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن بن گیا۔
مکے کے کافروں نے عبداللہ بن ابی اور مدینے کے یہودیوں کو خط لکھے کہ اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دو تو ہم تم کو منہ مانگا انعام دیں گے۔ مسلمانوں کو اس خبر کا علم ہوگیا، وہ رات دِن حضور ﷺ کی حفاظت کرنے لگے۔
جہاد اور جہادی گوریلا مشقوں کی اجازت :
آخر خدا کی طرف سے جہاد کا یہ حکم آیا:
ان لوگوں سے اللہ کے لئے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، یا لڑنا چاہتے ہیں۔(۵)
یہ حکم سن کر حضور ﷺ نے بھی مسلمانوں کو حفاظت کا سامانجمع کرنے کا مشورہ دیناشروع کردیا۔ مکہ پیارے نبی ﷺ کا وطن تھا۔ بہت سے مسلمانوں کا بھی وطن تھا۔ اور اپنے وطن سے انہیں بے پناہ محبت تھی۔ لیکن وہاں کی سرزمین ان پر تنگ ہوگئی اورسانس لینا تک ان کے لئے دوبھر ہوگیا۔ مجبوراً اُن کو بے وطن ہونا پڑا۔ دولت اور جائداد سب سے ہاتھ دھونا پڑا۔ حدیہ ہے کہ کعبہ بھی چھن گیا اور حج او رطواف پر پابندی لگ گئی۔ اس کا پیارے نبی ﷺ اور مسلمانوں کو سخت صدمہ تھا۔
مشرکین مکہ کی جارحیت اور ظلم کو روکنے کے لئے ان کو معاشی مشکلات میں ڈالنا ضروری تھا اور ان کی سازشوں کا علم ہونا ضروری تھا۔ لہٰذا مسلمان ٹولیاں بنابنا کر مدینہ سے باہر نکل جاتے اور جہاں کہیں مشرکین مکہ کے قافلے ملتے اُن سے چھیڑ چھاڑ کرتے، انہیں پریشان کرتے یہ ٹولیاں سو سو، پچاس پچاس آدمیوں کی ہوتیں۔ جن میں پانچ زیادہ مشہور ہیں۔ ایک کے امیر تو حضرت حمزہؓ تھے۔ دوسری کے حضرت عبیدہؓ بن حارث، تیسری کے حضرت سعدؓ بن ابی وقاص، چوتھی کے حضرت عبداللہ بن جحشؓ اور پانچویں میں خود پیارے نبی ﷺ شریک تھے۔ ان ٹولیوں سے قریش کا کبھی جم کر مقابلہ نہ ہوا۔ ہمیشہ یا تو بیچ بچاؤ ہوگیا۔ یا وہ بچ کر نکل گئے۔ پھر ان ٹولیوں نے ایک کام اور بھی کیا۔
رجب ۲ھ کا واقعہ ہے۔ حضور ﷺ نے بارہ آدمیوں کو نخلہ کی وادی میں بھیجا، کہ وہاں ٹھہر کر قریش کے ارادوں کا پتہ لگائیں۔ اتفاق سے قریش کا ایک مختصر سا قافلہ ادھر سے گزرا۔ ان لوگوں نے اسے لوٹ لیا اور ایک آدمی کو قتل اور دو کو قید کیا۔ قتل ہونے والا آدمی عمرو بن حضرمی تھا، جو عامر بن حضرمی کا بھائی تھا۔ پیارے نبی ﷺ کو خبر ملی، تو آپ ﷺ سخت ناراض ہوئے۔ اور فرمایا میں نے تمہیں اس لئے تو نہیں بھیجا تھا۔
ادھر قریش کو خبر ہوئی تو وہ غصہ سے بے خود ہو گئے۔ اور جذبۂ انتقام سے سرشار، اب انہیں جنگ کی دھن تھی۔
مسلمانوں نے مدینہ کے ارد گرد کے قبائل سے امن و امان کے معاہدے کرلئے۔ کیونکہ ان کے بگڑ جانے سے مدینہ میں بدامنی پھیل جانے کا اندیشہ تھا۔ ان قبیلوں نے آسانی سے معاہدے کر لئے اور ضرورت پڑنے پر مدد کرنے کے بھی وعدے کئے۔ ان جہادی مشقوں اور گوریلا چھاپہ مار جنگ کے ذریعے مشرکین مکہ کی شامی تجارت کے لئے بھی خطرہ پیدا کر دیا۔ (۶) سب سے پہلا غزوہ ودان میں ہوا۔(۷)
غزوہ بدر کا پس منظر :
مکہ کا ایک بہت بڑا سردار تھا، ابوسفیان، یہ حرب کا بیٹا تھا۔ ہجرت کے دوسرے سال وہ تجارت کے ارادے سے شام گیا۔ مکہ کے اور لوگ بھی ساتھ تھے پھر لوٹا تو دولت کا ٹھکانہ نہ تھا۔ سامان بھی بے انتہا تھا۔
اسلامی دستے قافلوں سے چھیڑ چھاڑ تو کیا ہی کرتے تھے۔ ابوسفیان کو پتہ چل گیا کہ حملہ ہونے والا ہے۔مال وافر ہے اور آدمی تھوڑے ہیں۔ چنانچہ اس نے قریش کے پاس ایک آدمی دوڑایا، یہ تھا عمرو کا بیٹا ضمضم۔ ابوسفیان چاہتاتھا کہ قریش کو اس خطرہ کی خبر ہو جائے تاکہ وہ مدد کے لئے آ جائیں۔ ضمضم تین دن کے بعد مکہ پہنچ گیا۔ مکہ پہنچ کر اس نے اونٹ کے دونوں کان کاٹ دئیے۔ پھر اپنی قمیص پھاڑ ڈالی۔ اور کجاوے کا رخ بدل دیا۔ پھر چیخا:
قریش کے لوگو! لوی بن غالب کے فرزندو!
تمہارا قافلہ آ رہا ہے۔ مشک اور خوشبوئیں لا رہا ہے۔ اور بھی بہت سا سامان لا رہا ہے۔ بڑھ کر اسے بچاؤ۔ محمد ﷺ اور اس کے ساتھی اسے لوٹ نہ لیں۔دوڑو! دوڑو! مدد کے لئے دوڑو! اپنے سامان کو بچاؤ!
ضمضم کی اپیل پرعوام جوش سے بے تاب ہوگئے۔ اور جنگ کی تیاریوں میں لگ گئے۔ جلدی جلدی انہوں نے بہادر سپاہیوں کو جمع کیا اور جس قدر ممکن تھا، اونٹ گھوڑوں کا انتظام کیا۔ جسے دیکھئے، غصہ سے بے تاب تھا اورمحمد ﷺ سے ٹکر لینے پر دوسروں کو ابھار رہا تھا۔ جوش کا عالم تھا، ہر ایک جانے کیلئے تیار تھا اور جو نہیں جا سکتا تھا، اپنی طرف سے آدمی بھیج رہا تھا۔(۸)
مشرکین مکہ کے سارے سرداراس مہم میں شریک ہوئے۔ البتہ ابولہب کی ہمت نہ ہوئی۔ اس لئے اس نے چار ہزار درہم پر ایک آدمی کوتیار کرلیا اور اپنے بجائے اسے بھیج دیا۔ ورنہ جوش کا تو یہ حال تھا کہ کوئی جانے سے جی چراتا، تو ساتھی بگڑ جاتے اوراس کو شرم دلاتے ہوئے کہتے ’’تم تو عورت ہو، گھر میں گھسے رہنے کے عادی ہو۔‘‘ نتیجہ یہ ہوتا کہ اُسے غیرت آ جاتی۔ اور وہ بھی جانے کے لئے تیار ہو جاتا۔
کچھ لوگ جوش دلانے اور جذبات کو بھڑکانے میں پیش پیش تھے۔ سہیل نامی ایک سوار بھی انہی میں تھا۔ اس نے قریش کے لوگوں سے کہا:
غالب کے بیٹو! کیا تمہیں یہ گوارا ہے کہ مسلمان ہمارے قافلوں کو لوٹ لیں؟کیا تمہیں یہ گوارہ ہے کہ وہ سارے سامان پر قبضہ کرلیں اورتمام اونٹوں کو ہنکا لے جائیں؟ کسی کو مال کی ضرورت ہو تو مال حاضر ہے۔ کسی کے پاس ہتھیار نہ ہو تو ہتھیاروں کی بھی کمی نہیں۔
مشرکین مکہ ساڑھے نو سو بہادروں کے ساتھ نکلے۔ ساتھ میں سو گھوڑے اور سات سو اونٹ بھی تھے۔ پیدل فوج لوہے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ سو زرہیں تھیں۔ ساتھ میں گانے والی عورتیں تھیں۔ یہ بدنصیب رسول پاک ﷺ کی شان میں گستاخانہ اشعار کہتیں، اوراس طرح سپاہیوں کی آتشِ غضب کو اور بھڑکاتیں۔
دشمنوں کا یہ لشکر اکڑ تا ہوا چلا۔ ہرایک پیارے نبی ﷺ پر دانت پیس رہا تھا اور غصہ سے ہونٹ چبا رہاتھا۔ ان کے پیش نظر صرف یہی نہ تھا کہ قافلہ کو بچالائیں بلکہ ان کا ارادہ یہ بھی تھا کہ اس آئے دن کے خطرے کو ہمیشہ کے لئے دبا دیں اور مدینہ میں جو یہ طاقت جمع ہو رہی ہے، اسے اس طرح کچل ڈالیں، کہ تجارتی راستہ بالکل محفوظ ہو جائے۔ ادھر ابوسفیان قافلہ کو لے کر آگے بڑھا، ابوسفیان نے اب قافلہ کا رخ بدل دیا۔ اس کو ڈر تھا کہ مسلمان تاک میں ہوں گے اور وہ بدر کے پاس ہی چھپے ہوں گے۔ لہٰذا اس نے اب دوسرا راستہ پکڑا۔ بدر سے ہٹ کر اب وہ ساحل پر چلنے لگا۔ اور بحفاظت اپنا قافلہ بچاکرنکال لے گیا۔
ادھر مشرکین مکہ کا لشکر برابر آگے بڑھ رہا تھا۔ راستہ میں وہ جہاں کہیں پانی دیکھتے پڑاؤ ڈال دیتے۔ ٹھہر کراونٹ ذبح کرتے۔ خود کھاتے، دوسروں کوکھلاتے شراب و کباب کے دور چلتے، پھر وہاں سے وہ آگے چل دیتے۔
کہ ایک آدمی پہنچا اور اُس نے کہا: بھائیو! اب مکہ لوٹ چلو، قافلہ بالکل صحیح سالم لوٹ آیا ہے۔ محمد ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھ نہیں لگا۔ خیر اسی میں ہے کہ اب لوٹ چلو، مدینہ والوں سے ٹکر لینے کی مت سوچو۔
اس آدمی نے یہ باتیں انہی کے بھلے کے لئے کہی تھیں۔ لیکن وہ سننے کے لئے تیار نہ ہوئے ، اکثر لوگوں نے صاف انکار کر دیا۔
قبیلہ بنی ہاشم کی سمجھ میں یہ باتیں آ گئیں۔ چنانچہ انہوں نے لوٹنا چاہا۔ مگر ابوجہل بگڑ گیا، تن کر بولا! نہیں! بخدا ہم ہرگز نہیں لوٹیں گے۔ ہم تو بدر تک جائیں گے۔ (بدر ایک گاؤں ہے، جہاں ہر سال میلہ لگتا ہے۔ مدینہ منورہ سے تقریباً ۸۰ میل پرواقع ہے)۔
وہ آدمی ابوسفیان کے پاس لوٹ آیا۔ آکر اس نے سارا قصہ سنایا اور جو کچھ باتیں ہوئی تھیں۔ سب بیان کر دیں۔ ابوسفیان نے یہ باتیں سنیں تو اسے بہت افسوس ہوا ۔ بے ساختہ اس کی زبان سے نکلا:
ہائے میری قوم! یہ سب ابوجہل کی کارستانی ہے۔ وہ لوٹنے پرتیار نہ ہوا۔ کیونکہ وہ آج لوگوں کا سردار بن گیا ہے! اس نے لوگوں پر ظلم کیا ہے۔
غزوہ بدر حق و باطن کا فیصلہ کن معرکہ
تجارتی قافلہ توابوسفیان لے کر نکل گیا، البتہ اس کی مدد کے لئے مکہ سے ابوجہل کا لشکر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے آ گیا۔
اس صورت حال پر آپ ﷺ نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا تو حضرت ابوبکرؓ اٹھے اور انہوں نے بہت ہی جاں نثارانہ تقریر کی۔ پھر حضرت عمرؓ اٹھے اور انہوں نے بھی بہت عمدہ اور پر جوش تقریر کی۔
مقدادؓ کی تقریر :
اس کے بعد عمرو کے بیٹے مقدادؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا:
اللہ کے رسولﷺ! جدھر رب کا حکم ہے، اسی طرف چلیے۔ ہم آپ ﷺ کے ساتھ ہیں۔ بنی اسرائیل نے تو اپنے نبی سے کہا تھا کہ آپ اور آپ کا خدا جائیں اور جنگ کریں۔ ہم تو یہاں بیٹھے ہیں(۹) لیکن ہم ایسا کہنے والے نہیں، ہم تو یہ کہتے ہیں کہ چلیے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کا خدا جنگ کیجئے۔ جب تک ہم میں سے ایک بھی زندہ ہے، ہم بھی آپ ﷺ کے ساتھ مل کر جنگ کریں گے۔(۱۰)
پیارے نبی ﷺ نے یہ تقریر سنی تو چہرۂ مبارک خوشی سے چمک اٹھا۔ آپ ﷺ نے حضرتِ مقدادؓ کی تعریف کی اور دعا دی، پھر فرمایا: لوگو! تم بھی کچھ بولو!
انصار سمجھ گئے کہ آپ ﷺ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ وجہ یہ تھی کہ انصار کے لئے یہ پہلا موقع تھا۔ اس سے پہلے وہ کسی مہم میں شریک نہ ہوئے تھے۔
سعد بن معاذؓ کی تقریر :
چنانچہ حضرت سعد بن معاذؓ جو مدینہ کے معزز لوگوں میں تھے، اُٹھے اور عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ ! شاید اشارہ ہماری طرف ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ہاں‘‘!
حضرت سعدؓ نے کہا: میں اس وقت سارے انصار کی طرف سے بول رہا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ ! ہم آپ ﷺ پر ایمان لائے ہیں۔ ہم نے آپ ﷺ کو سچا سمجھا ہے، ہم نے گواہی دی ہے کہ آپ ﷺ کی باتیں حق ہیں۔ ہم آپ ﷺ کی اطاعت کا عہد بھی کر چکے ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ ! اب آپ ﷺ نے جس کام کا ارادہ فرمایا ہے، بے جھجک اس کے لئے قدم بڑھائیے۔ خدا کی قسم! اگر آپ ﷺ ہمیں لے کر سمندر میں کود پڑیں، تو بھی ہم بخوشی تیار ہیں۔ ہم میں کوئی پیچھے رہنے والا نہیں۔ آپ ﷺ بے تامل جس سے چاہے صلح کیجئے اور جس سے چاہے جنگ کیجئے، ہماری دولت بھی آپ ﷺ کے قدموں پر ہے۔ ہماری جان بھی آپ ﷺ کے لئے قربان ہے۔ دولت جتنی چاہیے لے لیجئے کیونکہ جتنی زیادہ آپ ﷺ لیں گے۔ ہمیں اتنی ہی زیادہ خوشی ہوگی۔ ہم دشمن سے بھاگنے والے نہیں۔ ہم تو میدان جنگ کے شیرہیں۔ مقابلہ میں ڈٹ جانے والے ہیں۔ امید ہے کہ ہم بہادری کے ایسے ایسے جوہر دکھائیں گے کہ آپ ﷺ خوش ہوں گے۔(۱۱)
یہ خلوص و محبت سے بھری ہوئی تقریر تھی۔ پیارے نبی ﷺ نے یہ تقریر سنی تو بے حد خوش ہوئے، چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت سعدؓ کا شکریہ ادا فرمایا، اور انہیں دُعاء دی۔
حضرت سعدؓ کی تقریر کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا نام لے کر چل پڑو۔ اس کی رحمتیں اور اس کے فرشتوں کا لشکر تمہارے ساتھ ہیں۔ اس نے مجھ سے ’بڑے گروہ‘‘ کا وعدہ کیا ہے۔(۱۲) بخدا مجھے تو دشمنوں کی قتل گاہیں نظر آ رہی ہیں۔
پھر آپ ﷺ نے ساتھیوں کو دشمنوں کی قتل گاہیں بتائیں کہ فلاں شخص اس جگہ قتل ہوگا، اور فلاں آدمی اس جگہ دم توڑے گا۔
یہ سن کر لوگ سمجھ گئے اب جنگ ہی ہوکر رہے گی اور دشمن کو شکست ہوگی، ہجرت کا دوسرا سال تھا، رمضان کا مہینہ تھا۔ مدینہ سے ایک میل پر ایک مقام ہے بئرابی عنبہ ۔ آپ ﷺ وہاں پہنچے تو فوج کا جائزہ لیا اور جو کم عمر تھے، اُن کو واپس کر دیا۔ پھر وہاں سے روانہ ہوگئے اور بدھ کی رات میں روھاء پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ ﷺ نے وضوکیا، اور نماز کے لئے کھڑے ہوگئے۔
اسلامی جھنڈے :
اسی روز آپ ﷺ نے اصولِ جنگ کے مطابق فوج کو ترتیب دیا۔ مہاجرین کا علم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو عطا فرمایا۔ خزرج کا علم حضرت حبابؓ بن منذر کو عنایت فرمایا اور اوس کا علمبردار حضرت سعدؓ بن معاذ کو بنایا۔
پھر پیارے نبی ﷺ ساتھیوں کو لے کر آگے بڑھے، ان کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی۔ ساتھ میں ستر اونٹ اور تین گھوڑے بھی تھے۔ بدر کے پاس پہنچ کر آپ ﷺ رک گئے۔ اور علیؓ ، زبیرؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ کو بھیجا کہ کچھ خبرلائیں۔ ایک پہاڑی کے پاس سے مسلمان ابوسفیان کے دو غلام پکڑ لائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کچھ ابوسفیان کے بارے میں بتاؤ؟ (۱۳)
دونوں غلام: ابوسفیان کو ہم لوگوں نے نہیں دیکھا۔ ان کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں معلوم۔
پیارے نبی ﷺ : اچھا قریش کہاں ہیں؟
دونوں غلام : بس کچھ ہی دور
پیارے نبی ﷺ : لشکر میں کتنے سپاہی ہیں؟
دونوں غلام : بخدا وہ تو بہت زیادہ ہیں۔
پیارے نبی ﷺ : روز کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟
دونوں غلام : ایک دن نو، ایک دن دس،
یہ سن کر پیارے نبی ﷺ ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ دشمن نوسو اور ایک ہزار کے درمیان ہیں۔ پھر فرمایا: مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے۔(۱۴)
آپ ﷺ اپنے جاسوسوں کے ذریعے ایک ایک لمحہ کی خبر حاصل کر رہے تھے۔ سعد بن معاذؓ نے کہا: ایک ٹیلہ پر حضور ﷺ کے لئے خیمہ نصب کر دیا جائے اس طرح پورا میدان جنگ آپ ﷺ کی نظروں میں رہے گا۔ ضرورت کے وقت سایہ بھی مل سکے گا۔ آرام کو دل چاہا تو آرام بھی فرمالیں گے۔ دعا و نماز کی خواہش ہوئی تو اس کے لئے بھی بہتر رہے گا۔ آپ ﷺ نے اس رائے کو پسند فرمایا اور ایک خیمہ نصب ہوگیا۔
آپ ﷺ کی میدان جنگ میں نصیحتیں :
میدان جنگ میں ایک تقریر کی۔ تقریر بہت جوشیلی تھی۔ حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
پیارے بھائیو! میں تمہیں ان چیزوں پرابھارتا ہوں، جن پر اللہ نے ابھارا ہے اور ان چیزوں سے روکتا ہوں جن سے اللہ نے روکا ہے۔ اللہ بڑی شان والا ہے۔ حق کا حکم دیتا ہے۔ سچائی کو پسند کرتا ہے اور بھلائی کرنے والوں کو اونچا رتبہ دیتا ہے۔ اسی سے وہ یاد کئے جاتے ہیں، اور اسی سے ان کے درجے بڑھتے ہیں۔ اس وقت تم حق کی منزل میں پہنچ چکے ہو۔ جہاں وہی کام مقبول ہوتا ہے جو صرف اللہ کے لئے کیا جائے۔ اس موقع پر تم صبر سے کام لو۔کیونکہ یہ جنگ کا موقع ہے۔ جنگ کے موقع پر صبر سے اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ پریشانی اور بے چینی دور ہو جاتی ہے۔ آخرت میں بھی یہ نجات کا ذریعہ ہے۔
تمہارے اندر اللہ کا نبی ﷺ موجود ہے۔ جو تمہیں برائیوں سے ہوشیار کرتا ہے اور بھلائیوں کا حکم دیتا ہے۔ دیکھو! آج تم سے کوئی ایسی حرکت نہ ہونے پائے جس سے اللہ بیزار ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
لَمَقْتُ اللّٰہِ اَکْبَرُ مِنْ مَقْتِکُمْ اَنْفُسْکُمْ (۱۵)
تمہاری اپنے سے جو بیزاری ہے، اللہ کی بیزاری اس سے بڑھ کر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کتاب دی ہے، اسے مضبوطی سے پکڑ لو۔ تمہیں جو نشانیاں دکھائی ہیں۔ ان پر دھیان رکھو۔ ذلت کے بعد تم کو جس سے عزت ملی ہے، اس سے غافل نہ ہو۔ اس سے اللہ خوش ہوگا۔ آج اللہ تم کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اس موقع پرتم اخلاص اور جانبازی کا ثبوت دو۔ خدا کی رحمت تم پر چھا جائے گی اور اس کی مغفرت تم پر سایہ کرے گی۔ اس کا وعدہ پورا ہونے والا ہے۔ اس کی باتیں بالکل سچی ہیں۔ اس کی پکڑ بھی بہت سخت ہے۔ ہم اور تم سب اسی سے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ہے۔ ہمیشہ رہے گا۔ ساری دنیا اسی کے حکم سے قائم ہے۔ وہی ہمارا سہارا ہے۔ اسی کو ہم نے مضبوطی سے پکڑا ہے۔ اسی پر ہمارا بھروسہ ہے۔ وہی ہماری پناہ گاہ ہے۔ اللہ میری اور تم مسلمانوں کی مغفرت کرے۔(۱۶)
آپ ﷺ کی میدان جنگ میں دعا :
پھر قریش کی فوج سامنے آئی۔ ہر ہر سپاہی سر سے پیر تک لوہے میں غرق تھا۔ یہ عجیب منظر تھا۔ اس وقت آپ ﷺ پہ انتہائی خضوع کا عالم تھا۔ دونوں ہاتھ پھیلا کر دعاء فرما رہے تھے:
اے اللہ! یہ قریش کے لوگ ہیں۔ یہ غرور سے اکڑتے ہوئے تجھ سے لڑنے آئے ہیں۔ یہ تیرے دین کی مخالفت پر کمر کسے ہوئے ہیں۔ یہ تیرے رسول ﷺ کو ناکام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اے اللہ! تونے مدد کا وعدہ کیا ہے۔ اس وعدہ کو پورا کر۔ اے اللہ! تونے مجھ سے ثابت قدم رہنے کے لئے کہا ہے اور ’’بڑے گروہ‘‘ کا وعدہ کیا ہے۔ بے شک تو وعدے پورا کرنے والا ہے۔ بے خودی کا یہ عالم تھا کہ چادر کندھوں سے گر پڑتی اور آپ ﷺ کو خبر تک نہ ہوتی۔ کبھی سجدہ میں گر پڑتے اور فرماتے: خدایا! اگر آج مسلمانوں کا یہ چھوٹا سا لشکر ختم ہوگیا تو قیامت تک تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔(۱۷)
مقابلہ کا آغاز:
جنگ کا آغاز ہوتے ہی عامر بن حضرمی آگے بڑھا مقابلہ میں عمرؓ کا غلام مہجع آگے بڑھا اور شہید ہوگیا، پھرعتبہ، شیبہ اور اس کا بیٹا ولید بڑھا تو علیؓ ، حمزہؓ اور عبیدہؓ مقابلہ پر آئے، تینوں دشمنان اسلام قتل ہوگئے اور عام جنگ کا آغاز ہوگیا۔(۱۸)
نوجوان عمیرؓ عاشق رسول کا شوق شہادت:
حضور ﷺ مجاہدوں میں جوش جہاد پیدا کر رہے تھے(۱۹) باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو چکا تھا۔ ایک عاشق رسول مستانہ وار آپ ﷺ کی طرف بڑھتا ہے۔ ایک ہاتھ سے اپنی جیب سے کھجوریں نکال نکال کر کھا رہاہے۔ کمر پر نطاق (پٹہ) لپٹا ہوا ہے۔
عمیر : یا رسول اللہ ﷺ ! اس راہ میں شہادت کا اجر وہی جنت ہے جس کے متعلق خدا نے قرآن میں فرمایا ہے کہ اس کا طول و عرض دونوں زمین و آسمان کی وسعت کے برابر ہیں۔(۲۰)
رسول اللہ : ہاں! اے عمیر وہی جنت ہے جس کے متعلق قرآن میں :
عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ فرمایا ہے،
عمیر: بخ بخ: یا رسول اللہ ﷺ! مبارک باد! یا رسول اللہ!
رسول خدا : بخ بخ کا یہ کیا محل ہے؟
عمیر : یا رسول اللہ ﷺ ! اس اُمید پر مبارک باد کہہ رہا ہوں کہ میں بھی اس جنت کا مستحق قرار پاؤں۔
رسول اللہ ﷺ ! تم اسی جنت کے حقدار ہو۔
ادھر رسول خدا کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے ادھر عمیر نے کھجوریں جیب سے نکال کر پھینک دیں اور کہنے لگے:
اگر زندہ رہا تو عمر بھر کھجوریں کھاتا رہوں گا۔ تلوار سونت کر قریش کے جھنڈمیں گھس گئے اور دشمنان محمد میں سے کئی ایک کو جہنم پہنچا کر خود عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ کی راہ لی۔
حضرت عمیر بن الحمام (باقاعدہ) اسلامی جنگوں کے پہلے شہید ہیں۔(۲۱)
پہلوان سعد بن خیثمہؓ کا شوق شہادت:
قبیلہ اوس کے مشہور نقیب سعد بن خیثمہ مکہ جاکر مسلمان ہوئے تھے، غزوہ بدر میں باپ بیٹے دونوں شرکت اور شہادت کے خواہش مند تھے۔ رسول خدا کی خواہش تھی خاندان کے تمام افراد شریک نہ ہوں، لہٰذا باپ بیٹوں نے شرکت کے لئے قرعہ اندازی کی قرعہ سعد کے نام نکل آیا، سعد نے پورے شوق اور جوش کے ساتھ غزوہ بدر میں شرکت کی اور جام شہادت نوش کیا۔(۲۲) قرآن نے انہی عاشقوں کے بارے میں فرمایا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کی جانوں اور مالوں کو اللہ نے جنت کے بدلے خرید لیا ہے۔(۲۳)
نوجوانوں کا ذوق شہادت ملاحظہ کرلیا، اب بچوں کا شوق شہادت مطالعہ فرمائیے۔
بچوں کا جذبہ جہاد اور شوق شہادت
عہد نبوی ﷺ میں خواتین اسلام کے دفاع میں ہمیشہ کمر بستہ رہتی تھیں اور اپنے بچوں میں جہاد اور شہادت کا شوق پیدا کرتی ہیں، یہی وجہ ہے اسلام کی ہر جنگ میں بڑوں کے ساتھ بچے بھی شریک ہونے کے لئے بیتاب رہتے تھے۔ لیکن آپ ﷺ کا معمول تھا بچوں کو شریک نہیں کرتے تھے۔ پھر بھی کچھ بچے ضد کرکے غزوہ بدر میں شریک ہوگئے۔
دو بچوں عبداللہ بن عمر اوربراء بن عازب کا شوق جہاد:
غزوہ بدر میں مسلمان بہت کم تھے، نہتے اور بے سروسامان تھے، دوسری جانب ٹڈی دل لشکر تھا، اسلحہ اور جنگی سامان وافر مقدار میں تھا، اس ضرورت کے وقت حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور براء بن عازبؓ لڑائی میں شرکت کے شوق میں گھر سے چل دئے لیکن حضور ﷺ نے بچے ہونے کی وجہ سے راستے میں سے لوٹا دیا، ان دونوں کو احد کی لڑائی سے بھی بچہ ہونے کی وجہ سے واپس کر دیا گیا۔(۲۴)
دو بچوں معاذؓ اورمعوذؓ کا ابوجہل کو جہنم رسید کرنا:
حضرت معاذ اور معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا کتب مغازی و سیرمیں بڑا تذکرہ و شہرہ ہے۔ اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ سب بڑے اسماء مبارک ہیں اور نو دس سال کی عمر میں ان بچوں نے عشق رسول ﷺ سے مزین ہوکر جو کارنامہ سرانجام دیا اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
حضرت معاذ و معوذ رضی اللہ عنہم دونوں کم عمر تھے، ایک کا قد نکلتا ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے ان کا شوق جہاد دیکھتے ہوئے ایک کو اجازت دیدی، دوسرے نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! میں تو اس سے زیادہ طاقتور ہوں اور اسے پچھاڑ سکتا ہوں، آپ ﷺ مجھے اجازت دیں میں اسے گرادوں گا۔ آپ ﷺ نے اجازت دے دی، جسے اجازت مل چکی تھی وہ کشتی میں ہار گیا، دوسرا جیت گیا۔ آپ ﷺ نے دونوں کو جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دے دی۔ دونوں بچوں کی خواہش تھی کہ آپ ﷺ کی خاطراور اسلام کی بلندی کے لئے اپنی جان نچھاور کر دیں۔(۲۵)
یہ دونوں بھائی حضرت عفراءؓ کے جگر گوشہ تھے، انہوں نے ابوجہل کی ایذاء رسانی اور رسول اللہ ﷺ سے اس کی دشمنی کے بارے میں سنا تھا تو دونوں بھائیوں نے عہد کیا تھا ’’بدباطن ابوجہل جہاں نظر آئے گا اسے مٹا کر دم لیں گے۔‘‘
چنانچہ غزوہ بدر کا موقع آیا تو دونوں بھائیوں نے اس میں اسی حلف کو پورا کرنے کے لئے شرکت کی۔ بطور خاص رسول اللہ ﷺ سے جہاد میں حصہ لینے کی اجازت لی۔ جنگ زوروں پر تھی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے دائیں بائیں دونوں بھائی کھڑے تھے، اتنے میں ایک نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ آپ ابوجہل کوپہچانتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا ہاں! لیکن تمہاری کیاغرض ہے؟ بچے نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ ہمارے پیارے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے اور بر ائی کرتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ تھوڑی دیر بعد دوسرے بھائی نے بھی یہی سوال کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ان کے سوال جواب پر حیران ہوئے۔ اسی اثناء میں اتفاقاً ابوجہل میدان میں دوڑتا ہوا نظر آیا۔ آپ نے دونوں بچوں کو مخاطب کرکے کہا کہ تمہارا مطلوبہ شخص جس کے بارے میں تم دونوں سوال کر رہے تھے وہ جا رہا ہے۔ یہ سننے کی دیر تھی، دونوں بھائی ہوا کے دوش پر لپکے اور ابوجہل پر اس قدر پے درپے وار کئے کہ وہ گھوڑے سے گر گیا اور خون میں نہا گیا۔ یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ لشکر کفار حیران ہوکر دیکھتا رہ گیا اورجب تک ان کی حیرانگی ختم ہوئی ان کا سردار ابوجہل جہنم کے شعلوں کی نذر ہوچکا تھا۔(۲۶)
غزوہ بدر کا سب سے کم عمر شہید بچہ:
حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے میرے چھوٹے بھائی حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ کو چھوٹا سمجھ کر غزوہ بدر میں جانے سے روک دیا، حضرت عمیرؓ رونے لگے، تو حضرت محمد ﷺ نے ان کو اجازت دے دی، حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی تلوار کے تسمے میں گرہیں لگائیں اور میں خود بھی جنگ میں شریک ہوا، اور اس وقت میرے چہرے پر صرف ایک بال تھا۔ جسے میں ہاتھ میں پکڑ لیا کرتا تھا۔ (یعنی یہ بھی نوعمر بچے تھے)۔(۲۷)
حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی حضرت عمیرؓ کو آپ ﷺ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے دیکھا کہ وہ چھپتے پھر رہے تھے، میں نے کہا اے میرے بھائی تمہیں کیا ہوا؟ کہنے لگے مجھے ڈر ہے کہ حضور ﷺ مجھے دیکھ لیں گے اور مجھے چھوٹاسمجھ کر واپس فرما دیں گے اور میں اللہ کے راستے میں نکلنا چاہتا ہوں، شاید اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب فرما دے۔
چنانچہ جب ان کو حضور ﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو حضور ﷺ نے ان کو واپس فرما دیا، جس پر وہ رونے لگے، تو حضور ﷺ نے ان کو اجازت دے دی، حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمیر چھوٹے تھے اس لئے میں نے ان کی تلوار کے تسمے کی گرہیں باندھی تھی اور وہ سولہ سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔(۲۸)
مشرکین مکہ کو شکست فاش:
جنگ زوروں پر تھی اور دونوں طرف سے حملے ہو رہے تھے کہ پیارے نبی ﷺ نے ایک مٹھی ریت لی اور دشمن کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا:
شَاھَتِ الْوُجُوْہُ شَاھَتِ الْوُجُوُہْ
منہ کالے ہوں، منہ کالے ہوں
نبی ﷺ کا ہاتھ تھا اور خدا کی قدرت۔ یہ مٹھی بھر ریت عذاب بن کر فوج میں پھیل گئی اور دشمنوں کی آنکھوں میں اٹ گئی۔ چنانچہ دشمن اپنی آنکھیں ملنے لگے۔
غزوہ بدر میں مسلمانوں کو کھلی فتح اور دشمن کو شکست فاش ہوئی، ستر مشرک قتل کئے گئے اور ستر گرفتار ہوئے، جس میں اسلام کے بڑے بڑے مخالفین شامل تھے۔(۲۹) اور صرف چودہ مسلمان شہید ہوئے، جس میں چھے مہاجر تھے اور چھے انصار۔(۳۰) جیسے ہی لڑائی ختم ہوئی پیارے نبی ﷺنے زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ کو مدینہ کی طرف دوڑا یا تاکہ فتح کی خوشخبری سنا دیں۔
مال غنیمت کی تقسیم:
جو مال جنگ میں حاصل ہوتا ہے وہ مال غنیمت کہلاتا ہے۔ نوجوانوں کا خیال تھا جنگ ہم نے جیتی ہے۔ اس لئے مال ہمیں ملنا چاہئے، بوڑھوں کا کہنا تھا ہم تمہاری حفاظت کر رہے تھے۔جتنا تمہارا حصہ ہے اتنا ہمارا حصہ ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ (اے نبیﷺ) تم سے لوگ انفال (مالِ غنیمت) کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہو:
انفال اللہ اور اس کے رسول کے ہیں، تو تم اللہ کی نافرمانی سے بچو اور اس کی ناخوشی سے ڈرو اور آپس کے تعلقات ٹھیک رکھو، اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔(۳۱)
اسی وقت رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اعلان ہوا : جس نے کسی کو مارا ہے، وہ اس کے سامان کا مالک ہے، جس نے کسی کو قید کیا ہے۔ وہ قیدی اسی کا ہے اور جو کچھ میدان میں ملا، یا بغیر لڑائی کے ہاتھ آیا ہے۔ وہ سب کا ہے۔
یہ سن کر سب نے سرجھکا دیا۔ اور مال غنیمت کی تقسیم کو پیارے نبی ﷺ پر چھوڑ دیا کہ جیسے چاہیں خدا کی ہدایت کے مطابق تقسیم فرمائیں۔
قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک:
قیدیوں کا کیا ہوگا؟حضور ﷺ نے ساتھیوں سے مشورہ کیا۔
حضرت عمرؓ بولے: کفر اور سرکشی کی سزا میں انہیں قتل کیا جائے۔
حضرت ابوبکرؓ نے کہا : اللہ کے رسول ﷺ ! یہ آپ ﷺ کے اپنے ہی بھائی بند ہیں جنہیں آج اللہ نے آپ ﷺ کا قیدی کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہیں مارا نہ جائے بلکہ ان سے فدیہ لے لیاجائے۔ اس سے آئندہ جنگ کے لئے بھی کچھ سامان ہو جائے گا۔ پھر ہوسکتا ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے دے اور کل یہی آپ ﷺ کے دست و بازو بن جائیں۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کی رائے پسند فرمائی۔ چنانچہ جو لوگ فدیہ دے سکتے تھے ان سے فدیہ لیاگیا۔ جو لوگ غریب اورنادار تھے لیکن پڑھے لکھے تھے، ان کے ذمہ تعلیم کا کام لگایا گیا کہ مدینہ کے دس دس لڑکوں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں اور جو لوگ جاہل تھے۔ انہیں ویسے ہی چھوڑ دیا گیا۔(۳۲)
آپ ﷺ کے قتل کا خفیہ منصوبہ
مشرکین مکہ کو جب کھلی شکست کا سامنا کرنا پڑا تو خفیہ منصوبے بنانے لگے۔ عمیر بن وہب اسلام کا ایک کٹر دشمن تھا۔ وہ اور صفوان بن امیہ دونوں ایک روز بیٹھے بدر کا ماتم کر رہے تھے۔ صفوان نے کہا: خدا کی قسم! اب زندگی میں کوئی لطف نہیں۔
عمیر نے کہا : سچ کہتے ہو۔ میں قرض سے دبا ہوا ہوں اور بچوں کا خیال بھی ستا رہا ہے۔ ورنہ میں تو محمدﷺ کی جان لے کر چھوڑتا۔ میرا بیٹا بھی تو وہیں قید ہے۔
صفوان نے کہا : تم قرض کی فکر نہ کرو، بچوں کی طرف سے بھی بے غم ہو جاؤ۔ میں ان کا ذمہ دار ہوں۔
چنانچہ عمیر مدینہ کے لئے روانہ ہوگیا۔ تلوار بھی گردن سے لٹک رہی تھی، وہاں پہنچ کر وہ مسجد میں داخل ہوا، کہ اپنا کام کرے۔
حسن اتفاق سے حضرت عمرؓ کی نگاہ پڑگئی۔ دیکھتے ہی انہوں نے تیور بھانپ لئے اور گلا دبا ئے اسے حضور ﷺ کی خدمت میں لائے۔
عمیر : بیٹے کو چھڑانے آیا ہوں۔
حضور ﷺ : تلوار کا کیا کام ہے؟
عمیر : برا ہو تلواروں کا، آخر بدر میں یہ کس کام آئیں؟ آنے لگا تو اس کی طرف ذہن نہ گیا۔ حالانکہ وہ میری گردن میں تھی۔
حضور ﷺ : عمیر! سچ سچ بتاؤ۔ کیوں آئے ہو؟
عمیر : میں بیٹے ہی کے لئے آیا ہوں۔
حضور ﷺ : حجر میں صفوان سے کیا بات طے ہوئی ہے۔
عمیر سناٹے میں آ گیا،
کیا بات طے ہوئی ہے؟
حضور ﷺ : تم نے اس سے میرے قتل کا وعدہ کیا ہے۔ اس شرط پر کہ وہ تمہارا قرض ادا کر دے، اور تمہارے بچوں کا ذمہ لے لے۔ سن لو، اللہ یہ ہونے نہ دے گا۔
عمیر: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ کے سچے ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
اور اب عمیرؓ مسلمان تھے۔ پیارے نبی ﷺ نے ساتھیوں سے فرمایا:
اپنے بھائی کو قرآن پڑھاؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔
پھر عمیرؓ لوٹ کر مکہ آئے اور جو لوگ پیارے نبی ﷺ کے قتل کی خبر سننے کے لئے بے چین تھے، انہیں اپنے اسلام کی خبر سنائی اور اہل مکہ کو بھی اسلام کی دعوت دینے لگے۔(۳۳)
دوسرا خفیہ منصوبہ اور غزوہ سویق :
قریش ایک ماہ تک روتے دھوتے رہے اور جو سردار مارے گئے تھے، ان کا ماتم کرتے رہے۔ پھر ماتم ختم ہوگیا، اور رونا دھونا بند ہوگیا۔ یہ رونا دھونا کیوں بند ہوا؟
اب خون کا بدلہ لینے کی دھن تھی۔ اب انتقام کی تیاریاں تھیں۔ عورتوں نے سر کے بال کٹوا ڈالے اور عطر کو اپنے اوپر حرام کرلیا۔ نذر مان لی کہ خوشبو نہ لگائیں گی، اور زینت کی چیزوں سے دُور رہیں گی، جب تک کہ خون کا بدلہ نہ لے لیں، مردوں نے عہد کرلیا کہ چین سے نہیں بیٹھیں گے اور آرام کی نیند نہیں سوئیں گے، جب تک کہ بدلہ نہ لے لیں گے۔ ابوسفیان کچھ اور آگے رہا۔ اس نے قسم کھالی کہ نہائیں گے نہیں، جب تک کہ محمد ﷺ سے انتقام نہ لے لیں۔
انتقام کی تیاری:
جنگ بدر کا انتقام لینے کے لئے مال کی ضرورت تھی، لہٰذا جو تجارتی قافلہ بچ کر آگیا تھا اس کو بیچ کر صرف اصل رقم مالکوں کو دی گئی بقیہ نفع دار الندوہ میں جنگی سازو سامان کی تیاری کے لئے جمع کر دیا گیا۔ ابوسفیان غم و غصہ سے بدحواس تھا۔ اس میں انتظار کی کہاں تاب تھی۔ چنانچہ اس نے مکہ کے دوسو آدمیوں کو ساتھ لیا، اور محمد ﷺ سے انتقام لینے کے لئے چل پڑا۔ مدینہ سے کچھ فاصلے پر عریض نامی ایک مقام ہے۔ وہاں پہنچا تو ایک انصاری اپنی کھیتی میں لگے ہوئے تھے۔ ساتھ میں ایک مزدور بھی تھا۔ ان دونوں کو اس نے وہیں تہ تیغ کیا، اور دو گھروں میں آگ لگا دی۔ کچھ کھجور کے درخت تھے۔ ان کو بھی جلا دیا۔ ان باتوں سے اس کے نزدیک قسم پوری ہوگئی، پھر وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
پیارے نبی ﷺ کو اس حادثہ کی خبر ملی، تو آپ ﷺ نے ابوسفیان کا پیچھا کیا۔ لیکن بھاگنے والے بچ نکلے اور بھاگتے ہوئے اپنا ستو پھینک گئے۔ عربی میں ستو کو سویق کہتے ہیں۔ اس لئے یہ واقعہ غزوۂ سویق کے ہی نام سے مشہور ہوا۔ اور ذی الحجہ ۲ھ میں پیش آیا۔(۳۴)
تیسرا خفیہ منصوبہ بنی قینقاع یہود کے ذریعے:
مدینہ میں یہودیوں کا بھی ایک قبیلہ آباد تھا، جو بنی قینقاع کے نام سے مشہور تھا، اور جہاں یہ آباد تھا، وہیں تجارتی منڈی بھی تھی۔ یہودیوں کے بقیہ قبیلے مدینہ کے باہر تھے۔ کچھ تو خیبر میں تھے اور کچھ دوسری جگہوں پر۔ بنی قینقاع کا ہمارے نبی ﷺ سے معاہدہ (میثاق مدینہ) امن قائم تھا۔ مشرکین نے انہیں ورغلایا تو یہ بھی کھل کر مخالفت پر اتر آئے، آپ ﷺ نے انہیں بہت سمجھایا، فرمایا:
یہودی بھائیو! بخدا تمہیں یقین ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اس لئے اسلام میں آ جاؤ، دیکھو ایسا نہ ہو کہ بدر والوں کی طرح تمہارا بھی عبرت ناک انجام ہو۔ لیکن وہ لوگ تو طاقت کے نشہ میں چور تھے۔ لہٰذا انہوں نے آپ ﷺ کی بات کی کوئی پرواہ نہ کی۔ ماننا تو درکنار، اکڑتے ہوئے جواب دیا:
محمدﷺ ! دھوکہ نہ کھانا۔ وہ ناتجربہ کار لوگ تھے۔ جنہیں ہرا دینے پر تمہیں ناز ہے۔ یاد رکھو! ہم تلواروں کے دھنی ہیں۔ ہم میدانِ جنگ کے شیر ہیں۔ ہم سے معاملہ پڑا تو ہم دکھا دیں گے کہ لڑائی کس کا نام ہے۔ یہ عہد شکنی اور دشمنی کا کھلا ہوا اعلان تھا۔(۳۵)
آپ ﷺ کا اشارہ ملتے ہی ان کا محاصرہ کرلیا گیا، عاجز آکر انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے لیکن عبداللہ بن ابی جو منافقین (ایسے لوگ جو اندر سے کافر تھے ظاہر میں مسلمان) کا سردار تھا۔ اس نے ان کی جان بچالی اس کی سفارش پر ان سب کو مدینہ سے نکال دیا گیا، یہ اپنا سارا سامان لے کر شام کے علاقے ادرعات میں جاکر آباد ہوگئے،(۳۶) ان کو سزا ملی تو دیگر خفیہ منصوبہ بنانے والے بھی ڈر گئے۔
مشرکین مکہ پر دوسرا کامیاب حملہ :
چونکہ قریش کا بہت دارومدار شام کی تجارت پر تھا، اور اس تجارت کو بند کرنے میں ان کے لئے نقصان ہی نقصان تھا، لہٰذا اس کو تو بہرحال جاری ہی رکھنا تھا، لیکن شام جائیں کدھر سے؟ مدینہ ہوکر جانے کی توہمت تھی نہیں کہ ادھر سے مسلمانوں کے چھاپہ مارنے کا ڈر تھا۔ آخر کار مجبوراً انہوں نے عراق کا راستہ اختیار کیا۔ یہ راستہ بہت لمبا تھا۔ دشواریاں بھی بے انتہا تھیں۔ پانی ملنا بھی ایک مسئلہ تھا۔ لیکن اس کے علاوہ چارہ بھی کیا تھا۔ مگر خدا کا کرنا کہ یہ تدبیر بھی کام نہ آسکی، یعنی پیارے نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو اس کی خبر ہوگئی۔ چنانچہ آپ ﷺ نے زیدؓ بن حارثہ کو چھاپہ مارنے کا حکم دیا۔ جنگ کا زمانہ تھا اور دشمن کے نقصان سے بچنے کے لئے خود انہیں نقصان پہنچانا ضروری تھا۔ حضرت زیدؓ سو سواروں کا دستہ لے کر روانہ ہوگئے، اور نجد میں ایک جگہ ہے قروہ، وہاں پر قافلے کو جالیا۔ قافلہ والے انہیں دیکھتے ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگ نکلے، اور سارا سامان دستہ کے ہاتھ لگا۔ چنانچہ ہنسی خوشی یہ لوگ مدینہ لوٹے۔ پیارے نبی ﷺ نے بھی خدا کا شکر ادا کیا۔ اور سارا سامان مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔(۳۷)
سوال جواب
۱)۔۔۔ مدینہ کا پرانا نام کیا تھا اسے نیا نام کب دیا گیا؟
مدینہ کا پرانا نام یثرب تھا، حضور ﷺ کے مدینہ میں قیام کے بعد اسے مدینۃ النبی کا نام دیا گیا۔
۲)۔۔۔ مدینہ کس ملک کا اہم شہر ہے اور کہاں واقع ہے؟
مدینہ سعودی عرب کا اہم شہر ہے اور مکہ سے ڈھائی سو میل کے فاصلے پر واقع ہے۔
۳)۔۔۔ ہجرت نبوی کے وقت یہاں کون سے دو بڑے قبیلے آباد تھے؟
اوس اور خزرج۔
۴)۔۔۔ یہود کے کونسے اہم قبیلے آباد تھے؟
بنو نضیر، بنو قینقاع اور بنو قریظہ
۵)۔۔۔ مسلمانوں کی مدینہ آمد کے بعد کونسا طبقہ وجود میں آیا تھا؟
مسلمانوں کی آمد کے بعد ایک طبقہ منافقوں کا بھی وجود میں آیا جس کا سربراہ عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔
۶)۔۔۔ آپ ﷺ نے مواخات کا نظام کب اور کس طرح قائم کیا؟
مدینہ پہنچنے کے پانچ ماہ بعد آپ ﷺ نے یہ نظام قائم کیا، آپ ﷺ نے ۴۵ مہاجرین اور ۴۵ انصار دونوں میں ایک ایک کو بلاکر ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔
۷)۔۔۔ مہاجرین اور انصار کن کاموں میں ماہر تھے اور انہوں نے کیا کام اپنائے؟
مہاجرین تجارت کے ماہر تھے اس لئے تجارت اور کاروبار میں لگ گئے جبکہ انصار کھیتی باڑی میں ماہر تھے، وہ زمین کی کاشت میں لگ گئے۔
۸)۔۔۔ اصحاب صفہ کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟
جنہوں نے حصول علم کے لئے اپنے کو وقف کرلیا تھا۔
۹)۔۔۔ یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان جو معاہدہ طے ہوا اس کا کیا نام ہے؟
میثاق مدینہ۔
۱۰)۔۔۔ میثاق مدینہ کا معاہدہ کب ہوا؟
ہجرت کے پانچویں ماہ۔
۱۱)۔۔۔ عبداللہ بن أبی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن کیوں بن گیا تھا؟
کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی مدینہ تشریف آوری سے لوگ آپ ﷺ کی طرف متوجہ ہوگئے اور عبداللہ بن أبی کی رسم تاج پوشی نہیں ہوسکی، لوگوں نے اس کی جگہ آپ ﷺ کو اپنا بڑا بنالیا۔
۱۲)۔۔۔ مکے کے کافروں نے عبداللہ بن أبی کو کیا پیشکش کی؟
اگر تم (عبداللہ بن ابی) محمد ﷺ کو قتل کر دو تو ہم تم کو منہ مانگا انعام دیں گے۔
۱۳)۔۔۔ مشرکین کی جارحیت اور ظلم کو روکنے کے لئے مسلمانوں نے کیا کیا؟
مشرکین مکہ کو معاشی نقصان پہنچانے کے لئے چھوٹی چھوٹی جماعتیں تیار کی گئیں۔
۱۴)۔۔۔ یہ ٹولیاں کتنے افراد پر مشتمل ہوتی تھیں؟
یہ ٹولیاں سو سو، پچاس پچاس آدمیوں کی ہوتیں تھیں۔
۱۵)۔۔۔ حضور ﷺ نے کب اور کتنے آدمیوں کو اور کس لئے نخلہ کی وادی میں بھیجا؟
رجب ۲ھ؍ میں بارہ آدمیوں کو تاکہ قریش کی جاسوسی کرسکیں۔
۱۶)۔۔۔ حضور ﷺ نے کس بات پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا؟
انہوں نے عمرو بن حضرمی کو قتل کر دیا تھا جو کہ عامر بن حضرمی کا بھائی تھا۔
۱۷)۔۔۔ سب سے پہلا غزوہ کہاں ہوا؟
پہلا غزوہ ودان میں ہوا۔
۱۸)۔۔۔ ابوسفیان کون تھا؟
حرب کا بیٹا اور مکہ کا ایک بڑا سردار تھا۔
۱۹)۔۔۔ ابوسفیان نے قریش سے مدد کیوں مانگی؟
اس کے پاس تجارتی سامان زیادہ تھا، اس لئے اسے خدشہ تھا کہیں مسلمان اس پر حملہ نہ کر دیں۔
۲۰)۔۔۔ ضمضم نے مکہ کے لوگوں کو جوش دلانے کے لئے کیا کیا؟
اونٹ کے دونوں کان کاٹ دیئے اور اپنی قمیص پھاڑ لی اور لوگوں سے کہا تمہارا قافلہ آ رہا ہے فوراً مدد کو پہنچو کہیں محمد ﷺ تمہارے قافلے کو نہ لوٹ لیں۔
۲۱)۔۔۔ ضمضم کی اپیل کا لوگوں پرکیا اثر ہوا؟
ضمضم کے جوش دلانے پر لوگ فوراً جنگ کے لئے تیار ہوگئے۔
۲۲)۔۔۔ ابولہب نے اپنے بجائے دوسرے آدمی کو کتنے درہم پر جنگ میں بھیجا؟
چار ہزار درہم پر۔
۲۳)۔۔۔ مشرکین کا لشکر کتنے افراد پر مشتمل تھا؟
ساڑھے نوسو افراد (جس میں سو افراد زرہیں پہنے ہوئے تھے) سو گھوڑے اور سات سو اونٹ۔
۲۴)۔۔۔ بدر کہاں واقع ہے؟
مدینہ سے ۸۰ میل دور ایک گاؤں کا نام ہے۔
۲۵)۔۔۔ غزوہ بدر کے موقع پر مہاجرین میں سے کس کس نے دلیرانہ تقریریں کیں؟
حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت مقدادؓ نے تقریریں کیں۔
۲۶)۔۔۔ انصار میں سے کس نے تقریر کی؟
حضرت سعد بن معاذؓ نے تقریر کی۔
۲۷)۔۔۔ غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی؟
مسلمانوں کی تعداد کل تین سو تیرہ تھی۔ ساتھ میں ستر اونٹ اور تین گھوڑے شامل تھے۔
۲۸)۔۔۔ کفار کی تعداد کتنی تھی اور آپ ﷺ نے کیسے اندازہ لگایا؟
ایک ہزار تھی، آپ ﷺ نے اونٹوں کے ذبح کرنے سے اندازہ لگایا۔
۲۹)۔۔۔ غزوہ بدر کب لڑی گئی؟
۱۷؍ رمضان المبارک ۲ھ میں جمعہ کے دن لڑی گئی۔
۳۰)۔۔۔ آپ ﷺ کو خیمہ لگانے کی رائے کس نے دی؟
حضرت سعد بن معاذؓ نے۔
۳۱)۔۔۔ آپ ﷺ نے فوج کو کس طرح ترتیب دیا؟
آپ ﷺ نے مہاجرین کا عَلَمْ (جھنڈا) حضرت مصعب بن عمیرؓ کو، خزرج کا علم حضرت خبابؓ بن منذر اور اوس کا علم حضرت سعد بن معاذؓ کو عطا فرمایا۔
۳۲)۔۔۔ جنگ کا آغاز کیسے ہوا؟
کفار کی طرف سے عامر بن حضرمی آگے بڑھا، مسلمانوں کی طرف سے عمرؓ کا غلام مہجع آگے بڑھا اور شہید ہوگیا۔
۳۳)۔۔۔ مشرکوں کی طرف سے مقابلہ پر کون آیا؟ اور مسلمانوں کی طرف سے کس نے مقابلہ کرکے قتل کیا؟
عامر بن حضرمی، عتبہ، شیبہ اور ولید مشرکین کی طرف سے آگے بڑھے، تو علیؓ، حمزہؓ، اور عبیدہؓ مقابلہ پر آئے تینوں مشرکین مارے گئے، پھر باقاعدہ جنگ شروع ہوئی۔
۳۴)۔۔۔ باقاعدہ اسلامی جنگوں کے پہلے شہید کون تھے؟
حضرت عمیر بن الحمام۔
۳۵)۔۔۔ جہاد میں شریک ہونے کے لئے کن باپ بیٹوں نے قرعہ اندازی کی اور قرعہ کس کے نام نکلا؟
قرعہ سعد اور ان کے والد خیثمہ کے درمیان ڈالا گیا جو سعد کے نام نکلا۔
۳۶)۔۔۔ حضور ﷺ نے کن لوگوں کو جنگ میں شریک ہونے سے منع فرمایا تھا؟
حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور براء بن عازبؓ کو بچہ ہونے کی وجہ سے جنگ میں شریک ہونے سے منع فرما دیا تھا۔
۳۷)۔۔۔ کن بچوں کو جہاد میں شرکت کی خصوصی اجازت دی گئی؟
حضرت معاذؓ اور معوذؓ
۳۸)۔۔۔ ابوجہل کو کس نے قتل کیا؟ اور وہ کس کے بیٹے تھے؟
ابوجہل کو معاذ اور معوذؓ نے قتل کیا، یہ دونوں عفراءؓ کے بیٹے تھے۔
۳۹)۔۔۔ غزوہ بدرکے سب سے کم عمر شہید کون تھے؟
حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ،
۴۰)۔۔۔ آپ ﷺ نے دشمنوں پر کیا چیز پھینکی اور اس کا کیا اثر ہوا؟
آپ ﷺ نے ایک مٹھی ریت دشمن پر پھینکی جو کہ عذاب بن کر فوج میں پھیل گئی۔ اور دشمن اپنی آنکھیں ملنے لگے۔
۴۱)۔۔۔ غزوہ بدر میں کتنے مشرک مارے گئے اورکتنے افراد پکڑے گئے؟
ستر مشرک قتل کئے گئے اور ستر گرفتار ہوگئے۔
۴۲)۔۔۔ غزوہ بدر میں کتنے مسلمان شہید ہوئے؟
غزوہ بدر میں چودہ مسلمان شہید ہوئے جن میں چھے مہاجر اور چھے انصار تھے۔
۴۳)۔۔۔ مال غنیمت سے کیا مراد ہے؟
جو مال جنگ میں حاصل ہو وہ مال ’’مال غنیمت‘‘ کہلاتا ہے۔
۴۴)۔۔۔ قیدیوں کے متعلق حضرت ابوبکرؓ نے کیا مشورہ دیا؟
قیدیوں کو معاف کر دیا جائے اور ان سے فدیہ لے لیا جائے۔
۴۵)۔۔۔ جو لوگ فدیہ نہیں دے سکتے تھے ان کے لئے کیا حکم فرمایا؟
ان کو حکم دیاکہ مدینہ کے دس دس لڑکوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔
۴۶)۔۔۔ جو قیدی جاہل تھے ان کے بارے میں کیا فیصلہ کیا؟
انہیں بلا معاوضہ آزاد کر دیا گیا،
۴۷)۔۔۔ جنگ بدر میں کس کو فتح حاصل ہوئی؟
مسلمانوں کو۔
۴۸)۔۔۔ آپ ﷺ کے خفیہ قتل کا منصوبہ کس نے بنایا تھا؟
صفوان بن امیہ اور عمیر نے
۴۹)۔۔۔ عمیر نے اسلام کیسے قبول کرلیا؟
حضور ﷺ نے جب عمیر اور صفوان کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ذکر کیا تو وہ حیران رہ گیا اور فوراً اسلام قبول کرلیا۔
۵۰)۔۔۔ عمیر مدینہ کس لئے آیا تھا؟
حضور ﷺ کو قتل کرنے اور اپنے بھائی کو قید سے چھڑانے کے لئے۔
۵۱)۔۔۔ جنگ بدر کا انتقام لینے کے لئے کس نے منصوبہ تیار کیا؟
ابوسفیان نے یہ منصوبہ تیار کیا اور اپنے ساتھ دو سو افراد کو ساتھ لیا۔
۵۲)۔۔۔ ابوسفیان نے کیا قسم کھائی تھی؟
ابوسفیان نے قسم کھائی تھی کہ جب تک محمد ﷺ سے بدلہ نہیں لے لے گا نہائے گا نہیں۔
۵۳)۔۔۔ ابوسفیان نے اپنی قسم کو کیسے پورا کیا؟
عریض نامی مقام پر ایک انصاری اور مزدور کو مار دیا اور دو گھروں کو آگ لگا دی اور کچھ کھجور کے درخت بھی جلا دیئے۔
۵۴)۔۔۔ ابوسفیان اور اس کا لشکر بھاگتے ہوئے کیا چیز چھوڑ گیا؟
اپنا ستو چھوڑ گیا تھا تاکہ بوجھ کم ہو جائے، بھاگنے میں آسانی ہو۔
۵۵)۔۔۔ عربی میں ستو سے کیا مراد ہے؟ اس غزوہ کو غزوہ سویق کیوں کہتے ہیں؟
ستو کو سویق کہتے ہیں اس لئے اس واقعہ کے سبب اسے ’’غزوہ سویق‘‘ کہتے ہیں۔
۵۶)۔۔۔ غزوہ سویق کب پیش آیا؟
۲ھ میں۔
۵۷)۔۔۔ مدینہ میں یہودیوں کا کونسا قبیلہ آباد تھا؟
قبیلہ بنی قینقاع
۵۸)۔۔۔ بنی قینقاع کا رسول سے کونسا معاہدہ طے پایا تھا؟
معاہدہ میثاق مدینہ۔
۵۹)۔۔۔ مشرکین کے ورغلانے پربنی قینقاع نے کیا کیا؟
معاہدہ توڑ دیا اور کھل کر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرنے لگے۔
۶۰)۔۔۔ عبداللہ بن ابی کون تھا؟
منافقین کا سردار تھا جو بظاہر مسلمان تھا اندر سے یہودی تھا۔
۶۱)۔۔۔ آپ ﷺ نے چھاپہ مارنے کا حکم کس کو دیا تھا؟
حضرت زید بنؓ حارثہ کو۔
۶۲)۔۔۔ حضرت زیدؓ کتنے سواروں کا دستہ لے کر روانہ ہوئے تھے؟
سو سواروں کا دستہ۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ الانساب بلاذری ج/۱، ص/۲۷۰، فتح الباری ج/۳، ص /۱۱۹، اورطبقات ابن سعد ج/۱، ص/۹،
۲۔ وراثت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ مواخات کے بقیہ احکام آج بھی موجود ہیں۔
۳۔ اس جماعت میں حضرت ابوہریرہؓ جیسی عظیم شخصیت بھی شامل تھی۔
۴۔ موسوۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۲۹۹، تفصیل کے لئے دیکھئے محموعۃ الوثائق السیاسیۃ ڈاکٹر محمدحمید اللہ ، (مطبوعہ حیدر آباد دکن)
۵۔ سورہ الحج ۲۲/ آیت نمبر ۳۹،
۶۔ قرآن نے اس جنگ کی اجازت دے دی تھی۔ دیکھئے سورۂ الحج ۲۲/ آیت نمبر ۳۹ اور سورۂ البقرہ ۲/ آیت نمبر ۱۹۰ اور سورۂ الانفال ۸/آیت نمبر۳۹،
۷۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۲۸۲،
۸۔ سیرت حلبیہ ج/۳، ص / ۳۹۲۔۳۹۴،
۹۔ اشارہ ہے قرآن کی آیت فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلآ اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ مائدہ ۵/آیت نمبر ۲۷،
۱۰۔ مکالمات نبوی ابویحیٰ امام خاں نوشہروی ص/۸۲، (مکتبہ نذیریہ لاہور ۱۹۷۸ء)
۱۱۔ ایضاً،
۱۲۔ سورۂ الانفال ۸/آیت نمبر ۶۔۷،
۱۳۔ طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۲۴،
۱۴۔ سیرت ابن ہشام ج/۲ ص/۶۱ ، صحیح مسلم ج/۳ ص/۱۴۰۴،
۱۵۔ سورۂ المؤمن /آیت نمبر ۱۰،
۱۶۔ صحیح مسلم ج/۳ ص/۱۴۰۴، حدیث نمبر ۱۷۷۹،
۱۷۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۲۸۹،
۱۸۔ ایضاً ص/۲۹۰،
۱۹۔ فتح الباری ج/۷، ص/۳۰۶، حدیث نمبر ۳۹۸۵،
۲۰۔ سورۂ الحدید ۵۷/ آیت نمبر ۱۲،
۲۱۔ زاد المعاد (اردو) ابن قیم ج/۱ ص/۳۴۵،
۲۲۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ج/۳ ص/۳۱۴۲،
۲۳۔ سورۂ التوبۃ ۹/۱۱۲،
۲۴۔ حکایات صحابہؓ مولانا کاندھلوی ص/۱۵۵،
۲۵۔ دعوت جہاد ، مولانا فضل محمد ص/۵۵۰، (بیت الجہاد کراچی ۱۹۹۹ء)
۲۶۔ عشق رسول کریم ﷺ نواز رومانی ص/۴۹۶۔۴۹۷، (ادبستان لاہور جنوری ۲۰۰۰ء)
۲۷۔ حیات الصحابہ ج/۱ ص/۷۵۹، بحوالہ کنز العمال ج/۵ ص/۲۷۰،
۲۸۔ حیات الصحابہ ج/۳، ص/۳۵ اور ج /۱ ص/۷۵۹،بحوالہ مجمع الزوائد ج/۶ ص/۶۹،
۲۹۔ صحیح مسلم بشرح النووی ج/۱۲ ص/۸۶،
۳۰۔ سیرت ابن ہشام ج/۱ ص/۴۲۸، اور الاصابۃ ج/۳ ص/۳۲۸،
۳۱۔ سورۂ الانفال ۸/ آیت نمبر ۱،
۳۲۔ صحیح مسلم ج/۳ ص/۱۳۸۵ ، حدیث ۱۷۶۳، سیرت ابن ہشام ج/۱ ص/۳۶۸،
۳۳۔ سیرت حلبیہ ج/۴ص/۷۷۔۷۸،
۳۴۔ طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۳ اور سیرت ابن ہشام ج/۲ ص/۴۲۲،
۳۵۔ سیرت ابن ہشام ج/۲، ص/۲۹۴،
۳۶۔ صحیح مسلم، ج/۳، ص/۱۳۸۷، حدیث نمبر ۱۷۶۶، سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۷۰، سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۱۰۹،
۳۷۔ سیرت المصطفیٰ ج/۱ ص/۶۴۲،
۱۰۔غزوہ احد
پس منظر:
سوال ۳ہجری میں ہفتہ کے دن یہ غزوہ احد پہاڑ کے نزدیک ہوا۔اس لیے اسے غزوہ احد کہا جاتا ہے۔
مشرکین مکہ غزوہ بدر میں ذلت آمیز شکست کے بعدبدلہ لینے کی تیاری میں لگے ہوئے تھے، قبائل سے معاہدے کر رہے تھے۔ خفیہ سازشوں میں لگے ہوئے تھے، اسلحہ جمع کر رہے تھے لیکن مسلسل ناکامی ان کی انتقام کی آگ کو مزید بھڑکا رہی تھی، بالاخر یہ سب تین ہزار کی تعداد میں (۱)شان و شوکت اور تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہونے کے لئے نکلے۔(۲)
پیارے نبی ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ اسلام تو لاچکے تھے۔ لیکن ابھی مکہ میں ہی مقیم تھے۔ حالات کی نزاکت محسوس کرتے ہی انہوں نے ایک تیز رفتار آدمی کو یہ پیغام دے کر آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا، قریش جنگ کے لئے مدینہ جا رہے ہیں۔ اور وہ بہت بھاری لاؤ لشکر کے ساتھ ہیں۔ ہتھیار اور سامان بھی بے پناہ ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے قاصد کو تاکید کی کہ تین رات دن میں وہ مدینہ پہنچ جائے۔(۳)
مشرکین مکہ کا لشکر تین ہزار سپاہیوں کا تھا۔ جس کے ساتھ دوسو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ اور سات سوزرہیں بھی تھیں۔(۴) اور ابوسفیان لشکر کا کمانڈر تھا۔ لشکر کے ساتھ پندرہ عورتیں بھی تھیں، جو ایک خاص انداز سے دف بجاتیں اور مقتولین بدر کے دردناک مرثیے پڑھتیں اور مردوں کو شکست پر غیرت دلاتیں اور اُن کے جذبۂ انتقام کو اور ابھارتیں، لشکر میں ابوعامر اوسی بھی شامل تھا۔ یہ قبیلہ اوس کا بہت معزز آدمی تھا، اور اسلام کے نام سے ہی جلتا تھا۔ شہر پر ہر آن حملہ کا اندیشہ تھا، اس لئے کچھ بہادر جانبازوں نے جنگی لباس پہنے اور رات بھر مدینہ کی سرحدوں پر پہرہ دیتے رہے۔ سعد بن عبادہؓ اور سعد بن معاذؓ نے بھی ہتھیار لگاکر تمام رات مسجد نبویﷺ کے دروازہ پر ٹہلتے رہے۔
آپ ﷺ کا مسلمانوں سے مشورہ کرنا:
خدا خدا کرکے صبح ہوئی۔ جمعہ کا دن تھا۔ لوگ پیارے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ میرا خیال ہے کہ ہم مدینہ ہی میں ٹھہریں اور دشمن سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔ اب اگر وہ وہیں پڑے رہے، تو خود پچھتائیں گے۔اور ہم پر چڑھائی کی تو ہم شہر ہی میں رہ کر ان کا مقابلہ کریں گے اور گھیر گھیر کر انہیں ڈھیر کر دیں گے، کیونکہ مدینہ کی گلیوں اور پگڈنڈیوں سے وہ ہماری طرح واقف نہیں۔ کہو، تم لوگوں کی کیا رائے ہے؟ جتنے بڑے اور سمجھدار لوگ تھے۔ سب نے آپ ﷺ کی رائے سے اتفاق کیا، اور خوش ہوکر اس کا خیرمقدم کیا۔ عبداللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا اٹھا، اور اس نے بھی پرزور تائید کی۔(۵)
ابو خیثمہ کا مشورہ:
بعض صحابہ شوق شہادت اور جانبازی کے جوہر دکھانے کے لئے بے تاب تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کی جائے۔ انہی لوگوں میں سے ایک قبیلہ اُوس کے مشہور نقیب سعد بن خیثمہ تھے، غزوہ بدر میں شہادت کی تمنا تھی مگر قرعہ اندازی میں بیٹے سعد کا نام نکل آیا۔ مجبوراً انہیں دست بردار ہونا پڑا تھا۔(۶)
ایک سال بعد غزوۂ اُحد کا موقع آ گیا۔ سعد شہید کے والد حضرت خیثمہ اس مجمع میں حاضر تھے۔ جو رسول اللہ ﷺ کے حضور قریش کے ساتھ شہر میں رہ کر یا شہر سے باہر نکل کر مقابلے کی تجویز پر غور کر رہا تھا۔ رائے دہندگان میں خیثمہ کا جواب روح ایمان میں حرارت پیدا کر رہا ہے۔
خیثمہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ!
امید ہے کہ ہم فتح یاب ہوں گے۔ اگر مجھے شہادت نصیب ہوئی تو یہ میری عین رضا ہے کیونکہ میں اپنے لختِ جگر سعد کی وجہ سے بدر میں شرکت سے محروم رہ گیا۔ ہوا یہ کہ ہم دونوں نے بدر کے لئے قرعہ اندازی کی۔ جس میں میرے صاحبزادہ کا نام نکل آیا۔ وہ شہادت سے بہرہ مند ہوا اور میں اس نعمت سے محروم رہ گیا۔ جس روز میدان میں اس کی شہادت ہوئی اس نے اسی دن خواب میں مجھ سے کہا:
خدا نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ پورا ہوگیا۔ ہم جنت کی بہاریں لوٹ رہے ہیں۔ آپ بھی اس راہ میں شہید ہوکر ہمارے ساتھ جنت میں آ جائیے۔
یا رسول اللہ !
مجھے شرکت سے محروم نہ فرمائیے! اور حضرت خیثمہ نے اُحد کے وسیلے سے اپنے لخت جگر سعد شہید سے جنت میں ملاقات کی!(۷)
حضرت حمزہؓ کا مشورہ:
حضرت حمزہؓ :اللہ کے رسول ﷺ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ ﷺ پر قرآن اتارا میں تو کھانا ہی نہ کھاؤں گا، جب تک باہر نکل کر دشمنوں سے مقابلہ نہ کرلوں گا۔
غرض مسلمان جوش سے بھرپور تھے، اور باہر نکل کر مقابلہ کے لئے بے تاب، تمنا ہر ایک کی یہی تھی کہ وہ اسلام کی راہ میں جان دے دے، مگر اسلام پر ذرا بھی آنچ نہ آنے دے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ اس کا رب اس سے خوش ہو جائے، لہٰذا آپ ﷺ نے اکثریت کی بات مان لی۔(۸)
غزوۂ اُحَدْ
آپ ﷺ نے مدینہ سے باہر نکل کر مقابلہ کا فیصلہ کرلیا، تو گھر میں گئے اور جنگی لباس پہن کر باہر تشریف لائے اور مسلمانوں کو نصیحتی خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :
یاد رکھو اگر تم نے صبر سے کام لیاتو میدان تمہارے ہاتھ رہے گا۔(۹)
اس غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی ، عبداللہ بن أبی بھی تین سو افراد اپنے ساتھ لایا تھا مگر جب اس کا مشورہ قبول نہیں کیا گیا تو اپنے ساتھیوں کو لے کر واپس چلا گیا، اب سات سو مسلمانوں کا تین ہزار مسلح دشمنوں سے مقابلہ تھا۔(۱۰)
بچوں کا جہادی لشکر
آپ ﷺ کا اصول تھا جہاد کے آغاز سے پہلے فوج کا جائزہ لیتے صف بندی کرتے اور مجاہدوں کو چیک کرتے، جو کم عمر ہوتا اسے واپس کر دیتے تھے۔(۱۱) یہی آپ ﷺ نے غزوۂ بدر میں کیا تھا مگر اس غزوہ میں تو بچوں کا پورا لشکر شامل ہوگیا تھا اور کوئی بھی واپس جانے کے لئے تیار نہیں تھا، بقول عبدالحی کتانی ۱۷/بچوں کو کم عمری کے سبب واپس کیا گیا۔(۱۲)
یہ تمام وہ بچے ہیں جو جنگ احد میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ لیکن حضور ﷺ ان کو یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ ابھی عمر بہت کم ہے۔ مگر اصرار اور سفارش کی بنا پر رافع اور سرہ رضی اللہ عنہما کو اجازت مل گئی تھی۔(۱۳) جنگ احد میں مندرجہ ذیل نوعمروں کوبھی لڑکپن کی وجہ سے واپس فرما دیا۔ عبداللہ بن عمرؓ، زید بن ثابتؓ، اسامہ بن زیدؓ، زید بن ارقم، براء بن عازبؓ، عمرو بن حزمؓ، اسید بن ظہیرؓ ، عاربہ بن اوسؓ، ابوسعید خدریؓ، سمرہ بن جندبؓ، رافع بن خدیجؓ کہ ان کی عمریں تقریباً تیرہ چودہ برس کی تھیں۔
جب ان کو واپس کر دیا گیاتو حضرت خدیج نے اپنے بیٹے رافع کا اصرار اور شوق جہاد دیکھ کر حضور ﷺ کی خدمت میں سفارش کی اور خود رافع بھی ابھر ابھر کر کھڑے ہوتے تھے تاکہ بڑے معلوم ہوں، بالاخر حضور ﷺ نے رافع کو جہاد میں شرکت کی اجازت دے دی، اس کے بعد سمرہؓ نے اپنے سوتیلے باپ مرہ بن سنان کے ذریعے سے حضور سے سفارش کرائی، اور کہا کہ حضور ﷺ نے رافع کو تو اجازت دے دی حالانکہ میں اس سے قوی ہوں، حضور ﷺ نے ان دونوں میں مقابلہ کروایا، واقعتاً سمرہ نے رافع کو پچھاڑ دیا۔ حضور ﷺ نے ان کو بھی اجازت دے دی، اس کے علاوہ اور بھی چند بچوں کو اجازت مل گئی۔(۱۴)
رافع بن خدیجؓ نے بدر کی لڑائی میں بھی اپنے آپ کو پیش کیا تھا مگر اس وقت اجازت نہ مل سکی تھی، پھر احد میں پیش کیا تو مشکل سے اجازت مل گئی، اسی طرح زید بن ثابتؓ نے بھی اپنے آپ کو جنگ بدر میں پیش کیا تھا لیکن اجازت نہ مل سکی حالانکہ ہجرت کے وقت ان کی عمر گیارہ سال تھی۔ یہی حال ابو سعید خدریؓ کا ہے۔(۱۵)
ماں کی سفارش پر بچہ کو جہاد میں شرکت کی اجازت :
حضرت شعبیؓ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے جنگ احد کے دن اپنے بیٹے کو ایک تلوار دی جسے وہ اٹھا نہیں سکتا تھا، تو اس عورت نے چمڑے کے تسمے سے وہ تلوار اس کے بازو کے ساتھ مضبوط باندھ دی، پھر اسے لے کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا بیٹا آپ کی طرف سے لڑائی کرے گا، پھر آپ ﷺ نے اس بچے سے کہا اے میرے بیٹے! یہاں حملہ کرو، اے میرے بیٹے یہاں حملہ کرو۔ بالآخر وہ زخمی ہوکر گر گیا، پھر اسے حضور ﷺ کی خدمت میں لایا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا ’’اے میرے بیٹے شاید تم گھبرا گئے؟‘‘ اس نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ ﷺ ۔(۱۶)
میدان جنگ کا منظر :
اب دونوں فوجیں مقابلہ کی تیاری کرنے لگیں۔ پیارے نبی ﷺ نے اُحد کو پشت پر رکھ کر صف بندی کی۔ علم حضرت مصعب بن عمیرؓ کو عنایت فرمایا۔ پہاڑ میں ایک گھاٹی تھی۔ ڈر تھا کہ دشمن پیچھے سے آکر حملہ نہ کر دیں، اس لئے پچاس تیر اندازوں کو وہاں بھی متعین کر دیا، اور فرمایا:
تم لوگ ہماری پشت کی حفاظت کرنا، ایسا نہ ہو کہ دشمن پیچھے سے حملہ آور ہو جائے، دیکھو اپنی جگہ پر جمے رہنا، وہاں سے ہٹنا نہیں۔ اگر ہم جیت جائیں اور ان کی فوج میں گھس جائیں تب بھی تم اپنی جگہ نہ چھوڑنا، اور ہم قتل ہونے لگیں تو مدد کے لئے بھی نہ آنا۔ البتہ اُن پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کر دینا کیونکہ گھوڑے تیروں سے ڈرتے ہیں۔(۱۷)
مشرکین مکہ نے بھی صف بندی کی۔ میمنہ پر خالد بن ولید کو مقرر کیا۔ اور میسرہ کا امیر عکرمہ کو بنایا۔ جھنڈا خاندان عبدالدار کے ہاتھ میں تھا۔ اور ابوسفیان فوج کا کمانڈر تھا۔
پیارے نبی ﷺ نے عام حملہ کی اجازت دے دی۔ کچھ ساتھیوں کو میمنہ کی طرف بھیج دیا، اور کچھ کو میسرہ کی طرف اور لڑا کا دستہ کو دشمن فوج کے قلب میں گھسنے کا حکم دیا۔ شیر اسلام حضرت حمزہؓ آگے بڑھے اور نہایت گرجدار آواز کے ساتھ ایک نعرہ لگایا جو حقیقت میں آج سارے مسلمانوں کا نعرہ تھا۔ مارو! خوب مارو!!
ابودجانہ پہلوان کے جہادی کارنامے :
پیارے نبی ﷺ نے ہاتھ میں تلوار لے کر فرمایا:
’’اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا؟‘‘
اس شرف کے لئے بہت سے ہاتھ بڑھے۔ حضرت ابودجانہؓ انصاری بھی اٹھے۔ یہ عرب کے بہت مشہور پہلوان تھے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ ! اس کا کیا حق ہے؟
فرمایا : جب تک دھار نہ مڑ جائے، اسے دشمن پر چلاتے رہو۔
حضرت ابودُجانہؓ نے وہ تلوار ہاتھ میں لے لی۔ ان کا ایک لال رومال تھا۔ جنگ کرنا چاہتے تو اسے سر پر باندھ لیتے۔ لوگ دیکھتے ہی سمجھ جاتے، کہ ابودُجانہ اب جنگ کریں گے، چنانچہ انہوں نے وہ موت کا رومال نکالا، اسے سرپر باندھا، اور شان سے اکڑتے ہوئے فوج سے باہر آئے۔ یہ آج کی کوئی نئی بات نہ تھی۔ جنگ کے وقت ابودُجانہ ہمیشہ اسی طرح چلتے۔ پیارے نبی ﷺ نے دیکھا، تو فرمایا:
’’یہ چال خدا کو سخت ناپسند ہے، لیکن اس وقت پسند ہے۔‘‘
حضرت ابودجانہؓ تلوار لے کر دشمن کی فوجوں کے اندر گھس گئے۔ جس مشرک کے پاس سے گزرتے، اس کا سر قلم کر دیتے۔ جو بھی دشمن سامنے آتا اس کو وہیں ڈھیر کر دیتے اور جس طرف رخ کرتے صفوں کی صفیں صاف کر دیتے۔(۱۸) وہ تیزی سے بڑھ رہے تھے کہ دیکھا، کوئی لوگوں کو جوش دلا رہا ہے۔ ان کے جذبات کا بھڑکا رہا ہے۔ فوراً تلوار اٹھائی کہ اس کا کام تمام کر دیں۔ مگر اسی وقت وہ زور سے چیخا۔ دیکھا تو وہ عتبہ کی بیٹی ہند تھی۔ حضرت ابودجانہؓ نے فوراً تلوار روک لی کہ ایک عورت کو مارنا مسلمان کی تلوار کی توہین تھی۔
ہندہ کی اسلام دشمنی:
لشکر میں شریک ہندہ نے کہا: ’’وحشی! میرے عزیزوں کی ٹکر کے یا تو محمد ﷺ ہیں۔ یا پھر حمزہؓ اور علیؓ، ان تینوں میں سے کسی ایک کو بھی مار دو، تو بہت قیمتی انعام دوں گی۔
چنانچہ وحشی تیارہوگیا۔
حضرت حمزہؓ کے کارنامے اور شہادت:
حضرت حمزہؓ کی بہادری کا بھی عجیب منظر تھا۔ دونوں ہاتھوں میں تلوار تھی اور وہ صفیں کی صفیں الٹتے چلے جا رہے تھے، لیکن ’’وحشی‘‘ کی آنکھیں گھات میں تھیں اور وہ حملہ کے لئے موقع کی تلاش میں تھا۔ تاکہ یہ اُس کی آزادی کی قیمت بن جائے!!
چنانچہ وہ وقت بھی آگیا، جس کے لئے وحشی بن حرب نکلا تھا۔ اور ہندہ نے ترغیب دی تھی۔ حضرت حمزہؓ ایک دشمن پر حملہ کر رہے تھے۔ پاس ہی ایک چٹان تھی اسی چٹان کے پیچھے وحشی تاک میں بیٹھا تھا، اورمارنے کے لئے نیزہ ٹھیک کر رہا تھا۔ حضرت حمزہؓ بے خبر تو تھے ہی۔ موقع پاتے ہی اس نے نیزہ پھینک کر مارا۔ نیزہ ناف میں لگا، اور پار ہوگیا۔ آپ شہید ہوگئے۔(۱۹)
دشمن کی شکست اور فتح:
دشمن شکست کھا چکا تھا۔ اس کا جھنڈا زمین پر روندا جا رہا تھا۔ مسلمان سمجھے اب فتح ہوگئی، انہوں نے دشمن کے مال پر قبضہ کرنا شروع کر دیا اور نبی کریم ﷺ کی نصیحت بھول گئے، اپنے اپنے مورچے چھوڑ کر ہٹ گئے۔ عبداللہ بن جبیرؓ نے بہت منع کیا مگر ساتھیوں نے کہا حکم جنگ تک تھا اب نہیں۔ اتنے میں خالد بن ولید نے (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے دشمن فوج کے کمانڈر تھے) انہوں نے زبردست حملہ کیا۔(۲۰) اب مسلمانوں پر بدحواسی چھا گئی۔ باہم دوست دشمن کی تمیز ختم ہوگئی۔(۲۱) ایک کافر ابن قمیہ نے مصعب بن عمیر کو شہید کر دیا، ان کی شکل ہمارے پیارے رسول ﷺ سے بہت ملتی جلتی تھی، شور مچ گیا’’محمد ﷺ مارے گئے‘‘ یہ سن کر مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلنے لگی، کچھ پست حوصلہ ہوگئے، کچھ نے کہا محمد ﷺ نہیں تو ہم کیوں زندہ رہیں؟(۲۲) کچھ صحابہ کرامؓ سعد بن أبی وقاص، ابوطلحہؓ، ابودجانہؓ، جو آپ ﷺ کے نزدیک تھے دشمن کے ہر حملہ کو اپنے اوپر روک رہے تھے۔
أم عمارہؓ آپ ﷺ کا دفاع کرتے ہوئے:
خواتین بھی جہاد میں شریک ہوتیں اور مختلف خدمات ادا کرتی تھیں، أم عمارہ مجاہدوں کو پانی پلا رہیں تھیں، مگر جب دیکھا دشمن نے آپ ﷺ کو گھیر لیا ہے تو مشکیزہ رکھ کر تلوار اٹھالی جو نزدیک آتا اس پر حملہ کر دیتیں، حتیٰ کہ زخمی ہوگئیں، آپ ﷺ نے فرمایا ’’تم نے تو مردوں سے بڑھ کر بہادری دکھائی ہے۔‘‘(۲۳)
عمر فاروقؓ سے روایت ہے آپ ﷺ نے فرمایا ’’میں جس طرف دیکھتا ام عمارہ اسی طرف سے میرا دفاع کر رہی ہوتی تھیں‘‘ اس لڑائی میں انہیں بارہ زخم آئے۔(۲۴) آپ ﷺ کے نیزہ سے أبی بن خلف مارا گیا۔(۲۵) ستر مسلمان شہید ہوئے۔(۲۶) ۲۲ اور ۳۰ کے درمیان کافر مارے گئے۔(۲۷) ابوسفیان نے اعلان کیا: مسلمانوں آج کا دن بدر کا جواب ہے آئندہ سال پھر بدر میں تم سے مقابلہ ہوگا۔
دشمن کا تعاقب:
آپ ﷺ نے دشمن کے دوبارہ حملے سے بچنے کے لئے دشمن کا پیچھا کرنے کا حکم دیا۔ فوراً ستر جانبازوں نے اپنے نام پیش کر دیئے۔ اور ایک اچھی خاصی جمعیت تیار ہوگئی۔ جس میں ابوبکرؓ وزبیرؓ بھی تھے۔ آپ ﷺ کا اندیشہ صحیح نکلا۔ ابوسفیان کچھ دور نکل گیا، تو اسے واقعی خیال آیا کہ کام تو ادھورا ہی رہ گیا۔ چلیں لوٹ کر مدینہ پر ہلہ بول دیں۔ لیکن پھر اسے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی تو وہی آن بان ہے۔ وہ تو خود ہی مقابلہ کے لئے ہمارے پیچھے آ رہے ہیں۔ چنانچہ اس نے ویسے ہی مکہ لوٹ جانا غنیمت جانا۔ آپ ﷺ نے حمراء اسد تک اس کا تعاقب کیا پھر واپس لوٹ آئے۔ (یہ حمراء اسد مدینہ سے آٹھ میل پر ہے)۔ یہ ۸/شوال ۳ہجری کا واقعہ ہے۔(۲۸)
دشمن کے چیلنج کا جواب:
آپ ﷺ ابوسفیان کے چیلنج کے مطابق آئندہ سال بدرکے مقام پر پہنچے آٹھ دن انتظار کیا، مگر دشمن نہیں آیا۔
سوال جواب 
۱)۔۔۔ غزوہ احد کیوں لڑی گئی تھی؟
غزوہ بدرکا بدلہ لینے کے لئے۔
۲)۔۔۔ کفار کتنا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے نکلے؟
تقریباً تین ہزار افراد دو سو گھوڑوں، تین ہزار اونٹ اور سات سو زرہ سے مسلح تھے۔
۳)۔۔۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ پر حملہ کی خبر کس نے پہنچائی؟
حضرت عباسؓ۔
۴)۔۔۔ قاصد کتنے دن میں مدینہ پہنچا۔
تین دن میں۔
۵)۔۔۔ مسجد نبوی پر پہرہ کون دے رہا تھا؟
حضرت سعد بن عبادہؓ اور سعد بن معاذؓ
۶)۔۔۔ سب لوگوں نے کس بات پر اتفاق کیا؟
مدینہ میں رہ کر لڑنے کے فیصلہ پر۔
۷)۔۔۔ خیثمہ کونسی خواہش پوری کرنے کیلئے بے تاب تھے؟
غزوہ بدر میں شہادت کی تمنا تھی مگر بیٹے سعد کا نام نکل آنے پر انہیں دستبردار ہونا پڑا تھا، اس لئے اب وہ اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے بے تاب تھے۔
۸)۔۔۔ حضرت حمزہؓ نے کیا قسم کھائی تھی؟
قسم کھائی تھی کہ میں تو کھانا ہی نہ کھاؤں گا جب تک باہر نکل کر دشمنوں سے مقابلہ نہ کرلوں گا۔
۹)۔۔۔ غزوہ احد کب اور کہاں لڑی گئی؟
غزوہ احد احد نامی پہاڑ کے نزدیک شوال ۳ ہجری بروز ہفتہ لڑی گئی۔
۱۰)۔۔۔ غزوہ احد میں کفار اور مسلمانوں کی تعداد کیا تھی؟
مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی جبکہ کفار کا لشکر تین ہزار آدمیوں پر مشتمل تھا۔
۱۱)۔۔۔ عبداللہ بن أبی جہاد سے کیوں الگ ہوا، اور اس کے ساتھ کتنے افراد تھے؟
اس لئے کہ مدینہ میں رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا تھا اس کے ساتھ تین سو افراد بھی الگ ہوگئے۔
۱۲)۔۔۔ کونسے غزوہ میں بچوں کا پورا لشکر شامل تھا؟
غزوہ احد میں۔
۱۳)۔۔۔ کن بچوں کو غزوہ احد میں شریک ہونے سے منع کیا گیا تھا؟
عبداللہ بن عمر، زید بن ثابتؓ، اسامہ بن ثابتؓ، سرہ بن جندبؓ، اوررافع بن خدیج۔
۱۴)۔۔۔ سفارش کی بناء پر کن بچوں کو اجازت مل گئی تھی؟
رافع اور سرہ رضی اللہ عنہما
۱۵)۔۔۔ ہجرت کے وقت رافع کی عمر کتنی تھی؟
گیارہ سال۔
۱۶)۔۔۔ ماں کی سفارش پر کس بچہ کو جہاد کی اجازت ملی تھی؟
رافعؓ کو۔
۱۷)۔۔۔ باپ کی سفارش پر کس بچہ کو جہاد کی اجازت ملی؟
سمرہؓ کو۔
۱۸)۔۔۔ آپ ﷺ نے علم کس کو عنایت فرمایا تھا؟
حضرت مصعب بن عمیرؓ
۱۹)۔۔۔ آپ ﷺ نے کتنے تیر اندازوں کو گھاٹی پر حفاظت کے لئے مقرر فرمایا تھا؟
پچاس تیر اندازوں کو۔
۲۰)۔۔۔ مشرکین مکہ کے کمانڈر کون تھے، اور جھنڈا کس کے پاس تھا؟
ابوسفیان کمانڈر انچیف تھا، اس نے میمنہ پر خالد، میسرہ پر عکرمہ کو رکھا اور جھنڈا خاندان عبدالدار کے پاس تھا۔
۲۱)۔۔۔ وہ کونسی خاتون تھیں جنہوں نے مردوں کی طرح بہادری دکھائی تھی اور آپ ﷺ کی حفاظت کی تھی؟
حضرت ام عمارہؓ
۲۲)۔۔۔ آپ ﷺ کے ہاتھوں کون کافر مارا گیا؟
أبی بن خلف ، نبی ﷺ کے نیزہ سے ہلاک ہوا۔
۲۳)۔۔۔ غزوہ احد میں کتنے مسلمان شہید ہوئے اور کتنے کفار مارے گئے تھے؟
ستر مسلمان شہید ہوئے اور ۲۲ تا ۳۰ کے درمیان کافر مارے گئے۔
۲۴)۔۔۔ آپ ﷺ نے دشمن کے دوبارہ حملے سے بچنے کے لئے کیاکیا؟
حمراء اسد تک دشمن کا پیچھا کرنے کا حکم دیا۔
۲۵)۔۔۔ ابوسفیان نے کیا چیلنج کیا تھا؟
ابوسفیان نے کہا تھا کہ مسلمانوں آج کا دن بدر کا جواب ہے آئندہ سال پھر بدر میں تم سے مقابلہ ہوگا۔
۲۶)۔۔۔ آپ ﷺ نے اس کے چیلنج کا کس طرح جواب دیا؟
آپ ﷺ ابوسفیان کے چیلنج کے مطابق آئندہ سال بدر کے مقام پر پہنچ کر آٹھ دن انتظار کیا، مگر دشمن نہیں آیا۔
۲۷)۔۔۔ غزوہ احد کب ہوا؟
۸/شوال ۳ ہجری کا واقعہ ہے۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۸۴،
۲۔ سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۸۶، اور طبقات ابن سعد ج/۲، ص/۳۷،
۳۔ سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۱۳۵،
۴۔ سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۸۷،
۵۔ طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۳۸، سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۱۳۷،
۶۔ الاصابۃ فی تمییز الصحابہ ج/۳، ص/۳۱۴۲،
۷۔ ایضاً، ج/۳ ص/۳۱۴۲،
۸۔ سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۱، سیرت حلبیہ ج/۴، ص/۱۴۰،
۹۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱، ص/۳۰۱،
۱۰۔ صحیح البخاری حدیث نمبر ۴۰۵۰، طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۳۹،اور سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۸،
۱۱۔ سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۱۴۱،
۱۲۔ عہد نبوی کا اسلامی تمدن اختصار التراتیب الاداریۃ عبدالحی الکتانی مترجم مولانا رضی الدین فخری ص/۱۱۸، (ادارۃ القرآن کراچی ۱۹۹۱ء ابن عمر کہتے ہیں میں بدر میں ۱۴/ سال کا تھا مجھے واپس کر دیا جب میں ۱۵ / سال کا ہوگیا تو مجھے جہاد میں شریک کرلیا گیا، دیکھئے مذکورہ کتاب و صفحہ ،
۱۳۔ سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۱۴۱،
۱۴۔ حکایات صحابہؓ ص/۱۵۱، اور سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۱۴۲،
۱۵۔ حکایات صحابہ ص/۱۵۱،
۱۶۔ حیات الصحابہ ج/۱ ص/۷۵۹، بحوالہ کنز العمال ج/۵ ص/۲۷۷،
۱۷۔ سیرت حلبیہ ج/۴، ص/۱۵۶،
۱۸۔ سیرت حلبیہ ج/۴، ص/۱۴۸،
۱۹۔ سیرت حلبیہ ج/۴، ص/۱۵۵۔۱۵۶،
۲۰۔ سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۱۵۷،
۲۱۔ ایضاً ص/۱۵۸،
۲۲۔ ایضاً ص/۱۵۸،اور ص/۲۰۰،
۲۳۔ عشق رسول کریم ﷺ ص/۴۰۹،
۲۴۔ خواتین اسلام کا مثالی کردار ص/۱۲۵،
۲۵۔ سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۱۷۱،
۲۶۔ فتح الباری حدیث نمبر ۴۰۴۳، اور سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۱۷۹ ،
۲۷۔ سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۱۸۲، طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۴۲، سیرت حلبیہ ج/۴، ص/ ۲۲۶،
۲۸۔ فتح الباری ج/۷ ص/۳۷۳، اور صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۴۱۸ اور سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۲۳۱،
۱۱۔غزوۂ خندق
اس جہاد میں حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ کے مطابق خندقیں (گڑھے) کھود کر مدینہ کو دشمن سے بچایا گیا اس لئے اسے غزوہ خندق کہا جاتا ہے۔(۱) یہ غزوۂ ۵ہجری ذی قعدہ میں ہوا۔(۲)
غزوۂ کا پس منظر:
یہودیوں کے قبیلہ بنو نضیر کے سردار قریش کے پاس گئے ان سرداروں میں حیی بن اخطب بھی تھا اور سلام بن ابی الحقیق بھی، ان لوگوں نے پہنچ کر قریش کو پھر جوش دلایا اور ان کو آپ ﷺ سے جنگ کرنے پر اُبھارا۔ اسی طرح قبیلہ غطفان کو بھڑکایا۔ بنی سلیم، بنی اسد، بنی قزارہ ، بنی أشجع اور بنی مرہ کے پاس بھی گئے، اور پھر مشترکہ طور سے حملہ آور ہوئے۔
پیارے نبی ﷺ کا خندق کھودنا:
آپ ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ کیا، تو سلمان فارسی نے دفاعی حصار قائم کرنے کے لئے خندق کھودنے کا مشورہ دیا۔ مدینہ صرف ایک طرف سے کھلا ہوا تھا، اوربقیہ تین طرف سے مکانوں اور کھجور کے درختوں سے گھرا ہوا تھا۔ پیارے نبی ﷺ ساتھیوں کے ساتھ شہر سے باہر نکلے اور اسی طرف خندق کھودنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ کھدائی کا نقشہ آپ ﷺ نے خود بنایا۔ پھر دس دس آدمیوں پر دس دس گز زمین تقسیم کر دی۔ کام کرنے والوں میں آپ ﷺ خود بھی شریک تھے۔ سردی کی راتیں تھیں اور تین تین دن کا فاقہ۔ بہادر مسلمان اسی عالم میں کھدائی کرتے۔ پیٹھ پر مٹی لاد لاد کر کوہ سلع کے دامن میں پھینکتے، اور ادھر سے پتھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے اور خندق کے کنارے چنتے جاتے۔ کہ ضرورت پڑی تو دشمن پر برسانے کے کام آئیں. گے۔
تین ہزار متبرک ہاتھ خندق کھودنے میں مصروف تھے۔ چھ دنوں میں یہ کام پورا ہوگیا۔ اوراب مدینہ محفوظ تھا۔ مدینہ ہی سے ملی ہوئی ایک پہاڑی ہے جو کوہ سلع کے نام سے مشہور ہے۔ خندق میں اور اس میں صرف ۶ میل کا فاصلہ تھا اور دونوں کے درمیان ایک لمبا چوڑا میدان تھا۔ پیارے نبی ﷺ نے اپنی فوج کو اسی میدان میں ٹھہرادیا۔(۳)
دشمن خندق عبور کرنے میں ناکام رہا۔ صرف تیروں سے مقابلہ ہوتا رہا۔ کوہ سلع کے دامن میں آپ ﷺ اپنے سرخ خیمہ میں جنگی پلان تیار کر رہے تھے۔
یہودی دشمنوں کا دھوکہ :
دشمن نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا اور یہودی حی بن یقطان نے بنی قریظہ کے سردار کعب کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملالیا، حالانکہ ان سے مسلمانوں کا امن معاہدہ تھا، اس صورت حال میں مسلمانوں نے اپنے آپ کو مدینہ میں بھی غیر محفوظ خیال کرنا شروع کر دیا، آپ ﷺ نے سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ کو قریظہ کے سردار کو سمجھانے کے لئے بھیجا، مگر وہ ڈھٹائی سے غداری پر قائم رہے۔ بلکہ یہودیوں کی ایک ٹولی قلعہ پر قبضہ کرنے مدینہ کا جائزہ لینے نکلی، جب مسلمانوں نے تعاقب کیا تو بھاگ نکلے۔(۴)
صفیہؓ کا یہودی کو قتل کرنا:
ایک یہودی مخبر قلعہ کے نزدیک چکر لگانے لگا۔ قلعہ میں حضرت صفیہؓ بھی تھیں۔ یہ آپ ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ یکایک ان کی نظر اس یہودی پر پڑ گئی۔ عورتوں کی حفاظت کیلئے حضرت حسانؓ مقرر تھے۔ وہی حضرت حسانؓ جو بہت اچھے شاعر تھے اور پیارے نبی ﷺ کی طرف سے دشمنوں کا جواب دیا کرتے تھے۔ یہودی کو دیکھ کر حضرت صفیہؓ گھبرائیں اور حضرت حسانؓ سے بولیں:
دیکھئے، یہ یہودی یہاں گھوم رہا ہے۔ جلدی سے اُتر کر اسے قتل کر دیجئے۔ ورنہ یہ جاکر دشمنوں کو پتہ دے گا۔ مسلمان تو لڑائی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر یہ بچ کر چلا گیا تو مصیبت آ جائے گی۔
مگر حضرت حسانؓ ذرا ہمت کے کمزور تھے۔ بولے:
عبدالمطلب کی بیٹی! اللہ تجھے معاف کرے، تجھے معلوم ہے کہ میں اس کام کا آدمی نہیں۔ مجبوراً حضرت صفیہؓ نے خود خیمہ کا ایک بانس اکھاڑا اور چپکے چپکے نیچے اتریں پھر جاکر اس کے سرپر اس زور سے مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا۔
پھر لوٹ کر قلعہ میں آئیں اور حضرت حسانؓ سے کہا: وہ مرد ہے۔ اس لئے میں نے اسے ہاتھ لگانا اچھا نہ سمجھا۔ آپؓ جائیے اس کے ہتھیار اور کپڑے اتار لائیے۔ حضرت حسانؓ نے کہا:
عبدالمطلب کی بیٹی! جانے بھی دو، مجھے اس کی چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت صفیہؓ نے کہا: اچھا جائیے، اس کا سرکاٹ کر میدان میں پھینک دیجئے۔ تاکہ یہودی مرعوب ہو جائیں۔ حضرت حسانؓ اس کے لئے بھی نہ تیار ہوئے۔ مجبوراً یہ کام بھی حضرت صفیہؓ ہی کو کرنا پڑا۔ اس طرح یہودی سمجھے کہ قلعہ میں بھی کچھ فوج ہے اور پھر انہیں حملہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔
آپ ﷺ کا خود جنگ میں حصہ لینا:
آپ ﷺ نے خندق کے مختلف حصوں پر فوجیں تقسیم کر دی تھیں۔ جو دشمن کے حملوں کا مقابلہ کرتیں، ایک حصہ خود آپ ﷺ کی نگرانی میں تھا۔ آپ ﷺ دشمن کو تیروں سے روک رہے تھے، اور ذرا بھی ہٹ کر دم نہ لیتے تھے۔ اور اگر کوئی ضرورت پیش آ جاتی اور وہاں سے ہٹنا پڑتا تو اپنی جگہ کسی دوسرے کو کھڑا کر دیتے، پھر جوں ہی ضرورت پوری ہو جاتی، فوراً آکر دوبارہ اپنی جگہ سنبھال لیتے۔ اس طرح ایک طرف آپ ﷺ ساتھیوں کی ہمت بندھا رہے تھے اور دوسری طرف بلند ترین انسانیت کا نمونہ بھی پیش فرما رہے تھے۔
لڑائی کا آخری دن بڑا ہی سخت گزرا۔ تمام دن زوروں کا مقابلہ رہا۔ بالآخر نو مسلم نعیم کی کامیاب حکمت عملی (ڈپلومیسی) سے دشمن مایوس ہوکر مکہ واپس چلا گیا۔ اسی کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے کہ کافروں کو غصہ میں بھرا ہوا لوٹا دیا۔ (۵)
سعدؓ کی دعاء :
سعدؓ زخمی ہوگئے تو انہوں نے دعا کی :
اے اللہ ! اگر قریش سے ابھی جنگ ہونی باقی ہے تو مجھ کو زندہ رکھ جس قوم نے تیرے رسول ﷺ کو جھٹلایا ہے اور ان کو گھر سے بے گھر کیا ہے اس قوم سے زیادہ کسی سے لڑنے کی مجھے تمنا نہیں لیکن اگر اس سے اب جنگ نہ ہونی ہو، تو مجھ کو اسی (زخم) میں شہادت دے، اور جب تک میری آنکھیں بنی قریظہ سے نہ ٹھنڈی ہولیں، مجھ کو موت نہ دے۔ اللہ نے آپؓ کی دعاء قبول فرمائی۔
سچے نبی ﷺ کی پیش گوئی:
جب مشرکین مکہ چلے گئے تو آپ ﷺ نے پیش گوئی فرمائی :
اب قریش تم سے لڑنے نہ آئیں گے تم ان سے لڑنے جاؤ گے۔
بنو قریظہ کا قتل عام:
اس کے بعد آپ ﷺ نے بنو قریضہ کے قلعوں کا محاصرہ کرنے کا حکم دیا۔ وہ قلعہ بند ہوگئے۔ یہ ذی الحج ۵ ہجری کا واقعہ ہے۔(۶) انہوں نے مدینہ سے جانے کی اجازت مانگی آپ ﷺ نے نہیں دی، انہوں نے سعدؓ (جن کا اوپر ذکر آیا ہے) کو منصف مان لیا کہ وہ جو فیصلہ کریں ہمیں منظور ہے۔
اس طرح سعدؓ نے ان کا فیصلہ کیا۔۔۔!! وہ فیصلہ یہ تھا:
جو لڑنے کے قابل ہیں وہ قتل کر دئیے جائیں۔ عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں اور مال و اسباب مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
آپ ﷺ نے یہ فیصلہ سنا تو فرمایا :
سعدؓ ! یہی فیصلہ خدا کا بھی ہے۔(۷)
چنانچہ مدینہ میں گڑھے کھودے گئے پھر تھوڑے تھوڑے یہودی وہاں لے جائے گئے او ان کی گردنیں مار دی گئیں۔ ان کی چار سو تعداد تھی۔ پھر انہی گڑھوں میں وہ ڈال دئیے گئے۔ (۸) سب سے پہلے جس کی گردن ماری گئی وہ حیی تھا۔
حضرت سعد بن معاذؓ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں اور بنوقریظہ کا برا انجام انہوں نے دیکھ لیا۔ پھر وہ زیادہ زندہ نہ رہے جو دعاء غزوہ احد میں زخمی ہونے کے بعدانہوں نے کی تھی وہ قبول ہوگئی۔ اور اسی زخم سے ان کو شہادت نصیب ہوگئی۔
سوال جواب
۱)۔۔۔ غزوہ احزاب کو غزوہ خندق کیوں کہتے ہیں؟
اس لئے کہ اس غزوہ میں خندقیں کھودی گئی تھیں۔
۲)۔۔۔ غزوہ خندق کب اور کہاں لڑی گئی؟
ذی قعدہ ۵ ہجری میں لڑی گئی۔
۳)۔۔۔ خندقیں کس کے مشورے پر کھودی گئیں تھیں؟
حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ پر۔
۴)۔۔۔ قریش کو کن لوگوں نے جنگ کے لئے ابھارا؟
یہودیوں کے سردار حیی بن اخطب اور سلام بن ابی الحقیق نے۔
۵)۔۔۔ خندق کتنے لوگوں نے کھودی اور کتنے دن میں مکمل ہوئی؟
تقریباً تین ہزار افراد نے خندق کھودی اور چھ دن میں کام پورا ہوگیا۔
۶)۔۔۔ آپ ﷺ نے اپنی فوج کو کہاں ٹھہرایا وہاں سے خندق کتنی دور تھی؟
آپ ﷺ نے کوہ سلع میں فوج کو ٹھہرایا وہاں سے خندق تقریباً ۶ میل کے فاصلہ پر تھی۔
۷)۔۔۔ غزوہ خندق کے موقع پر آپ ﷺ نے عورتوں اور بچوں کو جس قلعہ میں محفوظ کر دیا تھا ،اس کی حفاظت کس کے ذمہ تھی؟
حضرت حسانؓ کے ذمہ۔
۸)۔۔۔ اس صحابیہ کا نام بتائیے جس نے اس یہودی کو قتل کر دیا تھا جو اس قلعہ کے گرد چکر کاٹ رہا تھا اور جس کو قتل کرنے سے حضرت حسانؓ نے بھی انکار کر دیاتھا؟
حضرت صفیہؓ یہ حضرت محمد ﷺ کی پھوپھی تھیں۔
۹)۔۔۔ غزوہ خندق میں کتنے مسلمان شہید اور کتنے کافر قتل کئے گئے؟
چھے یاآٹھ مسلمان شہید اور کفار کے تین افراد قتل کئے گئے۔
۱۰)۔۔۔ آپ ﷺ نے بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کرنے کا حکم کب دیا؟
ذی الحج ۵ ہجری کو۔
۱۱)۔۔۔ حمزہؓ نے کیانعرہ لگایا؟
مارو! خوب مارو
۱۲)۔۔۔ ابو دجانہ کون تھے؟
عرب کے مشہور پہلوان تھے۔
۱۳)۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے تلوار ہاتھ میں لے کر کیا فرمایا تھا؟
اس تلوار کا حق کون ادا کرے گا؟
۱۴)۔۔۔ حضرت ابودجانہ کا جنگی اسٹائل کیا تھا۔
آپ نے رسول اللہ ﷺ سے تلوار لی اور موت کا رومال سرپر باندھ کر دشمن کی فوج میں گھس کر دشمن کا صفایا کرنا شروع کر دیا۔
۱۵)۔۔۔ ابودجانہؓ نے عتبہ کی بیٹی کو قتل کیوں نہیں کیا؟
کیونکہ عورت کو مارنا مسلمان کی تلوار کی توہین تھی اور اسلام میں ایسا کرنا منع ہے۔
۱۶)۔۔۔ حضرت حمزہؓ کیسے جنگ کرتے تھے؟
حضرت حمزہؓ دونوں ہاتھوں میں تلوار لے کر دشمن کا مقابلہ کرتے تھے۔
۱۷)۔۔۔ حضرت حمزہؓ کو کس نے شہید کیا؟
حضرت حمزہؓ کو وحشی بن حرب نے شہید کیا۔
۱۸)۔۔۔ غزوہ احد میں مسلمان مورچے چھوڑ کر کیوں ہٹ گئے تھے؟
اس لئے کہ وہ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ جنگ ختم ہوگئی۔
۱۹)۔۔۔ جنگ احد میں حضور ﷺ کی شہادت کی جو افواہ پھیلی اس کی کیا وجہ تھی؟
حضرت مصعب بن عمیرؓ جو صورت میں آپ ﷺ کے مشابہ تھے انہیں ابن قمیہ نے شہیدکرکے شور مچادیا کہ محمد ﷺ شہید ہوگئے۔
۲۰)۔۔۔ بنو قریظہ کے کتنے لوگوں کو قتل کیا گیا؟
چار سو۔
۲۱)۔۔۔ حضرت سعدؓ نے شہادت کی دعا کب مانگی تھی کب پوری ہوئی؟
حضرت سعدؓ نے غزوہ احد میں یہ دعا مانگی تھی اور غزوہ خندق کے بعد پوری ہوئی۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ فتح الباری ج/۷ ص/۳۹۳، اور سیرت ابن ہشام ج/۲ ص/۲۲۴، سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۳۹۲،
۲۔ یہی قول زیادہ مشہور ہے، فتح الباری ج/۵ ص/۴۴،
۳۔ فتح الباری ج/۷ ص/۳۹۳ ، سیرت ابن ہشام ج/۲ ص/۲۲۴، طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۶۶، سیرت حلبیہ ج/۴ ص/۳۹۲،
۴۔ فتح الباری ج/۷ ص/۸۰
۵۔ سورۂ الاحزاب / آیت نمبر ۲۵،
۶۔ طبقات ابن سعد ج/۳ ص/۷۴،
۷۔ فتح الباری ج/۲ ص/۱۲۰ ، صحیح مسلم شرح النووی ج/۵ ص/۱۶۰،
۸۔ چار سوتا آٹھ سو تعداد بیان کی گئی ہے۔
۱۲۔ صلح حُدیبیہ
مکہ مسلمانوں کا آبائی وطن تھا لیکن ظالمانہ طورپران کو وہاں سے نکال دیا گیا تھا جس کا انہیں دکھ تھا۔ ہر مسلمان دوبارہ مکہ جانا چاہتا تھا، آپ ﷺ نے ایک دن خواب دیکھا کہ صحابہؓ کے ساتھ مکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے صحابہؓ کو خواب سنایا تو چودہ سو صحابہؓ مکہ جانے کے لئے تیار ہوگئے۔(۱) یہ ۶ہجری ذی قعدہ کا مہینہ تھا۔(۲) آپ ﷺ مکہ کے نزدیک عسفان پر ٹھہرے۔ وہاں بنی خزاعہ کے بشر بن سفیان سے اطلاع ملی کہ اہل مکہ بہت مشتعل ہیں اور خالد بن ولید راستے میں مورچہ بند ہوکر حملہ کرنے کے منتظر ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہم لڑنے نہیں بیت اللہ کی زیارت کے لئے نکلے ہیں۔(۳) آپ ﷺ قبیلہ اسلم کے ایک شخص کی رہنمائی میں راستہ بدل کر حدیبیہ پہنچ گئے۔(۴) یہاں بنی خزاعہ کا سردار بُدیل اہل مکہ کی طرف آپ ﷺ سے ملنے آیا۔(۵)پھر حلیس بن علقمہ آیا۔ آپ ﷺ نے سب سے کہا ہم بیت اللہ کی زیارت کرکے چلے جائیں گے۔(۶) آپ ﷺ نے اپنی طرف سے حضرت عثمانؓ کو سفیر بناکر مکہ بھیجا۔ مشرکین کہنے لگے تم عمرہ کرلو تمہارے نبی کو نہیں کرنے دیں گے، عثمانؓ نے فرمایا پھر میں بھی نہیں کروں گا۔(۷)
بیعت رضوان:
حضرت عثمانؓ ابھی مکہ میں بات چیت کر رہے تھے کہ افواہ اڑگئی کہ انہیں اہل مکہ نے شہید کر دیا ہے۔ آپ ﷺ کو بہت دکھ ہوا۔ آپ ﷺ نے تمام صحابہؓ سے خون عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لئے موت پر بیعت لی۔(۸) سب سے پہلے ابوسنان اسدیؓ نے بیعت کی۔(۹) اللہ کو یہ بیعت بہت پسند آئی، قرآن کریم میں اس کا ذکر موجود ہے۔
جنہوں نے رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی گویا انہوں نے اللہ سے بیعت کی۔(۱۰)
صلح حدیبیہ اور صلح کی شرائط:
جب مشرکین مکہ کو اس بیعت کا پتہ چلا تو وہ بہت خوفزدہ ہوئے، انہوں نے اپنی طرف سے تیسرے سفیر خطیب قریش سہیل بن عمرو کو صلح کے لئے بھیجا۔
رسول خدا ﷺ : صلح کے لئے آپ کی کیا کیا شرطیں ہیں؟
سُہیل: اس سال آپ ﷺ طواف کئے بغیر لوٹ جائیں۔ پھر اگلے سال آئیں اور صرف تین دن رہ کر چلے جائیں۔ تلوار کے سوا کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اورتلواریں بھی نیام میں ہوں۔
رسول اللہ ﷺ : اور؟
سہیل : قریش کا کوئی شخص مسلمان ہوکر مدینہ جائے، تو اسے واپس کر دیا جائے گا، اور اگر کوئی مسلمان مدینہ چھوڑ کر مکہ میں آ جائے گا، تو ہم اُسے واپس نہیں کریں گے۔
یہ سن کر آپ ﷺ نے آنکھیں بند کرلیں۔ اور کچھ دیر بالکل خاموش رہے کہ وحی کے وقت آپ ﷺ کی یہی حالت ہوتی تھی۔ ادھر مسلمان اس ظالمانہ شرط پر غصہ سے کھول رہے تھے۔ لیکن وہ ضبط کئے رہے۔ پھر آ پ ﷺ نے آنکھیں کھولیں اور فرمایا:
اور؟
سہیل : دس سال تک صلح رہے گی۔ ہر ایک کو امن حاصل ہوگا، اور کوئی کسی سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گا۔
رسول اللہ ﷺ : اور؟
سہیل : عرب کا جو قبیلہ جس فریق کے ساتھ چاہے، معاہدہ میں شریک ہوجائے۔
یہ ہیں قریش کی شرطیں۔ بات بگڑنے سے پہلے آپ ﷺ سوچ لیجئے۔ لوگوں کو آپ ﷺ کی تدبیر و حکمت سے بڑی امیدیں ہیں۔
آپ ﷺ نے یہ شرطیں منظور کرلیں۔(۱۱) اور حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ صلح نامہ لکھیں۔(۱۲)
مسلمانوں نے یہ دیکھا،تو انہیں بہت ناگوار ہوا۔ حضرت عمرؓ پر سب سے زیادہ اثر ہوا۔ چنانچہ وہ اٹھ کر آپ ﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا:
کیا آپ ﷺ خدا کے رسول نہیں ہیں؟
رسول خدا ﷺ : ہاں ہوں۔
عمرؓ : کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟
رسول خدا ﷺ : ہاں، ہم مسلمان ہیں۔
عمرؓ : کیا وہ مشرک نہیں ہیں؟
رسول خدا ﷺ : ہاں، اس میں کیا شبہ ہے۔
عمرؓ : تو ہم دین میں یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟ اس طرح دب کر کیوں صلح کریں؟
رسول خدا ﷺ : عمرؓ! میں خدا کا بندہ اور رسول ﷺ ہوں۔ یہ اسی کا فیصلہ ہے وہ مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا۔
یہ سن کرحضرت عمرؓ جذباتی ہوگئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔(۱۳)
حضرت علیؓ نے آپ ﷺ کے حکم سے صلح نامہ لکھا اور دونوں طرف کے افراد نے اس پر دستخط کئے، چونکہ صلح حدیبیہ نامی جگہ میں ہوئی اس لئے اسے صلح حدیبیہ کہاجاتا ہے۔
ابوجندلؓ اور معاہدہ کی آزمائش:
ابھی معاہدہ لکھا جا رہا تھا۔ ایک مظلوم مسلمان مکہ سے فرار ہوکر پہنچ گیا۔ سہیل نے ابوجندلؓ کو دیکھا تو جیسے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی، اس نے آپ ﷺ سے کہا:
یہ میرا لڑکا ہے، میں اس کا ولی ہوں۔ اگر اسے روک لیاگیا تو معاہدہ کی خلاف ورزی ہوگی۔
حضور ﷺ : ابھی معاہدہ لکھا کب گیا؟
سہیل : تو ہم کو صلح بھی منظور نہیں۔
حضور ﷺ : اچھا، انہیں یہیں چھوڑ دو۔
سہیل : یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔
حضور ﷺنے کئی بار کہا لیکن وہ تیار نہ ہوا، اور اپنی ضد پر اڑا رہا، اس پر آپ ﷺ کو بہت ملال ہوا۔(۱۴) چنانچہ کچھ دیر سرمبارک جھکا رہا۔ پھر آپﷺ نے ابوجندل رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کیا، اور انتہائی درد بھرے لہجہ میں فرمایا:
ابوجندلؓ! صبر سے کام لو، خدا تمہارے لئے اور دوسرے مظلوموں کے لئے ضرور کوئی راہ نکالے گا۔ اب صلح ہو چکی ہے۔ ہم بدعہدی نہیں کرسکتے۔(۱۵)
مسلمان یہ منظر دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ معاہدہ سے پہلے ہی دل افسردہ تھے مزید ایک اور واقعہ پیش آ گیا۔
ابوبصیرؓ اور معاہدہ کی آزمائش:
ابوبصیرؓ بھی مکہ سے بھاگ کر مدینہ پہنچ گئے اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا، اور آپ ﷺ سے پناہ مانگی۔ بہت ہی مخلص اورنیک دل مسلمان کافروں کے ظلم سے تنگ آکر بھاگے کہ مدینہ میں پناہ مل جائے، مگر پیچھے پیچھے مکہ سے دوآدمی اورآئے اور ان دونوں نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
پیارے نبی ﷺ مجبور تھے۔ دل پر پتھر رکھ کر اس غریب کو ان دونوں کے حوالے کر دیا۔ دونوں نے مسلمانوں کے سامنے انہیں قید کیا، اور ساتھ لے کر مکہ چلے، مسلمان حسرت و افسوس سے انہیں تکتے رہے۔ اُن کی مظلومی اوراپنی بے بسی پر آنسو بہاتے رہے۔(۱۶)
دونوں آدمی حضرت ابوبصیرؓ کو لے کر ذوالحلیفہ پہنچے۔ وہاں موقع ہاتھ آ گیا اور حضرت ابوبصیرؓ نے ایک کو قتل کر دیا، اب دوسرا اپنی جان بچانے کے لئے سر پر پیر رکھ کر بھاگا اور مدینہ پہنچ کر آپ ﷺ سے شکایت کی۔ کچھ ہی دیر میں ابوبصیرؓ بھی آ پہنچے۔ عرض کیا: حضور ﷺ ! آپ ﷺ نے تو مجھے واپس کر دیا تھا۔ اب آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ یہ کہہ کر وہ مدینہ سے چلے گئے۔ (۱۷)
مظلوموں کا چھاپہ ماردستہ :
یہ سارے مظلوم مدینہ آ نہیں سکتے تھے۔ مکہ میں رہ نہیں سکتے تھے لہٰذا سب نے ساحل پر رہنا شروع کر دیا ،ساحل سمندر پر جب قریش کا کوئی قافلہ ادھر سے گزرتا تو اس پر چھاپہ مارتے اور جو کچھ ہاتھ آتا، لے بھاگتے، مکہ میں بہت سے مسلمان پڑے ہوئے تھے اور قریش کی بی دردیوں کا نشانہ بن رہے تھے۔ معاہدہ کی وجہ سے وہ مدینہ بھی نہیں جاسکتے تھے۔ انہیں جب پتہ چلا کہ ایک نیاٹھکانا پیدا ہوگیا ہے۔ تو وہ بھی بھاگ بھاگ کر وہیں آ گئے۔ اس طرح ایک طاقت ور ٹولی تیار ہوگئی۔ جس نے قریش کے قافلوں کا ناک میں دم کر دیا۔ وہ ان کا سارا سامان لوٹ لیتے اور پہاڑی دروں میں جا چھپتے۔ قریش نے بہت کوشش کی، لیکن ان پر قابو نہ پاسکے۔ بالاخر وہ عاجز آ گئے۔ اور انہوں نے رسول خدا ﷺ کے پاس کہلابھیجا کہ ’’ہم اپنی شرط سے باز آئے آپ ﷺ ساحلی مسلمانوں کو اپنے پاس بلا لیجئے۔ آپ ﷺ نے ان سارے مسلمانوں کو مدینہ بلالیا۔(۱۸)
مسلمانوں کی یہی وہ عظیم فتح تھی جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا تھا، آپ دیکھیں گے اس معاہدے کے سبب لوگ لشکروں کی شکل میں اسلام قبول کریں گے۔(۱۹)
سوال جواب
۱)۔۔۔ ۶ھ کا سب سے بڑا واقعہ کیا ہے؟
صلح حدیبیہ۔
۲)۔۔۔ حدیبیہ کیا ہے؟ یہاں حضور ﷺ کیوں تشریف لے گئے تھے؟
حدیبیہ ایک کنویں کا نام ہے، حضور ﷺ عمرہ کے لئے نکلے تھے۔
۳)۔۔۔ آپ ﷺ نے کیا خواب دیکھا تھا؟
مکہ کی زیارت کا خواب دیکھا تھا۔
۴)۔۔۔ مکہ کی زیارت کے لئے آپ ﷺ اور صحابہ کرامؓ کب روانہ ہوئے؟اور کتنے مسلمان ہمراہ تھے۔
۶ ہجری ذی قعدہ کے مہینے میں چودہ سو افراد کے ہمراہ نکلے تھے۔
۵)۔۔۔ آپ ﷺ نے اپنا سفیر بناکر کس صحابی کو مکہ بھیجا؟
حضرت عثمانؓ
۶)۔۔۔ مشرکین نے حضرت عثمانؓ کو کیا جواب دیا؟
حضرت عثمانؓ سے کہا تم عمرہ کرلو تمہارے نبی کو عمرہ نہیں کرنے دیں گے۔
۷)۔۔۔ عثمانؓ نے کیا جواب دیا؟
فرمایا پھر میں بھی نہیں کروں گا۔
۸)۔۔۔ بیعت رضوان کس بیعت کانام ہے اور کیوں لی گئی تھی؟
حدیبیہ میں آپ ﷺ کو خبر ملی کہ عثمانؓ قتل کر دیئے گئے تو آپ ﷺ نے تمام صحابہ سے ببول کے درخت کے نیچے بیعت لی جس میں عہد کیاکہ عثمان کے خون کا بدلہ لیں گے، جسے بیعت رضوان کہتے ہیں۔
۹)۔۔۔ سب سے پہلے کس نے بیعت کی؟
ابوسنانؓ نے۔
۱۰)۔۔۔ کس بیعت کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے؟
بیعت رضوان کا۔
۱۱)۔۔۔ مشرکین مکہ کو جب اس بیعت کا علم ہوا تو انہوں نے کیا کیا؟
مشرکین بہت خوفزدہ ہوئے اور آپ ﷺ کے پاس صلح کے لئے سفیر بھیجا۔
۱۲)۔۔۔ یہ صلح کہاں پر ہوئی اور کس نام سے مشہور ہے؟
یہ حدیبیہ کے مقام پر ہوئی اور صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔
۱۳)۔۔۔ صلح نامہ کس نے تحریر کیا؟
حضرت علیؓ نے۔
۱۴)۔۔۔ معاہدہ کے وقت کیا واقعہ ہوا؟
نومسلم بوجندلؓ وہاں آئے اور آپ ﷺ سے مدد طلب کی لیکن معاہدہ کی رو سے آپ ﷺ ان کی مدد نہیں کرسکتے تھے۔ اس لئے آپ ﷺ نے انہیں مشرکین کے حوالہ کر دیا۔
۱۵)۔۔۔ مشرکین کی طرف سے صلح کس نے کی؟
قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو تھے۔
۱۶)۔۔۔ ابوبصیرؓ کی کیا آزمائش ہوئی؟
ابوبصیرؓ بھی معاہدہ ہونے کے بعد پناہ مانگنے مدینے آئے، مگر معاہدے کی وجہ سے انہیں بھی واپس کر دیا گیا۔
۱۷)۔۔۔ ابوبصیرؓ نے کس کوقتل کیا تھا؟
جو لوگ انہیں واپس مدینہ لے جانے آئے تھے راستے میں ایک کو ابوبصیرؓ نے قتل کر دیا اور خود بھاگ گئے۔
۱۸)۔۔۔ ساحلی مسلمان کون تھے، اور قریش ان سے کیوں پریشان تھے؟
مکہ کے مسلمان کافر کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ساحل پر رہنے لگے تھے کیونکہ معاہدہ حدیبیہ کی وجہ سے مدینہ نہیں جاسکتے تھے اورایک طاقتور ٹولہ تیار ہوگیا جو کہ قریش کے قافلوں کو لوٹ لیا کرتا تھا۔
۱۹)۔۔۔ قرآن کریم نے کس فتح کی طرف اشارہ کیا تھا؟
صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا ہے۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ فتح الباری حدیث نمبر ۳۵۷۶، صحیح مسلم کتاب الامارہ ص/۷۳، اور سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۵۳
۲۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۳۳۴،
۳۔ سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۵۵۔۵۶ ، طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۹۵،
۴۔ حدیبیہ کی تحقیق ملاحظہ کریں سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۵۱،
۵۔ سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۳۰۸، اور سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۶۲،
۶۔ سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۶۴،
۷۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۳۳۷،
۸۔ فتح الباری ج/۶ ص/۱۱۸، حدیث نمبر ۴۱۶۹، صحیح مسلم کتاب الامارہ ص/۸۱،
۹۔ الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ ص/۹۵،
۱۰۔ سورۂ الفتح ۴۸/ آیت نمبر ۱۸،
۱۱۔ سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۴۳۹، سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۸۵۔۸۶،
۱۲۔ صحیح مسلم ج/۳ ص/۱۴۱۰، حدیث نمبر ۱۷۸۳،
۱۳۔ فتح الباری حدیث نمبر ۲۷۳۱، صحیح مسلم ج/۳ ص/۱۴۱۲، حدیث نمبر ۱۷۸۵،
۱۴۔ صحیح مسلم ج/۳ ص/ ۱۴۱۰ حدیث نمبر ۱۷۸۳، سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۸۸
۱۵۔ مسند احمد ج/۴، ص/۳۲۵، سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۸۹،
۱۶۔ سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۱۰۱،
۱۷۔ ایضاً، ص/۱۰۲،
۱۸۔ فتح الباری ج/۵ ص/ ۳۳۲، حدیث نمبر ۲۷۳۲، اور سیرت حلبیہ ج/۵ ص/۱۰۴
۱۹۔ سورۂ نصر ۱۱۰/ آیت نمبر ۲،
۱۳۔ فتح مکہ
مکہ وہی شہر ہے جہاں سے مسلمان نکالے گئے، مگر صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں دشمنی کم ہوئی اور لوگ اسلام کی طرف تیزی سے مائل ہونے لگے۔ ۸ ہجری کی بات ہے قریش کی صفوں سے بہت سے نامور بہادر ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کی گود میں آگئے، خالد بن ولیدؓ اور عمرو بن العاصؓ کا اسلام بھی اسی زمانہ کی یادگار ہے۔ حضرت خالدؓ قریش کے سب سے بڑے سپہ سالار تھے اور حضرت عمرو بن العاصؓ ’’عرب کا دماغ‘‘ سمجھے جاتے تھے۔(۱) آگے چل کر یہی دونوں اسلامی فوج کے مشہور کمانڈر بنے۔ ایک نے شام میں اسلام کا جھنڈا لہرایا، تو دوسرا فاتح مصر کے نام سے مشہور ہوا۔
مسلمانوں کے حلیف بنی خزاعہ کا قتل عام:
خزاعہ اور بکر عرب کے دو مشہور قبیلے تھے۔ ان میں ایک زمانہ سے دشمنی چلی آ رہی تھی۔ مگر جب اسلام ان کے سامنے خطرہ بن کر ظاہر ہوا تو وہ آپس میں دشمنی بھول گئے اور اسلام کو مٹانے میں تن من سے لگ گئے۔ پھر حدیبیہ کی صلح ہوئی تو بکر نے سوچا کہ اب اسلام کا خطرہ جاتا رہا۔ لہٰذا اب دشمن سے بدلہ لینے کا وقت آ گیا، اور انہوں نے خزاعہ پر حملہ کر دیا۔ صلح حدیبیہ کی رو سے کچھ قبیلوں نے مکہ والوں کا ساتھ دیا تھا، اور کچھ مسلمانوں کے ساتھ ہوگئے تھے، خزاعہ کا قبیلہ چونکہ مسلمانوں کا ہمدرد تھا، اس لئے وہ مسلمانوں کے ساتھ ہوگیا تھا اور ان کے دشمن بکر قریش کے ساتھ تھے۔ قریش کے کسی بھی ساتھی قبیلہ کا مسلمانوں کے کسی بھی ساتھی قبیلہ پر حملہ کرنا دراصل معاہدہ کو توڑنا تھا۔ بکر نے خزاعہ پر حملہ کیا تھا۔ یہی بات حدیبیہ کا معاہدہ توڑنے کے لئے کافی تھی۔ لیکن اسی پر بس نہ تھا۔ قریش نے بھی بکر کی مدد کی او ان کے بہادروں نے صورتیں بدل بدل کر خزاعہ پر تلواریں چلائیں۔ خزاعہ نے مجبور ہوکر حرم میں پناہ لی۔ مگر ظالموں نے حرم کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا، اور اس میں گھس گھس کر بے دھڑک خون بہایا، تقریباً بیس افراد قتل ہوئے، کسی طرح کچھ آدمی بھاگ کر مدینہ پہنچے اور انہوں نے آپ ﷺ سے فریاد کی۔(۲) خزاعہ کی مظلومی کی داستان سنی، تو آپ ﷺ کو بڑا رنج ہوا۔
آپ ﷺ کا صلح حدیبیہ پر اصرار اور اہل مکہ کا انکار:
معاہدہ کی رو سے مدد آپ ﷺ پر فرض تھی۔ لہٰذا آپ ﷺ نے فوراً قریش کے پاس آدمی دوڑایا، اور تین شرطیں پیش کیں، کہ ان میں سے کوئی ایک منظور کرو۔
۱۔ خزاعہ کے جتنے آدمی مارے گئے، ان کا خون بہا ادا کرو۔
۲۔ بکر سے الگ ہو جاؤ۔
۳۔ اعلان کر دو کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
قریش کا ایک سردار سب کی طرف سے بولا: تیسری شرط منظور ہے۔ اب ہم میں کوئی معاہدہ نہیں رہا۔ کہنے کو تو یہ کہہ دیاگیا، لیکن آدمی چلا گیا تو قریش بہت پچھتائے اور انہوں نے فوراً ابوسفیان کو سفیر بناکر مدینہ دوڑایا کہ معاہدہ کو وہ تازہ کرے۔(۳) اور آپ ﷺ سے مزید مہلت مانگے۔ مگر آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا۔
مسلمانوں کا مکہ پر حملہ
اِدھر رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور اسلامی قبائل کے نام پیغام بھیجا۔
جو خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہو، وہ رمضان سے پہلے ہی مدینہ آ جائے۔
چنانچہ مسلمانوں نے آپ ﷺ کی آواز پر لبیک کہا اور مختلف قبیلوں نے پوری تیاری کے ساتھ مدینہ کا رخ کیا۔ پھررمضان کی دسویں تاریخ کو ہجرت کے آٹھویں سال۔(۴) پیارے نبی ﷺ دس ہزار جاں نثاروں کے ساتھ مکہ کی طرف انتہائی رازداری کے ساتھ بڑھے۔(۵)
مکہ اب بالکل سامنے تھا۔ آپ ﷺ نے لشکر کو کئی حصوں میں تقسیم کیا اور ہر جماعت کا الگ الگ کمانڈر بنایا۔ نیز سب کو حکم دیا کہ شہر میں الگ الگ راستوں سے داخل ہوں اور جب تک کوئی پہل نہ کرے، اس پر ہاتھ نہ اٹھائیں۔
آج تو امن و امان اوراطمینان کا دن ہے۔ ابوسفیانؓ کے گھر میں جو داخل ہو جائے اس کو امان ہے۔
جو گھر کا دروازہ بند کرے، اس کو امان ہے۔
جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے، اس کو امان ہے۔
یہ خوش خبری پورے شہر میں آناً فاناً پھیل گئی اور لرزتے کانپتے دلوں کو سکون و اطمینان کی ٹھنڈک نصیب ہوئی۔(۶)
فتح مبین
لشکرِ اسلام مکہ میں داخل ہوا تو مشرکوں نے ہتھیار ڈال دئیے، اور گھروں کے دروازے بند کرکے چھتوں اورجھروکوں سے جھانکنے لگے آج لشکرِ اسلام، گہوارۂ اسلام میں داخل ہو رہا تھا۔
مسلمان نہایت حکمت سے شہر میں داخل ہوگئے۔ پورے امن و اطمینان کے ساتھ کہ نہ کہیں تلوار چلی نہ خون بہا، سوائے چند افراد کے۔(۷)
کعبہ کو کفر و شرک سے پاک کرنا:
جب پوری طرح سکون ہوگیا، اور حالات معمول پر آ گئے۔ تو آپ ﷺ نے خانہ کعبہ کا ارادہ کیا۔ خدا کی شان، وہی گھر جو خلیل اللہ کی تعمیر تھا اور وہی کعبہ جو رسولِ ﷺ بت شکن کی یادگار تھا، آج تین سو ساٹھ بتوں سے معمور تھا۔ رسولِ اللہ ﷺ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی۔ اس کی نوک سے آپ ﷺ بتوں کو ٹھوکے دیتے جاتے۔(۸) اور زبان مبارک سے یہ کلمات ادا ہوتے:
جَآءَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ O اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا O (۹)
حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، بلاشبہ باطل کو تو مٹنا ہی تھا۔
آپ ﷺ نے کعبہ کی کنجی منگائی، اور دروازہ کھلوایا۔ دیکھا تو اندر ابراہیم علیہ السلام جو خود بت شکن تھے انہی کی تصویر تھی، اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی بھی، اور ہاتھوں میں پانسے (جوا کھیلنے) کے تیر تھے۔ آپ ﷺ نے انہیں مٹانے کا حکم دیا۔ (۱۰) پھر فرمایا:
خدا ظالموں کو غارت کرے۔ یہ بے چارے تو خدا کے پیغمبر تھے۔ جو شرک اور جوے بازی سے نفرت کرتے تھے۔
حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے اور جتنی تصویریں تھیں، سب مٹا دیں۔ خانۂ خدا بالکل پاک صاف ہوگیا، تو آپ ﷺ اندر تشریف لے گئے، ساتھ میں حضرت بلالؓ اور حضرت طلحہؓ بھی تھے۔ وہاں آپ ﷺ نے نماز ادا کی چند بار تکبیریں کہیں۔(۱۱)
اہل مکہ کے لئے عام معافی:
کعبہ کے سامنے اہلِ مکہ کا ہجوم تھا۔ لوگ قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے بے تاب کھڑے تھے۔ اس وقت زبانِ مبارک سے یہ یادگار فقرے سنے گئے:
قریش کے لوگو! جانتے ہو، میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والا ہوں؟
سب ایک ساتھ پکار اُٹھے:
خَیْراً اَخُ‘ کَرِیْمُ‘ وَّ ابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ
اچھا سلوک۔ آپ ﷺ اچھے بھائی ہیں اور اچھے بھائی کے بیٹے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْھَبُوْا فَانٰتُمْ الطُّلَقَاءُ
آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔(۱۲)
یہ تھا ہمارے نبی ﷺ کا اسوۂ حسنہ۔ اور رواداری جسے آپ ﷺ نے عملاً نافذ کرکے دکھایا اور رہتی دنیا تک کے لئے مثال بنا دیا۔
سوال جواب
۱)۔۔۔ ۸ھ میں قریش کے کن نامور بہادروں نے اسلام قبول کیا؟
حضرت خالد بن ولیدؓ اور عمرو بن العاصؓ نے،
۲)۔۔۔ خالد بن ولیدؓ اسلام سے قبل کس وجہ سے مشہور تھے، اور اسلام لانے کے بعد کس وجہ سے مشہور ہوئے؟
حضرت خالدؓ قریش کے سب سے بڑے سالار تھے جو بعد میں اسلامی فوج کے کمانڈر بنے۔
۳)۔۔۔ عمرو بن العاصؓ کو اسلام سے پہلے اور بعد میں کیا اعزاز ملا تھا؟
اسلام لانے سے قبل عمرو بن العاصؓ کو عرب کا دماغ سمجھا جاتا تھا اور بعد میں وہ فاتح مصر کے نام سے مشہور ہوئے۔
۴)۔۔۔ عرب کے کن قبیلوں میں صدیوں سے دشمنی چلی آ رہی تھی؟
خزاعہ اور بکر میں۔
۵)۔۔۔ قریش نے حدیبیہ کا معاہدہ کس طرح توڑا تھا؟
مسلمانوں کے ساتھی قبیلہ خزاعہ پر حملہ کرکے ان کے بیس افراد کو قتل کرکے۔
۶)۔۔۔ مسلمانوں اور قریش کے ساتھ کونسا قبیلہ ملا ہوا تھا؟
قریش کے ساتھ بکر کا قبیلہ ملا ہوا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ بنی خزاعہ کا قبیلہ تھا۔
۷)۔۔۔ قبیلہ خزاعہ نے آپ ﷺ سے مدد طلب کی تو آپ نے کیا کیا؟
معاہدہ کی رو سے آپ ﷺ پر ان کی مدد فرض تھی اس لئے قریش کے پاس اپنے آدمی کو تین شرطیں لے کر بھیجا۔
۱۔ خون بہا ادا کرو، ۲۔بکر سے الگ ہو جاؤ، ۳۔ اعلان کرو معاہدہ حدیبیہ ٹوٹ گیا۔
۸)۔۔۔ قریش نے کونسی شرط قبول کی؟
تیسری شرط قبول کی، یعنی معاہدہ حدیبیہ ختم کر دیا۔
۹)۔۔۔ قریش کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے کیا کیا؟
انہوں نے فوراً ابوسفیان کو دوڑایا کہ معاہدہ کی تجدید کریں مگر آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا خاموشی اختیار کئے رکھی۔
۱۰)۔۔۔ آپ ﷺ نے مکہ پر حملے کے ارادے سے مسلمانوں کو جنگ کی تیاری کا حکم کب دیا؟
معاہدہ حدیبیہ ٹوٹنے کے بعد ۸ ھ میں۔
۱۱)۔۔۔ آپ ﷺ نے اسلامی قبیلوں کے نام کیا پیغام بھیجا؟
جو خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ رمضان سے پہلے مدینہ آ جائے۔
۱۲)۔۔۔ آپ ﷺ مکہ کے لئے کب اور کتنا لشکر لے کر روانہ ہوئے؟
رمضان کی دسویں تاریخ کو ہجرت کے آٹھویں سال آپ ﷺ دس ہزار جاں نثاروں کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔
۱۳)۔۔۔ ابوسفیان کی کنیت کیا تھی؟
ابوحنظلہ
۱۴)۔۔۔ آپ ﷺ نے ابوسفیان کو کیا اعزاز بخشا؟
فرمایا: جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کو امان ہے۔
۱۵)۔۔۔ فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ میں کتنے بت تھے؟
۳۶۰ بت تھے۔
۱۶)۔۔۔ کعبہ کا دروازہ کھولنے پر آپ ﷺ کو کن پیغمبروں کی تصویریں ملیں؟
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی۔
۱۷)۔۔۔ آپ ﷺ نے تصویریں مٹانے کا حکم کسے دیا؟
حضرت عمرؓ کو۔
۱۸)۔۔۔ اہل مکہ کے ساتھ آپ ﷺ نے کیا سلوک فرمایا؟
عام معافی کا اعلان کیا۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۳۴۳،
۲۔ سیرت ابن ہشام ج/۲ ص/۳۸۹،
۳۔ فتح الباری ج/۸ ص/۶ حدیث نمبر ۴۲۸۰، البدایۃ والنہایۃ ابن کثیر ج/۴ ص/۲۸۱، سیرت ابن ہشام ج/۲ ص/۳۸۹،
۴۔ صحیح مسلم شرح النووی ج/۳ ص/۱۷۶، حدیث نمبر ۱۱۳،
۵۔ طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۳۹۷،
۶۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۳۶۸،
۷۔ اس میں اختلاف ہے کتنے افراد واجب القتل قرار دئے گئے، زیادہ سے زیادہ بارہ افراد بیان کئے گئے ہیں۔ سیرت ابن ہشام ج/۲ ص/۴۰۷، بعض نے تعداد ۲۴ تک بیان کی، طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۱۲۶،
۸۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ص/۳۶۹،
۹۔ سورۂ الاسراء / آیت نمبر ۸۱،
۱۰۔ فتح الباری ج/۵، ص/۱۸۸، حدیث نمبر ۳۳۵۱،
۱۱۔ فتح الباری ج/۵ ص/۲۲۲، حدیث نمبر ۴۴۰۰،
۱۲۔ طبقات ابن سعد ج/۲ ض/
۱۴۔نبی کریم ﷺ کا سفر آخرت
۲۵؍ ذی القعدہ ہجرت کا دسواں سال تھا۔ پیارے نبی ﷺ حج کے ارادے سے مکہ روانہ ہوئے۔ آپ ﷺ کے ساتھ ایک لاکھ سے زیادہ جاں نثاروں کا قافلہ تھا۔ اس حج کو ’’حجۃ الوداع‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ حج آپ ﷺ کا آخری حج تھا۔ اس کے بعد آپ ﷺ کو مکہ، خانہ کعبہ اور عرفات کی زیارت کا موقع نہ مل سکا۔
خطبہ حجۃ الوداع :
اسے ’’حجۃ البلاغ‘‘ بھی کہتے ہیں۔
کیونکہ رب کا جو پیغام پہنچانے کے لئے آپ ﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے وہ یہاں پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔
وہ پیغام تھا، دین اسلام
حج کے موقع پر حضور ﷺ نے مسلمانوں میں ایک تقریر بھی کی۔ وہ تقریر حقیقت میں اسلام کا آئین تھی۔ تقریر شروع کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا:
پیارے بھائیو! میں جو کچھ کہوں، غور سے سننا، کیونکہ مجھے نہیں معلوم! ہوسکتا ہے اس سال کے بعد میں تم سے یہاں نہ مل سکوں! اس کے بعد آپ ﷺ نے سارے مسلمانوں کو آخری وصیتیں کیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت مضبوطی سے پکڑے رہنا۔
لوگوں کی جان، مال اور عزت کا خیال رکھنا۔
کوئی امانت رکھے تو اس میں خیانت نہ کرنا۔
لوگوں کو ناحق قتل نہ کرنا، سودی مال نہ کھانا۔
پیارے نبی ﷺ نے تقریر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ:
مسلمان آپس میں کیسے رہیں! پھر عام انسانوں کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہو، نیز آپ ﷺ نے مساوات پر بہت زور دیا۔ اور اُونچ نیچ، اورذات پات کی زنجیروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
لوگو!
تمہارا رب ایک ہے۔
تمہارا باپ ایک ہے۔
تم سب آدم ؑ کے بیٹے ہو۔ اور آدمؑ مٹی سے بنے ہیں۔
خدا کے نزدیک تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو خدا سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔
سن لو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری نہیں۔ برتری کا معیار تو صرف تقویٰ ہے۔
تقریر سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
اے اللہ! کیا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا؟
ایک لاکھ زبانیں ایک ساتھ بول اٹھیں:
ہاں، اے اللہ کے رسولﷺ !
پیارے نبی ﷺ نے تین بار فرمایا:
اے خدا! تو گواہ رہ (۱)
تقریر ہو چکی تو حضرت بلالؓ نے اذان دی، اور آپ ﷺ نے ظہر اور عصر کی نماز ادا فرمائی۔ ٹھیک جب آپ ﷺ نبوت کا یہ آخری فرض ادا کر رہے تھے۔ خدا کی بارگاہ سے یہ بشارت آئی۔
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْناً (۲)
آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا، اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا۔
پیارے نبی ﷺ نے یہ آیت پڑھی تو حضرت ابوبکرؓ رو پڑے۔ کیونکہ وہ سمجھ گئے کہ اب آپ ﷺ کے دنیا سے رخصت کے دن آ گئے۔
آپ ﷺ کی زندگی کے آخری دن
حجۃ الوداع کو ابھی تین ماہ گزرے تھے کہ آپ ﷺ بیمار ہوگئے اور یہ بیماری اسی زہر کا اثر تھا جو فتح خیبر کے موقع پر ایک یہودی عورت نے گوشت میں ملاکر کھلایا تھا۔(۳)
یہ گیارہویں ہجری ربیع الاوّل کا مہینہ تھا(۴) حضور ﷺ کا معمول تھا کہ ایک ایک دن ہر بیوی کے یہاں قیام فرماتے، بیماری کی حالت میں بھی آپ ﷺ کے اس معمول میں فرق نہ آیا۔ باری باری آپ ﷺ ہر بیوی کے یہاں تشریف لے جاتے رہے۔ پانچ دن تک یوں ہی چلتا رہا۔ پھر حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ یہاں تک کہ چلنے پھرنے کی طاقت نہ رہی۔
آپ ﷺ حضرت عائشہؓ کے پاس:
مجبوراً آپ ﷺ نے ساری بیویوں کو بلایا اور ان سے حضرت عائشہؓ کے ہاں ٹھہرنے کی اجازت لی۔ کیونکہ حضرت عائشہؓ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ چنانچہ ساری بیویاں بخوشی تیار ہوگئیں۔(۵) دس یوم تک مرض کی شدت رہی۔(۶)
حضرت ابوبکرؓ نبی کے مصلے پر:
جب آپ ﷺ پر بیہوشی کا غلبہ رہنے لگا تو آپ ﷺ نے حکم دیا ابوبکرؓ سے کہو نماز پڑھائیں، یہ حکم آپ ﷺ نے کئی دفعہ دیا، ابوبکرؓ کئی دن تک نماز پڑھاتے رہے۔(۷)
آپ ﷺ کی زندگی کی آخری تقریر اور نصیحتیں :
مسلمانو!مجھے پتہ چلا ہے کہ تم اپنے نبی ﷺ کی موت سے گھبرا رہے ہو۔
مجھ سے پہلے جتنے نبی آئے، ان سب کو موت آئی۔ آخر میں بھی تو اُن ہی جیسا ایک نبی ہوں۔
سن لو! جن لوگوں نے پہلے ہجرت کی ہے، ان کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کرنا۔
مہاجرین بھی آپس میں نیک سلوک کریں۔
ہاں، انصار کے ساتھ بھی ہمیشہ اچھا برتاؤکرنا۔
جو انصار بھلائی کریں، ان کے ساتھ بھلائی کرنا۔ جو خطا کریں، ان سے درگزر کرنا۔
مسلمانو!
میں نے وہی چیز حلال کی ہے، جو خدا نے حلال کی ہے۔
اور اسی چیز کو حرام کیا ہے، جس کو خدا نے حرام کیا ہے۔
مسلمانو!
کسی کو میں نے مارا ہو، تو یہ پیٹھ حاضر ہے۔ مجھ کو بھی وہ مارلے۔
کسی کو میں نے کچھ کہا ہو، تو وہ بھی آج مجھ کو کہہ لے۔
اور کسی کا میں نے کچھ لیاہو تو لے لے۔
ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا:
اللہ کے رسول ﷺ : آپ ﷺ کے پاس میرے تین درہم ہیں۔
آپ ﷺ نے اس کو تین درہم دئیے۔ پھر فرمایا:
اے رسولِ خدا ﷺ کی بیٹی فاطمہؓ : اے رسول خدا ﷺ کی پھوپھی صفیہؓ! آخرت کے لئے کچھ کرلو۔ میں تمہیں خدا سے نہیں بچا سکتا۔
آخری دعاء :
آخری الفاظ زبانِ مبارک سے یہ الفاظ ادا ہو رہے تھے۔
اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی تَحَمُّلِ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ
اے اللہ موت کی پریشانیاں جھیلنا میرے لئے آسان کر۔
پیارے باپ کی بے چینی دیکھ کر حضرت فاطمہؓ بے چین ہوگئیں۔
سفر آخرت :
سہ پہر کا وقت تھا۔ سینہ میں سانس گھڑ گھڑا رہی تھی۔ اتنے میں مبارک ہونٹ ہلے۔ پھر ہاتھ اوپر اٹھے۔ آپ ﷺ نے انگلی سے اشارہ کیا اور فرمایا:
بَلِ الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی
اب اور کوئی نہیں۔ بس وہی سب سے بڑا ساتھی۔
یہی کہتے کہتے ہاتھ لٹک آئے۔ آنکھیں چھت سے لگ گئیں اور روح پاک خدا سے جاملی۔(۸)
پیر کا دن تھا۔ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ اور ہجرت کا گیارہواں سال تھا۔(۹)
اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ O اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلَّمْ دآءِمًا اَبَدًا
وفات کے وقت آپ ﷺ کی عمر ۶۳ سال تھی۔
آپ ﷺ کی وفات پر صحابہ کرامؓ کے تاثرات:
حضرت عمرؓ نے سنا تو انہیں یقین نہیں آیا، مسجد میں لوگوں کو روتے دیکھا تو جذباتی ہوگئے، فرمایا جو بھی کہے گا محمد ﷺ انتقال کر گئے ہیں میں اس کا سر قلم کردوں گا، بخدا آپ ﷺ مرے نہیں ہیں۔(۱۰)
حضرت ابوبکرؓ کو پتہ چلاتو مسجد میں حاضر ہوئے اور مسلمانوں کو تاریخی خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
لوگو!
اگر کوئی محمد ﷺ کی بندگی کرتا تھا، تو محمدﷺ اس جہان سے تشریف لے گئے اور اگر کوئی اللہ کی بندگی کرتا تھا، تو اللہ زندہ ہے۔ اس کے لئے کبھی موت نہیں۔(۱۱) پھر یہ آیت پڑھی:
وَمَا مُحَمَّدُ‘ اِلاَّ رَسُوْلُ‘ ط قَدَ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہٖ الرُّسُلُ ط اَفَاِنْ مَّاتَ اَوْقُتِلَ اَنْقَلَبْتُمْ عَآیٰ اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئاً ج وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشَّاکِرِیْنَO(۱۲)
اور محمد ﷺ تو بس اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے نبی گزر چکے اگر وہ مر جائیں یا خدا کی راہ میں مارے جائیں تو کیا تم اُلٹے پاؤں اسلام سے پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے گاوہ خدا کا کچھ نہیں بگاڑے گا۔ اور اللہ اس نعمت کی قدر کرنے والوں کو اچھا بدلہ دے گا۔
یہ تھی وہ بصیرت افروز تقریر جو حضرت ابوبکرؓ نے اس وقت کی۔ مسلمانوں نے یہ تقریر سنی تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں۔ اور اس کڑوی حقیقت کا انہیں یقین کرنا پڑا۔ سب کو ایسا معلوم ہوا کہ یہ آیت آج ہی اُتری ہے۔ چنانچہ اس دن ہر مسلمان کی زبان پر یہی آیت تھی، اور ہر طرف اسی کا چرچا تھا۔
مسلمانوں کے دل آپ ﷺ کے عشق و محبت اور عقیدت سے لبریز تھے۔ اس لئے وفات کی خبر اُن پر بجلی بن کر گری اور سنتے ہی وہ بدحواس ہوگئے، چنانچہ اسی بے خودی میں انہوں نے وفات کا انکار بھی کر دیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے قرآن پاک کی آیت پڑھی تو اُن کی آنکھیں کھلیں اور انہیں ہوش آیا۔ حضرت عمرؓ نے یہ تقریر سنی تو بات انکی بھی سمجھ میں آگئی۔
بحیثیت خلیفہ ابوبکرؓ کا انتخاب:
ایک آدمی دوڑا ہوا آیا اور اُس نے کہا: ابوبکرؓ! عمرؓ! سب انصار اکٹھا ہیں اور اپنے میں خلیفہ چن رہے ہیں۔ جلدی دوڑو، ورنہ ایک فتنہ اُٹھ کھڑا ہوگا اور پھر مسلمانوں میں پھوٹ پڑ جائے گی۔
حضرت ابوبکرؓ اورعمرؓ فوراً پہنچ گئے۔ حضرت ابوعبیدہؓ بھی ساتھ تھے۔ دیکھا تو سب انصار جمع تھے۔ کچھ مہاجرین بھی موجود تھے۔ خوب گرما گرم بحثیں ہو رہی تھیں۔ ہر ایک کہہ رہا تھا اب خلیفہ ہم میں سے ہونا چاہئے، مگر ان لوگوں نے پہنچ کر حالات پر قابو پایا۔ اور حکمت سے لوگوں کو سمجھالیا۔ پھر سب کی متفقہ رائے ہوئی اور حضرت ابوبکرؓ خلیفہ چن لئے گئے۔ اس طرح سارا جھگڑا رفع دفع ہوگیا، ورنہ امکان تھا آپ ﷺ کے کفن دفن اور دیگر امور میں بھی باہمی اختلاف ہوتا اب تمام صحابہ ایک خلیفہ ابوبکرؓ کا حکم مان رہے تھے۔ خلیفہ کا چناؤ ہوچکا تو آپ ﷺ کی تجہیز و تکفین کا انتظام ہوا۔ آپ ﷺ کو نہلایا گیا نہلانے کے بعد تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔(۱۳) پھر سارے مسلمانوں کو موقع دیا گیا کہ محبوب ﷺ پر آخری نظریں ڈالیں۔ اور دُعاء و نماز سے بھی فارغ ہولیں۔(۱۴)
جسدِ مبارک کے گرد جاں نثاروں کا ہجوم تھا، عشق و عقیدت میں ڈوبی ہوئی یہ آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔
اَللّٰھُمَّ رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمُ دائمًا اَبَدًا
اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ پر ہمیشہ سلامتی ہو اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔
مرد نماز سے فارغ ہوئے تو عورتوں کی باری آئی۔ پھر بچوں کو بھی موقع دیا گیا، لوگ بے تابانہ آتے تھے اورباچشم نم واپس چلے جاتے تھے۔
وفات کے دو دن بعد آپ ﷺ قبرِ مبارک میں لٹائے گئے۔ آپ ﷺ کی قبر لحد بنائی گئی، قبر کے لئے حضرت عائشہؓ کے کمرہ کا انتخاب کیا گیا۔(۱۵)
سوال جواب
۱)۔۔۔ آپ ﷺ حج کے ارادے سے مکہ کب روانہ ہوئے؟
۲۵ ذی القعدہ ۱۰ ھ کو روانہ ہوئے۔
۲)۔۔۔ آپ ﷺکے ساتھ کتنے لوگ تھے؟
ایک لاکھ سے زائد۔
۳)۔۔۔ اس حج کو حجۃ الوداع کیوں کہا جاتا ہے؟
اس لئے کہ یہ آپ ﷺ کا آخری حج تھا۔
۴)۔۔۔ حجۃ البلاغ کیوں کہا جاتا ہے؟
اس لئے کہ آپ ﷺ نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا۔
۵)۔۔۔ آپ ﷺ نے حج میں جو خطبہ دیا اسے کیا کہتے ہیں؟
خطبہ حجۃ الوداع یا حجۃ البلاغ کہتے ہیں۔
۶)۔۔۔ تقریر کے بعد اذان کس نے دی؟
حضرت بلالؓ نے۔
۷)۔۔۔ آپ ﷺ نے کن وقتوں کی نماز ادا فرمائی؟
ظہر اور عصر
قرآن کی آخری آیت کب نازل ہوئی؟ اور کیا تھی
خطبہ حجۃ الوداع کے بعد اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ ۔۔۔۔۔۔ الخ
۸)۔۔۔ حضرت ابوبکرؓ قرآنی آیتوں کو سن کر کیوں رو پڑے؟
کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ اب آپ ﷺ کے دنیا سے رخصت ہونے کے دن آ گئے ہیں۔
۹)۔۔۔ آپ ﷺ کب اور کیسے بیمار ہوئے تھے؟
حج کے تین ماہ بعد بیمار ہوئے اور یہ بیماری اس زہر کا اثر تھی جو فتح خیبر کے موقع پر یہودی عورت نے گوشت میں ملاکر آپ ﷺ کو کھلایا تھا۔
۱۰)۔۔۔ آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں ہر بیوی کے ہاں کتنا قیام فرمایا کرتے تھے؟
ایک ایک دن۔
۱۱)۔۔۔ آخری دس دن آپ ﷺ نے کس بیوی کے پاس قیام کیا؟
حضرت عائشہؓ کے پاس۔
۱۲)۔۔۔ آپ ﷺ نے اپنی جگہ نماز پڑھانے کا حکم کسے دیا؟
حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو۔
۱۳)۔۔۔ آپ ﷺ کی وفات کس دن ہوئی اس وقت آپ کی عمر کتنی تھی؟
۱۲ ربیع الاوّل پیر کے دن ۱۱ ھ کو آپ کی وفات ہوئی اس وقت آپ کی عمر ۶۳ سال تھی۔
۱۴)۔۔۔ آپ ﷺ کی وفات کی خبر سن کر حضرت عمرؓ کی کیفیت کیا تھی؟
انہیں اس خبر پر یقین نہیں تھا کہنے لگے جو کہے گا کہ محمد ﷺ انتقال فرما گئے، اسے قتل کردوں گا۔
۱۵)۔۔۔ حضرت ابوبکرؓ نے لوگوں کو کس طرح سنبھالا؟
آپؓ نے مسلمانوں کو جمع کرکے تاریخی خطبہ دیا اور لوگوں کو حقیقت کا یقین دلایا۔
۱۶)۔۔۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ کسے مقررکیا گیا؟
حضرت ابوبکر صدیقؓ کو۔
۱۷)۔۔۔ آپ ﷺ کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا؟
آپ ﷺ کو تین کپڑوں کا کفن دیا گیا۔
۱۸)۔۔۔ جنازہ و دعاء کس طرح ادا کی گئی؟
انفرادی طور پر پہلے مردوں نے پھر خواتین نے ادا کی۔ آخر میں بچوں کو بھی موقع دیا گیا۔
۱۹)۔۔۔ وفات کے کتنے دن بعد قبر میں دفن کئے گئے۔
دو دن بعد حضرت عائشہؓ کے کمرہ میں آپ ﷺ کی قبر مبارک بنائی گئی۔
حواشی و حوالہ جات
۱۔ حجۃ الوداع کا خطبہ الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ بہت سی کتب میں محفوظ ہے فتح الباری ج/۸ ص/۱۰۸، صحیح مسلم بشرح النوی ج/۸ ص/۱۷۰،
۲۔ سورۂ المائدہ / آیت نمبر ۳،
۳۔ فتح الباری ج/۸ ص/ ۱۳۸،
۴۔ موسوعۃ نظرۃ النعیم ج/۱ ص/۴۰۲،
۵۔ فتح الباری ج/۸ ص/۱۴۱، حدیث نمبر ۴۴۴۲،
۶۔ فتح الباری ج/۸ ص/۱۲۹،
۷۔ البدایۃ والنہایۃ ابن کثیر ج/۵ ص/۲۳۲، فتح الباری ج/۸ ص/۱۴۱، صحیح مسلم ج/۱ ص/۳۱۳ حدیث نمبر ۴۱۸،
۸۔ فتح الباری ج/۸ ص/۱۳۶ حدیث نمبر ۴۴۴۹، سیرت ابن ہشام ج/۳ ص/۳۲۹،
۹۔ فتح الباری ج/۸ ص/۱۵۰ حدیث نمبر ۴۴۶۶،
۱۰۔ طبقات ابن سعد ج/۲ ص/۲۶۶،
۱۱۔ فتح الباری ج/۸ ص/۱۴۵ حدیث نمبر ۴۴۵۲،
۱۲۔ سورۂ آل عمران ۳/ آیت نمبر ۱۴۴،
۱۳۔ فتح الباری حدیث نمبر ۱۲۶۴، صحیح مسلم ج/۲ ص/۶۴۹، حدیث نمبر ۹۴۱،
۱۴۔ طبقات ابن سعد ج/۲، ص/۲۸۸، البدایۃ والنہایۃ ج/۵ ص/۲۹۹،
۱۵۔ سیرت ابن ہشام ج/۴ ،ص/ ۶۶۴،
(تمت بالخیر)
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top