skip to Main Content

نجران کی تاریخ

اشفاق حسین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مارچ کی ایک خوشگوار صبح تھی جب ہم خمیس مشیط سے نجران کی طرف روانہ ہوئے ۔خمیس سے نجران کا فاصلہ ۰۳۲کلو میٹر ہے۔راستہ پہاڑی ہے۔پہلے بلندیوں کی طرف بڑھتا ہے پھر بل کھاتا ہوا نشیب میں اترتا ہے۔راستے میں دوتین چیک پوسٹیں ہیں۔پہلی چیک پاسٹ پر سوال ہوا کہ کہاں جارہے ہوبتایا کہ مختلف جگہوں کا ارادہ ہے،نجران،ریاض،تبوک،مکہ،مدینہ وغیرہ وغیرہ۔
”آخری منزل کونسی ہے؟“
”خمیس مشیط“
”وہ تم پیچھے چھوڑ آئے ہو۔الٹا پھر،واپس جاﺅ“۔
سعودیہ میں شرطے یعنی پولیس کے سپاہی کے منہ سے جو نکل جائے اسے بدلنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔اس سے پہلے کہ وہ ہمارے راستے بدلتاہم نے وضاحت کی کہ ہم خمیس مشیط بذریعہ ریاض کیوں جانا چاہتے ہیں۔اس نے حیرت و استعجاب کے ساتھ کاغذات واپس کرتے ہوئے ہاتھ ہلایا۔ایک اور چیک پوسٹ پر جب بتایا کہ بہت سے شہروں کا پروگرام ہے تو شرطہ حیرت میں مبتلاہوا ۔بولا”افسر ہونے کے باوجود گاڑی میں دھکے کھاتے پھرو گے۔جہاز سے چلے گئے ہوتے،سستا پڑتا“۔اسے بڑی مشکلوں سے سمجھایا کہ ہم کسی کاروبار پر نہیں،مطالعاتی سفر پر نکلے تھے اور یہ مہنگا ہونے کے باوجود پڑتا سستا ہی ہے۔یوں حکومت کے کارندوں سے مذاکرات کرتے اور فطرت کے نظاروںسے لطف اندوز ہوتے ڈھائی گھنٹوں میں ہم نجران پہنچ گئے۔
زمانہ قدیم میں نجران یمن کا حصہ تھالیکن بیسویں صدی کے شروع میں جب عرب مختلف قبیلوں میں بٹا ہوا تھایہاں بھی ایک کمزور سے امیر کی حکمرانی تھی ۔ملک عبد العزیز نے جب نجد اور حجاز کو متحد کرکے سعودی سلطنت کی بنیاد رکھی تونجران ،یمن اور سعودی سلطنت کے درمیان ایک طرح کا بفرزون تھالیکن دونوں ملکوں کے حکمران اپنی اپنی جگہ یہی سمجھتے تھے کہ امیر نجران کی وفاداریاںان کے ساتھ ہیں۔یمن کا حکمران امام یحییٰ،ملک عبد العزیز سے خائف تھا۔اسے ڈر تھا کہ ملک عبدالعزیز نجد اور حجاز میں خود کو مستحکم کرنے کے بعد کہیں یمن کو بھی تر نوالہ نہ سمجھ لے۔شروع شروع میں ملک عبد العزیز کاا یسا کوئی اراد ہ نہ تھا۔اس کے مداحوں اور مشیروں نے اسے یہ مشورہ دیا بھی کہ وہ تاج شاہی میں ایک اور ہیرے کا اضافہ کر لے لیکن اس نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی لیکن پھر اما یحییٰ نے خود ہی ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ ملک عبد العزیز کو جنوب کا رخ کرنا پڑا۔
ہوا یوں کہ پیش بندی کے طور پر پہلے تو امام یحییٰ نے نجران پر یمن کی ملکیت کے زبانی دعوے کئے۔پھر وہاں کچھ فوجی دستے بھی بھیج دئےے۔کشیدگی میں اضافہ ہوا توسفارتی سرگرمیاں شروع ہوئیں۔طے کیا گیا کہ مذاکرات کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدوں کا باقاعدہ تعین کیا جائے۔نجران متنازعہ علاقہ ٹھہرا اور فریقین اس موضوع پر بحث کرنے لگے کہ کون سا حصہ کس کی ملکیت میں رہے۔درمیان میں امیر نجران کی دبی دبی آواز بھی سنائی دی 
ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
لیکن یہ دور توجس کی لاٹھی اس کی بھینس کاہے۔امیر نجران کی التجائیںصدا بہ صحرا ثابت ہوئیں اورفریقین کے مذاکرات جاری رہے۔
اس دوران ایک پہاڑی کے بارے میں فریقین کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو معاملہ امام یحییٰ کے سامنے پیش کیا گیا۔اس نے بڑی دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے کہا،”اس کا فیصلہ میرے بھائی ملک عبد العزیزکریں گے“۔عربوں کے ہاں کسی کو بھائی کہہ دینا کچھ معانی رکھتا ہے۔ملک عبدالعزیز کو جب یہ پیغام ملا تو وہ شکار کرنے صحرا میں آئے ہوئے تھے۔برقیہ انہیں دکھایا گیاتووہ مسکرائے اورفوراًہی جواب لکھوایا،”میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ پہاڑی یمن کی ملکیت ہے“۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے عالم عرب میں پھیل گئی۔ہر کسی نے ملک عبدالعزیز کی فراست ،دریا دلی اور رواداری کی تعریف کی۔اخباروں میں اس پر کالم اور ادارئیے لکھے گئے لیکن ایک پہاڑی کی ملکیت کا تصفیہ نجران کے مجموعی مسئلے کا حل نہیں تھا۔مذاکرات میں تلخی درآئی۔اسی دوران امام یحییٰ نے اپنے فوجی دستے بھی نجران بھجوا دئیے جن کی شہ پاکر یمنی چرواہے اپنے اونٹ ان چرا گاہوں میں لئے پھرتے تھے جن پر نجران میں موجود سعودی فوجی دستے اپنی ملکیت جتاتے تھے۔احتجاجی مراسلوں کے تبادلے نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے تو۲۳۹۱ءمیں خالد ابن لاوی کی قیادت میں سعودی قبائلیوں نے یمنیوں پر لشکر کشی کی اور انہیں نجران سے نکال دیا۔اس کے بعد بھی امام یحییٰ کی طرف سے اشتعال انگیزیاں جاری رہیں۔اس نے سعودی عرب کے جنوبی حصے منطقہ عسیر پر بھی ملکیت کا دعویٰ کردیا۔
۴۳۹۱ءکے موسم بہار کی ایک صبح تھی۔جب ملک عبد العزیز دربار میں داخل ہوئے تو انہوں نے پچھلی رات دیکھا ہوا ایک خواب سنایا،
”میں ایک اندھیرے کمرے میںہوں۔تاریکی اس قدر زیادہ ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیںدیتا۔اچانک ایک کونے سے ایک اژدہا نمودار ہوتا ہے۔وہ غصے سے پھنکارتے ہوئے بل کھا رہا ہے۔وہ اپنا جبڑا کھول کر مجھ پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھتا ہے۔اس کے کھلے ہوئے جبڑے سے زہر آلود،خنجر نما دو دانت نمایاں ہیں۔مجھ پر خوف طاری ہو جاتا ہے لیکن میں ہمت کرکے آگے بڑھتا ہوں اور اژدہے کو گردن سے دبوچ کر دیوار سے لگا دیتا ہوں۔اژدہا میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتا ہے لیکن میری گرفت مضبوط سے مضبوط ترہوتی جاتی ہے۔اسی دوران میری آنکھ کھل گئی“۔
ان دنوں امام یحییٰ ،ملک عبد العزیز کے لئے درد سر بنا ہوا تھاا س لئے درباریوں نے بلا تامل یہ رائے دی کہ خواب میں دیکھا گیا اژدہا امام یحییٰ ہی تھا۔اس کے فوراًبعد امام یحییٰ کو ایک الٹی میٹم بھیجا گیا جس میں متنازعہ علاقے کے تصفیے کے بارے میں چند شرائط کا ذکر تھا۔لیکن اسے نظر انداز کر دیا گیا چنانچہ ۵اپریل۴۳۹۱ ءکو سعودی افواج نے شہزادہ سعوداور شہزادہ فیصل کی زیر کمان دو مختلف سمتوں سے لشکر کشی کا آغاز کیا اور بہت جلد نجران ،جےزان اور الحدیدہ کو فتح کرتے ہوئے یمن تک جا پہنچیں۔دیگر عرب ممالک کی مداخلت سے ملک عبد العزیزنے اپنی فوجوں کو مزید پیش قدمی سے روک دیا۔امام یحییٰ نے جھڑپوں کی تلافی کے طور پرایک لاکھ ڈالر کی مالیت کا سونا دینا منظور کیا۔سرحدی تنازعوں کے تصفےے کیلئے ایک مشترکہ باﺅنڈری کمیشن تشکیل دیا گیا اور بالآخر دونوں ملکوں کے درمیان ایک معاہدہ¿ امن طے پایا جس پر مکہ میں منعقد ایک سادہ تقریب میں دستخط ہوئے ۔
یہ تو ہے نجران کے ماضی قریب کی کہانی ۔ظہور اسلام کے وقت نجران عیسائیوں کا مرکز تھا اورحضور اکرم ﷺ کی ولادت سے قبل یہاں دو مشہور واقعات ہو چکے تھے جن کا ذکر قرآن حکیم میںملتا ہے۔ ایک اصحا ب الاخدود کا اوردوسرا خانہ¿ کعبہ کو مسمار کرنے کے ارادے سے آنے والا ابرہہ کا۔
اصحاب الاخدود
خدعربی میںگڑھے،کھائی یا خندق کو کہتے ہیں۔زیر نظر واقعے میں امراءاور سرداروں نے اہل ایمان کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک پھینک کرجلا دیا تھا اس لئے انہیں اصحاب الاخدود کہا گیا۔تیسویں پارے کی سورہ بروج میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے۔
”قسم ہے مضبوط قلعوں والے آسمان کی اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے اور دیکھنے والے کی اوردیکھی جانے والی چیز کی کہ مارے گئے گڑھے والے(اس گڑھے والے)جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔جب کہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے۔اسے دیکھ رہے تھے اوران اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کچھ اور نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے،جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم و ستم توڑاور پھر اس سے تائب نہ ہوئے،یقینا ان کیلئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کےلئے جلائے جانے کی سزا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم ڈھائے گئے۔ہم صرف اس واقعے کی تفصیلات بیان کریں گے جو نجران سے متعلق ہے۔
یہ واقعہ سیر محمد بن اسحاق میں محمد بن کعب سے روایت کیاگیا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ نجران کے باشندے بت پرستی اور شرک میں مبتلا تھے۔ان کے قریب کی آبادی میں ایک ساحر رہتا تھا جو نجران کے لڑکوں کو سحر کی تعلیم دیا کرتا تھا۔کچھ عرصہ بعد نجران اور ساحر کی بستی کے درمیان ایک زاہدومجاہد اور صاحب کشف و کرامت عیسائی سیاح فیمیون آکر رہنے لگا۔نجران کے جو لڑکے ساحر سے سحر کی تعلیم حاصل کرتے تھے ان میں ایک لڑکا عبداللہ بن تامر بھی تھا۔ایک روزوہ عیسائی راہب کے خیمے میں چلا گیا۔راہب نماز میں مشغول تھا۔عبداللہ کو راہب کی نماز اور طریق عبادت پسند آیا اور اس کے پاس آنے جانے لگا اوراس سے اس کے دین کو سیکھنا شروع کر دیا۔راہب سے سچی مسیحیت کی تعلیم حاصل کرکے وہ عالم دین بن گیا اور اس دین کی تبلیغ شروع کردی۔وہ لوگوں کو ایمان لانے کی دعوت دیتا ۔اسکی دعا سے مریض بھلے چنگے ہو جاتے ۔نجران کے بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے لڑکے کو بلایااور کہا کہ تو نے میری مملکت میں فساد مچا دیا اورمیرے باپ دادا کے دین کی مخالفت شروع کردی اس لئے اب تیری سزا یہ ہے کہ تجھ کو قتل کردیا جائے۔
لڑکا کہنے لگا”اے بادشاہ!میرا قتل تیری قدرت سے باہر ہے“بادشاہ نے غضب ناک ہو کر حکم دیا کہ اس کو پہاڑ کی چوٹی سے گرا دو۔سرکاری اہلکاروں نے حکم کی تعمیل کی لیکن قدرت الٰہی نے اس کو صحیح سالم رکھا۔بادشاہ نے جھلا کر حکم دیا کہ اس کو دریا میں لے جا کر غرق کردو لیکن دریا بھی لڑکے کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔تب لڑکے نے بادشاہ سے کہاکہ اگر تو واقعی مجھ کو قتل کرنا چاہتا ہے تو اس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ تو خدائے واحد کا نام لیکر مجھ پر حملہ کر۔بادشاہ نے خدا ئے واحد کا نام لیکر لڑکے پر حملہ کیا تو لڑکا جاں بحق ہوگیا مگر ساتھ ہی عذاب الٰہی نے بادشاہ کو بھی اسی جگہ ہلاک کردیا۔
نجران میں عیسائیت کی ترویج اور لڑکے اور راہب کے واقعے کا تذکرہ یمن کے بادشاہ ذونواس تک پہنچاتو وہ سخت آگ بگولا ہوا۔مذہباً وہ یہودی تھااور عیسائیت اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔وہ ایک لشکر جرار لے کر نجران پہنچا اور تمام شہر میں منادی کرادی کہ کوئی شخص عیسائیت پر قائم نہیں رہ سکتا۔یا تو ہر شخص یہودیت قبو ل کرے ورنہ مرنے کیلئے تیار ہو جائے۔اہل نجران کے دلوں میں سچا دین اس درجے گھر چکا تھا کہ انہوں نے مر جانا قبول کیا مگر اپنے دین سے پھر جانا گوارا نہ کیا۔ذونواس نے یہ دیکھا توغیض و غضب کے عالم میںحکم دیا کہ شہر کی گلیوں اور شاہراہوں کے کنارے خندقیں اور کھائیاں کھودی جائیں اور ان میں آگ دہکائی جائے۔جب لشکریوں نے تعمیل کردی تو اس نے شہریوں کو جمع کرکے حکم دیا کہ جو شخص یہودیت قبول کرنے سے انکار کرے مردد ہو یا عورت یا بچہ اسکو زندہ آگ میں ڈال دیا جائے۔چنانچہ اس حکم کے مطابق بیس ہزار کے قریب اہل ایمان کو جام شہادت پینا پڑا۔
حدیث کی کتابوں مسلم ،نسائی،ترمذی اور مسند احمد میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اسی طرح کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس میں مذکور ہے کہ اس جان گسل اور ہولناک نظارے کو بادشاہ اور اس کے مصاحبین مسرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے کہ ایک عورت لائی گئی جس کی گود میں شیر خوار بچہ تھا۔عورت بچے کی محبت میں جھجکی۔فوراً بچے نے کہا،”ماں!صبر سے کام لے اور خندق میں کود جا اس لئے کہ بلا شبہ تو حق پر ہے اور یہ ظالم باطل پر ہیں“۔
نجران کے واقعے میں ایک شخص دوس ذوثعلبان کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلا اور شام میں مقیم قیصر روم کے دربار مین پہنچ کر نجران کے حادثے کی ہوش ربا داستان سنائی۔قیصر نے فوراً حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا کہ وہ اس ظلم کا انتقام لے۔حبش کی۰۷ ہزار فوج ارباط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آوار ہوئی ۔ذونواس مارا گیا ۔یہودی حکومت کا خاتمہ ہوا اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔یہ واقعہ ۵۲۵ءیعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تقریباً پینتالیس سال پہلے پیش آیا۔
نجاشی کے جنرل ارباط نے یمن پر بیس برس حکمرانی کی۔اسی اثنا میں حبشی فوج نے بغاوت کی۔ایک حبشی سردار ابرہہ اس باغی جماعت کا سرغنہ تھا۔لفظ ابرہہ،ابراہیم کا حبشی تلفظ ہے اور چونکہ نک کٹا تھا اس لئے الاشرم کہلاتا تھا۔اس نے اپنے ایک غلام کے ہاتھوں جنرل ارباط کو قتل کروا دیا اور خود یمن کا گورنربن بیٹھا۔نجاشی کو یہ خبر پہنچی تو سخت غضب ناک ہوا اور اس نے قسم کھائی کہ ابرہہ کا خون بہاﺅں گا اور اس کے دارالحکومت کو پیروں تلے روند ڈالوں گا۔ابرہہ نے یہ سنا تو بہت گھبرایا اور اپنے جسم سے کچھ خون نکال کر ایک شیشی میں بند کیا اور ایک تھیلے میں یمن کی خاک بھری اور دونوں چیزوں کو قاصد کے ہاتھ نجاشی کے پاس بھیجا اور اس کو لکھا کہ جس طرح ارباط آپ کا تابع فرمان تھا اسی طرح یہ غلام بھی ہمیشہ تابع اور مطیع رہے گا۔جب سے میں نے یہ سنا ہے کہ حضوروالا مجھ سے خفا ہیں،اس وقت سے سخت پریشان ہوں اور میں آپکی قسم کو پورا کرنے کیلئے اپنا خون اور یمن کی خاک بھیج رہا ہوں کہ آپ اس خون کویمن کی خاک پر ڈال کرپیروںسے روند دیجئے اور اپنی قسم پوری کر لیجئے۔نجاشی نے ابرہہ کی معافی کو وقت کی مصلحت کے پیش نظر قبول کرتے ہوئے یمن پر اس کی گورنری کو منظور کر لیا۔
حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ سے ملتی جلتی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبے کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے۔رومی سلطنت بھی اس ”کعبے“کے لئے مالی امداد بھیجتی تھی۔اسی کعبہ نجران کے پادری اپنے سرداروں کی قیادت میں ۹ہجری میں مناظرے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔اس ملاقات کی تفصیل سورہ آل عمران کی آیت ۳۳ سے ۱۷ میں مذکور ہے۔
ابرہہ نے جب یہ دیکھا کہ لوگ کسی طرح خانہ کعبہ سے منہ موڑ کر کعبہ نجران کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تواس نے یمن کے دارالحکومت صنعاءمیں ایک اورعظیم الشان کلیسا تعمیر کروایا۔یمن کی بے اندازہ دولت اور بیش بہازروجواہرکو بے دریغ اس پر صرف کیا۔یہ بیش قیمت پتھروں کی بہت خوبصورت اوربہت طویل و عریض عمارت تھی اور عجیب و غریب نقوش سے منقش اور جواہر ریزوں سے مزین تھی۔ہاتھی دانت اور آبنوس کے نہایت حسین و جمیل منقش منبروں اور سونے چاندی کی صلیبوں سے اس کو سجایا گیا تھا۔
صنعاءمیں مقیم ایک حجازی نے جب یہ سنا کہ ابرہہ نے یہ کلیسا اس نیت سے بنایا ہے کہ خانہ کعبہ کے حاجیوں کا رخ اس کی جانب موڑ سکے تو اسے سخت غصہ آیا۔اور تو کچھ شایداس کے بس میں تھا نہیں،ایک رات موقع پاکروہ کلیسا میں داخل ہوااور وہاں رفع حاجت کر کے لوٹ آیا۔ابرہہ کو جب اس کی خبر ہوئی اور تحقیق پر پتا چلا کہ یہ کام کسی حجازی کا ہے تو غصے سے بے قابو ہو گیا اور قسم کھائی کہ اب کعبہ ابراہیمی کوبرباد کئے بغیر چین سے نہ بیٹھوں گا۔وہ ساٹھ ہزار فوج جس میں ۳۱ ہاتھی تھے،لیکر مکہ کی جانب روانہ ہوا۔راستے میں دو ایک سرداروں نے ا سکی راہ روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ابرہہ مکہ کے قریب پہنچ کرخیمہ زن ہوا تو اس کا ایک سردار اہل قریش کے بہت سے مویشی لوٹ کر لے گیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے دوسو اونٹ بھی شامل تھے۔ابرہہ نے ایلچی کے ذریعے اہل مکہ کے سرداروں سے بات کرنا چاہی تو عبد المطلب جو اس وقت مکہ کے بڑے سردار تھے،اس کے پاس آئے ۔وہ اس قدر وجیہہ اور شاندار شخص تھے کہ ابرہہ ان سے بہت متاثر ہوا اور تخت سے اتر کر ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے جو اونٹ پکڑ لئے گئے ہیں وہ مجھے واپس دے دئےے جائیں۔ابرہہ نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر تو میں بہت متاثر ہوا تھا مگر آپکی اس بات نے آپکو میری نظر سے گرا دیا ہے کہ آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ گھر جو تمہاری نگاہ میں سب سے زیادہ باعظمت اور مقدس ہے،اس کے بارے میںکچھ نہیں کہتے۔انہوں نے کہاکہ میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں انہیں کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔رہا یہ گھر تو اس کا ایک رب ہے ۔وہ اسکی حفاظت خود کرے گا۔ابرہہ نے جواب دیا وہ اس کو مجھ سے نہ بچا سکے گا۔عبد المطلب نے کہاآپ جانیں اور وہ۔یہ کہہ کر وہ ابرہہ کے پاس سے اٹھ آئے ۔انہیں ان کے اونٹ واپس کر دئےے گئے۔
لشکر گاہ سے واپس آکر عبدالمطلب نے قریش والوں سے کہاکہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں پر چلے جائیں تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔پھر وہ اور قریش کے چند سردار حرم میں حاضر ہوئے اور کعبے کے دروازے کا کنڈا پکڑ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھراور اس کے خادموں کی حفاظت فرمائے۔اس وقت خا نہ کعبہ میں ۰۶۳بت موجود تھے مگر یہ لوگ اس نازک گھڑی میں ان سب کو بھول گئے اور انہوں نے صرف اللہ کے آگے دست سوال دراز کیا۔ان کی جو دعائیں تاریخوں میں منقول ہوئی ہیں ان میں اللہ واحد کے سوا کسی دوسرے کا نام تک نہیں پایاجاتا۔حالانکہ اس سے پہلے وہ بتوں کی پرستش کا یہ جواز پیش کرتے رہے تھے کہ وہ ان کے وسیلے سے خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یہ دعائیں مانگ کر عبد المطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑوں پر چلے گئے اور دوسرے روز ابرہہ مکے میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھا مگر اسکا خاص ہاتھی محمود آگے تھا، یکایک بیٹھ گیا۔اسکو بہت تیر مارے گئے،آنکس سے کچوکے دئےے گئے۔وہ زخمی ہو گیا مگر اپنی جگہ سے نہ ہلا۔اسے کسی اور سمت میں موڑ کر چلنے کی کو شش کی جاتی تووہ دوڑنے لگتالیکن مکے کی طرف موڑا جاتا توفوراً بیٹھ جاتا۔اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ ،بحراحمر کی طرف سے نمودار ہوئے ۔ان کی چونچوں اور پنجوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں۔انہوں نے لشکر پر سنگریزوں کی بارش کردی۔جس پر بھی یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ۔کچھ روایتیں یہ ہیں کہ یہ چیچک کا مرض تھا اور بلاد عرب میں چیچک اسی سال دیکھی گئی۔ابرہہ بھی اس سنگ باری سے بری طرح زخمی ہوا۔اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن راستے میں ہی مر گیا۔یہ واقعہ مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان محسر کے مقام پر پیش آیا تھا۔اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کوحج کے موقعے پر وہاں سے تیز تیز گزرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ان دنوں اہل عرب کسی مشہور واقعے کے حوالے سے دن اور سال شمار کرتے تھے۔اصحاب الفیل کا واقعہ بجا طور پرقدرت خدا وندی کا اتنا حیران کن اور ناقابل فراموش معجزہ تھا کہ عربوں نے اس سال کوعام الفیل کہنا شروع کردیا۔اس واقعے کے پچاس روز بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی اور ٹھیک پچاس برس بعد سورہ فیل نازل ہوئی۔اس وقت بے شمارایسے آدمی مکہ میں موجود تھے جواس واقعے کے عینی شاہد تھے۔جنہوں نے خود یہ واقعہ نہیں دیکھا تھا،انہوں نے اپنے آباءو اجداد اور قریبی رشتے داروں او دوستوں سے اتنے تواتر سے سنا تھا کہ اس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی شک ا نہیںلاحق نہ تھا۔
ہم نجران پہنچے تو پروگرام کے مطابق ملٹری ہسپتال گئے جہاں سے ایک پاکستانی ڈاکٹر جناب قیوم نے ہمارا رہنما ہونا تھا لیکن پتا چلا کہ 
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دوکان اپنی بڑھا گئے
ڈاکٹر قیوم پاکستان جاچکے تھے۔یونٹ سے روانگی اتنی غیر یقینی صورت حال اور افرا تفری میں ہوئی تھی کہ سفر کے سلسلے میں بہت سے کام ادھورے رہ گئے تھے۔ان میں ایک یہ بھی تھا کہ ہم مختلف شہروں میں ان دوستون سے رابطہ کرتے جنہیں مہینوں پہلے سے ”شیر آیا،شیر آیا“کی وارننگ دے رکھی تھی۔لیکن وہ جو کہتے ہیں 
سفر ہے شرط،مسافر نواز بہتیرے
ایک اور پاکستانی ڈاکٹر فضل قریشی صاحب نے ہمارا ہاتھ پکڑا۔ایک حوالدار بطور گائیڈ ہمارے ساتھ کیا اورلنچ کی دعوت بھی دی۔
اصحاب الاخدود کی بستی پہنچے۔گاڑی ایک جانب کھڑی کی اورابھی بستی میں داخل ہوا ہی چاہتے تھے کہ ”یارفیق!یارفیق“پکارتا حکومت کا ایک کارندہ ہمارے سروں پر آمسلط ہوااور اس بستی کو دیکھنے کیلئے وزارت داخلہ کا اجازت نامہ طلب کیا۔مسئلہ یہ تھا کہ یہ اجازت نامے وزارت داخلہ کے مرکزی دفاتر سے جاری ہوتے تھے جو خمیس مشیط سے تیرہ سو کلو میٹر دور ریاض میں واقع ہے۔ہم وزارت کے نام اجازت نامے جاری کرنے کی درخواستیں تو ساتھ لیکر چلے تھے لیکن ریاض سے اجازت لے کر واپس نجران آنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ہم نے مسئلہ سرکاری اہلکار کے سامنے پیش کیالیکن اس نے ایک نہ سنی ۔ہم نے اس کی غیرت کو للکارا،
”سنا تھا کہ عرب بہت مہمان نواز ہوتے ہیں“۔
”وہ تو ہم ہیں۔اس میں کیا شک ہے“
”یہ کیا مہمان نوازی ہے کہ سمندر پار سے آئے مہمانوں کو محض اس لئے دھتکار رہے ہو کہ ان کے پاس کاغذ کا ایک پرزا نہیں ہےٹھیک ہے۔تمہارے نظام کے احترام میں ہم لوٹ جاتے ہیں لیکن یاد رکھنا کہ ہم قرآن کے حکم ”سیرو فی الارض“(زمین پر چل پھر کر دیکھو)کے مطابق اس سفر پر نکلے تھے اور تم انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ہمیں روک رہے ہو حالانکہ تم بھی تو سرکار کا حصہ ہو۔اجازت دے سکتے ہو“۔
بات اس کے دل کو لگی ۔چند لمحے کھڑا سوچتا رہا۔پھر بولا آﺅ میرے ساتھ لیکن بکری نے دودھ دیا بھی تو مینگنیاں ڈال کر۔شرط یہ لگائی کہ کیمرا استعمال نہیں ہوگا۔ہم اسکی معیت میں بستی میں داخل ہوئے۔
ایک کشادہ ساراستہ تھا جس کے دونوں جانب مکانوں کی دیواریں تھیں۔تھوڑے تھوڑے فاصلے کے بعدبغلی گلیاں نکلتی تھیں۔کچھ مکان تو منہدم ہو چکے تھے۔لیکن کچھ دیواریں ایسی تھیںجو پندرہ پندرہ سولہ سولہ فٹ بلند تھیں اور ٹھیک حالت میںایستادہ تھیں۔چنائی مٹی کے گارے ،بھوسے اور کنکروں سے کی گئی تھی۔کہیں کہیں پتھروں سے تراشے ہوئے مستطیل بلاک بھی استعمال کئے گئے تھے۔کچھ بلاکوں پر مختلف تصویروں کے نقوش کھودے گئے تھے۔ایک جگہ ایک گھوڑے اور اونٹ کی شکل بنی ہوئی تھی۔کچھ اور دیواروں پر ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے سانپ ،انسانی ہاتھ،صلیب اورشطرنج بورڈ کی ڈرائنگ دکھائی دی،جگہ جگہ انسانی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں جن پر آگ میں جلنے کے نشانات نمایاں تھے۔ہڈیاں بالکل بھر بھری ہوچلی تھیں اور ذرا سا دبانے سے پچک جاتی تھیں ۔ایک جگہ ہم نے لکڑی کی ایک چھڑی سے زمین کو کریدا توکوئلہ اور راکھ برآمد ہوئی۔گائیڈ کا کہنا تھا کہ یہ وہ بستی تھی جوگڑھوں کی اس آگ ہی کے لپیٹ میں آگئی جو یہودیوں نے اہل ایمان کو جلانے کیلئے بھڑکائی تھی۔لکڑی کے جلے ہوئے دروازے اورکھڑکیاں گائیڈکی تصدیق کر رہے تھے۔قرآن میں اس واقعے کی خبر دینے کے ساتھ ساتھ یہ لفظ بھی ارشاد ہوئے ہیں،”جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پرظلم و ستم توڑا اورپھر اس سے تائب نہ ہوئے،یقینا ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے جلائے جانے کی سزا ہے“۔(آیت۰۱سورہ البروج)
جہنم تو خود آگ سے عبارت ہے۔جہنم کے علاوہ جو جلائے جانے کی سزا کا ذکر ہے تو اس سے ایک مراد تو یہ ہو سکتی ہے جیسا کہ مفسرین نے لکھا کہ جنہوں نے مظلوم لوگوں کو آگ کے گڑھوں میںپھینک کر زندہ جلایا تھا،ان کی سزا کےلئے جہنم کی آگ عام آگ سے مختلف اور اس سے زیادہ سخت کوئی اور آگ ہوگی۔اور ایک مراد شاید یہی دنیاوی سزاہوکہ ان کی یہ بستی جلا کرخاکسترکردی گئی۔یہ بستی۰۰۹x۰۰۸میٹر کے رقبے میں واقع ہے۔یہاں سے پتھروں اوررنگین شیشوں کے ایسے برتن دستیاب ہوئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ باشندے سنگ تراشی اور شیشہ سازی کے صنعت کے ماہر تھے خوشوﺅں کی دھونی دینے کیلئے منقش بخورات استعمال کرتے تھے۔پتھروں سے تراشے ہوئے برتنوں کی کنڈیوں اور پیندوں پر اور چاقوﺅں اور خنجروں کے دستوں پرسبزنیلے،سرخ اور قرمزی رنگ کے شیشوں کا استعمال کیا گیا ہے۔نجران میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایسی تین بستیان ہیں اور ان سے برآمد ہونے والی اشیاءکے تجزئےے سے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ ایک ہی زمانے کی بستیاں ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top