skip to Main Content

اصحاب الفیل کا قصہ

اشفاق حسین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ سے ملتی جلتی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبے کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے۔رومی سلطنت بھی اس ”کعبے“کے لئے مالی امداد بھیجتی تھی۔اسی کعبہ نجران کے پادری اپنے سرداروں کی قیادت میں ۹ہجری میں مناظرے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔اس ملاقات کی تفصیل سورہ آل عمران کی آیت ۳۳ سے ۱۷ میں مذکور ہے۔
ابرہہ نے جب یہ دیکھا کہ لوگ کسی طرح خانہ کعبہ سے منہ موڑ کر کعبہ نجران کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تواس نے یمن کے دارالحکومت صنعاءمیں ایک اورعظیم الشان کلیسا تعمیر کروایا۔یمن کی بے اندازہ دولت اور بیش بہازروجواہرکو بے دریغ اس پر صرف کیا۔یہ بیش قیمت پتھروں کی بہت خوبصورت اوربہت طویل و عریض عمارت تھی اور عجیب و غریب نقوش سے منقش اور جواہر ریزوں سے مزین تھی۔ہاتھی دانت اور آبنوس کے نہایت حسین و جمیل منقش منبروں اور سونے چاندی کی صلیبوں سے اس کو سجایا گیا تھا۔
صنعاءمیں مقیم ایک حجازی نے جب یہ سنا کہ ابرہہ نے یہ کلیسا اس نیت سے بنایا ہے کہ خانہ کعبہ کے حاجیوں کا رخ اس کی جانب موڑ سکے تو اسے سخت غصہ آیا۔اور تو کچھ شایداس کے بس میں تھا نہیں،ایک رات موقع پاکروہ کلیسا میں داخل ہوااور وہاں رفع حاجت کر کے لوٹ آیا۔ابرہہ کو جب اس کی خبر ہوئی اور تحقیق پر پتا چلا کہ یہ کام کسی حجازی کا ہے تو غصے سے بے قابو ہو گیا اور قسم کھائی کہ اب کعبہ ابراہیمی کوبرباد کئے بغیر چین سے نہ بیٹھوں گا۔وہ ساٹھ ہزار فوج جس میں ۳۱ ہاتھی تھے،لیکر مکہ کی جانب روانہ ہوا۔راستے میں دو ایک سرداروں نے ا سکی راہ روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ابرہہ مکہ کے قریب پہنچ کرخیمہ زن ہوا تو اس کا ایک سردار اہل قریش کے بہت سے مویشی لوٹ کر لے گیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے دوسو اونٹ بھی شامل تھے۔ابرہہ نے ایلچی کے ذریعے اہل مکہ کے سرداروں سے بات کرنا چاہی تو عبد المطلب جو اس وقت مکہ کے بڑے سردار تھے،اس کے پاس آئے ۔وہ اس قدر وجیہہ اور شاندار شخص تھے کہ ابرہہ ان سے بہت متاثر ہوا اور تخت سے اتر کر ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے جو اونٹ پکڑ لئے گئے ہیں وہ مجھے واپس دے دئےے جائیں۔ابرہہ نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر تو میں بہت متاثر ہوا تھا مگر آپکی اس بات نے آپکو میری نظر سے گرا دیا ہے کہ آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ گھر جو تمہاری نگاہ میں سب سے زیادہ باعظمت اور مقدس ہے،اس کے بارے میںکچھ نہیں کہتے۔انہوں نے کہاکہ میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں انہیں کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔رہا یہ گھر تو اس کا ایک رب ہے ۔وہ اسکی حفاظت خود کرے گا۔ابرہہ نے جواب دیا وہ اس کو مجھ سے نہ بچا سکے گا۔عبد المطلب نے کہاآپ جانیں اور وہ۔یہ کہہ کر وہ ابرہہ کے پاس سے اٹھ آئے ۔انہیں ان کے اونٹ واپس کر دئےے گئے۔
لشکر گاہ سے واپس آکر عبدالمطلب نے قریش والوں سے کہاکہ وہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں پر چلے جائیں تاکہ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔پھر وہ اور قریش کے چند سردار حرم میں حاضر ہوئے اور کعبے کے دروازے کا کنڈا پکڑ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھراور اس کے خادموں کی حفاظت فرمائے۔اس وقت خا نہ کعبہ میں ۰۶۳بت موجود تھے مگر یہ لوگ اس نازک گھڑی میں ان سب کو بھول گئے اور انہوں نے صرف اللہ کے آگے دست سوال دراز کیا۔ان کی جو دعائیں تاریخوں میں منقول ہوئی ہیں ان میں اللہ واحد کے سوا کسی دوسرے کا نام تک نہیں پایاجاتا۔حالانکہ اس سے پہلے وہ بتوں کی پرستش کا یہ جواز پیش کرتے رہے تھے کہ وہ ان کے وسیلے سے خدا کی رضا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔یہ دعائیں مانگ کر عبد المطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑوں پر چلے گئے اور دوسرے روز ابرہہ مکے میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھا مگر اسکا خاص ہاتھی محمود آگے تھا، یکایک بیٹھ گیا۔اسکو بہت تیر مارے گئے،آنکس سے کچوکے دئےے گئے۔وہ زخمی ہو گیا مگر اپنی جگہ سے نہ ہلا۔اسے کسی اور سمت میں موڑ کر چلنے کی کو شش کی جاتی تووہ دوڑنے لگتالیکن مکے کی طرف موڑا جاتا توفوراً بیٹھ جاتا۔اتنے میں پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ ،بحراحمر کی طرف سے نمودار ہوئے ۔ان کی چونچوں اور پنجوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں۔انہوں نے لشکر پر سنگریزوں کی بارش کردی۔جس پر بھی یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ۔کچھ روایتیں یہ ہیں کہ یہ چیچک کا مرض تھا اور بلاد عرب میں چیچک اسی سال دیکھی گئی۔ابرہہ بھی اس سنگ باری سے بری طرح زخمی ہوا۔اس نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن راستے میں ہی مر گیا۔یہ واقعہ مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان محسر کے مقام پر پیش آیا تھا۔اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کوحج کے موقعے پر وہاں سے تیز تیز گزرنے کی ہدایت فرمائی تھی۔ان دنوں اہل عرب کسی مشہور واقعے کے حوالے سے دن اور سال شمار کرتے تھے۔اصحاب الفیل کا واقعہ بجا طور پرقدرت خدا وندی کا اتنا حیران کن اور ناقابل فراموش معجزہ تھا کہ عربوں نے اس سال کوعام الفیل کہنا شروع کردیا۔اس واقعے کے پچاس روز بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت ہوئی اور ٹھیک پچاس برس بعد سورہ فیل نازل ہوئی۔اس وقت بے شمارایسے آدمی مکہ میں موجود تھے جواس واقعے کے عینی شاہد تھے۔جنہوں نے خود یہ واقعہ نہیں دیکھا تھا،انہوں نے اپنے آباءو اجداد اور قریبی رشتے داروں او دوستوں سے اتنے تواتر سے سنا تھا کہ اس کے بارے میں کسی قسم کا کوئی شک ا نہیںلاحق نہ تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top