skip to Main Content

مجرم لوگ

عبدالرشید فاروقی

…….

بوڑھا ملازم گل جان کمرے میں داخل ہوا تو عمران نے چونک کر اُسے دیکھا:
”کیا بات ہے؟“
”جناب! شہر کے ایک بہت بڑے آدمی آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“ گل جان نے ادب سے کہا۔
”کیا نام ہے اُن کا۔“
”اختر وارثی!“ گل جان نے جواب دیا۔
”اوہ اچھا…… انہیں اندر بھیج دو۔“ عمران نے کہا اور میز پر بکھری ہوئی فائلیں سمیٹنے لگا۔
تھوڑی دیر بعد ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ عمر یہی کوئی پچاس کے قریب رہی ہو گی۔ سر پر سیاہ و سفید بال، دائیں رخسارپرچھوٹا سا سیاہ داغ، آنکھیں نیلی او رموٹی موٹی، ہونٹ نہایت باریک، ناک موٹی۔ عمران نے ایک ہی نگاہ میں آنے والے کاجائزہ لے لیا:
”جی فرمایے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“
”کیامیں پرائیویٹ سراغ رساں مسٹر عمران سے مخاطب ہوں؟“ اختر وارثی نے اُس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا:
”جی ہاں!“ عمران نے مسکرا کر کہا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ اختر وارثی بھی اُس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا:
”میں ایک اُلجھن کا شکار ہوں عمران صاحب۔ اُمید ہے، آپ میری الجھن دُور کر دیں گے۔“ اختر وارثی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ اپنی الجھن بتائیں، میں کوشش کروں گا،آپ کی اُ لجھن دُور کر دوں۔“ عمران نے اُس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ اختر وارثی چند لمحے تو عمران کو گھورتا رہا، پھر کرخت لہجے میں بولا:
”میری الجھن آپ کی ہی پیدا کر دہ ہے۔ میں چاہتا ہوں، آپ ہی اس سے مجھے نجات دلائیں۔“
”میری پیدا کر دہ…… میں سمجھا نہیں، اپنی بات کی وضاحت کریں۔“ عمران نے حیرت سے کہا۔
”وضاحت یہ ہے، پچھلے ہفتے آپ کی بھرپور مدد سے ایک شخص گرفتار کیا گیا تھا، وہ شخص میرا داماد ہے۔ میں چاہتا ہوں، آپ اُسے جیل سے نکلوا دیں۔“
”یہ…… یہ آپ کیاکہہ رہے ہیں؟“ عمران اٹھ کھڑا ہو۔ اختر وارثی دھیمے انداز میں ہنسا اور بولا:
”مسٹر عمران! میں جانتا ہوں، آپ بہت ذہین ہیں اور بہادر بھی لیکن میری ایک بات یاد رکھیے گا، آپ کی یہ دونوں صلاحیتیں میرا کچھ بگاڑ نہیں پائیں گی۔ اس لیے بہتر یہ ہوگا، آپ میرے حکم کی تعمیل کریں۔“
”آپ مجھے کس حیثیت سے حکم دے رہے ہیں،میں آپ کا ملازم نہیں ہوں۔“ اُس کی باتیں سن کر عمران کو طیش آگیا۔ یک دم اس کا چہرہ سرخ ہو گیا لیکن پھراُس نے خود کو نارمل کر لیا:
”آپ جانتے ہیں، آپ کے داماد نے کیا جرم تھا۔“ عمران نے پرسکون لہجے میں کہا۔
”ہاں جانتا ہوں، اس نے ایک آدمی کو قتل کیا تھا……“ اختر وارثی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
”پھر بھی آپ اُسے چھڑوانا چاہتے ہیں!!“
”ہاں،میں فیاض احمد سے بہت محبت کرتا ہوں، شاید اس لیے کہ وہ میری اکلوتی بیٹی کا شوہر ہے۔اگر اُسے سزا ہوگئی تو میری پیاری بیٹی کی زندگی برباد ہوجائے گی۔ آپ کو اُسے پولیس کے چنگل سے آزاد کرانا ہی ہوگا۔ پیسے جتنے آپ کہیں گے، مل جائیں گے۔“ اختر وارثی نے کہا۔
”معذرت خواہ ہوں، میں ایسا نہیں کر سکتا۔ میں مجرموں کی کبھی مدد نہیں کرتا ہوں،یہ میرے اصولوں کے خلاف ہے کہ ایک آدمی کو مع ثبوت کے گرفتار کرانے کے بعد ا ُس کی رہائی کے لیے کوشش کروں، یہ تو تھوک کر چاٹنے والی بات ہے۔ اس کام کے لیے آپ کوئی او رآدمی تلاش کریں۔“ عمران نے خشک لہجے میں کہا۔
”بے شک یہ آپ کے اُصول کے خلاف ہے لیکن میں کہہ چکاہوں کہ یہ الجھن آپ کی پیدا کردہ ہے اور آپ ہی اُسے رفع کریں گے۔“ اختر وارثی نے مسکرا کر کہا۔
”میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا۔“ عمران نے اٹل لہجے میں کہا۔
”سنو!تم مجھے منع نہیں کر سکتے ہو، میں نے طے کرلیا ہے، تم ہی یہ کام کرو گے اور ہر حال میں کرو گے۔“ اختر وارثی نے سخت لہجے میں کہا۔
”اور میں کہہ چکا ہوں، میں یہ کام کسی صورت نہیں کروں گا۔“ وہ مسکرایا۔
”آپ ایسا کریں، گھر فون کر کے اپنی بیوی سے بات کر لیں۔ اگر وہ آپ سے بات کرنا چاہیں تو ٹھیک ورنہ یہ نمبر رکھ لیں۔ اس پر مجھ سے رابطہ کر کے اپنے آئندہ پروگرام کے متعلق آگاہ کر دیجئے گا…… خدا حافظ۔“ اختر وارثی نے کہا اور ایک موبائل نمبر عمران کی طرف بڑھا دیا۔پھر وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ عمران نے کاغذ کا پرزہ لیا اور فون نمبر دیکھا۔پھر اس کے بعد اس نے گھر فون کیا:
”ہیلو بیگم! یہ میں ہوں، تم اور بچے خیریت سے تو ہو؟“
”ہم آپ سے بات نہیں کریں گے……“ دوسری طرف سے سپاٹ لہجے میں کہہ کر کال کاٹ دی گئی۔
عمران حیرت سے ہاتھ میں پکڑے ہوئے موبائل کو دیکھنے لگا۔اُس کی بیوی نے عجیب حرکت کی تھی۔ اُس نے ایسا کیوں کیا …… وہ چند سیکنڈ غور کرتا رہا لیکن اس کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آ سکی۔وہ اُٹھا اور دفتر سے نکل گیا۔

O

وہ اپنی بیوی کے سامنے بیٹھا تھا اور حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا:
”کیا بات ہے…… خیریت تو ہے؟“
”ہم آپ سے بات نہیں کریں گے۔“ اُس کی بیوی نے اُس کے سامنے یہ جملہ تین بار دہرایا تھا۔
”مگر کیوں؟“
”اس لیے کہ ہمیں یہی ہدایات ملی ہیں۔“ وہ تڑ سے بولی۔
”کیامطلب!کس نے ہدایات دی ہیں تمہیں؟“ عمران اچھل پڑا۔
”ہمیں کہا گیا ہے، ہم آپ سے اُس وقت تک کوئی بات نہیں کریں گے، جب تک آپ فیاض احمد کو جیل سے باہر نہیں لے آتے۔“ بیگم عمران نے کہا۔
عمران دھک سے رہ گیا۔ وہ عجیب سی نظروں سے اپنی بیگم کی طرف دیکھنے لگا۔ قریب ہی اس کے دو پھول جیسے بچے کھڑے تھے۔ وقاص اور سحرش سے وہ بہت پیار کرتا تھا۔
”تم کس کی ہدایات پر عمل کر رہی ہو اورتم فیاض احمد کو کیسے جانتی ہو؟“
”آپ نے ہی اس کا ذکر کیا تھا ایک بار، آپ نے اُسے ایک آدمی کے قتل کے جرم میں گرفتار کرایا تھا۔“
”تم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا، تم کس کے کہنے پر مجھ سے بات نہیں کر رہی ہو؟“
”اختر وارثی کے کہنے پر۔“ بیگم عمران نے کہا۔ یکایک اس کی آنکھوں میں خوف عود کر آگیا تھا۔
”اوہ!کیاوہ گھر آیا تھا؟“ عمران نے کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
”اُس نے اپنے ایک آدمی کو بھیجا تھا۔“ بیگم عمران نے کہا۔
”ہوں! لیکن سوال یہ ہے، تم اس کی ہدایات پر کیوں عمل کر رہی ہو؟“عمران نے اُسے گھورا۔
”اس لیے کہ آپ کی والدہ اور والد اس کی قید میں ہیں ……“
”کیا مطلب!!!“ وہ یوں اُچھلا،جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔
”میں نے گاؤں فون کیا تھا۔ آپ کی بہن نے بتایا کہ ابو اور امی کو کسی نے اغوا کر لیا ہے۔“
”اوہ! یہ بہت برا ہوا۔“ عمران نے سر پکڑ لیا۔
وہ اپنے بوڑھے والدین سے بہت محبت کرتا تھا۔ ان کا بہت خیال رکھتا تھا۔ شادی کے بعد ان دونوں کے کہنے پر ہی وہ اپنی بیوی کو لے کر شہر چلا آیا تھا۔ اس کا دل نہ چاہتا تھا کہ اپنے والدین کو چھوڑ کرشہر چلا جائے لیکن ان دونوں کی ضد تھی۔ ان کا موقف تھا کہ شہر جا کر وہ اپنا کام پرسکون طریقے سے کر سکے گا۔ وہ کافی دیر سر پکڑے بیٹھا رہا۔ اس کا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا۔ وہ جان گیا تھاکہ اختر وارثی نے کیسا اوچھا ہتھکنڈا استعمال کیا ہے۔ وہ بری طرح اُس کے شکنجے میں آگیا تھا۔
اُسی وقت عمران کے موبائل کی گھنٹی بجی۔ سکرین پر اختر وارثی کا نمبر دکھائی دے رہا تھا۔ وہ نمبر جو اُس نے دفتر میں اُسے دیا تھا:
”آپ نے اچھا نہیں کیا اختر وارثی صاحب۔“
”میری الجھن تو آ پ ہی دور کریں گے عمران صاحب۔“ وہ ہنسا۔
”میں سوچ رہا ہوں، پولیس کو آپ کی حرکت اور خواہش کے بارے میں بتا دوں۔“ عمران نے کہا۔
”اس صورت میں آپ کے بوڑھے والدین وقت سے پہلے قبر میں چلے جائیں گے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں۔“ اختر وارثی نے ہنس کر کہا۔عمران خاموش رہا۔ دوسری طرف سے کہا گیا:
”تو پھر آپ کب تک میرے داماد کو جیل سے رہا کروا رہے ہیں؟“
”یہ کام بہت مشکل ہے۔“ اُس نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔
”ہے تو مشکل مگر آپ کے لیے نہیں۔ آپ کوئی چکر چلائیں گے تو میرا داماد باعزت طور پر بری ہو سکتا ہے۔ بدلے میں ایک منھ مانگی رقم آپ کے گھر پہنچ جائے گی۔“
”آپ بھول رہے ہیں، پولیس کے پاس قتل کے کافی ثبوت موجود ہیں، فیاض کسی صورت بچ نہیں سکتا۔“
”میں نہیں جانتا، آپ یہ سب کیسے کریں گے، لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں، اگر میرا داماد رہا نہ ہوا تو آپ کے والدین نہیں رہیں گے۔“
”ٹھیک ہے، میں ذہن میں رکھوں گا۔“
”تو آپ چکر چلانے کے لیے تیار ہیں، کوئی ایسا چکر جو میرے داماد کو جیل سے باہر لے آئے۔“ اختر وارثی ہنسا۔
”میں کوشش کرتا ہوں۔“
عمران نے موبائل کا بٹن آف کیا اور بیگم کی طرف گھوما:
”میں خود کو اس کام کے لیے مجبور پاتا ہوں، تم دعا کرنا۔“اُس نے سوچ میں گم لہجے میں کہا۔
”اللہ آپ کی مدد کرے“ بیگم عمران نے جھٹ کہا۔
ٹھیک تین دن بعد عمران، اختر وارثی کے دیے ہوئے فون پر رنگ کر رہا تھا۔ ان تین دنوں میں اس نے اختر وارثی کے داماد کو آزاد کرانے کے لئے بڑا کام کیا تھا۔ پولیس والوں کے علاوہ اُس نے اور بھی کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ چار دنوں میں عدالت میں کیس پیش ہونا تھا۔
وہ مطمئن تھا کہ فیاض رہا ہوجائے گا۔ وہ بہت خوش تھا اوروہ اس خوشی کو اختر وارثی کی طرف منتقل کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی رابطہ قائم ہو گیا:
”عمران بول رہا ہوں، اختر وارثی صاحب۔“
”مبارک ہو، آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں۔“ اختر وارثی کی چہکتی ہوئی آواز اُس کی سماعت سے ٹکرائی۔
”آپ کو کیسے علم ہوا جب کہ میں نے آپ سے کسی قسم کا کوئی رابطہ بھی نہیں رکھا۔“۔ عمران نے حیرت سے پوچھا۔
”ان تین دنوں میں آپ نے کیا کچھ کیا، اس سے میں پوری طرح باخبر ہوں، لہٰذا اِس بات کو جانے دیں کہ مجھے کیسے علم ہوا؟“
”ہوں، اب آپ کا کیا پروگرام ہے، میرے والدین کو کب چھوڑ رہے ہیں؟“
”جس دن فیاض احمد گھر آئے گا، اُسی دن آ پ کے والدین گھر پہنچا دیے جائیں گے۔“ اختر وارثی نے ہنستے ہوئے کہا۔
”آپ کا مطلب ہے، مجھے فیاض احمد کی رہائی تک انتظار کرنا ہوگا۔“
”جی ہاں! میں فیاض احمد کا انتظار کرتا ہوں اور آپ اپنے والدین کا۔ ویسے اتنا جان لیجئے، وہ پریشان نہیں ہیں، میرے بندے اُن کے آرام کا پورا پورا خیال رکھ رہے ہیں۔“ اختر وارثی نے کہا۔
”اوکے۔“ موبائل کا بٹن دباتے ہوئے عمران نے گل جان کو آواز دی:
”گرم گرم چائے کا ایک کپ لاؤ۔“
”ابھی لایا جناب۔“
چائے پیتے ہوئے وہ کچھ سوچنے لگا۔ اُس کی چوڑی پیشانی پر سوچ کی گہری شکنیں نمایاں تھیں۔ وہ چائے سے فارغ ہوا تو فون بج اُٹھا:
اُس نے موبائل کی سکرین پر چمکتا نمبر دیکھا تو مسکرانے لگا:
”عمران بول رہا ہوں۔“
”کیا حکم ہے جناب……“ دوسری طرف سے آواز آئی۔
”صرف چار دن……“ عمران نے کہا اور فون بند کر دیا۔اُس نے ایک بار پھر گل جان کو آواز دی:
”جی جناب۔“ گل جان فوراً اندر آگیا۔
”یہ کپ اُٹھاؤ او رآج کا اخبار دے جاؤ۔“
تھوڑی دیر بعد عمران اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا۔

O

چار دن بعد اختر وارثی غصے سے کانپتا ہوا دفتر میں داخل ہوا اورکرسی پر بیٹھتے ہی پھٹ پڑا:
”یہ…… یہ آپ نے کیا کیا! فیاض احمد کو رہا ہونے کے چھ گھنٹوں بعد ہی دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مسٹر عمران! میں نے آپ کو ایک بہت بڑی رقم اس کام کے لیے دی تھی، آپ مجھے دھوکا نہیں دے سکتے ہیں۔“
عمران نے بڑے اطمینان سے اس کی طرف دیکھا، مسکرایا اوربولا:
”میں نے آپ کو دھوکا دیا، یہ آپ کا خیال ہے، میں ایسا نہیں سمجھتا۔“
”آپ نے کام کرنے کی حامی بھر ی تھی، میں نے آپ کو ایک بڑی رقم بھی بھجوا دی تھی۔ آپ نے مجھے دھوکا دیا ہے، مجھ سے گیم کی ہے۔“
”میں نے آ پ کو دھوکا نہیں دیا، میں نے فیاض احمد کو رہا کرایا تھا، آپ کی رقم استعمال کی گئی تھی اس کام میں، اب پولیس نے دوبارہ اُسے گرفتار کر لیا تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔آپ نے غلط طریقے سے مجھ سے کام لیا، میں نے شاید غلط طریقے سے فیاض کو رہا کرایا۔ پیسے کھانے والوں نے کوئی گڑ بڑ کی تو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں،ویسے میں آپ کا شکر گزار ہوں، آپ نے میرے والدین کا بہت خیال رکھا، انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی۔“ عمران کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
”میں سمجھتا ہوں، یہ سب آپ کا کیا دھرا ہے، آپ کا کارنامہ ہے۔ آپ نے اپنے والدین کو آزاد کرانے کے لیے یہ سارا منصوبہ ترتیب دیا تھا۔ آپ کے والدین رہا ہو چکے لیکن میرا داماد ایک بار پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے، میں آپ کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ آپ کے والدین کو ایک بار پھر اُٹھوا لوں گا۔“ اختر وارثی کا چہرہ ٹماٹر کی طرح سرخ ہو رہا تھا۔
”اب آپ میرے والدین یا میرے بیوی بچوں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے، آپ نے کوئی اُلٹی سیدھی حرکت کرنے کی کوشش کی تو سیدھے جیل جائیں گے۔ ایسا کرنے میں مجھے کوئی دشواری نہیں ہوگی، آپ کے خلاف کافی کچھ ہے میرے پاس۔“ عمران نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”مکار، عیار، ذلیل…… کمینے، میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔“ اختر وارثی اچانک اُٹھ کھڑا ہوا۔
”میں نے سوچا تھا، آپ عقل سے کام لیں گے، لیکن آپ بے وقوف ہیں، بیٹی کی محبت میں، غلطی پر غلطی کررہے ہیں، اب آپ شرافت سے گھر جائیں گے یاپولیس کو بلاؤں ……“ عمران نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”کیاآپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں؟“ اختر وارثی غصے سے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
”دھمکی نہیں دے رہا، سمجھا رہا ہوں۔ گھر جائیے، یہاں شور نہ کریں۔“
”مسٹر عمران! آپ کے ساتھ بہت بُرا ہوگا…… اتنا کہ اس وقت آپ کو اندازہ نہیں ہے۔“ وہ غرایا۔
”ٹھیک ہے، آپ کی مرضی،میں نے کوشش کی، آپ گھر جائیں لیکن آپ کہیں اور جانا چاہتے ہیں، آپ کی مرضی۔“ اُس نے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا۔ پھر دروازے کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے بولا:
”انسپکٹر صاحب! تشریف لے آئیے، شہر کے ایک بہت بڑے آدمی آپ کا مہمان بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔“
اس کے خاموش ہوتے ہی ایک انسپکٹر چند سپاہیوں کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ اختر وارثی تیزی سے پلٹا۔ پھر وہ دھک سے رہ گیا:
”کک…… کک…… کیا مطلب؟“ وہ ہکلایا۔
”مطلب یہ کہ آپ نے عمران صاحب کے والدین کو اغوا کیا، انہیں حبس بے جا میں رکھا۔ آپ کو اس جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے۔“ انسپکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ مجھے جانتے نہیں ہیں، میں آپ کو معطل کرا دوں گا۔“ اختر وارثی دھاڑا۔
”چیخیں مت، آپ سے جو بن سکے، ضرور کیجئے گا۔ فی الحال تو میرے ساتھ چلیں۔“ انسپکٹر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اختر وارثی صاحب! میں بے گناہوں کی مدد کرتا ہوں، گناہ گار اور مجرم لوگ میری مدد سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں، آپ نے میرے پاس آکر غلطی کی، پھر آپ نے جو طریقہ کار اختیار کیا، وہ بھی سراسر نا مناسب تھا۔ میں نے کوشش کی کہ آپ شرافت سے گھر چلے جائیں لیکن،آپ نے یہاں بھی بے وقوفی سے کام لیا ہے۔ انسپکٹر صاحب!آپ انہیں لے جا سکتے ہیں، میں بعد میں آپ سے ملتا ہوں۔“ عمران نے کہا تو انسپکٹر اختر وارثی کو آگے لگائے دفتر سے نکل گیا۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top