skip to Main Content

کوئی آئے گا

عبدالرشید فاروقی

۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ زور زور سے پکار رہاتھا:
”کوئی ہے……کوئی ہے……؟“
میں نے اُسے پتوں کی اوٹ سے دیکھا۔ اُس معصوم کی عمر دس،بارہ سال ہو گی۔ اُس کے سر سے بہنے والے خون نے اُس کے خوب صورت چہرے کو اپنے پیچھے چھپا لیا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں التجا تھی۔ اُس کے بدن کے بال خرگوش کے تنے ہوئے کانوں کی صورت ہو رہے تھے۔ کانوں کی لوئیں خون سے سرخ ہو رہی تھیں۔ لباس میں جگہ جگہ سوراخ تھے اور اُن سے گھسنے والی سرد ہوا نے اُس کے پورے جسم کو برف کیا ہوا تھا۔غرض خوف اور دہشت کی تصویر بنا وہ لڑکا اپنے سامنے کھڑے تین لمبے تڑنگے فوجیوں کو دیکھ رہا تھا۔ یکایک اُس کے ننھے منے ہاتھ حرکت میں آئے اور پھر اُن کے سامنے بندھ گئے۔ وہ فوجیوں سے معافی مانگ رہا تھا۔ فوجی مسکرا رہے تھے۔
یہ منظر دیکھ کر میرا خون کھول اُٹھا۔ جی میں آیا کہ اُن ظالموں کو سبق سکھادوں لیکن میں اپنی اِس خواہش کو عملی شکل نہ دے سکا۔ شاید میں دے ہی نہیں سکتا تھا۔ اللہ نے مجھے اتنی قوت نہیں دی تھی۔ اُس لمحے میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور بے اختیار میرے دِل سے یہ دُعا اور آنکھوں سے آنسو نکلے:
”میرے خالق! تو جانتا ہے کہ میرے دِل میں کیا ہے۔ میں کیا چاہتا ہوں،مجھے اُن ابابیلوں کی طرح طاقت دے، جنھوں نے خانہ کعبہ کو مٹانے کی غرض سے حملہ آور ابرہا کے لشکر کو نیست و نابود کردیا تھا۔ اے میری سوچوں کے مالک! مجھے ہمت دے کہ میں اِن ظالم لوگوں کو اِن کے ظلم کا بدلہ دے سکوں۔ اِنسانیت کے دشمنوں کو مزا چکھا سکوں۔ اے اللہ! تھوڑی دیر کے لیے تو مجھے ابابیل بنا دے…… اے اللہ …… اے اللہ!!“
یکایک میری آنکھوں سے دو موتی آزاد ہوئے اور درخت کے نیچے موجود لڑکے پر گرے۔ اُس نے سر اُٹھا کر اُوپر دیکھا۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اُس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک لہرائی مگر پھر فوراً غائب ہو گئی۔ وہ ایک بار پھر فوجیوں کو دیکھنے لگا۔
ایک فوجی نے کہا:
”وہ دیکھو! ہمارا ساتھی تمہاری ماں کو پکڑ کر لا رہا ہے۔ ہم ایک ساتھ تمہاری قربانی دیں گے……“
لڑکے نے گھبرا کر دائیں طرف دیکھا۔ ٹیلے سے ذرا پرے سرسبز درختوں کے پاس اُسے اپنی ماں کا چہرہ نظر آیا۔ وہ تڑپ اُٹھا۔ وہ بے اختیار اپنی ماں کی طرف دوڑا مگر ایک فوجی نے لپک کر اُسے پکڑ لیا۔ اُس کے چہرے پر خونی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ دونوں ماں بیٹے کو ایک چھوٹے درخت کے تنے سے باندھ دیا گیا۔ ماں کے بال اُلجھے ہوئے اور چہرے پر تازہ خون تھا۔ اُس کی آنکھیں ویران تھیں۔ یکایک اُن کی آنکھوں میں چمک اُبھری اور ماں چیخنے چلانے لگی:
”چھوڑ دو…… چھوڑ دو…… اللہ کے لیے ہمیں چھوڑ دو۔ ہم نے تمہارا کیا لیا ہے؟ کیا نقصان کیا ہے؟ میں اور میرا بچہ بے گناہ ہیں۔ ہمیں آزاد کر دو۔ہم یہ سرزمین چھوڑ دیں گے، ہاں چھوڑ دیں گے یہ علاقہ، کہیں دُور نکل جائیں گے۔ چھوڑ دو ہمیں ……“
ماں پر ہذیانی کیفیت طاری تھی۔ چاروں فوجی ہنس رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے…… اور میں خون کے آنسو رو رہا تھا۔ پھرایک فوجی ماں کی طرف بڑھا۔میری آنکھیں آسمان کی طرف اُٹھ گئیں او رپھر چیخ کانوں سے ٹکراتے ہی واپس نیچے جھکیں اور میں نے دیکھا، دو بے گناہ انسان انسانوں کی بھینٹ چڑھ گئے تھے۔فوجیوں کی گولیوں نے اُنھیں خون میں نہلادیا تھا۔

O

ایک چھوٹا سا بچہ مجھے پکڑنے کے لیے بھاگا۔ اگرچہ میں کافی تھک گیا تھا مگر اُس شرارتی سے بے خبر نہیں تھا۔ میں لپک کر منڈیر سے ذرا آگے درخت کی شاخ پر جا بیٹھا اور پلٹ کر اُس شرارتی لڑکے کو دیکھنے لگا۔ وہ چھوٹا لڑکا میرے ہاتھ نہ آنے پر خفا تھا اور غصے سے دُھوپ سینکتی ہوئی اپنی ماں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اُس کی ماں کے لبوں پر مسکراہٹ تھی۔
”امی وہ……!!“ لڑکا گھوم کر میری طرف اشارہ کر رہا تھا۔
”پپو! وہ بہت تیز ہے، تمھارے ہاتھ نہیں آئے گا۔“ ماں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”امی! میں وہ لوں گا، مجھے نہیں پتا،میں لوں گا اُسے۔“ لڑکیا ضد کر رہا تھا۔
”بیٹے! ضد نہ کرو، میں بازار سے اُس سے زیادہ خوب صورت لا دوں گی تمہیں۔“
ماں کی بات سن کر لڑکا رونے لگا۔
”میں یہی لوں گا، میں یہی لوں گا……“
ماں اُسے سمجھانے لگی، لیکن لڑکا تھا کہ مسلسل ضد کیے جا رہا رہا تھا۔ صورت حال بڑی دل چسپ تھی۔ کوئی اور موقع ہوتا تو میں خوب قہقہے لگاتا لیکن اُس ملک کے پڑوس میں ہونے والے مظالم میری آنکھوں کے سامنے لہرا رہے تھے۔ اچانک ماں نے میری طرف دیکھا، جیسے کہہ رہی ہو:
”آ جاؤ بھئی، میرے منے کے پاس آ جاؤ۔ یہ تم سے کھیلنا چاہتا ہے۔“
میں نے کہا:
”اے خاتون!تمھیں اپنے منے کا کتنا خیال ہے، تمھارے پاس ہی جو منے کفار کی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں، تمھیں کبھی اُن کا خیال نہیں آیا؟“
اُسی وقت بڑی تیز ہوا چلی جس نے میرے الفاظ اُس خاتون تک پہنچا دیے۔ میں نے دیکھا، وہ خاتون اچانک جیسے گم سم سی ہو گئی۔ معلوم نہیں کہ اُس نے میری بات سن لی تھی یا کوئی اور وجہ تھی۔ بہرحال وہ بت بنی کھڑی تھی اور اُس کا بچہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔ میں نے وہاں سے چلنے کا فیصلہ کر لیا۔
میں ہوں تو ایک ننھی سی جان لیکن ایک بڑے عظیم جذبے کے ساتھ ملک ملک کا سفر کر رہا ہوں۔اِنسانوں کو دیکھ رہا ہوں۔ انسان جو یہودی ہیں، عیسائی ہیں، ہندو ہیں، مسلمان ہیں۔ اللہ کو ماننے والے ہیں اور جو اللہ کے دشمن ہیں۔ سب کو دیکھ رہا ہوں۔ میں اُن کی دشمنیاں دیکھ رہا ہوں اور آپس کی محبتیں بھی۔ اُن کی عیاریاں میرے سامنے ہیں اور مکاریاں بھی۔ اُن کے دعوے بھی مجھ سے پوشیدہ نہ رہے اور ان کی پالیسیاں بھی……
میں اِس وقت ایک بہت خوب صورت علاقے میں ہوں۔بڑا لطف آ رہا ہے۔ سفر کی تھکان دُور ہوئی جا رہی ہے۔بڑی خوش گوار ہوا چل رہی ہے۔ درختوں کے پتے آپس میں ٹکرا کر عجیب سی موسیقی بکھیر رہے ہیں۔ میں مدہوش سا ہوا جا رہا ہوں۔ میرے سامنے لکڑی کا ایک مکان ہے۔ اُس مکان کے اِردگرد چند اور گھربھی ہیں۔ ایسے میں اچانک ایک زور دار آواز سن کر میں چونک اُٹھا۔ سامنے والے مکان کے باہر تین فوجی وردیوں والے لمبے تڑنگے آدمی موجود اپنی رائفلوں سے دروازہ توڑنے کے دَرپے ہیں۔ دروازہ زیادہ مضبوط نہیں تھا۔ ٹوٹنے کے قریب تھا اور پھر وہ ٹوٹ گیا۔ فوجی وردیوں والے جھٹ مکان میں داخل ہوئے اور پھر تھوڑی دیر بعد ایک عورت اور لڑکے کے ساتھ باہر آئے۔وہ ماں بیٹا تھے۔ مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگااور میں شاخ سے نیچے گرتے گرتے بچا۔میرا ذہن پیچھے چلاگیا۔ایک ٹنڈ منڈ درخت، ایک خستہ حال ماں اور اُس کا ایک بدحال بچہ…… ظلم…… زیادتی……
میرا ننھا سا دماغ کھولنے لگا۔ پکنے لگا چولہے پر رکھی ہانڈی کی طرح۔ میں نے بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھا،اُدھر وہ بچہ اور اُس کی ماں بھی آسمان کو دیکھ رہے تھے۔ وردیوں والے ہنس رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے۔ میری قوت برداشت جواب دے گئی۔ میں تیزی سے اُڑا اور اُن ظالموں پر جھپٹا۔ میرے کمزور پنجے اُن کے ہاتھو ں پرلگے تھے۔ اُنھوں نے میری طرف دیکھا۔ ایک حملہ کرنے کے بعد میں دوبارہ اُن کی طرف لپکا، لیکن اِس بار وہ چوکس تھے۔ ایک فائر ہوا اور میں پھڑ پھڑاتا ہوا نیچے گر پڑا۔ ایک گولی میرے دائیں پَر کو اُڑا چکی تھی۔ مجھے اُس وقت بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ فوجی میری طرف دوڑے اور پھر اُن میں سے ایک نے جھک کر مجھے اُٹھا لیا۔ وہ غور سے مجھے دیکھنے لگا۔ اُس کے دوساتھی بھی مجھ پر نظر جمائے ہوئے تھے۔
ایک نے کہا:
”اجے! یہ کیا ہے؟“
دوسرے نے کہا:
”ہے تو بڑا خوب صورت طوطا لیکن اِس کی حرکت سمجھ میں نہیں آئی!“
”چھوڑ یار اِسے، آؤ! اُنھیں دیکھتے ہیں ……“
وہ گھومے،دوسرے ہی لمحے وہ تینوں حیرت سے اُچھل پڑے۔ ماں بیٹا غائب تھے۔ یہ دیکھ کر میں خوش ہو گیا اور پھر میں نے زور لگایا۔ فوجی کی گرفت اِتنی سخت نہیں تھی۔ میں اُس کے ہاتھ سے نکل گیا اور بڑی مشکل سے اُڑتا ہوا اُن کی پہنچ سے دُور نکل گیا۔ اُن سے دُور جانے کے لیے مجھے بہت تکلیف برداشت کرنا پڑی تھی۔
میں اِس وقت جھاڑیوں میں اُلجھا پڑا ہوں لیکن بہت خوش ہوں،اِس لیے کہ میری وجہ سے وہ ماں بیٹا بچ گئے تھے۔ اُنھیں انسان نما بھیڑیوں کے چنگل سے رہائی مل گئی تھی۔ مجھے یقین ہے،کوئی آئے گا جو کفار کی ظلم کی چکی میں پستی انسانیت کی مدد کرے گا، کوئی آئے گا……ہاں ضرور آئے گا۔

OOO

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top