skip to Main Content

ایک اور ایک دو

بہزاد لکھنوی

۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس کی ناکامی کے بعد اسلم چور تک پہنچ گیا….مگر کیسے؟

۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلم کی عمر گو چودہ سال کی تھی۔ لیکن اسے سوچ بچار کا مادہ قدرت نے بہت دیا تھا۔ وہ ہر کام کو کرنے سے پہلے حد تک جانے کا سوچنے کا عادی تھا۔ اسکول میں اپنے ساتھیوں میں سب سے ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ تعلیم میں کوئی اس کا مقابل نہ تھا۔ اس میں اگر عیب تھا تو یہ کہ وہ غریب ماں باپ کا بیٹا تھا۔ اس کا لباس درجہ کے سب لڑکوں سے کم تر اور معمولی تھا لیکن اس کا اس کو کوئی غم نہ تھا، وہ جانتا تھاکہ دنیا میں دولت ہی سب سے زیادہ اہم شے نہیں ہے۔ اس کو کتابیں پڑھنے کا بڑا ذوق تھا اور خصوصیت کے ساتھ وہ جاسوسی ناول زیادہ دیکھا کر تا تھا۔ اس کی تعلیمی حیثیت اس لائق نہ تھی کہ وہ انگریزی کی کتابیں رکھ سکتا لیکن اس کو انگریزی ناول کے اردو تراجم ایک لائبریری سے مل جایا کرتے تھے۔ اس کی دلی تمنا تھی کہ وہ ناولوں کے سراغ رساں کی طرح کسی جرم کا سراغ لگائے اور دنیا میں نام پیدا کر لے لیکن یہ ایک ایسی تمنا تھی جس کا پورا ہونا آسان نہ تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ سالانہ امتحان کے بعد دو مہینے کی طویل چھٹیا ں پڑگئیں اور وہ اپنے علمی مشاغل سے آزاد ہو کر سارا دن ناول بینی میں مشغول ہوگیا۔ چھٹیا ں ہوئے کل ایک ہفتہ گزرا تھا کہ ایک دن اس کا ہم جماعت امجد اس کے پاس آیا اور کہنے لگا:
”دوست میرے گھر میں بڑی حیرت ناک چوری ہوگئی ہے۔“
”چوری؟“ اسلم نے دلچسپی کے ساتھ پوچھا: ”کیا چیز چوری ہوئی ہے؟“
”ایک ہیروں کا سیٹ۔“
”ہیروں کا سیٹ۔“
”ہیروں کا سیٹ۔“ اس نے کہا پوری تفصیل سے بتاﺅ۔“
امجد نے کہا: ”تم کو معلوم ہی ہے میرے والد صاحب بہت بڑے بینکر ہیں،ان کا بڑا کاروبار ہے۔ اس قصبہ میں وہ محض دو دن کے لیے آجایا کرتے ہیں، تاکہ ہم لوگوں سے ملاقات ہوجائے وگرنہ وہ تو شہر میں مقیم رہے ہیں۔ وہ رات کی گاڑی سے آئے، ہم سے ملنے کے بعد انھوں نے میری والدہ کو ہیروں کا ایک سیٹ دکھایا۔ دس ہیرے پروچ میں جڑے ہوئے تھے۔ میرے والد نے ان کی قیمت تین لاکھ بتائی۔“
”تین لاکھ؟“ اسلم نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں تین لاکھ اور یہ بھی کہا کہ ایک جاگیردار نے ان کے پاس رہن رکھائے ہیں وہ محض والدہ کو دکھانے کے لیے ہمراہ لیتے آئے۔ یہ کہہ کر انھوں نے وہ ہیرے کا پروچ تجوری میں بند کردیا۔“
”ٹھہرو“۔ اسلم نے کہا۔ ”اس وقت کون کون موجود تھا؟“
”میں اور میری والدہ۔“
”بس یا کوئی اور بھی تھا؟“
”امجد نے سوچتے ہوئے جواب دیا: ”ہاں یاد آیا اور ایک نوکرانی بھی تھی جو پانوں کی ڈبیا اس وقت لائی تھی۔“
”اچھا پھر کیا ہوا؟“ اسلم نے کہا۔
”کچھ نہیں، ہم سب سو رہے تھے۔ صبح والد جب سو کر اٹھے تو نہ جانے کیوں انھوں نے تجوری کھولی اس میں ہر چیز موجود تھی۔ لیکن وہ ہیرے کا پروچ نہ تھا۔“
”تعجب ہے۔“ اسلم نے کہا: ”تمہارے گھر میں کوئی اور مہمان تو نہیں ہے؟“
”مہمان۔“ امجد بولا: ”ہاں‘ والد صاحب کے ہمراہ ان کے ایک بہت گہرے دوست کل اس وقت آئے ہیں۔ وہ باہر بیٹھک میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں تھا۔“
اسلم نے کہا: ”ٹھیک ٹھیک بتاﺅ۔ جس وقت صبح تجوری کھولی گئی تو بدستور بند تھی؟“
”ہاں بالکل اس لیے کہ میں خود موجود تھا۔ اس تجوری کے کھلنے کا راز ہے اور یہ کہ بظاہر قفل سامنے لگے ہیں لیکن اس کا اصل قفل تجوری کی پشت پر ہے جو اس طرح چھپا ہوا ہے کہ سوائے جاننے والے کے کسی دوسرے کو نظر نہیں آسکتا۔“
”تمہارے والد نے کیا کارروائی کی؟“
”میرے والد نے قصبہ کی پولیس کو فوری اطلاع دی۔ پولیس آج صبح سے ملازمین کے بیانات لے رہی ہے۔“
کیا تم مجھے اس جگہ لے جاسکتے ہو،جہاں تجوری رکھی ہوئی ہے لیکن میں چاہتا یہ ہوں کہ گھنٹہ ڈیڑھ میں سکون کے ساتھ وہاں کی دیکھ بال کرسکوں۔“
”تم دس گھنٹے وہاں رہ سکتے ہو، اس لیے کہ پولیس نے وہ کمرہ باہر سے مقفل کردیا ہے۔ لیکن اس کمرے کا ایک دروازہ میرے کمرے میں ہے اس کے ذریعے تم کو اندر لے جاسکتا ہوں اور ہاں والد نے پولیس سے کہا ہے کہ اگر وہ بروچ مل جائے تو پانچ ہزار روپے بطور انعام پولیس کو دیں گے۔“
اسلم نے کہا: ”انعام سے تو مجھے دلچسپی نہیں ہے لیکن تم مجھے ایک نظر وہ کمرہ کھادو۔“
اسلم جب کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ کمرے میں بہت عمدہ قالین بچھا ہوا ہے، اور جابجا گاﺅ تکیے رکھے ہوئے ہیں۔ ایک کونے میں ایک ہرے رنگ کی بڑی تجوری رکھی ہوئی ہے۔ اس نے امجد سے کہا:”تم اپنے کمرے میں جاﺅ اور مجھے یہاں تنہا چھوڑ دو۔“
امجد کے جانے کے بعد اس نے کمرے میں ایک ایک انچ کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ وہ تجوری کے پاس گیا۔ تجوری ایک کونے میں میز کے اوپر رکھی ہوئی تھی۔ یہ بٹن قالین اور دیوار کے درمیان اٹکا ہوا تھا۔ اس نے وہ جھک کر اٹھا لیا۔ یہ قمیص کے کف کا بٹن تھاجو کہ ٹوٹ کر گر گیا تھا۔ یہ بٹن سونے کا تھا۔ اس نے اس کو جیب میں رکھ لیا اور سیدھا امجد کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا۔
”یہ بٹن کیا تمہارے والد کا ہے؟“
اس نے غور سے دیکھ کر کہا: ”نہیں یہ تو والد کے دوست کامعلوم ہوتا ہے۔ کل جس وقت وہ شب میں آئے تھے اور انھوں نے اپنا کوٹ اتارا تھا تو میں نے یہ بٹن ان کی قمیص میں دیکھا تھا۔ تمہیں کہاں سے ملا؟“
”لیکن نہیں۔“ اس نے کہا: ”تم خاموش رہو‘ تمہارے یہ مہمان کہا ں ہیں؟“
”کہاں ہیں، ارے بھائی یہیں ہیں۔ پولیس نے کسی کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی ہے۔“
”کیا ان کے سامان کی تلاشی ہوگئی ہے؟“
”نہیں غالباً اب پولیس ان کے کمرے میں جائے گی۔“
کیا تم تلاشی کے وقت مجھے وہاں لے جاسکتے ہو؟“
”کیوں نہیں…. داروغہ جی محبوب کے باپ ہیں جو اپنے ساتھ پڑھتا ہے۔“
اس وقت اسلم مہمان خانے میں داخل ہوا۔ داروغہ جی مہمان کے سامان کی تلاشی لے رہے تھے۔ یہ مہمان صاحب ایک بھاری بھر کم پچاس سالہ آدمی تھے، وہ داروغہ سے بار بار کہہ رہے تھے:
”یہ میری بڑی توہین ہے اور میں اس کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کروں گا۔ آپ میری حیثیت دیکھئے۔ میں خود بھی صاحب خانہ کی طرح کاروباری آدمی ہوں۔“
داروغہ بار بار کہہ رہے تھے: ”حضرت !ضابطہ کی کارروائی کے لیے مجبور ہوں۔“
اور خود امجدکے والد بھی ان سے بار بار معافی مانگ رہے تھے۔ اسلم ایک کونے میں بیٹھا یہ ساری کارروائی دیکھ رہا تھا۔ مہمان صاحب کے ٹرنک کے تمام کپڑے نکال کر باہر لے جائے جارہے تھے۔ لیکن کہیں سے کہیں تک کوئی سراغ مسروقہ ہیروں کا نہ تھا۔ پولیس نے پیٹی کے چاروں طرف سے ٹھونک بجا کر دیکھا ،اس میں کوئی چور خانہ تو نہیں ،ہے اس لیے پتا نہ چلا۔ اسلم برابر مہمان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا جس پر غصہ اور نفرت کے آثارتھے لیکن اس نے یہ دیکھا کہ دوران تفتیش میں مہمان کی نگاہیں بار بار ان سلیپروں پر موجود ہیں جو کمرے کے ایک کونے میں رکھی ہوئی تھیں۔ سامان کی تلاشی کے بعد کمرے کے اردگرد داروغہ جی نے نظریں دوڑائیں اور کہا:
”جناب میں آپ سے معافی کا طالب ہوں لیکن ملازمت کے فرائض سے تلاشی لینے پر مجبور تھا۔“ امجد کے باپ نے بھی یہی کہا۔
”داروغہ جی میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ اجمل صاحب (مہمان) پر مجھے کسی قسم کا شبہ نہیں ہے۔“
”داروغہ باہر نکلنے والے تھے کہ اسلم نے کہا۔ ”داروغہ جی کیا تلاشی پوری ہوگئی؟“
”داروغہ جی نے پہلی بار اسلم پر نگاہ ڈالی، پہچانتے ہوئے بولے: ”کیوں ،کیا سراغ ر سانی کر نے آئے ہو۔ میرا بیٹا کہتا تھا کہ تم کو سراغ ر سانی کے ناول پڑھنے کا بہت شوق ہے؟“
اسلم نے کہا: ”جی ہاں۔“
داروغہ جی ہنسے اور بولے: ”پانچ ہزار کا انعام مقرر ہے اگر مسروقہ ہیرے بر آمد ہوجائیں۔“
اسلم نے کہا:
”وہ تو یہیں موجود ہیں اور ابھی بر آمد ہوسکتے ہیں۔“
داروغہ جی ہنسے اور بولے: ”کہاں ہیں؟“
اسلم آگے بڑھا اور اس نے وہ رکھے ہوئے سلیپر اٹھا کر اندر ہاتھ ڈالا۔ پنجوں کے پاس سے اٹھتی ہوئی روئی نکالی جس کے اند ر ہیروں کا بروچ موجود تھا۔ داروغہ جی حیران ہوکر تیزی سے بڑھے اور بولے:
”اسلم کمال کر دیا تم نے۔ آخر تم کو ہیروں کی موجودگی کا سلیپروں میں کیوں کر علم ہوا۔ میں تو ناکام جارہا تھا؟“
اسلم نے کہا: ”داروغہ جی، سراغ رسانی کوئی زیادہ دشوار کام نہیں ہے۔ ذرا انسان کو سوجھ بوجھ سے کام لینا پڑتا ہے،ایک اور ایک مل کر دو ہوتے ہیں۔میں آپ کو اس سراغ رسانی کا پورا واقعہ سنائے دیتا ہوں۔ امجد نے جب مجھ سے ہیروں کی چوری کا حال کہا تو میں نے پوچھا کہ ہیرے دکھاتے وقت کون کون موجو دتھا۔ امجد نے کہا کہ وہ اور اس کی والد ہ کے علاوہ ایک نوکرانی بھی تھی۔ جو پانوں کی ڈبیا لائی تھی۔ اب ظاہر ہے کہ چور نہ امجد ہوسکتا تھا نہ اس کی والدہ۔ نوکرانی پر شبہ جاسکتا تھا۔ میں جب اس گھر میں اس کے کمرے کا جائزہ لینے گیا تو میرے تخیل میں نوکرانی تھی۔ کمرہ کی تلاشی کے دوران مجھے ایک قمیص کے کف کا ٹوٹا ہوا بٹن ملا اور وہ تجوری کی پشت پر قالین اور دیوار کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ اس بٹن کو امجد نے پہچانا کہ وہ اجمل صاحب کا ہے۔ اس کے بعد میرے تخیل میں چوری کے دو مرتکب ہوئے، نوکرانی اور اجمل صاحب۔ غالباً نوکرانی نے اجمل صاحب کو ان ہیروں کی اطلاع دی۔ اجمل صاحب نے نوکرانی کے ذریعے سے خواب آور دوا امجد کے والد کو پلادی۔اس کے بعد اجمل صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ تجوری کھولنے کا راز نوکرانی کو معلوم تھا۔ اس لیے کہ وہ اس وقت موجود تھی۔ اس نظریہ کو قائم کرنے کے بعد میں نے غور کیا کہ وہ دوا ہلکی تھی ،اس لیے امجد کے والد صبح ہی اٹھ بیٹھے اوراٹھتے ہی ہیروں کی گمشدگی کا علم ہوگیا۔ فوری پولیس بلائی گئی۔ لہٰذا ظاہر ہے کہ مال مسروقہ گھر سے نکال لے جانے کا موقع نہیں ملا۔ جب آپ یہاں کی تلاشی لے رہے تھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ اجمل صاحب بار بار اپنے سلیپروں کو دیکھ رہے تھے۔ عام طور پر سلیپر پلنگ کے نیچے رکھے جاتے ہیں تاکہ کپڑے اور جوتے اتار کر ان کو استعمال کیاجاسکے۔ باہر سلیپر جہاں کپڑے ٹانگے جاتے ہیں۔ وہاں رکھی جاتی ہیں۔
اس غیر جگہ جوتیوں کی موجودگی نے مجھے بتایا کہ اس میں کوئی نہ کوئی راز ہے۔ تلاشی کے دوران ان کی بار بار سلیپروں پر نگاہ تھی، سلیپروں کی اہمیت یوں نمایاں ہوگئی۔ جب کہ آپ تلاشی میں ناکام ہوئے تو مجھے اس کا یقین ہوگیا کہ ان سلیپروں میں ہی مال مسروقہ موجود رہاہے۔ داروغہ جی یہ ہے میری سراغ رسانی کا راز۔“ امجد نے کہا۔
”لڑکا سچ کہتا ہے۔ نوکرانی میرے ہی گاﺅں کی ہے، اس نے مجھے بہکا دیا۔ میں دراصل مالی پریشانیوں میں ہوں لیکن آپ مجھے گرفتار نہیں کر سکتے کیوںکہ مال مسروقہ جن سلیپروں سے برآمد ہوا ہے ،یہ میرے نہیں ہیں۔“
امجد کے والد نے کہا، ”داروغہ جی میرامقصد بھی مقدمہ چلانا نہیں ہے۔ مال برآمد ہوگیا۔ یہی کافی ہے۔ اسلم بیٹے یہ پانچ ہزار کے نوٹ۔ ان کو وصول کرو۔ یہ تمہاری سراغ رسانی کا انعام ہے۔“
اسلم نے کہا۔”چچا ان کو بینک میں رکھوا دیجئے اور ہدایت کر دیجیے کہ مجھے ماہ بماہ رقم ملتی رہے تاکہ میں اپنی تعلیم پوری کر سکوں۔“

٭….٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top