skip to Main Content

سرکارِ مدینہ

چراغ حسن حسرتؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضور سرور کائنات ﷺ کی پاک زندگی کے مختصر حالات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دیس میں مغرب کی طرف عرب کا ملک ہے جسے تین طرف سے پانی نے گھیر رکھا ہے۔یہ تو ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں ہو سکا کہ اس میں کتنے لوگ بستے ہیں۔ہاں کوئی ایک کڑور کا اندازہ کیا جا تا ہے۔آب و ہوا گرم خشک ہے ۔جگہ جگہ روکھی سوکھی جھاڑیاں،ریتلے بیابان اور پتھریلے میدان ملتے ہیں۔ان ریگستانوں میں کہیں کہیں اُونچے ٹیلے اوروادیاں بھی ہیں۔جن میں کھجور کے پیڑوں تلے چشمے موج مارتے نظر آتے ہیں ۔
ملک میں کوئی دریا نہیں ،صرف چھوٹے چھوٹے ندی نالے ہیں جو سال میں کئی مہینے خشک پڑے رہتے ہیں ۔بارش اس طرح تو نہیں ہوتی کہ جل تھل ایک ہو جائے۔ ہاں مینہ برستا ضرورہے اور برسات کا موسم کئی مہینے رہتا ہے۔ ملک کا زیادہ حصہ رتیلا ہے ،لیکن بعض علاقوں میں قدرت نے ریگستانوں کے ساتھ گلزار بھی کھلائے ہیں۔مثلاً یمن ،بحرین اور عمان کے علاقے جو سمندر کے کنارے پھیلے ہوئے ہیں ،بڑے شاداب ہیں۔
ملک کے درمیان نجد کا علا قہ ہے جسے چٹیل پہاڑوں اور ریگستانوں نے گھیر رکھاہے۔اس سے ہٹ کر سمندر کے کنارے حجاز کا صوبہ ہے۔ یہاں سر سبز وادیاں اور رریتلے میدان پہلوبہ پہلو پھیلتے چلے گئے ہیں ۔مکہ،مدینہ،جدہ اور طائف اس صوبے کے مشہور شہر ہیں ۔ہمارے نبی ﷺ مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔مدینہ میں آپ کا مزار ہے ۔ مکہ سے کچھ دور طائف ہے۔یہ شہر باغوں سے گھرا ہوا ہے ۔جہاں تک نظر کام کرتی ہے پھل اور پھول ہی دکھائی دیتے ہیں ۔بس ایسامعلوم ہوتا ہے کہ تپتے میدانوں میں جنت کا ایک ٹکڑا لا کے رکھ دیاگیا ہے۔
عرب میں یوں تو قسم قسم کے پھل، پھول اور جانور ملتے ہیں ۔مگر یہاں کے پھلوں میں کھجور اور جانوروں میں اونٹ اور گھوڑے بہت مشہور ہیں ۔عربی گھوڑا بہت خوبصورت اور پھر تیلا ہوتا ہے ۔اونچی گردن ،پتلی کمر ،چھوٹا سر ،پھولے ہوئے نتھنے ،چاروں ہتھیلیاں جھاڑ کے طرارہ بھرتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بجلی سی کوند گئی۔
اونٹ عرب کا خاص جانور ہے۔ جن خوف ناک ریگستانوں میں گھوڑا دو قدم نہیں چل سکتا ۔ وہاں اونٹ بے تکان اڑاچلا جاتا ہے ۔ایک مرتبہ پیٹ بھر کے پانی پی لیتاہے اور دنوں اسے پیاس نہیں ستاتی۔کھانے کو خاردار جھاڑیاں موجود ہیں اوریہ قناعت پسند جانور اِنھیں پر گزارہ کر لیتا ہے۔
عرب کے لوگ قافلہ بنا کر چلتے اور اونٹوں پر سفر کرتے ہیں مگر یہاں کے ریگستانوں میں کبھی کبھی ایسی زہریلی ہوا چلتی ہے کہ قافلوں کے قافلے تباہ ہوجاتے ہیں۔جب یہ ہوا چلنے لگتی ہے تو پہلے افق پر سر خی سی نظر آتی ہے، پھر اندھیرا چھا جاتا ہے۔ کچھ دیر میں ایک زرد سا غبار ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ اور سورج خون کی طرح لال لال معلوم ہوتا ہے۔اس وقت سورج کی کرنیں غائب ہوجاتی ہیں اورہوا شور مچاتی فضا میں ہر طرف ریت بکھیر دیتی ہے ۔ یہ دیکھ کر مسافر جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں اور کسی غار میں جا کر پناہ لیتے ہیں ۔یا منہ کے بل زمین پر گر پڑتے ہیں ۔اونٹ کبھی بلبلاتے اور منہ میں جھاگ لا کر بھاگتے اور کبھی ریت پر سر ٹپکتے ہیں ۔گرم گرم ریت آنکھوں اور نتھنوں میں گھس جاتی ہے۔ دم گھٹنے لگتا ہے اور گرم ہوا جسم کو جھلسے ڈالتی ہے ۔اکثر قافلے یوں ہی ریت میں دب کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔

عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا

عرب کے لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔
عرب کے لوگوں کا رنگ گندمی ہوتا ہے۔ پیشانی اونچی،آنکھیں سیاہ اور تیز،جسم مضبوط اورسڈول ۔وہ ہاتھ کے سخی اور بات کے پکے ہوتے ہیں۔
جو خانہ بدوش عرب صحراؤں میں رہتے ہیں۔ ان کے رہنے سہنے کا ڈھنگ ہزاروں برسوں سے ایک سا چلا آتا ہے ۔ قبیلوں کے قبیلے بھیڑ بکریوں سمیت پانی اور چارے کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں۔ جہاں کوئی چشمہ اور اس کے آس پاس کھجور کے دو چار پیڑ نظر آئے، و ہیں اتر پڑے اور کمبل تان کے تنبو سے بنالیے ۔ جانور ہریاول سے پیٹ بھرتے ہیں ۔ انسان بھیڑ ،بکریوں اور اونٹنیوں کے دودھ اور کھجور پر گزران کرتے ہیں یا پھر شکار کو نکل جاتے ہیں،اور جو کچھ ہاتھ آتا ہے مل بانٹ کے کھا لیتے ہیں ۔جب تک پانی رہتا ہے، یہ وہیں ڈیرے ڈالے ہوئے رہتے ہیں ۔جب ختم ہو جاتا ہے تو چل کھڑے ہوتے ہیں ۔پھر نیادانہ نیا پانی ،نئی زمین نیا آسمان ۔
عرب کے لوگوں کے رہنے سہنے کا جو ڈھنگ آج ہے، پرانے زمانے کی حالت سے ان کا مقابلہ کیا جائے تو زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ہاں خیالات اور رسموں ریتوں میں بڑا فرق آگیا ہے۔کوئی ڈیڑھ ہزار سال پہلے بھی یہ لوگ یوں ہی صحراؤں میں رہتے تھے۔کچھ لوگوں نے چھوٹی چھوٹی بستیاں بسا رکھی تھیں۔اور تھوڑی بہت کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ انہیں تجارت کا بھی شوق تھا۔اور ان کے قافلے ادھر ہندوستان اور ادھر چین تک پہنچتے تھے۔
عرب میں شاعری کا بہت چرچا تھا۔ چھوٹے اور بڑے، عورتیں اور مرد سب شعر کہتے اور دوسروں کے شعر شوق سے سنتے۔رات کو جب لوگ سب کاموں سے فارغ ہو کر مل بیٹھتے تو شاعر اپنے شعر سنانے شروع کردیتا۔میدان میں دو بہادرآمنے سامنے ہوتے تو لڑائی شروع کرنے سے پہلے اپنے اپنے قبیلے کی بڑائی اور اپنی طاقت اور شجاعت کی تعریف میں شعر پڑھتے۔خانہ بدوش عرب جن کی عمریں تپتے صحراؤں میں گھومتے گزر گئی تھیں۔ایک دوسرے سے گفتگو کرتے تو اسے بھی شعروں سے رنگین اور بامزہ بنا دیتے تھے۔
مکہ کے پاس ہی ایک میلا لگتا، یہاں دور دور کا تجارتی مال آتا اور ہزاروں کا لین دین ہوتا۔عرب بھر کے بہادر شہسوار،نیزہ بازاور پہلوان اکٹھے ہوتے اور اپنے کرتب دکھاتے ۔ان کرتبو ں کے ساتھ ساتھ شاعری کے مقابلے بھی ہوتے یعنی شاعر ایک ایک کرکے لوگوں کے سامنے آتے اور اپنے اپنے شعر پڑھتے۔ان کی نظموں میںیا تو لڑائیوں کے تذکرے ہوتے تھے یا خاندانوں کی بڑائی، سخاوت، مہمان نوازی اور شرافت کے قصے۔ان کے شعروں میں نہ لفظوں کا الٹ پھیر ہوتا نہ بناوٹ، صرف سیدھی سادی باتیں،کچھ جنگلوں اور ٹیلوں کا بیان، کچھ صحراؤں کی وحشت اور ویرانی کا ذکر یا اونٹوں اور گھوڑو ں کی تعریف، لیکن ان کی زبانوں سے جو کچھ نکلتا ،دلوں میں اترجاتا۔ قبیلوں کی باگ انہیں شاعروں کے ہاتھ میں تھی۔ جب چاہتے اپنے کلام کی تاثیر سے لوگوں کے دل الٹ دیتے تھے۔
اگرچہ ان لوگوں کی زبان،رہنے سہنے کے ڈھنگ،چال ڈھال اور خیالات میں کوئی فرق نہیں تھا۔پھر بھی اس ملک میں ایک حکومت قائم نہ ہو سکی۔وہ اپنے قبیلے کے سردار کے سوا کسی کا حکم نہیں مانتے تھے۔اور قبیلے کے سردار کی بھی بس اتنی عزت کی جاتی تھی جتنی کنبہ کے بزرگ کی۔کوئی مشکل آپڑتی تو سب لوگ جمع ہو کر آپس میں مشورہ کرلیتے تھے۔
عربوں میں جہاں آزادی کی محبت، مہمان نوازی، بہادری اور سخاوت جیسی خوبیاں تھیں، وہاں ان میں بہت سی برائیاں بھی تھیں۔وہ کھلے بندوں شراب پیتے، جوا کھیلتے،ان میں لوٹ مار کو بھی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا۔کوئی شخص کسی قافلے کو لوٹ کر بہت سا مال لے آتا تو سب لوگ اس کی عزت کرتے۔کئی کئی دن دعوتیں ہوتی رہتی تھیں۔شاعر اس کی تعریف میں شعر کہتے تھے۔ہاں، اپنے قبیلے کے کسی شخص کو لوٹنا بڑا عیب سمجھا جاتا تھا۔ ان میں آئے دن لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ذرا ذرا سی بات پر اس زور کی لڑائیاں ہوتی تھیں کہ قبیلوں کے قبیلے کٹ جاتے اور پھر یہ لڑائیاں ایک دو دن میں ختم نہیں ہو جاتی تھیں،بلکہ تیس تیس چالیس چالیس برس تک برابر تلواریں کھنچی رہتی تھیں۔
ان کے مذہب کا بھی عجب حال تھا۔ کچھ بتوں کو پوجتے۔ کچھ چاند ستاروں، دریاؤں اور پہاڑوں کی پوجا کرتے۔ان میں کچھ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے بھی تھے،لیکن ان میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں اور انہوں نے اپنی مذہبی کتابوں میں بہت سی بے اصل باتیں اپنے دل میں گھڑ کر ملا دی تھیں۔
مکہ میں پرانے وقتوں سے ایک مسجد چلی آتی ہے،جسے کعبہ کہتے ہیں۔اس مسجد کو اللہ کے سچے نبی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے بنایا تھا۔وہ عرب کے لوگوں کو سچے خدا کی عبادت کا طریقہ بھی سکھا گئے تھے۔لیکن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی وفات کے بعدیہ لوگ سیدھے رستے سے بھٹک گئے اور بتوں کو پوجنے لگے۔کچھ عرصے کے بعد ان کی گمراہی ایسی بڑھی کہ انہوں نے کعبہ میں بھی بت لاکے رکھ دئیے۔

نہاں ابرِ ظلمت میں تھا مہرِا نور
اندھیرا تھا فاران کی چوٹیوں پر

ہمارے نبیﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے نبی ﷺ کا نام محمد ﷺ تھا ۔آپﷺ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے خاندان میں سے تھے ۔جو عرب کے سب گھرانوں سے اونچا سمجھا جاتا تھا۔آپ ﷺکے قبیلے کا نام قریش تھا۔آپ ﷺکا گھرانہ جو بنی ہاشم کہلاتا ہے، اسی قبیلے کی ایک شاخ ہے۔
ہمارے نبیﷺ مکہ میں پیدا ہوئے۔یہ پرانا شہر سمندر سے کوئی ۳۵ میل کے فاصلے پر ہے ۔اس کے گردا گرد ریتلے میدان اور چٹیل پہاڑیاں
پھیلی ہوئی ہیں ۔آپ ﷺکے والد عبد ا للہ مکہ کے سردار عبدالمطلب کے بیٹے تھے۔ آپ ﷺکی والدہ بی بی آمنہ بھی حضرت اسمٰعیل کے گھرانے میں سے تھیں۔ آپ ﷺکی پیدائش سے دو مہینے پہلے عبداللہ کا انتقال ہوگیا۔وہ ملک شام گئے ہوئے تھے۔وہیں بیمار ہوئے۔ لوٹتے وقت مدینہ سے گزرے تواپنے نانہال میں ٹھہر گئے اور وہیں وفات پا ئی۔ موت کے وقت ان کی عمر پچیس برس کی تھی۔وہ اپنے خاندان کے دوسرے لوگوں کی طرح دولت مند تو نہیں تھے۔ہاں ،اپنے سب بھائیوں سے زیادہ خوب صورت تھے۔
ربیع الاول کا مہینہ تھا۔جاڑا ختم ہو چکا تھا۔درختوں میں کونپلیں پھوٹنے کو تھیں کہ پچھلے پہر جب ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور صبح مکہ کی اونچی نیچی گھاٹیوں پر نور بکھیر رہی تھی،ہمارے نبی ﷺ پیدا ہوئے۔آپ ﷺکے داداسردار عبدالمطلب کو جب خبر ملی تو دوڑے دوڑے آئے۔پوتے کو بیٹے کی نشانی سمجھ کر سینے سے لگایا اور اپنے ملک کے دستور کے مطابق بہت خوشیاں منائیں۔
عربوں کا قاعدہ تھا کہ بچوں کو پیدا ہوتے ہی شہر سے باہر بھیج دیتے تھے۔وہاں وہ دیہاتی عورتوں کا دودھ پی کر پرورش پاتے اور صحرا میں کھیل کود کے بڑے ہوتے۔اس طرح ان کے ہاتھ پاؤں میں خوب طاقت آتی اور انکے جسم لوہے کے سانچے میں ڈھل جاتے۔ہمارے نبیﷺ ابھی ننھے سے تھے کہ انہیں ایک بی بی کے ساتھ جن کا نام حلیمہ تھا ،مکہ سے باہر بھیج دیا گیا۔
بی بی حلیمہ کو آپ ﷺسے بہت محبت تھی۔ وہ آپﷺ کو اپنی آنکھوں کا تارا سمجھتیں اور اپنی اولاد کی طرح چاہتی تھیں۔جب آپﷺ ذرا سیانے ہوئے تو اپنے دودھ شریک بھائیوں کے ساتھ آس پاس کے میدانوں اور جنگلوں میں بکریاں چرانے لگے۔

ہوئی پہلوءِ آمنہ سے ہویدا
دعاءِ خلیل اور نوید مسیحا

بچپن
۔۔۔۔
ہمارے نبی ﷺ نے آنکھ کھولی تو سر پر نیلے آسمان کی چھت اور آس پاس سنسان بیابان۔ادھر کھجوروں کے جھنڈ، ان کے پاس کچھ کچے مکان، خانہ بدوش عربوں کے خیمے،ڈیرے ، بھیڑ، بکریاں، گھوڑے اور اونٹ۔ صبح سویرے پورب سے سورج نکلتا اور دن بھر اپنی چمک دمک دکھا کے غائب ہو جاتا۔پھر ہر طرف اندھیرا چھا جاتا۔ دن بھر کے تھکے ہارے انسان اور حیوان آرام کرتے۔اتنے میں تارے نکلتے اور اپنی چمک دمک سے کھجورو کے پتوں ، ریت کے ٹیکروں ااور آس پاس کی گھاٹیوں کو چمکا دیتے۔تھوڑی دیر میں جب چاند نکلتا اور اس کی پہلی کرنیں جلتی جلتی ریت پر آب حیات برساتیں تو تاروں کی چمک دمک ماند پڑ جاتی۔
اس حالت میں دل عجب طرح کی لذت پاتا۔رہ رہ کر خیال آتا کہ یہ چاند، سورج، تارے ، درخت، جنگل ،میدان سب کے سب خوب صورت ہیں مگر ایک حالت پر نہیں رہتے۔ان میں ہمیشہ ادل بدل ہوتا رہتا ہے۔ان چیزوں کو بنانے والاکوئی اور ہے۔ جو ان سب سے اونچا اور اعلیٰ ہے ۔اسے آنکھ نہیں دیکھ سکتی مگر دل پہچانتا ہے۔
اس زمانے میں گھر گھر بت پج رہے تھے۔ جہاں عربوں کا کوئی قبیلہ ڈیرے ڈالتا، وہیں اک موری لا کر رکھ دی جاتی۔لوگ ان پر چڑھاوا چڑھاتے۔ ان سے اپنا دکھ سکھ کہتے۔کٹھن وقتوں میں ان کی مدد چاہتے،مگر ہمارے نبی ﷺ کی طبیعت ان بتوں پر نہ جمی۔لوگوں کو ان کے آگے سر جھکاتے دیکھ کر انہیں اچنبھا ہوتا کہ آخر یہ لوگ ان پتھروں اور مٹی کی بے جان مورتوں کو کیوں پوجتے اور انہیں دنیا کو بنانے اور پالنے والا جانتے ہیں۔ان بے چاروں میں تو اتنی ہمت بھی نہیں کہ منہ پر مکھی آ بیٹھے تو اُڑا دیں۔
ہمارے نبی ﷺ کی عمر چھ سال کی تھی کہ بی بی آمنہ کا انتقال ہو گیا۔اب آپ ﷺاپنے دادا کے پاس رہنے لگے۔ دو سال بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ وہ بھی چل بسے،اور اس طرح آپ کو خدا کے سوا دنیا میں کسی کا سہارا نہ رہا۔ اس حالت میں آپﷺ کے ایک چچا ابو طالب آپ کو اپنے ہاں لے آئے ۔

ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت
کہ طالع ہوا ماہِ برجِ سعادت
نہ چٹکی مگر چاندنی ایک مدت
کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت

جوانی
۔۔۔۔
ہمارے نبی ﷺ بچپن سے بہت شرمیلے اور نیک تھے۔آپ ﷺکی طبیعت میں بچوں کی سی شوخی اور ضد نام کو نہ تھی۔ جوں جوں آپﷺ کی عمر زیادہ ہوتی گئی، آپ ﷺکے جوہر کھلتے گئے۔مکہ کے نوجوان میلوں ٹھیلوں،کھیل تماشوں،نیزہ بازی اور شاعری کے مقابلوں میں ایسے کھوئے ہوئے تھے کہ انہیں اور کسی بات کی سدھ بدھ نہ تھی۔مگر آپ ﷺہمیشہ ان چیزوں سے الگ تھلگ رہتے تھے۔آپ ﷺبولتے کم اور سوچتے زیادہ تھے۔ اور آپﷺ کے چہرے سے ایسا معلوم ہوتاتھا کہ آپﷺ کسی بات پر سوچ بچار کر رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ آپﷺ کی طبیعت کا یہ حال تھا کہ کسی کو دکھ میں دیکھ کر آپ ﷺبے چین ہوجاتے تھے ۔اور جب تک اس کا دکھ دور نہ ہو جاتا تھا آپﷺ کو کل نہ پڑتی۔کسی بڈھے آدمی کو کندھے پر بوجھ رکھے دیکھتے تو دوڑ کر اس کا بوجھ اٹھا لیتے ۔کوئی اندھا گرتا پڑتا ٹھوکریں کھاتا راستہ چلتا نظر آتا تو بڑھ کر اس کا تھام لیتے اور جہاں اسے جانا ہوتا ،وہاں پہنچا دیتے۔ کسی یتیم بچے کو روتا دیکھتے تو اسے گود میں اٹھا کر دلاسہ دیتے ۔ اس کی تیمار داری کرتے اور ساری ساری رات پٹّی سے لگے بیٹھے رہتے۔
ایک دن ایک بوڑھا غلام پانی کی مشک اٹھائے نظر آیا مگر اس میں اتنا بوجھ اٹھانے کی سکت نہ تھی ۔ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔چہرہ زرد،دو قدم چلتا اور ہانپنے لگتا۔یہ حالت دیکھ کر آپﷺ سے نہ رہا گیا ۔ دوڑ کر مشک اٹھالی اور اس کے آقا کے گھر پہنچا دی۔
ایک دن دیکھا کہ ایک غلام آٹا پیس رہا ہے مگر ساتھ ساتھ روتا بھی جاتا ہے۔آپﷺ اسے اس حال میں دیکھ کر رک گئے ۔پوچھا ،کیوں رو رہے ہو۔کہنے لگا، بیمار ہوں۔آٹا پیسا نہیں جاتا۔آٹا نہ پسا تو ظالم آقا مارے کوڑوں کے کھال ادھیڑ دے گا۔آپ ﷺیہ سن کر اس کے پاس بیٹھ گئے اور آٹا پیسنے لگے۔پھر بولے،تمہیں جب آٹا پسوانا ہو، مجھے بلوا لیا کرو۔
آپﷺ یتیموں اور غریبوں کی خبر گیری کرتے۔ جن غریب عورتوں کی مدد کرنے والا کوئی نہ ہوتا ،انہیں سودا سلف لا دیتے۔ان کے بچوں کو کھلاتے۔ کسی شخص پر کوئی مصیبت آپڑتی تو جہاں تک بن پڑتا اس کی مدد کرتے۔آپ ﷺکی خوبیوں کی وجہ سے چھوٹے بڑے سب آ پﷺکی عزت کرتے اور آپ ﷺکے نام بڑے ادب سے لیتے تھے۔اکثر لوگ آپﷺ کے پاس اپنی امانتیں رکھ جاتے۔چنانچہ مکہ بھر میں آپﷺ ’’امین‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

بی بی خدیجہ
۔۔۔۔۔۔
مکہ میں ایک نیک اور دولت مند بی بی رہتی تھیں، جن کا نام خدیجہ تھا۔خدیجہ کے خاوند کا تو انتقال ہو چکا تھا لیکن ان کا کاروبار بہت پھیلا ہواتھا۔جگہ جگہ ان کے نوکر اور کارندے مقرر تھے جو تجارت کا مال لے کر شام اور آس پاس کے دوسرے ملکوں میں جاتے تھے اور وہاں سے ہر قسم کا مال لاتے تھے۔
بی بی خدیجہ کو ایک ایسے محنتی اور دیانت دار آدمی کی تلاش تھی جو ان کے کاروبار کی دیکھ بھال کرے۔ہمارے نبی ﷺکی نیکی اور دیانت داری کا چرچا سن کے بی بی خدیجہ نے ان کو بلوا بھیجااور بہت سا مال دے کے شام کے ملک بھیجا۔آپﷺ ایک دفعہ پہلے بھی اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شام کا سفر کر چکے تھے مگر اس وقت آپﷺ کی عمر تیرہ برس کی تھی۔اب کے آپ ﷺتیئس چوبیس برس کی عمر میں شام گئے۔
آپﷺ سفر سے لوٹے تو بی بی خدیجہ کے دل پر آپﷺ کی نیکی، دیانت اورسچائی کا اثر ہواکہ انہوں نے آپﷺ سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔آپﷺ نے ابو طالب سے ذکر کیا۔انہوں نے اس رشتے پر خوشی ظاہر کی ۔ابوطالب، آپﷺ کے خاندان کے دوسرے لوگ اور قریش کے سردار بی بی خدیجہ کے ہاں جمع ہوئے اور وہیں نکاح پڑھایا گیا۔
شادی کے وقت آپ ﷺکی عمر پچیس برس سے زیادہ نہ تھی۔بی بی خدیجہؓ آپﷺ سے پندرہ سال بڑی تھیں۔ اس نیک بی بی سے کئی لڑکے اور لڑکیاں ہوئیں۔لڑکا تو کوئی زندہ نہ بچا۔لڑکیوں میں حضرت بی بی فاطمہؓ نے اپنی نیکی اور پرہیز گاری سے بڑا اونچا رتبہ پایا۔اور ہمارے نبی ﷺ کے چچیرے بھائی علیؓ سے بیاہی گئیں۔ان کی اولاد بہت پھلی پھولی اور دنیا کے اکثر حصوں میں پھیل گئی۔

ایک جھگڑے کا فیصلہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ مکہ میں پرانے وقتوں سے ایک مسجد چلی آتی ہے جسے کعبہ کہتے ہیں۔ جس زمانے کا ذکر ہم کر رہے ہیں، اُن دنوں کعبہ کی عمارت بہت کمزور ہو چکی تھی،اس لئے قریش نے فیصلہ کیا کہ اسے گر اکے پھر بنایا جائے۔
اس کام میں سب لوگ شریک تھے۔بڑے بڑے قبیلوں کے سردار خود گارا ڈھوتے،پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے۔کچھ دنوں میں عمارت بن کر تیار ہوگئی۔ حجر اسود کو جو ایک کالا پتھر اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے، اپنی جگہ پر رکھنا باقی رہ گیا۔
اب سوال یہ تھا کہ یہ کام کون کرے۔کوئی قبیلہ اس موقعے پر پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔پہلے تو دیر تک بحث ہوتی رہی۔یہ بحث ایسی بڑھی کہ توتو میں میں ہونے لگی اور تلواروں کے قبضوں پر ہاتھ جا پہنچے۔یہ دیکھ کر کچھ بڑے بوڑھے بیچ بچاؤ کرنے کو بڑھے اور ایک بوڑھے سردارنے جس کی سب عزت کرتے تھے، بڑھ کے کہا۔ اچھا جو شخص کل صبح سب سے پہلے کعبہ میں آئے گا،وہی یہ جھگڑا چکائے گا۔
آنحضرتﷺ کو اس جھگڑے کی خبر نہیں تھی۔اتفاق سے آپﷺ صبح کو سب سے پہلے کعبہ میں پہنچے۔اگرچہ جھگڑا بے ڈھب تھاپر آپﷺ نے اسے اس طرح مٹایا کہ سب خوش ہوگئے۔ یعنی آپﷺ نے اپنی چادر بچھا کر حجر اسود کو اس میں رکھا، پھر قبیلوں کے سرداروں سے کہا کہ چادر کے کونے تھام کے اسے اٹھاؤ۔جب وہ چادر کو اٹھا کر اس جگہ لائے جہاں حجر اسود کو رکھنا تھا،تو آپﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے اٹھا کے رکھ دیا۔

نبوت
۔۔۔۔
شادی کے بعد آنحضرت ﷺکے وقت کا خاصاحصہ گھر کے کام کاج میں خرچ ہو جاتا تھا لیکن ان دھندھوں میں پڑ کے بھی آپ ﷺاپنے اصلی کام کو نہ بھولے۔جتنا وقت ملتا غریبوں کی خبر گیری میں خرچ کردیتے۔ بیماروں کی تیمارداری کرتے،بھوکوں کو کھانا کھلاتے اور کوئی ان کے پاس حاجت لے آتا تو اس کی حاجت پوری کر دیتے۔
ایک بار بی بی حلیمہ آپﷺ سے ملنے آئیں۔ اب وہ بہت بوڑھی ہوگئی تھیں۔انہیں دیکھ کے بچپن کا زمانہ آپﷺ کی نظروں تلے پھر گیا۔آپ ﷺنے ان کی بڑی خاطر کی اور چلتے وقت چالیس بھیڑیں ان کے ساتھ کر دیں۔
سوچ بچار کی عادت تو آپﷺ میں ہمیشہ سے تھی لیکن ان دنوں آپﷺ ہمیشہ کسی گہرے خیال میں کھوئے رہتے تھے۔آہستہ آہستہ کھانا پینا کم ہو گیا۔مکہ سے دوتین میل کے فاصلے پر ایک پہاڑ تھا۔ اس میں ایک گہرا غار تھا، جسے غارِ حر اکہتے ہیں۔آپﷺ کبھی جو کی روٹی یاکچھ کھجوریں اور پانی کا ایک کوزہ لے کے اس غار میں چلے جاتے اور کئی کئی دن وہیں عبادت کرتے رہتے۔پھر کھانے پینے کی سُدھ بھی نہ رہی ۔حضرت خدیجہؓ خود آپﷺ کوتلاش کرکے روٹی اور پانی پہنچا دیتیں ۔ایک دن عبادت کررہے تھے کہ ایک فرشتہ قرآن کی کچھ آیتیں لے کے آیا۔اور خوش خبری ملی کہ اللہ نے آپﷺ کو اپنا رسولﷺ بنایاہے ،بندوں کی ہدایت کا کام آپﷺ کے سپردکیا ہے۔
آپ ﷺنے دنیا کے سامنے دین پیش کیا۔اس کانام اسلام ہے۔اسلام کے اصول اور قاعدے قرآن میں بیان کئے گئے ہیں،قرآن پورے کا پورا ایک دفعہ ہی نہیں اترا،بلکہ تھوڑا تھوڑا کرکے اترتا رہا ہے۔ہمارے نبی ﷺکوئی نیا دین نہیں لائے۔آپ ﷺسے پہلے جو نبی آئے، وہ بھی لوگوں کو اسلام کی طرف ہی بلاتے رہے،لیکن ان نبیوں کے ماننے والوں نے خدا کی عبادت کے صحیح طریقے کو بھلا دیا اور وہ اللہ کی طرف سے جو کتابیں لائے تھے، ان میں بہت سی باتیں اپنی طرف سے گھڑ کر ملادیں۔ غرض اسلام اللہ کا سچا دین ہے،جس کا وعظ اللہ کے تمام رسول اپنے اپنے زمانے میں کرتے رہے ہیں۔
قرآن میں کوئی ادل بدل نہیں ہوا۔ یہ کتاب ہمارے نبی ﷺ پر جس طرح اتری تھی اسی طرح موجود ہے اور اس میں کوئی ادل بدل ہو بھی کیسے سکتا تھا۔قرآن کی آیتیں جیسے جیسے اترتی تھیں لوگ انہیں لکھنے کے علاوہ یاد بھی کرلیتے تھے۔ آج بھی دنیا میں لاکھوں آدمی ایسے موجود ہیں جنہیں پورا قرآن یاد ہے۔

اسلام کا وعظ
۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ نے اسلام قبول کیا۔ پھر آپﷺ کے چچیرے بھائی حضرت علیؓ جو ابو طالب کے بیٹھے، آپﷺ کے بچپن کے دوست حضرت ابوبکرؓ اور آپ کے غلام حضرت زیدؓ ایمان لائے۔
تین برس تک اسلام چپکے چپکے پھیلتا رہا۔ایک دفعہ آپﷺ اور حضرت علیؓ نماز پڑھ رہے تھے کہ ابوطالب نے دیکھ لیا۔ پوچھا، بھتیجے تم کس مذہب کے طریقہ پر عبادت کر رہے ہو۔ آپ نے جواب دیا،چچا جان یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور خدا کے دوسرے سچے نبیوں کا سچا دین ہے۔آپ بھی کیوں اس دین میں نہیں آجاتے۔ انہوں نے جواب دیا، میں اپنے باپ دادا کا طریقہ تو نہیں چھوڑ سکتا،البتہ تمہاری مخالفت بھی نہیں کروں گا۔
مکہ کے پاس صفا کی پہاڑی ہے۔ آپﷺ کو نبوت ملے تین برس ہو چکے تو آپﷺ نے ایک دن اس پہاڑی پر چڑھ کر مکہ کے لوگوں کو پکارا۔ وہ دوڑے دوڑے آئے ۔جب سب اکٹھے ہوچکے تو آپ ﷺنے کہا۔اے لوگو!تم مجھے کیسا سمجھتے ہو؟سب نے جواب دیا،آپﷺ سچے اور امین ہیں۔ہم نے آپ ﷺمیں کوئی برائی نہیں دیکھی۔
آپ ﷺنے کہا، اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے ایک بہت بڑی فوج تم پر ٹوٹ پڑنے کے لئے تیار کھڑی ہے۔تو کیا تم اسے سچ سمجھو گے؟لوگوں نے کہا، ہم اسے ضرور سچ سمجھیں گے۔کیوں کہ آﷺنے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔آپ ﷺنے فرمایا تو سنو، اگر تم نے پتھر کی بے جان مورتوں ، درختوں اور پہاڑوں کی پوجا نہ چھوڑی۔اللہ کو ایک نہ مانا، اس کو دنیا کا پیدا کرنے والا اور پالن ہار نہ جانا،تو تم پر سخت عذاب آئے گا۔
قریش میں یہ باتیں سننے کی تاب کہاں تھی۔وہ تو پتھر کی مورتوں کو اپنی حاجتیں پوری کرنے والا جانتے تھے۔ ان پر چڑھاوے چڑھاتے ۔ان سے اپنا دکھ درد کہتے اور مرادیں مانگتے تھے۔آنحضرت ﷺ باتیں سن کر ہر طرف شور مچ گیا۔اور قریش آپﷺ کو برا بھلا کہتے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

خطاکار سے درگزر کرنے والا
بداندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کا زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اتر کر حرا سے سوءِ قوم آیا
اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

مخالفت
۔۔۔۔
اب مکہ کے لوگوں نے آنحضرت ﷺکی مخالفت پر کمر باندھی۔ وہ آپﷺ کو اور آپ ﷺکے ساتھیوں کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتے،گالیاں دیتے، ڈھیلے اور پتھر پھینکتے۔ یہ وہی لوگ تھے جو کچھ دن پہلے آپﷺ کو سچا اور امین کہتے اور آپﷺ کی تعریف کرتے نہ تھکتے تھے۔لیکن ادھر آپﷺ نے ان کو اسلام کی طرف بلایا اور ادھر وہ آپﷺ کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ان میں قریش کا ایک سردار ابو جہل سب سے آگے نظر آتا تھااور دوسروں کو بھی آپ ﷺکی مخالفت پر اکساتا رہتا تھا۔
قریش نے ابوطالب سے بہتیرا کہا کہ یا تو اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کر دو۔نہیں تو ہم سے الگ ہو جاؤ۔انہوں نے آنحضرتﷺ کاساتھ نہ چھوڑا۔ ہاں، آپ ﷺکا ایک چچا ابولہب بدستور آپﷺ کی مخالفت پر جما رہا۔ جب قریش نے دیکھا کہ ڈرانے دھمکانے سے کام نہیں چلا تو دولت کا لالچ دیا۔لیکن یہ تدبیر بھی نہ چلی ۔
آپ ﷺمکہ میں دن بھر پھرتے رہتے ۔لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے ۔جو ملتا اسے یہی کہتے کہ پتھر کی بے جان مورتوں میں کیا رکھاہے۔ ان میں اتنی سکت بھی نہیں کہ منہ پر مکھی آبیٹھے تو اسے اڑا دیں۔پھر انہیں کیوں پوجتے ہو۔سچے خدا کو کیوں نہیں پہچانتے۔نیکی اور پر ہیز گاری کا راستہ کیوں نہیں اختیار کرتے۔لوگ آپ ﷺکی باتیں سن کر ہنستے۔ آپ ﷺکو دیوانہ کہتے۔ گالیاں دیتے ۔پھر بھی کچھ لوگ جنہوں نے آپﷺ کی باتیں غور سے سنی تھیں، آپﷺ پر ایمان لے آئے۔قریش یہ دیکھ کر بہت ڈرے اور یہ مشہور کر دیا کہ محمد ﷺ جادو گر ہیں۔ جو ان کی باتیں سنتا ہے،ان کے ساتھیوں میں شامل ہو جاتا ہے۔بہت سے لوگ آپﷺ کو دیکھ کے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے تھے۔کیونکہ جو شخص ایک دفعہ آپﷺ کی زبان سے قرآن سن لیتا تھا ، اس کا دل اللہ کے کلام کی حرارت سے پگھل جاتا تھا اور وہ اپنے باپ دادا کے طریقہ کو چھوڑ کر اللہ والوں کے گروہ میں شامل ہو جاتا تھا۔

مسِ خام کو جس نے کند ن بنایا
کھرااور کھوٹا الگ کردکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کوموجِ بلا کا
اُدھر سے اِدھر پھر گیا رخ ہوا کا

حضرت امیر حمزہؓ
۔۔۔۔۔۔۔۔
آنحضرت ﷺکے چچا حمزہؓاپنے زمانہ کے بڑے بہادر لوگوں میں سے تھے اور ان کی شہسواری کی دھاک سارے عرب میں بیٹھی ہوئی تھی۔چنانچہ ان کی بہادری کے بارے میں لوگوں نے بہت سی کہانیاں جوڑ رکھی تھیں۔ جو اب بھی ہندوستان اور ایران میں بہت مشہور ہیں۔
ایک دن ابو جہل نے آنحضرت ﷺکی شان میں بڑی بڑی گستاخیاں کیں اور آپﷺ کو بہت برا بھلا کہا۔حضرت حمزہؓ شکار کو گئے تھے۔ شام کو واپس آئے تو پڑوس کی ایک عورت نے انہیں سارا واقعہ سنایا۔جسے سن کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔اسی وقت ابوجہل کی تلاش میں نکلے ۔ وہ قریش کے سرداروں کی محفل میں بیٹھا تھا کہ یہ پہنچے۔اپنی کمان زور سے اس کے پر ماری اور للکار کر کہاکہ ہمت ہے تو آ اور مجھ سے دودوہاتھ کر لے۔وہ جانتا تھا کہ ان سے مقابلہ کیا تو جان کی خیر نہیں۔اس لئے چپکا ہو رہا۔یہ وہاں سے سیدھے آنحضرت ﷺ کے پاس آئے اور اسلام قبول کر لیا۔ حضرت حمزہ جیسے مشہور بہادر کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کے دل مضبوط ہوگئے۔

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی
نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی
اک آواز میں سوتی بستی جگا دی
پڑا ہر طر ف غل،یہ پیغام حق سے
کہ گونج اٹھے دشت و جبل نام حق سے

حضرت عمرؓ
۔۔۔۔۔۔
حضرت حمزہؓ کی طرح حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے بھی مسلمانوں کی طاقت بہت بڑھ گئی۔وہ شروع شروع میں اسلام کے بہت مخالف تھے۔ ان کی ایک لونڈی مسلمان ہو گئی تھی۔اسے بہت پیٹتے تھے۔
پیٹتے پیٹتے تھک جاتے تو کہتے ،ذرا آرام لے لوں پھر پیٹوں گا۔
ایک دن غصے میں آنحضرت ﷺ کے قتل کا ارادہ کرکے گھر سے نکلے۔راستے میں ایک شخص سے ملاقات ہوگئی۔ان کے تیور دیکھ کر اس نے پوچھا،خیر تو ہے۔تم اتنے غصے میں کہاں جا رہے ہو۔جواب ملا محمد(ﷺ) کو قتل کرنے جا رہا ہوں۔اُس نے کہا،پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو چکے ہیں۔
عمر غصے میں کانپتے ہوئے پلٹے اور بہن کے گھر پہنچے۔اس وقت وہ دونوں میاں بیوی قرآن پڑھ رہے تھے۔ان کی آواز سنتے ہی قرآن کے ورق چھپا دیے۔انہوں نے پہلے دونوں کو خوب پیٹا ۔پھر کہا ،تم جو کچھ پڑھ رہے تھے کہاں ہے۔ انہوں نے قرآن کے ورق لا کر سامنے رکھ دیے ۔جوں جوں پڑھتے جاتے چہرے کا رنگ بدلتا جاتا ۔
وہاں سے اُٹھ کر سیدھے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچے ۔دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی ’’کون ہے؟‘‘جواب دیا ،’’عمر‘‘۔کچھ مسلمان گھبرائے کہ خدا جانے یہ اس وقت کس ارادے آئے ہیں اور کیا فساد اُٹھائیں گے ۔حضرت حمزہؓ بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا،آنے دو صلح کی نیت سے آیا ہے تو خیر ،ورنہ اسی کی تلوار سے اس کا سر اُڑا دوں گا۔
آنحضرت ﷺ خود اُٹھ کر بڑھے اور پوچھا،عمر کس ارادے سے آئے ہو۔عمر سہم گئے اور کپکپاتی ہوئی آواز میں بولے’’حضور ﷺمسلمان ہونے ‘‘یہ سن کر مسلمانوں نے اس زور سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیاکہ مکہ کے پہاڑ گونج اُٹھے۔

سبق پھر شریعت کا ان کو پڑھایا
حقیقت کا گُر ان کو ایک اک بتایا
زمانے کے بگڑے ہوؤں کو بنایا
بہت دن کے سوتے ہوؤں کو جگایا
کھلے تھے جو نہ راز اب تک جہاں پر
وہ دکھلا دئیے،ایک پردہ اُٹھا کر

کافروں کا ظلم
۔۔۔۔۔۔۔
جوں جوں دن گزرتے گئے ،قریش کا ظلم بڑھتا ہی گیا۔ حضرت بلالؓ ایک حبشی غلام تھے۔جن کے سینے کو اسلام نے نورانی کررکھا تھا۔ ان کا آقا جو کافر تھا ،بڑا ظلم شخص تھا۔وہ انہیں چلچلاتی دھوپ میں تپتی ریت پر لٹا دیتااور ان کے سینے پر پتھر کے سل رکھ دیتا ۔لیکن اس حالت میں بھی وہ خدا کا نام پکارنے سے باز نہیں آتے تھے۔ان کا آقا ان پر بہت جھلاتا اور ان کے گلے میں رسی ڈال کر مکہ کے شریر لڑکوں کے حوالہ کر دیتا۔وہ انہیں گلی کوچوں میں کھینچے پھرتے۔
حضرت عمار بن یاسرؓ ایک اور بزرگ تھے ۔ جن کے کنبے پر قریش نے بڑے بڑے ظلم توڑے ۔حضرت عمارؓ کو وہ جلتی ریت ہر لٹا کے خوب پیٹتے۔ان کے والد نے بھی قریش کے ظلم سہتے سہتے جان دے دی اورا ن کی والدہ کو ابو جہل نے جو اسلام کی مخالفت میں ہمیشہ سب سے آگے رہتا تھا،بے رحمی سے شہید کر ڈالا ۔لونڈی غلام اور غریب لوگ تو خیر ہمیشہ کافروں کے ظلم کا نشانہ بنے رہتے تھے۔جو لوگ بڑے عزت دار سمجھے جاتے تھے۔انہیں بھی یہ لوگ دکھ دیتے اور ستاتے رہتے تھے۔
کافروں کے ظلم سے تنگ آکر کچھ مسلمان رسولِ خداﷺ کی اجازت سے حبش کے ملک میں چلے گئے۔ اس ملک کا بادشاہ اگر چہ عیسائی تھاپر بڑا شریف اور رحم دل شخص تھا۔ اس نے مسلمانوں کو بڑی اچھی طرح اپنے ہاں رکھا۔ قریش نے بہتیرا سر پٹکا کہ کسی طرح مسلمانوں کو ان کے حوالے کر دیا جائے ،پر اس نے ان کی بات نہ مانی ۔
جب قریش کسی طرح اسلام کو پھیلنے سے نہ روک سکے ،تو انہوں نے سارے بنی ہاشم سے بات چیت ، لین دین ،میل جول بند کر دیا۔ رسول خداﷺ ، حضرت حمزہؓ ، حضرت علیؓ ، ابو طالب اوران کے کنبے کے دوسرے لوگوں نے ایک گھاٹی میں پناہ لی ۔جو ابو طالب کی گھاٹی کہلاتی ہے ۔قریش نے لوگوں کو تاکید کر دی تھی کہ بنی ہاشم تک اناج کا ایک دانہ بھی پہنچنے نہ پائے ۔اس لیے کبھی کبھی درختوں کے پتوں پر گزار ا کرنا پڑتا تھا۔ تین برس تک یہی حال رہا ۔آخر کچھ لوگوں کو ترس آگیااور یہ ناکہ بندی اٹھا دی گئی۔ اب رسول خداﷺ اور آپ ﷺکے خاندان کے لوگ آزادی سے مکہ میں آنے جا نے اور لوگوں سے ملنے جلنے لگے۔
آپ ﷺکو گھاٹی سے نکلے ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ آپﷺ کے پیارے چچا ابو طالب نے وفات پائی۔ ابھی یہ زخم ہرا تھا کہ بی بی خدیجہ چل بسیں ۔ اس وقت آ پ ﷺکی عمر انچاس برس کی تھی اور آپ ﷺکی نبوت کا نواں سال تھا۔

ہجرت
۔۔۔۔
مکہ سے دو سو میل شمال کی طرف مدینہ کا پرانا شہر ہے۔ہمارے نبی ﷺ نے اپنی زندگی کا آخری زمانہ یہیں گزارا۔یہیں وفات پائی اور یہیں دفن ہوئے ۔ اس کا اصل نام یثرب ہے ۔ رسول خدا یہاں تشریف لائے تو لوگوں نے اسے مدینتہ النبی یعنی نبیﷺ کا شہر کہنا شروع کردیا ۔مدینتہ النبی مختصر ہوکر صرف مدینہ رہ گیا۔اوراب یہ شہر اسی نام سے مشہور ہے ۔
مدینہ چھوٹا سا شہر ہے ۔ کوئی تیس پینتیس ہزار کی آبادی ہوگی۔ شہر کے گرداگر د چالیس فٹ اونچی دیور کھچی ہے۔جس میں تین بڑے بڑے دروازے بنے ہیں۔
مدینہ کے قریب پہنچو تو چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ ہرے بھرے کھیت پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان سے ذرا ہٹ کر کھجور کے اُونچے اُونچے درختوں کی قطاریں، ان سے پرے روضہ مبارک کا سبز گنبد جسے دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک پڑتی ہے اور دل عجب طرح کی لذت پاتا ہے۔
یہاں کی آب و ہوا خوش گوار ہے اور زمین زرخیز ۔ اس لیے کھیتی باڑی خوب ہوتی ہے ۔شہر میں میٹھے پانی کے بہت سے کنویں بھی ہیں۔جن کی وجہ سے کبھی پانی کاتوڑا نہیں پڑتا۔
جن دنوں ہمارے نبی ﷺ کو اللہ نے پیغمبری کا رتبہ بخشا ۔ مدینہ کے لوگ بھی عرب کی دوسری بستیوں کے رہنے والوں کی طرح بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ان کے علاوہ حضرت موسیٰ ؑ کے بہت سے پیرو بھی آباد تھے۔
نبوت کے چھٹے ساتویں سال جب اسلام کا چرچا پھیلا اور مدینہ والوں کو رسول خداﷺ کا حال معلوم ہوا تو وہاں سے چھ آدمی مکہ پہنچے ۔ آپﷺ سے رات کے وقت ملے۔قرآن سنا اور اسلام قبول کر لیا۔ ان لوگوں نے مدینہ پہنچ کر کہا کہ جس نبیﷺ کا ذکر اگلے پیغمبروں نے اپنی کتابوں میں کیا ہے، وہ آگیا ہے۔ ہم اس سے ملے ہیں اور اس کی باتیں سنی ہیں۔
دوسرے سال مدینہ سے بارہ آدمی مکہ آکے مسلمان ہوئے ۔ اس کے اگلے برس بہتّر مردوں اور عورتوں نے مدینہ سے آکر رسول خدا ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔اور بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیاکہ آپﷺ مدینہ تشریف لے چلئے۔آپﷺ خود تو نہیں گئے ۔ ہاں، اپنے ساتھیوں کو جانے کی اجازت دے دی۔ اب مسلمان مکہ چھوڑ چھوڑ کے مدینہ جانے لگے ۔کچھ اکیلے دکیلے گئے۔کچھ اپنے کنبے والوں اور دوستوں کے ساتھ۔ اتنے میں رسول خداﷺ کو بھی اللہ کی طرف سے مدینہ جانے کا حکم آگیا۔ آپﷺ کے پاس بہت سے لوگوں کی امانتیں تھیں۔ وہ آپ ﷺنے حضرت علیؓ کے حوالے کیں اور کہا کہ یہ امانتیں لوگوں کو پہنچا کے تم بھی مدینہ چلے آنا۔پھر جب آدھی رات ڈھل چکی تو آپﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنے بچھونے پر سلادیا،اور خود گھر سے نکل حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے مدینہ روانہ ہوگئے۔
جس رات آپ ﷺمکہ سے نکلے ،اسی رات کافروں نے آپﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ رکھا تھا۔آپﷺ ان کے بیچ میں سے نکل کے چلے گئے اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ پچھلے پہر جب پو پھٹنے میں تھوڑی دیر باقی رہ گئی تھی،یہ لوگ مکان کے اندر گھس آئے ۔پر آپﷺ کی جگہ حضرت علیؓ کو سوتا پایا تو سناٹے میں آگئے ۔ اب آپﷺ کی تلاس شروع ہوئی ۔لوگ گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار ہو کر ہر طرف پھیل گئے۔اور آپﷺ کا کھوج نہ ملا۔
مکہ سے تین میل دور ثور نامی پہاڑ ہے ۔ رسول خداﷺ حضرت ابو بکرؓ کو ساتھ لے کر نکلے تو اسی پہاڑ کی ایک کھوہ میں پہنچ کر دم لیا۔تیسرے دن غار سے نکلے اور اونٹوں پر سوار ہو کر مدینہ کا رخ لیا۔
مدینہ سے کچھ دور قبا ء ایک بستی ہے۔ بہت سے مسلمان مکہ سے آکے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔رسولِ خداﷺ بھی یہیں اتر پڑے اور چودہ دن یہیں رہے۔ آپ نے قباء میں ایک مسجد کی بنیاد ڈالی ۔ اس مسجد کے بنانے میں بڑے بڑے صحابی شریک تھے۔کوئی گارا لاتا،کوئی پتھر ڈھوتا ،کوئی لکڑیاں چیرتا اور انہیں صاف کرتا ۔خود رسول خداﷺ بوجھل بوجھل پتھر اُٹھا کے لاتے تھے۔
پندرھویں دن آپﷺ مدینہ چلے۔قباء سے مدینہ تک شہر سا بسا ہوا تھا۔ لوگ رستے کے دونوں طرف صفیں باندھے کھڑے تھے۔شہر کے پاس پہنچے تو گھروں کی چھتیں عورتوں سے پٹی پڑی تھیں۔ اور ننھی ننھی لڑکیاں دف بجا بجا کر آپﷺ کی تعریف میں گیت گا رہیں تھیں۔
ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ رسول خداﷺ ہمارے ہاں ٹھہریں ۔ لوگ راستے میں جگہ جگہ اونٹ کی مہار تھام کے عرض کرتے تھے کے یا رسول اللہﷺ ہمارے مہمان بن کے ہمیں عزت بخشئے۔آپﷺ نے فرمایااونٹ کو چھوڑ دو ۔جہاں یہ رکے گا، وہیں میں اتر پڑوں گا۔اونٹ حضرت ابو ایوبؓ کے مکان کے پاس ایک میدان میں رکا۔آپﷺ نے وہ جگہ خرید لی ۔وہاں مسجد کی بنیاد ڈالی اور خود حضرت ابو ایوبؓ کے مکان میں جا ٹھہرے۔
آپﷺ جب مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو آپ کی عمر ۵۳ برس کی تھی اور آپﷺ کو نبوت کارتبہ ملے ۱۳ برس ہو چکے تھے۔ سن ہجری اسی سال سے شروع ہوتا ہے ۔

مہاجرین اور انصار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک جگہ چھوڑ کے دوسری جگہ چلے جانے کو ہجرت کہتے ہیں۔ اس لئے جو مسلمان مکہ سے مدینہ آئے ،وہ مہاجرین یعنی ہجرت کرنیوالے کہلاتے ہیں اور مدینہ کے جو لوگ اسلام لائے وہ انصار کے لقب سے مشہور ہیں۔اور انصار مددکرنے والوں کو کہتے ہیں۔
بہت سے مسلمان پہلے ہی گھر بار چھوڑ کر حبش چلے گئے تھے۔جو باقی رہ گئے تھے، وہ مدینہ چلے آئے۔ان میں بعض خاصے دولت مند تھے۔پھر کافروں نے چلتے وقت کچھ بھی ساتھ نہ لانے دیا تھا،اس لئے وہ مدینہ پہنچے تو بالکل خالی ہاتھ تھے۔ مدینہ والوں نے ان پردیسیوں کو سرآنکھوں پر بٹھایا،اور ایسی خاطر کی کہ پردیس میں گھر کا سا آرام ملنے لگا۔
مکہ سے پینتالیس مسلمان مدینہ آئے تھے۔ رسول خدا ﷺ نے انہیں اور انصار کو ایک جگہ جمع کیا۔پھر ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصار کو بلا کے فرمانے لگے کہ تم آپس میں بھائی بھائی ہو۔انصار نے یہ بھائی چارا اس طرح نبھایا کہ سگے بھائی بھی کیانبھائیں گے۔یعنی اپنے منہ بولے بھائیوں کو اپنی آدھی دولت بانٹ دی۔
مدینہ اور اس کے آس پاس کے علاقے میں بہت سے یہودی بھی آباد تھے۔جن سے مدینہ کے لوگوں کے جھگڑے ہوتے رہتے تھے۔ رسول خدا ﷺ نے یہودیوں اور مسلمانوں کو بلوا کے ایک عہد نامہ لکھوادیا۔جس کی بڑی بڑی شرطیں یہ تھیں کہ یہودیوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی پور ی پوری آزادی ہوگی۔مسلمان اور یہودی مل جل کے رہیں گے اور مدینہ پر کوئی دشمن چڑھ آیا تو دونوں مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔مسلمانوں نے تو اس عہد نامے کو پوری طرح نبھایا پر یہودیوں کے دل میں کھوٹ تھا۔وہ لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہتے تھے۔پھر مکہ کے کافروں سے بھی ان کا ساز باز تھا۔
ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کہنے کو تو مسلمان تھے پر ان کے دل نورِ ایمان سے خالی تھے۔زبان پر کچھ اور دل میں کچھ۔مسلمانوں سے ملتے تو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ۔یہودیوں کے پاس جا بیٹھتے تو ان کی سی کہنے لگتے ۔ یہ لوگ منافق کہلاتے تھے اور ان کا سردار ایک شخص عبد اللہ بن اُبی نام تھا۔جو مدینہ کے بڑے دولت مند لوگوں میں سے تھا۔

خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر
نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر

مسجد نبوی
۔۔۔۔۔۔
رسول خدا ﷺ سات مہینے حضرت ابوایوبؓ کے ہاں رہے۔اتنے میں مسجد نبوی اور اس کے پاس آپﷺ کے رہنے کا مکان بن گیا اور آپ ﷺاس میں اٹھ آئے۔
حضرت ابوایوبؓ کے مکان کے پاس ہی ایک میدان تھا ۔رسول خدا ﷺ نے اسے خرید کر مسجد کی بنیاد ڈالی۔مسجد بنانے میں آپ نے بھی حصہ لیا۔صحابیوں کے ساتھ آپ بھی اینٹیں اور گارا اٹھا کر لاتے تھے۔مسجد کی دیواریں کچی اینٹوں کی تھیں۔کھجور کی لکڑی کے ستون،کھجور کے پتوں کی چھت۔
مسجد میں تین دروازے تھے۔دوروازے سامنے کے رخ ، ایک دروازہ پیچھے کی طرف۔مسجد کے مشرق کی طرف آپ کے رہنے کے لئے حجرے بنے۔ایک طرف ایک سائبان سا بنایا گیا۔یہاں اسلام کے وہ جاں نثار رہتے تھے جن کا گھر بار کوئی نہیں تھا۔یہ لوگ دن رات رسول خدا ﷺ کی خدمت میں رہتے اور آپ سے دین کی باتیں سیکھتے۔
مسلمان جب تک مکہ میں رہے، اکٹھے ہو کے نماز پڑھنے کا موقع بھی مشکل سے ملتا تھا۔لیکن مدینہ میں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔مسجد نبوی میں سارے مسلمان جمع ہوکے نمازیں پڑھتے۔اللہ کے نبی ﷺ سے اللہ کا کلام سنتے ۔اپنی اپنی تکلیفیں اور ضرورتیں بیان کرتے۔غرض رسول اللہ ﷺکا دربار مسجد ہی میں لگتا۔یہیں ضروری مشورے ہوتے اور بڑی بڑی اہم باتیں طے پاتیں۔کوئی ملنے آتا توآپﷺ اس سے مسجد ہی میں ملاقات کرتے ۔کوئی مہمان آجاتا تو اسے بھی یہیں ٹھہرایا جاتا۔

کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

بدر کی لڑائی
۔۔۔۔۔۔
مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کے مکہ سے مدینہ چلے آئے۔لیکن مکہ کے کافروں کا کلیجہ پھر بھی ٹھنڈا نہ ہوا۔انہیں جب خیال آتا تھا کہ مسلمان صاف بچ کے نکل گئے تو ان کے سینوں پر سانپ سا لوٹ جاتا تھا۔وہ آئے دن مسلمانوں کو نیچا دکھانے کی سازشیں کرتے رہتے تھے ۔ یہودی کہنے کوتو مسلمانوں کے ساتھ تھے ،مگر اصل میں وہ بھی مکہ والوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔
رسول خدا ﷺ کو پہلے پہل کافروں سے لڑنے بھڑنے کی اجازت نہیں تھی۔مدینہ پہنچ کے اللہ کاحکم آیا کہ جو تم سے لڑے،تم بھی اس سے لڑو۔ پہلے کچھ دنوں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوتی رہیں۔
ایک دفعہ قریش کا ایک سردار مکہ سے چلا اور مدینے کی ایک چراگاہ کو لوٹ کر لے گیا۔مسلمانوں نے اس کا پیچھا کیا ۔مگر جب تک یہ پہنچے وہ جا چکا تھا ۔
مدینہ سے کچھ دور بدر ایک جگہ ہے۔جہاں برس کے برس میلہ لگتا تھا۔اور آس پاس کے بستیوں کے لوگ جمع ہوتے تھے۔ہجرت کے دوسرے برس یہاں مسلمانوں اور کافروں میں بڑے زور کی لڑائی ہوئی۔جس میں اللہ نے مسلمانوں کو فتح دی ۔
قریش کا ایک سردار ابو سفیان شام سے کچھ مال لے کے مکہ جا رہا تھا ۔مسلمانوں نے اسے روکنا چاہا۔مکہ والوں کو خبر ملی تو وہ اس کی مدد کو چلے۔ابو سفیان تو بچ کر نکل گیا۔ہاں، جولوگ اس کی مدد کو آئے تھے۔بدر کے میدان میں مسلمانوں سے ان کی ٹکر ہو گئی۔
کافر لڑائی کا پورا بندو بست کرکے آئے تھے۔ایک ہزار سپاہی تھے۔ان میں سے ایک سوسوار تھے اور نوسو پیدل۔اس فوج کا سردار عتبہ تھا۔اس کے ساتھ کئی اونچے درجے کے سردار اور مشہور سپاہی تھے۔ ان میں ابوجہل بھی جس نے مسلمانوں کو بڑے بڑے دکھ دئیے تھے۔ ادھر مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے۔ پورے لشکر میں تین گھوڑے تھے اور ستر سواری کے اونٹ۔پھر بہت سے مسلمانوں کے پاس پورے ہتھیار بھی نہیں تھے۔
بدر میں کئی کنویں تھے۔مسلمانوں نے جاتے ہی ان پر قبضہ کر لیا۔رات کو مینہ برسا اور کنویں پانی سے لبالب ہو گئے ۔صبح کے وقت دونوں فوجوں نے صفیں باندھیں۔مسلمانوں کا قاعدہ تھا کہ لڑائی چھیڑنے میں پہل نہیں کرتے تھے۔جب تک قریش نہیں بڑھے، مسلمانوں نے بھی تلوار نہیں نکالی۔
اس زمانے کا دستور تھا کہ پہلے ایک ایک دو دو سپاہی میدان میں نکل کے لڑتے پھر عام لڑائی شروع ہو جاتی۔ان دنوں آج کل جیسے ہتھیار بھی نہیں تھے ۔لوگ تلواروں اور بر چھیوں سے مقابلہ کرتے تھے۔یا پھر تیروں سے لڑتے تھے۔سب سے پہلے قریش کے لشکر کا سردارعتبہ اپنے بھائی اور بیٹے کو ساتھ لے کے آیا۔ادھر سے تین انصاری بڑھے۔عتبہ انہیں دیکھ کے کہنے لگا،تم ہمارے جوڑ کے نہیں، کسی اور کو بھیجو۔اب اس طرف سے حضرت حمزہؓ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہ بن حارث میدان میں اترے ۔عتبہ سے حضرت حمزہؓ کا سامنا ہوا۔حضرت عبیدہؓ اس کے بھائی سے جا بھڑے اور اس کے بیٹے پر حضرت علیؓ جا پڑے۔عتبہ اور اس کا بیٹا دونوں مارے گئے۔اس کے بھائی نے حضرت عبیدہؓ کو زخمی کر دیا۔لیکن حضرت علیؓ بپھرے ہوئے شیر کی طرح جھپٹے،اور ایک ہی وار میں اسے بھی ٹھنڈا کر دیا۔
اب دونوں فوجیں گھٹ گئیں اور بڑے زور کی لڑائی ہوگئی۔ابو جہل کھڑا لڑا رہاتھا کہ دو انصاری نو جوان جنہوں نے ابو جہل کا نام تو سنا تھا لیکن اسے دیکھا نہیں تھا۔اس کا پتا پوچھتے پوچھتے پہنچے اور دہنے بائیں حملہ کرکے اسے مار گرایا۔
اس لڑائی میں مکہ والوں کے ستر آدمی مارے گئے جن میں عتبہ اور ابو جہل کے علاوہ کئی اور مشہور سردار بھی تھے۔کچھ لوگ بھاگ نکلے۔ باقی قید ہوئے۔ان قیدیوں کو مسلمانوں نے بڑے آرام سے رکھا۔جو کچھ گھر میں پکتا، ان کے سامنے لا رکھتے اور آپ کھجوریں کھاکے گزارا کرتے تھے۔ان میں جو دولت والے تھے ان کے رشتے دار انہیں فدیہ دے کے چھڑا لے گئے۔ جو مفلس تھے،انہیں حکم ہوا کہ دس دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں۔
مسلمانوں میں سے بائیس آدمی شہید ہوئے ۔ان میں سولہ انصاری تھے اور چھ مہاجر۔
بدر کی لڑائی رمضان کی سترہویں کو ہوئی۔اس لڑائی نے مسلمانوں کی بہادری کی دھاک بٹھا دی۔اور کافروں پر اسلام کی ہیبت چھا گئی۔

سب اسلام کے حکم بردار بندے
سب اسلامیوں کے مددگار بندے
خدا اور نبی کے وفادار بندے
یتیموں کے رانڈوں کے غم خوار بندے
رہِ کفرو باطل سے بے زار سارے
نشہ میں مئے حق کے سرشار سارے

اُحد
۔۔۔۔
بدر کی لڑائی کی خبریں مکہ پہنچیں تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔جو کافر بدر میں مارے گئے تھے، عورتیں ان کا نام لے لے کے بین کرتیں ۔مردوں کو ان کا بدلہ لینے پر اکساتیں اور انہیں ایسے ایسے طعنے دیتیں جو کلیجے کو چھلنی کئے ڈالتے تھے۔
اگلے سال ابو سفیان جو اب قریش کا سب سے بڑا سردار تھا،بدر کی ہار کا بدلہ لینے مدینہ پر چڑھ آیا۔قریش تین ہزار سے اوپر تھے اور ان میں دو سو سوار تھے۔انہوں نے مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ڈیرے ڈال دئیے اور لڑائی کی تیاریاں کرنے لگے ۔
ادھر سے رسول خداﷺ جمعہ کی نماز کے بعد ایک ہزار آدمیوں کے ساتھ مدینہ سے نکلے ۔ راستے میں عبداللہ بن ابی تین سو منافقوں کو لے کر واپس چلا گیا۔ اور آپﷺ کے ساتھ صرف سات سو صحابہؓ رہ گئے ۔
سنیچر کی صبح کو مسلمانوں نے صفیں با ند ھیں۔ اُحد کا پہاڑ ان کے پیچھے تھا، اور سامنے کافروں کا لشکر ۔مگر اس بات کا بڑا خطرہ تھا کہ کہیں دشمن چکر کاٹ کے پہاڑ کے پیچھے نہ جا پہنچے اور گھاٹی سے اتر کے مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ نہ کردیں۔اس خطرے سے بچنے کے لیے رسول خداﷺ نے پہا ڑ کی گھاٹی پر پچاس تیر انداز مقرر کر دیے تھے۔ اور انہیں تاکید کردی کہ دیکھنا اپنی جگہ پر جمے رہنا۔کہیں ایسا نہ ہو کے تم ادھر اُدھر ہو جاؤ اور دشمن گھاٹی کو خالی پا کے پیچھے سے حملہ کردیں۔
کافروں کے لشکر کے ساتھ قریش کے اونچے اونچے خاندان کی کچھ عورتیں بھی تھیں ۔لڑائی شروع ہونے سے پہلے وہ دف بجاتی اور گیت گاتی بڑھیں۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ جو قریش کے مشہور سردار عتبہ کی بیٹی تھی، ان کے آگے آگے تھی۔ہندہ کو بدر کی ہار کا بڑا صدمہ تھا۔کیونکہ اس کا باپ ، بھائی اور چچا بدر کی لڑائی میں مارے گئے تھے۔خاص طور پر وہ اپنے باپ کے قاتل حضرت حمزہؓ کے خون کی پیاسی ہو رہی تھی۔
پہلے قریش کی فوج کا ایک سردار میدان میں آیا ادھر سے حضرے علیؓ بڑھے اور پہلے ہی وارمیں اسے مار گرایا ۔اب اس کا بیٹا میدان میں نکلا ۔حضرت حمزہؓ نے بڑھ کے اس کا مقابلہ کیااور ایک تلوار ایسی ماری جو کندھے سے کمر تک کاٹتی چلی گئی ۔یہ دیکھ کر قریش کی ساری فوج نے حملہ کر دیا۔ ادھر سے مسلمان بھی بڑھے اور بڑے زور کی لڑائی شروع ہوگئی۔
اگر چہ قریش گنتی میں مسلمانوں سے چوگنے تھے ۔لیکن مسلمانوں نے اس طرح جم کے حملے کیے کہ دشمن کی فوج میں کھلبلی سی مچ گئی۔ اور وہ ان دھاووں کی تاب نہ لا کے بھاگ کھڑے ہوئے ۔پہاڑ کی گھاٹی پر جو تیر اندازتھے ،انھوں نے جو دیکھا کہ دشمن بھاگ چلا تو وہ بھی اپنی جگہ چھوڑ کے ان بھگوڑو ں پر پل پڑے۔
قریش کا ایک دستہ پہاڑ کے پیچھے مو قعے کے انتظار میں کھڑا تھا، گھاٹی کو خالی پا کے اس نے مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا ۔ قریش کے جو سپاہی بھاگے جا رہے تھے ،وہ یہ حال دیکھ کر پلٹ پڑے اور مسلمان گھر کے رہ گئے۔
ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے ایک حبشی کو جس کا نام وحشی تھا ،کہہ رکھا تھا کہ اگر تم حمزہؓ کو قتل کر کے میرا کلیجہ ٹھنڈا کرو ،تو میں تمہیں بہت کچھ انعام دوں گی ۔وحشی لڑائی کے شروع سے حضرت حمزہؓ کی تاک میں تھا۔ مگر ان کی ہیبت دلوں پر کچھ اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ ہاتھ ڈالنے کا حوصلہ نہ پڑتا تھا۔اب جو مسلمانوں پر دو طرف سے دباؤ پڑا تو وحشی نے دور سے ایک چھوٹا سا تیزہ جو حبشیوں کا خاص ہتھیار ہے، تاک کے پھینکا۔حضرت حمزہؓ لڑکھڑا کے گرے اور گرتے ہی دم توڑ دیا ۔
یہ بڑانازک وقت تھا ۔ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں کا فروں میں گھری ہوئی تھی۔ اتنے میں کسی نے خبر اُڑادی کہ رسول اللہﷺ شہید ہو گئے۔یہ سن کے سارے مسلمان سناٹے میں آگئے ۔بعض نے تو ہتھیار پھینک دیے کہ اب لڑ کے کیا کریں ۔ایک بہادر تلوار سونت کے یہ کہتا ہوا کافروں کے لشکر میں گھس گیاکہ ان کے بغیر زندہ رہ کے کیا کریں ۔اور اسی زخم کھا کے شہادت پائی۔
کافر خوشیاں منا رہے تھے اور مسلمانوں کے دلوں پر غم کی گھٹا چھائی ہوئی تھی کہ ایک صحابی نے رسول خدا ﷺ کو دیکھ لیا ۔بس پھر کیا تھا ۔ سب مسلمان سمٹ کے آپﷺ کے گرد جمع ہوگئے اور ہٹ کے پہاڑ کی گھاٹی پر جا چڑھے ۔کافروں نے پہاڑ پر چڑھنا چاہا ، لیکن مسلمانوں نے پتھر لڑھکا لڑھکا کے انھیں ہٹا دیا۔
اس لڑا ئی میں ستر صحابی شہید ہوئے ۔خود رسول اللہﷺ کے بھی زخم آئے ۔مگر ہار جیت کا کوئی فیصلہ نہ ہوا ۔ قریش کے دلوں پر مسلمانوں کا رعب ایسا بیٹھا ہوا تھا کہ انہوں نے اتنی کامیابیوں کو بہت سمجھا اور یہاں سے لو ٹ گئے ۔
مدینہ کی ایک نیک بی بی کا باپ، بھائی اور خاوند تینوں اس لڑائی میں شہید ہو گئے تھے۔ اسے جب یہ خبر پہنچی تو اس کی زبان سے نکلا رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے ۔پھر دوڑی دوڑی آپﷺ کے پاس پہنچی اور آپﷺ کو دیکھ کے کہنے لگی۔میرا باپ ،بھائی اور خاوند آپ ﷺپر فدا۔ آپ ﷺکے ہوتے ہوئے ہمیں کیا غم ہے۔

یہ تھی موج پہلی اس آزادگی کی
ہرا جس سے ہونے کو تھا باغِ گیتی

یہودیوں سے لڑائیاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مدینہ اور اس کے آس پاس کے علاقہ میں یہودیوں کے تین قبیلے تھے۔ان سے مسلمانوں کا معاہدہ ہو چکا تھا۔ لیکن یہ تینوں معاہدہ کو توڑنے اور مسلمانوں سے لڑنے کے لیے بہانے ڈھو نڈتے رہتے تھے۔ایک دفعہ ایک یہودی نے ایک مسلمان بی بی کو چھیڑا ۔ایک انصاری کو غیرت آئی اس نے یہودی کو قتل کر ڈالا۔
اس یہودی کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ملی ،تو وہ تلواریں سونت سونت انصاری پر آپڑے اور انھیں شہید کر دیا ۔ رسول خدا ﷺ نے یہودیوں کو بلا کے سمجھا یا ۔ لیکن وہ ہوا کے گھوڑوں پر سوار تھے۔ اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کے بجائے بڑی گستاخی سے جواب دیا ۔’’ ہم قریش نہیں کہ دب جائیں گے ۔ ہم سے لڑنا پڑا تو معلوم ہو جائے گا کہ لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں ۔‘‘یہ کہہ کر معاہدہ توڑ دیا ۔
مدینہ سے کچھ دور ان لوگوں کا قلعہ تھا۔ وہ اس میں جا بیٹھے اور لڑائی کی تیاریاں کرنے لگے۔ مسلمانوں نے قلعہ کو گھیر لیا۔ پندرہ دن کے بعد یہودیوں نے ہتھیار ڈال دئیے ۔چونکہ وہ آئے دن فتنے اُٹھاتے رہتے تھے،اس لئے رسول خدا ﷺ نے انہیں دیس نکالا دے دیا۔ یہ واقعہ اُحد کی لڑائی سے پہلے کا ہے ۔
اُحد کی لڑائی سے کچھ عرصے کے بعد یہودیوں کے دوسرے قبیلے نے ہاتھ پاؤں نکا لے اور رسول خدا ﷺ کو دھوکے سے قتل کرنے کا منصوبہ باند ھا ۔آپ ﷺنے انہیں کہلا بھیجا کہ تم لوگوں کی نیتوں میں فتور ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ تم مدینہ کے آس پا س کا علاقہ چھوڑ کے چلے جاؤ ۔انہوں نے جواب دیا ہم نہیں جاتے ۔آپﷺ کے جی میں جو آئے کیجئے۔
اصل میں ان یہودیوں کو منافقوں نے بڑے سبز باغ دکھا رکھے تھے ۔اور انھیں یہ امید تھی کہ مسلمانوں نے تلوار کے زور سے ہمیں نکالنا چاہا تو آس پاس کے بہت سے قبیلے ہماری مدد کو آپہنچیں گے۔
لیکن جب مسلمانوں نے ان کے قلعہ کو جا گھیرا تو کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔ یہودیوں نے مجبور ہو کے قلعہ خالی کر دیا اور خیبر چلے گئے۔

جہالت کی رسمیں مٹا دینے والے
کہانت کی بنیاد ڈھا دینے والے
سراحکام دیں پر جھکا دینے والے
خدا کے لئے گھر لٹا دینے والے
ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے
فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے

خندق
۔۔۔۔
خیبر میں یہودیوں کی بڑی بڑی بستیاں اور کئی مضبوط قلعے تھے۔جویہودی مدینے کے آس پاس کی بستیوں سے بھاگے تھے انہیں خیبر کے یہودیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
اور اپنے بعض قلعے بھی ان کے حوالے کر دئیے۔خیبر کا علاقہ بڑا زرخیز تھا۔ان نئے آنے والوں میں سے کچھ کھیتی باڑی کرنے لگے۔کچھ تجارت کرکے پیٹ پالنے لگے۔لیکن یہ لوگ نچلے بیٹھنے والے نہیں تھے۔خیبر آئے ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ انہوں نے آس پاس کے قبیلوں کو مسلمانوں سے لڑنے پر اکسانا شروع کر دیا۔
کچھ یہودی سردار مکہ پہنچے ۔قریش کے سرداروں سے ملے۔۔انہیں مسلمانوں سے لڑائی چھیڑنے پر ابھارا۔وہ تو پہلے ہی اس فکر میں تھے۔یہودیوں کی شہہ پائی تو فوراً تیار ہوگئے۔یہودیوں کے دو قبیلے تومعاہدہ توڑ چکے تھے لیکن تیسرے قبیلے نے جو مدینہ کے قریب رہتا تھا ابھی تک معاہدہ نہیں توڑا تھا۔ان لوگوں نے اسے بھی ورغلا کر اپنے ساتھ ملا لیا۔
رسول خدا ﷺکو خبریں پہنچیں تو صحابیوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ مدینہ کے اندر رہ کے مقابلہ کیا جائے۔شہر کے تین طرف تو درختوں کے جھنڈ اور اونچے اونچے مکان تھے۔صرف ایک طرف کھلا میدان تھا۔یہاں ایک خندق یعنی کھائی کھودی گئی۔یہ کھائی جو بڑی گہری اور چوڑی تھی ،تین ہزار مسلمانوں نے مل کر کھودی اور کوئی بیس بائیس دن میں تیار ہوئی۔کھائی کھودی جاچکی تو مسلمانوں نے بال بچوں کو آس پاس کے مضبوط مکانوں اور قلعوں میں بھیج دیا، اور خود دشمن کا انتظار کرنے لگے۔
اتنے میں دشمن کی فوج آپہنچی ۔دس ہزار سپاہی تھے۔ ہزاروں گھوڑے اور اونٹ۔اس سارے لشکر کی کمان ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی۔ دشمن بڑھا تو بڑے زور سے تھا ،مگر کھائی کے کنارے پہنچ کر رک گیا۔قلعوں اور شہروں کے گرد کھائیاں کھودنے کا رواج دنیا کے بہت سے ملکوں میں بڑ ے پرانے زمانے سے چلا آتاہے لیکن عرب بچاؤ کے اس طریقے سے ناواقف تھے۔بہتیرا سر مارا پر کھائی سے پار جانے کی کوئی ترکیب سمجھ میں نہیں آئی۔آخر ذرا ہٹ کے ڈیرے ڈال دیے۔
کافر مہینہ بھر تک مدینہ کو گھیرے پڑے رہے۔ مدینہ میں رسد کم تھی اس لئے مسلمانوں پر کئی کئی فاقے بھی گزر جاتے تھے ۔خود رسول اللہﷺ تین دن بھوکے رہے۔لیکن جن کو خدا پر بھروسہ ہو وہ ان تکلیفوں کو کب خاطر میں لاتے ہیں؟
بیچ بیچ میں کافر بڑے زور کے حملے کرتے تھے اور تیر اور پتھر برساتے ہوئے اس طرح بڑھتے کہ اب مدینہ پہنچ ہی کے دم لیں گے۔لیکن کھائی سے پار اترنے کا حوصلہ نہ پڑتا۔ادھر مسلمان بھی تیروں اور پتھروں سے جواب دیتے۔ایک دفعہ دشمن کے پورے لشکر نے ہلہ بول دیا اور قریش کے چار مشہور سوار گھوڑے کدا کے کھائی کے پار پہنچ گئے۔ان میں عمرو ابن عبد وُد بھی تھا۔جس کی بہادری کی دھوم پورے ملک میں تھی۔ادھر سے حضرت علیؓ نے بڑھ کر روکا۔عمرو نے تلوار کا وار کیا۔حضرت علیؓ نے ڈھال پر روکنا چاہا۔لیکن تلوار ڈھال کو کاٹ کے ماتھے پر پڑی اور ہلکا سا زخم آیا۔اب حضرت علیؓ نے جھپٹ کے ایسا وار کیا کہ تلوار عمرو کے کندھے کو کاٹتے ہوئے سینے تک جا پہنچی۔ باقی تین سواروں میں سے دو تو جانیں بچا کے نکلے۔تیسرا کھائی میں گر پڑا اور حضرت علیؓ نے کھائی میں اتر کے اسے قتل کیا۔
مسلمانوں کے بال بچے قلعے میں تھے۔ایک یہودی کسی طرح قلعے میں جا گھسا۔حضرت صفیہؓ نے جو شیر خدا حضرت حمزہؓ کی سگی بہن اور رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی تھیں، اسے آتے دیکھا تو تنبو کی چوب اکھاڑ کے اِس زور سے اُس کے سرپر ماری کہ وہ دم بھر میں تڑپ کے ٹھنڈا ہو گیا۔
خندق کی لڑائی جاڑے کے دنوں میں ہوئی تھی۔ایک تو بلا کی سردی تھی۔ ہاتھ پاؤں ٹھٹھرے جا رہے تھے۔پھر کافروں میں پھوٹ پڑگئی۔ قریش کو یہ ڈر کہ یہودی کہیں اوپر ہی اوپر مسلمانوں سے صلح نہ کر لیں۔یہودیوں کو یہ خوف کہ قریش ہمیں چھوڑ کے چلے گئے تو ہم اکیلے مسلمانوں سے کیونکر لڑیں گے۔اس پر ایک رات اس زور کی آندھی چلی کہ خیموں کی طنابیں اکھڑ گئیں۔چولہے ٹھنڈے ہوگئے۔پہلے ہی سردی کیا کم تھی؟آندھی کا زور دیکھ کے کافر ایسے گھبرائے کہ اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں کو سمیٹ بھاگ کھڑے ہوئے۔

صلح
۔۔۔
مہاجرین کو مدینہ آئے چھ برس ہوگئے تھے۔ اگر چہ مکہ میں بڑے بڑے دکھ اٹھائے تھے ۔کافروں نے انہیں تپتی ریت پر لٹایا،کوڑوں سے پیٹا، ہنسی اڑائی،گالیاں دیں اور ان کا دل دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔لیکن وطن آخر وطن ہے۔ جس شہر میں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، بچپن کا زمانہ گزارا،اسے کیسے بھول جاتے۔ جب وہ گلی کوچے یاد آتے جہاں کھیل کود کے بڑے ہوئے تو طبیعتیں بے چین ہو جاتیں۔
رسول خداﷺ نے اپنے پرانے ساتھیوں کو بے تاب دیکھا تو مکہ کا ارادہ کیا۔اس سفرمیں چودہ سو صحابی آپ ﷺکے ساتھ تھے۔چوں کہ لڑنے کا ارادہ نہیں تھااس لئے پورے ہتھیار بھی ساتھ نہ لئے۔خیال تھا کہ مکہ جائیں گے،اور صلح صفائی سے کعبہ کا طواف کرکے واپس آجائیں گے۔
حج تو خاص مہینے میں ہوتا ہے جسے ذی الحجہ یعنی حج کا مہینہ کہتے ہیں۔دوسرے مہینوں میں کوئی جاکے کعبہ کا طواف کرے تو یہ عمرہ کہلاتا ہے۔ رسول خداﷺ بھی عمرہ کا ارادہ کرکے مدینہ سے نکلے تھے۔
حدیبیہ پہنچے تو خبر ملی کہ قریش لڑنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔حدیبیہ سے مکہ صرف ایک پڑاؤ ہے۔آپ ﷺیہیں اتر پڑے اور اپنے ایک صحابی حضرت عثمانؓ کی زبانی قریش کو کہلا بھیجا کہ ہم لڑنانہیں چاہتے ۔ عمرہ کی نیت سے آئے ہیں۔
قریش کے دلوں میں مسلمانوں کی دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ انہوں حضرت عثمانؓ کو نظر بند کر لیا۔ادھر حدیبیہ میں یہ خبر اُڑ گئی کہ حضرت عثمانؓ شہید ہوگئے۔رسول خداﷺ نے یہ سنا تو ببول کے درخت کے تلے بیٹھ کے اپنے ساتھیوں سے عہد لیا کہ ہم حضرت عثمانؓ کا بدلہ لینے کے لئے اپنی جانیں نثار کر دیں گے۔
قریش نے ایک شخص سہیل نامی کو صلح کی بات چیت کرنے بھیجا۔آخر ان شرطوں پر صلح ہوئی کہ مسلمان اگلے سال عمرہ کرنے آئیں گے۔ صرف تین دن رہیں گے۔مکہ میں جو مسلمان ہیں وہ مکہ ہی میں رہیں گے۔مکہ کے کافروں اور مسلمانوں میں سے اگر کوئی مدینہ چلا جائے تو اسے واپس کر دیا جائے گا۔ہاں کوئی مسلمان مکہ چلا آئے تواسے پھر مسلمانوں کے حوالے نہیں کیس جا سکے گا۔صلح نامہ لکھا جا رہا تھا کہ ایک مسلمان جس کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوئیں تھی،آیا اور رسول خداﷺ کے سامنے گر پڑا۔یہ سہیل کے بیٹے ابو جندلؓ تھے جو مسلمان ہوگئے تھے اور کافروں نے انہیں قید کر رکھا تھا۔آپﷺ کے حدیبیہ آنے کی خبر سنی تو کسی نہ کسی طرح بھاگ نکلے۔
کافروں نے ان پر بڑے بڑے ظلم کئے تھے۔مارے کوڑوں کے کھال ادھیڑ کر رکھ دی تھی۔سارے جسم زخمی تھا، چہرے کی رنگت زرد ،ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئیں۔ ان کا یہ حال دیکھ کے صحابی سناٹے میں آگئے۔سب کا جی چاہتا تھا کہ انہیں ساتھ لے چلیں ۔ لیکن صلح کی شرطوں سے مجبور تھے۔آخر انہیں سینے پر صبر کے سل رکھ کے انہیں سہیل کے حوالے کرنا پڑا۔
مکہ میں صرف ابو جندل ہی نہیں اور بھی بہت سے مسلمان تھے۔جو نہ مکہ میں رہ سکتے تھے اور نہ مدینہ میں جا سکتے تھے۔حدیبیہ کی صلح کے بعد ان لوگوں کو کوئی ٹھکانہ نہ ملا ،تو بھاگ کے سمندر کے کنارے چلے گئے۔قریش کے جو قافلے شام سے مال لے کے آتے تھے ان پر چھاپے مارنے لگے۔ان لوگون نے کافروں کو ایسا زچ کیا کہ انہوں نے خود عہد نامے کی یہ شرط اڑا دی اور انہیں مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔
رسول خداﷺ حدیبیہ ہی سے مدینہ واپس چلے آئے ۔اگلے سال پھر گئے۔عمرہ کیا اور تین دن مکہ میں رہ کے واپس آگئے۔

فتح
۔۔۔
کافروں سے صلح تو ہوگئی پر بعض صحابی اداس اداس نظر آتے تھے۔ جی میں کہتے تھے کہ یہ عجیب بات ہے ۔ہم اتنی دور سے آئے اور کعبہ کا طواف بھی نہ کرسکے۔پھر کافروں نے جو شرطیں پیش کیں،ہم نے مان لیں۔اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا تھاکہ اللہ کے رسولﷺ نے جو کچھ کیا سوچ سمجھ کے ہی کیا ہوگا۔ہماری کیا مجال ہے کہ ان کے فیصلے کوغلط سمجھیں۔
حدیبیہ میں مسلمانوں اور کافروں میں جو عہدنامہ ہوا اس کی شرطوں پر نظر ڈالی جائے تو ظاہراً یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے دب کے صلح کی۔لیکن رسول خدا ﷺحدیبیہ میں تین دن رہ کے چوتھے دن چلے تو راستے میں اللہ کا پیغام آیا کہ ’’ہم نے تمہیں صاف اور کھلی فتح دی۔‘‘ یہ سن کے مسلمان خوش ہوگئے۔ جی میں کہنے لگے کہ یہ ہماری سمجھ کا پھیر ہے جو اس صلح کو قریش کی فتح سمجھتے ہیں۔اللہ اور اللہ کے رسول ﷺنے اسے پسند کیا تو اس میں ضرور کوئی فائدہ ہوگا۔آگے چل کر سب کو معلوم ہو گیا کہ یہ صلح جسے قریش اپنی فتح سمجھتے تھے وہ سچ مچ مسلمانوں کی فتح تھی۔
دیکھو جب تک رسول خداﷺ مکہ میں رہے ،عرب کے لوگوں کو آپ ﷺسے ملنے کا موقع بہت کم ملا۔ قریش آپﷺ سے خود الگ تھلگ رہتے اور جو لوگ باہر سے مکہ آتے انہیں کبھی آپﷺ کے پاس نہیں آنے دیتے تھے۔انہوں نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ آپ ﷺکو کوئی ایسا جادو آتا ہے کہ جو آپﷺ سے ملتا ہے اور آپﷺ کی زبانی قرآن سنتا ہے ، آپ ﷺہی کا ہو رہتا ہے۔ یہ باتیں سن سن کے لوگوں کا یہ حال ہو گیا تھا کہ آپﷺ کے گھر کے پاس سے بھی نہ گزرتے تھے۔کسی خاص ضرورت سے گزرنا ہی پڑتا تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے۔ راستے میں سامنا ہو جاتا تو کنی کاٹ کے نکل جاتے۔
رسول اللہ ﷺمکہ سے مدینہ آئے تو کافروں سے لڑائیاں چھڑ گئیں۔ آپس میں میل جول لین دین بند ہو گیا۔ نہ مسلمان کافروں کے ہاں جاتے ، نہ کافر مسلمانوں کے ہاں آتے۔حدیبیہ کی صلح نے یہ رکاوٹیں مٹا دیں اور دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے لگے۔کافروں نے مسلمانوں کے بارے میں ایسی الٹی سیدھی باتیں سن رکھی تھیں کہ مسلمانوں کے ہاں آتے اور ان سے ملتے جھجکتے تھے۔آہستہ آہستہ جھجک دور ہوگئی اور مدینہ میں باہر سے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔
یہ لوگ طرح طرح کے خیالات لے کے آئے تھے۔ بہت سے تو یہ سمجھے تھے کہ مسلمانوں کے نبیﷺ مدینہ میں بادشاہوں کے ٹھاٹھ باٹھ سے رہتے ہونگے۔ان کا بہت بڑا محل ہوگا۔ ان کے دروازے پر سپاہی ننگی تلواریں لئے پہرا دیتے ہوں گے۔ان کے ساتھیوں کا بھی یہی حال ہو گا۔غرور سے زمین پر پاؤں بھی نہ رکھتے ہونگے۔نہ جانے یہ لوگ ہم سے کیسا سلوک کریں اور کس طرح پیش آئیں ۔لیکن مدینہ پہنچے تو اور ہی نقشہ نظر آیا ۔دیکھا،تو یہاں نہ اونچے محل ہیں نہ اٹاریاں۔کچی اینٹوں اور گارے کی بنی ہوئی مسجد ہے۔ اسکے ساتھ ہی کچھ حجرے ہیں۔جن میں اللہ کے نبیﷺ اپنے کنبے سمیت رہتے ہیں۔کچی اینٹوں کی دیواریں ہیں، کجھور کے پتوں کی چھت ، کچا فر ش ، لیکن لپاپتا صاف ستھرا ۔یہاں نہ سنتری ہے نہ پہرے دار ۔جو شخص آپ ﷺ سے ملنا چاہتا ہے، کسی روک ٹوک کے بغیر مل سکتا ہے۔آپ ﷺ سے ملے تو دیکھا کہ کھلتی ہوئی گیہواں رنگت ہے۔ بڑی بڑی سیا ہ روشن آنکھیں ۔نورانی چہرہ جسے دیکھ کے دل آپ ہی آپ کھنچے جاتے ہیں۔ دوست دشمن سب سے مسکر ا کر بات کرتے ہیں۔جو کچھ کہنا ہوتا ہے،چند لفظوں میں کہہ ڈالتے ہیں۔باتیں اس طرح آہستہ آہستہ کرتے ہیں کہ ایک ایک لفظ الگ الگ گنا جا سکتا ہے۔پر آپ ﷺ کی زبان سے جو کچھ نکلتا ہے ، دل میں اتر جاتا ہے۔ کوئی بات کرتا ہے تو اس کی بات نہیں کاٹتے ۔ جب وہ بات ختم کرلیتا تو جواب دیتے ہیں۔
ا ن لو گوں کو مدینہ میں کچھ دن رہنے کا موقع ملا تو آپ ﷺ کے بارے میں نئی نئی باتیں معلوم ہوئیں۔انہوں نے دیکھا کہ آپﷺ اپنے گھر کا کام کاج اپنے ہاتھ سے کرتے ہیں۔مکان میں خود جھاڑو دیتے ہیں۔ اپنے اُونٹوں کو خود باندھتے اورکھولتے ہیں۔ انھیں چارہ کھلاتے ہیں۔بکریوں کا دودھ دوہتے ہیں۔ ضرورت پڑتی ہے تو اپنے کپڑوں کی مرمت خود کر لیتے ہیں ۔بازار سے خود سودا سلف لاتے ہیں۔بلکہ پڑوس کی بیوہ عورتوں کو بھی سودا سلف لادیتے ہیں ۔راستے میں کوئی بچہ نظر آجاتا ہے تو اسے پیار کرتے ہیں ۔اس کی میٹھی میٹھی باتیں سن کر خوش ہوتے ہیں۔یتیموں اور بیواؤں کی مدد کرتے ہیں ۔جہاں تک بن پڑتا ہے ان کے دکھوں کا بوجھ ہلکا کرتے اور ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔سخاوت کا یہ حال ہے کہ گھر میں جو کچھ آتا ہے وہ دوسروں کو دے ڈالتے ہیں۔خود فاقہ کرتے ہیں۔ پر بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ بھیک مانگنے کو برا جانتے ہیں۔لیکن بھکاری آپ کے دروازے سے خالی ہاتھ نہیں جانے پاتا۔
انھیں یہ دیکھ کر بھی بڑاا چنبھا ہوا کہ آپﷺ کو اونچ نیچ کا کوئی خیال نہیں ۔امیر ،غریب، بوڑھے، بچے سب کی عزت کرتے ہیں۔ راستے میں جو کوئی سامنے آجاتاہے،اسے پہلے خود سلام کرتے ہیں۔ کسی کو سخت بات نہیں کہتے ۔آپ کو دیکھ کہ کوئی کھڑا ہونا چاہتے ہے تو اسے روک دیتے ہیں۔ ہاں لوگ آپ ﷺسے ملنے آتے ہیں تو انھیں دیکھ کے کھڑے ہو جاتے ہیں۔استقلال کا یہ حال ہے کہ بڑی سے بڑی مصیبت آپڑے تو ماتھے پر بل نہیں پڑتا ۔دکھ سہتے اور مصیبتیں اُٹھاتے ہیں پر اُف نہیں کرتے ۔اس کے ساتھ رحم دل ایسے کہ کسی کو مصیبت میں دیکھتے ہیں تو بے چین ہو جاتے ہیں ۔
اسلام سے پہلے عرب میں رسم تھی کہ لڑکیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ ایک صحابی نے آپﷺ سے کہا ،اس زمانے میں میں نے اپنی ننھی سی بیٹی کو زمین میں گاڑ دیا تھا۔وہ ابا ابا پکا ر رہی تھی اور میں اس پر مٹی ڈالتا جاتا تھا۔یہ سن کے آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔انسان تو انسان جانوروں کا دکھ آپﷺ سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ ایک صحابی چڑیا کا بچہ اُٹھا لائے آپ ﷺکو معلوم ہوا تو فرمایا ، ابھی ابھی جاؤ اوراس بچے کو گھونسلے میں رکھ آؤ۔
رسول خدا ﷺ ہمیشہ اپناکام اپنے ہاتھ سے کرتے تھے۔ دوسروں کے ساتھ ہوتے تو کام میں ان کا ہاتھ بٹاتے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ اپنے صحابیوں کے ساتھ جنگل میں تھے کہ کھانے پکانے کا وقت آگیا۔سن نے اپنے ذمہ ایک ایک کام لیا ،آپ ﷺ نے کہا میں ایندھن اکٹھا کروں گا ۔لوگوں نے کہا آپ تکلیف نہ کیجئے۔آپ ﷺ نے فرمایا ، نہیں میں ضرور سب کے ساتھ مل کر کام کروں گا ۔
ایک دفعہ ایک کافر جو آپ ﷺ کا سخت دشمن تھا،آپ ﷺ کامہمان ہوا ۔آپ ﷺ نے اسے اچھے سے اچھا کھانا کھلایا اور بڑے آرام سے اپنے ہاں رکھا ۔لیکن وہ کمبخت بستر گندا کرکے صبح سویرے چپ چپاتے چل دیا۔ آپﷺ صبح اُٹھ کے بستر صاف کرنے لگے۔آپﷺ کے ساتھیوں نے دیکھا تو کہنے لگے ہم بسترصاف کردیں ۔آپ ﷺ نے جواب دیا ۔مہمان میرا تھا ،اس لیے بستر بھی میں خود صاف کروں گا۔
باہر سے جو لوگ مدینہ آتے۔ وہ یہ باتیں دیکھ دیکھ کے جی میں کہتے کہ سچ مچ یہ اللہ کے نبی ﷺ ہیں ۔افسوس ہم مکہ والوں کی باتوں میں کیوں آگئے ۔یہ بات ہمیں پہلے کیوں معلوم نہیں ہوئی ۔اتنا زمانہ ان کی مخالفت میں کیوں گزارا؟
آپ ﷺکے ساتھیوں سے ملتے تو دیکھتے کہ وہ تو چال ڈھال، بات چیت ،آپس کے برتاؤ میں آپﷺ ہی کی پیروی کرتے ہیں اور اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی نیک خصلتوں کو اپنانے میں ایک دوسرے سے آگے نکل جائیں۔ صحابیوں میں ان کی جان پہچان کے کچھ لوگ بھی نکل آتے ۔ان کی پہلی حالت سے اب کی حالت کا مقابلہ کرتے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا۔ سوچتے یہ لوگ کیا تھے اور کیا ہوگئے۔ اسلام نے تو سچ مچ ان کی کایا ہی پلٹ دی ۔بے شک اللہ کے سوا کوئی پوجنے کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اس کے سچے رسول ہیں ۔اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد اًعبدہٗ ورسولہٗ۔
غرض مدینہ میں جو آتا ایمان کے نور سے دل کو روشن کر کے واپس جاتا۔اب تک اسلام آہستہ آہستہ پھیلا تھا۔حدیبیہ کی صلح کے بعد روز سینکڑوں آدمی مسلمان ہونے لگے ۔یہی وہ فتح تھی جس کی خوشخبری حدیبیہ سے لوٹتے وقت اللہ نے دی تھی۔

دئیے پھیر دل ان کے مکروریا سے بھرا

ان کے سینوں کو صدق وصفا سے
بچایا انہیں کذب سے، افترا سے

کیا سر خرو خلق سے اور خدا سے 
رہا قول حق میں نہ کچھ باک ان کو
بس اک شوب میں کر دیا پاک ان کو

خیبر
۔۔۔
مکہ والوں سے تو صلح ہو گئی ،پر یہودی اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے تھے۔ رسول خدا ﷺ حدیبیہ سے لوٹے تو خبر ملی کہ مدینہ اور اس کے آس پاس کی بستیوں سے جو یہودی نکالے گئے تھے انہوں نے خیبر پہنچ کے بڑا زور باند ھا ہے۔آٹھ مضبوط قلعے ان کے قبضے میں ہیں اور وہ عربوں کے ایک بہت بڑے قبیلے کو اپنے ساتھ ملا کے مدینہ پر چڑھائی کے منصوبے باندھ رہے ہیں۔
یہ لوگ پہلے بھی مکہ والوں کو اپنے ساتھ ملا کے مدینے پر چڑھائی کر چکے تھے۔ اور خندق کی لڑائی انھیں کی شرار سے ہوئی تھی۔ اب جو رسول اللہ ﷺ کو ان کے منصوبے کی خبر ملی تو آپﷺ نے مناسب سمجھا کہ مدینہ میں بیٹھ کے ان کے حملے کا انتظار کرنے کی بجائے خیبر پر ہلا بول دیا جائے۔
خیبر کی لڑائی میں سولہ سو صحابی رسول خدا ﷺ کے ساتھ تھے۔ مسلمانوں نے جاتے ہی یہودیوں کے قلعوں کو گھیر لیا۔ ساتھ ہی راستوں پر فوج مقرر کر دی تاکہ باہر سے انھیں کوئی مدد نہ پہنچ سکے۔ یہودیوں کے اور قلعے تو ایک ایک کر کے فتح ہو گئے ۔صرف قموص قلعہ جس کا سردار یہودیوں کا مشہور پہلوان مر حب تھا فتح ہونے میں نہیںآتا تھا ۔ کئی صحابی باری باری فوج لے گئے پر کا میابی نہ ہوئی ۔
حضرت علیؓ کی آنکھیں دکھتی تھیں۔ اس لئے وہ خیبر کی لڑائیوں میں شریک نہ ہو سکے۔ ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلوایا ،اپنا خاص علم دیا ،پھر انہیں قموص پر حملہ کرنے کا حکم دے کے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ مرحب خود حضرت علیؓ کے مقابلہ پر نکلا لیکن انہوں نے اس زور کی تلوار ماری جو سر کوکاٹتی دانتوں تک اتر آئی۔مرحب کے مرتے ہی حضرت علیؓ فوج کو لے کے بڑھے۔اور یہودیوں کو ریلتے دھکیلتے قلعہ کا دروازہ توڑ کے اندر گھس گئے۔اور قموص دیکھتے ہی دیکھتے فتح ہو گیا۔
یہودیوں کی شرارتوں سے سب مسلمانوں کا جی جلا ہوا تھا پر رسول خدا ﷺ نے ان کے قصور معاف کر دئیے اور ان سے اس شرط پر صلح کر لی کہ خیبر کی زمین تو انہیں کے پاس رہے، وہ صرف آدھی پیداوار مسلمانوں کے دیتے رہیں۔
جو مسلمان کافروں کے ظلم سے تنگ آکے حبش چلے گئے تھے ان میں کچھ تو پہلے ہی واپس آگئے تھے۔باقی خیبر کی فتح کے زمانے میں لوٹے۔ان میں رسول اللہ ﷺ کے چچیرے بھائی حضرت جعفرؓ ابن ابی طالب بھی تھے۔مسلمانوں کو ان کے آنے کی بڑی خوشی ہوئی۔

ہر آفت میں سینہ سپر کرنے والے
فقط ایک اللہ سے ڈرنے والے

رومیوں کی جنگ
۔۔۔۔۔۔۔۔
حدیبیہ کی صلح کے بعد رسول خدا ﷺ نے آس پاس کے ملکوں کے بادشاہوں کے نام خط لکھے اور انہیں اسلام کی طرف بلایا۔حبش کا بادشاہ نجاشی تو فوراً مسلمان ہو گیا۔مصر کے حاکم نے اسلام تو قبول نہ کیا ،البتہ آپ ﷺکے جو صحابی خط لے گئے تھے۔ان کی بڑی عزت کی اور ان کے ہاتھ آپ ﷺکے لئے بہت سے تحفے بھیجے۔اس کے نام آپ ﷺنے جو خط بھیجا تھاوہ اب تک موجود ہے۔
ایران کا بادشاہ خسرو پرویز بڑا مغرور تھا۔اس نے بادشاہت کے گھمنڈ میں رسول اللہ ﷺ کے خط کوٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔آپ ﷺکو خبر ملی تو فرمایا کہ جس طرح اس نے میرے خط کو ٹکڑے ٹکڑے کیا ہے،خدا اس کی بادشاہت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔کچھ عرصے کے بعد خبر ملی کہ خسرو پرویز اپنے بیٹے کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔اور اس کی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی ہے۔
ان بادشاہوں میں روم کا عیسائی بادشاہ بھی تھا۔جس کی سلطنت عرب کی سرحد سے یورپ کے اندر دور تک پھیلتی چلی گئی تھی۔اس نے آپ ﷺ کا خط پڑھا تو دل نے گواہی دی کہ یہ اللہ کے سچے نبی ہیں جن کے آنے کی خوش خبری اگلے نبیوں نے دی ہے۔پر جب اپنے درباریوں کے تیور بدلے دیکھے تو اس کی نیت ڈانواں ڈول ہوگئی ۔
روم کے بادشاہ کی ماتحتی میں ایک سردار تھا جس کے قبضے میں عرب کی سرحد کے پاس کا کچھ علاقہ تھا۔ایک صحابی اس کے پاس آپ ﷺ کا خط لے گئے۔خط پڑھ کے وہ بہت بگڑا اور انہیں قتل کر ڈالا۔ساتھ ہی مدینہ پر چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔آپﷺ کو معلوم ہوا تو حضرت زیدؓ بن حارث کو فوج دے کے عیسائیوں کے مقابلے پر بھیجا۔زیدؓ آپﷺ کے غلام تھے۔آپ ﷺنے انہیں آزاد کر دیا تھا۔سب سے پہلے جو چار شخص آپﷺ پر ایمان لائے ان میں ایک یہ بھی تھے۔
شام کے علاقے میں موتہ ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ یہیں عیسائیوں سے مسلمانوں کی مڈ بھیڑ ہوئی۔عیسائی ایک لاکھ کے قریب تھے اور مسلمان صرف تین ہزار۔حضرت زیدؓ ہاتھ میں علم لئے اس چھوٹی سی فوج کے آگے تھے۔وہ بڑی بے جگری سے لڑے۔لیکن آخر نیزوں کے زخم کھاکے گرے اور گرتے ہی دم توڑ دیا۔
انہیں گرتا دیکھ کے حضرت جعفرؓ گھوڑے سے کودے اور بڑھ کے علم سنبھالا۔وہ ابو طالب کے بیٹے اور شیر خدا حضرت علیؓ بھائی تھے۔جن دنوں ادھر بدر، احد اور خندق کی لڑائیاں ہوئیں وہ حبش میں تھے۔اس لئے انہیں اسلام کی حمایت میں تلوار اٹھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔
موتہ کی لڑائی میں وہ پہلی دفعہ میدان میں آئے تو اگلی پچھلی کسر پوری کر دی۔وہ جدھر جھکتے،دشمن کی فوج کا بڑا حصہ ادھر ہی جھک پڑتا۔جسم زخموں سے چھلنی ہو رہا تھا۔خون کے تہت جمے ہوئے ،لیکن ہاتھ برابر چل رہاتھا۔ایک وار آکے ایسا پڑا کہ دہنا ہاتھ کٹ گیا۔انہوں نے علم بائیں ہاتھ سے سنبھالا۔بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو دانتوں سے پکڑا۔آخر زخموں سے چور ہوکے گرے۔ اب ایک اور صحابی حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ نے سنبھالا اور پھر زور کی لڑائی ہونے لگی۔حضرت نوے زخم کھاکے شہید ہوئے۔وہ صورت شکل میں رسول خدا ﷺ سے بہت ملتے تھے۔
عبد اللہ بن رواحہ شہید ہو گئے تو حضرت خالدؓ بن ولید علم لے کے بڑھے۔اور اس زور سے حملہ کیا کہ دشمن کی فو ج ہٹ گئی۔اس لڑائی میں حضرت خالدؓ کے ہاتھ سے نو تلواریں ٹوٹیں اور وہ مسلمانوں کی فوج کو دشمن کے گھیرے سے صاف بچا کے لے آئے۔
خالدؓ بن ولید جو صلح حدیبیہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے بڑے اونچے درجے کے سپاہی تھے۔اور فوج کو لڑانے کا ڈھنگ خوب جانتے تھے۔رسول خدا ﷺ نے انہیں سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا تھا۔
آپﷺ کی وفات کے بعد شام اور ایران میں جو لڑائیاں ہوئیں انہیں سرکرنے میں حضرت خالدؓ کا بڑا حصہ ہے۔

راہِ حق میں تھی دوڑ اور بھاگ ان کی
فقط حق پہ تھی، جس سے تھی لاگ ان کی
بھڑکتی نہ تھی خود بخود آگ ان کی
شریعت کے قبضہ میں تھی باگ ان کی
جہاں کر دیا نرم،نرماگئے وہ
جہاں کر دیا گرم ،گرما گئے وہ

مکہ کی فتح
۔۔۔۔۔
حدیبیہ کی صلح کو دوبرس ہو چکے تھے کہ عرب کے دوقبیلوں میں جھگڑا ہو گیا۔ان میں ایک قریش کا دوست تھا ۔دوسرے نے مسلمانوں سے عہد کر رکھا تھا۔قریش نے اپنے دوست قبیلے کا ساتھ دیا بلکہ اس کے ساتھ مل کے دوسرے قبیلے پربڑے بڑے ظلم توڑے۔رسول اللہ ﷺ کو خبر ملی تو آپﷺ نے قریش کو کہلا بھیجا کہ ہمارے دوستوں کا جو نقصان ہوا ہے یا تو وہ پورا کر دو،یا پھر ظالموں کا ساتھ چھوڑ دو۔یہ دونوں شرطیں منظور نہیں تو اعلان کردو کہ حدیبیہ کی صلح ختم ہوئی۔قریش نے غصے میں آکے کہہ تو دیا کہ ہمیں تیسری شرط منظور ہے مگر بعد میں بہت پچھتائے۔
ہجرت کے آٹھویں برس رمضان کے مہینے میں رسول خداﷺ دس ہزار جانبازوں کو ساتھ لے کے مکہ کی طرف چلے۔نویں دن نجران کی بستی میں پڑاؤ ڈالا۔یہاں سے مکہ تک صرف ایک دن کا سفر تھا۔ادھر قریش کا سردار ابوسفیان ٹوہ لگانے صبح سویرے مکہ سے چلا تھا ۔نجران پہنچا تو رات ہوچکی تھی۔دیکھا،کوسوں تک مسلمانوں کی فوج پھیلی ہوئی ہے۔ہر قبیلے نے الگ الگ الاؤ روشن کر رکھے تھے۔اور انکے گرداگرد لوگ بیٹھے باتیں کررہے تھے۔دبے پاؤں آگے بڑھا،اور مسلمانوں کی ٹکڑیوں سے بچتا چلا۔ادھر سے حضرت عمرؓ آرہے تھے۔ انہوں نے ابو سفیان کو دیکھا تو تلوار کھینچ لی۔وہ تو بڑی خیر گزری کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ نے پہنچ کے ابو سفیان کو بچا لیا۔ نہیں تو حضرت عمرؓ اس کا سر اڑا دیتے۔
حضرت عباسؓ اسے لے کے رسول خد اﷺ کی خدمت میں پہنچے۔ابو سفیان نے مسلمانوں کو بڑے بڑے دکھ دئیے تھے۔مدینہ پر بار بار حملے کئے تھے۔ عرب کے قبیلوں کو ابھار کے مسلمانوں کے مقابلے پر کھڑا کر دیا تھااور اسلام کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔لیکن رسول اللہ ﷺ تو ساری دنیا کے لئے رحمت تھے۔ابو سفیان آپ ﷺ کے پاس آیا تو اسے بھی معاف کردیا۔
قریش مسلمانوں کے آنے کی خبر سن کے ایسے سہمے ہوئے تھے کہ مقابلہ کرنے کی ہمت نہ پڑی۔ہاں کچھ جوشیلے نوجوانوں نے مسلمانوں کو روکا ور دو صحابیوں کو شہید کر دیا۔لیکن جب مسلمانوں نے تلواریں نکالیں تو بارہ لاشیں چھوڑ کے بھاگ کھڑے ہوئے۔
قریش نے کعبہ میں بہت سے بت لا کے رکھ دئیے تھے۔ان میں سب سے بڑا ہبل تھا۔جو یاقوت کا بنا ہوا تھا۔کافر اسے اپنا پالنے والا جانتے تھے۔اور اس کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کرتے تھے۔رسول اللہ نے ان بتوں سے کعبہ کو پاک کیا اور دیواروں پر نبیوں کی جو تصویریں بنی ہوئی تھی انہیں مٹا ڈالا۔کعبہ صاف ہو چکا تو رسول خداﷺ نے اندر جاکے نماز پڑھی۔
نماز پڑھ کے آپ نے کعبہ کے دروازے کھول دئیے اور قریش کو بلوایا۔وہ سب سہمے ہوئے تھے کہ دیکھیں آج کیا ہوتا ہے۔سب آچکے تو آپ نے فرمایا۔’’اللہ ایک ہے۔اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔اس کا کوئی ساجھی نہیں۔اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔اپنے بندے کی مدد کی اور سارے جتھوں کو توڑ دیا۔ اے قریش! تم اپنے باپ داداکی بڑائی پر فخر کرتے تھے۔خدا نے تمہارا یہ غرور مٹا دیا۔‘‘
پھر قرآن کی کچھ آیتیں پڑھ کے پوچھا۔’’تم جانتے ہو میں تم سے کیا سلوک کرنے والا ہوں‘‘ یہ سن کے سب پکار اٹھے۔
’’تو شریف بھائی اور شریف بھتیجا ہے۔‘‘
آپ نے فرمایا۔’’جاؤ،آج تمہارے سب قصور معاف کر دئیے گئے۔ تم سب آزاد ہو۔‘‘
ان لوگوں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے بڑے سخت جرم کئے تھے۔اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں شاید معافی نہ ملے۔ابوسفیان کی بیوی ہندہ انہیں لوگوں میں تھی۔وہ منہ چھپا کے آئی اور اسلام قبول کرنے کے بعد کہنے لگی۔آپ نے مجھے نہیں پہچانا۔ میں ہندہ ہوں۔اس کا جرم تو بڑا سخت تھا۔اس نے حضرت حمزہؓ کو قتل کروا دیا تھا۔ان کی لاش کو ٹکڑے کیاتھا۔پرآپ ﷺ نے اسے معاف کر دیا۔حضرت حمزہؓ کا قاتل وحشی بھی کانپتا ہوا آیا۔سب کا خیال تھا کہ اسے جان کی امان نہیں ملے گی۔لیکن اسے بھی معافی مل گئی۔
مکہ والوں میں کچھ لوگ مسلمان ہوگئے اور کچھ ابھی تک اپنے باپ دادا کے مذہب پر جمے ہوئے تھے پر سب کو امان مل گئی اور کسی کو مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کیا گیا۔

ہوا کعبہ آباد سب گھر اجڑ کر
جمے ایک جاسارے دنگل بچھڑ کر

حنین
۔۔۔۔
رسول اللہﷺ مکہ میں تھے۔ اتنے میں خبر ملی کہ ہوازن کے قبیلہ کے لوگ اکٹھے ہوکے مسلمانوں سے لڑنے آرہے ہیں اور بہت سے دوسرے قبیلے بھی ان سے آملے ہیں۔ہوازن بہت بڑا قبیلہ تھا اور اس کے پاس لڑائی کے سامان کی بھی کمی نہیں تھی۔آپ بارہ ہزار سپاہیوں کو ساتھ لے کے دشمن کے مقابلے پر نکلے۔ان میں دس ہزار جاں نثار تو وہ تھے جو آپﷺ کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے ۔اور دو ہزار مکہ والوں میں سے ۔پر ان دو ہزار میں بہت سے ایسے تھے جو ابھی مسلمان نہیں ہو ئے تھے۔
مکہ اور طائف کے درمیان حنین کی وادی ہے۔مسلمان جب یہاں پہنچے تو ابھی پوری طرح اجالا بھی نہیں ہوا تھا۔گھاٹیاں صبح کے دھندلکے میں لپٹی کھڑی تھیں۔یکایک ہر طرف سے تیروں کی بوچھاڑ ہونے لگی اور ہوازن کے سپاہی جو گھات لگا ئے بیٹھے تھے بجلی کی تیزی سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔یہ حملہ اس طرح اچانک ہوا تھا کہ مسلمانوں کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی۔سب سے پہلے مکہ والے بھاگے۔ا نہیں بھاگتے دیکھ کے دوسروں کے قدم بھی اکھڑ گئے۔اور میدان میں صرف رسول اللہﷺ ، حضرت عباسؓ، حضرت علیؓ اوربعض خاص خاص جاں نثاروں سمیت کھڑے رہ گئے۔
آپﷺ نے د ہنی طرف رخ کر کے پکارا ۔’’اے انصار‘‘۔
آوازآئی ۔’’ ہم حاضر ہیں ۔‘‘ پھر بائیں طرف رخ کر کے اپنے ساتھیوں کو پکارا ۔ادھر سے بھی حاضر حاضر کی آوازیں آئیں۔ آپ ﷺاپنی سواری کے خچر سے جس کا نام دلدل تھا، کود پڑے۔ اور پکا ر کہ کہا، میں اللہ کا نبیﷺ ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔
یہ آواز اس طرح گونجی کہ مسلمان یا تو بھاگے جارہے تھے،یا پلٹ کے ہوازن کی فوج پر دہنے بائیں سے اس طرح آگرے کہ دشمن جو بڑھے چلے آرہے تھے،گھبرا کے پیچھے ہٹے ۔ بہت سے بہادر جوش میں گھوڑوں سے کود پڑے اور تلواریں سونت سونت کے کافروں کے لشکر میں گھس گئے۔ یہ حملہ اس زور کا تھاکہ کافر بھاگ کھڑے ہوئے۔
حنین سے کچھ دور اوطاس ایک جگہ ہے یہاں کافروں نے کچھ فوج اکھٹی کر رکھی تھی پر یہاں بھی شکست کھائی اور ہزاروں قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ان قیدیوں میں بی بی حلیمہ کی بیٹی شیما بھی تھی۔جو آپ کی دودھ شریک بہن تھی۔ آپ نے پہلے تو انھیں نہ پہچانا پھر جب انہوں نے کہا میں آپ کی دودھ شریک بہن شیما ہوں۔ ساتھ ہی کچھ اتے پتے بتائے تو آپﷺ کھڑے ہوگئے ۔پھر اپنی چادر بچھا کے انھیں بٹھایا اور دیر تک ان سے باتیں کرتے رہے ۔ پھر کہا ،آپﷺ چاہیں تو میرے ساتھ مدینہ چلیں ۔چاہیں تو اپنے قبیلے میں چلی جائیں ۔انہوں نے اپنے قبیلے میں جانا پسند کیا۔آپ ﷺنے ان کو بہت سے اونٹ ،بکریاں دے کے بڑی عزت سے وطن بھجوادیا۔

تبوک
۔۔۔۔
مکہ کو فتح ہوئے آٹھ نو مہینے ہو چکے تھے کہ خبر ملی۔ روم کا بادشاہ بڑے لاؤ لشکر کے ساتھ عرب پر حملہ کرنا چاہتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ خبر آئی کہ عیسائیوں کی فوجیں چل چکی ہیں اور شام کی سر حد پر عیسائی عربوں کے جو قبیلے آباد ہیں وہ ان میں آ آکے شامل ہوتے جاتے ہیں۔اس سال سارے عرب میں قحط پڑا ہو ا تھا۔ انسان اناج کو ترس گئے تھے اور جانور چارے کو۔ لیکن جب رسول اللہ ﷺ نے لڑائی کی تیاری شروع کی تو سب مسلمانوں نے اپنی اپنی ہمت کے مطابق تیاری میں حصہ لیا۔بعض نے گھوڑے اور اونٹ دئیے۔ بعض نے سونا، چاندی ۔عورتوں نے اپنے زیور اتار کے ڈھیر کر دئیے۔جن صحابیوں کے پاس کچھ نہیں تھاانہوں نے مزدوری کی اور جو کچھ ملا وہ آپﷺ کے سامنے لا رکھا۔
صحابیوں میں حضرت عثمانؓ بہت دولت مند تھے۔انہوں نے تین سو اونٹ جو لڑائی کے سامان سے لدے ہوئے تھے پیش کئے۔ حضرت عمرؓ کے پاس جو کچھ تھا ،اس میں سے آدھا حاضر کردیا ۔ لیکن ابو بکرؓ سب سے بڑھ گئے۔ یعنی گھر میں جتنا روپیہ پیسہ مال اسباب تھا سب اُٹھا لائے ۔ آپ نے پوچھا ،ابو بکرؓ اپنے بال بچوں کے لئے کیا رکھا۔ جواب دیا ،اللہ اور اللہ کا رسول۔
رسو ل للہ ﷺ مدینہ سے چلے توآپ کے ساتھ تیس ہزار سپاہی اور دس ہزار گھوڑے تھے۔ اس سے پہلے مسلمانوں نے اتنی بڑی فوج کبھی جمع نہیں کی تھی ۔راستہ بڑا کٹھن تھا ۔بیچ بیچ میں ایسے رتیلے میدان پڑے جہاں زہریلی ہوائیں چلتی ہیں۔ اور قافلوں کے قافلے تباہ ہو جاتے ہیں۔ آپﷺ ان رتیلے میدانوں کو لپیٹے پیاس کی مصیبتیں جھیلتے تبوک پہنچے جو مدینہ سے چودہ منزل کے فاصلے پر ہے۔آپ ﷺکے مقابلے پر دشمنوں کی کوئی فوج تو نہ آئی۔ ہاں آس پا س کے بعض عیسائی حاکم آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ ﷺنے ان سے صلح کرلی اور تبوک میں کوئی بیس دن رہ کے مدینہ لوٹے۔
دیکھو شروع شروع میں اسلام بہت آہستہ آہستہ پھیلا تھا۔ ہاں حدیبیہ کی صلح کے بعد اسلام کو بڑی ترقی ہوئی۔ لیکن جب رسول اللہﷺ تبوک سے واپس آئے تو یہ حالت ہوگئی کہ روز قبیلوں کے قبیلے مدینہ آتے اور ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر لوٹتے ۔کچھ عرصے میں عرب بھر کے لوگ مسلمان ہوگئے ۔اور قبیلوں میں پتھرکی جو مورتیاں پج رہی تھیں سب توڑ ڈالی گئیں۔

کیا امیوں نے جہاں میں اجالا
ہوا جس سے اسلام کا بول بالا
بتوں کو عرب اور عجم سے نکالا
ہر اک ڈوبتی ناؤکو جا سنبھالا

آخری حج
۔۔۔۔۔۔
ہجرت کے دسویں سال رسول خداﷺ حج کے لیے مدینہ سے نکلے ۔سارے صحابی آپﷺ کے ساتھ تھے ۔راستے میں اور لوگ بھی آ آکے ملتے جاتے تھے۔ مکہ تک پہنچتے پہنچتے یہ حال تھا کہ جدھر نظر اُٹھتی تھی مسلمان ہی مسلمان نظر آتے تھے ۔
آپ ﷺنویں دن مکہ پہنچے۔چھوے چھوٹے بچوں نے جب سنا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ہیں ، دوڑ پڑے ۔ آپﷺ نے انھیں اپنے اونٹ پر بٹھا لیا ۔کعبہ پر نظر پڑی تو آپﷺ اونٹ سے اتر پڑے ۔کعبہ کا طواف کیا ۔طواف کے وقت آپﷺ یہ کہتے جاتے تھے۔اے خدا ہم تیرے سامنے حاضر ہیں۔ تیرا کوئی ساجھی نہیں ۔سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ۔ملک تیرا ہے ۔نعمتیں تیری ہیں اور تیرا کو ئی سا جھی نہیں۔
طواف کر کے نماز پڑھی اور کہا۔اللہ کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں ۔وہ اکیلا ہے ۔اس کا کوئی شریک نہیں۔ملک اسی کا ہے ۔سب تعریفیں اسی کے لئے ہیں ۔وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔اس کے سوا کوئی پوجا کے لائق نہیں ۔اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔اپنے بندے کی مدد کی اور سب جتھوں کو توڑ دیا۔
جمعہ کے دن ذی الحجہ کی نویں تاریخ کو سب مسلمان عرفات کے میدان میں جمع ہوئے۔ کوئی سوا لاکھ کا ہجوم تھا۔رسول خدا ﷺ نے اونٹنی پر سوار ہو کر آخری تقریر کی ۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اے لوگو! شاید میں اس جگہ پھر تم سے نہ مل سکوں ۔اس لیے میری باتیں غور سے سنو۔
اے لوگو! جس طرح آج کے دن اس مہینہ اور شہرکی عزت کرتے ہو۔اسی طرح ایک دوسرے کے مال اور جان کی عزت کرو۔اور اسے اپنے آپ پر حرام سمجھو ۔دوسروں پر ظلم نہ کرو ۔شیطان نا امید ہو چکا ہے کیونکہ یہاں اب اس کی پوجا نہیں کی جائے گی۔خبردار! میرے بعد سچائی کے راستے سے بھٹک نہ جانا۔ ایک دوسرے کا خون نہ بہانا ،عورتوں کے ساتھ نرمی اورشفقت سے پیش آنا،غلاموں سے اچھا سلوک کرنا ۔جو خود کھانا انھیں کھلانا ،جو خود پہننا انھیں پہنا نا۔ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو انھیں معاف کردینا۔
اے لوگو! میں تم میں قرآن چھوڑے جاتا ہوں ۔اگر تم اس پر عمل کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔ جو کام کرو سچے دل سے کرو۔ مسلمانوں کا بھلا سوچتے رہو ۔ آپس میں ایکا رکھو۔‘‘
پھر فرمایا:
’’خدا تم سے میرے بارے میں پوچھے گا تو تم کیا جواب دو گے۔‘‘
لوگوں نے کہا،’’ ہم یہ کہیں گے کہ آپﷺ نے خدا کا پیغام ہم تک پہنچایا ۔‘‘
آپ ﷺنے تین بار فرمایا:
’’اے خدا گواہ رہنا،اے خدا گواہ رہنا،اے خدا گواہ رہنا ۔‘‘
یہ رسول اللہ ﷺ کا آخری حج تھا۔اس لئے اسے ’ حجتہ الوداع ‘ کہتے ہیں ۔آپ نے اس موقع پر جو باتیں کہیں ،ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ کے ذمے جو کام تھا آپﷺ اسے پورا کر چکے اور تھوڑے دنوں میں دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔

کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق

خدا کی نعمت
۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ ﷺ عرفات سے چلے تو راستے میں یہ آیت اُتری ۔’’آج میں نے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ۔اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کیا۔‘‘
اسلام خدا کی بہت بڑی نعمت ہے ۔یہ نعمت ہمیں قرآن کے ذریعے ملی ہے۔ قرآن خدا کی کتاب ہے جو ہمارے بنیﷺ پر اُتری ۔لیکن یہ کتاب پوری کی پوری ایک دفعہ نہیں اتری بلکہ تھوڑی تھوڑی کر کے اترتی رہی ہے۔ حجتہ الوداع تک خدا کے سارے حکم آچکے تھے ۔اور یہ بات پوری طرح بتا دی گئی تھی کہ کیا کیا کریں اور کن کن چیزوں سے بچتے رہیں۔ یعنی دین مکمل ہو چکا تھا اور خدا کی نعمت پوری ہو چکی تھی۔
اسلام کے ارکان یعنی بڑے بڑے اصول پانچ ہیں۔سب سے پہلے ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کو ایک سمجھے۔اس کے سوا کسی کی پوجا نہ کرے اور محمد ﷺ کو اللہ کا رسول اور اس کا بندہ جانے۔ نماز ،روزہ ،زکوٰۃ اور حج، باقی کے چار ارکان ہیں جن کی پابندی ہر مسلمان پر ضروری ہے ۔
اسلام سے پہلے عرب کے لوگوں کا یہ حال تھا کہ پابندی سے کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ نماز سے پابندی کی عادت پڑی ۔خدا کے سامنے گردنیں اس طرح جھکیں کہ پھر کسی کے سامنے نہ جھک سکیں ۔روزوں سے بھوک پیاس کی سختیاں اُٹھاناسیکھیں اور خداکی عبادت سے ان طریقوں سے ایسا لطف آیا کہ طبیعت آپ سے آپ برائیوں سے ہٹ گئی۔
ہم سب مسلمانوں کے لئے پانچ وقت کی نماز پڑھنا اور رمضان کے مہینے کے تمام دن روزے رکھنا ضروری ہے۔نماز تو کسی حالت میں معاف نہیں ہو سکتی ۔ہاں اگر کوئی شخص بیمار یا سفر میں ہو تو اسے اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے۔اور جتنے روزے ٹوٹیں بعد میں رکھ لے۔
ہم مسلمان پانچ وقت کی نماز اپنے گھروں میں یا محلہ کی مسجد میں پڑھتے ہیں۔ لیکن اکیلے نماز پڑھنے سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بہتر ہے۔ جمعہ کے دن شہر کی بڑی مسجد میں اکٹھے ہو کے نماز پڑھتے ہیں ۔سال بھر میں دو بار عیدین آتی ہیں۔ اس موقع پر ہم شہر کے باہر کسی میدان میں نماز پڑھنے جمع ہوتے ہیں۔
ہر مسلمان کے لئے زندگی بھر میں ایک دفعہ حج کر نا ضروری ہے ۔عرب کے لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے حج کیا کرتے تھے۔ پر انہوں نے حج کی رسموں میں اپنی طرف سے بھی رسمیں ریتیں شامل کر دی تھیں۔رسول خدا ﷺ نے حج کو ان رسموں سے پاک کیا اور مسلمان برس کے برس جمع ہو کر عبادت کے ساتھ ساتھ آپس میں میل جول پیدا کرنے اور ایک دوسرے کا دکھ سکھ سن کے مدد کے طریقے سوچنے لگے۔
اسلام میں ہر کام مل کے کرنے پر بڑا زور دیا گیا ہے۔اور تو اور ہم مسلمان عبادت بھی مل کے کرتے ہیں ۔نہ جمعہ اور عید کی نماز اکیلے دکیلے پڑھی جا سکتی ہے نہ حج ہو سکتا ہے۔
خوش حال مسلمانوں پر فرض ہے کہ سال کے سال اپنی آمدنی کا ایک حصہ اللہ کے راستے میں دے دیا کریں ۔اسے زکوٰۃ کہتے ہیں۔
یہ تو اسلام کے پانچ بڑے بڑے اصول ہوئے ۔ان کے علاوہ بھی ہم پر بہت سی باتوں کی پابندی ضروری ہے۔سچے مسلمان جھوٹ نہیں بولتے ،چوری نہیں کرتے ،شراب نہیں پیتے، جوا نہیں کھیلتے ،سود نہ لیتے ہیں نہ دیتے ہیں ۔اپنے رشتے داروں ،پڑوسیوں، یتیموں اور انسانوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آتے ہیں ۔ کسی کا حق نہیں چھینتے ۔کسی کی برائی نہیں کرتے ۔انسان تو انسان ان سے جانوروں کا دکھ بھی نہیں دیکھا جاتا۔
اسلام نے جہاد کی بڑی تاکید کی ہے۔ خدا کا نام بلند کرنے کے لئے ہر قسم کی کوشش کر نا اور مصیبتیں اُٹھانا جہاد ہے۔ اللہ کے راستے میں تلوار اُٹھانا اور دشمنوں سے لڑنا بھی اسی میں شامل ہے ۔ مسلمانوں نے پہلے مدت تک تلوار نہیں اُٹھائی ۔لیکن جب کافروں نے انہیں ستایا تو خدا نے انہیں بھی اپنے بچاؤکے لیے لڑنے کا حکم دیا ۔اصل میں سچے مسلمان لوٹ مار کے لیے نہیں بلکہ فساد سے پاک کرنے کے لئے لڑتے ہیں ۔ اس طرح کی لڑائی ،لڑائی نہیں بلکہ ایک قسم کی عبادت ہے ۔جہاد میں جو لوگ جانیں دے کے ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں وہ شہید کہلاتے ہیں ۔سچے مسلمان لڑتے وقت عورتوں ،بچوں اور بوڑھوں پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے ۔کھیتوں کو تباہ نہیں کرتے۔ سبزدرختوں کو نہیں کاٹتے ۔دوسرے مذہب کے لوگوں کی عبادت گاہوں کو نہیں گراتے۔وہ قول کے پکے اور بات کے دھنی ہوتے ہیں۔جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں ۔جو ان کی زبان پر ہے وہی دل میں ہے۔
اللہ کا شکر ہے اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور اسلام جیسی نعمت بخشی ۔ہم ذات پات ،رنگ،نسل کی اونچ نیچ کو نہیں مانتے ۔ہم میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ۔ہم سب بھائی بھائی ہیں ۔اور اللہ کے نزدیک ہم میں سے انھیں کارتبہ بڑا ہے جو نیکی اور پرہیزگاری میں دوسروں سے بڑھے ہوئے ہیں۔
ہم چالیس کروڑ سے اوپر ہیں۔ اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں بہت سے مسلمان عرب ،ایران، عراق، شام ،فلسطین اور افغانستان میں آباد ہیں اور افریقہ کے دوسرے ملکوں میں جو ہمارے بھائی بستے ہیں ا ن کی گنتی بھی کروڑوں تک پہنچتی ہے ۔پاکستان میں ہم ساڑھے پانچ کروڑ ہیں ۔ہندوستان میں ساڑھے چار کروڑ ۔چین میں کوئی پانچ کروڑ ،روس میں تین چار کروڑ ۔ایشیاء کے مشرقی حصہ میں نملایا، جاوا، بورنیو اور سماٹرا کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ٹاپو ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی سات کروڑ سے کچھ ہی کم ہے۔
یورپ میں ہماری گنتی کچھ کم ہے ۔یورپ کا کوئی ملک ایسا نہیں جہاں مسلمان موجود نہ ہوں ۔ترکی میں ہمارے بھائیوں کی حکومت ہے ۔البانیہ چھوٹا سا ملک ہے لیکن وہاں بھی ہماری تعداد دوسرے مذہبوں کے ماننے والوں سے زیادہ ہے۔ بلقان کی ریاستوں میں ہمارے لاکھوں بھائی سینکڑوں برسوں سے آباد ہیں۔ اور تو اور فرانس، پولینڈ اور بر طانیہ میں بھی ہماری بستیاں اور مسجدیں ہیں۔ جن سے پانچ وقت اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔
وفات
۔۔۔۔۔
ہمارے نبیﷺ پیغمبری کا رتبہ پانے کے بعد تیئس برس زندہ رہے۔ ان میں سے ۱۳ برس مکہ میں گزارے اور دس برس مدینہ میں ۔قوموں کی زندگی سد ھارنے کے لیے یہ مدت بہت تھوڑی ہے ۔لیکن اللہ کی قدرت دیکھو کہ اس عرصے میں عرب سے وہ تمام بری رسمیں جو سینکڑوں برسوں سے چلی آرہی تھیں، مٹ گئیں اور سارے عرب نے بتوں کی پوجا چھوڑ کے سچے خدا کے سامنے سر جھکا دیا۔
رسول خداﷺ دنیا میں اپنا کام پورا کر چکے تو خدا کا بلاوا آیا۔ہجرت کے گیارھویں سال صفر کے مہینے میں آپ کو بخار ہو ا۔بیماری کے زمانے میں وہیں رہے اور وہیں وفات پائی۔ ایک دن ذرا طبیعت سنبھلی تو مسجد میں گئے اور منبر کی نچلی سیڑھی پر بیٹھ کے فرمایا:
’’اے لوگومجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میری موت سے ڈرتے ہو ۔کیا اگلے نبیوں میں سے کوئی ہمیشہ زندہ رہا ہے ۔میں بھی اپنے نبیوں کی طرح جلد اپنے مولا سے ملنے والا ہوں ،اور تم سب بھی ایک دن خدا سے جا ملو گے ۔جن لوگوں نے اسلام کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا ان سے اچھا سلوک کرنا ۔اے مہاجرین!انصار کے ساتھ بھلائی سے پیش آنا۔ان میں سے جو نیک ہوں ان پر احسان کرنا۔جو قصور وار ہوں انھیں معاف کر دینا اور میرے کنبے کی عزت کا خیال کرنا۔‘‘
وفات کے دن صبح کے وقت آپ کی طبیعت کچھ سنبھل گئی تھی لیکن دن چڑھا تو غش آنے لگا۔ تیسرے پہر بے چینی بڑھ گئی ۔اس حالت میں آپ کی زبان پر یہ لفظ تھے’’نماز نماز ،لونڈی ،غلام ‘‘ آخری وقت آیا تو تین دفعہ انگلی اُٹھا کے فرمایا:
’’سب سے بڑے ساتھی کے پاس۔‘‘
اور آپ سب سے بڑے ساتھی سے جاملے ۔
آپ کو غسل دے کر تین چادروں کا کفن پہنایا گیا۔ اور پھر حجرے میں جہاں آپ نے وفات پائی تھی آپ کو دفن کردیا گیا۔

اَللّٰھُمَّ صَلِِّ عَلٰی مَحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ

بنانا نہ تربت کو میری صنم تم
نہ کرنا میری قبر پہ سر کو خم تم
نہیں بندہ ہونے میں کچھ مجھ سی کم تم
کہ بیچارگی میں برابر ہیں ہم تم
مجھے دی ہے حق نے بس اتنی بزرگی
کہ بندہ بھی ہوں اس کا اور ایلچی بھی

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top