skip to Main Content

اماں کھیر

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

اماں کھیر کو میں خاصی مدت سے جانتا تھا۔اس وقت وہ صرف اماں ہوتی تھیں۔اماں کھیربعد میں بنیں اور نام ان کا فاطمہ تھا۔
وہ میرے محلے میں رہتی تھیں۔پچاس سال سے اوپر عمر تھی۔یہ گھر ان کے بیٹے کا تھا جس کی شادی ہوچکی تھی اور جوکسی دفتر میں چپراسی کا کام کرتا تھا۔اس کا نام لالو تھا۔
لالو نے اپنی ماں سے کئی بار کہا تھا کہ اماں میں اتنی تنخواہ لے آتا ہوں کہ ہم سب کا پیٹ بھر سکے،اس لیے تو گھر گھر جا کر لوگوں کے کام نہ کیا کر،مگر اماں کھیر نے اس کی بات نہیں مانی تھی،کہتی تھیں:
”پتر لالو!گھر میں بے کار بیٹھنے سے فائدہ؟کام کرنے کے لیے لوگوں کے گھروں میں جاتی ہوں تو دل بہل جاتا ہے اور پھر یہ سارے لوگ میری عزت کرتے ہیں۔مجھے ان سے کبھی شکایت نہیں ہوئی۔“باربا ر کہنے کے بعد جب لالو نے دیکھا کہ اس کی ماں کو یہی بات پسند ہے کہ لوگوں کے گھروں میں جائے اور کام کرے تو وہ خاموش ہو گیا اور پھر اس نے کبھی اس سے کام چھوڑنے کے لیے نہیں کہا۔
”ہاں یہ اماں،اماں کھیر کیسے بن گئیں؟“
جو بھی سنے گا کہ اماں،کھیر اماں کہلاتی تھیں تو وہ فوراً کہہ دے گا کہ انہیں اماں کھیر اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ کھیر بڑے شوق سے کھاتی ہوں گی، لیکن یہاں معاملہ اس کے الٹ تھا۔
اماں کھیر کو کھیر سے نفرت تھی۔اگر کوئی شخص ان کے سامنے بے دھیانی میں اماں کھیر کہہ دیتا تو وہ بہت برا مانتی تھیں اور کئی دن اس سے ناراض رہتیں،اس لیے ہر شخص انہیں بلاتے وقت احتیاط سے کام لیتا اور کھیر کا لفظ نہیں نکالتا تھا،ہاں یہ ضرور تھا کہ جب وہ کسی جگہ نہیں ہوتی تھیں اور ان کے بارے میں کچھ کہنا ہوتا تو اماں کھیر ہی کہا جاتا تھا۔
اماں کھیر کو کھیر سے کیوں نفرت تھی، اصل وجہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔محلے میں سب سے بوڑھے آدمی چودھری خیر دین تھے اور وہ اماں کو بچپن سے جانتے تھے۔وہ بھی یہ نہیں بتا سکتے تھے کہ اماں کو کھیر سے کیوں چڑ تھی۔
محلے میں اماں کھیر جیسی ایک اور اماں بھی رہتی تھیں۔وہ دونوں آپس میں سہیلیاں بھی تھیں۔یہ دوسری اماں بتاتی تھیں کہ فاطمہ کو کھیر اس وجہ سے اچھی نہیں لگتی تھی کہ ایک دفعہ جوانی میں اس نے کھیر پیٹ بھر کر کھالی تھی اور اس کی حالت بڑی خراب ہوگئی تھی۔مرتے مرتے بچی تھی، مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ اصل وجہ یہ نہیں کوئی اور ہوگی اور یہ وجہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ایک بار ایسا ہوا کہ اماں میرے ہاں آئیں۔اس روز وہ بڑی خوش نظر آرہی تھیں۔ان کا اکلوتا پوتا دوسری جماعت پاس کرکے تیسری میں چلا گیا تھا۔اسی خوشی میں اماں نے سارے محلے میں مٹھائی بانٹی تھی اور میرے گھر بھی مٹھائی لے کر آئی تھیں۔
ان کو خوش دیکھ کر میں نے چاہا کہ آج وہ راز معلوم کرہی لوں جو کوئی بھی نہیں جانتا تھا،یعنی اماں کھیر سے کیوں چڑتی تھیں۔میںنے بڑے ادب سے کہا:
”اماں!تم میری اماں ہو نا؟“
”ہاں بیٹا! کیوں نہیں؟اللہ بخشے تمہارے ابا بڑے ہی اچھے آدمی تھے ،جس مکان میں ہم رہتے ہیں ، وہ انہی نے دلوایا تھا۔“
میں نے سمجھ لیا اماں کا موڈ بہت اچھا ہے،پوچھا:”اماں یہ کھیر کا معاملہ کیا ہے؟تم“
میرا اتنا کہنا تھا کہ اماں کے چہرے کا رنگ ایک دم بدل گیا۔لگتا تھا میری بات پر بڑا غصہ آیا ہے۔فوراً کچھ کہے بغیر چلی گئیں۔میں انہیں دیکھتا ہی رہ گیا۔
معاملہ بگڑ جانے سے مجھے بہت افسوس ہوا،لیکن میں نے سوچ لیا کہ کسی طرح یہ رازمعلوم کرکے ہی رہوں گا۔
چودھری خیر دین کھاتے پیتے آدمی تھے اور انہیں ہنگاموں سے دلچسپی بھی تھی۔مہینے میں ایک بار ضرور محلے کے رہنے والوں کی دعوت کرتے تھے ۔کبھی ان کے ہاں قرآن خوانی ہوتی اور کبھی نعت خوانی۔ان کے جاننے والے جمع ہوجاتے تو گھر میں بڑی رونق ہوجاتی۔
چودھری صاحب کا پوتا انہی دنوں ایک بیماری سے صحت یاب ہوا تو انہوں نے محلے کے سارے بچوں کو گھر میں بلوا لیا اور انہیں بہت کچھ کھلایا پلایا۔بچے خوش ہو گئے اور اچھلتے کودتے گھروں کو چلے گئے۔
رات کے بارہ بجے ہوں گے،مجھے نیند نہیں آرہی تھی، یوں ہی ایک کتاب پڑھ رہا تھاکہ دروازے کی گھنٹی بجی۔
”اس وقت کون آگیا؟خدا خیر کرے۔“میں نے دل میں کہا۔اٹھ کر دروازہ کھولا، سامنے اماں کھڑی تھیں،سخت پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔
”کیوں اماں کیا بات ہے؟“میں نے پوچھا۔
”میرا یوسفہائے اللہ۔“اماں اس قدر پریشان تھیں کہ فقرہ بھی مکمل نہ کرسکیں۔
”کیا ہوا یوسف کو؟“
میں ے سمجھ لیا کہ اماں کا پوتایا تو بڑا بیمار ہوگیا ہے یا گھر میں نہیں آیا،پوچھا:
”اماں یوسف کو کیا ہوا ہے۔خیر توہے؟“
”خیر کیا ہوگی تڑپ رہا ہے۔اس کو ماں کے پاس چھوڑ آئی ہوں،تمہارے پاس۔خدا کے لیے جلدی کروہائے میرا یوسف۔“
میں اماں کے ساتھ اس کے گھر پہنچا۔معلوم ہوا یوسف کے پیٹ میں سخت درد ہے۔وہ بری طرح تڑپ رہا تھا۔
”اس نے کھایا کیا تھا؟“میں نے پوچھا۔
”چچا خیر دین کے گھر سے ڈھیر ساری کھیر کھا کر آیاتھا۔“
یہ الفاظ یوسف کی ماں نے کہے اور جیسے ہی کہے اماں نے اپنا سینہ پیٹ لیا۔
”ہائے میرا بدنصیب یوسف۔“ان کے منہ سے نکلا۔
”اماں! فکر کی کوئی بات نہیں، ابھی ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہوں اسے۔“
یوسف کا باپ کہیں باہرتھا۔میں نے یوسف کو کندھے سے لگایا اور گھر سے باہر آگیا۔تیسرے مکان میں ڈاکٹر رہتا تھا۔اس کے دروازے پر دستک دی۔ڈاکٹر میرا بڑا خیال کرتا تھا۔اسے میرے آنے کا معلوم ہوا تو جلدی سے اندر بلا لیا۔یوسف کے پیٹ کو ٹھوک بجا کر دیکھااور بولا: ”بد ہضمی ہو گئی ہے۔کوئی بات نہیں۔“
ڈاکٹر صاحب نے دوا پلادی اور میں نے یوسف کو گود میں اٹھا لیا۔گھر پہنچے تو اماں نے میرے کان میں منہ لگا کر کہا:
”بچ جائے گا نا۔“
میں اماں کے اس سوال پر حیران رہ گیا کہ یہ اماں کیا کہہ رہی ہیں،اس وقت تو میں نے انہیں تسلی دی، مگر دل میں فیصلہ کر لیا کہ ان سے یہ ضرور پوچھوں گا کہ وہ اپنے پوتے کی زندگی سے مایوس کیوں ہوگئی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد یوسف ٹھیک ہوگیا اور میں گھر آگیا۔
صبح سویرے اماں کے ہاں پہنچا تو یوسف ہنس کھیل رہا تھا۔میں نے یہ موقع غنیمت جانا اور اماں سے پوچھا:
”اماں!مجھے ایک بات بتائیں گی۔“
”کیوں نہیں بیٹا؟تم نے ہماری خاطر تکلیف کی۔اتنا احسان کیا۔پوچھو بیٹا میں ضرور بتاﺅں گی۔“
میں نے کہا،”اماں!یہ بتائیے کہ آپ اپنے پوتے کی زندگی سے مایوس کیوں ہو گئی تھیں۔بھلا بدہضمی سے کیا ہوتا ہے۔“
اماں خاموشی سے گھور گھور کر مجھے دیکھنے لگیں۔
”بتائیے بھی اماں۔“
اماں پھر بھی خاموش رہیں اور میں نے تیسری مرتبہ پوچھا تو بولیں:
”بیٹا اس نے کھیر جو کھالی تھی۔“
مجھے اور حیرت ہوئی،”تو اس سے کیا ہوتا ہے اماں؟“میں نے سوال کیا۔
”کیا ہوتا ہے،یہ پوچھتے ہو کیا ہوتا ہے؟بیٹا میں وعدہ کر چکی ہوں کہ جو کچھ پوچھو گے بتاﺅں گی۔بیٹا تم نے یہ نہ پوچھا ہوتا تو اچھا تھا۔کیا بتاﺅں۔حامد میری بہن کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا۔مجھ سے بہت پیار کرتا تھا۔میں بھی اس سے بڑا پیار کرتی تھی۔میرے یہاں آتا تو جو کہتا پکا کر کھلاتی۔اس شام وہ آیا تو بولا:
”خالہ جان!کھیر کھانے کو جی چاہتا ہے۔“
میں نے کھیر پکائی اور پلیٹ بھر کر اس کے آگے رکھ دی۔مزیدار ہوگی ساری پلیٹ کھاگیا۔تھوڑی دیر بعد اس کے پیٹ میں درد ہونے لگا۔ اس کی ماں آئی اور اسے لے گئی۔
کسی نے بتایا کہ حامد کی حالت خراب ہو گئی ہے۔میں فوراً وہاں پہنچی،مگر صبح تک بچہ مرگیا۔“
”مرگیا؟“میں نے پوچھا۔
”ہاں مرگیا،میرا حامد مرگیا۔“اماں اس کی یاد میںمغموم ہوگئی۔
میں نے اس وقت کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔دوتین گھنٹوں کے بعد انہیں سمجھایا۔
”اماں حامد کی موت صرف کھیر کھانے سے نہیں ہوئی،پتا نہیں اسے اور کیا بیماری ہوگی۔پیٹ بھر کر کھیر کھانے ہی سے اگر آدمی مر سکتا تو یوسف کیوں نہ مرا،بالکل ٹھیک کیوں ہے؟“
اماں سر جھکا کر سوچنے لگیں۔یوں مجھے اماں کھیر کا راز معلوم ہو گیا۔
اماں کی کھیر سے نفرت ختم ہوگئی،مگر کیا اس کے بعد وہ صرف اماں کہلانے لگیں؟ اماں کھیر نہیں؟
نہیں ایسا نہیں ہوا۔وہ پھر بھی اماں کھیر ہی کہلاتی تھیں،مگر فرق یہ پڑا کہ اب انہیں کوئی اماں کھیر کہتا تو وہ برا نہیں مانتی تھیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top