skip to Main Content

حامد کے دادا جان

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

کہا جاتا ہے کہ آدمی بوڑھا ہو کر پھر بچہ بن جاتا ہے۔یہ بات کچھ ایسی غلط نہیں ہے۔کم از کم حامد کے دادا جان کے معاملے میں اسے بالکل صحیح کہا جا سکتا ہے اور وہ یوں کہ حامد کے دادا جان بچوں کی طرح روٹھ جاتے تھے۔بچوں ہی کی طرح ضد کرنے لگتے تھے۔اگر ان سے کہا جاتا اور کہنے والی ان کی بہو ہوتی کہ دادا جان یہ طریقہ زیادہ اچھا نہیں لگتا تو خفا ہوکر کہہ دیتے:
”میں بوڑھا ضرور ہوں سٹھیا نہیں گیا۔خود احمق ہواور احمق سمجھتی ہو مجھے۔“بات یہیں پر ختم ہو جاتی۔دادا جان کی ضد پوری نہ ہو،یہ توکبھی ہو نہیں سکتا تھا۔
ایک روز دادا جان کی بہو نے ان سے کہا:
”دیکھئے دادا جان!میں باورچی خانے میں ہوتی ہوں۔آپ کی آواز بہ مشکل پہنچتی ہے۔آپ ڈرائنگ روم کے ساتھ جو کمرہ ہے وہاں آجا ئیں ۔“
دادا جان نے یہ سنتے ہی ڈانٹ پلائی”وہ بھی کمروں میں کوئی کمرہ ہے۔مجھے عادت ہے کھڑکی کے پاس بیٹھنے کی۔دیکھتی نہیں ہو وہاں ایک بھی کھڑکی نہیں۔“
”پھر یہ بھی تودیکھئے کہ وہاں آرام کتناملے گا آپ کو۔پھر آپ کی آواز سن کر ہم فوراًآپ کے پاس پہنچ جایا کریں گے۔“یہ الفاظ حامد کی آپا کے تھے۔
دادا جان نے اسے بھی ڈانٹ دیا:
”وہاں آرام کیا خاک ہے؟بس میں کچھ بھی کہنا سننا نہیں چاہتا۔کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو خود باورچی خانے میں یاجہاں بھی تم لوگ ہو گے وہاں آکر کہہ دیا کروں گا۔“
”دادا جان اس سے آپ کو تکلیف ہوگی۔“حامد نے بڑے ادب سے کہا۔
”تکلیف ہوتی ہے تو ہوا کرے،تمہیں اس سے کیا۔“
یہ سن کر حامد اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔
اس شام ڈرائنگ روم میں حامد کے بھائی جان اکرم،ان کی بیگم یعنی دادا جان کی پوتی بہوسلمیٰ،حامد کی آپا رفیعہ اور حامد کے درمیان میٹنگ ہوئی۔سوچا یہ جا رہا تھا کہ دادا جان کے مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔کمرہ وہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے اور یہ کمرہ مکان کا سب سے آخری کمرہ تھا۔آواز دادا جان کی شروع ہی سے باریک تھی جو ان کے کمرے سے باہر چند فٹ تک سنائی دے سکتی تھی اور گھر والوں کو یہ بھی منظور نہیں تھا کہ وہ خود چل کر باہر ا ٓئیں اوراپنی ضرورت بیان کریں۔اس سے انہیں تکلیف ہوتی تھی۔سلمیٰ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ معاملہ فہم تھی۔بولی،”دادا جان بار بار چائے پیتے ہیں۔میرا خیال ہے اگر ہر دو ڈھائی گھنٹے کے بعد ان کو چائے کا کپ دے دیا جائے تو انہیں خود کہنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔“
”بالکل ٹھیک!“اکرم نے میز پر زور سے ہاتھ مار کر کہا۔
”تو کل سے اس پروگرام پر سختی سے عمل ہوگا۔“رفیعہ بولی۔
دوسرے روز پروگرام پر عمل ہونا شروع ہو گیا۔دوپہر تک تو معاملہ ٹھیک رہا۔سلمیٰ ڈیڑھ بجے چائے کا کپ لے کر گئی تو دادا جان غصے سے بولے،”کیا مجھے کھانے سے چھٹی دے دی گئی ہے؟“
”نہیں دادا جان! خدانخواستہ ایسی کوئی بات نہیں ۔“
”تو کھانے کے وقت چائے کیوں لے آئی ہو۔کیا میں نے کہا تھا۔۔۔کہا تھا بولو؟“
”جی نہیں،کہا تو نہیں۔“
”جب کہا نہیں تھا تو کھانے کے بجائے چائے کیوں لے آئی ہو؟“
”غلطی ہوگئی، دادا جان۔“
سلمیٰ شرمندہ ہو کر چلی گئی۔
”بات نہیں بنی۔“سلمیٰ نے رفیعہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
”تو اب کیا کیا جائے؟“
”میری سمجھ میں جو آیا تھا کہہ دیا تھا۔اصل میں دادا جان اپنی ضرورت خود بتانا چاہتے ہیں۔“اسی دوران اکرم بھی آگیا۔
”سلمیٰ نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔دادا جان نے ساری عمر دفتر میں بڑے افسر کا کام کیا ہے۔اپنے عملے میں سے کسی کو کچھ کہنا ہوتا تھا تو وہ اسے بلا کر کہتے تھے۔“اکرم نے اپنے خیال کا اظہار کیا۔
”تو آپ کی رائے میں کیا کرنا چاہئے؟“سلمیٰ نے پوچھا۔
”بڑا آسان معاملہ ہے۔دادا جان اپنے کمرے میں ہمیں بلوا سکتے ہیں۔“
”کس طرح؟“یہ رفیعہ کا سوال تھا۔
”کس طرح،وہ لاٹھی کے سہارے چلتے ہیں نا؟“
”ہاں۔“
”گویا لاٹھی ہر وقت ان کے پاس رہتی ہے۔یہ لاٹھی وہ فرش پر مار کراتنا شور پیدا کرسکتے ہیں جو باہر تک سنائی دے سکے۔“
”سمجھ گئی ۔سمجھ گئی۔“سلمیٰ نے اس تجویز کو بہت کامیاب قراردیااو وہ خود ہی انہیں یہ تجویز بتانے کے لیے چلی گئی۔
”بالکل احمقانہ۔“دادا جان سنتے ہی بولے۔
”جی احمقانہ کیوں؟“
”بیٹی کچھ عقل سے کام لو۔ہمسائے اس کھڑکی میں سے مجھے دیکھ سکتے ہیں۔وہ جب مجھے دیکھیں گے کہ لاٹھی ماررہا ہوں تو سمجھیں گے کہ میں کسی کو پیٹ رہا ہوں۔میں نے زندگی بھرایسی حرکت نہیں کی۔بدنام کرنا چاہتی ہو مجھے۔احمق کہیں کی۔تم لوگوں کی تو مت ماری گئی ہے۔“
سلمیٰ مایوس ہو کر کمرے سے نکل گئی اور دادا جان کا مسئلہ جوں کا توں رہا۔
ایک روز حامد بڑا خوش خوش گھر آیا او یہ خوش خبری سنائی کہ اس نے دادا جان والا مسئلہ حل کرلیا ہے۔
”بتاﺅ۔“اس کی آپا نے کہا۔
”آپا بتاﺅں گا دادا جان کو اور سب کے سامنے بتاﺅں گا۔“
اور تھوڑی دیر بعد سب کے سب دادا جان کے کمرے میں جمع تھے۔
”دادا جان!ہم سب کو معلوم ہوا ہے ،آپ ساری عمر ایک دفتر میں بڑے افسر رہے ہیں۔“
دادا جان چیں بہ چیں ہوگئے۔
”تقریر مت کرو۔کہنا کیا چاہتے ہو؟“وہ بولے۔
”فوراً چپراسی آجاتا تھا۔“حامد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آجاتا تھا۔۔۔پھر۔۔؟“
”گدھے تو کہنا کیا چاہتا ہے۔چپراسی آجاتا تھا۔۔چپراسی آجاتا تھا۔۔۔۔یہ کیا ہوا؟“
”سنیے دادا جان! آپ حکم دیتے تھے۔۔وہ۔۔“
”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے لڑکے؟“
حامد کی گت بنتے دیکھ کر سب مسکرا رہے تھے۔
”دادا جان! اب بھی آپ ایسا کر سکتے ہیں۔“یہ کہتے ہوئے حامد نے جیب سے ایک گھنٹی نکال کر دادا جان کے پلنگ کے پاس تپائی پر رکھ دی۔دادا جان خاموشی سے گھنٹی کو دیکھنے لگے۔
”ارے توتو بڑا ذہین ہے۔“گویا دادا جان کو حامد کی تجویز پسند آگئی تھی۔
”دادا جان! آخر آپ کا پوتا ہوں بھلا ذہین کیوں نہ ہوتا۔“سب گھر والوں نے حامد کوشاباش دی اور اس کی تجویز پر عمل شروع ہوگیا۔
دادا جان گھنٹی بجاتے تو سلمیٰ یا رفیعہ فوراً کمرے میں پہنچ جاتی تھیں۔دادا جان بھی خوش اور گھر والے بھی خوش۔
ایک چھٹی کے روز اکرم، سلمیٰ، رفیعہ ا ور حامد بڑے مزے سے دوپہر کا کھانا کھارہے تھے کہ گھنٹی بج کر ایک دم چپ ہوگئی۔
”ہیں یہ کیا ہوا؟“
سب کھانا چھوڑ کر جلدی سے دادا جان کے کمرے میں جا پہنچے۔دادا جان گھنٹی کوکوس رہے تھے۔ذرا میرا ہاتھ لگا اور تپائی سے نیچے گر پڑی۔
اور دوچار مرتبہ یہی ہوا اور ایک رات کو تو گھنٹی اس طرح بجی کہ سب سوتے میں جاگ کر دادا جان کے ہاں پہنچ گئے۔
”یہ کم بخت میرے تکیے کے نیچے پڑی تھی۔تکیہ درست کیا تو اسے ہاتھ جا لگا۔کوئی بات نہیں ۔جاﺅ جا کر سو رہو۔“
دادا جان کے لیے تو کوئی بات نہیں تھی،مگر گھر والوں کے لیے بڑی بات تھی۔وہ اس گھنٹی کے ہاتھوں پریشان ہو گئے تھے۔
دودن بیت گئے تھے اور گھنٹی نہیں بجی تھی۔سب فکر مند تھے کہ دادا جان کہیں ناراض تو نہیں ہوگئے۔تیسرے روز سلمیٰ چائے لے کر ان کے کمرے میں گئی تو ادب سے پوچھنے لگی،”دادا جان آپ ناراض ہیں؟“
”نہیں۔۔۔بالکل نہیں۔“دادا جان کا جواب تھا۔
”وہ۔۔۔دادا جان وہ گھنٹی نہیں بجی۔۔۔“سلمیٰ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔”دودن گزر گئے ہیں،ہمیں معاف کردیں دادا جان۔شاید ہم نے گھنٹی سنی نہیں۔“
”یہ اب کبھی نہیں بجے گی۔میں نے اسے کھڑکی سے باہر پھینک دیا ہے۔“
”کیوں دادا جان؟“
دادا جان بڑی ملائمت سے بولے:”بیٹا!اس نے تم لوگوں کو پریشان کردیا تھا ۔مجھے کوئی حق نہیں کہ اپنے بچوں کو پریشان کروں۔چائے میں نے بہت کم کردی ہے۔کھانا میں تمہارے ساتھ کھایا کروں گا۔اپنے بچوں میں بیٹھ کر بزرگوں کو سچی خوشی ملتی ہے۔“
سلمیٰ نے باہر آکر یہ الفاظ دوسروں کو سنائے تو سب کے چہرے خوشی سے دمکنے لگے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top