skip to Main Content

زرد گیندے کے پھول

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ ایک بہت بڑے سنہری چمکتے محل میں ایک جادوگر رہتا تھا۔ اُس کے گھنے سنہری بال تھے۔ سنہری داڑھی تھی۔ ہمیشہ سنہری لباس زیب تن کئے رکھتا۔
اس لےے زیادہ لوگ اب اُس کا اصل نام بھو ل کر اُسے سنہرا جادوگر ہی کہتے تھے۔ وہ بلاکا امیر تھا۔ اُس کے باورچی خانے کی تمام ڈشز، گلاس اور کپ خالص سونے کے بنے ہوئے تھے۔ اُس کے بیٹھنے کی کُرسیاں سونے کی تھیںتو کھانے کومیز بھی سونے کا۔ اور اتنابھاری تھا کہ اُسے اُٹھانا ناممکن تھا۔
اُس کے تہہ خانے میں الماریاں سونے کے تھیلوں سے بھری پڑی تھیں۔ لیکن اُنہیں سنہرے جادوگر کے علاوہ کسی نے نہ دیکھا تھا۔ کیونکہ تہہ خانے کی چابیاں اُسی کے پاس تھیں۔ سنہری محل اتنا خو بصورت تھا کہ نگاہ ٹکنا مشکل تھا۔ کیونکہ محل کی تمام دیواریں سونے سے بنی تھی۔ اور اُن میں لاتعداد کھڑکیاں تھیں جو سارادن سورج کی روشنی سے چمکتی دمکتی رہتی تھیں۔ سنہرے جادوگر نے اپنے جادو سے کرنوں کو اکٹھاکر کے ایک سنہری شعاع بنائی تھی۔ جس سے وہ سونے کو دمکانے کا کا م لیتا تھا۔
سنہرا جادو گر بہت رحم دل اور سخی تھا۔ اُس نے بہت سا سونا غریبوں میں بانٹاسبز جادوگر جو قریبی چوٹی پر رہتا تھا۔ ہمیشہ سنہری کی ٹوہ میں رہتا۔ اور اُس کے منتروں کو چوری کرنے کی کوشش کرتا۔ لیکن سنہرا جادوگر کو اس کی پرواہ نہ تھی۔ البتہ وہ اپنے تہہ خانے میں محفوظ خزانے کی حفاظت میں کوئی کمی نہ رہنے دیتا تھا۔
ایک دن سنہری محل میں ایک سخی سا شحص آیا۔ جس کی آنکھیں گہری سبزتھیںوہ جادوگر کو ملنے آیا تھا۔ وہ سنہرا جادوگر کے آگے کو رنش بجالایا۔ اور وہ بتانے لگا کہ وہ عظیم ترین جادو گر عنریق کے پاس پچھلے بیس سال سے ملازم تھا۔ مگر چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے اُس نے اُسے ملازمت سے نکال دیا ہے۔ لہٰذا وہ نوکری کی تلاش میں ہے۔
اوروہ سنہرے جادوگر کے بہت کا م آسکتا ہے۔ کیونکہ عنریق جیسے بڑے جادوگر نے اُسے کئی خفیہ جنتر منتر سکھائے ہیں۔ سنہرا جادوگر عنریق کو بہت اچھی طر ح سے جانتا تھا۔ اور اُسے معلوم ہوا تھا کہ اُس کی برائیوں کی وجہ سے لوگوں نے اُس کے قلعہ سے نکال کر علاقہ بد ر کر دیا ہے۔ اُس شخص نے پھر سنہرے جادوگر کو کچھ منتر بھی بتائے۔جنہیں سن کر سنہرا جادوگر دنگ رہ گیا۔ اُس حیرت کا اظہاربھی کیا کہ عنریق اِس ملازم پر کتنا اندھا اعتماد کرتارہا ہے۔ ورنہ اصول کے مطابق تو یہ منتر صرف جادو گروں کے پاس ہونے چاہئیں۔ لہٰذا اُس کے گُن دیکھ کر سنہرے جادوگرنے اُس شحص کو اپنا ملازم رکھ لیا۔ سبز آنکھوں والے نے دوبارہ جھک کر سلام کیا۔ مگر عجیب مسکراہٹ جو اُس کے چہرے پر پھیلی وہ سنہرا جادوگر نہ دیکھ سکا۔ اور نہ ہی وہ اِس راز کو پاسکا کہ سبز آنکھوں والا ملازم درحقیقت خود عظیم جادوگر عنریق ہے۔ جسے لوگوں نے اُسے اُس کے قلعہ سے نکال دیاتھا۔ اور وہ دربدر ٹھو کریں کھا رہاتھا۔
تب اُسے خیال آیاکہ وہ سنہری محل میں نوکری کے بہانے داخل ہو۔ اور موقع پا کر کسی طریقہ سے سنہری خزانے کی چابیاں اُڑائے اور پھر سنہرے جادوگر کے خزانے سے دوبارہ امیر ہوسکے۔ اب وہ بہت خوش تھا کہ اُسے وہ موقع مِل گیا تھا۔ دن گزرتے گئے اور عنریق نہا یت محنت سے کا م کرتا رہا۔ لیکن کبھی بھی اُسے تہہ خانے میں جانے کی اجازت نہ ملی۔ سنہرا جادوگر ہمیشہ چابیوں کی حفاظت کرتا۔ اور اپنے تکیہ کے نیچے رکھ کر سوتا۔ اُسے اتنا تو احساس ہو گیاتھاکہ اُس کا نیا ملازم انتہائی کایاں شخص ہے۔ اِس لےے نہ تو وہ اُسے زیادہ پسند کرتا اور نہ قابل اعتبار مانتا۔
سبز آنکھوں والا عنریق محل سے قریب ہی ایک کو ٹھڑی میں رہتا تھا۔ ایک دن اُسے فرش میں خوبصورتی سے چھپا ہوا ایک دروازہ مِلا۔ دروازے کا کو اڑ اوپر کھولنے سے اُسے تہہ خانے میں جانے کا راستہ مِلا۔ پہلے اُس نے سو چا کہ وہ تہہ خانے میں آلومحفوظ کرے گا۔ لیکن تہہ خانے میں پہنچنے کے بعد اُسکے ذہن میں ایک خیال آیا۔ جسے سوچ کر اُس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اُس نے سو چا کیوں نہ وہ اپنے جادو کو استعمال کرکے ایک سرنگ بنائے جو اُسے سنہری محل کے خزانے تک لے جائے۔اگلا سارادن وہ سنہری محل میںکام پہ جُتا رہا۔ لیکن آدھی رات کو وہ سرنگ بنانے لگ گیا۔
آخر سرنگ تیار ہو گئی۔ عنریق جادوگر سرنگ میں رینگتاہو اسنہری محل کے تہہ خانے میں پہنچ گیا۔ وہ خوشی سے سر شار تھا۔ اچانک اُسے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ فوراًوہیں دُبک گیا۔ آنے والا خود سنہرا جادوگر تھا۔ سرنگ میں رینگتے ہوئے عنریق کے ناک میں مٹی چلی گئی تھی۔ جس سے اچانک اُس کے ناک میں کھجلی ہوئی۔ اور اِس سے پہلے کہ اُسے بھرپور چھینک آئے۔ اُس نے اپنے ناک کو انگلیوں میں زور سے دبالیا۔ جس سے اُس کے چھینکنے سے بہت ہلکی آواز پید اہوئی۔
سنہرے جادوگر کے کان بہت تیز تھے۔ جو کسی اُڑنے والے پرندے کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ کو بھی سن لیا کرتے تھے۔ اُس نے آواز تو سُنی مگر اُسے سمجھ نہ آئی کہ یہ کیسی آواز تھی۔ اُس نے سوچا شائد کسی جھینگر کی آواز ہے۔ لہٰذا وہ واپس چلاگیا۔ عنریق نے بھی سوچا کہ آج چوری کرنا صحیح نہ ہو گا کیونکہ سنہرا جادوگر جاگ رہا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی سرنگ سے واپس کوٹھڑی میں آکر سو گیا۔ اُدھر سنہرے جادوگر کو اگلے دن اُس کی سبز آنکھوں میں عجیب سی چمک نظر آئی۔ اور سنہرا جادوگر جب منتر کی تیاری کرنے لگا تو چیزیں پکڑاتے ہوئے بھی سنہرے جادوگر نے اُس کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ محسوس کی۔ مگر جب اُس نے عنریق سے خیر یت دریافت کی تو اُس نے جواب ٹال دیا۔ پھر بھی سنہرے جادوگرنے تنبیہ کی کہ وہ منتر کی بسا ط بچھا کر مہرے سجا رہا ہے۔ کوئی شور نہ ہو۔ حتی کہ چھینکنے کی آواز بھی نہیں آنی چاہیے۔
مگر عنریق کی ناک کہاں رہتی تھی۔ فوراً اُسے چھینک ستانے لگی۔ اُس نے پوری شدت سے اپنا ناک دبایا۔ مگر ہلکی سی آوا ز پھربھی سنہرے جادوگرکے کان میں آگئی سنہرا جادوگر اِس آواز کو پہچانتا تھا۔ کیونکہ یہی آواز اُسے تہہ خانے میں آئی تھی۔ اوہ !تویہ وہ صاحب تھے جو تہہ خانے میں چھینکے تھے۔ سنہرے جادوگر نے جتنا اِس کے بارے میں غور کیا۔ اُتنا ہی وہ عنریق کے راز کے قریب پہنچ گیا۔ اُسے یاد آگیا کہ ایسی سبز آنکھیں توصرف عنریق جادو گر کی تھیں۔
اُس نے تہیہ کر لیا کہ آج رات وہ تہہ خانے میں چھپ کر گذارے گا۔ اور دیکھے گا کہ عنریق کیا کرتا ہے ؟وہ جلدی ہی تہہ خانے میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد عنریق بھی تہہ خانے میں آدھمکا۔ اور ایک سونے کے تھیلے کو اُٹھا یا اور سرنگ کی طر ف بڑھا۔ مگر سنہرے جادوگر نے فوراً اُسے آوازدی اور کہا!اے عنریق صاحب ! سونا زمین پر رکھ دو میں تمہیں پہچان گیاہوں۔ تم وہی جادوگر ہو جسے لوگوں نے اُس کے قلعہ سے دفعان کیا تھا عنریق نے سونا کندھے پر ڈالا اور تیزی سے سرنگ کے راستے کو ٹھڑی میں پہنچا اور تہہ خانے کا کواڑ بند کر دیا تاکہ سنہرا جادوگر اُس کا پیچھا نہ کر سکے۔ پھر اُس نے ایک جادو گرنی کی چرائی ہوئی اُڑنے والی جھاڑو اُٹھائی۔ اور سونے کے تھیلے سمیت اُڑنے لگا۔مگر وہ اپنے ساتھ محو پرواز چھوٹی سی چڑیا کو نظر انداز کر گیا جسے سنہرے جادوگرنے عنریق کے پیچھے لگا یا تھا۔ کیونکہ وہ خود پہلے محل کو محافظوں کے حوالے کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے محل کو اچھی طرح بند کر کے محافظوں کے حوالے کیا اور پھر وہ عنریق کے پیچھے ہولیا۔ اسی اثنا میں ننھی چڑیا نے عنریق کے پڑاﺅ کا پتا چلالیا تھا۔
عنریق جادوگر ایک بہت بڑی چرا گاہ میں رکا۔ اُسے اتنی نیندآرہی تھی۔ کہ وہ مزید نہیں اُڑ سکتا تھا۔ شفق پھو ٹ رہی تھی۔ اُس نے سنہرے جادوگر کی چڑیا کو بھی دیکھ لیا۔ جو اب جاسوسی کر کے سنہر ی محل جارہی تھی۔ اُس نے سوچا کہ جب تک چڑیا سنہری محل پہنچے گی۔ وہ محفوظ مقام تک پہنچ چکا ہو گا۔ اُس نے سونے سے بھرے تھیلے کی طرف دیکھا۔ وہ اتنا بھاری تھاکہ اُسے ساتھ لے کر اُڑنے کی بجائے اُس نے سونے کو چراگاہ میں ہی دفن کرنے کا سوچا اور پھر جادو کے زور سے اُس نے سونے کی چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں بنائیں۔ اور انہیں چراگاہ میں پھیلا کر اِس طرح دفن کر دیا۔ کہ کسی کو نظر نہ آسکے۔
اِسی اثنا میں سنہرے جادوگر آپہنچا۔ بڑی تیزی سے عنریق جادوگر نے خود کو خرگوش بنا لیا اور جتنی تیزی سے بھاگ سکتا تھا بھا گا۔ مگر سنہرے جادوگر نے خود کو لومڑی کے روپ میںتبدیل کرلیااور پھر زندگی اور موت کی دوڑ شروع ہوگئی۔ پیشتر اِس کے کہ سنہرا جادوگر خرگوش بنے عنریق کو دبوچ لیتا۔ عنریق شکر ابن کر فضا میں بلند ہوگیاتو سنہرے جادوگر نے خود کو عقاب بنایا۔ اور فضا میں شکرے سے زیادہ بلند ہو کراُسے زمین کی طرف لے آیا۔ اِسی کش مکش میں دونوں زمین کی طر ف آئے تو عنریق چوہابن گیا اور کِسی بل کو تلاش کرنے لگا۔ سنہرے جادوگرنے چوھا دیکھا تو ایک کالی موٹی بلی بن کر چاہتاتھاکہ چو ھے کی پشت پر اپنا پنجہ رکھے۔ لیکن عنریق نے ایک خوفناک داو¿ کھیلا اور ایک کالا سانپ بن گیا اور کو شش کرنے لگا کہ کسی طرح بلی کوڈس لے۔ مگر انتہائی بر ق رفتاری سے سنہرا جادوگر انسانی روپ میں آگیا۔ اور ایک ڈنڈے سے سانپ کا سر کچلنے لگا۔ مگر اُس نے ڈنڈا اُٹھایا ہی تھا کہ عنریق مچھلی بن کر قریبی تالاب میں اُتر گیا۔ سنہرا جادوگر کب پیچھے رہتا۔ فوراًمگرمچھ بن کر پا نی میں چھلانگ لگادی۔ مچھلی نے بہتیرے پینترے بدلے مگر بے سود۔ اَس سے پیشتر کہ وہ مچھلی کو نگل لے۔ عنریق نے مچھلی کے تالاب سے باہر چھلانگ لگائی اور بھوراریچھ بن کر پانی کو جسم سے اُڑاتا ہوا قریبی پہاڑی کی طرف بھاگا۔ سنہرے جادوگر نے کالے بڑے ریچھ کی صورت میں اُس کا تعاقب کیا۔ عنریق نے پہاڑی میں ایک غار دیکھی۔ تو اس میں گھس گیا۔ سنہرا جادوگر فوراً انسانی روپ میں آیا۔ اور خوب زور سے ہنسا۔ پھر اُس نے ایک بڑے پتھر کو دھکا لگا کر اُس سے غار کا دروازہ بند کر دیا۔ اور اپنے سب سے خطرناک منتر کو پڑھ کر اُس پر پھونک دیا اب تم ساری عمر یہیں قید رہوگے، سینکڑوں سال اور خود پر شرمندہ ہوگے۔ پھر وہ مڑااور سیدھا سنہری محل پہنچا۔ اُس نے عنریق کے چرائے ہوئے سونے پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ کیونکہ وہ اتنا امیر تھا کہ اُس نے سو نا ڈھونڈنے کا قصد ہی نہیں کیا۔
لیکن کچھ عرصہ بعد اُس کا گزر اُسی چراگاہ سے ہو اجہاں عنریق نے سونا بو یا تھا۔ وہ حیران رہ گیا۔ جب اُس نے دیکھا کہ جہاں سونا پو ٹلیوں کی صورت میں دفن تھا۔ ہر پو ٹلی کی جڑیںنکل آئی ہیں۔ اور زمین کے اوپر وہ خوشنماپودے بن گئے ہیں۔ جن میں ہزاروں پھول کھلے تھے۔ جو دھوپ میں پیلے رنگ سے چمک رہے تھے۔میں نے زندگی میں اتنا حسین نظارہ نہیں دیکھا۔ سنہرے جادوگرنے خواہش کی کہ ان پودوں کے بیج اور پھلیں پھولیں تاکہ تمام دنیا ان پھولوں کا نظارہ کر سکے۔ وہ خواہش پوری ہوگئی۔ وہ پھول تمام دنیا میں پھیل گئے۔ اب تم ہر طر ف وہ پھول دیکھ سکتے ہو۔ جو سونے کی پوٹلیوں سے اُگے تھے۔ تم اُن کو جانتے ہو وہ ہیں گیندے کے پھول زرد گیندے کے پھول۔ جہاں تک عنریق جادوگر کا تعلق ہے وہ اب بھی غار میں قیدہے اورشائد ہمیشہ رہے گا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top