ظالم بادشاہ کو نصیحت
شیخ سعدیؒ بیان فرماتے ہیں کہ: میں دمشق کی جامع مسجد میں حضرت یحیٰ علیہ السلام کے مزار پر اعتکاف میں بیٹھا تھا کہ ایک دن عرب کا بادشاہ وہاں آیا اور نماز ادا کرنے کے بعد دعا میں مشغول ہو گیا۔
اس بادشاہ کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ رعایا کے ساتھ بہت سخت برتاؤ کرتا ہے۔ دعا سے فارغ ہو کر وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ ایک دشمن کی طرف سے مجھے بہت خطرہ ہے آپ میرے حق میں دعا فرمائیے کہ بزرگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
میں نے بادشاہ کی بات سنی تو اس سے کہا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ ایک طاقت در شخص کسی کمزور غریب کا پنجہ مروڑے جو شخص عاجزوں پر رحم نہیں کرتا کیا وہ اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کبھی اس پر بھی برا وقت آسکتا ہے اور اگر ایسا وقت آ جائے تو اس کے ظلم کی وجہ سے کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آئے گا۔ جس نے بیج تو بدی کا بویا اور امید باندھی اور اپنے دماغ میں ایک بیہودہ خیال بسایا۔
اے بادشاہ! اپنے کانوں سے غفلت کی روئی نکال اور اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کر یاد رکھ اگر تو نے انصاف نہ کیا تو انصاف کا ایک دن مقرر ہے تو اپنے اعمال کی پاداش سے بچ نہ سکے گا۔
نسل آدم ؑ کے سب افراد ہیں بھائی بھائی
ایک جو ہر ہی سے تخلیق ہوئی ہے سب کی
بدنصیبی سے جو ایک عضو ہو وقف آزار
ہو نہیں سکتا کہ باقی رہے اوروں کا قرار
تو اگر اوروں کی زحمت پہ پریشاں نہ رہے
صاحب خیرو شرف، بندۂ یزداں نہ رہے
حاصل کلام:
شیخ سعدیؒ نے اس حکایت میں مصائب سے نجات حاصل کرنے کا زرین اصول بتایا ہے اور وہ یہ کہ جو شخص عافیت کا خواہاں ہے وہ رحم و کرم اور انصاف کو اپنا شیوہ بنائے اور اس بات کو سچے دل سے تسلیم کرے کہ انسان خواہ زمیں کے کسی بھی حصے میں آباد ہوں اور رنگ و نسل میں چاہے کتنا بھی اختلاف نظر آئے سب آدم کی اولاد اور بھائی بھائی ہیں۔