حضرت یوسف علیہ السلام
حضرت یعقوب علیہ السلام کے کئی بیٹے تھے جن میں سے حضرت یوسف سب سے چھوٹے تھے، ایک تو حضرت یوسف بے انتہا حسین اور خوب صورت تھے، دوسرے چھوٹے ہونے کی وجہ سے باپ کو بہت ہی پارے تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کسی وقت بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔
حضرت یوسف ابھی بچے ہی تھے کہ انہوں نے خوب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند سورج مجھے سجدہ کررہے ہیں، یہ خواب سن کر حضرت یعقوب یوسف علیہ السلام سے اور بھی پیار کرنے لگے اور سختی سے منع کردیا کہ اپنے دوسرے سوتیلے بھائیوں کو یہ خواب نہ سنانا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شیطان کے فریب میں آکر تیرے خلاف کوئی بری تدبیریں کرنے لگ جائیں۔
بھائیوں نے جب دیکھا کہ باپ کا پیار یوسف سے بہت بڑھ رہا ہے تو انہوں نے مل کر صلاح کی کہ یہ تو بہت بری بات ہے کہ باپ کی شفقت ہمارے مقابلے میں یوسف پر زیادہ ہے، اگر یوسف علیہ السلام کا خاتمہ کردیا جائے تو پھر یقیناً باپ ہم سے زیادہ محبت کرنے لگے ا۔
سب نے مل کر باپ سے درخواست کی کہ یوسف کو ہمارے ساتھ باہر کھیلنے کودنے کے لیے بھیجا جائے، ہم اس کے بھائی اور خیر خواہ ہی تو ہیں۔ ہم اس کی پوری پوری حفاظت کریں گے، حضرت یعقوب نے کہا مجھے اندیشہ ہے کہ تم اس کی حفاظت سے غافل ہوجائو اور کوئی بھیڑیا اس کو کھاجائے، انہوں نے مل کر جواب دیا ہم طاقتور ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا۔
آخر باپ نے دل پر پتھر رکھ کر یوسف علیہ السلام کو بھائیوں کے ساتھ بھیج دیا، بھائیوں نے اسے باہر لے جا کر ایک اندھے کنوئیں میں پھینک دیا اور رات کو روتے ہوئے گھر واپس آگئے اور بات سے کہا کہ ہم آپ میں دوڑ لگا رہے تھے، یوسف سامان کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بھیڑیا آکر اسے کھاگیا اور ثبوت میں حضرت یوسف کا ایک خون آلود کرتا بھی باپ کے سامنے پیش کردیا، بوڑھے باپ کے لیے سوائے صبر و شکر کے چارہ ہی کیا تھا۔ حضرت یعوب خاموش ہوگئے اور ان کی ساری عمر بیٹے کے فراق میں روتے گزر گئی۔
جس اندھے کنوئیں میں حضرت یوسف علیہ السلام کو پھینکا گیا تھا، اس کے قریب ہی ایک قافلہ آکر اترا، ان میں سے جب ایک آدمی ڈول لے کر کنوئیں پر پانی پینے کے لیے ایا تو اس نے دیکھا کہ ایک حسین اور خوب صورت لڑکا کنوئیں میں پڑا ہوا ہے اس نے حضرت یوسف کا باہر نکال لیا، جب یہ قافلہ مصر پہنچا تو مصر کے بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو چند درہموں کے عوض خریدلیا اور اپنی بیوی زلیخا سے کہا کہ ممکن ہےاس سے ہمیں کوئی نفع پہنچے یا ہم اسے اپنا بیٹا بنالیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام سے پہلے دوسرے قیدیوں کے علاوہ ایک شاہی باورچی اور ایک بادشاہ کا ساقی بھی قید خانے میں تھے، ان کے خلاف یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ اور دوسرے قیدی حضرت یوسف کے حسن و جمال اور اخلاق سے بہت متاثر ہوئے، اب آپ کا یہ کام تھا کہ سارا دن جیل کے قیدیوں کو دین حق کی تبلیغ کرتے رہتے۔
ایک دن یہ دونوں حضرت یوسف کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم نے عجیب خواب دیکھے ہیں۔ ساقی نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ میں بادشاہ کو انگوری شراب پلا رہا ہوں، باورچی نے بیان کیا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میرے سر پر روٹیاں ہیں اور پرندے ان کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، یہ خواب بیان کرنے کے بعد انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی تعبیر پوچھ۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ ساقی تو رہا ہو کر پھر بادشاہ کی ملازمت پر چلا جائے گا اور باورچی کو سولی پر چڑھایا جائے گا اور اس کی لاش کو جانور کھائیں گے آپ نے ساقی سے کہا کہ جب رہا ہو کروہ عزیز مصر کے دربار میں جائے تو میری بے گناہی کا یقین دلائے، حسب تعبیر باورچی کو سولی پر لٹکایا گیا اور ساقی رہا ہوگیا، مگر رہو ہونے کے بعد وہ اس وعدے کو بھول گیا جو اس نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کیا تھا۔
حضرت یوسف علیہ السلام سالوں جیل میں ہے لیکن کسی کو ان کی رہائی کا خیال نہ آیا، اتفاق سے ایک دن عزیز مصر نے خواب دیکھا کہ سات دبلی پتلی گائیں، سات موٹی تازی گائیوں کو کھا رہی ہیں اور سات سبز اور سات سوکھی ہوئی بالیں دیکھی ہیں۔ بادشاہ نے تمام لوگوں سے اس خواب کی تعبیر پوچھی، مگر کوئی بھی صحیح جواب نہ دے سکا، اس موقع پر ساقی کو اپنا وعدہ یاد آیا، اس نے کہا جیل میں ایک شخص ہے جو خواب کی صحیح تعبیر بیان کرتا ہے، میں اس کے پاس جاتا ہوں۔
عزیز مصر کی اجازت لے کر وہ جیل میں حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور بادشاہ کا خواب بیان کیا۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اس خواب کی تعبیر تو یہ ہے کہ سات سال تو تمہارے ملک میں خوشحالی رہے گی اور سات سال سخت قحط پڑے گا، پھر ایک سال خوشحالی کا آئے گا، بارش بکثرت ہوگی اور پھل بھی بکثرت پیدا ہوں گے۔
جب اس شخص نے یہ تمام واقعہ بادشاہ کو سنایا تو اس نے کہا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو یہاں لایاجائے۔ جب وہ شخص پھر حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ جا کر بادشاہ سے پوچھو کہ ان عورتوں کا کیا قصہ ہے، جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے، بے شک میرا رب ان کے مکرو فریب سے خوب واقف ہے، بادشاہ نے ان عورتوں کو بلا کر پوچھا، تو انہوں نے کہا، ہم نے یوسف علیہ السلام میں کوئی برائی نہیں دیکھی، یہ دیکھ کر زلیخا بولی کہ اب تو حق ظاہر ہوگیا ہے، کہنے لگے حقیقت میں میں نے ہی اسے ورغلایا تھا اور وہ بالکل سچا ہے، حضرت یوسف نے فرمایا کہ میں نے یہ کارروائی اس لیے کی ہے کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پوشیدہ طور پر اس کی کوئی خیانت نہیں کی کیوں کہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کے فریب کو راس نہیں لاتا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی بریت ظاہر ہوگئی تو بادشاہ مصر نے حکم دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو عزت کے ساتھ لایا جائے میں شاہی خدمت ان کے سپرد کردوں گا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم قحط سے بچنا چاہتے ہو تو خزانے کے کنجیاں میرے حوالے کردو، کیوں کہ میں حساب میں ماہر ہوں، چنانچہ عزیز مصر نے آپ کو شاہی خاندان بنادیا۔
خوشحالی کے بعد قحط کا زمانہ آیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے نہایت میانہ روی سے جمع کیا ہوا غلہ عوام میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ قحط کا اثر کنعان تک جا پہنچا، چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹوں کو غلہ لانے کے لیے مصر بھیجا، مگر یوسف علیہ السلام کے بھائی بنیامین کو اپنے پاس ہی رکھا۔
جب حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی مصر میں پہنچے تو حضرت یوسف نے ان کو پہچان لیا مگر وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو نہ پہچان سکے، حضرت یوسف علیہ السلام نے بھائیوں سے کہا کہ اگلی دفعہ آئو تو اپنے بھائی بن یامین کو بھی ساتھ لانا، تم کو بہت سا غلہ دیا جائے گا اور اگر تم اس کو نہ لائے تو تم کو اناج نہیں ملے گا۔
جب یہ لوگ کنعان میں پہنچے تو انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ ابا جان اب ہمیں اس صورت میں غلہ مل سکتا ہے کہ بن یامین ہمارے ساتھ جائے، ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے،حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہا کہ مجھے اب تم پر اعتبار نہیں رہا، کیوں کہ اس سے پہلے تم اس کے بڑے بھائی یوسف کو بھی ایسے ہی وعدہ کرکے لے گئے تھے، اللہ ہی ہے جو اس کی حفاظت کرے۔
حضرت یعقوب نے کہا کہ جب تک تم بن یامین کی حفاظت کا عہد نہ کرو، میں اس کو تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا، اس پر انہوں نے حلفیہ وعدہ کیا، اب باپ نے بیٹوں کو مشورہ دیا کہ وہ مصر میں ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہوں، میں اللہ کے بھروسے پر بن یامین کو تمہارے سپرد کرتا ہوں۔
جب یہ سب بھائی مختلف دروازوں سے داخل ہوئے اور جس دروازے سے بن یامین داخل ہوئے، اس دروازے پر حضرت یوسف علیہ السلام کی ان سے ملاقات ہوگئی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے انہیں بتایا کہ میں ہی تمہارا گم شدہ بھائی یوسف ہوں اور میں تمہیں اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔
چنانچہ جب بھائیوں نے غلہ باندھ لیا تو شور مچ گیا کہ غلہ ناپنے کا شاہی کٹورا گم ہوگیا ہے، ملازمین سرکار نے ان سب بھائیوں کو پکڑ لیا، سب کی تلاشی ہوئی، سب کے آخر میں جب بن یامین کے سامان کی تلاشی لی جارہی تھی تو اس سے وہ کٹورا مل گیا اور اس طرح سے بن یامین کو اپنے بھائی یوسف کے پاس رہنے کی صورت پیدا کردی، اس کے علاوہ اس کو روکنے کا کوئی قانون نہ تھا، اس پر حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی کہنے لگے کہ اس نے چوری کی ہے تو کوئی تعجب نہیں ہے اور اس کے بھائی یوسف نے بھی چوری کی تھی۔ حضرت یوسف علیہ السلام یہ سب باتیں سن رہے تھے، مگر خاموش رہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی چوری کا یہ واقعہ ہے کہ آپ بچپن میں اپنی پھوپھی کے پاس رہا کرتے تھے، جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کو اپنے پاس بلانا چاہا تو پھوپھی نے ایک پٹکے کی چوری کا الزام لگا کر آپ کو اپنے پاس رکھنے پر مجبور کرلیا۔
یہ سب بھائی حیران ہوگئے کہ اب کیا کیا جائے، انہوں نے بہت منت کی کہ ہمارا باپ بوڑھا اور اندھا ہے وہ بیٹے کا غم برداشت نہ کرسکے گا، حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی قمیض ان کو دے دی اور کہا کہ اس کو اپنے باپ کے منہ پر ڈال دینا اور اگر ہوسکے تو ان کو اپنے ساتھ لے آنا۔ جب یہ بھائی گھر پہنچے تو انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہرے پر حضرت یوسف علیہ السلام کا پیراہن ڈال دیا۔ خدا کی قدرت سے ان کی آنکھوں کی بینائی اسی وقت ٹھیک ہوگئی۔
اب یہ سب مصر میں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آگئے، حضرت یوسف کے شان اور دبدبہ کو دیکھ کر ان کے گیارہ بھائی اور ان کے والدین آپ کے سامنے جھک گئے اور طرح وہ خواب پورا ہوا جس میں آپ نے دیکھا تھا کہ گیاراہ ستارے اور سورج چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں اس طرح انہوں گم گشتہ یوسف مل گیا اور یہ خوشی خوشی مصر میں رہنے لگے۔